مونا [مُنٰی] سيّد صاحبہ نے بيان کيا کہ انسان جہاں بھی جاتا ہے اللہ اُس کے ساتھ ہوتا ہے اور اس حوالے کو اس طرح بتايا کہ ہر انسان کے اپنے دو نقشِ پاء کے ساتھ دو اللہ کے نقشِ پاء ہوتے ہيں اور جب صرف دو نقشِ پاء ہوں تو اُس وقت اللہ نے انسان کو کسی بڑی آفت سے بچانے کيلئے اپنی آغوش ميں لے ليا ہوتا ہے ۔ ميں ان عوامل کو جب نقشِ پاء صرف دو ہی رہ جاتے ہيں معجزے کہتا ہوں
مونا سيّد صاحبہ نے فرمائش کی کہ “اپنی زندگی کا کوئی ایک ایسا لمحہ شیئر کرنا پسند کریں گے جب ‘ فٹ پرنٹس’ زندگی میں صرف دو ہی رہ گیے تھے ؟” ميں نے اللہ کو ہميشہ اپنے ساتھ پايا ۔ ميں کئی واقعات لکھ چکا ہوں ۔ پچھلے ہفتہ بھی “پاگل” کے عنوان سے اسی سلسلہ کی ايک تحرير شائع کی تھی ۔ سوچئے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی مجھے اپنی آغوش ميں اُٹھا نہ ليتا تو کيا ميں آج تک زندہ اور بصحت ہوتا
معجزہ اللہ الرحمٰن الرحیم کی قدرت کا مظہر ہوتا ہے ۔ معجزے انسان کو اللہ تعالٰی کی ہمہ گیر موجودگی اور خالق و مالک و قادر ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں ۔ کچھ معجزے خاص قسم کے تھے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اپنے نبیوں کے ہاتھوں کروائے ۔ لیکن معجزے آئے دن وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ میں صرف اپنے پر بيتے چند واقعات لکھنے لگا ہوں جن کا دنیاوی جواز نہ تھا لیکن ایسا صرف اللہ کی کرم فرمائی سے ہو گیا
میں ابھی ایک سال سے کم عمر کا تھا کہ میں بیمار ہوا علاج ہوتا رہا مگر مرض کی تشخيص کئی ماہ بعد ہوئی کہ زہرباد ہے ۔ یہ جسم کے اندر چھپا ہوا ایک خطرناک پھوڑا [abscess ] ہوتا ہے ۔ اُس جگہ جراہی سے سارا گندا مواد نکال دیا گیا مگر زخم بھرنے کو نہیں آ رہا تھا کيونکہ کئی ماہ بخار ميں مبتلا رہنے کے باعث جسم پر سے گوشت ختم ہو چکا تھا ۔ آخر سرجن نے میرے دادا سے کہا “میں جو کچھ کر سکتا تھا کر لیا ۔ اب سوائے بھگوان سے پراتھنا کے کوئی چارہ نہیں رہ گیا “۔ کچھ دنوں بعد میری طبیعت بہتر ہونا شروع ہو گئی
6 اگست 1964ء کو سکوٹر پر جاتے ہوئے حادثہ میں زخمی ہو کر بیہوش ہو گیا ۔ جب کافی دیر بعد ہوش آیا تو لوگ میرے مرنے پر کلمہ شہادت بھی پڑھ چکے تھے
دسمبر 1964ء میں ملیریا کی دوائی کھانے سے ردِ عمل ہوا ۔ میرے گردوں میں سے خون بہنا شروع ہو گیا لیکن مجھے سوائے کمزوری کے اور کچھ پتہ نہ چلا ۔ کمزوری بڑھتی دیکھ کر 3 روز بعد میں ہسپتال گیا ۔ وہاں میں پہنچ تو گیا لیکن جاتے ہی بیہوش ہو کر گر پڑا ۔ 3 دن بعد آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ خون کی بوتل لگی ہے ۔ ڈاکٹر پہنچ گیا اور میرا حال دریافت کیا ۔ اُس نے بتایا کہ جسم کا آدھا خون نکل گیا تھا ۔ بتایا گیا کہ ڈاکٹر بھی بہت پریشان رہے کہ میرے لئے کچھ کر نہ پا رہے تھے ۔ مزید 10 دن میں سر نہ اُٹھا سکا کیونکہ سر اُٹھاتے ہی بیہوشی طاری ہو جاتی تھی ۔ چلنے کے قابل ہونے میں مزید 2 ہفتے لگے
سن 1986ء میں میرے گردے میں پتھری بن گئی ۔ بہت علاج کرایا ۔ ہومیو پیتھی کے ایک مشہور معالج کا علاج بھی کئی سال کروایا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ آخر 1996ء میں لِتھو ٹرِپسی کروائی جس کے نتیجہ میں پتھری کے 2 ٹکڑے ہو گئے مگر خارج نہ ہوئی ۔ میں علاج بھی کرواتا رہا اور ہر 6 ماہ بعد الٹراساؤنڈ کرواتا رہا تاکہ پتہ چلتا رہے کہ پتھری نکل گئی یا کچھ چھوٹی ہوئی ۔ لیکن پتھری نہ نکلی اور نہ چھوٹی ہوئی ۔ تنگ آ کر 10 سال بعد یعنی 2006ء میں الٹرا ساؤنڈ اور علاج دونوں چھوڑ دیئے ۔ جون 2009ء میں یونہی خیال آیا کہ کہیں پتھری بہت بڑی نہ ہو گئی ہو تو جا کر الٹرا ساؤنڈ کروایا ۔ معلوم ہوا کہ پتھری نہیں ہے ۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا ” ذرا اچھی طرح دیکھیئے ۔ 2 پتھریاں تھیں دائیں گردے میں”۔ اُس نے دوبارہ الٹراساؤنڈ کیا مگر پتھری ندارد ۔ سُبحان اللہ
آخر ميں وقوع پذير ہونے والا معجزہ ميں 26 اکتوبر 2010ء کو تحرير کر چکا ہوں ۔ مزيد يہ کہ جب داہنی طرف پندرہ بيس منٹ ديکھتے ميری گردن تھک گئی تھی تو ميں نے سامنے ديکھنا شروع کيا تھا ۔ اسی دوران ايک انتہای تيز رفتار موٹر سائيکل نے مجھے ٹکر ماری ۔ ميں 10 فٹ دُور اَوندھا چہرے کے بل موٹر سائکل کے ساتھ گھسٹتا گیا اور میرا سر ہتھوڑے کی مانند بار بار سڑک پر پڑتا رہا ۔ اس کے بعد موٹر سائيکل مع سوار کے گر گيا ۔ جو شديد چوٹ ميرے سر پر لگی اس کی بناء پر ڈاکٹروں کا خيال تھا کہ ميں
1 ۔ مر جاؤں گا يا
2 ۔ مستقل بيہوش رہوں گا يا
3 ۔ ميری بينائی ضائع ہو جائے گی يا
4 ۔ ميرا دماغی توازن قائم نہيں رہے گا
مگر ميں اللہ کے فضل و کرم سے تندرست ہو گيا
اس کہتے ہیں جو اللہ چاہے ۔ اللہ مہربان تو کُل مہربان