Category Archives: آپ بيتی

میرے عِلم میں اضافہ فرمایئے

میں دو جماعت پاس ناتجربہ کار ہوں لیکن عِلم کے حصول کی کوشش ضرور کرتا ہوں

رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کو موزِیلا فائرفوکس چاروں شانے چِت ہوا اور اُٹھنے نہیں پا رہا تھا ۔ من بے صبرے نے گوگل کروم سے کام لیا ۔ ایسا کرنے کہ بعد کیا دیکھا کہ میرے بلاگ کی پوسٹ کی لکھائی کا تھوڑا سا حصہ بلاگ کے حاشیئے کی لکھائی پر چڑھ گیا ہے

عِلم والوں کی خدمت میں درخواست ہے کہ وسعتِ قلب یعنی دریا دِلی سے کام لیتے ہوئے اور رمضان المبارک میں کئی گنا ثواب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مجھے سمجھائیں کہ اسے کیسے درست کیا جائے کہ گوگل کروم ۔ موزیلا فائرفوکس ۔ انٹرنیٹ ایکسپلورر سب میں درست نظر آئے

بندہ ہر مدد گار کا تہہ دل سے مشکور ہو گا

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کھانا

بچپن میں مجھے جو کچھ پڑھایا گیا میں نے اُس پر عمل کرنے کی کوشش کی ۔ میں کھانے کے معاملے میں بقول لوگوں کے شاید کنجوس ہوں گا لیکن خواہ میں اعلٰی سطح کی محفل میں بیٹھا ہوں مجھے اس میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ روٹی کا ٹکڑا یا چاول یا سوکھی ترکاری اگر میز پر یا فرش پر گر جائے تو میں اسے اُٹھا کر کھا لیتا ہوں بشرطیکہ کسی گندی جگہ یا چیز پر نہ گرا ہو ۔ اگر کھانے کے قابل نہ رہا ہو تو اُسے اُٹھا کر پلیٹ یا میز پر رکھ دیتا ہوں ۔ میری اس عادت کو تقویت اُس وقت ملی جب 1975ء میں ایک سرکاری دعوت میں میرے ساتھ ایک فیڈرل سیکریٹری موجود تھے ۔ اُن کے ہاتھ سے نوالا زمین پر گرا ۔ اُنہوں اُٹھا کر دیکھا اور منہ میں ڈال لیا ۔ یہ صاحب مالدار آدمی تھے ۔ سرکاری تنخواہ اُن کیلئے معمولی تھی

سورت 7 الاعراف کی آیت 31 میں ہے

وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کھاو اور پیو اور بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” A Saint or A Beast ?“

ہم کیا کھاتے ہیں ؟

مہمان آئے ۔ میری طبیعت ٹھیک نہ تھی ۔ ملازم کو بھیجا ۔ وہ ایک لیٹر والے والز آئس کریم کے دو ڈبے لے آیا ۔ میرے سوا سب نے کھائی ۔ کچھ بچ گئی تھی ۔ دوسرے دن بیگم کھانے کیلئے ڈبے کے ساتھ باریک تہہ کو چمچہ سے اُتارنے لگی تو وہ آئس کریم عجیب طرح کی سخت ہو چکی تھی اور نہ اُتری نہ گرم ہونے سے پگلی ۔ حقیقت یہ ہے کہ والز آئس کریم میں نہ کریم ہوتی ہے اور نہ دودھ ۔ نجانے کن چیزوں کو ملا کر اسے دودھ کی نقلی شکل دی جاتی ہے ۔ ایسی اشیاء انسانی صحت کیلئے مضر ہوتی ہیں

میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ میں کوئی مصنوئی چیز نہ کھاؤں نہ پیئوں ۔ مصنوئی سے مراد ہے جو قدرتی نہ ہو مگر قدرتی چیز کی نقل بنائی گئی ہو جیسے ایوری ڈے مِلک جسے لوگ خالص دودھ سمجھتے ہیں ۔ والز آئس کریم اور چھوٹی ڈبیوں میں ڈرِنک جسے بیچنے اور خریدنے والے دونوں جوس (juice) کہتے ہیں ۔ میں ہیکو (Hico) آئس کریم کھاتا ہوں جو دودھ سے بنائی جاتی ہے اور اصلی جوس پیتا ہوں

