Category Archives: آپ بيتی

پاکستان کیسے بنا ؟

11012966_10153118779653214_9222380873510174951_n11817059_10153118777063214_3021858139480196679_n11825166_10153118778203214_3128428457947206585_n11825665_10153118776268214_740562706423065721_n11828562_10153118777433214_928922430999369107_n11873423_10153118776053214_6951817530271428303_n11831689_10153118780843214_2477181436196316706_n11828703_10153118776648214_7369052121881447292_n11836904_10153118776488214_3557432899146615455_n11855680_10153118779183214_6839381318611571948_n11863380_10153118782053214_2846821582218262537_n11870633_10153118776043214_4847740213467946779_n11828603_10153118777713214_2155622792486963207_n11870907_10153118775908214_6303597753657785213_n11873636_10153118778863214_1949104587780971030_n یہ چند جھلکیاں اُس سزا کی ہیں جو 1947ء میں مسلمانانِ ہند کو تحریکِ آزادی چلانے اور اپنا مُلک پاکستان بنانے کے سبب دی گئی

مغربی پاکستان کے قریبی ہندوستان کے علاقوں سے جذبہ ءِ آزادی سے سرشار سوا کروڑ سے زائد مسلمان عورتیں ۔ مرد ۔ بوڑھے ۔ جوان اور بچے پاکستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ انہیں راستہ میں اذیتیں پہنچائی گئیں اور تہہ تیغ کیا گیا ۔ 50 لاکھ کے لگ بھگ جوان عورتوں اور لڑکیوں کو اغواء کر لیا گیا ۔ ہجرت کرنے والے اِن مسلمانوں میں سے آدھے بھی زندہ پاکستان نہ پہنچ پائے اور جو بے سر و سامان ۔ بھوکے پیاسے پاکستان پہنچے ان میں بھی بہت سے زخمی تھے

کیا ہم اتنے ہی بے غیرت و بے حمیّت ہو چکے ہیں کہ اس مُلک کے حصول کیلئے اپنے آباؤ اجداد کی بے شمار اور بے مثال قربانیوں کو بھی بھُلا دیں ؟

میرے پاکستانی بہنو ۔ بھائیو ۔ بھانجیو ۔ بھانجو ۔ بھتیجیو ۔ بھتیجو
ہوش میں آؤ
آپا دھاپی چھوڑ کر اس مُلک کیلئے خلوصِ نیّت اور محنت سے کام کرو
جس نے ہم سب کو ایک منفرد شناخت بخشی ہے

ہم اُن لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے حوصلے اور صبر کے ساتھ سو سال جانی اور مالی نقصانات برداشت کرتے ہوئے پُر امن اور مہذب جد و جہد کر کے کُرّہءِ ارض پر ایک نیا مُلک بنایا
اس مُلک کا نام پاکستان ہے یعنی پاک لوگوں کی رہائشگاہ
اسلئے
ہمیں تمام الائشوں سے پاک ہو کر محنت کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرنا ہے
اور
اس مُلک کو مُسلمانوں کا ایک خوشحال اور مضبوط قلعہ بنانا ہے

میری ڈائری ۔ تکمیل خواہشات

یکم جون 1962ء کو میری ڈائری میں مرقوم ہے

انسان کے دل میں بہت سی خواہشات اُبھرتی رہتی ہیں
اگر یہ تمام خواہشات ایک حقیقت بن سکتیں تو نظامِ عالم کا برقرار رہنا بہت مُشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا اور خود اِس انسان کیلئے نتیجہ مُضر ہو سکتا تھا
اسلئے ہر خواہش کی تکمیل کی اُمید رکھنا عقل سے بعید فعل ہو گا

آج کے دن


آج کے دن کم از کم مندرجہ ذیل اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے

1 ۔ انسانیت سے دوستی کا ڈنڈورہ پیٹنے والے امریکہ نے ہروشیما کی شہری آبادی پر ایٹم بم گرایا جس سے 2555000 کی آبادی میں سے 66000 انسان ہلاک اور 69000 زخمی ہوئے ۔ یعنی 26 فیصد مر گئے اور مزید 27 فیصد زخمی ہوئے ۔ صرف 47 فیصد بچے ۔ زخمیوں میں سے بہت سے اپاہج ہو گئے

2 ۔ پی آئی اے کی قاہرہ مصر کے لئے پہلی آزمائشی پرواز نمعلوم وجوہات کی بناء پر قاہرہ کے قریب صحرا میں گر کر تباہ ہو گئی اور 200 کے قریب لوگ ہلاک ہو گئے

