Category Archives: آپ بيتی

اِنَّا لِلہِ و اِنَّا اِلَہِ راجِعُون

میں اپنے ماضی میں اپنی یادداشت کو چلاتا دُوربہت دُور چلا جاتا ہوں ۔ مجھے 1946ء تک کی بھی اہم باتیں یا واقعات یاد آ جاتے ہیں ۔ لیکن اِن میں وہ دن نظر نہیں آتا جب ہم دوست بنے تھے ۔ بس اتنا مجھے یاد ہے کہ ہم چھوٹے بچے تھے جب وہ اپنی والدہ (میری پھّوپھو) کی وفات کے بعد اپنی 2 بڑی بہنوں کے ساتھ ہمارے ہاں رہنے لگا تھا اور ہماری دوستی شروع ہو ئی تھی
وہ مجھ سے 10 ماہ بڑا تھا ۔ ہم اکٹھے کھیلتے اور ہنسا کرتے ۔ کبھی کبھی تو ہنستے ہنستے بُرا حال ہو جاتا تھا

ہماری دوستی اتنی گہری تھی کہ پچھلی 7 دہائیوں میں جہاں کہیں بھی رہے ہم ایک دوسرے سے رابطے میں رہے ۔ ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں ۔ زندگی کے نشیب و فراز اور نامساعد حالات ہماری دوستی کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔ ہمارا نہ کبھی جھگڑا ہوا نہ ہم کبھی آپس میں ناراض ہوئے

شادی کے بعد اُس نے کراچی میں کاروبار شروع کیا جو چل پڑا ۔ اُس کی 2 بیٹیاں تھیں جو جامعہ کراچی میں پڑھتی تھیں جب 1990ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کے حق پرستوں نے کراچی کی زمین اُس کے خاندان کیلئے تنگ کر دی ۔ وہ جوان بیٹیوں کی عزت محفوظ کرنے کی خاطر بیوی 2 بیٹیوں اور 2 بیٹوں کو اپنی کار میں بٹھا کر چلاتا ہوا 3 دن میں لاہور پہنچا جہاں اُسے پھر الف بے سے آغاز کرنا پڑا ۔ میاں بیوی ہر قسم کا چھوٹا موٹا کام کرتے رہے ۔ بیٹیاں بیٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے رہے ۔ اُس دور میں بھی میں نے اُسے ہمیشہ مسکراتے دیکھا ۔ چار پانچ سال میں معاشی پہیئہ چل پڑا تو بچوں کی شادیاں کیں

وہ متعدد بار معاشی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا مگر نہائت بُرے وقت میں بھی اُس نے الحمدللہ ہی کہا ۔ زندگی میں 2 بار اُس نے مجھے صرف اتنا کہا ”میں نے ماموں جی (میرے والد) کا کہا نہ مان کر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی”۔
(اگست 1947ء سے کچھ دن قبل وہ تینوں بہن بھائی اپنی بھابھی کو ملنے سیالکوٹ گئے تھے ۔ اُن کے صرف ایک بھائی تھے جو سب بہن بھائیوں سے بڑے تھے ۔ 3 بڑی بہنیں تھیں جن کی شادیاں والدہ کی زندگی میں ہو گئی تھیں ۔ بھائی ہندوستان سے باہر کہیں کاروبار کرتے تھے ۔ اُن کے ہمارے ہاں سے جانے کے بعد ہمارے شہر سمیت ہندوستان میں قتل و غارت گری شروع ہو گئی اور وہ واپس ہمارے ہاں نہ آ سکے ۔ 1947ء کے آخر میں ہم ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تو راولپنڈی میں رہائش اختیار کی ۔ کچھ سال والد صاحب روزگار کی تگ و دو میں رہے ۔ جب کاروبار چل پڑا تو والد صاحب نے سیالکوٹ جا کر اُس کی بڑی 2 بہنوں کی شادیاں کرائیں اور اُسے اپنے ساتھ راولپنڈی لے آئے تھے ۔ مگر اس کے دوستوں نے اُسے ٹکنے نہ دیا اور کچھ ماہ رہ کر وہ واپس چلا گیا تھا)

لگ بھگ 70 سالہ دوستی اُسے نہ روک سکی اور 5 اکتوبر بروز اتوار یعنی عید الاضحےٰ سے ایک دن قبل وہ اس دارِ فانی سے رُخصت ہو گیا
اِنَّا لِلہِ و اِنَّا اِلَہِ راجِعُون