دوسرے ممالک میں جو بھی صنعتی چیز بیچی جاتی ہے اس کی ڈبیہ یا بوتل پر اس کے مکمل اجزاء لکھنا لازم ہوتا ہے ۔ ایسا نہ کرنے والے کو اچھی خاصی سزا دی جاتی ہے ۔ ہمارے ہاں کوئی جو چاہے بیچے ۔ پوچھنے والا کوئی نہیں اور خرید کرنے والے بھی غیرملکی کمپنی یا ٹی وی کا اشتہار دیکھ کر خرید کرتے ہیں ۔ ایسا صرف اَن پڑھ نہیں کرتے ۔ پڑھے لکھے بھی برابر کے شریک ہیں بلکہ پڑھے لکھے غیر ملکی نام دیکھ کر عقل بند کر کے خرید لیتے ہیں ۔ انہیں لاہوری دیگی چرغہ والوں کا باورچی خانہ گندا لگتا ہے مگر کے ایف سی ۔ پیزا ہَٹ ۔ میکڈانلڈ وغیرہ کا صاف ستھرا ۔ حالانکہ وہ کسی کے باورچی خانہ میں کبھی گئے نہیں ہوتے

میرے حقوق ۔ ایک فتنہ

موضوع پر آنے سے پہلے متعلقہ حوالہ پرانے زمانے سے
میں 1950ء میں مسلم ہائی سکول اصغر مال راولپنڈی میں آٹھویں جماعت میں داخل ہوا ۔ بہت جلد چند ہمجاعتوں سے میری دوستی ہو گئی ۔ منصوبہ بنایا گیا کہ ہم سب پیسے ڈال کر رسالہ تعلیم و تربیت لیا کریں اور اس میں دی اچھی باتوں سے مستفید ہوں ۔ یقینی طور پر ہمارے سدھار میں اس رسالے کا اہم کردار رہا ۔ اس رسالے میں ایک کارٹون چھپا کہ
ماں بیٹے سے کہتی ہے ”بات کرنے سے پہلے سوچا کرو“۔
بیٹا کہتا ہے ”اور سوچنے سے پہلے ؟“
ماں کہتی ہے ”یہ کہ سوچنا چاہیئے یا نہیں“۔

کچھ شماروں کے بعد ایک کارٹون چھپا جس میں ماں نے حلوے کی پلیٹ بھر کر میز پر رکھی تو
بیٹا کہتا ہے ”امی ۔ بھائیجان کیلئے اتنا زیادہ حلوہ“۔
ماں کہتی ہے ”یہ تمہارے لئے ہے“۔
بیٹا کہتا ہے ”اتنا کم“۔

کہنے کو یہ دو کارٹون یا لطیفے ہیں مگر مجھے زندگی کے ہر قدم پر یاد رہے ۔ میں نے پچھلی چار دہایئوں میں اکثر لوگوں کو ان دو بچوں کی مانند پایا ۔ اب آتے ہیں موضوع کی طرف

عصرِ حاضر میں حقوق کا بہت چرچا ہے ۔ انسانی حقوق ۔ عورتوں کے حقوق ۔ بچوں کے حقوق ۔ مریضوں کے حقوق ۔ اور ناجانے کس کس کے حقوق ۔ مسئلہ یہ ہے کہ حقوق پورے کسی کے نہیں ہوتے مگر وقت کے ساتھ ان کی تعداد اور قسمیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں
حقوق کی تکرار سن سن کر مجھے ٹی وی شروع ہونے سے پہلے کا ریڈیو پاکستان کا ایک پروگرام چوہدری نظام دین یاد آیا
ایک آدمی کہتا ہے ” اخبار میں حقوق کی خبر ہے ۔ یہ حقوق کیا ہوتے ہیں ؟“
دوسرا کہتا ہے ”اگر گاؤں کے سارے حقے ایک جگہ جمع کر دیئے جائیں تو ایک حقوق بن جاتا ہے“۔

