Category Archives: تاریخ

کیا ہم قابلِ اعتماد یا محبِ وطن ہیں ؟

اتوار 3 نومبر 2017ء کو صحافی طاہر خلیل نے فیض آباد انٹر چینج پر 6 نومبر سے دِیئے جانے والے 22 روزہ دھرنے کے اسباب کا تجزیہ شائع کیا جو ہر محبِ وطن پاکستانی کو دعوتِ غور و فِکر دیتا ہے

الیکشن ایکٹ 2017میں اِنتخابی اُمیدوار کیلئے حلف نامہ میں الفاظ کی تبدیلی سے جو ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی تو کچھ حلقوں نے اسے بین الاقوامی سازش اور ریشہ دوانیوں کے سلسلے تک پھیلا دیا۔ معاملہ جو کاغذات نامزدگی فارم میں ترمیم سے شروع ہوا اس نے پاکستان کی سیاسی دانش کےلئے کئی چیلنجز پیدا کر دیئے جس میں تدبر و فراست ، حکمت و بصیرت اور دُور اندیشی کی بجائے وقتی مفاد ، سیاسی خود غرضی اور عاجلانہ فیصلوں نے نہ صرف سیاسی اور جمہوری نظام کو کمزور کیا بلکہ بے بنیاد پراپیگنڈے کی بنیاد پر منفی سیاست کو فروغ دیا ۔ الیکشن ایکٹ 2017 میں اِنتخابی اُمیدوار کے حلف نامہ میں الفاظ کی تبدیلی کے تنازع کے ضمن میں حقائق کی تلاش کےلئے جب پارلیمانی ریکارڈ کا جائزہ لیاگیا جو متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے ہر رکن کے پاس دستیاب ہے تو جھوٹ اور سچ میں فرق نمایاں ہوگیا ۔ بات محض سمجھنے کی ہے

کاغذات نامزدگی کیلئے 4 طرح کے فارمز ہوتے ہیں ۔ فارم نمبر 9 جنرل سیٹس کےلئے ، 9 اے مینارٹی ، 9 بی خواتین کی مخصوص نشستوں اور فارم نمبر20 سینٹ کے امیدواروں کےلئے مختص ہیں ۔ الیکشن ایکٹ 2017 کا مقصد انتخابات سے متعلق 9 قوانین کو مربوط اور آسان کرکے یکجا کرنا تھا ۔ 16مئی 2017کو الیکٹورل ریفارمز مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کاغذات نامزدگی فارم 9 الیکشن ایکٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔ قبل ازیں یہ الیکشن کمیشن رولز کا حصہ تھا

ریکارڈ کے مطابق 17مئی 2017کو اس وقت کے لاء منِسٹر زاہد حامد کی زیر صدارت انتخابی اصلاحات کی سب کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فارم 9 پر بحث ہوئی اور جو فیصلے ہوئے وہ ریکارڈ کا حصہ بنے ۔ فارم کے اندر متعدد ایسی شقیں موجود تھیں جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے سکوپ سے باہر تھیں ۔ ان میں سے کئی شقیں غیر جمہوری حکمرانی دور میں شامل کی گئی تھیں ۔ ان تمام کا آرٹیکل 62 اور 63 سے تعلق نہیں بنتا تھا ۔ ممبران کی طرف سے استدلال کیا گیا کہ یا تو آرٹیکل 62، 63 کی سار ی شقیں شامل کر دی جائیں یا پھر ارکان کو سارے آئین پر عمل درآمد کرنے کا پابند بنانے کی شق شامل کر دی جائے ۔ ریکارڈ کے مطابق سب کمیٹی کی 89 ویں میٹنگ 18مئی 2017ء کو ہوئی ۔ جس میں فارم 9 ، 9 اے اور 9 بی زیر غور لائے گئے ۔ اور 23 مئی 2017ء کے اجلاس میں سینٹ امیدواروں کا فارم 20 زیر بحث آیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ سینٹ امیدواروں کا فارم بھی قومی اسمبلی امیدواروں کے فارم کی طرز پربنا دیا جائے ۔ فارم 9 ، 9 اے ، 9 بی اور 20 کو پوری سب کمیٹی کے اندر زیر بحث لایاگیا ۔ پارلیمانی کمیٹی کے چند ارکان یا کسی ایک رکن کو ان فارمز کے مسؤدے کی تیاری کی ذے داری نہیں سونپی گئی تھی

سب کمیٹی کے 93 ویں اجلاس میں جو 13 جون2017ء کو ہوا یہ سب کمیٹی کا آخری اجلاس تھا ۔ 16رکنی سب کمیٹی میں پی پی پی ، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، ایم کیوایم ، جے یو آئی (ف) سمیت دیگر جماعتوں کے اراکین موجود تھے ۔ ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی فارمز کی پارلیمانی کمیٹی کے ایک رکن یا چند ارکان نے ری ڈرافٹنگ نہیں کی تھی ۔ بلکہ پارلیمانی سب کمیٹی نے جو 16 ارکان پر مشتمل تھی کاغذات نامزدگی فارمز پر چار مختلف میٹنگز کے دوران غور کرکے سفارشات پیش کی تھیں اور اس کے نتیجے میں تیار ہونے والا نیا فارم سب کمیٹی کے 93 ویں اجلاس میں پیش کر دیا گیا ۔ پارلیمانی سب کمیٹی نے اپنے 93 ویں اجلاس میں اس پرغور کرکے الیکشن بل 2017 کا ڈرافٹ مرکزی کمیٹی کو بھیج دیا ۔ ریکارڈ کے مطابق الیکشن رولز کے تحت 30 کے لگ بھگ فارمز موجود تھے جن میں سے کاغذات نامزدگی فارمز نمبر 9، 9اے، 9بی اور 20 سمیت باقی تمام فارمز کا سب کمیٹی نے خود جائزہ لیا تھا

مرکزی پارلیمانی کمیٹی اور سب کمیٹی میٹنگز کی تمام تفصیلات ریکارڈ پر موجود ہیں اور یہ تاثر کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی فارم پارلیمانی سب کمیٹی کے کسی ایک ممبر یا چند ممبران نے ری ڈرافٹ کئے حقائق کے منافی اور بے بنیاد پروپیگنڈے پر مبنی ہے ۔ اگر نامزدگی فارم کو ری ڈرافٹ کرنے کا کام کسی رکن یا گروپ وغیرہ کو دیا گیا ہوتا تو ریکارڈ کا ضرور حصہ ہوتا

