ہمیں سکول کے زمانے میں سارے صیغے پڑھائے جاتے تھے ۔ دورٍ حاضر ترقی کر گیا ہے شائد اسلئے صیغوں کی ضرورت نہیں رہی ۔ خیر بات یہ ہے کہ لاہور سے ڈھائی دن کیلئے صغہ واحد غائب ہوا اور آج ابھی ابھی واحد حاضر ہوا ہے ۔ اسلئے کسی کا تبصرہ نہ دیکھا جا سکا تو پھر جواب کیسے دیا جاتا
Category Archives: آپ بيتی
بلاگستان کا جشنِ تعلیم
میرا مشاہدہ ہے کہ جدیدیت کے اس دور میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تعلیم کسے کہتے ہیں کیونکہ پڑھائی عام ہے اور تعلیم خال خال ۔ ہم 18 جولائی کو لاہور آئے ۔ جو مکان ہم نے کرایہ پر لیا ہے اس کے سامنے والے مکان میں جو صاحب رہتے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی ۔ کچھ دن بعد رات کو بجلی غائب تھی تو میں باہر کھُلی ہوا میں نکلا اتفاق سے وہ بھی باہر کھڑے تھے ۔ بات چیت کے دوران کہنے لگے “میرے بچے ایک اعلٰی معیار کے سکول میں پڑھتے ہیں ۔ پڑھائی اور لباس ٹھیک ہے تربیت کہیں نظر نہیں آتی”
میں وطنِ عزیز میں تعلیم کے حوالے سے صرف دو پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا لیکن پہلے اپنے پڑھائی کے طریقہ کار کا بالکل مختصر بیان ۔ میرا طریقہ دسویں جماعت تک یہ رہا کہ سکول کا کام [home task] وہیں فارغ وقت یا آدھی چھٹی [recess] کے دوران یا گرمیوں میں چھٹی کے بعد دھوپ ڈھلنے تک کسی درخت کے نیچے بيٹھ کر ختم کر لیتا ۔ گھر پہنچنے پر کھانا کھاتا پھر سودا سلف لاتا ۔ اس کے بعد ہاکی کھیلنے چلا جاتا ۔ واپس آ کر نہاتا اور تازہ دم ہو جاتا ۔ اگر کچھ کام رہ گیا ہوتا تو کر لیتا ورنہ بیٹھ کر اخبار یا رسالہ یا کوئی اور کتاب پڑھتا ۔ رات کا کھانا کھا کر عشاء کے فوراً بعد سو جاتا ۔ صبح فجر سے پہلے اُٹھ کر گھر سے دو کلو میٹر دور ايک دوست کے ساتھ جاتا ۔ وہاں سے پھلائی کی ٹہنی توڑ کر دونوں مسواک کرتے واپس لوٹتے ۔ گھر واپس آ کر نہاتا ۔ نماز پڑھتا اور جو سبق اس دن سکول میں پڑھنا ہوتا اس پر نظر ڈالتا ۔ اس کے بعد ناشتہ کر کے سکول روانہ ہو جاتا ۔ گیارہویں بارہویں میں اس معمول میں معمولی فرق پڑا لیکن انجنيئرنگ کالج میں تو سوائے پڑھائی کے اور کچھ نہ تھا ۔ راتوں کو جاگ کر پڑھنا معمول بن گیا کیوں کہ دن کا وقت بہت کم تھا
ایک پہلو
ہمارے سکول کالج کے زمانہ میں تعلیمی اداروں کا ماحول کچھ مختلف تھا ۔ اساتذہ کا اپنے شاگردوں کے ساتھ دلی لگاؤ محسوس کیا جا سکتا تھا ۔ سکول ۔ کالج وغیرہ سے فارغ ہو کر جب بھی میں نے مُڑ کر دیکھا مجھے محسوس ہوا کہ ہمارے اساتذہ نے ہمیں اس طرح تعلیم دی جیسے کہ ہم اُن کے اپنے پیارے بچے تھے ۔ پرائمری سے لے کر انجنیئر بننے تک جہاں تک مجھے یاد پڑھتا ہے ہمارے اساتذہ کبھی کبھی وقت بچا کر ہمیں ایک اچھا انسان یعنی حق پر چلنے والا ہمدرد انسان بننے کی ترغیب دیتے اور اس کا عملی طریقہ بھی سمجھاتے ۔ ہم پر اپنے اساتذہ کی باتوں کا بہت اثر ہوتا ۔ شریر سے شریر طالب علم بھی اساتذہ کا احترام کرتا ۔ اگر استاذ کسی کی سرزنش کرتا تو وہ اسے اپنی بہتری سمجھ کر قبول کرتا ۔ بہت کم دفعہ ایسا ہوا کہ کسی طالب علم نے غلط سزا کی شکائت کی
