Category Archives: آپ بيتی

گفتار و کردار

مجھے اس بلاگ کو شروع کئے 7 سال 8 ماہ ہو چکے ہیں ۔ اس بلاگ کے شروع کرنے کا مقصد جو کہ سرِ ورق درج ہے یہ ہے کہ ”میں انسانی فرائض کے بارے میں اپنےعلم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچاؤں”۔
پچھلے 5 سال سے کچھ زیرک قارئین وقفے وقفے سے میری توجہ بلاگ کے مقصد کی طرف دلاتے ہوئے ذاتی تجربات بیان کرنے کا کہتے رہتے ہیں ۔ میری کوشش رہی کہ میں ایسے تجربات بیان نہ کروں جن سے میرا ذاتی تعلق ہو لیکن کچھ ہفتے قبل ایک ہمدرد قاری نے کہا ”آپ کے ہر تجربہ بلکہ علم میں بھی آپ کی ذات کا عمل دخل ہے تو پھر آپ پوری طرح اپنے وہ تجربات ہم تک کیوں نہیں پہنچاتے جن سے آپ نے اس دنیا کے کاروبار کو پہچانا ؟“

میں اس پر کئی ہفتے غور کرتا رہا اور آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ مجھے سوائے قومی راز کے اپنی زندگی کے تمام واقعات جوان نسل تک پہنچانے چاہئیں تاکہ جوان نسل کے عِلم میں وہ زمینی حقائق آ سکیں جو اللہ کے دیئے ہوئے ہمارے مُلک پاکستان کی موجودہ حالت کا پیش خیمہ ہیں ۔ آج اس سلسلہ کی پہلی تحریر ۔ اللہ مجھے اس مقصد میں کامیابی عطا فرمائے

میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ 1965ء میں اُس وقت کے ٹیکنیکل چیف جو مکینیکل انجنیئر اور کرنل تھے نے ہم 9 نئے افسران کو بُلا کر حُکمانہ قسم کا مشورہ دیا کہ ہم آرڈننس کلب کے ممبر بن جائیں ۔ دراصل وہ کلب کے پریذیڈنٹ بھی تھے ۔ باقی 8 تو واہ چھاؤنی ہی میں رہتے تھے وہ ممبر بن گئے ۔ میں راولپنڈی سے آتا جاتا تھا ۔ سوچا کہ کلب جا تو سکوں گا نہیں ممبر بن کر کیا کروں گا لیکن دوستوں کے تلقین کرنے پر چند ماہ بعد ممبر بن گیا

ستمبر میں جنگ شروع ہوئی تو مجھے حُکم ملا کہ واہ چھاؤنی میں رہوں ۔ میں نے آفیسرز میس میں ایک سوِیٹ (Suite) لے لیا اور واہ چھاؤنی میں رہنا شروع کر دیا ۔ آرڈننس کلب سڑک کے پار آفیسرز میس کے سامنے تھی ۔ اکتوبر 1965ء میں کلب میں سکواش کھیلنا شروع کر دیا ۔ کچھ ہفتے بعد خیال آیا کہ دیکھا جائے کلب میں کیا ہوتا ۔ معلوم ہوا کہ ایک طرف ایسی جگہ ہے جہاں لوگ بیٹھ کر مشروبات پیتے ہیں جن میں اُم الخباعث بھی ہے ۔ یہ خبر میرے دل میں ایک سوئی کی طرح پیوست ہو گئی

اگلے سال جو نئے انجنیئر بھرتی ہوئے ان میں کچھ ہم خیال مل گئے تو افسران سے رابطہ مہم شروع کی ۔ کچھ لوگوں کی حمائت کے ساتھ ایک سینیئر افسر کی حمائت ملنے پر کلب کی جنرل باڈی میٹنگ بلانے کا نوٹس دے دیا ۔ ان سینئر افسر صاحب کو اللہ جنت میں جگہ دے صاف گو شخص تھے ۔ ذہین ۔ محنتی ۔ باکردار اور بے باک شخص تھے اسلئے نام لکھ دیتا ہوں ”محمد اصدق خان“

