آشنائی والے اسد حبیب صاحب نے ”محبت کیا ہے“ کے عنوان سے مباحثہ کی صورت میں لکھا ۔ اسد حبیب صاحب کبھی کبھی لکھتے ہیں لیکن لکھتے خوب ہیں ۔ میں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر تبصرہ لکھا ”محبت واقعی ایک فرضی نام ہے جو اُنس کو دیا گیا ہے ۔ البتہ کہتے ہیں جسے عشق وہ خلل ہے دماغ کا ۔ اُنس ہونے کیلئے کسی ایسی حرکت کا ہونا ضروری ہے جو دوسرے پر اثر چھوڑ جائے ۔ پھر اگر ملاقات بالمشافہ یا کسی اور طریقہ سے جاری رہے تو یہ اُنس بڑھ جاتا ہے اور اسے محبت کا نام دیا جاتا ہے“۔ متذکرہ تحریر پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں ماضی گھوم گیا ۔ آج سوچا کہ اسے قرطاس پر بکھیر دیا جائے
سن 1954ء یا 1955ء کی بات ہے جب میں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ میرے بچپن کا ایک دوست راولپنڈی آیا ہوا تھا ۔ اس نے ایک خط مجھے تھما کر کہا”پڑھو“۔ خط ایک لڑکی کی طرف سے تھا ۔ کوئی عشقیہ بات نہ تھی صرف واپسی کا تقاضہ کیا تھا ۔ میں نے پڑھ کر دوست کی طرف دیکھا تو وہ بولا ”ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ۔ پتہ نہیں آگے کیا ہو گا“۔ میں نے اُسے حوصلہ دیتے ہوئے مشورہ دیا ”محنت کرو ۔ جلد کمانے لگ جاؤ اور شادی کر لو ۔ کوئی مشکل ہو تو مجھے بتانا”۔ میرے علم کے مطابق وہ دونوں عشق میں مبتلاء نہیں ہوئے ۔ شادی کے بعد آج تک مزے میں ہیں
بات ہے سن 1958ء اور 1965ء کے درمیان کی ۔ ایک نوجوان کو ایک لڑکی سے بقول اُس کے اتنی محبت ہو گئی (عشق کہہ لیجئے) کہ اُس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا ۔ مجھے والدین سے بات کرنے کا کہا ۔ میں نے اس کی والدہ سے بات کی ۔ بعد میں اس کے والد نے مجھے کہا ” اُسے کہو ۔ محنت کرے اور پہلے کسی قابل بنے”۔ چند سال بعد اسے کسی دوسری لڑکی سے عشق ہو گیا ۔ پھر وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا ۔ تیسری لڑکی جس سے اُس کی شادی ہوئی مجھے نہیں معلوم بنیاد عشق تھی یا نہیں
میں جب انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو ایک ہمجماعت ہر ماہ میں ایک یا دو بار میڈیکل کالج کی ایک لڑکی سے ملنے جاتا تھا ۔ تین سال بعد ہمارے آخری سال کے تحریری امتحان ختم ہو چکے تھے عملی ابھی باقی تھے ۔ ہم ہوسٹل کے صحن میں بیٹھے تھے کہ اُس لڑکے کا بہترین دوست آیا اور اُسے کوسنے سنانے لگا ۔ معاملہ پوچھا گیا تو بولا ”یہ انسان نہیں ہے ۔ میں نے اسے دوست بنا کر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ۔ جس لڑکی کے ساتھ یہ ملتا تھا اُس سے مجھے بھی متعارف کرایا تھا ۔ میں شہر گیا ہوا تھا تو سوچا کہ اسے اللہ حافظ کہتا جاؤں ۔ میں وہاں پہنچا تو وہ زار و قطار رو رہی تھی ۔ پوچھا تو بتایا ”میں نے ۔ ۔ ۔ کو کہا کہ اب تم یہاں سے چلے جاؤ گے تو رابطہ ممکن نہیں ہو گا ۔ اسلئے تم اپنے والدین سے کہو کہ میرے والدین سے بات کریں”۔ لڑکے نے بات جاری رکھی ”اِس سُوّر نے اُسے کہا کہ میں تجھ سے شادی کروں گا جو بغیر کسی رشتہ کے غیر لڑکے (میرے) کے ساتھ ملتی رہی”۔
