Category Archives: آپ بيتی

پہلی ملاقات

پہلی ملاقات ایک اچھوتا تجربہ ہوتی ہے ۔ کبھی باتیں کر کے بھی کچھ پتہ نہیں چلتا اور کبھی بِن بات کئے بہت کچھ حاصل ہو جاتا ہے ۔ میں ڈراموں یا فلموں کی بات نہیں کر رہا جنہوں نے پہلی ملاقات کا تصور ہی گہنا دیا ہے ۔ میرے مدِ نظر اصلی ملاقات ہے جو دبئی میں کاشف صاحب سے ہوئی ۔ نہیں نہیں کاشف نصیر صاحب نہیں اور نہ ہی محمد کاشف صاحب قرآن مع تفسیر کا آسان مگر اعلٰی سافٹ ویئر بنا کر فی سبیل اللہ بانٹنے والے ۔ یہ صاحب ہیں جوانی پِٹّے کا بلاگ والے

میرے دبئی آنے کا اعلان 22 جنوری کو شائع ہوا تھا لیکن اپنا کمپیوٹر میں 21 جنوری کی شام کو بند کر چکا تھا ۔ کاشف صاحب نے تبصرہ میں دبئی ایئر پورٹ پر ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ میں نے دبئی پہنچنے کے اگلے دن بعد دوپہر لیپ ٹاپ کھولا تو پڑھ کر افسوس ہوا ۔ لیکن کاشف صاحب دھُن کے پکے نکلے پہلے بلاگ پر تبصرے کی جگہ مکالمے ہوتے رہے ۔ پھر ای میلز کا تبادلہ ہوا ۔ میں نے بتایا کہ میں مرسی دبئی (Dubai Marina) میں ہوں اور ایک ہفتہ بعد الروضہ (The Greens) چلا جاؤں گا جہاں ایک ھفتہ قیام کے بعد واپسی ہو گی

بدھ 5 فروری کی صبح ٹیلیفون آیا کہ ”آج ہی مِل سکتا ہوں“۔ میں نے اھلاً و سہلاً مرحبا کہا ۔ بالآخر اُس شام کو کاشف صاحب نے خوشگوار شام بنا دیا ۔ پونے پانچ بجے الروضہ میں ہماری رہائشگاہ کے استقبالیہ پر پہنچ کر اطلاع دی ۔ میں 3 منزلیں اُتر کر اُن کی گاڑی میں بیٹھا اور قریبی سُپر مارکیٹ کے ایک ریستوراں (Restaurant) میں جا بیٹھے ۔ کاشف صاحب آئے تو میرے پاس تھے لیکن میزبان بن کر مجھے چائے پلا دی ۔ کافی پلانا چاہ رہے تھے لیکن سوا تین سال سے اسے میرے لئے ممنوع قرار دیا جا چکا ہے ۔ گپ شپ ہوئی ۔ کاشف صاحب نے اپنا تو کچھ نہ بتایا بس مجھ سے پوچھتے رہے

مغرب کی اذان ہوئی تو ساتھ ہی مسجد تھی وہاں فرض سے فارغ ہوئے اور آئیندہ ملتے رہنے کے وعدہ کے ساتھ مجھے گھر چھوڑ کر چلے گئے ۔ آئیندہ ملاقات اِن شاء اللہ مرسی دبئی میں ہو گی ۔ کاشف صاحب کے بلاگ کے عنوان سے تاءثر اُبھرتا ہے کہ کچھ سڑیل سے ہوں گے لیکن اس عنوان کے برعکس خوش دِل اور پُرعزم محسوس ہوئے

میری کہانی 4 ۔ باس

میں نے اپنے ہر باس کی انکساری اور بُردباری کے ساتھ تابعداری کی سوائے اس کے کہ باس کے حُکم کی بجا آوری سے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہو یا ادارے یا مُلک کو نقصان پہنچتا ہو ۔ میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں مختلف اوقات میں 5 باسِز کے ماتحت کام کیا ۔ جن میں سے 2 کے ماتحت صرف کچھ ماہ کام کیا اسلئے پہلے اُن کا ذکر جن کی ماتحتی میں زیادہ عرصہ گذارا

میرے پہلے باس ہر دل عزیز تھے (اپنی یا اپنے باس کی نظر میں) ۔ پائپ منہ میں رکھ کر بات کرتے تھے ۔ غصہ اُنہیں انگریزی میں آتا تھا ۔ فیکٹری میں کام 7 بجے شروع ہوتا تھا ۔ وہ ساڑھے سات بجے تشریف لاتے تھے ۔ ساڑھے نو بجے وہ اپنی کار پر چلے جاتے اور 12 بجے کے قریب لوٹتے ۔ ساڑھے بارہ بجے کھانے کیلئے ایک گھنٹہ کی چھٹی ہوتی تو وہ پھر چلے جاتے اور دو ڈھائی بجے لوٹتے ۔ اگر اس معمول میں کوئی رکاوٹ پیش آ جاتی تو مزاج چڑچڑا ہو جاتا ۔ بات بات پر بھڑنے کو تیار رہتے ۔ دو گالیاں کسی کو غائبانہ دیتے اور ایک آدھ اپنے آپ کو بھی کہ ساری دنیا کا کام اُنہیں ہی کرنا پڑ گیا ہے
ایک دن مجھے حُکم دیا ” یہ سارے پھوہڑ (چٹایاں) جلا دو”۔ میں نے کہا ”دوپہر ایک گھنٹہ کے وقفے میں لوگ ان پر نماز پڑھتے ہیں اور میں بھی نماز پڑھتا ہوں ۔ میں ان کو جلا نہیں سکتا“۔ تو کہتے ہوئے چلے گئے ”ایوب خان جتنا بڑا مسلمان کوئی نہیں ۔ اُس نے نماز پڑھنے کا وقت نہیں دیا تو میں کیسے دے سکتا ہوں ۔ میں خود جلوا دوں گا“۔ مگر جلائے تو نہیں تھے
بہت دلیر اور نڈر مشہور تھے لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ باس کی بزدلی مجھ پر عیاں ہوئی ۔ اللہ کی کرم نوازی کہ میرے ہاتھوں اُس معاملہ میں اُنہیں بچا دیا
اُن کا ایک راز دان چپڑاسی تھا جس سے سب ڈرتے اور اس کا کہا مانتے سوائے مجھ گستاخ کے ۔ لیکن ناجانے وہ چپڑاسی مجھ سے کیوں مانوس ہوتا گیا اور ایک دن ایسا آیا کہ اس نے باس کی ذاتی زندگی کے کئی راز تنہائی میں میرے سامنے اُگل دیئے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے توفیق دی اور میں نے وہ راز ہمیشہ کیلئے دفن کر دیئے . ایک بتا دیتا ہوں جو مجھ سے متعلق تھا ۔ اُس زمانہ میں واہ میں قدرتی گیس مہیاء نہیں کی گئی تھی ۔ سردیوں میں انگیٹھی میں کوئلہ یا لکڑی جلاتے تھے ۔ ہماری فیکٹری میں بندوق کے بٹ اور فور آرم بننے کے بعد اخروٹ کی لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بچتے تھے ۔ اخروٹ کی لکڑی جلنے پر دھواں نہیں دیتی . یہ سکریپ کے طور پر ہماری فیکٹری کے ملازمین کو بیچے جاتے تھے ۔ ایک ملازم ایک سال میں صرف ایک بار لے سکتا تھا ۔ یہ باس میرے نام پر وہ لکڑی 5 سال نکلواتے اور مجھے لکڑی نہ ملتی رہی ۔ مجھے یہی بتایا جاتا رہا کہ لکڑی نہیں ہے
باس شاید اُس وقت تک باس نہیں ہوتا جب تک کسی بے قصور کو نقصان نہ پہنچائے ۔ چنانچہ جہاں تک اُن سے ممکن ہو سکا مجھے نقصان پہنچایا ۔ 1983ء میں لبیا سے واپسی پر مجھے پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تعنات کیا گیا تھا ۔ کسی کام سے پرنسپل کو ملنے آئے ۔ مجھے بیٹھا دیکھ کر حیرت سے کم از کم ایک منٹ منہ کھلا رہا اور کچھ بول نہ سکے اور کام بتائے بغیر چلے گئے