میری پریشانی یہ ہے کہ مجھے میرے اُستاذ نے پڑھایا تھا کہ ”جو ایک آدمی کا حق ہوتا ہے ۔ وہ دوسرے آدمی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اسلئے اگر ہر آدمی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے پوری کرے تو سب کے حقوق خود بخود پورے ہو جائیں گے“۔

میں نے اپنا سبق یاد رکھا ہے اور اللہ سُبحانُہُ تعالٰی نے میری مدد فرمائی چنانچہ میں نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں تندہی کے ساتھ پوری کیں ۔ اور نتیجہ یہی ہوا کہ میرے ذہن میں کبھی حق یا حقوق قسم کی کوئی آواز پیدا نہیں ہوئی ۔ میں نے اطمینان کی زندگی گذاری اور گذار رہا ہوں

الحمد للہ میں آج اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے اپنی ایک چھوٹی سی ذمہ داری کو پورا کرنے میں کامیاب ہوا جو میرے محترم قارئین اور قاریات کا حق ہے

ایک ہر فن مولا باس

وسط 1966ء میں مجھے مشین گن پروجیکٹ دے کر ابتدائی پلاننگ کا کہا گیا جو میں نے کی اور ستمبر تک ہر قسم کی منظوری پاکستان آرڈننس فیکٹریز بورڈ (پی او ایف بورڈ) سے لے لی ۔ اکتوبر میں اچانک ایک صاحب کو میرا باس بنا دیا گیا جنہیں ویپنز پروڈکش کا کچھ علم نہ تھا بلکہ شاید ویپنز فیکٹری کا کام کبھی دیکھا بھی نہ تھا ۔ وہ اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے تھے اور باتوں سے ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے ۔ آج کسی اور واقعہ نے اُن کی یاد دلا دی ۔ سوچا کہ قارئین کی تفننِ طبع کیلئے متذکرہ باس کے چند معرکے بیان کئے جائیں

ڈھبریاں اور کابلے
ہم نومبر 1966ء میں جرمنی گئے ۔ کوٹیشنز طلب کرنا ۔ سپلائرز سے گفت و شنید کر کے درست مشینوں کا چناؤ اور قیمتیں کم کروانا ۔ تفصیلی مطالعہ کر کے مشین کا تکنیکی اور فنانشل موازنہ کا چارٹ بنانا ۔ مشین خریدنے کے جواز پر دلائل لکھنا ۔ یہ سب میرے ذمہ تھا ۔ باس صرف دستخط کرتے پھر میں سارا کیس پاکستان پی او ایف بورڈ کو بھیج دیتا

بڑی مہنگی مہنگی مشینیں خریدنے کے کیسوں پر باس نے بلا چوں و چرا دستخط کر دیئے ۔ ایک سستے سے ایکسینٹرِک (eccentric) پریس کے کیس پر باس نے اعتراض کیا ”سب سے سستا پریس کیوں چھوڑ دیا ہے ؟“ استفسار پر معلوم ہوا کہ کرینک (crank) پریس کی بات کر رہے تھے جس کی کوٹیش شاید غلطی سے کسی کمپنی نے بھیج دی تھی ۔ میں نے کہا ” ایکسینٹرِک پریس اور کرینک پریس کے کام میں فرق ہوتا ہے“ اور فرق سمجھانے کی کوشش بھی کی ۔ اس پر باس شور مچانے لگے اور بولے ”میں پریسز کی ڈھبریاں اور کابلے جانتا ہوں (I know nuts and bolts of presses)“۔ اُسی وقت ایک جرمن انجنیئر ہمارے کمرہ میں داخل ہوا تو اُس سے بولے ”یہ تمہارے دوست مسٹر بھوپال نے ایکسینٹرِک پریس اور کرینک پریس کو فرق فرق کر دیا ہے“۔ وہ جرمن بہت چالاک آدمی تھا بولا ” میں اس کا ماہر نہیں ہوں ۔ پریس شاپ کے فورمین سے جا کر پوچھتے ہیں“۔ وہاں پہنچ کر جونہی جرمن انجیئر نے بات کی اُس نے انجنیئر کو کھری کھری سنا دیں“۔ باس صورتِ حال بھانپ کر ہم سے پہلے ہی رفو چکر ہو گئے ۔ باس شاید صرف ڈھبریاں اور کابلے ہی جانتے تھے