اس دوران پہلے کرنل صاحب ریٹائر ہو گئے تھے اور ان کے نائب لیفٹننٹ کرنل صاحب ٹیکنیکل چیف اور کلب کے پریذیڈنٹ بن گئے تھے ۔ نئے صاحب کی ہر کسی کو پند و نصائح کرنے کی عادت تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ نمازی ہیں اور باعمل بھی ۔ میٹنگ شروع ہوئی تو سب سے پہلے محمد اصدق خان صاحب نے قراداد پڑھ کر اس کی تائید کی
کلب کے پریذیڈنٹ صاحب نے تقریر جھاڑ دی جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ شراب کی فروخت سے کلب کو بہت فائدہ ہوتا ہے اور یہ فائدہ دراصل ممبران کو ہے
اس کے بعد میں اُٹھا اور کہا ”ہمارے دین میں نہ صرف شراب نوشی کی ممانعت ہیں اس کی فروخت اور اس سے منافع حاصل کرنے کی بھی ممانعت ہے ۔ کتنے ممبران ہیں جو اس منافع کمانے کی حمائت کرتے ہیں ؟ آپ ہاتھ کھڑے کریں“۔
کسی نے ہاتھ کھڑا نہ کیا اور میں یہ کہہ کر بیٹھ گیا کہ شراب کی فروخت بند کر کے ممران کا ماہانہ چندہ زیادہ کر دیجئے
پریزیڈنٹ صاحب پھر بولے ”ایسے ہی کلب کے فیصلے نہیں کر لئے جاتے ۔ اس کیلئے کلب کی انتظامی کمیٹی کی منظوری ہوتی ہے”۔
میں نے اُٹھ کر کلب رولز کی متعلقہ شق پڑھ دی جس کے مطابق فیصلہ جنرل باڈی کی اکثریت کا حق تھا
اس پر میرے باس اُٹھے اور شراب کی فروخت سے کلب کو ہونے والی آمدن کے فوائد بیان کئے
میں نے پھر روسٹرم پر جا کر کہا”حضورِ والا ۔ اگر یہ کلب روپیہ کمانے کیلئے بنایا گیا ہے تو پھر یہاں طوائفوں کے مُجرے کا بھی بند و بست کر دیجئے ۔ بہت منافع ہو گا“۔
اس پر میرے باس طیش میں آ گئے اور مجھے بہت سخت سُست کہا (میں الفاظ نہیں لکھنا چاہتا)۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ مزید ممبران میرے طرفدار ہو گئے

مجبور ہو کر رائے شماری کرائی گئی تو بھاری اکثریت نے شراب نوشی بند کرنے کے حق میں ووٹ دیئے اور شراب نوشی جاری رکھنے کے حق میں کوئی ووٹ نہ آیا ۔ اس قرار داد پر عمل درآمد کرانے میں ہمیں 6 ماہ لگے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ آرڈننس کلب میں شراب نوشی بند ہو گئی

کلب کی اس جنرل باڈی میٹنگ کے بعد یہ راز بھی افشاء ہوا کہ سب کو پند و نصائح کرنے والے پریذیڈنٹ صاحب اور کچھ اور پاکباز نظر آنے والے صاحبان بھی اُم الخباعث سے شغف رکھتے تھے

پھر میرے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا بہت شکر گذار ہوں کہ نہ میں نے کسی انسان کے آگے کبھی ہاتھ پھیلایا اور نہ کبھی میری عزت میں کمی آئی ۔ مزے کی بات کہ جب بھی کوئی مُشکل ٹیکنیکل یا قانونی مسئلہ درپیش ہوتا تو مجھے ناپسند کرنے والے یہ بڑے افسران مجھے ہی مشورہ کیلئے بُلاتے

یہ کرم ہے میرے اللہ کا مجھ ایسی کوئی بات نہیں ہے

ساتویں کی ڈائری

اسلامیہ مڈل سکول سرکلر روڈ راولپنڈی (کب کا ہائی ہو چکا) سے میں نے ساتویں جماعت پاس کی تھی ۔ مجھے اس دور (1949ء۔1950ء) میں لکھی ڈائری سے پھٹا ایک ورق مل گیا تو میں نے سنبھال کر رکھ لیا تھا مگر ایسا سنبھالا کہ 2 دہائیاں بعد پچھلے دنوں کچھ اور تلاش کرتے ملا ۔ سوچا اسے کمپیوٹر میں محفوظ کیا جائے