ہمارے بعد ایک دور آیا کہ بچے کی سرزنش سکول میں ہوئی تو والد صاحب استاذ سے بدلا چکانے سکول پہنچ گئے یا سکول سے گھر جاتے ہوئے لفنگوں سے ان کو سزا دِلوا دی ۔ دورِ حاضر میں تو استاذ کو شاگرد کا خادم تصور کیا جاتا ہے سو کسی استاذ کی مجال نہیں کہ کسی کے بچے کو بُری نظر سے دیکھ سکے
دوسرا پہلو
ہمارے زمانہ میں اکثر سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ براہِ راست مقرر کردہ کتابوں سے نہیں پڑھاتے تھے بلکہ نصاب [syllabus] کے مطابق پڑھاتے تھے اور ہدائت کرتےتھے کہ کتابیں خود پڑھیں ۔ یہی نہیں بلکہ کچھ اور کتابوں کے نام لکھوا دیتے کہ پانچ سات یا دس لڑکے مل کر خرید لیں اور باری باری پڑھیں ۔ اساتذہ کبھی خلاصہ [notes] نہیں لکھواتے تھے ۔ اس کی بجائے ہدائت کرتے کہ اچھی طرح پڑھ کر خود خلاصہ [notes] تیار کریں اور اگر چاہیں تو فارغ وقت میں مجھے [استاذ کو] دکھا دیں ۔ اگر استاذ سے اشارہ [guess] مانگتے کہ امتحان میں کیا آئے گا تو یا ڈانٹ پڑ جاتی یا کہا جاتا “جو تم نے نہ پڑھا وہی امتحان میں آئے گا”۔ اُس زمانہ میں سکول یا کالج کے داخلی [internal] امتحان کیلئے کوئی چھٹی نہ ہوتی تھی اور بورڈ یا یونیورسٹی کے امتحان کیلئے دو ہفتے کی چھٹیاں ہوتی تھیں ۔ ہر امتحان میں 7 میں سے 5 یا 8 میں سے 6 سوال کرنا ہوتے تھے اور ہر سوال کے ایک سے 4 جزو ہوتے تھے جبکہ ہر جزو ایک مکمل سوال ہوتا تھا
سنا تھا کچھ سال قبل تک 10 میں سے 5 سوال کرنا ہوتے تھے [اب کا مجھے معلوم نہیں]۔ پورے نصاب کی تیاری بہت کم طلباء کرتے تھے ۔ یہ بھی سنا ہے کہ امتحان میں تمام سوالات پڑھائی گئی کتابوں میں سے آتے ہیں ۔ اور چونکہ 10 میں سے 5 کی رعائت کے باعث اکثر تعلیمی اداروں میں پورا نصاب نہیں پڑھایا جاتا اسلئے نصاب سے باہر [out of course] کا شور مچتا رہتا ہے
يہی وجہ ہے کہ عِلم جسے ماضی میں بڑی دولت کہا جاتا تھا اب اس کی بجائے اسناد کی تعداد دولت بن گئی ہے ۔ جو طالب علم اپنے طور محنت کر کے عِلم حاصل کرتے ہیں کہ تعلیم یافتہ بن جائیں ان کی ہمارے ہاں کوئی قدر نہیں کچھ لوگ انہیں بیوقوف یا پاگل کا خطاب دیتے ہیں
ہفتہ بلاگستان ۔ بچپن کی آزاد دنیا
منظرنامہ کے منتظمین کا شکریہ کہ مجھے چھ سات دہائيوں کا واپسی کا سفر طے کرنے کیلئے تھوڑا سا وقت عنائت کر دیا
مجھے اپنے بچپن کے دو واقعات یاد ہیں ۔ اس کے علاوہ میرے پہلی اور دوسری جماعت کے دو واقعات ہیں جو مجھ سے 7 سال بڑی میری پھوپھی زاد بہن نے بتائے
