میں نے 22 نومبر 2015ء کو انگریزی کی نظم کا ایک بند اپنی اپریل 1955ء کی ڈائری سے نقل کیا تھا ۔ محمد مقبول حسین صاحب نے 22 اور 23 نومبر کی درمیانی شب فرمائش کی کہ اس کا اُردو میں ترجمہ لکھوں ۔ میں ان کی فرمائش فوری طور پر پوری نہ کر سکنے پر معذرت خواہ ہوں ۔ ساتھ ہی میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ میری تحریر ” بنی اسراءیل اور ریاست اسرائیل“ میں جو نقشے میں نے کسی زمانے میں بڑی محنت سے حاصل کر کے اس تحریر میں شائع کئے تھے کہ اسرائیل کی حقیقت واضح ہو جائے وہ سب غائب ہیں
میں 21 نومبر کی شام امریکن (یا ہانگ کانگ) فلُو میں بُری طرح مُبتلاء ہو گیا تھا ۔ تیز بخار ۔ شدید کھانسی ۔ گلا ایسے جیسے کسی نے کانٹوں سے چھلنی کر دیا ہو ۔ 4 راتیں کھانس کھانس کر بیوی بچوں کو بھی نہ سونے دیا ۔ 22 نومبر کی صبح دوائیاں کھانے کے بعد بخار ذرا ہلکا ہوا تھا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔ میرے موبائل فون پر ٹن ٹن ہوا یعنی کوئی پیغام آیا ۔ فون اُٹھایا اور دیکھنے لگا ۔ فون نے یہ بھی بتایا کہ تحریر شائع کرنا ہے ۔ میں نے تحریر لکھ کر محفوظ کی ہوئی تھی جو موبائل فون پر ایک کلک سے شائع ہو گئی
آج طبیعت کچھ سنبھلی ہے تو اپنے بلاگ کی صحت دیکھنے کیلئے کمپیوٹر کھولا تو محمد مقبول حسین صاحب کی فرمائش نظر پڑی ۔ میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں انگریزی 12 جماعت تک اور اُردو 8 جماعت تک پڑھی تھی یعنی انگریزی 59 سال اور اُردو 64 سال قبل تک ۔ بھول بھی گیا ہوں گا اور عقل کی بھی کمی ہے (کیا کروں بازار میں ملتی نہیں) ۔ خیر ۔ کوشش کرتا ہوں ترجمہ کرنے کی
خوش ذوق بننا اُس وقت تو بہت سہل ہوتا ہے جب زندگی
ایک سُریلے گیت کی لہروں کی طرح بہتی چلی جا رہی ہو
مگر قابلِ قدر آدمی تو صرف وہ آدمی ہوتا ہے
جو مشکلات میں گھِر کر بھی مسکراتا رہے
مجھے ساحر لدھیانوی کا لکھا ہوا اور محمد رفیع کا گایا ہوا یہ گیت پسند رہا ۔ میں نے اسی طرح زندگی گذاری ہے
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا ۔ ۔ ۔ ہر فکر کو دھُوئیں میں اُڑاتا چلا گیا
بربادیوں کا سوگ منانا فضُول تھا ۔ ۔ بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
جو مِل گیا اُسی کو مُقدّر سمجھ لیا ۔ ۔ ۔ جو کھو گیا، میں اُس کو بھُلاتا چلا گیا
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں ۔ ۔ ۔ میں دِل کو اُس مقام پہ لاتا چلا گیا