مُلک ۔ ۔ ۔ آزادی دلانے والے ۔ ۔ ۔ آزادی کا دن

پاکستان ۔ ۔ ۔ محمد علی جناح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 اگست 1947ء
بھارت ۔ ۔ کرمچند موہنداس گاندھی ۔ ۔ 15 اگست 1947ء
ترکی ۔ ۔ ۔ ۔ مصطفٰی کمال پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ یکم نومبر 1923ء
مصر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سعد زغلول پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ 12 جنوری 1924ء
امریکا ۔ ۔ ۔ ۔ ابراھیم لنکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4 جولائی 1776ء
چین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موزے تُنگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 اکتوبر 1948ء
فرانس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 جولائی
اٹلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26 مارچ
یونان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 مارچ
پرتگال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 اکتوبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیدائش

چرچل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1874 ء
علامہ اقبال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 نومبر 1876ء
قاعد اعظم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 دسمبر 1876ء
سر آغا خان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1877ء
محمد علی جوہر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 دسمبر 1878ء
مارشل سٹالن ۔ ۔۔ ۔ ۔ 1879ء

میرے بلاگ کا دُشمن کون ؟

بلاگران بتائیں کہ میرے بلاگ کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟ کیوں ہوا تھا ؟ کس نے کیا تھا ؟
معلوم نہ ہو تو ہوشیار ۔ خبردار

محترمان و محترمات

ہوا یہ کہ 27 نومبر کو صبح سویرے میں نے فلسطین کے سلسلہ کی پانچویں قسط شائع کی جس کا عنوان تھا ” برطانیہ کی بندر بانٹ اور صیہونیوں کی دہشت گردی“۔ اس کے شائع ہونے کے چند منٹ کے اندر 3 قارئین نے اسے پڑھ لیا ۔ میں دوسرے کاموں میں مصروف ہو گیا ۔ دوپہر میں کمپیوٹر بند کر دیا ۔ شام کو کمپیوٹر چالو کیا تو خیال میں آیا کہ اس تحریر پر کچھ ذاتی تبصرہ کروں ۔ تبصرہ کیلئے کلِک کیا تو یہ لکھا آ گیا

Bad Request

Your browser sent a request that this server could not understand.
________________________________________
Apache/2.2.22 (CentOS) Server at www.theajmals.com Port 80

وقفہ دے کر دو تین بار کوشش کی مگر یہی لکھا آیا ۔
اس وقت تک بھی اس تحریر کو پڑھنے والوں کی تعداد 3 ہی تھی

دوسرے دن یعنی 28 نومبر کو میں نے اردو سیّارہ کھول کر وہاں اس تحریر کے عنوان پر کلک کیا تو اُوپر والی عبارت ہی لکھی آئی ۔ دیکھنے کیلئے کہ بلاگ ہوسٹ کے سرور میں کچھ مسئلہ ہو گیا ہو گا میں نے اُردو سیّارہ اور اُردو بلاگز کھول کر وہاں اس سے پہلے والی تحریر کے عنوان پر کلک کیا تو وہ کھل گئی

میں نے اپنے بلاگ میں لاگ اِن کر کے بلاگ کی ساری سیٹنگز اور ایڈیٹرز کی پڑتال کی اور سب درست پایا ۔ پھر میں نے 28 نومبر کی شائع کردہ تحریر کو حذف کر دیا اور اس تحریر کو دوبارہ شائع کیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ کافی پریشانی کا سامنا تھا اور کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ مدد کیلئے اپنے بیٹے زکریا کو ای میل بھیجی ۔ پھر خیال آیا کہ زکریا تو امریکا میں ہے وہ ہماری شام کے وقت اُٹھے گا ۔ سو ایم بلال ایم صاحب کو ای میل بھیج دی

ذہن کو تھوڑا سکون ملا تو دماغ نے کہا ”تیرے بلاگ کا دشمن کون ہے ؟ اس کی طرف توجہ کر “۔ میں نے تحریر کے عنوان میں سے ”برطانیہ کی“ اور ”صیہونیوں کی“ حذف کر کے تحریر دوبارہ شائع کر دی ۔ اور سب ٹھیک ہو گیا

بندے دا پُتر

یہ 3 لفظ ہیں
”بندہ“ معنی ”اللہ کا بندہ“ مطلب ”اللہ سے ڈرنے والا“
”دا“ پنجابی ہے اُردو میں ”کا“
”پُتر“ مطلب ”بیٹا“۔ ”پُتر“ ویسے اُردو میں بھی کہتے ہیں