3 ۔ پی آئی اے کا فوکر فرینڈشپ طیارہ راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے روات کے قریب گر کر تباہ ہو گیا اور 25 لوگ ہلاک ہو گئے ۔

میں زوڈیاک سائینز میں یقین نہیں رکھتا لیکن جو اس کا شوق رکھتے ہیں ان کے لئے لکھ دیتا ہوں کہ چھ اگست کے لئے زوڈیآک سائین اسد یا لیو ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے ۔

Warm, generous, open spirit; strong leaders, readily noticed whenever they enter a room; enjoy being center stage; regal appearance and often a dramatic personality; strong pride and occasionally arrogant; susceptible to flattery and easily embarrassed; good follow-through, will see a project to its conclusion; often artistic and creative; natural understanding of children; loyal and ardent lovers; may make fun of themselves, but won’t appreciate others doing so.

آج کے دن جموں شہر میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام ریاست حیدر آباد کے کسی حساب دان نے اس کی پیدائش کے سال کی بنیاد پر افتخار اجمل رکھا

میں پاگل ؟ ؟ ؟

میں نے اُس منہ کو بھی کھانا دیا جس نے مجھ پر بہتان تراشی کی
میں نے اُس کے چہرے سے بھی آنسو پونچھے جس نے مجھے رُلایا
میں نے اُسے بھی سہارا دیا جس نے مجھے گرانے میں کسر نہ چھوڑی
میں نے اُن لوگوں کے ساتھ بھی بھلائی کی جو میرے لئے کچھ نہیں کر سکتے
میں نے اُن لوگوں کی بھی مدد کی جنہوں نے میری پیٹھ میں چھُرا گھونپا

یہی کہیں گے نا ۔ کہ میں پاگل ہوں ؟ ؟ ؟

لیکن میں اپنے آپ کو دوسروں کی نفرت میں ضائع نہیں کرنا چاہتا
میں ایسا ہی رہنا چاہتا ہوں
کیونکہ
میں جو کچھ بھی ہوں ۔ میں ہوں اور یہ میری فطرت ہے
زندگی آسان نہیں لیکن تمام تر مشکلات کے ساتھ میں اسے بطور خود گذارنا چاہتا ہوں

ملے جب اُن سے

شعر ہے
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

لیکن جناب ہوا یوں کہ دبئی سے ہماری روانگی سے ایک دِن قبل ہمیں جب وہ ملنے آئے تو
کبھی دل میں اُن کو آفریں کہتے
کبھی اپنے آپ پہ پشیماں ہوتے

اپنے شہر یا گاؤں سے کسی دوسری جگہ جائیں تو اُمید ہوتی ہے کہ وہاں کوئی جاننے والا رابطہ کرے گا ۔ کاشف علی صاحب سے ملاقات پچھلی دفعہ ہو گئی تھی ۔ اُن کا پیغام ملا کہ وہ عید سے پہلے پاکستان چلے جائیں گے اور ستمبر میں واپسی ہو گی ۔ کوشش کریں گے کہ جانے سے قبل ملاقات کریں ۔ کام مشکل تھا ۔ خیر جب عیدالفطر گذر گئی اور مزید کوئی پیغام نہ آیا تو عبدالرؤف صاحب کا ای میل کا پتہ تلاش کر کے رابطہ کیا ۔ جواب ملا کہ وہ وٹس ایپ پر مجھ سے رابطے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہے تھے ۔ ہم ٹھہرے پَینڈُو (دیہاتی) رَومِنگ نہیں لی تھی اور سِم بھی نکال کر نئے موبائل فون (وَن پلَس وَن) جو بیٹے زکریا نے بھیجا ہے میں لگا دی تھی ۔ پھر پیغام کیسے ملتا ۔ خیر اُنہوں نے اتوار کو دفتری اوقات کے بعد ملنے کا وعدہ کیا

ہم لوگ 11 جولائی کو الروضہ (دی گرینز) سے مثلث قریۃ الجمیرا (جمیرا وِلیج ٹرائی اینگل) منتقل ہو گئے تھے ۔ عبدالرؤف صاحب کیلئے بھی یہ علاقہ نیا تھا سو بہت گھوم گھما کر پہنچے ۔ مجھے ساتھ لیا اور کسی ریستوراں کی تلاش میں نکلے جہاں ٹی وِد سِمپَیتھی یعنی چائے مع کھانے کی چیز کے پیش کی