سن 1970ء میں ایک لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہو گئی ۔ جب اس کے والدین نے اس کی شادی کا سوچا تو اس نے اس لڑکی کا بتایا ۔ باپ مان گیا لیکن ماں نے صاف نکار کر دیا ۔ لڑکے کے زور دینے پر ماں نے کہا ”یا وہ اس گھر میں ہو گی یا میں ۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے“۔ اس لڑکی کی جس سے شادی ہوئی شریف اور محنتی ہے اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے پاس دولت کی ریل پیل ہے
سن 1996ء کا واقعہ ہے ایک لڑکی نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف ایک لڑکے سے محبت کی شادی کر لی اور اُس کے ساتھ دساور چلی گئی ۔ شادی کے پانچ سال بعد لڑکی نے خود لڑکے سے طلاق لے لی اور واپس پاکستان آ گئی ۔ شاید وہ اُس کے خوابوں کا شہزادہ ثابت نہ ہوا تھا
اکیسویں صدی میں دو جوڑوں کی ملاقات فیس بُک پر ہوئی اور چلتے چلتے والدین تک پہنچی تو شادیاں ہو گئیں ۔ دونوں جوڑے مزے میں رہ رہے ہیں ۔ ایک جوڑا ملک سے باہر بس گیا ہے ۔ دوسرا لاہور میں ہے جن سے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی ہے ۔ میاں بیوی دونوں ہی بہت ملنسار اور ہنس مُکھ ہیں
آپ یہاں میری کہانی پڑھنے آئے ہوں گے ۔ چلیئے بتائے دیتے ہیں ۔ کیا یاد رکھیں گے ۔ میں جب بر سرِ روزگار ہو گیا تو میری والدہ نے میرے بہترین دوست سے پوچھا ”اجمل کو کوئی لڑکی پسند ہے ؟“ اُس نے جواب دیا ”توبہ کریں خالہ ۔ جب ہم گارڈن کالج میں پڑھتے تھے تو کئی لڑکیاں چاہا کرتیں کہ یہ اُن سے بات ہی کر لے ۔ مجال ہے اس نے اُنہیں حوصلہ بخشا ہو“۔
دراصل میرے ماتھے پر جلی حروف میں کچھ لکھا ہے جسے کچھ لوگ ”بیوقوف“ پڑھتے ہیں اور کچھ ”نیک بچہ“۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ گارڈن کالج میں چند بار لڑکیوں نے مجھے کسی لڑکے سے کتاب یا کاپی لے کر دینے کا کہا یا پروفیسر صاحب کی معرفت کہا کہ فلاں پریکٹیکل کروا دوں ۔ مجھے اُن لڑکیوں کی شکلیں یاد نہ رہیں ۔ نام تو کچھ کا معلوم ہی نہیں تھا ۔
جب ہم انجنیئرگ کالج میں پرھتے تھے تو میوزک کنسرٹ ہوا ۔ چند لڑکوں نے کوشش کر کے اپنے ذمہ خواتین کا استقبال لیا ۔ مجھے ایک اعلٰی عہدیدار کا استقبال سونپا گیا جس کیلئے میں گیٹ کے قریب استقبالیوں سے کچھ پیچھے کھڑا تھا ۔ لڑکیوں کا ایک غول آیا ۔ میں نے دوسری طرف منہ کر لیا ۔ وہ لڑکے آگے بڑھے مگر لڑکیوں نے ”نہیں شکریہ“ کہہ دیا ۔ وہ مجھ سے گذرنے کے بعد میری طرف گھومیں اور ایک بولی ”پلیز ۔ ذرا ہمیں گائیڈ کر دیجئے“۔ میں نے کہا ”یہ اسقبالیہ والے ہیں ان کے ساتھ چلی جایئے“۔ دو تین بولیں ”آپ کیوں نہیں لیجاتے“۔ میں چل پڑا اور آگے جا کر شامیانے پر استقبال کرنے والے سے کہا ”انہیں بٹھا دیجئے“۔ اور لپک کر گیٹ پر پہنچا کہ کہیں مہمان نہ پہنچ گئے ہوں ۔ اُس کے بعد کئی دن تک میرا ریکارڈ لگتا رہا کہ کس اُجڈ کے پاس لڑکیاں جاتی ہیں
