میں چیئرمین صاحب کے حُکم سے ہی مارچ 1983ء سے بطور پرنسپل پی او ایف ٹیکنیکل ٹرینیگ انسٹیٹیوٹ کام کر رہا تھا کہ چیئرمین صاحب کو میری قوانین کی تابعداری پسند نہ آئی اور ستمبر 1985ء کے آخری دنوں میں مجھے محکمہ ایم آئی ایس میں ایسی اسامی پر تعینات کر دیا جہاں مجھ سے پہلے والے صاحب کسمپُرسی کی حالت میں پڑے تھے ۔ ایم آئی ایس میں کمپیوٹر سینٹر بھی شامل تھا ۔ اُن دنوں صرف ایک مین فریم تھا (آئی بی ایم کا 4330) جس کی ہارڈ ڈرائیو 50 ایم بی کی تھی۔ میں کمپیوٹر کا کام سیکھنا چاہتا تھا لیکن کمپیوٹر سینٹر کے اُن دنوں بادشاہ نے رویّہ اپنا رکھا تھا کہ اگر میں کمپیوٹر کے قریب گیا تو پورا کمپیوٹر سینٹر تباہ ہو جائے گا ۔ وہ خود ایم اے ایڈمن تھا اور آئی بی ایم کے ایک دن سے 5 دن کے درجن بھر کورسز میں شامل ہونے پر پھولا نہیں سماتا تھا
اپنی بُری عادت ہے کہ نچلّا نہیں بیٹھ سکتا اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی مجھ پر کرم کرتے ہوئے میرے لئے نئے راستے بناتے رہتے ہیں ۔ میں بغیر کمپیوٹر کے کام کرتا رہا ۔ جنوری 1986ء میں اچانک ایک میٹنگ میں پہنچنے کا حُکم ملا ۔ وہاں پہنچا تو بڑے بڑے افسران بیٹھے تھے ۔ چیئرمین صاحب صدارت کر رہے تھے ۔ میں کرسی پر بیٹھ گیا تو ایک صاحب چیئرمین صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے بولے ”سر ۔ انوینٹری منیجمنٹ کی کمپیوٹرائزیشن کیلئے بھوپال صاحب سے بہتر کوئی نہیں ۔ موجودہ انوینٹری منیجمنٹ سسٹم 20 سال قبل اِنہوں نے ہی بنایا تھا“۔ اللہ نے کام کے بھوکے کو کام دے دیا ۔ میں نے کمپیوٹر کا کام خود تربیتی کی بنیاد پر سیکھ کر کمپیوٹر پر کام شروع کر دیا ۔ 1987ء میں پی او ایف کے چیئرمین تبدیل ہوئے تو نئے چیئرمین صاحب نے میرا کام دیکھ کر1988ء میں مجھے پرسنل کمپیوٹر المعروف پی سی خریدنے کی اجازت دے دی چنانچہ پی او ایف میں پہلے 3 پی سی میں نے خریدے جو برینڈِڈ (branded) نہ تھے اور کمپَیٹِبل (compatible) کہلاتے تھے
میں نے اپنا ذاتی کمپیوٹر اوائل 1987ء میں خریدا جو برینڈڈ تھا کیونکہ ابھی کمپیٹبل بازار میں نہیں آئے تھے ۔ اس کی رفتار 128 کے بی پی ایس تھی ۔ کوئی ہارڈ ڈرائیو نہ تھی ۔ فلاپی ڈرائیو تھی جو علیحدہ تھی ۔ فلاپی کا حجم 360 کلو بائیٹ تھا ۔ میں نے اس میں فالتو چِپ لگوائی جس سے اس کی مجموعی رفتار 200 کے بی پی ایس کے قریب ہو گئی اور اس میں ورک شیٹ بھی تھی جسے بعد میں سپریڈ شیٹ کہا گیا ۔ مجھے کمپیوٹر والے نے ورک شیٹ کی کتاب برطانیہ سے منگوا دی اور میں ورک شیٹ پر کام کرنے لگ گیا ۔ مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ پاکستان میں ورک شیٹ میں مہارت حاصل کرنے والا میں پہلا پاکستانی ہوں ۔ اس کمپیوٹر پر میں نے اپنے بڑے بیٹے زکریا کو کام کرنا سکھایا اور اُس نے اپنے چھوٹے بہن بھائی کو ۔ یہ کمپیوٹر ابھی تک میں نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے ۔ میں نے 1989ء میں پہلا کمپیٹبل پی سی خریدا جو ایکس ٹی تھا اور رفتار 256 کے بی پی ایس تھی ۔ اس میں 20 ایم بی کی ہارڈ ڈرائیو تھی جسے دیکھنے کیلئے لوگ میرے پاس آتے تھے ۔ اس کے بعد جوں جوں کمپیوٹر ترقی کرتا گیا میں اپنے کمپیوٹر کو اَپ گریڈ کراتا یا نیا لے لیتا ۔ پہلا ایکس ٹی تھا ۔ اس کے بعد 80186 آیا ۔ پھر 80286 آیا ۔ پھر 80386 ۔ پھر 80486 ڈی ایکس وَن اور ڈی ایکس ٹو اور پھر 80586 جس میں دو مائیکرو پروسیسر ہیں