میں سجھتا تھا کہ بلوچ ہیں ڈیرہ بُگٹی یا چاغی کی پہاڑیوں کے باسی ہوں گے ۔ اُن کے جو تبصرے میرے بلاگ پر ہوتے تھے اُن سے سمجھا تھا کہ مضبوط جسم اور تنا ہوا چہرہ رکھتے ہوں گے ۔ صورتِ حال بالکل ہی اُلٹ نکلی ۔ وہ نکلے کراچی نارتھ ناظم آباد کے باشندے لیکن الطاف حسین کی خوشبو بھی اُن کے قریب سے نہ گذری تھی ۔ داڑھی جو کبھی نہ مُونڈھی تھی خوبصورت لگ رہی تھی ۔ بات بھی انکساری سے کرتے ۔ میں پشیماں نہ ہوتا تو کیا کرتا ؟

چائے وغیرہ کے بعد مجھے واپس چھوڑا ۔ دوبارہ دبئی آنے پر ملنے کا وعدہ لیا اور خود اسلام آباد آنے پر ملنے کا وعدہ کر کے چلے گئے

کہتے ہیں ہر لمحہ اور ہر ملاقات کچھ سکھانے کیلئے ہے بشرطیکہ کوئی سیکھنا چاہے ۔ عبدالرؤف صاحب بھی مجھے بہت کچھ سکھا گئے
ا ۔ پنجابی میں کہتے ہیں ۔ راہ پیئا جانے تے واہ پیئا جانے
2 ۔ ہیں کواکب کچھ ۔ نظر آتے ہیں کچھ اور
3 ۔ بھولپن میں ایک بات ایسی کہہ گئے کہ میرا مرید ہونے کو جی چاہا ۔ میں نے داڑھی کی بات کی تو لجاجت سے بولے ”والد صاحب نے مجبور کیا تھا کہ داڑھی رکھ لو سو شروع ہی سے رکھ لی ۔ خیر ۔ اللہ کی مہربانی سے اس نے میرے کردار پر عمل دِکھایا ہے“۔ اللہ تعالٰی نے مسلمان عورتوں کو پورا جسم چھُپانے والا لباس پہننے کا حُکم دیا ہے تاکہ وہ پہچانی جا سکیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کو بھی اپنے متعلق یہی سوچنا چاہیئے

بادشاہی مسجد لاہور

میری ڈائری میں 27 جنوری 1957ء کی تحریر
زمین سے مسجد کے صحن کے فرش تک 24 سیڑھیاں ہیں
مینار کی 183 سیڑھیاں ہیں

بادشاہی مسجد لاہور مُغل بادشاہ ابو المظفر محی الدین محمد اورنگ زیب (1658ء تا 1707ء) نے تعمیر کرائی ۔ اس کی تعمیر 1671ء میں شروع ہوئی اور 1673ء میں مکمل ہوئی ۔ یہ پاکستان اور جنوبی ایشیا میں دوسری سب سے بڑی اور دنیا میں پانچویں سب سے بڑی مسجد ہے ۔ حکومتِ پاکستان نے 1993ء میں اسے دنیا کے ورثہ میں شامل کرنے کیلئے یونیسکو کو درخواست کی ۔

سکھوں کے دورِ حکومت (1799ء تا 1849ء) میں اسے فوج کے گھوڑوں کا اصطبل بنا دیا گیا تھا ۔ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1849ء میں لاہور کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس کے استعمال میں تبدیلی نہ کی اور ملحقہ شاہی قلعے کو ملٹری گیریزن کے طور پر استعمال میں رکھا ۔ مسجد کی چار دیواری میں سے تین میں 80 ہُجرے جو طُلباء کے مطالعہ کیلئے تھے انہیں سکھوں نے ملٹری سٹور کے طور پر استعمال کیا ۔ برطانوی حکومت نے اس خدشے پر انہیں مسمار کر دیا کہ کہیں انہیں برطانیہ مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال نہ کیا جائے اور وہاں کھُلے دلان بنوا دیئے تھے جو آج تک موجود ہیں ۔ مسجد کے غلط استعمال سے عمارت کو کافی نقصان پہنچا تھا ۔ انگریزوں نے مسمانوں میں پھیلتے غم و غصے کو بھانپ کر 1852ء میں ایک بادشاہی مسجد بحالی اتھارٹی بنائی ۔ 1852ء کے بعد کبھی کبھی تھوڑی تھوڑی مرمت کا کام ہوتا رہا ۔ جب 1939ء میں سکندر حیات خان وزیرِ اعلٰی پنجاب بنا تو اُس نے مسلمانوں سے مرمت کیلئے چندہ اکٹھا کیا اور مرمت کے کام میں تیزی آئی تھی ۔ مرمت اور زیبائش کا زیادہ کام پاکستان بننے کے بعد ہوا