میرے جو دوسرے باس بنے وہ زبردست حکائت گو تھے اور اس فن سے واقف تھے کہ اپنے باس کے سامنے کونسی حکائت بیان کرنا ہے اور ماتحت کے سامنے کونسی ۔ خواتین کے جھُرمٹ میں گھُس کر کھِل اُٹھتے تھے ۔ اپنے گھر چائے پر جوان جوڑوں کو بُلایا ۔ میں اکیلا گیا کہ میری بیوی گو پردہ نہیں کرتی مگر مخلوط محفل میں جانا پسند نہیں کرتی تھی ۔ مجھے کہا ”واپس جاؤ اور بیگم کو لے کر آؤ“۔ میں نے پس و پیش کیا تو ایک ہمدرد نے علیحدہ لیجا کر کہا ”اس طرح بدتمیزی گِنا جائے گا ۔ بھابھی کو لے آؤ ۔ وہ ایک طرف کھڑی رہے باقی خواتین کے جھرمٹ میں نہ جائے ۔ سو ایسا ہی کیا گیا ۔ میری بیوی کو ایک اور اپنے جیسی مل گئی ۔ دونوں ایک طرف کھڑی گپ لگاتی رہیں اور چائے تک نہ پی ۔ باس اپنی چہک میں رہے اور اُنہیں اس کا احساس نہ ہوا
ایک دن مجھ سے کہنے لگے ”میں نے اپنی بیوی کو تسلی دے رکھی ہے کہ تو فکر نہ کر میں گھر دوسری کو لے کر نہیں آؤں گا“۔
ایک دن فرمانے لگے ”تم بہت غیر سماجی (unsocial) ہو ۔ بیگم کو ساتھ لے کر بڑے افسروں کے گھر جایا کرو“۔ میں ٹھہرا دو جماعت پاس ناتجربہ کار ۔ جواب دیا ”حضور ۔ اس ادارے کا ملازم میں ہوں میری بیوی نہیں“۔ اس پر لمبی تقریر جھاڑ دی
اپنے پی اے کے ہاتھ مہینے دو مہینے کی اکٹھی کی ہوئی اپنی ساری ڈاک میرے دفتر میں اس پیغام کے ساتھ بھجوا دیتے کہ ”ارجنٹ ہے ۔ جلدی سے ساری نپٹاؤں“۔
ایک پریس شاپ میں شاید ایک دہائی کام کیا تھا اور دعوے سے کہا کرتے ”I know nuts and bolts of presses (میں پریسوں کی ڈھِبریاں کابلے جانتا ہوں)“۔ ہم جرمنی گئے ہوئے تھے وہاں جرمن انجیئروں کے سامنے بھی یہ فقرہ کہا کرتے تھے ۔ ایک دن میرے ساتھ اس بات پر اُلجھ پڑے کہ میں کرینک (crank) پریس اور ایکسَینٹرِک (accentric) پریس کو فرق فرق سمجھتا ہوں ۔ جرمن انجنیئر سے کہا ”اپنے دوست اجمل کو سمجھاؤ“۔ وہ جرمن بہت تیز تھا بولا ”پریس ورکشاپ جا کر فورمین سے پوچھتے ہیں ۔ جب وہاں جا کر فورمین سے بات کی تو وہ اُچھل پڑا ”کون جاہل کہتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہیں“۔ باس تو وہاں سے بھاگ لئے ۔ واپسی پر جرمن انجنیئر نے شریر مسکراہٹ کے ساتھ کہا ”ہاں ۔ باس ڈھبریاں اور کابلے جانتے ہیں“۔ مزے کی بات کہ انگریزی میں کہنا ہو کہ اُسے کچھ نہیں آتا تو کہا جاتا ہے ”He knows nuts and bolts (اسے ڈھبریوں اور کابلوں کا پتہ ہے)“۔
انہی صاحب نے مجھے وفاداری کا سبق بھی پڑھایا تھا