انگلش کیک
ہم چند جرمن انجیئروں کے ہمراہ ٹرین میں ڈوسل ڈورف سے میونخ جا رہے تھے ۔ ٹرین میں کافی منگوائی گئی تو باس بولے میں چائے پیئوں گا ۔ ساتھ کھانے کیلئے مقامی کیک منگوایا گیا تھا ۔ باس کہنے لگے ”انگلش کیک جیسا کوئی نہیں ۔ میں انگلش کیک کھاؤں گا“۔ انگلش کیک خُشک ہوتا ہے ۔ مقامی کیک پر تھوڑی کریم اور کافی زیادہ پھل کا مربہ لگا ہوا تھا ۔ جرمنوں کو معلوم نہ تھا کہ انگلش کیک کیسا ہوتا ہے سو میں اور ایک جرمن انجنیئر جا کر انگلش لے آئے ۔ باس نے انگلش کیک کھانا شروع کیا تو گلے میں پھنس گیا ۔ باس کا بُرا حال ہوا ۔ بعد میں جرمن انجیئر کہنے لگا ”بلڈی انگلش کیک“۔

روک دو ۔ Stop it
ایک دن کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھے باس ۔ دو جرمن انجنیئر اور میں چائے پی رہے تھے ۔ باس گویا ہوئے ”میرے ماتحت ورکشاپس میں ایک میں ایک ایکسٹرُوژن پریس (Extrusion Press) تھا ۔ ایک دن میں اُس ورکشاپ میں داخل ہوا ۔ ایکسٹرُوژن پریس چل رہی تھی ۔ میں نے دیکھتے ہی کہا ” روک دو “۔ اور پریس روک دیا گیا ۔ جرمن ہکّا بکّا باس کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ باس کچھ سانس لے کر بولے ”اگر پریس نہ روکا جاتا تو حادثہ ہو جاتا“۔ جرمن ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ وجہ ظاہر ہے ۔ یہ تو بتایا نہ تھا کہ حادثہ کیوں ہو جاتا ۔ میں جانتا تھا کہ باس نے ساری زندگی کبھی کوئی مشین یا پریس کو نہیں چلایا تھا ۔ پھر باس کو کیسے معلوم ہوا کہ حادثہ ہو جائے گا ؟
اُسی ورکشاپ میں ایک ہاٹ رولنگ مِل تھی جسے اسسٹنٹ منیجر یا اُوپر کے افسروں میں سے صرف 3 نے چلایا تھا ۔ میں نے اور میرے ایک ساتھی نے 1963ء میں تربیت کے دوران ہاٹ رولنگ مِل کو چلایا تھا جس کیلئے پی او ایف کے ٹیکنیکل چیف سے اجازت لینا پڑی تھی ۔ تیسرا وہ اسسٹنٹ منیجر تھا جو برطانیہ سے اس کی تربیت لے کر آیا تھا ۔ وہ 1964ء کے آخر میں پی ایف کو خیرباد کہہ گیا تھا ۔ ہمیں ایکسٹرُوژن پریس چلانے کی اجازت نہیں ملی تھی