مارچ 1947ء میں فسادات شروع ہو گئے اور سکول بند ہو گئے ۔ ستمبر میں ہم بچوں کو حفاظت کی خاطر کسی کے ساتھ چھاؤنی بھیجا گیا نتیجہ اپنے بزرگوں سے جدائی بن گیا ۔ 18 دسمبر کو پاکستان پہنچنے پر باقی ماندہ بزرگوں سے ملاقات ہوئی ۔ مجھے جنوری 1948ء میں خاص رعائت کے تحت امتحان لے کر سکول میں داخل کر دیا گیا ۔ مارچ 1948ء میں سالانہ امتحان ہوا ۔ سارا سال پڑھائی کی بجائے 10 ماہ خوف و دہشت اور 2 ماہ بے یقینی میں گذرے تھے ۔ نتیجہ نکلا تو ہماری جماعت کے طلباء کے نام پکار پکار کر کامیاب قرار دیا گیا ۔ آخر میں اعلان ہوا کہ افتخار اجمل جسے رعائتی طور پر داخل کیا گیا تھا وہ فیل ہے اور دوسرا افتخار اجمل اوّل آیا ہے ۔ افتخار اجمل فیل کا سن کر میرا دماغ بند ہو گیا تھا اسلئے شاید میں دوسرے افتخار اجمل کا سن نہ سکا ۔ میں بھاری قدموں سے گھر کو روانہ ہوا ۔ 2 کلو میٹر کا فاصلہ 20 کلو میٹر بن چکا تھا ۔ گھر پہنچ کر سب سے نظریں چُرا کر ایک کمرے میں گھُس گیا ۔ بیس تیس منٹ بعد ہمارے سکول کا ایک طالب علم ہمارے گھر آیا اور مبارک دے کر مٹھائی کا مطالبہ کیا تب گھر والوں نے مجھے ڈھونڈا ۔ میں پھُوٹ پڑا ۔ مجھے روتا دیکھ کر وہ لڑکا بولا ”تم اوّل آئے ہو تو رو کیوں رہے ہو ؟“ میری جماعت میں ایک اور افتخار اجمل تھا جو فیل ہو گیا تھا
یہ 1946ء کی بات ہے جب میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ہم بچے مغرب کے بعد ایک کھیل میں مشغول تھے جس میں آدھے لڑکے چھُپتے ہیں اور باقی آدھے انہیں ڈھونڈتے ہیں ۔ جب ہماری ٹیم کی ڈھونڈنے کی باری آئی تو ہم بھاگ بھاگ کر تھک چکے تھے ۔ ہمارے ایک ساتھی نے بہانہ بنایا کہ اُس نے جِن دیکھا ہے اسلئے گھر چلنا چاہیئے ۔ میں چونکہ جھوٹ نہیں بوتا تھا اسلئے مجھے چُپ رہنے کا کہا گیا ۔ جب اس لڑکے نے دوسرے لڑکوں کو جِن کا بتایا تو انہوں نے میری طرف دیکھا ۔ میں چُپ رہا ۔ بلاتوقف اسی لڑکے نے کہا ”اجمل کو معلوم ہے جِن کیسا ہوتا ہے“۔ اس پر کئی لڑکوں نے کہا ”اجمل بتاؤ جِن کیسا ہوتا ہے ؟“ میں نے کہا ۔ ”میں نے سُنا ہے کہ اس کے لمبے دانت ہوتے ہیں اور آنکھیں جیسے آگ نکل رہی ہو“۔ سب لڑکے ڈر گئے اور گھر کی راہ لی
جب میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا سکول سے گھر پہنچا تو میری متذکرہ پھوپھی زاد بہن نے میرے بستے کی تلاشی لی اور میری اُردو کی کاپی نکال کر کہنے لگی ”آج 10 میں سے 9 نمبر کیوں ؟“ میرا جواب تھا ”کرنا تھی برکت پر ہو گئی حرکت“۔ استاذ صاحب نے اِملا لکھائی تھی جب اُنہوں نے برکت بولا تو مجھ سے کافی دور تھے ۔ مجھے حرکت سمجھ آیا اور میں نے حرکت لکھ دیا جس پر ايک نمبر کٹ گیا
پہلی جماعت کا نتیجہ سُن کر میں مُنہ بسورے گھر پہنچا ۔ پوچھا گیا ”فیل ہو گئے ہو ؟“ میں نے کہا ”نہیں“۔ پھر پوچھا ”پاس ہو گئے ہو تو منہ کیوں بنایا ہوا ہے ؟“ میرا جواب تھا ”میں پاس نہیں ہوا“۔ پھر کہا گیا ”نہ فیل ہوئے نہ پاس ہوئے تو پھر کیا ہوا ؟“ میں نے جواب دیا ”فرسٹ آيا ہوں“۔
میں کہاں ہوں
میں ممنون ہوں ان سب اصحاب کا جنہوں نے میری غير حاضری کو محسوس کیا بالخصوص ڈ ِ ف ر ۔ عمر احمد بنگش ۔ چوھدری حشمت افضل ۔ معراج خٹک اور کامران صاحبان کا
