Category Archives: آپ بيتی

کیسے کیسے لوگ

بھیک مانگنے والوں میں کچھ واقعی مستحق ہوتے ہیں اور کچھ ظاہری طور پر مستحق لگتے ہیں ۔ ان کی امداد کرنا چاہئیے ۔ میں تیسری قسم کی بات کروں گا ۔ نیز بچوں کی بات نہیں کرنا کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں ۔ اُن کا کوئی قصور نہیں ۔

سڑک پر نکل جائیں ۔ اگر کار میں ہیں تو کسی چوراہے پر کار کھڑی ہوتے ہی عام طور پر کوئی لڑکی یا عورت [زیادہ تر جوان] اور کبھی کبھی آدمی آ کر ہاتھ پھیلا دیتے ہیں ۔ اگر کسی مارکیٹ میں ہوں تو کسی جگہ کھڑے ہوتے ہی وہی منظر نظر آتا ہے لیکن اس صورت میں اگر کھڑا اکیلا جوان مرد ہے تو مانگنے والی ہاتھ پھیلائے آہستہ آہستہ اس کے قریب ہوتی جاتی ہے ۔ ایسی صورتِ حال میں میں نے شریف جوانوں کو گھبراہٹ میں اُچھل کر پیچھے ہٹتے دیکھا ہے ۔ ان مانگنے والوں کی بھاری اکثریت اچھی خاصی صحتمند ہوتی ہے ۔

گھر پر گھنٹی بجی باہر نکلے تو ۔ ۔ ۔

ایک تھیلا اُٹھایا ہوا ہے ایک صاحب گویا ہوئے “میں مزدوری کیلئے آیا تھا ۔ مزدوری نہیں ملی ۔ واپس جانے کا کرایہ نہیں ہے گھر پر بچے بھی بھوکے ہوں گے ۔

ایک آدمی ہاتھ میں میلا کچیلا ڈاکٹر کا نسخہ ۔ کچھ لیبارٹری رپورٹیں اور ایکسرے ۔ رونی صورت بنا کر بولا “جی ۔ میں بہت بیمار ہوں ۔ ڈاکٹر نے یہ دوائیاں لکھ کر دی ہیں ۔ میں غیریب آدمی ہوں “۔ وہ ہر ماہ آتا اور میں نے جتنا ہو سکا اُس کی مدد کی ۔ دو سال ہونے کو آئے تو مجھے خیال آیا اس غریب کا میں صحیح طرح خود کیوں نہ کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کراؤں ۔ میں نے اُس کے ہاتھ سے نسخہ اور باقی کاغذات پکڑتے ہوئے اُس کا نام پوچھا ۔ اچانک میری نظر نسخہ پر لکھے ہوئے مریض کے نام پر میری نظر پڑی ۔ وہ کچھ اور تھا ۔ میں اُس سے پوچھا “یہ نسخہاور باقی سب کاغذ آپ کے ہی ہیں نا ؟” جواب ہاں میں ملا ۔ میں نے ایکسرے دیکھا تو وہ کسی عورت کا تھا پھر لیبارٹری رپوٹیں دیکھیں تو اُن پر کوئی اور مگر مختلف نام تھے ۔ میں نے کاغذات واپس کرتے ہوئے اُسے کہا “بابا جاؤ اور اب میرے دروازے پر نہ آنا کیونکہ آپ جھوٹے ہو”

چھوٹی چھوٹی داڑھیوں والے مرد جن میں سے ایک بولے “جناب ساتھ والی مسجد میں نمازی زیادہ آ گئے ہیں زیادہ صفوں کی ضرورت پر گئی ہے یا ساتھ والی مسجد میں بچے تعلیم پاتے ہیں ان کے اخراجات میں حصہ ڈالئے ۔ کارِ ثواب ہے” ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے سیکٹر میں 6 مساجد ہیں اور ان کیلئے کوئی کبھی چندہ لینے نہیں آیا کیونکہ اللہ کے فضل سے ان میں نماز پڑھنے والے تمام اخراجات پورے کرتے ہیں ۔

چھوٹی چھوٹی داڑھیوں والے آدمی یوں گویا ہوئے “اعلٰی حضرت خود آپ سے ملنے تشریف لائے ہیں “۔ پوچھا “جناب ۔ فرمائیے کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟” جواب ملا “جناب اعلٰی حضرت مدرسہ کے سربراہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ بھی اس کارِ خیر کے حصہ دار بن جائیں” ۔