اظہار تاسف کے ساتھ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حالیہ دنوں میں ہم ایک ایسی قوم کے طور پر اُجاگر ہوئے جو خلاف حقائق ، بے معنی اورلغو داستانوں پر انحصار کرکے فیصلے کرتی ہے اور کسی کو بھی صفائی اور دفاع کا حق دیئے بغیر ملزم اور مجرم ثابت کرنے پر اصرار کرتے ہیں ۔ بعض لوگوں نے اس سارے عمل کو کسی طور پر بین الاقوامی سازش کا راگ الاپ کر اپنے ممبران کے دین ، عقیدے اور مذہب پر انگلیاں اُٹھانے کے ساتھ ان کی حُب الوطنی پر بھی سوال کھڑے کر دیئے

ریکارڈ سے عیاں ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے بعد قومی اسمبلی نے بل پاس کرکے سینیٹ میں منظوری کےلئے بھیجا اور پہلی مرتبہ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے یہ نکتہ اٹھایا کہ امیدوار کے کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت سے متعلق ڈیکلریشن کے عنوان میں Solemnly Swear کی جگہ Solemnly Affirm نے لے لی ہے ۔ اسے سابقہ حیثیت میں بحال کیاجائے (ختم نبوت کے ڈیکلریشن کی عبارت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی) ۔ اعتزاز احسن سمیت اپوزیشن کے 35 ارکان سینٹ نے حافظ حمد اللہ کے مؤقف کی مخالفت کی تھی جبکہ حکومت کے 13 ارکان کے ساتھ لاء منسٹر نے سینیٹرحافظ حمد اللہ کی ترمیم کی حمائت کی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر سینٹ کے 35 ارکان جنہوں نے زاہد حامد کے پیش کردہ بل کی حمائت کی اور وہ سینیٹر حافظ حمد اللہ کے موقف کی تائید نہ کر سکے کیا وہ بھی کسی ”بین الاقوامی سازش“ کا حصہ بن گئے تھے ؟ اگر ایسا نہیں تو پھر سارے معاملے کوبد نیتی پر مبنی یا سازش کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ بعض حلقوں کا تاءثر ہے کہ ایک عدالتی شخصیت بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئی

تاہم اس واقعے سے ہم نے سیکھا کہ ہم بحیثیت قوم مصدقہ اطلاعات پر بھروسہ کرنے کی بجائے قیاس آرائیوں ، افواہوں اور سوشل میڈیا کے پھیلائے ہوئے منفی تاثرات کو سچ جان کر کسی بھی بے گناہ کو مجرم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں

کیا ہِٹلر نے خود کُشی کی تھی ؟

میں نے بچپن میں بزرگوں سے سُن رکھا تھا کہ ہِٹلر نے خود کُشی نہیں کی ۔ وہ بہت دلیر آدمی تھا ۔ والد صاحب کا کاروبار دوسری جنگِ عظیم کے دوران قاہرہ مصر میں تھا ۔ اُن کا واسطہ برطانوی فوج کے میجر اور کرنل عہدے کے افسروں سے رہتا تھا ۔ اُنہوں نے بتایا تھا ”ایک دن برطانوی میجر شام کو میرے پاس آیا ۔ وہ آتے ہی بولا ۔ کچھ سُنا تم نے ؟ کہتے ہیں جنرل رَومیل افریقہ آ رہا ہے (جرمن جنرل رَومیل یورپ کا بہت سا علاقہ فتح کر چکا تھا) ۔ والد صاحب نے اُسے کہا ”جرمن تو پڑوس میں پہنچ چکے ہیں ۔ تُم نے نہیں سُنا کہ فلاں ریلوے سٹیشن پر بم گرایا ہے جس سے ریلوے لائن اُڑ کر 2 کلو میٹر دور جا کر گری ہے“۔ والد صاحب یہ کہہ کر چائے کا بندوبست کرنے گئے ۔ جب واپس آئے تو میجر بولا’Where is your bathroom. My bloody tummy.’ جنرل رومیل کے قریب پہنچنے کی خبر سُن کر میجر کو اسہال ہو گیا تھا ۔ والد صاحب کہتے تھے ”ہِٹلر بہت دلیر اور حاضر دماغ آدمی تھا ۔ وہ اِن کے ہاتھ نہیں آیا اور اپنی خِفّت مٹانے کیلئے اِنہوں نے مشہور کر دیا کہ خود کُشی کی یعنی ہِٹلر بُزدل تھا

اتحادیوں جن کیلئے ہِٹلر ایک قہر سے کم نہ تھا کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ایڈولف ہِٹلر (Adolf Hitler) 30 اپریل 1945ء کو زیرِ زمین پناہ گاہ (Under ground Bunker) میں اپنے سر میں گولی مار کر اور اُس کی بیوی اِیوا براؤن (Eva Braun) نے زہر کی گولی (cyanide pill) کھا کر خود کُشی کر لی تھی پھر اُن کے سٹاف نے اُن کی لاشوں کو باہر لا کر نظرِ آتش کر دیا تھا اور زمین میں دبا دیا تھا

کیا بیسویں صدی کے سب سے دلیر حکمران ایڈولف ہِٹلر نے جو اتحادیوں کیلئے ایک ڈاؤنا خواب بن چکا تھا واقعی 1945ء میں خود کُشی کی تھی ؟ کبھی کسی نے دلیر آدمی کو خود کُشی کرتے سُنا ؟

ہفِنگٹَن پوسٹ ۔برطانیہ (Huffington Post, UK) میں چھپنے والی ارجنٹِینا (Argentina) کی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تاریخ دان عبدالباسط کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے ایک معاہدے کے تحت ہِٹلر کو جنوبی امریکہ بھاگنے میں مدد دی تھی تاکہ ہِٹلر سوویٹ یونین کے ہتھے نہ چڑھ جائے ۔ اسی طرح امریکہ نے بہت سے سائنس دانوں ۔ فوجیوں اور خُفیہ اداروں کے افراد کو بھی فرار میں مدد دی تھی جنہیں بعد میں سوویٹ یونین کے خلاف استعمال کیا گیا

