Category Archives: آپ بيتی

ہمارا مُلک اور ہم

” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے ؟“
” اس مُلک میں کیا رکھا ہے ؟“

میرے بہت سے پڑھے لکھے ہموطن بلا توقّف اور بلا تکلّف یہ فقرے منہ سے ادا کرتے ہوئے نہ شرماتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں
خاموش اکثریت اِن فقروں کو سُننے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اُنہیں اِن میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی

کبھی ہم نے سوچا کہ ہم پر اس مُلک کی کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ؟
کیا ہم نے اپنی ذمہ داریوں میں سے 10 فیصد بھی ادا کر دی ہیں ؟

” نہیں یہ ہم کیوں سوچیں ؟ ہم تو پیدا ہوئے اپنی ماں کے بطن سے ۔ پلے اور پڑھے اپنے باپ کی کمائی سے ۔ ملازمت یا کاروبار کیا اپنی عقل اور تعلیم کے زور پر ۔ ہمیں اس مُلک نے کیا دیا جو ہم پر اس کی ذمہ داریاں عائد ہوں ؟“

آپ 14 اگست کو یومِ آزادی یا قائداعظم کے الفاظ میں یومِ استقلال منانے کی بجائے 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات نیو ایئر نائٹ مناتے ہیں
آپ مسلمان ہیں لیکن رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ کے بتائے ہوئے تہوار عیدین کو جوش و جذبہ سے منانے کی بجائے ہندوؤں کے تہوار بسنت کو بڑے شوق اور جوش و جذبہ سے مناتے ہیں
آپ کو قائدِ اعظم اور اُن کے رُفقاء کی سوانح میں تو کوئی دلچسپی نہیں لیکن ایکٹر بالی وُڈ کا ہو یا ہالی وُڈ کا اُس کے متعلق آپ کا عِلم وسیع ہے
آپ دفتر میں ہوں تو گپ شپ کرنا لازمی سمجھتے ہیں اور سرکاری (قومی) اشیاء بالخصوص ٹیلیفون کا اپنی ذات کیلئے استعمال اپنا حق سمجھتے ہیں
سڑک پر گاڑی چلا رہے ہوں تو سُرخ بتی پر رُکنا یا کسی دوسری گاڑی کا آپ کی گاڑی سے آگے ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں
آپ کو پاکستانی کہلانا پسند نہیں
آپ کو اپنی زبان بھی گنوار لگتی ہے ۔ جب تک اس میں انگریزی کی بے ربط ملاوٹ نہ کر لیں آپ کا کھانا ہضم نہیں ہوتا
آپ کو اپنے لوگوں ۔ اپنی ثقافت میں بد بُو آتی ہے

آپ اس مُلک کو چھوڑ کر چلے جایئے ۔ جس ملک میں جانا چاہیں گے وہ مُلک آپ کو آسانی سے قبول نہیں کرے گا ۔ اگر آپ میں وہ وصف ہو گا جو اس مُلک کو چاہیئے تو آپ کو داخلے کی اجازت ملے گی ۔ وہاں آپ کو کولہو کے بیل کی طرح کام کرنا پڑے گا ۔ اپنی مرضی نہیں چلے گی اور نہ آپ کی اُوٹ پٹانگ باتیں جو آپ یہاں کرتے ہیں کوئی برداشت کرے گا ۔ وہاں آپ کو سب کچھ اُن کی مرضی سے کرنا پڑے گا ۔ مانا کہ اُن کی تابعداری کرنے کے بعد آپ کو وہاں کی شہریت مل جائے گی مگر اگلی کئی نسلوں تک آپ کو پاکستانی ہی کہا جائے گا ۔