اگر کوئی صحتمند عورت بھیک مانگنے آئے تو میری بیگم اُسے کہتی ہیں ” تم محنت مزدوری کیوں نہیں کرتیں ؟” ایک دن ایک بڑی عمر کی مگر صحتمند عورت بھیک مانگتے ہوئے کہنے لگی “میرا آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ جو مل جائے کھا لیتی ہوں ۔ سڑکوں کے کنارے زمین پر پڑ جاتی ہوں”۔ میری بیگم نے اُسے بھی کہہ دیا ” تم محنت مزدوری کیوں نہیں کرتیں ؟” کہنے لگی ” آپ دلا دیں مجھے کام”۔ میری بیگم نے کہا “میں رہنے کو کمرہ ۔ کھانا ۔ کپڑے اور جیب خرچ بھی دوں گی ۔ تم صرف میرے گھر کے اندر کی صفائی کر دیا کرنا”۔ وہ مان گئی ۔ رات ہوئی تو آ کر کہنے لگی ” میرے پاس تو بستر نہیں ہے”۔ جو بسترے ہم استعمال کرتے تھے ان میں سے ایک دری ۔ ایک گدیلا ۔ ایک رضائی ۔ ایک تکیہ ۔ دو چادریں اور دو تکیئے کے غلاف میری بیگم نے اُسے دے دیئے ۔ اگلی صبح وہ میری بیوی کے پاس آ کر اپنے رونے روتی رہی اور کوئی کام نہ کیا ۔ اس سے اگلے دن وہ نہ آئی ۔ میری بیوی نے اس کے کمرے میں جا کر دیکھا تو نہ وہ تھی نہ بستر ۔

پچھلے دو سال سے ایک جوان ہمارے دروازے پر بھیک مانگنے آتا رہا ہے اور میں نے اُسے کبھی خالی نہیں لوٹایا ۔ کمبلی سی لپیٹی ہوئی اور سر پر بھی لی ہوئی ۔ صورت مسکین ۔ کمزور اتنا کہ بات بہت مشکل سے کرتا ۔ گھنٹی بجا کر زمین پر بیٹھ جاتا اور مجھ سے پیسے لینے کے بعد بھی زمین پر بیٹھا رہتا ۔ مجھے اُس کی حالت پر ترس آتا ۔ ہمارے گھر کے سامنے چوڑی سڑک ہے اور بازو میں تنگ سڑک ۔ تین چار دن قبل میں نے اُسی جوان کو تنگ سڑک پر دیکھا ۔ اپنی کمبلی کندھے پر ڈالی ہوئی ۔ اچھے صحتمند جوانوں کی طرح چلتا جا رہا تھا ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا “کیسے کیسے لوگ پائے جاتے ہیں ہمارے معاشرہ میں”

بچےسب کوپیارے

سُنا کرتے تھے کہ بچے سب کو پیارے ہوتے ہیں خواہ کسی کے بھی ہوں ۔ یہاں تک کہ خطرناک جانور بھی انسان کے بچوں کو گزند نہیں پہنچاتے ۔ فی زمانہ تو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ کہنے والے انسان بھی انسان کے بچوں کے دُشمن ہی نہیں قاتل بن چکے ہیں اور اسے اپنا کارنامہ گردانتے ہیں ۔ اس وحشت کی مثالیں ہر روز فلسطین ۔ عراق ۔ افغانستان اور پاکستان میں ملتی ہیں ۔ پاکستان کے دو واقعات کی یاد پر تو میرا دل روتا ہے ۔ باجوڑ ایجنسی میں ڈماڈولا کے مدرسہ پر امریکی فوج نے میزائل پھینک کر 5 اساتذہ اور 70 سے زائد طُلباء ہلاک کر دیئے تھے جن میں دو درجن سے زائد 8 سے 15 سال کے تھے ۔ جامعہ حفصہ اسلام آباد میں اپنے ہی ملک کی فوج نے چار پانچ سالہ بچیوں سمیت سینکڑوں نابالغ طالبات کو سفید فاسفورس کے بم پھینک کر بھسم کر دیا تھا ۔