تاریخ دان عبدالباسط جس نے ہِٹلر کے متعلق بہت کچھ لکھا یہ دعوٰی بھی کیا کہ برلن کی چانسلری (Chancellery in Berlin) کے نیچے بنی سرُنگ (Under ground Tunnel) کے ذریعہ ہِٹلر Tempelhof Airport ایئر پورٹ پہنچا ۔ وہاں سے ہیلی کاپٹر پر ہسپانیہ (Spain) گیا جہاں سے Canary Islands اور وہاں سے U-boat (Sub-marine) میں ارجنٹینا پہنچا ۔ ارجنٹینا میں 10 سال کے قریب رہا پھر Paraguay چلا گیا جہاں 3 فروری 1971ء کو فوت ہوا ۔ اُسے city of Asuncion میں ایک زیرِ زمین پناہ گاہ (Under ground Bunker) میں دفن کیا گیا جہاں اب ایک اب ایک عالی شان ہوٹل ہے ۔ اُس کی تدفین میں 40 لوگ شریک ہوئے تھے

امریکی سی آئی اے کے تجربہ کار ایجنٹ بوب بائر (veteran CIA agent Bob Baer) کی رپورٹ بھی تاریخ دان عبدالباسط کے مؤقف کی تائید کرتی ہے

مقتول امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے حوالے سے وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری کردہ خفیہ دستاویزات کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کو اس کے ایک مخبر جس کا Code Name تھا Cimelody-3 نے بتایا تھا کہ جرمنی کے آمر ایڈولف ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر خود کشی نہیں کی تھی بلکہ وہ فرار ہو کر لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا میں روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ نیویارک پوسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہٹلر نہ صرف زندہ تھے بلکہ 1950ء کی دہائی میں نازی پارٹی کے سابق ارکان کے ساتھ کولمبیا میں روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سٹرون کو اس کے ذریعے نے بتایا تھا کہ جرمنی کے سابق حکمران نہ صرف زندہ تھے بلکہ نازی پارٹی کے مسلح ونگ Waffen SS کے ایجنٹ سٹرون ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور کولمبیا کے شہر Tunja میں ان کے رابطے ہوتے تھے ۔ سٹرون نے مُخبر کو بتایا کہ انہوں نے سابق نازیوں کی ایک کالونی ریزادینسیاس کولونیالس میں ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جو ہو بہو ایڈولف ہٹلر جیسا ہے ۔ لوگ اسے دار فیورہر کہہ کر پکارتے ہیں اور اسے نازی سیلوٹ بھی کرتے ہیں ۔ وافن ایس ایس کے سابق ایجنٹ سٹرون کے پاس اپنی وہ فوٹو بھی تھی جس میں وہ ایک شخص کے ساتھ بیٹھا ہے جو ہو بہو ہٹلر جیسا ہے ۔ سٹرون کے مطابق ایڈولف ہٹلر نے بعد میں اپنا نام تبدیل کرکے ایڈول شریٹمیئر رکھا تھا ۔ سی آئی اے کی خفیہ یاد داشتیں (Secret Memos) دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ سی آئی اے کو شک تھا کہ ہٹلر زندہ ہے ۔ یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ سی آئی اے کو مُخبر نے بتایا کہ ہٹلر ایک Shipping Company میں ملازمت کر رہا ہے
سی آئی اے کیلئے یہ یاد داشتوں کی فائل (Memos File وینزویلا کے دارالحکومت کراکس میں تعینات بیورو چیف ڈیوڈ برکسنر نے لکھی تھی جسے سٹرون اور ہٹلر کی تصویر کے ساتھ 1955ء میں واشنگٹن ارسال کیا گیا تھا

تصحیح ۔ بیان میلاد النّبی

میں نے 30 نومبر 2017ء کو تحریر شائع کی تھی ” میلادُالنّبی کیوں منایا جاتا ہے ؟ “۔ میری غلطی کہ اِس کا ایک چھوٹا سا لیکن اہم حصہ شائع ہونے سے رہ گیا تھا جو آج پیشِ خدمت ہے

میری یاد داشت کے مطابق پاکستان بننے کے قبل سے لے کر پاکستان بننے کے کم از کم ایک دہائی بعد تک ”12 ربیع الاوّل“ کو ”بارہ وفات“ کہا جاتا تھا یعنی یومِ وصال سیّدنا محمد صل الله عليه وآله وسلّم ۔ یہ یومِ پیدائش کیسے کہلانے لگا ؟ میں توجہ نہ دے سکا کیونکہ میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں داخل ہو چکا تھا اور وہاں نصابی کُتب پڑھنے اور کامیابی کیلئے الله سے رجوع کرنے کے سوا کسی چیز کا ہوش نہیں تھا

سیرت نگار اور مؤرخین کا تاریخ پیدائش کے بارے میں اِختلاف ہے جس کا معقول سبب بھی ہے کہ کسی کو اس مبارک نومولود کی آئیندہ شان کے بارے میں علم نہیں تھا چنانچہ انہیں عام بچوں کی طرح سمجھا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی یقینی اور قطعی طور پر آپ صل الله عليه وآله وسلّم کی ولادت کے بارے میں تحدید نہیں کر سکتا

جب 40 سال بعد دعوت دینے کا حُکم ہوا تو لوگ نبی صل الله عليه وآله وسلّم سے متعلقہ یادوں کو واپس لانے لگے اور آپ کی زندگی کے بارے میں ہر چھوٹی بڑی چیز کے بارے میں پوچھنے لگے ۔

نبی صل الله عليه وآله وسلّم کی ولادت کے سال کے بارے میں متفقہ رائے ہے کہ عام الفیل کا سال تھا

آپ صل الله عليه وآله وسلّم کی پیدائش کا دن پیر (سوموار) بنتا ہے ۔ پیر کو ہی آپ صل الله عليه وآله وسلّم کو رسالت سے نوازا گیا اور پیر کو ہی آپ صل الله عليه وآله وسلّم نے وفات پائی (مُسلم 1162) ۔ یہ حوالہ بھی ملتا ہے کہ معراج بھی آپ صل الله عليه وآله وسلّم کو پیر ہی کے دِن کرائی گئی

آپ صل الله عليه وآله وسلّم کی پیدائش سے متعلق باقی مہینہ اور مہینہ کے دِن کا تعیّن ہے ۔ مہینہ کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں جن کے مطابق حضور صل الله عليه وآله وسلّم کی پیدائش ربیع الاوّل میں ہوئی