بابائے مشین گن

اَج ہینجوں دِل وچ میرےآیا ایہہ خیال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (آج یونہی دِل میں میرے آیا یہ خیال)
میں لکھ دیواں اپنے ماضی داکُج حال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (میں لکھ دوں اپنے ماضی کا کچھ حال)
ہُن تے مینوں کوئی آکھے دماغی بیمار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اب تو مجھے کوئی کہے دماغی بیمار)
موُرکھ کوئی کہندا ۔ کوئی تعصب پال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بیوقوف کوئی بُلاوے ۔ کوئی متعصب)
گل پرانی نئیں اِک زمانہ جیئا وی سی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بات پرانی نہیں ایک زمانہ ایسا بھی تھا)
اَیس نکمّے نُوں مَن دے سی سمجھدار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اِس نکمے کو مانتے تھے سمجھدار)
عوام دِتا سی بابائے مشین گن دا خطاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (عوام نے دیا تھا بابائے مشین گب کا خطاب)
ساتھی افسر بُلاندے سی محترم اُستاذ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ساتھی افسر مخاطب کرتے تھے ۔ محترم اُستاذ)

(یہ بند میں نے اُن دنوں کی اُردو میں لکھا ہے جب اس زبان کو اُردو کا نام دیا گیا تھا یعنی آج سے 2 صدیاں قبل ۔ موجودہ اُردو خطوط وحدانی میں لکھ دی ہے ۔ دیگر میں شاعر نہیں ۔ التماس ہے کہ قارئین شاعری کے اصولوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کے مطلب اور نیچے دیئے حقائق پر غور فرمائیں ۔ مشکور ہوں گا)

میں نے یکم مئی 1963ء کو پولی ٹیکنک انسٹیٹوٹ راولپنڈی میں سِنیئر لیکچرر کی کُرسی چھوڑ کر پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) کی ملازمت کم معاوضہ پر اسلئے اختیار کی کہ عملی کام سیکھ کر درست انجنیئر بنوں پھر اپنے عِلم اور تجربہ کو انجنیئرنگ کے طالب عِلموں تک پہنچاؤں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے مُلک میں انتظامی ڈھانچے کے بادشاہ سب سادے گریجوئیٹ ہیں جنہیں ٹیکنیکل اہلِ وطن کا پنپنا نہیں بھاتا (خیال رہے کہ وہ انجیئر ۔ ڈاکٹر ۔ ایم ایس سی فزکس یا کیمسٹری ۔ ایم کام ۔ ایم اے اکنامکس سب کو نالائق سمجھتے ہیں جس کی وجہ ان کا تعصب ہے)۔ خیر ۔ یہ انکشاف تو بہت بعد میں ہوا ۔ اسلئے پہلے بات میری یا ادارہ پی او ایف کی مُشکلات اور اُن کے حل کیلئے میری محنت کی

میں اس سلسلے میں قبل ازیں 2 واقعات ”گھر کی مُرغی“ اور ”کرے کوئی بھرے کوئی“ عنوانات کے تحت لکھ چُکا ہوں ۔ آج کچھ اور

مشین گن کی ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن کیلئے پلاننگ کرنے کے سلسلہ میں اواخر 1966ء میں مجھے جرمنی اُس فرم میں بھیج دیا گیا جس سے معاہدہ ہو چکا تھا ۔ معاہدہ پاکستان میں ہوا تھا جس میں مشین گن کے متعلق ٹیکنیکل تفصیلات مہیاء نہیں تھیں ۔ صرف مشین گن کا ماڈل ایم جی ون اے تھری (MG1A3) درج تھا ۔ میں نے اُس وقت جواز مہیاء کرتے ہوئے معاہدے میں کچھ نئی شقیں ڈلوا دیں تھیں جن میں سے ایک شق تھی کہ اگلے 20 سال میں اس ماڈل میں جو بھی تبدیلی یا بہتری لائی جائے گی دونوں فریق اس کی معلومات ایک دوسرے کو دینے کے پا بند ہوں گے

جرمنی میں ٹیکنیکل معلومات حاصل کرنے کیلئے میں اپنے طور پر فیکٹری میں چلا جاتا ۔ یہاں ایک واقعہ تفننِ طبع کی خاطر ۔ جرمن لوگ کہتے ہیں ”Wasser ist fuer washung (پانی دھونے کیلئے ہوتا ہے)“ اور بیئر پیتے ہیں ۔ وہاں رواج تھا کہ تعارفی ملاقات میں بیئر پیش کی جاتی تھی (بیئر پانی سے سستی تھی) ۔ ورکشاپ میں مشین لگی تھی جس میں سکے ڈال کر کوکا کولا اور سیوَن اَپ نکالے جا سکتے تھے ۔ میں کبھی کوکا کولا کی 2 بوتلیں نکال کر ورکشاپ کے فورمین کے دفتر میں چلا جاتا اور یہ میری رُم ہے کہہ کر فورمین کو پیش کر دیتا اور کسی دوسرے کو سیون اپ پیش کرتے ہوئے کہتا کہ یہ میری جِن ہے ( یہ نام میں نے نویں جماعت میں ناول ٹیژر آئی لینڈ میں پڑھے تھے) ۔ یہ اخراجات میں اپنی جیب سے قومی خدمت کیلئے کرتا تھا ۔ اللہ سُحانُہُ و تعالیٰ نے مجھے کامیابی دی اور جرمن انجیئروں میں ہر دل عزیز بنا دیا ۔ چنانچہ میں ذاتی سطح پر وہ ٹیکنیکل معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا جو مجھے سرکاری طور پر نہیں مِل سکتی تھیں

