اتوار 3 نومبر 2017ء کو صحافی طاہر خلیل نے فیض آباد انٹر چینج پر 6 نومبر سے دِیئے جانے والے 22 روزہ دھرنے کے اسباب کا تجزیہ شائع کیا جو ہر محبِ وطن پاکستانی کو دعوتِ غور و فِکر دیتا ہے
الیکشن ایکٹ 2017میں اِنتخابی اُمیدوار کیلئے حلف نامہ میں الفاظ کی تبدیلی سے جو ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی تو کچھ حلقوں نے اسے بین الاقوامی سازش اور ریشہ دوانیوں کے سلسلے تک پھیلا دیا۔ معاملہ جو کاغذات نامزدگی فارم میں ترمیم سے شروع ہوا اس نے پاکستان کی سیاسی دانش کےلئے کئی چیلنجز پیدا کر دیئے جس میں تدبر و فراست ، حکمت و بصیرت اور دُور اندیشی کی بجائے وقتی مفاد ، سیاسی خود غرضی اور عاجلانہ فیصلوں نے نہ صرف سیاسی اور جمہوری نظام کو کمزور کیا بلکہ بے بنیاد پراپیگنڈے کی بنیاد پر منفی سیاست کو فروغ دیا ۔ الیکشن ایکٹ 2017 میں اِنتخابی اُمیدوار کے حلف نامہ میں الفاظ کی تبدیلی کے تنازع کے ضمن میں حقائق کی تلاش کےلئے جب پارلیمانی ریکارڈ کا جائزہ لیاگیا جو متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے ہر رکن کے پاس دستیاب ہے تو جھوٹ اور سچ میں فرق نمایاں ہوگیا ۔ بات محض سمجھنے کی ہے
کاغذات نامزدگی کیلئے 4 طرح کے فارمز ہوتے ہیں ۔ فارم نمبر 9 جنرل سیٹس کےلئے ، 9 اے مینارٹی ، 9 بی خواتین کی مخصوص نشستوں اور فارم نمبر20 سینٹ کے امیدواروں کےلئے مختص ہیں ۔ الیکشن ایکٹ 2017 کا مقصد انتخابات سے متعلق 9 قوانین کو مربوط اور آسان کرکے یکجا کرنا تھا ۔ 16مئی 2017کو الیکٹورل ریفارمز مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کاغذات نامزدگی فارم 9 الیکشن ایکٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔ قبل ازیں یہ الیکشن کمیشن رولز کا حصہ تھا
ریکارڈ کے مطابق 17مئی 2017کو اس وقت کے لاء منِسٹر زاہد حامد کی زیر صدارت انتخابی اصلاحات کی سب کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فارم 9 پر بحث ہوئی اور جو فیصلے ہوئے وہ ریکارڈ کا حصہ بنے ۔ فارم کے اندر متعدد ایسی شقیں موجود تھیں جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے سکوپ سے باہر تھیں ۔ ان میں سے کئی شقیں غیر جمہوری حکمرانی دور میں شامل کی گئی تھیں ۔ ان تمام کا آرٹیکل 62 اور 63 سے تعلق نہیں بنتا تھا ۔ ممبران کی طرف سے استدلال کیا گیا کہ یا تو آرٹیکل 62، 63 کی سار ی شقیں شامل کر دی جائیں یا پھر ارکان کو سارے آئین پر عمل درآمد کرنے کا پابند بنانے کی شق شامل کر دی جائے ۔ ریکارڈ کے مطابق سب کمیٹی کی 89 ویں میٹنگ 18مئی 2017ء کو ہوئی ۔ جس میں فارم 9 ، 9 اے اور 9 بی زیر غور لائے گئے ۔ اور 23 مئی 2017ء کے اجلاس میں سینٹ امیدواروں کا فارم 20 زیر بحث آیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ سینٹ امیدواروں کا فارم بھی قومی اسمبلی امیدواروں کے فارم کی طرز پربنا دیا جائے ۔ فارم 9 ، 9 اے ، 9 بی اور 20 کو پوری سب کمیٹی کے اندر زیر بحث لایاگیا ۔ پارلیمانی کمیٹی کے چند ارکان یا کسی ایک رکن کو ان فارمز کے مسؤدے کی تیاری کی ذے داری نہیں سونپی گئی تھی