مہینہ کے دن پر اختلاف ہے ۔ کچھ مؤرخین کے مطابق 8 تاریخ تھی ۔ کچھ کے مطابق 10 ہے ۔ کچھ کے مطابق 12 ربیع الاوّل ہے ۔ کچھ مسلم محقق ماہرین فلکیات اور ریاضی دان افراد نے یہ ثابت کیا ہے کہ عام الفیل میں پیر کا دن ربیع الاول کی 9 تاریخ کو بنتا ہے جو شمسی اعتبار سے 20 اپریل 571ء کا دن ہے ۔ اس کو معاصر سیرت نگاروں نے راجح قرار دیا ہے

میلادُالنّبی کیوں منایا جاتا ہے ؟

میلادُالنّبی منانے کی وجہ رسول الله سیّدنا محمد صل الله عليه وآله وسلّم سے مُحبت بتائی جاتی ہے
کل وطنِ عزیز پاکستان میں ربیع الاوّل 1439ھ کی 12 تاریخ ہے ۔ اس تاریخ کو ہمارے نبی سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی (کچھ روایات کے مطابق تاریخ ولادتِ مبارک 9 ربیع الاوّل ہے) ۔ ہمارے ملک میں ہر طرف بڑھ چڑھ کر رحمت العالمین سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم سے محبت کے دعوے ہو رہے ہیں اور اس محبت کو ثابت کرنے کیلئے کہیں محفلِ میلاد منعقد ہو رہی ہے اور کہیں شاندار جلوس نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں

سب کے چہرے بشاس نظر آ رہے ہیں لیکن نجانے میں کیوں اندر ہی اندر گھُلتا جا رہا ہوں
یہ کیسی محبت ہے کہ ہم دنیا کو دکھانے کیلئے تو جلسے اور جلوس کرتے ہیں لیکن جن سے محبت کا اس طرح سے اظہار کرتے ہیں نہ اُن کے کہے پر عمل کرتے ہیں اور نہ اُن کا طریقہ اپناتے ہیں ؟
ہم سوائے اپنے آپ کے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟

شاید ہی کوئی ہموطن ایسا ہو جسے لیلٰی مجنوں ۔ شیریں فرہاد ۔ ہیر رانجھا ۔ سسی پُنوں ۔ سوہنی مہینوال وغیرہ کے قصے معلوم نہ ہوں ۔ مُختصر یہ کہ لیلٰی کی محبت میں قیس مجنوں [پاگل] ہو گیا ۔ شیریں سے محبت میں فرہاد نے پتھر کی چٹانوں کو کھود کر نہر بناتے ہوئے جان دے دی ۔ ہیر کی محبت میں شہزادہ یا نوابزادہ رانجھا بن گیا ۔ سَسّی کی محبت میں اُس تک پہنچنے کی کوشش میں پُنوں ریت کے طوفان میں گھِر کر ریت میں دفن ہو کر غائب ہو گیا ۔ سوہنی کی محبت میں ایک ریاست کا شہزادہ سَوہنی کی بھینسیں چرانے لگا
یہ تو اُس محبت کی داستانیں ہیں جو دیرپا نہیں ہوتی اور جن کا تعلق صرف انسان کے جسم اور اس فانی دنیا سے ہے لیکن اس میں بھی محبت کرنے والوں نے اپنے محبوب کی خوشی کو مقّدم رکھا

کیا یہ منافقت نہیں کہ رسول الله صل الله عليه وآله وسلّم کے بارے میں ہم جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمارا عمل اس سے مطابقت نہیں رکھتا ؟

انَّ اللَّہَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَی النَّبِيِّ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورت 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 56)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ. اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ و َّعَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلَی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ

سورت 5 المآئدہ آیت 3 ۔ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا (ترجمہ ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے)
مندرجہ بالا آیت سے واضح ہے کہ الله سبحانه و تعالٰی نے رسول الله سیّدنا محمد صل الله عليه وآله وسلّم پر دین مکمل کر دیا چنانچہ اُن کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں رہی یعنی سیّدنا محمد صل الله عليه وآله وسلّم آخری نبی ہیں ۔ جو شخص اس پر ایمان نہ رکھے وہ مُسلمان نہیں ہو سکتا

تہوار کب اور کیسے شروع ہوا ؟
میلادالنبی کسی بھی صورت میں منانے کی مثال سیّدنا محمد صل الله عليه وآله وسلم کی وفات کے بعد 4 صدیوں تک نہیں ملتی ۔ پانچوَیں اور مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید 17 مارچ 763ء کو ایران میں تہران کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوئے اور 786ء سے 24 مارچ 809ء کو وفات تک مسند خلافت پر رہے ۔ ان کے دور میں خطاطی اور فنِ تعمیر کے ساتھ ساتھ مصوری اور بُت تراشی کو بھی فروغ حاصل ہوا ۔
آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں ان کی والدہ الخيزران بنت عطاء نے اُس مکان کو مسجد میں تبدیل کروایا جہاں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی تھی ۔ اس کے بعد میلادالنبی کو تہوار کے طور پر شیعہ حکمرانوں نے منانا شروع کیا لیکن عوام اس میں شامل نہ تھے ۔

میلادالنبی کو سرکاری تہوار کے طور پر گیارہویں صدی عیسوی میں مصر میں منایا گیا جہاں اُس دور میں شیعہ کے اسماعیلی فرقہ کے الفاطميون [جنوری 909ء تا 1171ء] حکمران تھے ۔ شروع شروع میں اس دن سرکاری اہلکاروں کو تحائف دیئے جاتے ۔ جانوروں کی قربانی اور ضیافتیں کی جاتیں ۔ شعر پڑھے جاتے اور مشعل بردار جلوس نکالا جاتا ۔ یہ سب کچھ دن کے وقت ہوتا تھا

اس کی تقلید اہلِ سُنّت نے پہلی بار بارہویں صدی عیسوی میں شام میں کی جب وہاں نورالدین حاکم تھا ۔

الأيوبيون جو بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں حکمران رہے نے یہ تقریبات سب جگہ بند کرا دیں لیکن کچھ لوگ اندرونِ خانہ یہ تہوار مناتے رہے ۔

سلطان صلاح الدین کی وفات کے بعد اُس کے برادرِ نسبتی مظفرالدین ابن زین الدین نے تیرہویں صدی میں عراق میں پھر اسے سرکاری تہوار بنا دیا ۔ یہ رسم آہستہ آہستہ پھیلتی رہی اور سلطنتِ عثمانیہ [1299ء تا 1923ء] کے دور میں ستارہویں صدی عیسوی تک مسلم دنیا کے بہت بڑے علاقہ تک پھیل گئی ۔ 1910ء میں سلطنت عثمانیہ نے اسے قومی تہوار قرار دے دیا