آدھی صدی پر محیط تجربہ سے میں نے سیکھا ہے کہ آدمی چاہے پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ اگر ”بندے دا پُتر“ ہو تو

1 ۔ درخواست کرنے یا مشورہ یا ھدائت دینے پر بات اُس کی سمجھ میں آ جاتی ہے اور درست کام کرتا ہے
2 ۔ پھر اگر اُس سے غلطی ہو جائے تو اپنی غلطی مانتا ہے
3 ۔ اگر پہلے وہ محنتی نہ ہو تو مشورہ یا ھدائت ملنے پر محنت کرتا ہے

1963ء میں جب میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی تو وہاں میرے سنیئر نے چپڑاسی سے میرا تعارف کرا کے اُسے باہر بھیجنے کے بعد کہا ”یہ میری قوم ہے ۔ میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں ۔ یہ کسی کیلئے اپنا دماغ استعمال نہیں کرتے کہ کہیں خرچ نہ ہوجائے (یعنی ختم نہ ہو جائے)“ ۔ آج میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اُن کا تجزیہ بالکل درست تھا

جو ”بندے دا پُتر“ نہیں ہوتے ۔ ان میں اَن پڑھ ۔ پڑھے لکھے ۔ غریب ۔ امیر ۔ مزدور اور بڑے عہدیدار یعنی کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن میں بات کرنا چاہتا ہوں گھریلو ملازموں کی ۔ ان لوگوں کو آپ لاکھ سمجھائیں ۔ کریں گے وہ اپنی مرضی ۔ آپ کا چاہے بڑا نقصان ہو جائے وہ اپنا پیسہ تو کیا ایک منٹ ضائع نہیں ہونے دیں گے ۔ دوسری بات کہ یہ لوگ اپنی غلطی کسی صورت نہیں مانتے ۔ بہت دبایا جائے تو کسی اور کے سر ڈال دیں گے

سات آٹھ سال سے ہم کھانا پکانے کیلئے عورت (باورچن) ملازم رکھتے ہیں ۔ ہر باورچن کو میری بیگم سمجھاتی ہیں کہ گیس اتنی کھولو کہ شعلہ دیگچی کے پیندے سے باہر نہ نکلے ۔ ہر باورچن زبانی ثابت کرنے کوشش کرے گی کہ وہ اس سے بھی زیادہ محتاط ہے

ہم پونے 2 سال لاہور میں رہے ۔ اللہ کی مہربانی سے وہاں ملازمہ جو ہمیں ملی وہ ”بندے دا پُتر“ قسم کی تھی ۔ اسلام آباد میں سوا 5 سال میں 4 دیگچیوں اور 2 پریشر کُکروں کی دستیاں جلائی گئیں ۔ میں نے کچھ روز قبل”حق حلال“ کے عنوان کے تحت ایک چمچے اور دیگچی کا ذکر کیا تھا ۔ اس دیگچی کی سخت پلاسٹک (Bakelite) جو آگ نہیں پکڑتا کی بنی ہوئی دستی جلنے کے باعث اُتر گئی تھی ۔ اتفاق سے میری نظر پڑ جانے کی وجہ سے دستی تباہ ہونے سے بچ گئی ۔ نمعلوم مزید کب تک چلے گی

اکتوبر کے شروع میں کچھ بھائی بہن آئے ۔ چاول زیادہ پکانےتھے ۔ بڑا چمچہ نکالا تو دستی کی ایک چفتی غائب ۔ باورچن کی جانے بلا کہ کہاں گئی ۔ کوئی جِن یا بھُوت چفتی اُتار کر لے گیا ہو گا