سب کچھ ایسی عُجلت میں ہوا کہ کچھ کہنے سننے کا وقت ہی نہ ملا۔ کوئی افسانہ نویس ہوتا تو کہتا “آنکھ کھلی تو لاہور میں تھا”۔ میں ایسا نہیں کہوں گا کیونکہ ایسا صرف اغوا کی صورت میں ہو سکتا ہے ۔ تو جناب ۔ بیٹھے بٹھائے ہمیں کیا سوجھی کہ لاہور میں کچھ عرصہ کیلئے رہائش اختیار کر نے کا منصوبہ بنا کر فٹ سے اس پر عمل کر دیا ۔ 17 جون کو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم لاہور کو سدھاريں گے ۔ 17 جولائی کو اسلام آباد سے روانہ ہو کر لاہور پہنچے اور یہاں سکونت اختیار کر لی
کرائے کا مکان ہو اور بندہ پردیسی تو خوامخواہ ہی مت ماری جاتی ہے ۔ اوپر سے بجلی کی آنکھ مچولی اور بلا کی گرمی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ تین دن سے بارشیں شروع ہو گئیں تو موسم کچھ خوشگوار ہو گیا ہے
ابھی تک مکان کے اندر کی ضروریات پوری کرنے میں لگے ہیں اور سب کی دعاؤں کے متمنی ہیں
جب ذمہ داری مجھ پر آن پڑی
جب میں آٹھویں جماعت میں تھا [1951ء] تو محترم والد صاحب [اللہ اُنہیں جنت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے] نے مجھے گھر کے کاموں کی ذمہ داری دے دی ۔ 1962ء میں جب میں ملازم ہوا تو گھر کا خرچ چلانے کی ذمہ داری بھی مل گئی ۔ محترم والد صاحب 1987ء میں بیمار ہوئے اور میں گھربار چلانے کے علاوہ اُن کی تیمارداری بھی کرتا رہا ۔ اُن کی بیماری کے دوران اپنے سب سے چھوٹے بھائی کی شادی کا بندوبست بھی کیا ۔ اسلام آباد میں مکان جس میں اب ہم چاروں بھائی رہتے ہیں آدھا بنا تھا کہ والد صاحب بیمار پڑ گئے ۔ والد صاحب کے حُکم پر اُن کی بیماری کے دوران یہ مکان مکمل کرایا ۔ اس تمام عرصہ میں مجھے کوئی بوجھ محسوس نہ ہوا
جب 2 جولائی 1991ء کو محترم والد صاحب فوت ہو گئے تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب گیا ہوں ۔ وجہ یہ تھی کہ ہر کام کرنے سے قبل میں محترم والد صاحب کی منظوری یا خوشنودی حال کر لیتا تھا اور اُس کے بعد مجھے کوئی فکر نہ ہوتی تھی ۔ اُن کی وفات کے بعد ہر کام مجھے اپنی سوچ اور اپنی ذمہ داری پر کرنا تھا ۔ مجھ پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی اتنی مہربانی رہی کہ میں نے کبھی محترم والد صاحب کی حُکم عدولی نہ کی ۔ اللہ الرحمٰن الرحیم کی کرم نوازی اور میرے والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ محترم والد صاحب کی وفات کے بعد سے پچھلے 18 سال میں سب کچھ بخیر و خُوبی ہوتا رہا اور سب بہنوں اور بھائیوں کو مجھ سے کوئی شکائت نہیں
ماں
وقت کی رفتار اتنی تیز ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا ۔ آج میری محترمہ والدہ صاحبہ کو اس دارِ فانی سے رُخصت ہوئے 29 سال ہو گئےہیں ۔”وہ زمین پر ایک فرشتہ تھیں” یہ میں نہیں اُن سے ملنے والا ہر شخص کہتا ہے اور اُن کی زندگی میں بھی کہتا تھا ۔ میں اُن کیلئے کیا تھا اور وہ میرے لئے کیا تھیں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے علاوہ ہم دونوں جانتے تھے یا شاید میری سب سے بڑی بہن کچھ جانتی ہوں گی ۔ جب محترمہ والدہ صاحبہ مجھے کچھ کہنے لگتیں میری تمام تر توجہ اُن کے چہرے کی طرف ہوتی تھی اور قبل اس کے کہ وہ منہ کھولتیں میں وہ کر دیتا یا کرنے لگ جاتا جو محترمہ والدہ صاحبہ کہنا چاہتی تھیں ۔ ایک بار محترمہ والدہ صاحبہ نے مجھ سے پوچھ ہی لیا “تمہیں کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ میں کیا چاہتی ہوں ؟” اس کا جواب آج بھی میرے پاس نہیں ہے ۔ یہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کوئی خاص کرم نوازی ہی ہو سکتی ہے جو میرے عِلم میں نہیں
اللہ الرحمٰن الرحیم میری محترمہ والدہ صاحبہ کو جنت میں بلند مقام عطا فرمائے
سرکاری تابعداری یا غداری
حسرت موہانی صاحب نے کم از کم چھ سات دہائیاں قبل کہا تھا
خِرد کا نام جنُوں رکھ دیا ۔ جنُوں کا خِرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ليکن اُن کی وفات [1951ء] کے دو دہائیاں بعد “وفا” کے معنی “خودغرضی” اور سرکاری احکام کی پاسداری کو افسر کی تابعداری سمجھ کر ميرے ہموطنوں نے تنزل کی طرف جو دوڑ لگائی وہ تھمنے میں نہیں آ رہی ۔ دورِ حاضر میں قوم و مُلک کے مفاد کی جگہ ذاتی مفاد اور خود غرضی نے لے لی ہے ۔ وقت سے 8 سال قبل ریٹائرمنٹ مانگنے پر جو لوگ مجھے کہتے تھے کہ میں نے عقلمندی نہیں کی وہی کچھ سال بعد مجھے دُور اندیش بتانے اور کہنے لگے کہ “آپ بہت اچھے وقت چلے گئے تھے ۔ اب تو حال بہت خراب ہو گیا ہے”۔ میری ملازمت کے دوران جو حال تھا اُس کے فقط دو نمونے ملاحظہ ہوں
میں ستمبر 1988ء سے بطور سربراہ ایم آئی ایس [Management Information Systems] کام کر رہا تھا ۔ فروری 1991ء میں کچھ مال آرڈر کرنے کا ایک کیس ادارے کے چیئرمین صاحب کی طرف سے میرے پاس سفارش کیلئے آیا ۔ مطالع اور ماتحت عہدیداروں سے مشورہ کے بعد سودا ناقص ، مہنگا اور محکمہ کی ضروریات پوری نہ کرنے والا ہونے کی وجہ سے میں نے سفارش نہ کی اور کیس واپس چیئرمین صاحب کو بھيج دیا ۔ مارچ 1991ء میں والد صاحب کے شدید علیل ہونے کی وجہ سے میں نے اچانک چھٹی لے لی ۔ دو تین ہفتے بعد کسی کام سے دفتر گیا تو جس جنرل منیجر کو میں قائم مقام سربراہ بنا آیا تھا اُس نے بتايا کہ متذکرہ بالا کیس والا مال آرڈر ہو گيا ہے”۔ میں نے اُسے کہا “بغیر آپ کی سفارش کے ؟” تو کہنے لگے “کیس دوبارہ آیا تھا تو میں نے سفارش کر دی”۔ میں نے کہا “جو کچھ میں نے فائل پر لکھا تھا وہ آپ کا نظریہ بھی تھا پھر ناقص مال کی آپ نے سفارش کیوں کر دی ؟” وہ صاحب بولے “چیئرمین صاحب نے مجھے بُلا کر کہا کہ یہ کر دو تو میں نے کر دیا”۔ اس پر مجھے غُصہ آگیا اور میں نے کہا ” آپ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں ۔ کیا آپ کو نماز یہی سکھاتی ہے کہ آپ وطن یا ادارے کے لئے مُضر چیز کی سفارش کر دیں اور وہ بھی مہنگے داموں پر ؟” وہ صاحب بولے “بڑے افسر سے متفق نہ ہونا بہت مشکل کام ہے ۔ آپ کر لیتے ہیں ۔ آپ کی اور بات ہے”
میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں یکم مئی 1963ء کو ملازمت شروع کی ۔ اگست 1966ء میں ایک پروجیکٹ کی منصوبہ بندی اور بالیدگی [planning & development] سے فارغ ہوتے ہی وسط 1966ء میں مجھے ایک اور پروجیکٹ دے دیا گیا ۔ میں دوسرے پروجیکٹ کی ابتدائی منصوبہ بندی کر چکا تھا کہ 10 اکتوبر 1966ء کو اچانک دوسری فیکٹری کے ایک بہت سینئر عہدیرار کو جو اعلٰی عہدیداروں کا منظورِ نظر تھا میرا باس [boss] بنا دیا گیا جبکہ اُسے متعلقہ کام کا کوئی تجربہ نہ تھا ۔ ہفتہ عشرہ بعد میں اپنے دفتر میں پراجیکٹ کی مفصل منصوبہ بندی میں منہمک تھا کہ وہ صاحب میرے سامنے والی کرسی پر آ کر بیٹھ گئے اور انگریزی میں گویا ہوئے “مسٹر بھوپال ۔ ملازمت میں وفاداری اہم حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کو باس کا وفا دار ہونا چاہیئے [Mr Bhopal! Loyalty to service is important. You should be loyal to your boss]”
میں نے آہستگی سے سر اُٹھا کر باس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا “جی [Pardon!] ؟” باس بولے “میں کہتا ہوں تمہیں اپنے باس کا وفا دار ہونا چاہیئے [I say, you should be loyal to your boss]”۔ میری کیفیت ایسی تھی کہ بات مغز میں نہیں گھُسی ۔ میں نے لمحہ بھر اپنے ذہن کو مجتمع کیا ۔ پھر میرے پیارے اللہ نے میرے منہ سے بڑے پُر وقار طریقہ سے یہ الفاظ نکلوائے
“میں سب سے پہلے اپنے دین اسلام کا وفادار ہوں ۔ پھر اپنے وطن پاکستان کا وفادار ہوں ۔ پھر میں اس ادارے پاکستان آرڈننس فیکٹریز کا وفادار ہوں کہ میری روزی کا بندوبست اس میں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ آپ بھی اسی میں شامل ہیں ۔ اگر نہیں تو میں معذرت خواہ ہوں[I am loyal first to my religion “Islam”, then to my country “Pakistan”, and then to this organization “Pakistan Ordnance Factories” that is the source of my livelihood, and I think that you are fully covered, if not, then I am sorry] ”
میرے باس میز پر مُکا مار کر بلند آواز میں بولے “نہیں ۔ سب سے پہلے تمہیں اپنے باس کا وفادار ہونا چاہیئے [No, you should first be loyal to your boss]”
میں نے ایک نظر اپنے باس کی طرف دیکھا اور اُردو میں مؤدبانہ کہا “کیا میں نے کوئی گُستاخی کی ہے یا ایسی کوئی بات آپ کے عِلم میں آئی ہے جس کے باعث آپ یہ کہہ رہے ہیں؟”
میرے باس اُٹھ کر چلے گئے اور میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا
میرے کچھ ساتھیوں نے اسے میری بیوقوفی قرار دیا تھا لیکن جو کچھ میں نے اپنے باس سے کہا تھا اور جو میرا ہمیشہ اصول رہا وہ حکومت پاکستان کی ملازمت کے اُن دِنوں رائج قوانین کے عین مطابق تھا ۔ ان کے متعلق میں 14 مارچ 2009ء کو تحریر کر چکا ہوں ۔ یہ قوانین قائد اعظم کی 25 مارچ 1948ء کی سرکاری ملازمین کو ہدائت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنائے گئے تھے