آج جو مسلمان بھائی اجتہاد کی باتیں کرتے ہیں اُنہیں کم از کم اتنا تو کرنا چاہیئے تاریخ کا مطالعہ کر کے مسلمانوں تک اصل دین اسلام پہنچائیں ۔ تاکہ قوم میلے ٹھیلوں کی بجائے دین اسلام پر درست طریقہ سے عمل کرے
وما علینا الا البلاغ

آج کے دِن ؟ ؟ ؟

آج سے 66 سال قبل آج کی تاریخ میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور قائد اعظم کے معاون نوابزادہ لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا تھا ۔ نواب زادہ لیاقت علی خان نے تقریر شروع کرتے ہوئے ابھی اتنا ہی کہا تھا ” برادرانِ مِلت ۔ ۔ ۔ “۔
پہلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبر نے 2 گولیاں چلائیں ۔ ایک نواب زادہ لیاقت علی خان کے سر اور دوسری پیٹ میں لگی ۔ نواب زادہ لیاقت علی خان گر پڑے ۔ اُن کے آخری الفاظ جو سُنائی دیئے یہ تھے ” اللہ پاکستان کی حفاظت کرے“۔
سید اکبر کو لوگوں نے قابو کر کے اُس کا پستول چھین لیا تھا ۔ پھر ایک پشتو آواز گونجی ”گولی کس نے چلائی ۔ مارو اِسے“۔ یہ آواز ایس پی نجف خان کی تھی ۔ اس حُکم کی تعمیل میں انسپکٹر محمد شاہ نے سید اکبر پر گولیاں چلا کر اُسے ہلاک کر دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ محمد شاہ کا تبادلہ کچھ دن قبل ہی کیمبلپور (اٹک) سے راولپنڈی کیا گیا تھا ۔ پولیس قوانین کے مطابق قتل کو زندہ پکڑنا ضروری ہوتا ہے ۔ مقابلہ کرتے ہوئے مارا جائے تو الگ بات ہے ۔ چنانچہ انسپیکٹر محمد شاہ نے جُرم کا ارتکاب کیا تھا لیکن حیرت ہے کہ عدالت میں اُس نے کہا ”میں جذبات میں آ گیا تھا“۔ اور اُسے کچھ نہ کہا گیا
قوم نے صرف اتنا کیا کہ کمپنی باغ کا نام لیاقت باغ اور اُس کے ساتھ والی سڑک کا نام لیاقت روڈ رکھ دیا

نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کا کھُرا امریکہ کی طرف جاتا ہے کیونکہ جب نوازادہ لیاقت علی خان امریکہ کے صدر ٹرومَین کی دعوت پر امریکہ گئے تو اُن پر امریکہ کی حمائت وغیرہ کیلئے دباؤ ڈالا گیا ۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا

“We want to have friendship with USA but will not take diction from anyone۔”

امریکی خفیہ دستاویزات پر مشتمل کتاب ” The American Roll in Pakistan “ کے صفحہ 61 اور 62 کے مطابق امریکہ میں پہلے پاکستانی سفیر کی حیثیت سے اسناد تقرری پیش کرنے کے بعد اپنی درخواست میں اصفہانی صاحب نے لکھا ”ہنگامی حالت میں پاکستان ایسے اڈے کے طور پر کام آسکتا ہے جہاں سے فوجی و ہوائی کارروائی کی جاسکتی ہے“۔ ظاہر ہے یہ کارروائی اس سوویت یونین کےخلاف ہوتی جو ایٹمی دھماکے کے بعد عالمی سامراج کی آنکھ میں زیادہ کھٹکنے لگا تھا

1949ء میں امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی رپورٹ میں ہے”پاکستان کے لاہور اور کراچی کے علاقے ۔ وسطی روس کےخلاف کارروائی کیلئے کام آسکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے دفاع یا حملے میں بھی کام آسکتے ہیں“۔

یاد رہے کہ روس کے ایٹمی دھماکے اور چین میں کمیونزم آجانے سے امریکہ پاکستان کی جانب متوجہ ہوا چنانچہ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری جارج کریوز مَیگھی (George Crews McGhee) دسمبر 1949ء میں پاکستان آئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو امریکی صدر ٹرومین کا خط اور امریکی دورے کی دعوت دی لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس موقع پر انہوں نے اہم ملاقات وزیر خزانہ غلام محمد سے کی جنہوں نے میگھی کو تجویز دی ”ایسا انتظام ہونا چاہیئے کہ امریکی انٹیلی جنس کا پاکستانی انٹیلی جنس سے رابطہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ اِن (غلام محمد) کے ساتھ براہ راست رابطہ ہو“ (صفحہ 106)۔

دسمبر 1949ء میں پاک فوج کے قابل افسران جنرل افتخار اور جنرل شیر خان ہوائی حادثے کا شکار ہوگئے ۔ باقی کسر پنڈی سازش کیس نے
پوری کر دی ۔ ایوب خان ابتداء ہی سے امریکہ کا نظرِ انتخاب تھے ۔ وہ قیام پاکستان کے وقت لیفٹیننٹ کرنل تھے اور صرف 3 سال بعد میجر جنرل بن گئے۔ وہ کمانڈر انچیف سرڈیگلس گریسی (Commander-in-Chief General Sir Douglas David Gracey) کے ساتھ نائب کمانڈر انچیف تھے

زمامِ اقتدار اس وقت کُلی طور پر امریکی تنخواہ داروں کے ہاتھ آئی جب 16اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان قتل کردیئے گئے ۔ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم ۔ ان کی جگہ وزیر خزانہ غلام محمد گورنر جنرل ۔ اسکندر مرزا ڈیفنس سیکرٹری (جو آئی سی ایس آفیسر تھا اور ڈیفنس سیکریٹری بننے کے بعد اپنے آپ کو میجر جنرل کا رینک دے دیا تھا) اور ایوب خان کمانڈر انچیف اور یوں امریکی کورم (Quorum) پورا ہوگیا