میرے تیسرے باس بڑے مسلمان تھے ۔ کم از کم اُن کا اندازِ گفتگو یہی بتاتا تھا ۔ بڑے انصاف پسند بھی تھے ۔ جو اُن کا دعوٰی تھا ۔ ہر ماتحت کا تمسخر اُڑانا تو مزاح کی خاطر ہوتا تھا لیکن اُن پر کوئی ہلکی سی بھی تنقید کرے تو بپھر جاتے اور ہمیشہ کیلئے دل میں رکھتے
لطیفے سناتے ہوئے (نعوذ باللہ من ذالک) اللہ کی حیثیت ہی بھول جاتے
جو ماتحت اُن کی ذاتی خدمت عام کرے وہ بغیر سرکاری کام کے جس کی وہ تنخواہ پاتا ہو یا وہ جو بڑی سرکار کا منظورِ نظر ہو تو عمدہ رپورٹیں پاوے ۔ جو محنت اور ذہانت کے ساتھ اپنی تنخواہ حلال کرے مگر اول الذکر خوبی نہ رکھتا ہو اُس کی نہ صرف رپورٹ خراب کرتے بلکہ ہر محفل میں اُس کی نالائقی کا پرچار بھی کرتے
میں 1971ء میں پروڈکشن منیجر تھا تو میرے باس بنے ۔ وسط 1966ء سے میرے کام میں مشین گن کی پلاننگ اور ڈیویلوپمنٹ کے ساتھ ساتھ نہ صرف جرمن لوگوں کے ساتھ ڈیل کرنا تھا بلکہ اُن کے ذاتی معاملات میں اپنے وقت میں مدد دینا اور چھُٹی کے دن سیر و سیاحت پر لیجانا بھی شامل تھا ۔ اسلئے میں جرمن کافی بولنے لگ گیا تھا ۔ 1971ء کی سالانہ رپورٹ میں ایک سوال تھا کہ کون کون سی زبان بولنا ۔ لکھنا ۔ پڑھنا جانتے ہو ۔ میں نے لکھا کہ جرمن بولنا جانتا ہوں ۔ ایک ماہ بعد باس نے بلا کر کہا ”تم نے کونسا سرٹیفیکیٹ لیا ہوا ہے اس میں کاٹو اسے اور دستخط کرو“ ۔ مجھے بُرا تو لگا مگر نقصان نہ سمجھتے ہوئے کاٹ کر دستخط کر دیئے ۔ چند دن بعد ایک افسر جو چند ماہ قبل تک میرے ماتحت اسسٹنٹ منیجر تھا اور منیجر ہو گیا تھا میرے پاس آیا ۔ میں نے پوچھا ”کیسے آئے“۔ بولا ”باس نے بُلایا تھا“۔ میں نے پوچھا ”کیوں ؟“ بولا ”کہاتھا کہ یہاں لکھو کہ جرمن بولنا ۔ لکھنا اور پڑھنا آتی ہے ۔ میں نے لکھ دیا کہ مجھے کیا فرق پڑتا ہے“۔ میں نے اپنا واقعہ بتایا تو ہنس دیا ۔ عقدہ بعد میں کھُلا ۔ اُس زمانہ میں ہمارے پروجیکٹ کے سلسلہ میں میری ہی سطح کا ایک افسر جرمنی میں بطور ٹیکنیکل اتاشی ہوتا تھا ۔ مجھ سے ایک سنیئر 3 سال گذار کر آ چکے تھے ۔ دوسرے کے 3 سال 1972ء میں پورے ہونا تھے ۔ اُن کے بعد میری باری تھی ۔ سلیکشن کے وقت میرا نام آیا تو موصوف نے بحث کی کہ اسے جرمن بالکل نہیں آتی جب کے جونیئر جرمن بولتا ۔ پڑھتا اور لکھتا ہے ۔ چنانچہ مجھے روک کر اُسے جرمنی بھیجا گیا ۔ وہ افسر انگریزی بھی روانی سے نہیں بول سکتا تھا ۔ اس کی سفارش کہیں بہت اُوپر سے آئی تھی
اسسٹنٹ منیجر ہفتہ کی پروڈکشن رپورٹ لے کر آیا ۔ میں نے جائزہ لے کر کہا ” کیا صرف گذشتہ رات میں پروڈکشن اتنی زیادہ ہو گئی ۔ کل چھُٹی تک تو کم تھی ؟“ وہ بولا باس نے کہا تھا ”جو رائفلیں اور مشین گنیں ابھی تیار نہیں ہوئیں اور ان کیلئے پرزے پورے ہیں اُنہیں بھی رائفلیں اور مشین گنیں گن لو“۔ میں نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا ۔ بعد میں باس نے بلا کر دستخط کرنے کو کہا تو میں نے کہا ”جناب ۔ جو رائفلیں اور مشین گنیں ابھی تک تیار ہی نہیں ہوئیں ۔ میں اُنہیں تیار کیسے سمجھ لوں ؟“۔ بولے ”بن ہی جائیں گی نا“۔ میں نے کہا ”جب بن جائیں گی تو رپورٹ میں بھی آ جائیں گی اور میں دستخط بھی کر دوں گا “۔ اُس دن کے بعد ہر جگہ ہر محفل میں جہاں میں موجود نہ ہوں میری مفروضہ نالائقی کے قصے بیان ہونے لگے
ذہین مسلمان ہونے کے دعویدار لیکن کوئی 5 وقت کی نماز مسجد میں پڑھنے والا ہو یا داڑھی سنّت سمجھ کر رکھی ہو تو اُسے جاہل سمجھتے
یہی صاحب بحیثیت ممبر پی او ایف بورڈ 1984ء میں میرے باس بنے جب میں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا ۔ پاکستان میں سب سے پہلے یعنی 1968ء میں پی او ایف میں کمپیوٹرائزڈ نُومَیرِکل کنٹرول مشینز المعروف سی این سی مشینز (Computerised Numerical Control Machines) میں نے متعارف کرائیں تھیں اسلئے انسٹیٹیوٹ کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کرنے کا کام میرے ذمہ کیا گیا تھا ۔ ورکشاپس کے ساتھ ساتھ نئے نصاب بھی تیار کئے ۔ باس کا حُکم آیا کہ کھیلوں کے 60 نمبر بھی نصاب میں شامل کئے جائیں ۔ اس طرح کل نمبر 1160 بن گئے ۔ اسے 1200 بنانے کیلئے میں نے 10 (واہ کی سطح کا) سے 40 (ملکی سطح کا) بہترین قاری ہونے کیلئے شامل کر دیئے ۔ جب باس کو دکھایا تو بولے ”ابھی سے ان کو مکاری سکھا دو“۔ خیال رہے کہ اس زمانہ میں سکولوں میں قرآن شریف ناظرہ پڑھانا لازمی تھا

میری تحریر ”احتساب“ میں درج واقعات میں سے کچھ انہی حضرات کے کارنامے ہیں

باس سب خراب نہیں ہوتے ۔ میرے 2 ایسے باس بھی رہے جن میں سے ایک صرف 2 ماہ (نومبر دسمبر 1963ء) جن کا نام فیض الرحمٰن صدیقی تھا اور دوسرے شاید 1970ء میں 6 ماہ کیلئے جن کا نام حسن احتشام ہے ۔ ان حضرات کے ساتھ بھی میرا تکنیکی یا ذاتی اختلاف ہوا اور بحث بھی ہوئی لیکن یہ دونوں کام کرنے والے ماتحتوں کی بہت قدر کرتے تھے ۔ اس کا عِلم مجھے اُن کے ماتحت کام کرنے کے بعد ہونے والے واقعات سے ہوا ۔ اللہ کریم نے انہی 2 افسران کو میرا شفیع بنایا اور میں اللہ کے فضل و کرم سے بدیر سہی لیکن ریٹائرمنٹ لینے کے وقت گریڈ 20 میں تنخواہ کی زیادہ سے زیادہ سطح پر پہنچا

میری کہانی ۔ مالیات

والد صاحب نے1948ء میں راولپنڈی فائر کلے برکس (Fire clay bricks) کا ایک کارخانہ لگایا ۔ جموں کشمیر کے مہاجر ہونے کی وجہ سے ہمیں پاکستان کی شہریت حاصل نہ تھی چنانچہ کارخانہ کیلئے زمین 25 فیصد منافع کا حصہ دار بنانے کی شرط پر ایک مقامی شخص کی استعمال کی گئی ۔ والد صاحب نے پاکستان بننے سے کچھ قبل یورپ میں اس کام کا مطالعہ اور عملی مشاہدہ کیا تھا ۔ ان اینٹوں کیلئے پاکستان میں مٹی کی تلاش کی اور مختلف علاقوں سے نمونے لے کر جرمنی بھیجے جن میں سے داؤد خیل کا نمونہ سب سے اچھا پایا گیا ۔ اواخر 1949ء میں پیداوار شروع ہوئی تو پاکستان میں پہلی ہونے کے باعث بہت سے آرڈر ملنے شروع ہو گئے جس نے زمین کے مالک کو چُندیا دیا اور اُس نے منافع میں 50 فیصد کا مطالبہ کر دیا ۔ ایسا نہ ہونے پر اپنی زمین سے کارخانہ اُٹھانے کا نوٹس دے دیا ۔ والد صاحب کا منیجر نمعلوم کیوں اُن کے ساتھ مل گیا اور تمام دستاویزات اُن کے حوالے کر دیئے ۔ چنانچہ والد صاحب کو کارخانہ چھوڑنا پڑا ۔ منہ کے بل تو پاکستان بننے پر گرے تھے لیکن اُٹھنے کے بعد پاکستان میں ہمیں پہلی زوردار ٹھوکر یہ لگی