ایک اہم واقعہ
ابھی ہم جرمنی میں ہی تھے کہ ایک دن دفتر میں ایک خط کی آفس کاپی مجھے دے کر کہا ”اسے فائل کر دو“۔ وہ خط چیئرمین پی او ایف بورڈ کے خط کا جواب تھا ۔ باس نے 2 دن قبل خود ہی جواب لکھ کر ٹائپ کرا کے بھیج دیا تھا ۔ ساری ڈاک میں ہی پڑھتا اور جواب لکھتا تھا لیکن چیئرمین صاحب کا خط میں نے نہیں دیکھا تھا ۔ باس سے چیئرمین صاحب کا خط مانگ کر لیا ۔ جب پڑھا تو میں پریشان ہو گیا ۔ باس نے جو جواب لکھا تھا وہ درُست جواب کا اُلٹ تھا ۔ میں نے باس کو بتایا تو مجھ پر چیخنے لگے ۔ اسی اثناء میں سفارتخانے کے ٹیکنیکل اتاشی آ گئے جو ہفتہ میں 3 دن سفارتخانہ میں اور 3 دن ہمارے ساتھ کام کرتے تھے ۔ باس نے خط اورُ جواب اُنہیں دیا ۔ اُنہوں نے خط پڑھا اور بولے ”اجمل درست کہہ رہا ہے“۔ معاملہ سیکرٹ تھا اسلئے باس نے جی پی او جا کر خط کا جواب بذریعہ رجسٹری سفارتخانہ کو بھیجا تھا کہ ڈپلومیٹک بیگ میں پاکستان چلا جائے ۔ سفارتخانہ بون میں تھا اور ہم ڈوسلڈورف میں ۔ باس بہت پریشان بار بار کہہ رہے تھے ”اب کیا کریں ؟“ میں نے کہا ”سفارتخانہ سے بیگ جا چکا ۔ وائرلیس سسٹم غیر معینہ مدت کیلئے بند ہے ۔ آپ مجھ پر چھوڑ دیں ۔ اللہ کوئی صورت نکال دے گا“۔ میں قریبی چھوٹے ڈاکخانہ میں گیا اور ایک ایروگرام لے آیا ۔ اس پر اپنے قلم سے چیئرمین کے خط کا درست اور تفصیلی جواب لکھا ۔ پہلے اُوپر ایک ممبر پی ایف بورڈ کے نام لکھا”یہ خط ملتے ہی چیئرمین صاحب کو پہنچا دیں“۔ ایروگرام کے باہر ممبر پی او ایف بورڈ کا نام اور گھر کا پتہ لکھا ۔ عہدہ وغیرہ کچھ نہ لکھا اور عام ڈاک کے ذریعہ جی پی او جا کر پوسٹ کر دیا ۔ اگر رجسٹری کرتا تو پہنچنے میں 2 سے 4 دن زیادہ لگتے اور خط ہر ایک کی نظر سے گزرتا ۔ دوسرے دن باس بار بار پوچھتے رہے پھر شور مچانے لگے تو میں نے جو کیا تھا بتا دیا ۔ باس کرسی سے اُچھل پڑے اور میرے پیچھے پڑ گئے ۔ میں خاموش رہا ۔ پاکستان واپس آ کر فیکٹری گئے تو پہلے ہی روز باس بولے ”چلو میرے ساتھ“۔ ہم چیئرمین صاحب کے دفتر جا پہنچے ۔ چیئرمین صاحب سے کہنے لگے ”اس نے کی تھی وہ حرکت“۔ چیئرمین صاحب نے کہا ”کون سی ؟“ بولے ”وہ خط“۔ چیئرمین بولے ”اس نے بہترین راستہ اختیار کیا جو ان حالات میں محفوظ بھی تھا“۔ پھر چیئرمین صاحب مجھ سے مخاطب ہو کر بولے ”جائیں جا کے اپنا کام کریں“۔

سوت کا کٹ
پاکستان آنے کے بعد 1968ء میں ایک ملنگ (Milling) مشین کی ضرورت تھی ۔ باس مجھے اپنے گورو کے پاس لے گئے جو کئی سال قبل پی او ایف چھوڑ گیا تھا ۔ چند نجی کمپنیوں سے نکالے جانے کے بعد بے روزگار تھا تو یاروں نے اُسے کنٹریکٹ پر پی او ایف میں بطور ایڈوازر بھرتی کروا لیا تھا ۔ گورو بولے ”فلاں ورکشاپ میں درجنوں ملنگ مشینیں بیکار پڑی ہیں ۔ اُن میں سے لے لیں“ ۔ میں اس ورکشاپ کو کو کئی بار دیکھ چکا تھا ۔ میں نے کہا ”وہ مشینیں بہت ہلکے کام کیلئے ہیں ۔ مطلوبہ کام نہیں کر سکتیں“۔ گورو بولے ”آپ ابھی بچے ہیں ۔ میں اپنے زمانے میں اُن مشینوں پر ایک سوت کا کٹ (cut) لگواتا رہا ہوں“ (سوت اِنچ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے)۔ میں نے کہا ” از راہِ کرم ساتھ جا کر مجھے ایسی مشین دکھا دیجئے“۔ دوسرے دن میں باس اور گورو اُس ورکشاپ میں گئے ۔ مستری کو بُلایا ۔ گورو نے اُسے کہا ”میٹریل اس مشین پر باندھو اور ایک سوت کا کٹ لگاؤ ۔ مستری اُچھل پڑا اور بولا ”آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ مشین برباد کروائیں گے ۔ اس ورکشاپ میں کسی مشین پر چوتھائی سوت بھی نہیں کاٹا جا سکتا“۔ باس اور گورو دُم دبا کر بھاگ لئے