کچھ عرصہ بعد مجھے شہر میں دو تین جگہ کام تھا ۔ کالج کا کام ختم کر کے میں عصر کے بعد ہوسٹل سے نکلا اور بس پر شہر پہنچ کر قلعہ گوجر سنگھ اُترا ۔ وہاں کا کام کر کے پیدل میکلوڈ روڈ ۔ مال ۔ انارکلی اور شاہ عالمی سے ہوتا ہوا جب ریلوے سٹیشن کے سامنے لوکل بس کے اڈا پر پہنچا تو رات کے ساڑھے 10 بجے تھے اور بسیں بند ہو چکی تھیں ۔ سیڑھی پل گیا اور ریلوے سٹیشن کو عبور کر کے دوسری طرف جی ٹی روڈ پر ٹانگوں کے اڈا پر پہنچا ۔ وہاں کوئی ٹانگہ باغبانپورہ کی طرف جانے کو تیار نہ تھا ۔ میں تھک چکا تھا مگر سوائے پیدل چلنے کے کوئی حل نہ تھا ۔ جب ہمارا ہوسٹل ڈھائی یا تین کلومیٹر رہ گیا تو ٹانگوں میں چلنا تو ایک طرف کھڑے ہونے کی سکت نہ رہی ۔ گھڑی دیکھی رات کے ساڑھے 12 بجے تھے ۔ میں بیٹھنے کیلئے ادھر اُدھر کوئی سہارا دیکھ رہا تھا تو ایک کار آ کر رُکی ۔ شیشہ کھُلا اور زنانہ آواز آئی ۔ میں سمجھا کہ کسی جگہ کا راستہ پوچھ رہی ہیں ۔ قریب ہو کر پوچھا تو جواب ملا ”آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ بیٹھ جایئے میں پہنچا دیتی ہوں“۔ میں بغیر سوچے سمجھے پچھلا دروازہ کھولنے لگا تو بولیں ”ادھر فرنٹ سیٹ پر ہی بیٹھ جایئے“۔ جب گاڑی چلی تو بولیں ”میں گذر جاتی مگر خیال آیا کہ کوئی مجبوری ہو گی جو اس وقت آپ پیدل جا رہے ہیں“۔ میں ٹھہرا ارسطو کا شاگرد بولا ”آپ کا بہت شکریہ مگر دیکھیئے بی بی ۔ آج آپ نے یہ بہادری دکھائی ۔ آئیندہ ایسا نہ کیجئے گا ۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا کب شیطان سوار ہو جائے“ ہوسٹل کا گیٹ آیا ۔ کار کھڑی ہوئی اور میں شکریہ ادا کر کے اُتر گیا ۔ غلطی یہ ہوئی کہ ایک دوست کے رات دیر سے آنے کے استفسار پر احوال بتا دیا چنانچہ میرا ریکارڈ کئی دن لگتا رہا
اصل میں طلب اور رسد (Supply and Demand) کا کُلیہ ہر جگہ منطبق ہوتا ہے ۔ میں لڑکیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا تو لڑکیاں میری طرف متوجہ ہوتی تھیں ۔ جو لڑکیوں کے پیچھے جاتے ہیں لڑکیاں اُن سے دور بھاگتی ہیں
میں بہت دُور نکل گیا ۔ خیر ۔ میری امی کو تسلی نہ ہوئی ۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا ”تم اپنی امی کو نہیں بتاؤ گے کہ تم کس سے شادی کرنا چاہتے ہو ؟“
میں نے کہا ”امی ۔ جو لڑکی آپ پسند کریں گی وہ بہترین ہو گی“۔
دو تین دن بعد والد صاحب نے مجھ سے پوچھا “تم کس سے شادی کرنا پسند کرو گے ؟“
میں نے کہا ”جس سے آپ شادی کر دیں گے“۔
پھر اُنہوں نے کہا ”تمہاری بڑی خالہ کی بیٹی ؟“
میں نے کہا ”اُن کی سب بیٹیاں اچھی ہیں“۔
خالہ کی بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی تھی ۔ اُس سے چھوٹی سے میری شادی ہو گئی ۔ میرے اللہ نے مجھے سچا کر دکھایا کہ میرے والدین کی پسند میرے لئے زندگی کا بہت بڑا تحفہ ثابت ہوئی ۔ اللہ کے فضل سے دنیاوی اور دینی دونوں تعلیمات سے آراستہ ہونے کے ساتھ خوبصورت ۔ خوب سیرت ۔ پیار اور احترام کرنے اور توجہ دینے والی ہے اور کبھی مجھ پر کسی لحاظ سے بوجھ نہیں بنی ۔ مشکل حالات میں نہ صرف میرا بھرپور ساتھ دیا بلکہ میرا حوصلہ بھی بڑھاتی رہی ۔ اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو دنیا کے چند خوش قسمت مردوں میں سمجھتا ہوں
نتیجہ ۔ سکون نہ تو دولت سے ملتا ہے اور نہ عشق و محبت سے بلکہ اچھی ماں کے بعد اچھی بیوی بہم پہنچاتی ہے