ٹارزن کی کہانیاں اور مووی فلمیں بہت مشہور ہیں ۔ یہ سب ایک کہانی سے متاثر ہو کر لکھی گئیں کہ ایک بچہ کسی طرح جنگل میں رہ گیا تھا ۔ وہ جنگلی جانوروں کے ساتھ پل کر جوان ہوا تو وہ سب اُس کے دوست بن گئے تھے ۔ شاید دو دہائی قبل کا واقعہ ہے کہ جنگلی مخلوق پر تحقیق کرنے والوں کو ایک جنگل میں انسان کا آٹھ دس سالہ بچہ نظر آیا اور پھر نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔ دو تین بار اسی طرح ہوا ۔ آجر ایک دن اس بچے کو پکڑ لیا گیا ۔ اُس کی سب عادات جنگلی بندروں کی سی تھیں ۔ اُس نے پکڑنے والے کو اپنے دانتوں سے کاٹ بھی لیا تھا ۔

پرانے زمانہ یعنی وہ زمانہ جسے آج کے ترقی یافتہ انسان پسماندہ کہتے ہیں کی باتیں ہی کچھ اور تھیں ۔ میری والدہ نے ہمیں سنایا تھا کہ والدہ کی نانی صاحبہ نے اُنہیں بتایا کہ میری نانی بچپن میں بہت بھولی بھالی ہوتی تھیں ۔ میری نانی کی والدہ نے ایک دن میری نانی کو دہی کھانے کیلئے دیا اور خود کام میں مصروف ہو گئیں ۔ کچھ دیر بعد اُنہیں میری نانی کی آواز آئی ۔ وہ کہہ رہی تھیں “تم کھاؤ ۔ میں بھی کھاؤں گی”۔ میری نانی کی والدہ دیکھنے کیلئے دوڑی گئیں کہ بیٹی کس سے باتیں کر رہی ہے ۔ اُنہوں نے دیکھا کہ میری نانی کے پاس ایک لمبا سا اصلی سانپ ہے ۔ وہ سانپ کا سر پکڑ کر دہی میں ڈبوتی ہے اور کہتی ہے “تو بھی کھا”۔ پھر سانپ کو چھوڑ کر کہتی ہے “میں بھی کھاؤں گی” اور خود دہی کھاتی ہے ۔ یہ عمل وہ بار بار کر رہی تھی ۔ میری نانی جان کی والدہ کچھ دیر دم بخود ہو کر دیکھتی رہیں پھر انہوں نے شور مچایا جس سے سانپ تیزی سے گھر سے باہر نکل گیا ۔ بعد میں جب میری نانی کی والدہ کے حواس درست ہوئے تو اُنہوں نے سوچا کہ اُنہیں شور نہیں کرنا چاہیئے تھا اور دیکھتے رہنا چاہیئے تھا کیونکہ سانپ تو بیٹی کے ہاتھ میں کھلونا بنا ہوا تھا ۔

دوست نما دشمن

ميں نے يکم مئی 1963 کوپاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں ملازمت شروع کی ۔ ہم اس عہدہ پر 9 لوگ بھرتی ہوئے تھے ۔ کام سے شناسائی کيلئے ہميں مختلف فيکٹريوں ميں بھيج ديا گيا ۔ تين ہفتے بعد ايک ساتھی کا ٹيليفون آيا کہ جلدی سے ميرے پاس آؤ ضروری کام ہے ميں خود آ جاتا مگر اس وقت ميرے علاوہ کوئی ميرا کام ديکھنے والا نہيں ۔ ميرے باس اُس وقت موجود نہ تھے سو میں نے دوسرے آفسر کو بتايا اور چلا گيا ۔ جونہی ميں وہاں پہنچا وہ شخص يہ کہہ کر اپنے دفتر سے تيزی سے نکل گيا کہ آپ بيٹھ کر چائے پئيں ميں دو منٹ ميں آيا۔ پانچ منٹ بعد ميں نے گھنٹی بجا کر چپڑاسی کو بلايا اور کہا جاؤ ديکھ کر آؤ [نام] صاحب کہاں ہيں ۔ اُس نے واپس آ کر بتايا ساتھ والے دفتر ميں ٹيليفون پر بات کر رہے ہيں ۔ تھوڑی دير بعد وہ صاحب آئے اور ميں ناراضگی کا اظہار کر کے بغير چائے پئے واپس آ گيا ۔

واپس پہنچنے پر پتہ چلا کہ ميرے باس آ گئے ہيں اور ياد فرمايا ہے ۔ ميں گيا تو اُنہوں نے پوچھا کہ کہاں تھے ؟ ميں نے بتايا کہ بيس منٹ پہلے ايک ساتھی [نام] نے بلايا تھا اُس کے پاس گيا تھا ۔ باس نے کہا کہ ديکھو اجمل اس کو دوست نہ سمجھنا ۔ دس منٹ بارہ پہلے مجھے تمہارے اسی دوست کا ٹیلیفون آيا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ميں ايک گھنٹے سے اجمل کو ڈھونڈ رہا ہوں مگر وہ مجھے نہيں ملا ۔ ميں نے اسے بہت ضروری پيغام دينا ہے ” ۔

درویش اور کُتا

ماضی میں معاشرہ کا ایک اہم پہلو جو نمعلوم کیوں اور کس طرح غائب ہو گیا ۔ وہ ہے حکائت گوئی ۔ سردیوں میں چونکہ راتیں لمبی ہوتی ہیں اس لئے چھُٹی سے پچھلی رات سب لحافوں میں گھُس کر بیٹھ جاتے ۔ پلیٹوں میں خُشک میوہ لیا ہوتا اور ایک بزرگ کہانی سنانا شروع کرتے ۔ یہ بھی ایک ادارہ تھا جو نہ صرف بچوں بلکہ جوانوں کی بھی تربیت غیرمحسوس طریقہ سے سرانجام دیتا تھا ۔ کہانی چاہے جِن کی ہو یا شہزادہ شہزادی کی اسے اتنا دلچسپ بنا کر سنایا جاتا کہ خشک میوہ ہماری پلیٹوں ہی میں پڑا رہ جاتا ۔ ان سب کہانیوں میں قدرِ مشترک اس کا سبق آموز اختتام ہوتا جسے زور دے کر بیان کیا جاتا ۔

نیز ہمارے سکول اور کالج کے زمانہ میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھی اور سنائی جاتی تھیں جو پانچ چھ سال کے بچے سے لے کر بوڑھوں تک میں مقبول ہوتی تھیں اور ہر ایک کو اُس کی عمر کے مطابق محسوس ہوتی تھیں ۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور شیخ سعدی صاحب کی گلستانِ سعدی کی کہانیاں تھیں ۔ یہ کتاب فارسی زبان میں تھی اور میں نے آٹھویں جماعت [1951] میں پڑھی تھی ۔ یہی کتاب ایم اے فارسی کے کورس میں بھی تھی ۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے ایک استاذ سے استفسار کیا تو اُنہوں نے بتایا “آپ کیلئے امتحان میں آٹھویں جماعت کی سطح کے سوال ہوتے ہیں اور اُن کیلئے اُن کی تعلیمی سطح کے مطابق”۔ اس کتاب کی دو کہانیاں درویش اور کُتے کی ۔

درویش اور کُتا ۔ پہلی کہانی ایک درویش کو ایک کُتے نے کاٹ لیا ۔ درد کے مارے درویش کے آنسو نکل آئے ۔ اس کی ننھی بیٹی پوچھنے لگی “بابا ۔ روتا کیوں ہے ؟” وہ بولا “کُتے نے کاٹا ہے”۔ بیٹی بولی “کُتا آپ سے بڑا تھا؟” درویش بولا “نہیں ۔ بیٹی”۔ پھر بیٹی بولی” تو آپ بھی اُس کو کاٹ لیتے”۔ درویش بولا”بیٹی ۔ میں انسان ہوں اسلئے کُتے کو نہیں کاٹ سکتا”۔

آج کتنے انسان ہیں جو اپنے ہر عمل سے پہلے اُسے انسانیت کی کَسوَٹی پر پرکھتے ہیں ؟

درویش اور کُتا ۔ دوسری کہانی ایک درویش نے ایک کُتا پال رکھا تھا ۔ بادشاہ کا وہاں سے گذر ہوا تو از راہِ مذاق درویش سے پوچھا “تم اچھے ہو یا تمہارا کُتا ؟” درویش نے کہا “یہ کُتا میرا بڑا وفادار ہے ۔ اگر میں بھی اپنے مالک کا وفادار رہوں تو میں اس کُتے سے بہتر ہوں کہ میں انسان ہوں ورنہ یہ کُتا مجھ سے بہتر ہے”۔