1993ء میں میرے بڑے بیٹے زکریا نے جو اُن دنوں انجنیئرنگ کے آخری سال میں تھا بتایا کہ ایک انٹرنیٹ سروس ایس ڈی این پی کے نے شروع کی ہے ۔ ہم نے سروس لے لی ۔ اس پر ای میل ہی بھیجی جا سکتی تھی جو دھیرے دھیرے جاتی تھی
پھر 1995ء میں پی ٹی سی ایل نے پاکنیٹ کے نام سے ڈائل اَپ سروس شروع کی تو لے لی اور موجود ٹیلیفون کو کارآمد رکھنے کیلئے ایک اور ٹیلیفون لائین لے لی
پھر ای میل لکھنا عام ہوا ۔ لکھائی کے بعد آواز کی ای میل بھی بھیجنا شروع کیں
اس کے بعد کومسَیٹ نے 1996ء میں سروس شروع کی جس کی رفتا بہتر تھی چنانچہ وہ لے لی
انٹرنیٹ کی عملی رفتار پہلے 2 سال میں 56 کے بی پی ایس تک پہنچی
پھر ہم نے بہتر رفتار کی خاطر ڈبلیو او ایل سے بھی استفادہ کیا
وھاج السراج صاحب جو مکینیکل انجنیئر ہیں نے 2001ء میں مائیکرونٹ ڈی ایس ایل سروس شروع کی جس کی رفتار اس وقت شاید 256 کے بی پی ایس تھی ۔ یہ چلتا تو ٹیلیفون لائین پر ہی تھا لیکن اس سے ٹیلیفون مصروف نہیں ہوتا تھا ۔ ہم نے یہ سروس شروع ہوتے ہی اپنا لی ۔ اس کی رفتار بڑھتی رہی اور 2 ایم بی پی ایس تک پہنچ گئی
مائیکرونیٹ نے اسلام آباد میں پہلی فائبرآپٹکس بچھائی اور نیاٹیل کے نام سے فائبرآپٹکس انٹرنیٹ ۔ ٹیلیفون اور ٹی وی شروع کر دیئے ۔ مگر ہم 10 سال سے مائیکرونیٹ کے ایک ایم بی پی ایس پر ہی صبر شکر کئے ہوئے ہیں کیونکہ ہمیں اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ۔ مائیکرونیٹ کی کسٹومر کیئر بہت اچھی ہے اسلئے مطمئن ہیں
ہم 1994ء میں اسلام آباد منتقل ہوئے تو میں نے اپنے علم ۔ تجربات اور مشاہدات کو پھیلانے کا سوچا ۔ کچھ احباب نے زور دیا کہ اپنے عِلم ۔ تجربہ اور مشاہدہ پر مبنی کتاب لکھوں ۔ کتاب چھپوانا میرے بس کا روگ نہیں تھا اور نہ ناشروں یا سرمایہ داروں سے کوئی واسطہ تھا کہ نظرِ کرم کرتے ۔ دل کی دل ہی میں لئے بیٹھا تھا کہ 1999ء کے آخری مہینوں میں ویب لاگ کا سُنا (جو بعد میں مختصر ہو کر بلاگ ہو گیا) ۔ اپنی سی کوشش شروع کی کہ انٹرنیٹ پر سستی سی جگہ مل جائے تو میں بھی وہاں ویب لاگ بناؤں لیکن کوئی راہ نظر نہ آئی
اللہ نے مہربانی کی ۔ اگست 2004ء میں میری بیٹی نے بتایا کہ بلاگر نام سے ایک انٹرنیٹ سروس شروع ہوئی ہے جس پر بلامعاوضہ بلاگ بنایا جا سکتا ہے ۔ بیٹی نے اس پر میرے بلاگ کا ڈھانچہ بھی بنا دیا اور میں نے اُسے مکمل کر کے ”منافقت تیرا نام ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ Hypocrisy Thy Name is“کے عنوان سے اپنا پہلا بلاگ انگریزی میں شروع کیا بعد میں اس کا عنوان بدل کر ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is Often Bitter “ رکھ دیا
گو میں اُردو میں ای میل کچھ سالوں سے لکھتا آ رہا تھا لیکن ای میل میں اسے عکس کی صورت چسپاں کرنا پڑتا تھا ۔ اُن دنوں ابھی بلاگ پر اُردو لکھنا آسان نہ تھا ۔ اس کیلئے ایچ ٹی ایم ایل بنانا پڑتی تھی
کچھ آسانی پیدا ہوئی تو جنوری 2005ء میں اس پر اُردو بھی لکھنا شروع کیا ۔ پھر 5 مئی 2005ء سے اُردو کا علیحدہ بلاگ شروع کر دیا
پاکستان میں بلاگر بند ہوا تو ورڈ پریس پر دونوں بلاگ منتقل کئے ۔ ورڈ پریس پر اُردو لکھنے میں کچھ دقت رہی لیکن کام چلتا رہا کیونکہ میں نے ایچ ٹی ایم ایل بنا لی تھی جو ہر بند سے پہلے نقل کر دیتا تھا ۔ ورڈ پریس پر تبصرے کی پابندی اور کچھ اور قیود لگیں تو اُردو کے بلاگ کیلئے اپنی جگہ خرید لی البتہ انگریزی والا بلاگ ورڈ پریس پر ہی چل رہا ہے
میں 2010ء تک بلاگ کی نوک پلک خود ہی درست کیا کرتا تھا لیکن پچھلے ساڑھے 3 سال سے یہ کام بیٹے زکریا کے ذمہ ڈال دیتا ہوں کیونکہ اب میرا مغز کام نہیں کرتا