والد صاحب نے 1950ء کے شروع میں ایک دکان کرایہ پر لی اور کار و بار شروع کیا ۔ وہ صبح پونے 8 بجے گھر سے جاتے اور شام 7 بجے لوٹتے ۔ جمعہ کو چھٹی ہوتی مگر ہر ماہ 2 بار جمعرات کی رات لاہور مال لینے جاتے اور جمعہ کی رات کو واپس پہنچتے ۔ یکم اپریل 1950ء کو والد صاحب نے مجھے 500 روپے دے کر کہا کہ ”پورے ماہ کا خرچ ہے ۔ اگر مہینہ ختم ہونے سے پہلے ختم کر دو گے تو باقی دن بھوکے رہیں گے اور اگر کچھ بچا لو گے تو اگلے ماہ بہتر کھا لیں گے”۔ میری اصلی عمر اُس وقت ساڑھے 12 سال تھی (سرکاری ساڑھے 11 سال) اور میں ساتویں جماعت کے بعد آٹھویں میں بیٹھا ہی تھا ۔ یہ رقم کھانے پینے کی و دیگر اشیاء ضروریہ ۔ جلانے کی لکڑی ۔ بجلی اور پانی کا بل ۔ سکول کی فیسیں ۔ کتابیں ۔ کاپیاں وغیرہ سب کیلئے تھی

چھوٹا موٹا سودا تو پہلے بھی میں لاتا رہتا تھا لیکن اب پورا سودا لانا میرے ذمہ ہو گیا ۔ میں ہفتہ میں تین چار بار سبزیاں راجہ بازار کے بازو والی سبزی منڈی سے اور پھل گنج منڈی کے اُس سرے سے لاتا جو رتہ امرال کی طرف ہے ۔ دالگراں بازار سے چاول اور دالیں مہینہ میں ایک بار لاتا ۔ 4 سال یہ سب کام پیدل ہی کرتا رہا

اپریل 1950ء میں 2 بہنیں مجھ سے بڑی اور چھوٹے 2 بھائی اور ایک بہن تھے جبکہ اپریل 1953ء تک چھوٹی 2 بہنیں اور 3 بھائی ہو گئے تھے ۔ کہا گیا کہ ایک بڑی بہن ۔ ایک چھوٹی بہن اور 2 چھوٹے بھائیوں کو جیب خرچ دیا کروں جو میں نے دینا شروع کر دیا ۔ ایک دن کوئی چیز خریدنے کو میرا دل چاہا تو رات کو والد صاحب سے پوچھا ”میں بھی جیب خرچ لے لوں ؟“ جواب ملا ”سارے پیسے تمہارے پاس ہوتے ہیں ۔ خود کھاؤ یا گھر کا خرچ چلاؤ ۔ تمہاری مرضی“۔ اکتوبر 1956ء میں انجنیئرنگ کالج لاہور چلے جانے پر میری یہ ذمہ داری تو ختم ہو گئی لیکن یکم اپریل 1950ء کے بعد ساری عمر مجھے جیب خرچ نہ کبھی ملا اور نہ پھر مانگنے کی جراءت ہوئی

دسمبر 1962ء میں ملازمت شروع ہوئی تو چھوٹے بہنوں بھائیوں کی تعلیم کا خرچ میرے ذمہ ہوا ۔ اس کے علاوہ اُن کی شادیوں کے اخراجات میں والد صاحب کی مدد بھی لازم تھی ۔ نومبر 1967ء میں میری شادی ہوئی ۔ جنوری 1968ء میں والدین کی ھدائت پر میں بیوی کو لے کر واہ چھاؤنی میں سرکاری رہائشگاہ میں منتقل ہو گیا ۔ 7 دسمبر 1970ء کو جس دن پاکستان میں انتخابات ہو رہے تھے اللہ کریم نے مجھے بیٹا (زکریا) عطا کیا ۔ فروری 1975ء ختم ہونے تک اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے ایک بیٹی اور 2 بیٹوں کا باپ بنا دیا تھا

مئی 1976ء میں مجھے حکومت نے لبیا بھیج دیا جہاں سے یکم فروری 1983ء کو واپسی ہوئی ۔ درمیان میں ہر 2 سال بعد 2 ماہ کی چھٹی گذارنے راولپنڈی آتے رہے ۔ 29 جون 1980ء کو والدہ محترمہ اچانک فوت ہو گئیں تو میں اکیلا ہی آ سکا ۔ 1982ء میں ہم راولپنڈی آئے ہوئے تھے تو والد صاحب نے کہا ”اب تم مجھے کوئی پیسہ نہ بھیجنا”۔ لیکن یہ ذمہ داری اکتوبر 1984ء میں ختم ہوئی جب میں دوبارہ واہ چھاؤنی میں رہائش پذیر ہوا

میں نے واہ میں سرکاری رہائشگاہ والد صاحب کے اصرار پر لی کیونکہ والد صاحب کی خواہش تھی کہ میری سب سے چھوٹی بہن راولپنڈی سیٹیلائٹ ٹاؤن والے مکان میں رہے ۔ میں والد صاحب کو ساتھ واہ لیجانا چاہتا تھا لیکن وہ اپنا گھر چھوڑ کر جانے پر راضی نہ ہوئے ۔ والد صاحب پر 1987ء میں فالج کا حملہ ہوا تو میں اپنی سب سے بڑی بہن کی مدد سے اُنہیں اپنے پاس واہ چھاؤنی لے گیا ۔ گھر میں والد صاحب کی خدمت کیلئے وقت اور محنت درکار تھی ۔ دفتر میں ایک محکمہ کا سربراہ ہونے کی ذمہ داری کے ساتھ عیاریوں اور منافقتوں کا ماحول تھا ۔ میں نے باپ کی خدمت کو درست جانتے ہوئے قوانین کے مطابق 1990ء میں یکم مارچ 1991ء سے سوا سال کی چھٹی کے ساتھ 3 اگست 1992ء سے ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی تھی ۔ والد صاحب کو علاج کیلئے کبھی ہفتہ کبھی 2 ہفتے بعد اسلام آباد لانا پڑتا تھا جس سے والد صاحب بہت تھک جاتے تھے ۔ میں نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو جو سرجن ہے اور اُن دنوں انگلستان میں تھا کہا کہ واپس آ جائے اور اسلام آباد اپنے مکان میں رہ کر والد صاحب کو اپنے پاس رکھے ۔ وہ 1990ء میں آ گیا اور میں نے والد صاحب کو اُس کے پاس چھوڑ دیا ۔ جون 1991ء کے آخر میں چھوٹا بھائی اپنا سامان لینے انگلستان گیا تو میں والد صاحب کو پھر اپنے پاس واہ لے گیا ۔ 2 جولائی کو والد صاحب اچانک فوت ہو گئے