ایک پرانی بات یاد آئی ۔ اُس زمانہ میں صرف گھر کی صفائی اور برتن دھونے کیلئے ملازمہ ہوتی تھی ۔ دیکھنے میں اچھے خاصے مضبوط جسم کی مالک تھی ۔ میری بیگم نے کہا ”گاجریں کدوکش (shred) کر دو“۔ بولی ”میرے بازوؤں میں طاقت نہیں“۔ بیگم جو سنگل پسلی ہیں خود کرنے لگیں ۔ کچھ دن بعد بیگم نے ملازمہ سے کہا ”اُوپر جا کر پائپ کا والو (valve) بند کر آؤ تاکہ تمہارے ہاتھ دھونے کی ٹُوٹی ٹھیک کر دیں“۔ وہ بند کر کے آ گئی پھر بھی پانی بہہ رہا تھا۔ میں دیکھنے گیا تو معلوم ہوا کہ والو کو اُلٹی طرف گھُما کر توڑ دیا ہے ۔ اللہ رے یہ کیسے کمزور بازو تھے ۔ میں ایڑھی سے چوٹی تک کا زور لگاتا مگر والو اُلٹا نہیں گھُما سکتا تھا۔ اس محترمہ کمزور کے ہاتھوں مزید ہماری 2 چھُریاں اور 2 ریفریجریٹر کی برف جمانے والی ٹرے ٹوٹیں ۔ ہِیٹ پروف شیشے کی بنی کیتلی براہِ راست گرم چولہے پر رکھ کر توڑ دی ۔ درجنوں کے حساب کھانے والے اور چائے کے چمچے اور گلاس غائب ہوئے ۔ باورچی خانے میں ایک دراز میں فروٹ سلاد وغیرہ کے ٹین کے ڈبوں کے کٹے ہوئے گول ٹین کے ٹکڑے پڑے تھے ۔ بیگم نے کہا ”یہ کیا گند اکٹھا کیا ہوا ہے ۔ اسے پھینکو“۔ اگلے ماہ معلوم ہوا کہ وہ ٹین کےٹکڑے تو وہیں ہیں البتہ میں نے ایک الماری میں پیتل کا بنا ہوا مٹی کے تیل کا سٹوو ۔ سنگر سیونگ مشین کا انگلینڈ سے لایا ہوا تیل کا بھرا ہوا ڈبہ اور کئی اور کارآمد اشیاء رکھی ہوئی تھیں وہ غائب ہیں ۔ پوچھا تو نہائت معصومیت سے کہا ”آپ ہی نے تو کہا تھا پھینک دو“۔ کھانے اور چائے کی چمچیوں ۔ پانی پینے والے گلاسوں اور چائے کی پیالیوں کی الگ داستان ہے ۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ٹوٹا یا کب گم ہوا

کہاں تک سُنو گے کہاں تک سناؤں ۔ ۔ ۔ بس کرتا ہوں

(در پردہ بیان ۔ ہماری بیگم صاحبہ کا اصول ہے کہ ہم کسی پر چوری کا الزام اُس وقت تک نہیں لگا سکتے جب تک ہم خود اُسے چوری کرتے نہ پکڑیں ۔ چنانچہ ہم ملازمہ کے کمرے کی تلاشی لے کر مسروقہ مال بھی برآمد نہیں کر سکتے ۔ مزید یہ کہ جس عورت کو ایک بار ملازم رکھ لیا اُسے نکالنا نہیں ہے جب تک وہ کوئی انتہائی مُخربُ الاِخلاق حرکت نہ کرے ۔ چنانچہ ایسا ہوتارہتا ہے کہ جن دنوں ہمیں ملازمہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے عام طور پر اُنہی دنوں میں ملازمہ اپنے گاؤں چلی جاتی ہے ۔ مجھے اپنی بیگم سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ یہ اُس کی بہت سی اچھائیوں میں سے ایک چھوٹی سی اچھائی ہے ۔ شاید اللہ تعالٰی نے اسلام آباد کا سارا رحم میری بیگم کے دل میں ڈال دیا ہے ۔ جون 2012ء سے ہمارے پاس ماں بیٹی ملازم ہیں ایک بیٹا ہے جو ساتھ رہتا ہے اور محلہ میں کسی کا ڈرائیور ہے ۔ ماں بیٹا 6 ہفتے سے مکان بنانے گاؤں گئے ہوئے ہیں ۔ کہہ کر 2 ہفتے کا گئے تھے ۔ عید والے دن بھائی آ کر بہن کو بھی ایک دن کیلئے لے گیا تھا جو 4 دن بعد واپس آئی تو طبیعت کچھ مضمحل تھی ۔ چند دن بعد زکام ۔ گلا خراب وغیرہ ہوا ۔ ہفتہ بھر وہ بستر پر لیٹی رہی اور بیگم کھانا پکا کر اور دوائیاں تینوں وقت ملازمہ کو کوارٹر میں دے کر آتی رہیں ۔ اسے کھانا دینے کیلئے بیگم جو برتن اور روٹیوں کے رومال اسے دے کر آتیں وہ وہیں اکٹھے ہوتے رہے ۔ بعد میں بیگم نے لا کر دھلوائے)