آج کتنے لوگ ہیں جو اپنے خالق و مالک کے وفادار ہیں ؟
اللہ ہمیں اصل کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے ۔

پٹرول ۔ روٹی ۔ بھرا خزانہ اور جگا ٹیکس

میں کہتا ہوں کہ پاکستان میں پٹرول بہت مہنگا ہو گیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ساری دنیا میں مہنگا ہو گیا ہے ۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جب پرویز مشرف نے پاکستان پر ناجائز قبضہ کیا تھا تو پاکستان میں 90 اَوکٹن پٹرول کے ایک لیٹر کی قیمت 22.63 روپے تھی جو کہ اب اسلام آباد میں 62.88 روپے ہے باقی شہروں میں کچھ زیادہ ہے ۔ موجودہ قیمت مختلف پیمانوں سے اور سِکّوں میں مندرجہ ذیل ہے ۔

قیمت بحساب ۔ پاکستانی روپے ۔ ہندوستانی روپے ۔ برطانوی پاؤنڈ ۔ امریکی ڈالر
فی لیٹر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 62.88 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 38.58 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0.50 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1.00
فی امپیریل گیلن ۔ 285.85 ۔ ۔ ۔ ۔ 175.37 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2.28 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.55
فی امریکی گیلن ۔ ۔ 238.03 ۔ ۔ ۔ ۔ 146.03 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1.90 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3.79

پاکستانی عوام کی طاقتِ خرید کا اندازہ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے ہوتا ہے ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان ۔ ۔ ہندوستان ۔ ۔ ۔ برطانیہ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکہ
فی کس سالانہ آمدن ۔ ۔ 690 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 720 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 37600 ۔ ۔ ۔ 43740
غربت کی سطح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 140 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 137 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6

اُمید کرتا ہوں کہ قارئین جو پاکستان سے باہر رہائش پذیر ہیں وہاں 90 اَوکٹین پٹرول کی قیمت سے آگاہ فرمائیں تاکہ موازنہ کیا جا سکے ۔ [پٹرول کو گیسولین یا موٹر سپرٹ بھی کہا جاتا ہے] ۔ قیمت فی لیٹر یا فی امپیریل گیلن یا فی امریکن گیلن بتائی جا سکتی ہے ۔ جو قارئین ہندوستان ۔ برطانیہ یا امریکہ کے علاوہ کسی ملک میں رہائش پذیر ہیں وہ قیمت امریکی ڈالر میں لکھیں ۔

روٹی

روٹی جو جنوری 2000ء میں ڈیڑھ روپے کی تھی اب 5 روپے کی ہے ۔ ڈبل روٹی 13 روپے کی تھی اب 36 روپے کی ہے ۔ آٹا چکی کا پسا ہوا 10 روپے کلو تھا اب 25 روپے کا ہے ۔ بہترین چاول 32 روپے کلو تھے اب 90 روپے کے ہیں ۔ بناسپتی گھی 56 روپے کلو تھا اب 130 روپے کا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔

بھرا ہوا خزانہ

پچھلے 8 سال میں پرویز مشرف نے اپنے وزیرِ اعظم شوکت عزیز اور آقا امریکہ کے مشوروں سے خزانہ بھرنے کا فن سیکھا کہ قرضے جو 2001ء کے آخر تک لئے تھے اُن کی واپسی 5 سال کیلئے متأخر اور مزید قرضے لو ۔ مُلک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں نے امریکہ کے ہاتھوں ساری عمر کی کمائی منجمد ہو جانے کے ڈر سے اپنے حسابات پاکستان منتقل کر دیئے تو اس زرِ مبادلہ کو بھی حکومتی خزانہ میں شمار کر لیا گیا ۔ باقی قصر عوام کے استعمال کی ہر چیز پر ٹیکس لگا کر پوری کی گئی ۔ یہ قرضے اب 18 فروری 2008ء کو منتخب ہونے والی حکومت کو “سر منڈاتے ہی اَولے پڑے” کے مصداق ادا کرنا ہوں گے ۔

جگا ٹیکس

اِس زُمرے کے ٹیکس جو میرے علم میں ہیں ۔

ہر چیز جو خریدی جائے اس پر 15 فیصد بکری ٹیکس [sales tax] ہے ۔ یہ کئی اشیاء پر 65 فیصد تک ہو جاتا ہے اس طرح کہ کارخانہ دار یا درآمد کنندہ نے دیا پھر تھوک فروش نے دیا پھر پرچون فروش نے دیا پھر استعمال کرنے والے نے دیا ۔
بِکری ٹیکس خدمات پر بھی ہے ۔ اگر کسی کو آمدن ہو تو اس سے آمدن ٹیکس بھی لیا جاتا ہے ۔ اسلئے مریض ڈاکٹر کی فیس اور دوا دونو میں علیحدہ علیحدہ بکری ٹیکس دیتا ہے اور ڈاکٹر کے آمدن ٹیکس کا بھی حصہ دار بنتا ہے ۔
نام سے تو یہی ظاہر ہے کہ آمدن ٹیکس [income tax] آمدن پر ہوتا ہے لیکن بجلی ۔ ٹیلیفون اور گیس کے بِل جو اخراجات ہیں آمدن نہیں اِن پر صارفین سے بِکری ٹیکس اور آمدن ٹیکس دونو لئے جاتے ہیں ۔
اگر کوئی بنک میں اپنے حساب سے ایک لاکھ روپے نکلوائے تو اس کے حساب میں سے 200 روپے آمدن ٹیکس کٹ جاتا ہے ۔ زیادہ نکلوائے تو اِسی حساب سے کٹیں گے ۔
جنوری 2008 کے ایک حکمنامہ کے تحت اگر آپ کا نادرا کا شناختی کارڈ ایک شہر کا بنا ہوا ہو اور آپ اس کی کاپی کسی دوسرے شہر میں کسی حکومتی دفتر میں پیش کریں تو وہ اس وقت تک قبول نہیں کی جائے گی جب تک آپ نادرا سے تصدیق [verification] نہ لے کر آئیں ۔ اس کیلئے آپ کو ایک دن ضائع کرنا پڑے گا اور 50 روپے نادرا کو ادا کرنا ہوں گے ۔
جب مُلک میں ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے کوئی پاکستانی کسی دوسرے مُلک میں ملازمت تلاش کر لے تو وہ ہوائی جہاز پر نہیں بیٹھ سکتا جب تک وہ پاسپورٹ پر محافظ مُہر [protector stamp] نہ لگوائے ۔ اس کیلئے سرکار نے وکیل [agent] مقرر کر رکھے ہیں ۔ انہیں پانچ سات ہزار روپیہ دے کر کام کروایا جا سکتا ہے ۔ اگر خود کروانا ہو تو کئی چکر لگوائے جاتے ہیں ۔ اور پھر بھی ترجمہ کے 500 روپے فی صفحہ ۔ بہبود کے 1050 روپے ۔ انشورنس کے 650 روپے اور مُہر کے 2500 روپے دینا پرتے ہیں ۔

ووٹ کس کو دیا

جب دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کی حالت پتلی ہو گئی تو مفکرین نے اس دور کے وزیرِ اعظم سر ونسٹن چرچل سے اپنی فکر بیان کی تو سر ونسٹن چرچل نے اُن سے پوچھا ” کیا ہماری عدالتیں عوام کو انصاف مہیا کر رہی ہیں ؟” سب نے متفقہ طور پر ہاں میں جواب دیا تو سر ونسٹن چرچل نے کہا “پھر کسی فکر کی ضرورت نہیں”۔

پاکستان مسلمانوں کیلئے بنایا گیا اور اب بھی مسلمانوں کا مُلک ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم ہے
“اے ایمان والو ۔ تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ [گواہی] خود تمہارے اپنے یا والدین یا رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ [جس کے خلاف گواہی ہو] مال دار ہے یا محتاج ۔ اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ اور اگر تم پیچ دار بات کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے”۔ سورت ۔ 4 ۔ النساء ۔ آیت ۔ 135

ہمارے ملک کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 3 نومبر 2007ء کو مُلک کی اعلٰی عدالتوں کے 60 معزّز جج صاحبان کو عوام کو انصاف مہیّا کرنے کی پاداش میں بر طرف کر کے آج تک ان کی رہائش گاہوں پر قید رکھا گیا ہے ۔ اے پی ڈی ایم نے تو انتخابات سے قطع تعلق کیا ہوا ہے جو میرے خیال میں مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ میدان میں موجود سیاسی جماعتوں میں ایک جماعت ہے جو 60 معزّز جج صاحبان کی فوری بحالی اور عدلیہ کی انتظامیہ سے آزادی کی علمبدار ہے ۔ وہ ہے مسلم لیگ نواز ۔