اللہ کی کرم نوازی ہمیشہ شامل حال رہی اور میرا دل یا پاؤں کبھی نہ ڈگمگائے ۔ اس کیلئے میں اپنے پیدا کرنے اور پالنے والے کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ۔ سچ ہے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بے حساب نوازشات کرتا ہے

میری کہانی ۔ لالٹین اور جاتکو

جی نہیں ۔ یہ وہ کہانی نہیں ۔ نہ تو یہ جیو کہانی ہے اور نہ وہ جس کا گانا محمد رفیع نے 6 دہائیاں قبل گایا تھا بلکہ میری سر گذشت ہے جس سے کچھ اقتباسات پیش کرنے کا آخر ارادہ کر ہی لیا ہے

سن 1948ء میں شاید نومبر یا دسمبر میں ہم نے راولپنڈی جھنگی محلہ کی سرکلر روڈ سے نکلتی ایک گلی میں ایک مکان کی 2 کمروں باورچی خانہ غُسلخانہ اور بڑے سے صحن پر مُشتمل پہلی منزل کرایہ پر لی ۔ دوسری منزل میں مالک مکان ۔ اُس کی بیوی اور والدہ ررہتے تھے ۔ گھر بالکل نیا بنا تھا لیکن گھر میں نہ پانی تھا نہ بجلی ۔ مالک مکان نے اپنا بندوبست کرنے تک ایک لالٹین عنائت کی جو ہم بچوں نے پہلی بار دیکھی تھی ۔ میرا سوا سالہ بھائی رونے لگا تو والدہ محترمہ نے لالٹین کمرے میں لانے کو کہا ۔ میں جو لالٹین اُٹھا کر چلا تو اُس کا شعلہ پھپ پھپ کی آواز کے ساتھ اُچھلنے لگا اور کمرے میں پہچنے تک لالٹین بُجھ گئی ۔ میری پھوپھو جی جو بیوہ تھیں اور ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں نے لالٹین جلا کر دی مگر پھپ پھپ کرتی پھر بُجھ گئی ۔ پھوپھو جی جلاتیں اور وہ پھر بُجھ جاتی ۔ یہ عمل بڑوں کیلئے تو شاید پریشانی کا باعث ہوا ہو لیکن میں ۔ میری بہن اور ایک 8 سالہ بھائی ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے ۔ اگلی صبح پھوپھو جی لالٹیں دوسری منزل پر لے گئیں تو مالک مکان کی والدہ نے درست کر دی اور بتایا کہ آرام سے لالٹین اُٹھائیں ورنہ تیل اُوپر موہرے میں چڑھ جاتا ہے تو پھپ پھپ کرتی ہے

ہم 2 بھائیوں کو چھوٹی چھوٹی بالٹیاں خرید دی گئیں کہ روزانہ گلی کے نلکے سے پانی بھر کر لایا کریں ۔ پہلے میں نلکا کھول کر بالٹی میں پانی بھرتا پھر چھوٹا بھائی بالٹی بھر کے نلکا بند کرتا ۔ ایک دن بھائی نلکا کھُلا چھوڑ آیا ۔ جب ہم دوبارہ پانی لینے گئے تو ایک عورت بولی ”جاتکو ۔ ٹُوٹی کھُلی کیئوں چھوڑ وَینے او“۔ ہم نے گھر جا کے کہا کہ ”ایک عورت نے ہمیں ڈانٹا ہے اور گالیاں دی ہیں ۔ اب ہم پانی لینے نہیں جائیں گے“۔ اگلے روز ہماری پھوپھو نے ملک مکان کی والدہ سے ذکر کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے ”بچو ۔ نلکا کھُلا کیوں چھوڑ دیتے ہو“۔

ڈیجِٹل نظام اور ہم

محمد ریاض شاہد صاحب نے ”طرزِ کُہن پہ اُڑنا“ کے عنوان سے لکھا ۔ میں متعدد بار اپنی معذوری کا اظہار کر چکا ہوں کہ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد سے میر ے دماغ کا سوچنے والا حصہ مفلوج ہو چکا ہے چنانچہ میں کچھ بھی سوچ نہیں سکتا لیکن جونہی میں نے تبصرہ کے خانہ میں اظہار خیال شروع کیا قادرِ مطلق نے میرے ساتھ بیتے کچھ واقعات ذہن میں زندہ کر دیئے اور میں نے طوالت کے باعث باقاعدہ تحریر شائع کرنے کا قصد کیا

محمد ریاض صاحب نے تو ڈیجِٹل نظام (Digital System) کی بات کی ہے جسے کمپیٹرائزڈ نظام (Computerised System) بھی کہا جا سکتا ہے ۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میرے ہموطن خواہ کتنے ہی پڑے لکھے اور جہاں دیدہ کیوں نہ ہوں وطنِ عزیز میں کوئی باربط نظام چلنے نہیں دیتے ۔ اس کی وضاحت کیلئے میں اپنے ساتھ بیتے صرف 3 واقعات بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں

نظام ضبط مواد (Material Control System)

محکمہ فنی تعلیم میں بڑی باعزت اور شاہانہ ملازمت چھوڑ کر یکم مئی 1963ء کو میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف)۔ واہ چھاؤنی میں ملازمت اسلئے اختیار کی کہ انجنیئرنگ میں عملی تجربہ حصول کے بعد اللہ کریم کی عطا کردہ صلاحیت کو استعمال کر کے اپنی قوم کے کم از کم ایک شعبہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی اپنی سی کوشش کروں ۔ شروع کے 8 ماہ ہی میں اللہ کے فضل سے میری محنت کو پذیرائی ملی اور مجھے پی او ایف کے ایک نہائت اہم پروجیکٹ (رائفل جی 3) کی ڈویلوپمنٹ پر لگا دیا گیا ۔ جب کام پیداوار (production) کے قریب پہنچا (1965ء) تو میں نے اپنے سے سینیئر افسر (جو کہ اس پروجیکٹ کا سربراہ تھا) سے پوچھا ”یہ سب مٹیریئل ۔ ٹولز ۔ فکسچرز ۔ وغیرہ کہاں سے آتے ہیں اور اس کا کیا طریقہ کار ہے ؟“
اُنہوں نے سب سے سینیئر فورمین سے رابطہ کرنے کا کہا ۔ میں نے اُن صاحب کے پاس جا کر یہی سوال پوچھا تو جواب ملا ”سٹور سے“۔
میں نے استفسار کیا ”سٹور میں کہاں سے آتا ہے ؟” جواب ملا ”نیوٹن بُوتھ نے برطانیہ سے منگوایا تھا
میں گہری ٹھنڈی سانس بھرنے کے سوا کیا کر سکتا تھا ۔ نیوٹن بُوتھ کو واپس برطانیہ گئے کئی سال گذر چکے تھے ۔ شاید 1956ء میں واہ چھاؤنی میں پہلی 4 فیکٹریوں میں کام شروع ہونے پر ان کا ٹیکنیکل سربراہ ہونے کے ناطے نیوٹن بُوتھ صاحب نے یہ سب کچھ دساور سے منگوایا تھا