دوسری طرف امریکہ نے خطے میں روسی خطرے سے نمٹنے کے لئے دیگر اہم ممالک پر بھی توجہ مرکوز کر رکھی تھی یہاں تک کہ جب اگست 1953ء میں ایران میں ڈاکٹر مصدق نے برطانیہ کے ساتھ تیل کے مسئلے پر تعلقات خراب کرلئے تو امریکہ نے ایران سے بھاگے ہوئے رضا شاہ پہلوی کو رَوم سے لاکر تخت پر بٹھادیا اور پھر روس کے خلاف ترکی ۔ ایران اور پاکستان کو ایک معاہدے میں نتھی کردیا جسے بغداد پیکٹ کہا گیا

”ہمارا دوست امریکہ کتنا ہی دغاباز کیوں نہ ہو لیکن ہم سے معاملات طے کرتے وقت اس نے منافقت کا کبھی سہارا نہیں لیا ۔ وہ صاف کہتا ہے ”امریکہ کو چاہیئے کہ امریکی دوستی کے عوض پاکستان کی موجودہ حکومت کی مدد کرے اور یہ کوشش بھی کرے کہ اس حکومت کے بعد ایسی حکومت برسراقتدار نہ آجائے جس پر امریکہ مخالف کا قبضہ ہو ۔ ہمارا ہدف امریکی دوست نواز حکومت ہونا چاہیئے“۔ (فروری 1954ء میں نیشنل کونسل کا فیصلہ ۔ بحوالہ پاکستان میں امریکہ کا کردار صفحہ 326)

WHO SHOT LAK (Liaquat Ali Khan)?..CIA CONNECTION

1. Extract from an article published on October 24, 1951 in an Indian magazine:
[…]It was learned within Pakistani Foreign Office that while UK pressing Pakistan for support re Iran, US demanded Pakistan exploit influence with Iran and support Iran transfer oil fields to US. Liaquat declined request. US threatened annul secret pact re Kashmir. Liaquat replied Pakistan had annexed half Kashmir without American support and would be able to take other half. Liaquat also asked US evacuate air bases under pact. Liaquat demand was bombshell in Washington. American rulers who had been dreaming conquering Soviet Russia from Pakistan air bases were flabbergasted. American minds set thinking re plot assassinate Liaquat. US wanted Muslim assassin to obviate international complications. US could not find traitor in Pakistan as had been managed Iran, Iraq, Jordan. Washington rulers sounded US Embassy Kabul. American Embassy contacted Pashtoonistan leaders, observing Liaquat their only hurdle; assured them if some of them could kill Liaquat, US would undertake establish Pashtoonistan by 1952. Pashtoon leaders induced Akbar undertake job and also made arrangements kill him to conceal conspiracy. USG-Liaquat differences recently revealed by Graham report to SC; Graham had suddenly opposed Pakistan although he had never given such indication. […] Cartridges recovered from Liaquat body were American-made, especially for use high-ranking American officers, usually not available in market. All these factors prove real culprit behind assassin is US Government, which committed similar acts in mid-East. “Snakes” of Washington’s dollar imperialism adopted these mean tactics long time ago.

امریکہ کی مندرجہ ذیل خُفیہ دستاویزات جن سے معلومات حاصل کی گئی تھیں 2010ء تک انٹرنیٹ پر موجود تھیں ۔ جب میں نے 2015کے شروع میں دیکھا تو انٹرنیٹ سے ہٹائی جا چُکی تھیں

1. America’s Role in Pakistan
2. Confidential Teاegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951
3. Confidential Telegram from State Dept., Nov. 1, 1951
4. Secret Telegram from Moscow Embassy, Nov. 3, 1951 [only first page located]
5. Popular Feeling in Pakistan on Kashmir and Afghan Issues, Nov. 10, 1951

میرا یہ مضمون اسی بلاگ 4 مارچ 2015ء کو شائع ہو چکا ہے

نوابزادہ لیاقت علی خان پر بُہتان تراشی

جب پاکستان بنا تو میری عمر 10 سال تھی ۔ اسلئے کچھ باتیں اور واقعات میرے ذاتی علم میں بھی ہیں لیکن یہ معاملہ ہمہ گیر قومی نوعیت کا ہے اس لئے میں اپنے ذہن کو کُریدنے کے علاوہ مُستند تاریخی کُتب کا مطالعہ کرنے پر مجبور ہوا

ایک حقیقت جو شاید دورِ حاضر کی پاکستانی نسل کے علم میں نہ ہو یہ ہے کہ محمد علی جوہر اور ساتھیوں کی کاوش سے مسلم لیگ 1906ء میں وقوع پذیر ہوئی اور علامہ محمد اقبال اور نوابزادہ لیاقت علی خان کی مسلسل محنت و کوشش نے اِسے پورے ہندوستان کے شہر شہر قصبے قصبے میں پہنچایا ۔ اسی لئے قائد اعظم کے علاوہ نوابزادہ لیاقت علی کو بھی معمار پاکستان کہا جاتا تھا اور اب بھی کہنا چاہیئے

سُنا گیا ہے کہ شہدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی کو ”نوابزادہ“ کہنا بلاجواز ہے اور یہ کہ وہ اداروں کو ذاتی استعمال میں لائے
شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کو پنجاب کے علاقہ کرنال کے ایک زمیندار اور نواب رُستم علی خان کا بیٹا ہونے کی وجہ سے نوابزادہ کہا جاتا تھا ۔ اگر شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان اداروں کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہوتے تو کرنال (بھارت کے حصہ میں آنے والے پنجاب) میں اپنی چھوڑی ہوئی زمینوں کے عِوض کم از کم مساوی زمین پاکستان کے حصہ میں آنے والے پنجاب میں حاصل کر لیتے اور اُن کی مالی حالت ایسی نہ ہوتی کہ جب اُن کی میّت سامنے پڑی تھی تو تجہیز و تکفین اور سوئم تک کے کھانے کیلئے احباب کو مالی امداد مہیا کرنا پڑی اور اس کے بعد ان کے بیوی بچوں کے نان و نُفقہ اور دونوں بیٹوں کی تعلیم جاری رکھنے کیلئے اُن کی بیگم رعنا لیاقت علی جو ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں کو ملازمت دی گئی جو بڑے بیٹے کے تعلیم پوری کرتے ہی بیگم رعنا لیاقت علی نے چھوڑ دی ۔ کبھی کسی نے شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی بیگم یا بچوں کا اپنی بڑھائی کے سلسلہ میں بیان پڑھا ؟

