Category Archives: آپ بيتی
میری ڈائری ۔ مئی 1955ء
انگریزی نظم کا ایک بند
The main issue in life
is not the victory but fight.
The essential is not to have won
But to have fought well.
میری ڈائری ۔ اَج آکھاں وارث شاہ نُوں
برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کی آزادی کا قانون 18 جولائی 1947ء کو منظور کیا لیکن جب وائسرائے ہِند لارڈ مؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947ء کو پاکستان بنانے کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے تقسیم کا فارمولا تیار کرنے کا حُکم دے دیا تو ہندو مہاسبھہ ( ہِندِتوا)۔ راشٹریہ سیوک سنگ (آر ایس ایس) اور اکالی دَل نے مسلمانوں کا کُشت خُون شروع کر دیا ۔ پنجاب میں اِن کی مار دھاڑ زوروں پر تھی ۔ امریتا پریتم نے اس حال پر ایک پُر درد نظم لکھی تھی جو میں نے شاید 1956ء میں پڑھی تھی ۔ جنوری 1965ء تک جتنی مجھے یاد رہی میں نے اپنی ڈائری میں لکھ لی تھی
راہ پَیئا جانے تے وا پَیئا جانے
یہ بہت پرانی ضرب المثل یا محاوہ یا کہاوت ہے ۔ آجکل کی اُردو میں اس کو لکھیں گے ” راستہ پر چلنے والا ہی راستہ کی نوعیت سے واقف ہوتا ہے اور کسی آدمی سے واسطہ پڑے تو اُس کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے“۔ بات سولہ آنے کھری یعنی بالکل درست ہے
اس سلسلے میں زندگی میں بہت تجربات ہوئے جن میں سے ایک یہ ہے ۔ ایک شخص ہمارے ادارے میں کام کرتا تھا ۔ 30 سال اُس کے ساتھ دفتر کا تعلق رہا ۔ میں اُسے بطور 5 وقت کے نمازی باعِلم مسلمان کے جانتا تھا ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک دن ہمارے ہاں آئے تو باتوں باتوں میں نجانے کیسے بات قرآن و حدیث تک جا پہنچی
کہنے لگے ”حدیثیں ایسے ہی لوگوں نے خود لکھ لی ہوئی ہیں ۔ ہم انہیں نہیں مانتے”۔
میں نے صرف اتنا کہا ”مجھے قرآن شریف کی وہ آیت بتا دیجیئے جس میں نماز پڑھنے کا طریقہ مع اُس کے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے کا ذکر ہو“۔
خاموشی ۔ مگر میں نہ مانوں
اذان کا اثر
ہمارے مسلمان بھائی ایسے بھی ہیں جن پر اذان کی آواز کوئی اثر نہیں کرتی ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلاح وہی پاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ آج مختصر سوانح عمری ایک شخص رُونی کی جو سکاٹ لینڈ کا ایک غیر مُسلم رہائشی تھا ۔ اُس کی کبھی کسی مسلمان سے ملاقات بھی نہ ہوئی تھی ۔ اپنی سوانح عمری میں رُونی لکھتے ہیں
میں نے زندگی بھرکبھی اسلام قبول کرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور نہ کبھی کسی مسلمان سے میری ملاقات ہوئی تھی ۔ میں ترکی میں چھٹیاں گذارنے گیا ۔ وہاں اذان کی آواز سنی جس میں اتنی کشش تھی کہ میں ترکی سے اسکاٹ لینڈ کے شہر اینفرینس پہنچتے ہی ایک مقامی کُتب خانے گیا اور قرآن کریم کا انگریزی ترجمے پر مشتمل نسخہ خریدا ۔ میں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا اس نے میری آنکھیں کھول دیں ۔ قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہوئے میرے اندر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوگئی ۔ میں نے قرآن کریم کو 3 بار مکمل پڑھا اور ہر بار پہلے کی نسبت زیادہ آگاہی حاصل ہوئی
میں نے اسلام کے بارے میں مطالعے کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پرنومسلم حضرات کے بارے میں بھی پڑھا جن کےقبول اسلام کا ہر ایک کا اپنا منفرد سفر تھا مگر ان میں جو چیز مشترک تھی وہ یہ کہ ہر ایک نے اسلام کو شعوری طورپر قبول کیا اور باریک بینی سے مطالعے کے بعد دائرہءِ اسلام میں داخل ہوا
میں نے انٹرنیٹ پر عربی میں نماز کا طریقہ سیکھا اور قرآن کریم کی تلاوت سنی ۔ اسلامی موسیقی سُنی۔ موسیقی میری کمزوری تھی ۔ اس لئے اسلامی موسیقی سے بھی بہت محظوظ ہوا ۔ بہر حال اسلام کے بارے میں حقائق تک پہنچنے میں 18 ماہ کا عرصہ لگا ۔ ڈیڑھ سال کے بعد میں خود کو مسلمان سمجھنے لگا ۔ نماز پنجگانہ شروع کردی ۔ ماہ صیام کے روزے رکھے ۔ حلال وحرام کی تمیزشروع کردی
میرے محلے میں ایک چھوٹی مسجد بھی ہے ۔ میں مسجد پہنچا ۔ اپنا تعارف کرایا اور اندر داخل ہوگیا ۔ مسجد میں موجود تمام لوگ حیران ہوئے ۔ انہوں نےمجھے اسلام کے بارے میں اہم معلومات پرمبنی کُتب دیں ۔ اب میں اس مسجد کے اہم ارکان میں سے ایک ہوں
میری ڈائری ۔ کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں
میں پہلے بھی اپنی ڈائری سے فیض احمد فیض کے اشعار نقل کر چکا ہوں ۔ میں دسمبر 1964ء اور جنوری 1965ء میں ایک دوائی کے شدید ردِ عمل کے سبب 4 ہفتے ہسپتال میں صاحبِ فراش تھا ۔ وقت گذارنے کیلئے ایک ڈاکٹر صاحب نے فیض احمد فیض کا مجموعہ اشعار ”زنداں نامہ“ لا دیا تھا کہ وقت بھی گذرے اور ذہن پر بوجھ بھی نہ پڑے ۔ فیض احمد فیض نے یہ اشعار جیل میں عمر قید کی سزا کاٹتے ہوئے اپنی یورپین بیوی کی یاد میں لکھے تھے ۔ اہم بات یہ ہے کہ 1972ء میں شروع ہونے والے دور میں علامہ اقبال ۔ الطاف حسین حالی وغیرہ کو تعلیمی نصاب اور ذرائع ابلاغ سے نکال کر فیض احمد فیض صاحب کے اشعار کو وطن کی محبت قرار دیتے ہوئے ٹی وی اور دوسرے ذرائع پر پیش کیا جاتا رہا