میں نے معاملہ کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ایک ماہ کی پوچھ گچھ اور دماغ سوزی کے بعد ایک نظام تیار کیا ۔ یہ وقت کی قید کے ساتھ ایک مربوط نظام تھا کہ مستقبل کی ضروریات کیلئے کب خرید کا سوچ کر منظوری حاصل کرنا ہے کب بجٹ بنانا ہے کب پیشکشیں مانگنا اور آرڈر کرنا ہے ۔ مٹیریئل کی مقدار کا تخمینہ کیسے لگانا ہے جب مال آ جائے تو اُسے کیسے اور کہاں رکھنا ہے اور اس کا اجراء کیسے کرانا ہے ۔ میں نے مجوزہ نظام اُس وقت کے ٹیکنیکل چیف کو پیش کیا جنہوں نے پڑھنے کے بعد ایک کمیٹی بنائی جس میں میرے ساتھ دیگر متعلقہ محکموں کے افسران لگا دیئے گئے ۔ 1965ء میں بھارت کے ساتھ جنگ شروع ہونے کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوئی ۔ اراکین کمیٹی نے بحث مباحثہ کے بعد نظام کی منظوری دی اور بڑے صاحب کی منظوری کے بعد نظام کے نفاذ کا حکمنامہ 1966ء میں جاری ہو گیا ۔ ٹیکنیکل چیف کی اشیر باد سے میں جس فیکٹری میں تھا وہاں میں نے پہلے ہی نفاذ شروع کر دیا تھا ۔ مجھے مئی 1976ء میں ایک دوست ملک کا ایڈوائزر بنا کر بھیج دیا گیا جہاں میں پونے سات سال رہا ۔ واپس آیا تو سب کچھ چوپٹ ہو چکا تھا

محکمہ اکاؤنٹس

اواخر 1985ء میں مجھے پی او ایف کے محکمہ منیجمنٹ انفارمیشن سسٹمز (ایم آئی ایس) میں جنرل منیجر تعینات کیا گیا ۔ میں نے 3 ماہ محکمہ کے کام اور گرد و پیش کا مطالعہ کیا ۔ محکمہ اکاؤنٹس والے ہر سال کئی ماہ ملازمین کے جنرل پراویڈنٹ فنڈ (جی پی فنڈ) کی ضربوں تقسیموں میں گذارتے تھے ۔ میں نے جی پی فنڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا منصوبہ بنایا اور کنٹرولر آف اکاؤنٹس سے بات کی وہ خوش ہوئے کہ اس طرح اُن کے محکمہ کا جو وقت بچے گا اسے کسی اور بہتر کام پر لگایا جا سکے گا ۔ ایک ماہ میں پروگرام بنا کر ڈاٹا اَینٹری بھی کر دی گئی اور بطور نمونہ ایک ہارڈ کاپی بنا کر (پرنٹ لے کر) اُنہیں دے دیا گیا ۔ اگلے روز کنٹرولر آف اکاؤنٹس میرے پاس شکریہ ادا کرنے آئے تو میں نے کہا ”چلیئے آپ کو دکھاتے ہیں کہ اب یہ کام کتنا آسان ہو گیا ہے“۔ جب اُن کے متعلقہ محکمہ میں پہنچے تو ایک شخص دی گئی ہارڈ کاپی اپنی میز پر رکھے کیلکولیٹر سے کچھ حساب کتاب کر رہا ۔ اُسے پوچھا کہ ”کام سمجھ میں آ گیا ؟“ بولا ”ابھی تو میں کیلکولیشنز چیک کر رہا ہوں“۔

مٹیریئل رسد کا نظام (Material Receipt System)

چیئرمین پی او ایف بورڈ (لیفٹننٹ جنرل صبیح قمرالزمان) نے 1989ء میں کہا کہ”آپ کراچی چلے جائیں ۔ پاکستان مشین ٹولز فیکٹری کا مٹیریئل رسد کا نظام بہت اچھا ہے ۔ اس کا مطالعہ کر کے ہمارے ادارے کی ضروریات کے مطابق نظام وضع کریں جو بعد میں کمپیوٹراز بھی کیا جا سکے“۔ میں چلا گیا اور نظام کو اچھا پایا ۔ واپس آ کر پی او ایف کیلئے ایک جامع نظام تشکیل دیا اور چیئرمین صاحب کو پیش کر دیا ۔ اُنہوں نے اس کا جائزہ لینے کے بعد منظوری دے دی اور نفاذ کیلئے محکمہ سٹورز کو بھیجا جنہوں نے خدشات کا اظہار کیا ۔ چیئرمین صاحب نے ایک میٹنگ بُلائی جس میں محکمہ سٹورز کے سربراہ اور اُن کے ماتحت افسران کو مدعو کیا اور مجھے بھی بُلایا ۔ میٹنگ میں جو احساس میرے ذہن میں اُبھرا یہ تھا کہ کسی نے مجوزہ نظام کا مطالعہ کرنے کی زحمت نہیں کی تھی اور جمودِ ذہن کے باعث بے بنیاد خدشات ان الفاظ میں ظاہر کئے ”بہت مشکل ہو جائے گی“۔ ”ہم کئی دہائیوں کے آزمائے نظام پر کام کر رہے ہیں ۔ کہیں یہ نہ ہو جائے ۔ کہیں وہ نہ ہو جائے“۔ میٹنگ کے بعد چیئرمین صاحب نے مجھے دفتر میں آنے کا اشارہ کیا ۔ میں گیا تو بولے ”بھوپال صاحب ۔ اس قوم کیلئے آپ جتنی بھی محنت کریں بیکار ہے”۔

قربانی کا بکرا ۔ واویلا اور حقیقت

ٹی وی پر بہت واویلا مچایا گیا کی قربانی کے جانوروں کی قیمتیں بہت زیادہ ہو گئیں ۔ یہاں تک کہہ دیا کہ ایک بکرے کی قیمت زمین کے ایک پلاٹ کی قیمت کے برابر ہو گئی ۔ ارد گرد کے لوگوں نے بھی اپنی اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔ 15 اکتوبر کو قریب ترین منڈی (سید پور) کا رُخ کیا ۔ پہنچتے ہی دیسی بکروں کی ایک جوڑی پسند آئی اور بھاؤ کیا ۔ 36000 روپے کی جوڑی لی اور جانا آنا ملا کر ایک گھنٹہ میں گھر پہنچ گئے

Goat1 2013
کل یعنی عید کے دن ذبح ہونے کے بعد صاف گوشت تولا ۔ لال بکرے کا صافی گوشت (بغیر پھیپھڑے دل کلیجی گردے) 17.5 کیلو گرام ہوا