سب کمیٹی کے 93 ویں اجلاس میں جو 13 جون2017ء کو ہوا یہ سب کمیٹی کا آخری اجلاس تھا ۔ 16رکنی سب کمیٹی میں پی پی پی ، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، ایم کیوایم ، جے یو آئی (ف) سمیت دیگر جماعتوں کے اراکین موجود تھے ۔ ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی فارمز کی پارلیمانی کمیٹی کے ایک رکن یا چند ارکان نے ری ڈرافٹنگ نہیں کی تھی ۔ بلکہ پارلیمانی سب کمیٹی نے جو 16 ارکان پر مشتمل تھی کاغذات نامزدگی فارمز پر چار مختلف میٹنگز کے دوران غور کرکے سفارشات پیش کی تھیں اور اس کے نتیجے میں تیار ہونے والا نیا فارم سب کمیٹی کے 93 ویں اجلاس میں پیش کر دیا گیا ۔ پارلیمانی سب کمیٹی نے اپنے 93 ویں اجلاس میں اس پرغور کرکے الیکشن بل 2017 کا ڈرافٹ مرکزی کمیٹی کو بھیج دیا ۔ ریکارڈ کے مطابق الیکشن رولز کے تحت 30 کے لگ بھگ فارمز موجود تھے جن میں سے کاغذات نامزدگی فارمز نمبر 9، 9اے، 9بی اور 20 سمیت باقی تمام فارمز کا سب کمیٹی نے خود جائزہ لیا تھا
مرکزی پارلیمانی کمیٹی اور سب کمیٹی میٹنگز کی تمام تفصیلات ریکارڈ پر موجود ہیں اور یہ تاثر کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی فارم پارلیمانی سب کمیٹی کے کسی ایک ممبر یا چند ممبران نے ری ڈرافٹ کئے حقائق کے منافی اور بے بنیاد پروپیگنڈے پر مبنی ہے ۔ اگر نامزدگی فارم کو ری ڈرافٹ کرنے کا کام کسی رکن یا گروپ وغیرہ کو دیا گیا ہوتا تو ریکارڈ کا ضرور حصہ ہوتا
اظہار تاسف کے ساتھ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حالیہ دنوں میں ہم ایک ایسی قوم کے طور پر اُجاگر ہوئے جو خلاف حقائق ، بے معنی اورلغو داستانوں پر انحصار کرکے فیصلے کرتی ہے اور کسی کو بھی صفائی اور دفاع کا حق دیئے بغیر ملزم اور مجرم ثابت کرنے پر اصرار کرتے ہیں ۔ بعض لوگوں نے اس سارے عمل کو کسی طور پر بین الاقوامی سازش کا راگ الاپ کر اپنے ممبران کے دین ، عقیدے اور مذہب پر انگلیاں اُٹھانے کے ساتھ ان کی حُب الوطنی پر بھی سوال کھڑے کر دیئے
ریکارڈ سے عیاں ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے بعد قومی اسمبلی نے بل پاس کرکے سینیٹ میں منظوری کےلئے بھیجا اور پہلی مرتبہ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے یہ نکتہ اٹھایا کہ امیدوار کے کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت سے متعلق ڈیکلریشن کے عنوان میں Solemnly Swear کی جگہ Solemnly Affirm نے لے لی ہے ۔ اسے سابقہ حیثیت میں بحال کیاجائے (ختم نبوت کے ڈیکلریشن کی عبارت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی) ۔ اعتزاز احسن سمیت اپوزیشن کے 35 ارکان سینٹ نے حافظ حمد اللہ کے مؤقف کی مخالفت کی تھی جبکہ حکومت کے 13 ارکان کے ساتھ لاء منسٹر نے سینیٹرحافظ حمد اللہ کی ترمیم کی حمائت کی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر سینٹ کے 35 ارکان جنہوں نے زاہد حامد کے پیش کردہ بل کی حمائت کی اور وہ سینیٹر حافظ حمد اللہ کے موقف کی تائید نہ کر سکے کیا وہ بھی کسی ”بین الاقوامی سازش“ کا حصہ بن گئے تھے ؟ اگر ایسا نہیں تو پھر سارے معاملے کوبد نیتی پر مبنی یا سازش کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ بعض حلقوں کا تاءثر ہے کہ ایک عدالتی شخصیت بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئی
تاہم اس واقعے سے ہم نے سیکھا کہ ہم بحیثیت قوم مصدقہ اطلاعات پر بھروسہ کرنے کی بجائے قیاس آرائیوں ، افواہوں اور سوشل میڈیا کے پھیلائے ہوئے منفی تاثرات کو سچ جان کر کسی بھی بے گناہ کو مجرم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں