Category Archives: آپ بيتی

جنہوں نے مجھے انسان بنایا

شام کو کھانا کھا کر اور دیگر فرائض سے فارغ ہو کر جب میں بستر پر دراز ہوتا ہوں تو کبھی کبھی نیند کی بجائے میں دُور ماضی کی پھُلواڑی میں پہنچ جاتا ہوں ۔ ایک ایسی ہی رات میں اپنے اساتذہ کو یاد کر کے آنسو بہاتا رہا جنہوں نے مجھے انسان بنایا ۔ آب وہ سب راہی مُلکِ عدم ہو چکے ہیں

میرے پرائمری جماعتوں کے اساتذہ مجھے اُردو کے ہدائت حسین ۔ حساب کے بھگوان داس اور انگریزی کی مسز گُپتا یاد آتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اُستاذ ہدائت حسین نے کس طرح پہلے میری کاپی پر خود لکھ کر اور پھر مجھ سے لکھوا کر مجھے پہلی جماعت میں اُردو لکھنا سکھائی تھی ۔ اُستاذ بھگوان داس ہر بچے کی کاپی دیکھ کر اُسے اُس کی غلطی سمجھاتے اور اگر سوال ٹھیک حل کیا ہوتا تو شاباش دیتے ۔ مسز گپتا ہر بچے سے ایسے برتاؤ کرتیں جیسے اُن کا اپنا اور لاڈلا بچہ ہو ۔ وہ ہمیں انگریزی کی اچھی اچھی نظمیں بھی سُناتيں

چھٹی اور ساتویں جماعتوں کے اُستاذ ہدائت حسین [یہ مُختلف ہیں] جنہوں نے ہمیں حساب اور الجبرا پڑھایا ۔ ان کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ۔ اُنہیں مجھ پر اتنا اعتماد تھا کہ کوئی واقعہ ہو جائے اور حقیقت معلوم نہ ہو رہی ہو تو مجھے بلا کر پوچھتے کہ کیا ہوا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں سچ بولنے میں بہت دلیر ہو گیا

آٹھویں جماعت میں انگریزی کے اُستاذ نذیر احمد قریشی اور ریاضی کے اُمید علی اور ڈرائنگ کے اللہ بخش ۔ میں نے درُست انگریزی لکھنے میں جو مہارت حاصل کی وہ اُستاذ نذیر حسین قریشی صاحب کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ وہ میٹرک یا ایف اے پاس تھے مگر انگریزی میں اُنہوں نے ہمیں بی اے کے برابر کر دیا ۔ سارا سال بشمول گرمیوں کی چھٹیوں کے اُنہوں نے ہمیں ایک گھنٹہ روزانہ بغیر کسی معاوضہ کے فالتو پڑھایا ۔ ہمارا روزانہ امتحان لیتے ۔ ایک بار میرے 10 میں سے 9 نمبر آئے ۔ دسمبر کا مہینہ تھا ۔ ٹھنڈے ہاتھ پر ڈنڈا مارا ۔ میرا ہاتھ سُوج گیا ۔ میں نے کبھی مار نہ کھائی تھی اس لئے درد کچھ زیادہ ہی محسوس ہوا ۔ میں آواز کے ساتھ کبھی نہیں رویا ۔ اس وقت بھی میں منہ چھپا کر آنسو بہاتا رہا ۔ مجھے نہیں معلوم کون سے ہم جماعت شام کو اُستاذ کے گھر گئے اور میرے ساتھ زیادتی کی شکائت کی ۔ دوسرے دن اُستاذ میرے پاس آئے ۔ میرا ہاتھ پکڑ کر پیار کیا اور کچھ بولے بغير ایک دم دوسری طرف منہ کر کے چل دیئے ۔ بعد میں ہم جماعتوں نے بتایا کہ اُستاذ کے آنسو بہہ رہے تھے ۔ کچھ دن بعد اُستاذ نے ساری جماعت کے سامنے کہا “آپ سب مجھے اسی طرح پیارے ہیں جیسے میرے اپنے بچے ہیں ۔ اجمل ہمیشہ سو فیصد نمبر لیتا ہے ۔ اُس نے 10 میں سے 9 نمبر لئے تو مجھے بہت دُکھ ہوا تھا ۔ میں اپنے بچوں کی بھی پٹائی کرتا ہوں”۔ اُستاذ اُمید علی نے ایک ایک لڑکے کو اس طرح کر دیا کہ آٹھویں جماعت کا پورا ریاضی کا کورس وہ از بر جانتا تھا ۔ اُستاذ اللہ بخش صاحب نے مجھے ڈرائينگ کرنے کا گُر سکھا ديا

نویں اور دسویں جماعتوں میں انگریزی کے اُستاذ ظہور احمد ۔ سائنس کے شیخ ہدائت اللہ اور ڈرائنگ کے اللہ بخش ۔ سب ہی اعلٰی اور محنت سے پڑھانے والے ہمدرد انسان تھے ۔ انہوں نے ہمیں گرمیوں کی چھٹیوں میں بھي ایک ایک ماہ کے لئے ایک گھنٹہ روزانہ پڑھایا

گیارہویں اور بارہویں جماعتوں میں انگریزی کے وی کے مَل ۔ ریاضی کے خواجہ مسعود اور کیمسٹری کے نسیم اللہ ۔ انجنیئرنگ کالج کے بزرگ اکمل حسین [ایک اکمل بعد میں بھی تھے] ۔ عنائت علی قریشی ۔ مختار حسین اور عبدالرحمٰن ناصر ۔ چوہدری محمد رشید ۔ احمد حسن قریشی ۔ ظفر محمود خلجی ۔ اکرام اللہ ۔ محمد سلیم الدين ۔ منیر ۔ سب ہی ایک سے ایک بڑھ کر تھے اور ہمیں بڑی محنت سے پڑھايا

اساتذہ اور بھی بہت تھے جنہوں نے ہمیں پڑھایا ۔ میں اُں کا احترام کرتا ہوں لیکن ذکر صرف اُن کا کیا ہے جن کا کردار غیرمعمولی تھا ۔ پرائمری سے لے کر انجنیئرنگ کالج تک کے ہمارے اِن اساتذہ نے پڑھائی کے علاوہ ہمیں معاشرتی تربيت بھی دی اور ہمیں ایک اچھا انسان بننے میں ہماری رہنمائی کی

یادگار سفر اور خوبصورت شیر

میں نے ڈائری کے سلسلے میں اپنے جموں سے سرینگر جس سفر کا ذکر کیا تھا وہ حادثاتی طور پر میرے لئے بہت دلچسپ بن گیا تھا مجھے شیروں کے ساتھ کھیلنے نہ دیا گیا ۔ وہ میرے ساتھ کیسا سلوک کرتے ؟ معلوم نہ ہو سکا ۔ بہر حال وہ میرا ایک یادگار سفر ہے

ہمیں 1946ء میں سکول سے گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں ۔ ہمارے والدین فلسطین میں تھے میں اور میری دونوں بہنیں جو مجھ سے بڑی ہیں چھٹیاں شروع ہونے پر اپنی پھوپھی اور دو قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ایک دن صبح سویرے گھر سے نکلے اور ٹانگے پر بیٹھ کر بس کے اڈا پر پہنچ گئے ۔ سورج نکلنے سے پہلے ہی بس روانہ ہوئی ۔ بس میں کُل 6 سواریاں بیٹھنے کی اور پیچھے سامان رکھنے کی جگہ تھی ۔ میں کچھ تنگی محسوس کر رہا تھا ۔ پوچھ کر پیچھے سامان کے اُوپر چڑھ کے کبھی بیٹھتا اور کبھی لیٹتا رہا ۔ سورج چڑھنے کے بعد ہم اُودھم پور پہنچے ۔ وہاں پُوڑے بن رہے تھے سب نے گرم گرم پُوڑوں سے ناشتہ کیا ۔ ہم لوگ آجکل والی انگریزی چائے نہیں پیتے تھے ۔ نمکین چائے جسے آجکل کشمیری چائے کہتے ہیں یا قہوہ جسے آجکل چائنیز ٹی [Chinese Tea] کہتے ہیں پیتے تھے ۔ پوڑوں کے ساتھ سب نے قہوہ پیا

اُودھم پور سے بس روانہ ہوئی تو اُونچے پہاڑوں پر چڑھنے لگی ۔ بس پہاڑ کے ساتھ ایک سمت کو جاتی پھر گھوم کر واپس آتی پھر واپس اُدھر جاتی پھر اِدھر آتی ۔ اُوپر چڑھنے پر ہم جس سڑک سے آئے تھے نیچے ایک رسی کی مانند دائیں بائیں بَل کھاتی نظر آنے لگی۔ بس کی رفتار اتنی تھی کہ کوئی شخص اس کے ساتھ بھاگ کر آگے نکل سکتا تھا ۔ ایک طرف سے پہاڑ پر چڑھ کر بس دوسری طرف اُترنا شروع ہو گئی ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ عمل کتنی بار دوہرایا گیا

عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا بس آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکی تھی کہ رام بن کے علاقہ میں دریائے چناب کا پُل گذر کر بس کوئی 20 میل آگے گئی تھی کہ کھڑی ہو گئی ۔ معلوم ہوا کہ بس کے پچھلے ایک پہیئے کی نابھ یا دھُرا [hub] ٹوٹ گیا ہے جو کہ جموں یا سرینگر سے لایا جائے گا ۔ مغرب کے وقت ڈرائیور گزرنے والی بس میں بیٹھ کر سرینگر چلا گیا بس میں باقی ایک مرد ۔ دو عورتیں اور ہم تین بچے رہ گئے ۔ قصہ کوتاہ بس وہاں دو راتیں اور ایک دن کھڑی رہی

جو کچھ ہمارے پاس تھا ہم نے پہلی رات کو کھا لیا ۔ رات کو سب بس میں بیٹھے اُونگ رہے تھے ۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی اور بس سے باہر نکلنے کیلئے بے چین تھا ۔ آخر موقع پا کر بغیر آواز پیدا کئے بس سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔ چاندنی رات تھی ۔ اُونچے اُونچے پہاڑ اور سڑک کے ساتھ گہری وادی جس میں چناب دریا کا شفاف پانی بہہ رہا تھا ۔ خاموشی اتنی کہ بہتے پانی کا ارتعاش عجب موسیقی پیدا کر رہا تھا ۔ فضا انتہائی خوشگوار تھی ۔ پہلے میں ٹہلتے ہوئے بلند پہاڑوں پر غور کر کے لُطف اندوز ہوا پھر نیچے وادی اور اس میں بہتے پانی کا نظارہ کیا ۔ وادی بہت گہری تھی پھر بھی نیچے پانی تک جانے کی خواہش نے دل میں چُٹکی لی ۔ وادی میں اُترنے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک مجھے نیچے پانی کے قریب کچھ نظر آیا ۔ یہ دو شیر تھے ۔ وہ مجھے اتنے خُوبصورت لگے کہ جی چاہا جلدی سے ان کے پاس جا کر اُن سے کھیلوں ۔ میں پہاڑوں پر چڑھنے اُترنے کا عادی تھا مگر سڑک کے ساتھ ایکدم گہرائی ہونے کی وجہ سے نیچے اُترنے کا کوئی طریقہ نظر نہیں آ رہا تھا ۔ اچانک بڑی خاموشی کے ساتھ کوئی پیچھے سے مجھے دبوچ کر بس میں لے گیا ۔ وہ میری پھوپھی تھیں جنہوں نے نیند کھُلتے ہی مجھے ڈھونڈا اور بس سے باہر نکلنے سے پہلے ہی اُن کی نظر شیروں پر پڑی تھی

دوسرے دن صبح سویرے ہی کھانے کی فکر ہوئی ۔ ایک رشتہ دار مرد جو ہمارے ساتھ تھے سڑک پر پیدل چلتے ہوئے گئے اور دو گھنٹے بعد ایک چھوٹے سے گاؤں رام سُو سے ساگ ۔ گھی اور کچھ نمک مرچ وغیرہ لے آئے ۔ پتھروں کا چولہا بنایا ۔ اِدھر اُدھر سے سوکھی لکڑیاں چُن کر آگ چلائی گئی ۔ چاول ہمارے پاس تھے ۔ چاول اور ساگ پکائے گئے ۔ ہم نے وہ ساگ نہ پہلے کھایا تھا نہ بعد میں کبھی کھایا ۔ رات کو ڈرائیور نابھ لے کر پہنچ گیا ۔ ساتھ ایک مستری بھی لایا اور نابھ تبدیل کیا گیا ۔ اُس سڑک پر رات کو سفر نہیں کیا جاتا تھا ۔ اسلئے اگلی صبح سرینگر روانہ ہوئے ۔ جب بس راستہ میں قاضی کُنڈ پہنچی تو مجھے چھوٹی چھوٹی پیاری سی ٹوکریوں میں خوبصورت چھوٹی چھوٹی ناشپاتیاں دکانوں پر نظر آئیں اور میں بھاگ کر ناشپاتیاں لے آیا اور سب نے کھائیں ۔ ناشپاتیاں خوبصورت اور بہت لذیذ تھیں

سرینگر میں ہم نے جہلم دریا میں مِیرا قدل [قدل پُل کو کہتے ہیں] کے قریب کشتی پر بنے گھر [House Boat] میں قیام کیا ۔ اس میں دو کافی بڑے سونے کے کمرے دو غسلخانے اور بہت بڑا بیٹھنے اور کھانے کا کمرہ تھا ۔ اس بڑی کشتی کے ساتھ ایک چھوٹی کشتی تھی جس میں باورچی خانہ اور نوکروں کے رہنے کا بندوبست تھا ۔ نوکر ہاؤس بوٹ والا ہی مہیا کرتا تھا ۔ سبزی پھل خریدنے کہیں نہیں جانا پڑتا تھا ۔ سبزی پھل اور مچھلی سب کچھ کشتیوں میں بیچنے آ جاتے تھے ۔ چھوٹی مچھلیاں لینا ہوں تو اسی وقت دریا میں جال ڈال کر پکڑ دیتے تھے

سرینگر میں ہم حضرت بَل ۔ نسیم باغ ۔ نشاط باغ اور جھیل ڈَل ۔ وغیرہ کی سیر کو گئے ۔ پھلوں کے باغات میں بھی گئے ۔ ایک باغ میں گلاس [Cherry] کے درخت تھے جو اس طرح لگائے گئے تھے کہ چاروں طرف سے بالکل سیدھی قطاروں میں تھے ۔ ان پر لگے گلاس بہت خُوبصورت منظر پیش کر رہے تھے ۔ گلاس دو قسم کے تھے ۔ مالی نے ہمیں دونوں چکھائے ۔ کالے بہت میٹھے تھے جبکہ سُرخ کچھ تُرش تھے ۔ ہم نے کالے والے ایک سیر خریدے جو اُس نے درخت سے اُتار کر دیئے ۔ ہم آلو بخارے ۔ بگو گوشے اور بادام کے باغات میں بھی گئے ۔ قریبی پہاڑوں پر گلمرگ ۔ ٹن مرگ ۔ کُلگام ۔ پہلگام ۔ وغیرہ بھی دیکھے ۔ وہاں بہت سردی تھی کئی جگہ برف پڑی ہوئی تھی ۔ ایک ماہ رہ کر ہم واپس جموں لوٹے ۔ ایک رات راستہ میں ہوٹل میں گذاری اور دوسرے دن گھر واپس پہنچے ۔ واپسی کا سفر بغیر کسی اہم واقعہ کے گذرا

یونہی خیال آ گیا

کچھ روز قبل ایک کتاب پڑھنے کے بعد میں نے جو کچھ پڑھا تھا بستر پر دراز اس کے متعلق سوچ رہا تھا تو میں اس دُنیا سے گُم ہو گیا ۔ جب واپسی ہوئی تو میرا تکیہ تر تھا ۔ اچانک میرے ذہن میں ان فقروں نے جنم لیا

پیار کو ہم نے سوچ کے اپنایا ہوتا
صرف آپ کو رہنما اپنا بنایا ہوتا
آج ہم بھی ہوتے اللہ کے پیاروں میں
گر آپ کو جان سے محبوب بنایا ہوتا

Click on “Reality is Often Bitter” to read my another blog with different posts and articles or write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.com

آہ ۔ میری ڈائری اور میرا خزانہ

رات میں سونے کیلئے بستر پر دراز ہوا تو ماضی کی ایک یاد داشت کی تلاش میں ماضی میں بہت دُور نکل گیا اور کچھ دیر بعد بے ساختہ گنگنانے لگا

میری دنیا لُٹ گئی تھی مگر میں خاموش رہا
ٹکڑے اپنے دل کے چُنتا کس کو اِتنا ہوش تھا

لُٹا تھا کس طرح ؟

میرا خیال ہے کہ مناسب ماحول ملے تو ہر لکھنا جاننے والا ڈائری لکھے ۔ میں نے کتنی عمر میں ڈائری لکھنا شروع کی مجھے یاد نہیں ۔ میرے انجیئر بن جانے کے بعد میرے بزرگوں نے مجھے بتایا تھا کہ میں جب تیسری یا چوتھی جماعت میں تھا تو 1946ء کی گرمیوں میں جموں سے سرینگر اور واپسی کے سفر کا حال جو میں نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا وہ زبردست تھا ۔ یہ ڈائری تو 1947ء میں پاکستان کی طرف ہجرت کے وقت جموں میں ہی رہ گئی تھی کہ ہم تین کپڑوں میں اپنی جان بچا کر نکلے تھے ۔ مجھے یاد نہیں میں نے کیا لکھا تھا ۔ اتنا یاد ہے کہ سفر دلچسپ تھا جو راستے میں بس خراب ہوجانے کی وجہ سے شاید بڑوں کیلئے پریشانی لیکن میرے لئے مزید دلچسپ بن گیا تھا

ہمارا سالانہ امتحان فروری یا مارچ 1947ء میں ہونا تھا لیکن فسادات شروع ہونے کی وجہ سے سکول بند ہو گئے ۔ میں وسط دسمبر 1947ء میں پاکستان پہنچا اور مجھے 1948ء میں سکول داخل کرایا گیا ۔ اس طرح میرا پڑھائی کا ایک سال ضائع ہو گیا ۔ 1948ء کے آخر میں ہم راولپنڈی آ گئے جہاں مجھے اسلامیہ مڈل سکول سرکلر روڈ داخل کرا دیا گیا ۔ سکول کے کام کی مشق کرنے کیلئے کاغذ کا دستہ لے کر آیا ۔ میں نے تین ورق نکال کر ان سے سوا چار انچ ضرب ساڑھے تین اِنچ کی ڈائری بنائی ۔ پھر جو نئی چیز نظر آتی یا جو چیز پسند آتی ۔ شعر ۔ سائنس کی وہ باتیں جو ہماری کتاب میں نہ تھیں اور سفر کا حال وغیرہ سب کچھ میں اس میں لکھتا رہتا

میں جب آٹھویں جماعت میں تھا تو دوسرے ممالک کے متعلق جاننے کا شوق ہوا ۔ میں نےترکی ۔ اٹلی ۔ فرانس ۔ جرمنی ۔ ہسپانیہ اور ہالینڈ کے سفیروں کو انگریزی میں خط لکھے کہ میں ان کے مُلک میں دلچسپی رکھتا ہوں اور تعلیم اور سیر و سیاحت کے مواقع جاننا چاہتا ہوں ۔ ان سفیروں نے مجھے رنگین تصاویر والی کُتب اور رسالے بھیجے جن میں تعلیم اور سیاحت کی سب معلومات تھیں ۔ میری الماری ان کتابوں اور رسالوں سے بھر گئی جو میں پڑھتا رہتا تھا اور میرے دل میں ان ممالک کی سیر کی زبر دست خواہش پیدا ہوئی ۔ اس کے علاوہ میں اخباروں کے تراشے بھی جمع کرتا رہتا تھا جن میں حافظ مظہرالدین صاحب کی جموں کشمیر اور تحریکِ پاکستان کے متعلق نظمیں بھی شامل تھیں

دسویں میں کامیابی کے بعد مجھے ہر سال کہیں نا کہیں سے خوبصورت ڈائری مل جاتی تھی سو مجھے سہولت ہو گئی ۔ میرا ڈائری لکھنے کا شوق ہمیشہ قائم رہا ۔ میں نے انجنیئرنگ پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ راولپنڈی پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ میں ملازمت کی ۔ یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت اختیار کی اور واہ چھاؤنی میں اپنی بڑی بہن کے پاس رہنے لگا

سیٹلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ہمارا گھر تیار ہونے پر میرے گھر والے یکم اگست 1964ء کو جھنگی محلہ راولپنڈی سے سیٹلائیٹ ٹاؤن منتقل ہو گئے ۔ یہ منتقلی اچانک ہی ہوئی تھی ۔ مجھے اس کی خبر نہ ہوئی ۔ 1948ء سے لے کر اُس وقت تک میں نے اپنی ساری کتابیں ۔ نوٹس ۔ ڈائریاں ۔خاص خاص رسالے ۔ اخباروں کے تراشے اور متذکرہ بالا معلوماتی کتب سب سنبھال کر رکھے ہوئے تھے ۔ دو بڑی الماریاں بھری پڑی تھیں ۔ صرف انجنیئرنگ کی کُتب میں اپنے ساتھ واہ چھاؤنی لے گیا تھا ۔ میرے چھوٹے ماشاء اللہ تین بھائیوں نے سمجھا یہ سب ردی ہے کیوں نہ بیچ کر جیب خرچ بنایا جائے ۔ یوں 1964ء میں میری دنیا لُٹ گئی اور میرا دل اور جگر اندر ہی اندر خون کے آنسو روتے رہے مگر زبان کچھ کہہ نہ سکی ۔ خاموش نوحہ میں ہی عافیت سمجھی ۔

اُس دن مجھ پر واضح ہو گیا تھا کہ ہمارے مُلک میں علم کی کوئی قدر نہیں ۔صرف سندیں حاصل کرنا ہی تعلیم کا مقصد ہے علم حاصل کرنے کیلئے نہیں ۔ ایک میں ہی بیوقوف ہوں جو بچپن سے اب تک علم سیکھنے کے پیچھے پڑا رہتا ہوں

دبئی کیسا لگا

میں پہلی بار مارچ یا اپریل 1975ء میں متحدہ امارات گیا تھا ۔ میں امارات کی حکومت کی دعوت پر ایک خاص کام کیلئے جس کا مجھے ماہر تصوّر کیا جاتا تھا وطنِ عزیز کی نمائیندگی کر رہا تھا ۔ ہم ایک جماعت کی شکل میں گئے تھے جس میں میرے علاوہ جوائنٹ سیکرٹری ڈیفنس پروڈکشن ۔ ایک لیفٹننٹ کرنل ۔ 2 میجر ۔ ایک اسسٹنٹ ورکس منیجر اور 9 صوبیدار سے حوالدار تک کے عہدوں کے فوجی تھے ۔ جوائنٹ سیکرٹری صاحب انتظامی امور کیلئے گئے تھے لیکن ان کا کوئی عملی کردار نہ تھا کیونکہ سارا بندوبست امارات میں متعیّن پاکستانی سفارتخانہ کے کونسلر صاحب نے کیا ۔ مجھے جماعت کا فنی سربراہ [Technical Head] مقرر کیا گیا تھا ۔ شیخ راشد جن کا بیٹا محمد اب دبئی کا حکمران ہے نے مہمانوں والی کار کے ساتھ ایک باوردی کپتان میرے ساتھ لگا رکھا تھا جس کی وجہ سے آزادانہ گھومنا آداب کے خلاف تھا ۔ مختصر قصہ بیان کر دیا ہے کہ صورتِ حال سمجھ میں آ سکے ۔

اُس زمانہ میں دبئی شہر اتنا چھوٹا تھا کہ سارا ایک دن میں پیدل گھوما جا سکتا تھا ۔ دبئی شہر وطنِ عزیز کے کسی چھوٹے شہر کا مقابلہ کرتا تھا ۔ دکانوں کی ترپالیں اور چھپّر مجھے اب بھی یاد ہیں ۔ شہر سے باہر کچھ نئی عمارات بن رہی تھیں ۔ دبئی سے العین اور ابوظہبی کی سڑک آدھی کے قریب بن چکی تھی ۔ اب وہ سڑک نئی سڑکوں کے جال میں گم ہو چکی ہے ۔ میں نے الشارقہ [Sharjah] ۔ العین اور ابوظہبی بھی دیکھا تھا ۔ اُن کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔ ابوظہبی کا شہر کافی بڑا تھا ۔ اُس کے بعد دبئی پھر الشارقہ ۔

اب میں دبئی سے باہر نہیں جا سکا لیکن دبئی تو وہ دبئی رہا ہی نہیں جو میں نے 33 سال قبل دیکھا تھا ۔ اُس زمانہ میں صرف العین میں کچھ درخت دیکھے تھے ۔ دبئی میں ایک درخت بھی نظر نہ آیا تھا ۔ اب تو ہر طرف درخت اور ہریالی ہے ۔ اُس زمانہ کی مجھے ایک عمارت یا سڑک نظر نہیں پڑی ۔ ایک بات میں کہہ سکتا ہوں کہ اُس زمانہ کے دبئی میں اشیاء صرف وطنِ عزیز کی نسبت سستی تھیں اب سوائے الیکٹریکل اور الیکٹرانکس کے سب کچھ وطنِ عزیز کی موجودہ قیمتوں سے زیادہ پر بِک رہا ہے سوائے اسکے کہ کسی دکان پر مُک مُکا فروخت [clearance sale] لگی ہو ۔

دبئی میں شاید پوری دنیا کی قوموں کی نمائندگی موجود ہے ۔ دبئی کے باشندے 20 فیصد اور غیر مُلکی 80 فیصد ہیں ۔ جسے دیکھو بھاگا جا رہا ہے ۔ اگر کسی کو آرام سے چلتا دیکھا تو وہ مقامی تھا یا مقامی کے لباس میں پاکستانی ۔ ہر ملک کے وہاں ریستوراں یا ہوٹل بھی ہیں سو جیسا کھانا دِل چاہے کھایا جا سکتا ہے ۔ ہم نے پاکستانی ۔ مصری ۔ لبنانی ۔ سعودی ۔ ہندوستانی [تھالی] ۔ چینی ۔ فلپینی ۔ ملیشیائی ۔ کانٹیننٹل ۔ امریکی سب کھانے کھائے ۔ پاکستانی میں راوی کا کھانا مشہور ہے ۔ راوی کی ایک شاخ پر ہم تکہ کباب کا کہہ کر انتظار میں تھے اور دیکھ رہے تھے کہ پلاسٹک کے لفافوں میں دھڑا دھڑ ایک ہی قسم کے سادہ کھانے کے اجزاء رکھے جا رہے ہیں ۔ جب دو سو کے قریب ہو گئے تو ہمارا کھانا آیا پھر ہم نے دیکھا کہ وہ لفافے دو گاڑیوں پر سوار ہو کے کسی سمت چل دیئے ۔ ہم نے کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ راوی والے روزانہ کم آمدن والے لوگوں بالخصوص پاکستانیوں کو مفت کھانا مہیا کرتے ہیں ۔ سُبحان اللہ ۔

ایک دن ہم نے دیرہ جا کر کشتی کا سفر کیا اور اس میں کھانا بھی کھایا ۔ ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر تھا جو پُرلُطف رہا ۔ کھانا جو بھی کھائیں اچھا تھا ۔ جس کی وجہ سے میں کچھ زیادہ ہی کھاتا رہا ۔ ہم پرانی دبئی بھی گئے لیکن وہاں گاڑی کھڑی کرنے کو کوئی جگہ نہ ملی ۔ سارے بازار میں بیٹا آہستہ آہستہ گاڑی چلاتا رہا اور ہم نظارہ کرتے رہے ۔ تنگ سڑکیں اور انسانوں سے بھری ہوئی ۔ وہاں سے نکلے تو عصر کا وقت ہو رہا تھا ۔ بیٹے نے ایک مسجد کے پاس جا گاڑی روکی اور ہمیں کہا آپ نماز شروع کریں میں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ ڈھونڈتا ہوں ۔ ہم نماز ختم کر چکے لیکن بیٹا نہ پہنچا ۔ پارکنگ میں تلاش کیا تو جگہ نہ ملنے کی وجہ سے گاڑی ہی میں بیٹھا تھا ۔ مزید 5 منٹ بعد ایک گاڑی نکلی تو وہاں گاڑی کھڑی کر کے کہنے لگا آپ لوگ اُدھر چلیں میں آتا ہوں ۔ چند منٹ چلنے پر ایک بازار نظر آیا جہاں لوگ دکانوں کے باہر کھڑے آنے والوں کو دکانوں میں خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ یہ علاقہ مرکز الکرامہ تھا

دبئی میں جو خاص باتیں مشاہدے میں آئیں یہ تھیں ۔ لوگ کسی کو پریشان نہیں کرتے نہ کسی پر آواز کستے ہیں نہ کسی پر ہنستے ہیں ۔ نہ کوئی اپنا رونا روتا ہے اور نہ کوئی بڑائی جتاتا ہے ۔ سب مشینوں کی طرح کام میں لگے ہیں یا بھاگے جا رہے ہیں ۔ آپ نے کیا پہن رکھا ہے ؟ یا کیا کھا رہے ہیں ؟ کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ۔ کسی کو کوئی غلط کام کرتے نہیں دیکھا ۔ شراب کی فروخت کھُلے عام ہے لیکں کھُلے عام شراب پینا جُرم ہے ۔ عورتیں بازاروں میں نیم عُریاں اور سمندر پر تقریباً ننگی ہوتی ہیں لیکن پیار محبت جتانا جُرم ہے ۔ ہر جگہ پولیس افسر موجود ہوتے ہیں جو شاید انہی چیزوں پر نظر رکھتے ہیں ۔ گھروں میں یا ہوٹلوں کے کمروں میں کیا ہوتا اور ساتھ ساتھ چلنے والے میاں بیوی یا کچھ اور ہوتے ہیں اس سے کسی کو غرض نہیں کیونکہ وہاں کی پولیس وطن عزیز کی پولیس کی طرح نکاح نامہ نہیں دیکھتی

سب سے زیادہ قابلِ ذکر لوگوں کا سڑکوں پر کردار ہے ۔ کوئی گاڑی والا زبردستی ایک قطار سے دوسری قطار میں جانے کی کوشش نہیں کرتا ۔ سڑک پر ٹریفک آہستہ آہستہ چل رہی ہے تو کوئی نہ قطار توڑنے کی کوشش کرتا ہے نہ ہارن بجاتا ہے ۔ ہر ڈرائیور قانون یا اصول کے مطابق دوسرے کا حق پہچانتا ہے اور اُسے راستہ دیتا ہے ۔ کوئی پیدل شخص زیبرا کراسنگ کے قریب فٹ پاتھ پر کھڑا ہو تو آنے والی گاڑیاں رُک جاتی ہیں تا کہ پیدل شخص سڑک پار کر لے ۔ اس کے برعکس وطنِ عزیز میں رہنے والوں کی اکثریت قانون کی خلاف ورزی اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ میرے وطن میں غیر مُلکیوں کی اکثریت بھی ایسا ہی کرتی ہے

میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com – – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے

محبت ۔ کیسی ؟

شاید ہی کوئی ہموطن ایسا ہو جسے لیلٰی مجنوں ۔ شیریں فرہاد ۔ ہیر رانجھا ۔ سسی پُنوں ۔ سوہنی مہینوال وغیرہ کے قصے معلوم نہ ہوں ۔ مُختصر یہ کہ لیلٰی کی محبت میں قیس مجنوں [پاگل] ہو گیا ۔ شیریں سے محبت میں فرہاد کو پتھر کی چٹانوں کو کھود کر نہر بناتے ہوئے جان دے دی ۔ ہیر کی محبت میں شہزادہ یا نوابزادہ رانجھا بن گیا ۔ سسی کی محبت میں اُس تک پہنچنے کی کوشش میں پُنوں ریت کے طوفان میں گھِر کر ریت میں دفن ہو کر غائب ہو گیا ۔ سوہنی کی محبت میں ایک ریاست کا شہزادہ سوہنی کی بھینسیں چرانے لگا ۔

یہ تو اُس محبت کی داستانیں ہیں جو دیرپا نہیں ہوتی اور جن کا تعلق صرف انسان کے جسم اور اس فانی دنیا سے ہے ۔

آج عرب دنیا میں ربیع الاوّل 1429ھ کی 12 تاریخ ہے اور پاکستان میں کل ہو گی ۔ اس تاریخ کو ہمارے نبی سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی ۔ ہمارے ملک میں ہر طرف بڑھ چڑھ کر رحمت العالمین سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم سے محبت کے دعوے ہو رہے ہیں اور اس محبت کو ثابت کرنے کیلئے کہیں محفلِ میلاد منعقد ہو رہی ہے اور کہیں شاندار جلوس نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں ۔ سب کے چہرے بشاس نظر آ رہے ہیں لیکن نجانے کیوں میں اندر ہی اندر گھُلتا جا رہا ہوں ۔ یہ کیسی محبت ہے کہ ہم دنیا کو دکھانے کیلئے تو جلسے اور جلوس کرتے ہیں لیکن جن سے محبت کا اس طرح سے اظہار کرتے ہیں نہ اُن کے کہے پر عمل کرتے ہیں اور نہ اُن کا طریقہ اپناتے ہیں ؟ ہم سوائے اپنے آپ کے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟ کیا یہ منافقت نہیں کہ ہم جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمارا عمل اس سے مطابقت نہیں رکھتا ؟

انَّ اللَّہَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَی النَّبِيِّ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورت 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 56)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ. اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ و َّعَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلَی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ

تہوار کب اور کیسے شروع ہوا ؟

میلادالنبی کسی بھی صورت میں منانے کی مثال سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کی وفات کے بعد 4 صدیوں تک نہیں ملتی ۔ پانچوَیں اور مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید 17 مارچ 763ء کو ایران میں تہران کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوئے اور 786ء سے 24 مارچ 809ء کو وفات تک مسند خلافت پر رہے ۔ ان کے دور میں خطاطی اور فنِ تعمیر کے ساتھ ساتھ مصوری اور بُت تراشی کو بھی فروغ حاصل ہوا ۔
آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں ان کی والدہ الخيزران بنت عطاء نے اُس مکان کو مسجد میں تبدیل کروایا جہاں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی تھی ۔ اس کے بعد میلادالنبی کو تہوار کے طور پر شیعہ حکمرانوں نے منانا شروع کیا لیکن عوام اس میں شامل نہ تھے ۔

میلادالنبی کو سرکاری تہوار کے طور پر گیارہویں صدی عیسوی میں مصر میں منایا گیا جہاں اُس دور میں شیعہ کے اسماعیلی فرقہ کے الفاطميون [جنوری 909ء تا 1171ء] حکمران تھے ۔ شروع شروع میں اس دن سرکاری اہلکاروں کو تحائف دیئے جاتے ۔ جانوروں کی قربانی اور ضیافتیں کی جاتیں ۔ شعر پڑھے جاتے اور مشعل بردار جلوس نکالا جاتا ۔ یہ سب کچھ دن کے وقت ہوتا تھا

اس کی تقلید اہلِ سُنّت نے پہلی بار بارہویں صدی عیسوی میں شام میں کی جب وہاں نورالدین حاکم تھا ۔

الأيوبيون جو بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں حکمران رہے نے یہ تقریبات سب جگہ بند کرا دیں لیکن کچھ لوگ اندرونِ خانہ یہ تہوار مناتے رہے ۔

سلطان صلاح الدین کی وفات کے بعد اُس کے برادرِ نسبتی مظفرالدین ابن زین الدین نے تیرہویں صدی میں عراق میں پھر اسے سرکاری تہوار بنا دیا ۔ یہ رسم آہستہ آہستہ پھیلتی رہی اور سلطنتِ عثمانیہ [1299ء تا 1923ء] کے دور میں ستارہویں صدی عیسوی تک مسلم دنیا کے بہت بڑے علاقہ تک پھیل گئی ۔ 1910ء میں سلطنت عثمانیہ نے اسے قومی تہوار قرار دے دیا

آج جو مسلمان بھائی اجتہاد کی باتیں کرتے ہیں اُنہیں کم از کم اتنا تو کرنا چاہیئے تاریخ کا مطالعہ کر کے مسلمانوں تک اصل دین اسلام پہنچائیں ۔ تاکہ قوم میلے ٹھیلوں کی بجائے دین اسلام پر درست طریقہ سے عمل کرے
وما علینا الا البلاغ