Goat2 2013
کالے سفید بکرے کا صافی گوشت 18.5 کلو گرام ہوا ۔ کُل 36 کلو گرام گوشت حاصل ہوا ۔ میرا کُلیہ ہے کہ قربانی کے بکرے کا گوشت بازار کے عام بھاؤ سے زیادہ سے زیادہ دوگنا پڑ جائے تو درست ۔ عیدالاضحٰے سے قبل آخری بار گوشت میں نے 630 روپے فی کلو گرام کے حساب سے خریدا تھا اور یہ 1000 روپے فی کلو گرام پڑھ گیا ۔ سو میرے کُلیئے کے لحاظ سے یہ بکرے کافی سستے رہے

محبت اور میں ؟

آشنائی والے اسد حبیب صاحب نے ”محبت کیا ہے“ کے عنوان سے مباحثہ کی صورت میں لکھا ۔ اسد حبیب صاحب کبھی کبھی لکھتے ہیں لیکن لکھتے خوب ہیں ۔ میں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر تبصرہ لکھا ”محبت واقعی ایک فرضی نام ہے جو اُنس کو دیا گیا ہے ۔ البتہ کہتے ہیں جسے عشق وہ خلل ہے دماغ کا ۔ اُنس ہونے کیلئے کسی ایسی حرکت کا ہونا ضروری ہے جو دوسرے پر اثر چھوڑ جائے ۔ پھر اگر ملاقات بالمشافہ یا کسی اور طریقہ سے جاری رہے تو یہ اُنس بڑھ جاتا ہے اور اسے محبت کا نام دیا جاتا ہے“۔ متذکرہ تحریر پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں ماضی گھوم گیا ۔ آج سوچا کہ اسے قرطاس پر بکھیر دیا جائے

سن 1954ء یا 1955ء کی بات ہے جب میں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ میرے بچپن کا ایک دوست راولپنڈی آیا ہوا تھا ۔ اس نے ایک خط مجھے تھما کر کہا”پڑھو“۔ خط ایک لڑکی کی طرف سے تھا ۔ کوئی عشقیہ بات نہ تھی صرف واپسی کا تقاضہ کیا تھا ۔ میں نے پڑھ کر دوست کی طرف دیکھا تو وہ بولا ”ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ۔ پتہ نہیں آگے کیا ہو گا“۔ میں نے اُسے حوصلہ دیتے ہوئے مشورہ دیا ”محنت کرو ۔ جلد کمانے لگ جاؤ اور شادی کر لو ۔ کوئی مشکل ہو تو مجھے بتانا”۔ میرے علم کے مطابق وہ دونوں عشق میں مبتلاء نہیں ہوئے ۔ شادی کے بعد آج تک مزے میں ہیں

بات ہے سن 1958ء اور 1965ء کے درمیان کی ۔ ایک نوجوان کو ایک لڑکی سے بقول اُس کے اتنی محبت ہو گئی (عشق کہہ لیجئے) کہ اُس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا ۔ مجھے والدین سے بات کرنے کا کہا ۔ میں نے اس کی والدہ سے بات کی ۔ بعد میں اس کے والد نے مجھے کہا ” اُسے کہو ۔ محنت کرے اور پہلے کسی قابل بنے”۔ چند سال بعد اسے کسی دوسری لڑکی سے عشق ہو گیا ۔ پھر وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا ۔ تیسری لڑکی جس سے اُس کی شادی ہوئی مجھے نہیں معلوم بنیاد عشق تھی یا نہیں

میں جب انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو ایک ہمجماعت ہر ماہ میں ایک یا دو بار میڈیکل کالج کی ایک لڑکی سے ملنے جاتا تھا ۔ تین سال بعد ہمارے آخری سال کے تحریری امتحان ختم ہو چکے تھے عملی ابھی باقی تھے ۔ ہم ہوسٹل کے صحن میں بیٹھے تھے کہ اُس لڑکے کا بہترین دوست آیا اور اُسے کوسنے سنانے لگا ۔ معاملہ پوچھا گیا تو بولا ”یہ انسان نہیں ہے ۔ میں نے اسے دوست بنا کر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ۔ جس لڑکی کے ساتھ یہ ملتا تھا اُس سے مجھے بھی متعارف کرایا تھا ۔ میں شہر گیا ہوا تھا تو سوچا کہ اسے اللہ حافظ کہتا جاؤں ۔ میں وہاں پہنچا تو وہ زار و قطار رو رہی تھی ۔ پوچھا تو بتایا ”میں نے ۔ ۔ ۔ کو کہا کہ اب تم یہاں سے چلے جاؤ گے تو رابطہ ممکن نہیں ہو گا ۔ اسلئے تم اپنے والدین سے کہو کہ میرے والدین سے بات کریں”۔ لڑکے نے بات جاری رکھی ”اِس سُوّر نے اُسے کہا کہ میں تجھ سے شادی کروں گا جو بغیر کسی رشتہ کے غیر لڑکے (میرے) کے ساتھ ملتی رہی”۔

سن 1970ء میں ایک لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہو گئی ۔ جب اس کے والدین نے اس کی شادی کا سوچا تو اس نے اس لڑکی کا بتایا ۔ باپ مان گیا لیکن ماں نے صاف نکار کر دیا ۔ لڑکے کے زور دینے پر ماں نے کہا ”یا وہ اس گھر میں ہو گی یا میں ۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے“۔ اس لڑکی کی جس سے شادی ہوئی شریف اور محنتی ہے اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے پاس دولت کی ریل پیل ہے

سن 1996ء کا واقعہ ہے ایک لڑکی نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف ایک لڑکے سے محبت کی شادی کر لی اور اُس کے ساتھ دساور چلی گئی ۔ شادی کے پانچ سال بعد لڑکی نے خود لڑکے سے طلاق لے لی اور واپس پاکستان آ گئی ۔ شاید وہ اُس کے خوابوں کا شہزادہ ثابت نہ ہوا تھا

اکیسویں صدی میں دو جوڑوں کی ملاقات فیس بُک پر ہوئی اور چلتے چلتے والدین تک پہنچی تو شادیاں ہو گئیں ۔ دونوں جوڑے مزے میں رہ رہے ہیں ۔ ایک جوڑا ملک سے باہر بس گیا ہے ۔ دوسرا لاہور میں ہے جن سے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی ہے ۔ میاں بیوی دونوں ہی بہت ملنسار اور ہنس مُکھ ہیں

آپ یہاں میری کہانی پڑھنے آئے ہوں گے ۔ چلیئے بتائے دیتے ہیں ۔ کیا یاد رکھیں گے ۔ میں جب بر سرِ روزگار ہو گیا تو میری والدہ نے میرے بہترین دوست سے پوچھا ”اجمل کو کوئی لڑکی پسند ہے ؟“ اُس نے جواب دیا ”توبہ کریں خالہ ۔ جب ہم گارڈن کالج میں پڑھتے تھے تو کئی لڑکیاں چاہا کرتیں کہ یہ اُن سے بات ہی کر لے ۔ مجال ہے اس نے اُنہیں حوصلہ بخشا ہو“۔

دراصل میرے ماتھے پر جلی حروف میں کچھ لکھا ہے جسے کچھ لوگ ”بیوقوف“ پڑھتے ہیں اور کچھ ”نیک بچہ“۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ گارڈن کالج میں چند بار لڑکیوں نے مجھے کسی لڑکے سے کتاب یا کاپی لے کر دینے کا کہا یا پروفیسر صاحب کی معرفت کہا کہ فلاں پریکٹیکل کروا دوں ۔ مجھے اُن لڑکیوں کی شکلیں یاد نہ رہیں ۔ نام تو کچھ کا معلوم ہی نہیں تھا ۔
جب ہم انجنیئرگ کالج میں پرھتے تھے تو میوزک کنسرٹ ہوا ۔ چند لڑکوں نے کوشش کر کے اپنے ذمہ خواتین کا استقبال لیا ۔ مجھے ایک اعلٰی عہدیدار کا استقبال سونپا گیا جس کیلئے میں گیٹ کے قریب استقبالیوں سے کچھ پیچھے کھڑا تھا ۔ لڑکیوں کا ایک غول آیا ۔ میں نے دوسری طرف منہ کر لیا ۔ وہ لڑکے آگے بڑھے مگر لڑکیوں نے ”نہیں شکریہ“ کہہ دیا ۔ وہ مجھ سے گذرنے کے بعد میری طرف گھومیں اور ایک بولی ”پلیز ۔ ذرا ہمیں گائیڈ کر دیجئے“۔ میں نے کہا ”یہ اسقبالیہ والے ہیں ان کے ساتھ چلی جایئے“۔ دو تین بولیں ”آپ کیوں نہیں لیجاتے“۔ میں چل پڑا اور آگے جا کر شامیانے پر استقبال کرنے والے سے کہا ”انہیں بٹھا دیجئے“۔ اور لپک کر گیٹ پر پہنچا کہ کہیں مہمان نہ پہنچ گئے ہوں ۔ اُس کے بعد کئی دن تک میرا ریکارڈ لگتا رہا کہ کس اُجڈ کے پاس لڑکیاں جاتی ہیں
کچھ عرصہ بعد مجھے شہر میں دو تین جگہ کام تھا ۔ کالج کا کام ختم کر کے میں عصر کے بعد ہوسٹل سے نکلا اور بس پر شہر پہنچ کر قلعہ گوجر سنگھ اُترا ۔ وہاں کا کام کر کے پیدل میکلوڈ روڈ ۔ مال ۔ انارکلی اور شاہ عالمی سے ہوتا ہوا جب ریلوے سٹیشن کے سامنے لوکل بس کے اڈا پر پہنچا تو رات کے ساڑھے 10 بجے تھے اور بسیں بند ہو چکی تھیں ۔ سیڑھی پل گیا اور ریلوے سٹیشن کو عبور کر کے دوسری طرف جی ٹی روڈ پر ٹانگوں کے اڈا پر پہنچا ۔ وہاں کوئی ٹانگہ باغبانپورہ کی طرف جانے کو تیار نہ تھا ۔ میں تھک چکا تھا مگر سوائے پیدل چلنے کے کوئی حل نہ تھا ۔ جب ہمارا ہوسٹل ڈھائی یا تین کلومیٹر رہ گیا تو ٹانگوں میں چلنا تو ایک طرف کھڑے ہونے کی سکت نہ رہی ۔ گھڑی دیکھی رات کے ساڑھے 12 بجے تھے ۔ میں بیٹھنے کیلئے ادھر اُدھر کوئی سہارا دیکھ رہا تھا تو ایک کار آ کر رُکی ۔ شیشہ کھُلا اور زنانہ آواز آئی ۔ میں سمجھا کہ کسی جگہ کا راستہ پوچھ رہی ہیں ۔ قریب ہو کر پوچھا تو جواب ملا ”آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ بیٹھ جایئے میں پہنچا دیتی ہوں“۔ میں بغیر سوچے سمجھے پچھلا دروازہ کھولنے لگا تو بولیں ”ادھر فرنٹ سیٹ پر ہی بیٹھ جایئے“۔ جب گاڑی چلی تو بولیں ”میں گذر جاتی مگر خیال آیا کہ کوئی مجبوری ہو گی جو اس وقت آپ پیدل جا رہے ہیں“۔ میں ٹھہرا ارسطو کا شاگرد بولا ”آپ کا بہت شکریہ مگر دیکھیئے بی بی ۔ آج آپ نے یہ بہادری دکھائی ۔ آئیندہ ایسا نہ کیجئے گا ۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا کب شیطان سوار ہو جائے“ ہوسٹل کا گیٹ آیا ۔ کار کھڑی ہوئی اور میں شکریہ ادا کر کے اُتر گیا ۔ غلطی یہ ہوئی کہ ایک دوست کے رات دیر سے آنے کے استفسار پر احوال بتا دیا چنانچہ میرا ریکارڈ کئی دن لگتا رہا
اصل میں طلب اور رسد (Supply and Demand) کا کُلیہ ہر جگہ منطبق ہوتا ہے ۔ میں لڑکیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا تو لڑکیاں میری طرف متوجہ ہوتی تھیں ۔ جو لڑکیوں کے پیچھے جاتے ہیں لڑکیاں اُن سے دور بھاگتی ہیں

میں بہت دُور نکل گیا ۔ خیر ۔ میری امی کو تسلی نہ ہوئی ۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا ”تم اپنی امی کو نہیں بتاؤ گے کہ تم کس سے شادی کرنا چاہتے ہو ؟“
میں نے کہا ”امی ۔ جو لڑکی آپ پسند کریں گی وہ بہترین ہو گی“۔
دو تین دن بعد والد صاحب نے مجھ سے پوچھا “تم کس سے شادی کرنا پسند کرو گے ؟“
میں نے کہا ”جس سے آپ شادی کر دیں گے“۔
پھر اُنہوں نے کہا ”تمہاری بڑی خالہ کی بیٹی ؟“
میں نے کہا ”اُن کی سب بیٹیاں اچھی ہیں“۔
خالہ کی بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی تھی ۔ اُس سے چھوٹی سے میری شادی ہو گئی ۔ میرے اللہ نے مجھے سچا کر دکھایا کہ میرے والدین کی پسند میرے لئے زندگی کا بہت بڑا تحفہ ثابت ہوئی ۔ اللہ کے فضل سے دنیاوی اور دینی دونوں تعلیمات سے آراستہ ہونے کے ساتھ خوبصورت ۔ خوب سیرت ۔ پیار اور احترام کرنے اور توجہ دینے والی ہے اور کبھی مجھ پر کسی لحاظ سے بوجھ نہیں بنی ۔ مشکل حالات میں نہ صرف میرا بھرپور ساتھ دیا بلکہ میرا حوصلہ بھی بڑھاتی رہی ۔ اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو دنیا کے چند خوش قسمت مردوں میں سمجھتا ہوں

نتیجہ ۔ سکون نہ تو دولت سے ملتا ہے اور نہ عشق و محبت سے بلکہ اچھی ماں کے بعد اچھی بیوی بہم پہنچاتی ہے