اُس دن کے بعد میرے باس کے ریٹائر ہونے [1981ء] تک میرے باس نے مجھے ہر طرح سے زِک پہنچانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔ میرے باس کی مہربانیوں سے میری ترقی اسسٹنٹ ورکس منیجر سے ورکس منیجر ایک سال تا خیر کے ساتھ یکم جولائی 1969ء سے ہوئی جبکہ میں پونے تين سال سے قائم مقام ورکس منیجر کے طور پر کام کر رہا تھا ۔ شاید اور تاخیر ہوتی لیکن اتفاق سے میرے باس کا باس وہ شخص بن گیا تھا کہ ماضی میں جس کے ماتحت میں چھ ماہ کام کر چکا تھا ۔ اتفاق سے میری تعناتی لیبیا میں بطور “خبیر [Advisor]” ہو گئی جہاں میں مئی 1976ء سے مارچ 1983ء تک رہا ۔ میرے جانے کے بعد کچھ اعلٰی عہدیدار ملک سے باہر چلے جانے کی وجہ سے میرا متذکرہ باس ٹیکنیکل چیف بن گیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرے لبیا ہونے کے دوران اِن صاحب کے 1981ء میں ریٹائر ہونے تک مجھ سے جونیئر 14 افسروں کو جنرل منیجر بنا دیا گیا اور پروموشن بورڈ میں میرے متعلق لکھا جاتا رہا کہ جب واپس آئے گا تو دیکھا جائے گا جو کہ قوانین کی صریح خلاف ورزی تھی اور کمال یہ کہ ہمارے ساتھ ایک اسسٹنٹ منیجر گیا تھا جو وہیں ہوتے ہوئے پہلے منیجر اور پھر جنرل منیجر بن گیا
میرے اُن باس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اتفاق سے اُن کے بہترین دوست ٹیکنيکل چيف اور میرے باس بنے ۔ يہ دوسرے باس جب کسی کو ملتے تو لمبا چار لفظی سلام کرتے کہ جيسے اُن جيسا مُسلمان کوئی نہ ہو ۔ اوائل 1984ء میں جب میں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹوٹ تھا نئے تعلیمی نصاب مرتب کر کے منظوری کیلئے دوسرے باس صاحب کے پاس لے گیا ۔ اُنہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ کھیلوں کے 40 اور سوشل ورک کے 20 نمبر بھی شامل کروں ۔ اس طرح 1160 نمبر بنتے تھے ۔ میں نے 1200 پورے کرنے کیلئے 40 نمبر ایسے طالب علم کیلئے رکھ دیئے جو حافظِ قرآن اور قومی سطح کا قاری ہو ۔ دوسرے باس صاحب دیکھتے ہی بولے “ابھی سے ان کو مکّاری سِکھا دو”
قصہ کوتاہ ۔ متذکرہ حضرات کی پوری کوششوں کے باوجود گو تاخیر سے لیکن میری ترقی ہوتی رہی ۔ 1976ء کی بجائے 1981ء میں مجھے جنرل منیجر (گریڈ 19) بنایا گیا ۔ 1983ء کی بجائے 1987ء میں مجھے گریڈ 20 ملا اور 1988ء میں ایم آئی ایس کا سربراہ بنا دیا گیا ۔ ترقی میں تاخیر کے نتیجہ میں مالی پریشانی ہوتی رہی لیکن اللہ کی کرم نوازی رہی کہ روکھی سوکھی کھا کر چلتے رہے ۔ الحمدللہ ۔ اللہ نے ہمیشہ میرے دل کو مطمئن رکھا اور باوقار اور باعزت زندگی عطا کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میرا ضمیر مجروح نہ ہوا ۔ میں 4 اگست 1992ء سے يعنی مقررہ وقت سے 7 سال قبل اپنی مرضی سے ريٹائر ہوا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم نوازی ہے کہ جب بھی میں پاکستان آرڈننس فيکٹریز جاتا ہوں تو لوگ مجھے بہت تپاک اور احترام سے ملتے ہیں
حَسۡبِیَ اللّٰہُ ۫٭ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ھوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