اسلئے میرے خاندان اور میرے بہن بھائیوں کے پورے خاندان 17 افراد نے اسلام آباد ۔ راولپنڈی ۔ واہ اور لاہور میں شیر پر ٹھپہ لگایا ہے ۔ اس بار حکومت نے مُلک سے باہر پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا اسلئے ہم بہن بھائیوں کے خاندانوں کے مُلک سے باہر 16 ووٹ ضائع ہو گئے ہیں

سرکاری جگا ٹیکس

پرویز مشرف کو لوگوں نے قائدِ قلّت تو کہنا شروع کر دیا ہے لیکن اُس کے بڑے کارنامے پر نظر نہیں ڈالی ۔ وہ ہے سرکاری جگا ٹیکس ۔ جو صرف ایک یا دو جگہ نہیں کئی جگہ اور کئی بار وصولنے کا بندوبست ہے ۔

پاسپورٹ فیس کو مختلف بہانوں سے 10 گنا کر دیا گیا

نادرا قائم کر کے شناختی کارڈ فیس 17 گنا کر دی گئی اور شناختی کارڈ دائمی ہوتا تھا ۔ اس کی معیاد اسطرح مقرر کی گئی کہ اگر کوئی شخص 80 سال زندہ رہے تو وہ 12 دفعہ شناختی کارڈ بنوائے اور اسطرح ساری عمر جگا ٹیکس ادا کرتا رہے ۔

جب نادرا کا بنایا ہوا شناختی کارڈ متعارف کرایا گیا تو سال دو سال تک اس کے غیرمتنازع ہونے کے دعوے کئے جاتے رہے ۔ پرویزی حکومت نے پچھلے سال تمام محکموں کو حکمنامہ جاری کیا کہ نادرا کے شناختی کارڈ کی مصدقہ فوٹو کاپی لی جائے اور اس کے ساتھ سائل کو نادرا سے اپنے نادرا کے بنائے ہوئے شناختی کارڈ کی تصدیق لانے کا کہا جائے ۔ نادرہ کے صرف چند دفاتر تصدیق کرنے کے مجاز ہیں ۔ چنانچہ سائل کو پہلے نادرا کی متعلقہ برانچ تلاش کرنا پڑتی ہے اور پھر لمبی قطار میں کھڑے ہو کر 50 روپے کے عوض ایک تصدیقی پرچی لینا پڑتی ہے جو ہر بار نئی لینا ہو گی ۔

اگر کسی پاکستانی کو ملک سے باہر ملازمت مل جائے تو پاسپورٹ پر ویزہ لگوانے کے بعد ضروری ہے کہ امیگریشن اتھارٹی سے منظوری لی جائے جس کیلئے فیس جمع کرانا ہوتی ہے ۔ امیگریشن اتھارٹی جانے والے کو روک بھی سکتی ہے جس سے بچنے کیلئے کسی کی مُٹھی گرم کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔

تمام اشیاء پر بشمول خوردنی اور ادویاء پر 10 سے 30 فیصد ٹیکس

پٹرول پر پٹرول کی قیمت سے 2 گنا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے ۔ خیال رہے کہ اکتوبر 1999ء میں پٹرول کی قیمت بشمول ٹیکس سوا 22 روپے فی لیٹر تھی جو کئی سالوں سے 53 روپے 77 پیسے ہے اور اب حکومت چھ سات روپے فی لیٹر بڑھانا چاہتی ہے لیکن الیکشن میں کیو لیگ کے کلین بولڈ ہونے کے ڈر سے نہیں بڑھا رہی ۔

بجلی ۔ گیس اور ٹیلیفون کے بِلوں پر 15 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد ہے

کہا جاتا ہے کہ انکم ٹیکس آمدن پر لگایا جاتا ہے مگر پرویزی حکومت بجلی ۔ گیس اور ٹیلیفون کے بِل جو آمدن نہیں ہوتے بلکہ خرچہ ہوتے ہیں پر جنرل سیلز ٹیکس کے علاوہ انکم ٹیکس بھی کئی سال سے وصول کر رہی ہے ۔