جہادِ کشمیر
باس کئی بار مجھے کہہ چکے تھے ”تم نے کشمیر کیلئے کیا کیا ؟ میں نے کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا“۔ میں نے 1947ء میں تیسری جماعت کا امتحان پاس کیا تھا ۔ میں سوچتا کہ باس اُن دنوں کالج میں ہوں گے ۔ ایک دن باس حسبِ معمول محفل جمائے اپنے کچھ اور معرکے بیان کر رہے تھے کہ اُن کے ایک ہم عصر نے پوچھا ”آپ بندوق چلانا جانتے ہیں ؟“ بولے ”نہیں“۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ باس نے جہاد کیسے کیا ہو گا ۔ آخر ایک دن جب باس بہت چہچہا رہے تھے مجھے دیکھ کر جہادِ کشمیر کی بات کی تو میں نے پوچھا ”آپ نے آزاد کشمیر کے کس علاقے میں جہاد کیا تھا ؟“ باس جواب گول کر کے کوئی اور قصہ سنانے لگے ۔ مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ 1947ء میں باس انجنیئرنگ کالج فرسٹ ایئر میں تھے ۔ تھوڑی دیر بعد میں نے کہا ”جہاد کی وجہ سے آپ نے پڑھائی کے ایک سال کی قربانی دی“۔ بولے ”میں واپس آیا تو امتحان ہو چکے تھے ۔ مجھے استثنٰی دے کر سیکنڈ ایئر میں بٹھا دیا تھا“۔ یہ بات ماننے والی نہ تھی لیکن باس تھے اور باس ہمیشہ درست ہوتا ہے اسلئے خاموش رہا

محبت میں ؟ یا ۔ سیاست میں ؟

سُنا تھا کہ ” محبت اور جنگ“ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے (All is fair in love and war)لیکن عملی طور پر دیکھا یہ ہے کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے ۔ زیرِ نظر ہیں 2 نو آموز سیاستدان ۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سابق کمانڈو اور عمران خان قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ۔ پہلے بات عمران خان کی

عمران خان فرماتے ہیں کہ نواز شریف ۔ الیکشن کمیشن ۔ اعلٰی عدالتوں اور جنگ جیو گروپ نے دھاندلی کر کے 11 مئی 2013ء کو ہونے والے الیکشن میں عمران خان کو ہرا دیا

کچھ غیر سیاسی لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کو تو اپنی جیت کا جشن منانا چاہیئے کہ اُنہوں نے قومی اسمبلی میں ملک کی تیسری بڑی پارٹی کی حیثیت حاصل کر لی ۔ جن نشتوں سے ہارے ہیں اگر وہاں دھاندلی ہوئی تھی تو وہاں دھاندلی کیوں نہ ہوئی جہاں تحریکِ انصاف جیتی ؟ عجب بات یہ ہے کہ ملک میں حکومت تو پیپلز پارٹی کی تھی تو دھاندلی نواز شریف نے نواز شریف نے کیسے کی ؟ اور جس کی حکومت تھی اُس کی زیادہ تر نشستیں تو عمران خان لے گیا

کیا 11 مئی 2014ء کو ڈی چوک کے پاس تیرہ چودہ ہزار کا جلسہ کرنے سے یہ مبینہ دھاندلی ختم ہو جائے گی یا اس سے موجودہ حکومت بھاگ جائے گی یا بھگا دی جائے گی ؟ اس جلسے پر تحریکِ انصاف کی اور حکومت کی وساطت سے عوام کا جو روپیہ خرچ ہوا کیا وہ قومی نقصان نہیں ؟

عمران خان شاید سیاست ۔ میڈیا ۔ الیکشن کمیشن اور اعلٰی عدالتوں کو اُسی طرح چلانا چاہتے ہیں جس طرح کرکٹ چلاتے تھے کہ جب جاوید میانداد دو ورلڈ ریکارڈ بنانے کو تھا تو بغیر وجہ میچ ڈکلیئر کر دیا اور پھر جب جاوید میانداد کا کھیل عروج پر تھا اُسے ٹیم سے علیحدہ کر دیا ۔ کہیں عمران خان کی کپتانی میں فرق نہ آ جائے

اب بات سابق آمر پرویز مشرف کی ۔ ملک سے بھاگنے کیلئے عارضہ قلب کا بہانہ کارساز نہ ہونے کے بعد 6 مئی کو جو میڈیکل رپورٹ منظرِ عام پر لائی گئی ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے
” پرویز مشرف کی ریڑھ کی ہڈی کے دو مُہروں میں فریکچر ہے جس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں اور صرف دبئی ۔ شمالی امریکہ اور یورپ میں ممکن ہے ۔ اسلئے سندھ ہائیکورٹ پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے“۔

1 ۔ رپورٹ میں سرِ فہرست اور سب سے سِنیئر ہیں دبئی کے ڈاکٹر امتیاز ہاشمی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر امتیاز ہاشمی ریڑھ کی ہڈی کے ماہر مانے جاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک سے باہر جانا ضروری ہے ۔ ڈاکٹر امتیاز ہاشمی ہفتے میں 3 دن دبئی میں اور 3 دن کراچی میں علاج اور آپریشن وغیرہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ پرویز مشرف ڈاکٹر امتیاز ہاشمی سےکراچی میں علاج اور آپریشن کروا سکتے ہیں ۔
حال ہی میں میرے ایک قریبی عزیز کی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ڈاکٹر امتیاز ہاشمی نے کراچی میں کیا تھا ۔ مریض کو لاہور میں ڈاکٹروں نے ڈاکٹر امتیاز ہاشمی سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ مریض وقت لینے کے بعد لاہور سے کراچی پہنچا تھا

2 ۔ اگر ریڑھ کی ہڈی کا کوئی آپریشن ممکن ہے تو پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے ۔ کیوں ؟ آگے پڑھیئے

مجھے 2001ء یا 2002ء میں کمر میں شدید درد اُٹھا ۔ میں نے عام ڈاکٹر کو دکھایا ۔ اُس نے درد کی گولیاں کھانے کو اور بیلاڈونا پلاسٹر کمر پر لگانے کا کہا ۔ میں 6 ماہ سے زائد یہ علاج کرتا رہا اور مُڑنے ۔ بیٹھنے اور اُٹھنے میں بہت احتیاط شروع کر دی ۔ میں 2004ء میں کراچی چلا گیا ۔ 10 جنوری 2005ء کو اچانک میری کمر اور ٹانگ میں شدید درد شروع ہوا جو ناقابلِ برداشت تھا ۔ مجھے آغا خان ہسپتال لیجایا گیا جہاں درد کو کم کرنے کا ٹیکہ ہر گھنٹہ بعد لگایا جاتا رہا اور ایم آر آئی کرایا گیا ۔ وہاں کے ڈاکٹر کا خیال تھا کہ آپریشن کیا جائے ۔ میں مزید 2 اچھے نیورولوجِسٹس (Neurologists) کی رائے لینا چاہتا تھا ۔ سو ہسپتال سے فارغ ہونے کے کچھ دن بعد مجھے کراچی کے مشہور نیورو فزیشن کے پاس لیجایا گیا جو اُن دنوں پی ای سی ایچ ایس میں کلنک کرتے تھے ۔ اُنہوں نے آپریشن نہ کرانے کا کہا اور درد کم ہونے کے بعد کچھ ورزشیں کرنے کا کہا جو میں آج تک کرتا ہوں