پہلی چیز جو میں دیکھی ۔ ایم جی وَن اے تھری میں ایک انرشیا بولٹ تھی جس کے ایک طرف پِن (Pin) اور دوسری طرف سلِیو (Sleeve) تھی جبکہ وہاں جو ایم جی جوڑی جارہی تھی اس کے دونوں طرف سلِیوز تھیں ۔ میں نے حسبِ معمول دو بوتلیں سیون اپ کی نکالیں اور فورمین کے کمرے میں جا بیٹھا ۔ تھوڑی دیر بعد فورمین فارغ ہو کر آیا اور آتے ہی کہا ”از راہ مہربانی بتایئے کہ میں آپ کیلئے کیا کر سکتا ہوں ؟ (Was Ich fuer zie can tuen bitte)“ یہ جرمنوں کی عادت ہے وہ بڑی میٹھی زبان بولتے ہیں ۔ میں نے بوتل پیش کرتے ہوئے حقیقت بتائی ۔ وہ کہنے لگا ”یہ ایم جی تھری بن رہی ہے“۔ میں نے استفسار کیا کہ یہ تبدیلی کیوں کی گئی تو اُس نے بتایا ”میں جنگِ عظیم دوم میں نیوی میں تھا اور برما کے محاذ پر لڑائی میں حصہ لیا تھا ۔ میں جانتا ہوں کہ اگر جنگ کے دوران گنر جلدی میں انرشیا بولٹ اُلٹی ڈال دے تو مشین گن فائر نہیں کرے گی“۔

اس فور مین سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا ۔ میری دلچسپی اور گہری نظر دیکھ کر وہ ایک دن 15 منٹ کی ٹی بریک کے دوران جب سب دُور بیٹھ کر چائے پینے میں مشغول تھے مجھے ورکشاپ میں لے جا کر مشین گن کی ہاؤسنگ دکھاتے ہوئے پوچھا ”یہاں کچھ دیکھ رہے ہو ؟“ میں نے غور کیا تو سوراخ جس میں سے کارتوس چلنے کے بعد خالی کھوکھے باہر نکلتے ہیں اُس کی شکل اور سائز ایم جی ون اے تھری سے مختلف لگا ۔ میں نے اُسے بتایا تو وہ بہت خوش ہوا اور دفتر کی طرف چل پڑا ۔ راستہ میں بولا ”آج میں آپ کو کچھ پلاؤں گا ۔ کیا پئیں گے جوس یا کافی ؟“ میرے کہنے پر اُس نے کافی منگائی (میں جانتا تھا کہ جوس کافی مہنگا ہے)۔ کہنے لگا ”یہ بھی ایم جی تھری کی ہاؤسنگ ہے ۔ ایم جی ون اے تھری میں کبھی کبھار کارتُوس چلنے کے بعد کھوکھا باہر نکلتے ہوئے اس سورخ میں پھنس جاتا ۔ جس سے مشین گن چلنا بند ہو جاتی تھی اور حادثہ کا بھی خدشہ تھا ۔ اسلئے فوج کی شکایت پر اس کے ڈیزائین میں ہماری کمپنی نے تبدیلی کی“۔