کبھی تو حق بات سوچیئے
اس سراب سے نکل آیئے جس میں آپ گھِرے ہوئے ہیں

کیا اس مُلک نے آپ کو ایک شناخت نہیں بخشی ؟
کیا یہ مُلک آپ کا بوجھ نہیں اُٹھا ہوئے ؟
کیا آپ کے وفات پاجانے والے بزرگ اس کی مٹی کے نیچے دفن نہیں ہیں ؟
اپنی تمام تر کمیوں کے باوجود کیا آپ کو یہاں علاج معالجہ کی سہولت آسانی سے نہیں ملتی ؟ اگر آپ نہیں جانتے تو سُن لیجئے ۔ میں جرمنی کے ایک بڑے شہر ڈُوسل ڈَورف میں تیز بُخار میں مبتلاء ہوا ۔ جس ادارہ کے ساتھ میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے کام کر رہا تھا اُس کے اعلیٰ افسر نے پوری کوشش کی کہ جلد از جلد میرے علاج کا بندوبست ہو ۔ کئی گھنٹوں کی کاوش کے بعد جو ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت ملا وہ 10 دن بعد کا تھا ۔ میں نے کہا ”10 دن میں یا تو میں اللہ کے حُکم سے تندرست ہو گیا ہوں گا یا مر چکا ہوں گا“۔ ہمیں اپنے مُلک میں 2 گھنٹے انتظار کرنا پڑ جائے تو ہم طوفان مچا دیتے ہیں
یہی نہیں اپنے مُلک میں آپ کے رشتہ دار آپ کی خدمت کو تیار رہتے ہیں ۔ اگر رشتہ دار قریب نہ رہتے ہوں تو محلے دار آپ کی مدد کو تیار رہتے ہیں ۔ لیکن آپ اُس یورپ اور امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں جہاں کسی کے پاس آپ کی بات سُننے کا بھی وقت نہیں ہوتا

آپ کے وطن اس خداداد مملکت پاکستان میں کیا نہیں ہے ؟
ہر قسم کا موسم ۔ سردی ۔ بہار ۔ گرمی ۔ برسات اور خزاں
ہر قسم کی زمین ۔ برف سے لدے پہاڑ ۔ سر سبز پہاڑ ۔ چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ میدان ۔ ہرے بھرے کھیت ۔ صحرا ۔ دریا ۔ نہریں ۔ سمندر ۔ حسین وادیاں ۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیاں سوائے مؤنٹ ایورسٹ کے ۔ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر ۔
ہر قسم کے پھل ۔ سیب ۔ ناشپاتی ۔ انگور ۔ داخ ۔ لیچی ۔ گلاس (انگریزی میں چَیری) ۔ امردو ۔ پپیتا ۔ کیلا ۔ مالٹے ۔ کینو ۔ میٹھا ۔ لیموں ۔ چکوترا (انگریزی میں گریپ فروٹ)۔ خوبانی ۔ آلو بخارا ۔ آڑو ۔ لوکاٹ ۔ بگو گوشہ ۔ بیر ۔ گرنے یا گرنڈے ۔ فالسے ۔ بادام ۔ مونگ پھلی ۔ اخروٹ ۔ اناناس ۔ انار ۔ تُوت ۔ شہتوت ۔ چیکُو ۔ کھجور ۔ رس بھری ۔ سٹابری ۔ تربوز ۔ خربوزہ ۔ مونگ پھلی ۔ سردا ۔ گرما ۔ دنیا کا لذیذ ترین آم ۔ اور ہمارے مُلک کے کِینو کا بھی دنیا میں ثانی نہیں ہے
ہر قسم کی اور بہترین سبزیاں۔ نام لکھنے شروع کروں تو میں لکھتے اور آپ پڑھتے تھک جائیں گے ۔ صرف اتنا بتا دیتا ہوں کہ دنیا کی بہترین گندم اور بہترین چاول (باسمتی) ہمارے مُلک پاکستان میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ باسمتی چاول صرف پاکستان کی پہچان ہے کسی اور مُلک میں نہیں پایا جاتا ۔ اور ہاں ہمارے مُلک کی کپاس بھی مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے

کبھی تو ان نعمتوں کیلئے اللہ کے شکرگذار ہو کر اپنے اس وطن کی بہتری کا سوچیئے اور اس کیلئے محنت کیجئے
جتنی محنت آپ غیر ممالک کیلئے یا وہاں جا کر کرتے ہیں اور جس نظم و ضبط کی پابندی آپ وہاں کرتے ہیں اتنا اپنے ملک پاکستان میں کریں پھر اپنا مُلک بہترین ہو جائے گا اور اس میں روزگار کے اتنے مواقع ہو جائیں گے کہ کسی ہموطن کو غیر ممالک میں دھکے کھانے کی حاجت نہیں رہے گی