میں نے 20 فروری 2005ء کو درد کم ہوتا محسوس کیا تو اُسی دن اسلام آباد پہنچ گیا ۔ میری بڑی بہن اور سب سے چھوٹا بھائی ڈاکٹر ہیں ۔ بہن پیتھالوجسٹ اور بھائی سرجن ہے ۔ بھائی اپنے ایک ساتھی نیوروسرجن جو راولپنڈی میڈیکل کالج میں پروفیسر اور ہیڈ آف نیورولوجی ڈیپارٹمنٹ تھے اور راولپنڈی اسلام آباد میں بہترین نیوروسرجن سمجھے جاتے تھے کے پاس لے گیا ۔ اُس نے ایم آر آئی کا مطالعہ کر کے کہا
” بھائی جان ۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ آپریشن نہیں کرایا ۔ آپ کی ریڑھ کی ہڈی کا ایک مُہرا کبھی فریکچر ہوا ہو گا جس کے درست ہونے پر اُس کے اندر باہر کیلسیم (Calcium) جم گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے آپ کی سپائینل کورڈ (Spinal cord) دب رہی ہے جو درد کی وجہ ہے ۔ آپ کو آئیندہ کچھ احتیاطیں کرنا ہیں ۔ نیوروفزیشن کی بتائی ہوئی ورزشیں کریں اور میتھی کوبال 500 (Methycobal 500) ایک گولی دن میں 3 بار کھاتے رہیں ۔ اس سے آپ کے اعصاب (nerves) مضبوط ہوں گے اور درد کم ہو گا”۔

اس نیوروسرجن کے مطابق مہرہ فتیکچر ہونے کی صورت میں ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن انتہائی خطرناک ہوتا ہے ۔ آپریشن کے بعد بہتری کی اُمید 40 فیصد بھی نہیں ہوتی البتہ ٹانگیں بے کار ہونے کا احتمال بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ اُس نے یہ بھی بتایا تھا کہ اگر فریکچر ہونے کے فوراً بعد بھی پتا چل جاتا تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا صرف احتیاط کرنے سے صورتِ حال آج سے بہتر ہو سکتی تھی

میں باقاعدہ میتھی کوبال کھا رہا ہوں اور ورزش بھی کرتا ہوں جو فرش پر لیٹ کر کرنا ہوتی ہیں ۔ ڈاکٹر کی ہدائت کے مطابق سونے کیلئے میں نے ارتھوپیڑِک گدیلہ اور تکیہ (orthopaedic mattress and pillow) کراچی ہی میں خرید لیا تھا پھر فروری میں اسلام آباد آنے پر یہاں بھی خرید لئے تھے
انگوٹھے کے سوا میرا داہنا پاؤں ہر وقت سُن (numb) رہتا ہے ۔ اگر میری داہنی ٹانگ پر وزن پڑے تو میں گِر جاتا ہوں ۔ کبھی انگوٹھا بھی اور ٹانگ کا نیچلا حصہ سُن ہو جاتا ہے ۔ کبھی کبھار پوری ٹانگ اور کمر میں شدید درد شروع ہو جاتا ہے لیکن ناقابلِ برداشت نہیں ہوتا ۔ میں ایسی صورت میں فرش پر لیٹ جاتا ہوں اور ڈاکٹر کی بتائی ہوئی ایک خاص ورزش کرتا ہوں ساتھ درد کم کرنے کی کوئی اچھی دوائی بھی کھاتا ہوں
اس حال میں 9 سال اور 4 ماہ گذر گئے ہیں ۔ اللہ کا شکر گذار ہوں کہ بہتوں سے بہتر حال میں ہوں

ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟

میں موزیلا فائرفاکس استعمال کرتا ہوں ۔ ونڈوز ایکس پی سروس پیک 2 دوبارہ انسٹال کی ہے
میں جی میل کھولتا ہوں تو موزیلا فائرفاکس میں کھُلتی ہے
آئندہ سہولت کیلئے جی میل کا آئیکون ڈیسک ٹاپ پر محفوظ کرتا ہوں تو وہ انٹرنیٹ ایکسپلورر کا بن جاتا ہے

کمپیوٹر آپریشن کے ماہرین سے درخواست ہے کہ میری رہنمائی فرمائیں
ایسا کیوں ہو رہا ہے
اور
اس کیسے درست کیا جائے ؟