راس الخیمہ ۔ ساحلِ سمندر

دبئی پہنچنے پر بیٹے نے 2 خبریں سنائیں ۔ ایک کہ 5 جولائی سے 8 جولائی تک راس الخیمہ ھِلٹن سِی ریزارٹ میں 2 فیملی رومز محفوظ کرائے ہوئے ہیں ۔ 4 دن وہاں رہیں گے ۔ دوسرا کہ جس اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں اسے مالک بیچنا چاہتا ہے اسلئے رمضان شروع ہونے سے قبل نئی جگہ تلاش کرنا ہے اور پسند کی جگہ ملنا خاصہ مُشکل ہے ۔ دوسری خبر اچھی نہ تھی مگر مجبوری کا نام شکریہ ۔ خیر ہم راس الخیمہ گئے اور خوب لُطف اندوز ہوئے ۔ سارے اپارٹمنٹ سمندر کے کنارے پر تھے ۔ میں اور بیگم شام کو تھوڑی دیر کیلئے سمندر کے کنارے جاتے ۔ اُس وقت بھی کافی گرمی ہوتی ۔ بچہ لوگ شام کو زیادہ دیر سمندر کے کنارے رہتے ۔ خاص کر ابراھیم (میرا پوتا) خوش تھا ۔ پوتی جو اس وقت 3 ماہ کی تھی خوش نہیں تھی ۔ ناشتہ اور کھانا اچھا تھا اور ہر ایک کو اپنی پسند کے مطابق مل جاتا تھا ۔ یہ رہیں راس الخیمہ ھِلٹن ریزارٹ کی کچھ نشانیاں

اپارٹمنٹس کا ماتھا ۔ نچلی منزل میں دو جُڑے ہوئے فیملی رومز ہیں جن میں ہم لوگ رہے ۔ داخل ہونے کیلئے دروازے داہنی اور بائیں اطراف میں ہیں

اپارٹمنٹس کی پُشت سمندر کی طرف سے

سونے کا ایک کمرہ ۔ ایسے دو کمرے تھے ۔ ایک بستر پر ابراھیم بیٹھا ہے

اپارٹمنٹ کے پچھلے برآمدے میں کھڑے ہو کر سمندر کا نظارہ

سمندر کے کنارے میرا بیٹا ۔ بیگم اور پوتا کرسیوں پر بیٹھے ہیں ۔ پوتا دادی کو کمرے سے گھسیٹ کر لے گیا تھا کہ میرے ساتھ بیٹھیں

ھِلٹن ریزارٹ کی مرکزی عمارت جہاں کھانے ۔ نماز اور کھیلوں وغیرہ کا بندوبست تھا

روانگی

ہم نے 22 اور 23 جون 2012ء کی درمیانی شب دبئی جانا تھا ۔ 20 جون کو ایک قریبی عزیز کا میرے موبائل فون پر پیغام ملا

میرا لفظ لفظ ہے دعا دعا
میرے آنسوؤں سے دھُلا ہوا
تمہیں زندگی کی سحر ملے
تمہیں خوشیوں کا سفر ملے
تم پہ درد و غم بھی نہ آ سکے
تیری آنکھ نم بھی نہ ہو سکے
تیرا پیار جس پہ نثار ہو
وہ ھمیشہ تیرے پاس ہو
تم پہ خُوشیوں کی برسات ہو
اور طویل تیری حیات ہو
آمین

وہ انسان بہت خوش نصیب ہوتا ہے جسے بِن مانگے پُرخلوص نیک دعا ملے ۔ یہ اللہ کی مجھ پر خاص مہربانی ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا کرم رہا اور ہمارے 2 ماہ بیٹے بہو بیٹی ۔ پوتے ابراھیم اور نو وارد پوتی ھناء کے ساتھ ایسے گذرے کہ پتہ بھی نہ چلا ۔ یہاں واپس آنے کے بعد دن لمبے محسوس ہونے لگے ہیں ۔ اُدھر 3 سالہ پوتا ہر ہفتے کہتا ہے “دادا ۔ دادَو ۔ پھوپھو میرے گھر آ جاؤ”۔ پچھلے ہفتہ ابراھیم نے اپنے والدین سے کہا کہ ”دادا دادَو اگلے سال آئیں گے“۔ لیکن یہ گردان کہ ”پھوپھو کب آئیں گی ؟” ابھی جاری ہے ۔ ہم تو ابھی نہیں جا سکتے ۔ سوچتے ہیں کہ بیٹی (ابراھیم اور ھناء کی پھوپھو) کو بھیج دیا جائے