اللہ ہم سب کو حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور سیدھی راہ پر گامزن کرے

میری زندگی کا نچوڑ ؟

میں نے زندگی میں بڑے نچوڑ دیکھے ۔ لیموں کا نچوڑ ۔ مالٹے کا نچوڑ ۔ سیب کا نچوڑ ۔ یہ مجھے مرغوب تھے اور ہیں
اس کے علاوہ ایک اور نچوڑ بھی دیکھا جس کا نام سُنتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ گلاب کا نچوڑ جسے لوگ قبر پر چھڑکتے ہیں
کچھ لوگ دوسروں کا مال نچوڑتے ہیں ۔ ڈاکٹر مریض کا خون نچوڑتے ہیں ۔ کیا معلوم تھا کہ اس بڑھاپے میں مجھے اپنی ہی زندگی کا نچوڑ نکالنا ہو گا ۔ میں ڈرتا تو نہیں ہوں
چھٹی سے آٹھویں جماعت تک روزانہ صبح سویرے اپنی پوری طاقت سے کہتا رہا ہوں
”باطل سے دبنے والے ۔ اے آسماں نہیں ہم ۔ سو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا“

لیکن بات یہ ہے کہ وہ حاجن بی بی ہیں نا ۔ اُن سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے ۔ عمر میں 77 برس کی لگتی ہیں ۔ کیا پتا 107 برس کی ہوں ۔ خالص دودھ پیتی اور دیسی گھی کھاتی رہی ہوں ۔ اسی لئے کم عمر کی لگتی ہیں ۔ مُشکل یہ ہے کہ حاجن بی بی کے میاں بھی حاجی ہیں ۔ ”میں جاؤں تو جاؤں کہاں ۔ سمجھے گا کون یہاں ۔ مجھ جیسے بیوقوف کی زباں“۔

خیر کیا پوچھتے ہیں صاحب ۔ حاجن بی بی لَٹھ لے کے پیچھے پڑ گئیں کہ ”نکالو اپنی زندگی کا نچوڑ“۔
تب سمجھ آئی صاحب کہ وہ لیموں وہ مالٹے اور سیب کیا کہتے ہوں گے جب ہم اُن کو نچوڑتے تھے ۔ ہائے بیچارے لیموں مالٹے سیب
دیکھیں نا ۔ ایک میں بوڑھا ۔ اُوپر سے بیماری نے گھیرا ۔ کہاں رہ گئی ہے طاقت مجھ میں نچوڑنے کی
لیکن جناب مرتا کیا نہ کرتا ۔ بیٹھ گیا نچوڑنے ۔ اور بڑی مُشکل سے بس اتنا سا نچوڑ نکلا

1 ۔ نماز کسی حال میں مت چھوڑو
2 ۔ اللہ پر مکمل یقین اور بھروسہ رکھو کیونکہ سب کچھ اُسی کے ہاتھ میں ہے
3 ۔ گناہ سے بچنے کی پوری کوشش کرو خواہ کچھ بھی ہو جائے
4 ۔ جھوٹ کبھی مت بولو خواہ کتنا ہی دُنیاوی نقصان ہو
5 ۔کسی کو تکلیف مت دوچاہے وہ کتنی ہی تکلیف دے
6 ۔ اس کے نتیجہ میں بہت تکالیف اُٹھائیں مگر اللہ نے مجھے ٹوٹنے نہیں دیا ۔ میں نے مجبور ہو کر 53 سال کی عمر میں ملازمت چھوڑ دی ۔ دورانِ ملازمت تنگدست رہا اور آ ج خوشحال ہوں ۔
سُبحان اللہ و بحمدہ

ارے غضب ہو گیا ۔ حاجن بی بی دیکھ تو نہیں رہیں کہیں ؟ میں بھاگ لوں ۔ اللہ حافظ