ایک اور الزام کے برعکس نہ تو اُردو کو قومی زبان بنانے کا نوابزادہ لیاقت علی نے قائداعظم سے کہا اور نہ یہ فیصلہ قائد اعظم نے کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بننے سے قبل بنگال سے مسلم لیگی رہنماؤں کے وفد نے تجویز دی کہ اُردو ہی ایک زبان ہے جو پانچوں صوبوں کی اکثریت سمجھتی ہے اور مُلک کو متحد رکھ سکتی ہے لیکن قائد اعظم نے اُردو زبان کو قومی زبان قرار نہ دیا ۔ پھر پاکستان بننے کے بعد 25 فروری 1948ء کو کراچی میں شروع ہونے والے دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں اُردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ ہوا

ایک الزام یہ بھی لگایا گیا کہ ”جب نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں پاکستان کے تب کے وزیرِ اعظم سے پچاس ہزار بندوقوں کا مطالبہ کیا جو اس وقت پورا کرنا چنداں مشکل نہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر نوابزادہ لیاقت علی خان کو یہ بات اس لئے گوارہ نہیں تھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح پاکستان میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے لئے اقتدار و اختیار کو ایک بہت بڑے نواب ( آف جوناگڑھ) کی صورت میں خطرہ لاحق ہو جاتا“۔

اول ۔ یہ بالکل غلط ہے کہ نواب جونا گڑھ نے پچاس ہزار بندوقیں مانگی تھیں ۔ نواب جونا گڑھ کے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرتے ہی بھارت نے اپنی فوج جونا گڑھ میں داخل کر دی اور نواب جونا گڑھ کو مدد مانگنے کی مُہلت نہ ملی
دوم ۔ جونا گڑھ کے بعد جب بھارت نے جموں کشمیر میں بھی زبردستی اپنی فوجیں داخل کر دیں تو قائد اعظم نے پاکستانی افواج کے کمانڈر اِن چِیف جنرل ڈگلس گریسی کو بھارتی افواج کو روکنے کا حُکم دیا تھا ۔ اگر پاکستان کے پاس پچاس ہزار تو کیا اُس وقت دس ہزار رائفلیں بھی ہوتیں تو قائدِ اعظم کے حُکم کی خلاف ورزی کرنے کی بجائے اُس کی تعمیل کر کے جنرل گریسی ایک ہمیش زندہ شخصیت اور ہِیرو بن جاتا
حکومت چلانا گورنر جنرل کا کام نہیں تھا بلکہ وزیرِ اعظم کا تھا مگر آج تک کسی نے کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جس سے ثابت ہو کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے کوئی کام قائدِ اعظم سے مشورہ کئے بغیر سرانجام دیا ہو

ایک گھناؤنا الزام بھی لگایا گیا کہ نوابزادہ لیاقت علی خان قائد اعظم کی وفات کے منتظر تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قائدِ اعظم کو ڈاکٹر کی سخت ہدائت پر زیارت لے جایا گیا تھا ۔ یہ شہیدِ مِلّت نوابزادہ لیاقت علی خان کی سازش نہ تھی ۔ اس کا ذکر قائد اعظم کے معالجِ خاص کرنل الٰہی بخش کی لکھی کتاب میں تحریر ہے

یہ الزام بھی لگایا گیا کہ 8 سال آئین بننے نہ دیا ۔ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان بننے کے 4 سال 2 ماہ بعد ہلاک کر دیا گیا تھا ۔ مختصر بات یہ ہے کہ آئین اُس وقت کے پاکستان میں موجود آئی سی ایس (Indian Civil Service) افسروں نے جن میں غلام محمد جو قائد اعظم کی وفات کے بعد غیر ملکی پُشت پناہی سے گورنر جنرل بن بیٹھا تھا بھی شامل تھا نہ بننے دیا ۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دستور ساز ی کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کے ارکان کا بار بار اِدھر اُدھر تبادلہ کردیا جاتا تھا ۔ اُس دور میں افسران کو ٹرین پر سفر کرنا ہوتا تھا ۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ آئی سی ایس افسران حکومتِ برطانیہ کی پُشت پناہی سے سازشوں کا جال نوابزادہ لیاقت علی کی شہادت سے قبل ہی بُن چُکے تھے

یہ لکھنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے قیام کی مارچ 1947ء میں منظوری ہوتے ہی ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت غیرمُسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کا قتلِ عام اور جوان لڑکیوں اور عورتوں کا اغواء شروع کر دیا گیا تھا اور اُنہیں گھروں سے نکال کر پاکستان کی طرف دھکیلا دیا گیا تھا ۔ یہ سلسلہ دسمبر 1947ء تک جاری رہا ۔ انگریز حکومت کے ساتھ ملی بھگت سے بھارت نے پاکستان کے حصے کے اثاثے نہ دیئے جو آج تک نہیں دیئے گئے ۔ ان حالات میں لاکھوں نادار مہاجرین جن میں ہزاروں زخمی تھے کو سنبھالنا اغواء شدہ خواتین کی تلاش اور بھارتی حکومت سے واپسی کا مطالبہ اور پھر ان سب مہاجرین کی آبادکاری اور بازیاب شدہ خواتین کی بحالی انتہائی مشکل ۔ صبر آزما اور وقت طلب کام تھا ۔ 1947ء سے 1951ء کے دور کے ہموطن قابلِ تعریف ہیں جنہوں نے مہاجرین کو آباد کیا ۔ اور آفرین ہے بیگم رعنا لیاقت علی خان پر جس نے دن رات محنت کر کے جوان لڑکیوں اور خواتین کو اُبھارہ کہ گھروں سے باہر نکلیں اور رفاہی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ان دخترانِ ملت نے خدمتِ خلق کے ریکارڈ توڑ دیئے ۔ اللہ اُن سب کو آخرت میں اجر دے

موازنہ کیلئے موجودہ جدید دور سے ایک مثال ۔ باوجود قائم حکومت اور وسائل ہونے کے اور ہر طرف سے کافی امداد آنے کے اکتوبر 2005ء میں آنے والے زلزلہ کے متاثرین کئی سال بعد بھی بے خانماں پڑے رہے
آجکل عورتوں کی آزادی کی فقط باتیں ہوتی ہیں کام سوائے فیشن اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں پارٹیوں کے اور کچھ نظر نہیں آتا