یہ ہمارا چھوٹے بیٹے کے ہاں چوتھا پھیرا تھا جو کہ پوتے کی پیدائش کے بعد تیسرا اور پوتی کی پیدائش کے بعد پہلا تھا ۔ دبئی کے چوتھے پھیرے کی چیدہ چیدہ باتیں اِن شاء اللہ وقتاً فوقتاً لکھوں گا

وفاداری ۔ کس سے ؟

زمانہ کیا بدلا طور طریقے بدل کے رہ گئے ۔ وفاداری کتے کی مشہور ہے لیکن بات ہے آدمی کی جو اشرف المخلوقات ہے ۔ واقعہ اُس زمانے کا ہے جب تبدیلی کی کونپل پھُوٹ چکی تھی یعنی تبدیلی کا نعرہ لگایا جا چکا تھا ۔ ایوب خان کے خلاف نعرہ لگا تھا اور کچھ نوجوانوں کو ” گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو” کہتے سُنا گیا

سن 1968ء میں میرے سپرد ایک نہائت اہم قومی پروجیکٹ تھا جس کی نشو و نما اور پیداوار کی منصوبہ بندی بہت کٹھن اور دماغ سوز کام تھا اس پر طرّہ یہ کہ سوائے اللہ کے میرا مددگار کوئی نہ تھا

میں اپنے دفتر میں بیٹھا اسی پروجیکٹ کے ایک اہم اور غور طلب جُزو کے لائحہ ءِ عمل پر غور و خوض میں غرق تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ کوئی میرے سامنے آ بیٹھا ہے ۔ میں نے سر اُٹھا کر نظرِ غائر ڈالی تو یہ میرے باس تھے جن کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں ۔ میرا ذہن ابھی فارغ نہ ہوا تھا کہ اُنہوں نے کچھ کہا جسے میرے مصروف دماغ نے کانوں میں گھُسنے نہ دیا ۔ میں باس کو تجسس بھری نظر سے دیکھنے لگ گیا ۔ وہ پھر بولے اور بات میرے کانوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی ۔ اُنہوں نے کہا تھا

“Bhopal, You should be loyal to your officer

(بھوپال ۔ تمہیں اپنے افسر کا وفا دار ہونا چاہیئے)”

میری سوچ کے سامنے جیسے پہاڑ گر پڑا ۔ میں نے جیسے کرب میں سر اُٹھایا اور نحیف اور انکسار آمیز آواز میں کہا
” میں نے کوئی ایسی بات کہی ہے یا کوئی ایسا فعل کیا ہے جو آپ یہ کہہ رہے ہیں ؟”

باس نے کہا

“I am telling you, you should be loyal to your officer

(میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ تمہیں اپنے افسر کا وفا دار ہونا چاہیئے)”

میری سوچ توبکھر ہی چُکی تھی جس نے میرے دل کو بوجھل کر دیا تھا ۔ لمحہ بھر توقف کے بعد میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے

“First I am loyal to my religion Islam because it is the way of life laid down by the Creator, then I am Loyal to Pakistan because it is my country, then I am loyal to Pakistan Ordnance Factories because Allah has provided me livelihood through it, and I think you are fully covered in it. If not then I am sorry.

(اول میں اپنے دین اسلام کا وفادار ہوں کہ یہ لائحہءِ حیات خالق نے مقرر کیا ہے پھر میں پاکستان کا وفادار ہوں کہ یہ میرا مُلک ہے پھر میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کا وفادار ہوں کیونکہ اللہ نے مجھے روزگار اس کے ذریعہ دیا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ اس میں پوری طرح شامل ہیں ۔ اگر نہیں تو مجھے افسوس ہے)”۔

میرے باس یہ کہتے ہوئے میز پر مُکا مارا اور اُٹھ کر چلے گئے

” I say, you should be loyal to your officer

(میں کہتا ہوں کہ تمہیں اپنے افسر کا وفادار ہونا چاہیئے)”