یہ کہنا بھی غلط ہے کہ پاکستان میں پہلی مُنتخب اسمبلی 1970ء مین معرضِ وجود میں آئی
جس اسمبلی نے اگست 1947ء میں پاکستان کا نظم نسق سنبھالا تھا وہ پاکستان بننے سے قبل باقاعدہ انتخابات کے نتیجہ میں غیر مُسلموں اور دوسرے کانگرسیوں سے مقابلہ کر کے معرضِ وجود میں آئی تھی اور اُس اسمبلی نے نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان کا وزیرِ اعظم منتخب کیا تھا

اگر شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی امریکہ کے ایجننٹ تھے تو امریکہ نے اُنہیں قتل کیوں کروا دیا ؟
حقیقت یہ ہے کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی جب امریکہ گئے تو اُنہوں نے واضح طور پر کہا کہ ”پاکستان ایک خود مُختار ملک بن چکا ہے اور وہ امریکہ کو دوست بنانا چاہتا ہے لیکن ڈِکٹیشن کسی سے نہیں لے گا“۔ تو واپس آنے پر ان کے قتل کی سازش تیار ہوئی
نیچے ایک اقتباس اس حقیقت کو واضح کرتا ہے

ناجانے کیوں وہ لوگ جو کچھ نہیں جانتے اپنے آپ کو مفکّر اور تاریخ دان سمجھنے لگ جاتے ہیں اور حقائق سے رُوگردانی کرتے ہوئے الا بلا لکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ میری دعا ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سب کو سیدھی راہ پر چلائے اور عقلِ سلیم مع طریقہ استعمال کے عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین

WHO SHOT LAK (Liaqat Ali Khan)?..CIA CONNECTION
Extract from an article published on October 24, 1951 in an Indian magazine:
[…]It was learned within Pakistani Foreign Office that while UK pressing Pakistan for support re Iran, US demanded Pakistan exploit influence with Iran and support Iran transfer oil fields to US. Liaquat declined request. US threatened annul secret pact re Kashmir. Liaquat replied Pakistan had annexed half Kashmir without American support and would be able to take other half. Liaquat also asked US evacuate air bases under pact. Liaquat demand was bombshell in Washington. American rulers who had been dreaming conquering Soviet Russia from Pakistan air bases were flabbergasted. American minds set thinking re plot assassinate Liaquat. US wanted Muslim assassin to obviate international complications. US could not find traitor in Pakistan as had been managed Iran, Iraq, Jordan. Washington rulers sounded US Embassy Kabul. American Embassy contacted Pashtoonistan leaders, observing Liaquat their only hurdle; assured them if some of them could kill Liaquat, US would undertake establish Pashtoonistan by 1952. Pashtoon leaders induced Akbar undertake job and also made arrangements kill him to conceal conspiracy. USG-Liaquat differences recently revealed by Graham report to SC; Graham had suddenly opposed Pakistan although he had never given such indication. […] Cartridges recovered from Liaquat body were American-made, especially for use high-ranking American officers, usually not available in market. All these factors prove real culprit behind assassin is US Government, which committed similar acts in mid-East. “Snakes” of Washington’s dollar imperialism adopted these mean tactics long time ago.

میرا یہ مضمون میرے اسی بلاگ پر 13 دسمبر 2008ء کو شائع ہو چکا ہے
کچھ حقائق مندرجہ ذیل دستاویزات سے حاصل کئے گئے تھے جو چند سال قبل انٹرنیٹ سے ہٹا دی گئیں

1.Declassified CIA papers
2.Confidential Teاegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951
3.Confidential Telegram from State Dept., Nov. 1, 1951
4.Secret Telegram from Moscow Embassy, Nov. 3, 1951
5.Popular Feeling in Pakistan on Kashmir and Afghan Issues, Nov. 10, 1951

کیا دِن تھے وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ستمبر 1947ء کے آخری ہفتہ میں ہماری حفاظت کے خیال سے ہمارے بزرگوں نے مُجھے اور میری 2 بہنوں کو ایک کرنل صاحب کے بیوی بچوں کے ساتھ جموں شہر سے چھاؤنی بھیج دیا تھا ۔ شام اور رات کے وقت ”جے ہِند“ اور سَت سِری اکال“ کے نعروں کی آوازیں آتیں ۔ معلوم ہوا کی بھارت سے آنے والے ہِندوؤں اور سِکھوں کے مسلحہ دستے چھاؤنی میں سے گذرتے ہیں
پھر کوئی شہر سے آیا تو خبر ملی کہ جموں شہر کے مضافاتی علاقوں میں جہاں مسلمان بھاری تعداد میں نہیں ہیں وہاں بھارت سے آئے ہوئے ہندو اور سکھ مسلحہ بلوائی حملے کر رہے ہیں اور کئی دیہات میں کھڑی فصلوں کو آگ لگا دی گئی ہے

6 نومبر 1947ء کو خبر ملی کہ 3 اور 4 نومبر کو جموں کے 2 محلوں (ہمارا محلہ اور محلہ پٹھاناں) جہاں سب مسلمان تھے لوگوں کو زبردستی گھروں سے نکال دیا گیا کہ پاکستان جاؤ اور اس بہانے سے اُنہیں شہر سے باہر لے جا کر اُن کا قتلِ عام کیا گیا ۔ یہ خبر سُن کر جو ہمارا حال ہوا وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ میں نے دو شعر پڑھے یا سُنے ہوئے تھے جن میں اپنی طرف سے ملا کر میں تنہا بیٹھ کر مدھم آواز میں گاتا اور آنسو بہایا کرتا تھا

اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا
مُشکل میں ہم نے تیری رحمت کو ہے پکارا

حاجت روا بھی تُو ہے مُشکل کُشا بھی تُو ہے
مالک تیرے کرم پر ہے کامل ایمان ہمارا
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا

تو چاہے تو مِلا دے بِچھڑے ہوئے دِلوں کو
دُنیا میں تیری رحمت کا کوئی نہیں کنارہ
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا

زندگی ہماری اب تو بس تیرے ہاتھ میں ہے
بدل جائے پھر زمانہ گر تیرا ہو جائے اِک اشارہ
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہم پر کرم کیا اور ہم 18 دسمبر 1947ء کو پاکستان پہنچ کر اپنے بزرگوں سے ملے جن میں 2 کم تھے ۔ ایک میرے والد صاحب کے جوان چچازاد بھائی کو جموں ہی میں شہید کر دیا گیا تھا اور اُس کے والد 5 نومبر کے قافلہ میں تھے جو تقریباً سب شہید کر دیئے گئے تھے