میں نے اپنے دفتر میں جا کر جرمن انجنیئر سے بات کی ۔ وہ مجھے اپنے باس پلاننگ انجیئر کے پاس لے گیا ۔ پلاننگ انجنیئر نے کہا ”یہ معاملہ میرے بس سے باہر ہے ۔ آپ کا نقطہ نظر میری سمجھ میں آ گیا ہے ۔ میں ٹیکنیکل چیف سے بات کروں گا“۔ اور وہ اُٹھ کر غالباً ٹیکنیکل چیف کے پاس چلا گیا ۔ اگلے روز اُس نے بتایا ”میں نے بات کی ہے ۔ بہتر ہو گاکہ آپ ٹیکنیکل چیف کو خود ٹیکنیکل معلومات اور معاہدے کی شقّات کے حوالے سے بات کریں ۔ میں نے کہا ”چیک کریں ۔ اگر ٹیکنیکل چیف فارغ ہوئے تو ابھی چلتے ہیں“۔ میں نے اپنے (پاکستانی) باس کو کہا تو اُنہوں نے کہا ”مجھے سمجھا دو ۔ میں ٹیکنیکل چیف کے پاس جاؤں گا ۔ تمہارا اُن کے پاس جانا درست نہیں ۔ وہ چیف ہے“۔ خیر میں نے اپنے باس کو سب کچھ واضح کیا ۔ وہ جرمن پلاننگ انجنیئر کے پاس گئے مگر واپس آ کر کہا ”میں نے سوچا ہے کہ تم ہی چلے جاؤ“۔ چند منٹ بعد پلاننگ انجنیئر آیا اور ہم دونو چل پڑے ۔ پیچھے سے ایک جرمن انجنیئر نے آ کر میرے کان میں کہا ”چیف نے آپ کو بُلایا تھا ۔ آپ نے اپنے باس کو کیوں بھیج دیا ؟ میرے باس نے اُنہیں کہہ دیا کہ آپ کے جانے کی ضرورت نہیں مسٹر اجمل جائے گا“۔ (خیال رہے یہ رویّہ ہمارے ملک میں عام پایا جاتا ہے جو میرے خیال کے مطابق ہماری بدقسمتی ہے)

میری بات چیف نے غور سے سُنی اور میرے نقطہ نظر کو سراہتے ہوئے کہا ”میں ایک دو دن میں بتاؤں کا“۔ واپسی پر پلاننگ انجنیئر نے مجھے بتایاکہ معاملہ معاہدے کا ہونے کی وجہ سے صرف ادارے کا بورڈ ہی اس کا فیصلہ کر سکتا ہے ۔ دو تین دن بعد جرمن انجنیئر نے آ کر کہا ”مسٹر اجمل ۔ چلیئے ۔ میٹنگ ہو رہی ہے جس میں آپ کو بلایا ہے“۔ راستہ میں بولا ” آپ کو صبح بلایا گیا تھا مگر آپ کی بجائے آپ کے باس چلے گئے ۔ وہاں وہ اپنا مؤقف ہی واضح نہ کر سکے تو ٹیکنیکل چیف نے مجھے کہا کہ آپ کو بلا لاؤں“۔ میں کمرے میں داخل ہو کر کرسی پر بیٹھا تو چیف نے مجھے بولنے کا اشارہ دیا ۔ میں چیف کی طرف منہ کر کے بولنے لگا تو چیف نے ڈائریکٹر سیلز اور چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف اشارہ کر کے کہا” آپ انہیں نہیں پہچانتے ؟“

میں بات سمجھ گیا اور چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھ کر بات شروع کی ۔ وہ اعتراضات کرتے رہے اور میں دلائل دیتا رہا“۔ آخر ٹیکنیکل چیف جو ابھی تک صرف مُسکرا رہے تھے چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھ کر بولے” میرا خیال ہے کہ اس نے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا جو میرے مطابق درست ہے“۔ اس پر چیف فار کمرشل افیئرز نے ڈائریکٹر سیلز سے اُس کا نظریہ دریافت کیا تو وہ چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ” آپ کو شاید یاد ہو گا کہ جب پاکستان میں معاہدہ کے مسؤدے پر بحث ہونے لگی تھی تو ممبر پی ایف بورڈ فار انڈسٹریل اینڈ کمرشل ریلیشنز نے مسٹر اجمل کو بُلا لیا تھا اور اسی کی بحث اور مہیاء کردہ جواز کے نتیجہ میں معاہدے میں چند نئی شقیں ڈالی گئی تھیں ۔ آج جس شق کے تحت انہوں نے بات کی ۔ یہ ان میں سب سے اہم شق ہے “۔

چیف فار کمرشل افیئرز کچھ دیر سوچ میں پڑے رہے پھر بولے ”آپ درست کہتے ہیں“۔ اس میٹنگ کے دوران وہ نہائت سنجیدہ رہے لیکن اب وقفہ کے بعد مسکرا کر میرے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے بولے ” اب آپ نے ہمیں بھی اپنی کی ہوئی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا ہے“۔ میں نے خوشی کا اظہار اور شکریہ کے ساتھ ہاں میں ہاں ملائی

یہی چیف ٹیکنیکل اور ڈائریکٹر سیلز اور چیف فار کمرشل افیئرز 1968ء میں میری ایجاد کے نتیجے میں مجھے جرمنی لے جانے کیلئے ایک چھوٹے پرائیویٹ ہوائی جہاز پر پاکستان پہنچ گئے تھے

مندرجہ بالا تبدیلیوں اور میرے ڈیزائین کردہ سوراخ (Polygon profile bore) والی نالی (barrel) کے ساتھ میں نے مشین گن کا نام ایم جی ون اے تھری (MG1A3) کی بجائے ایم جی ون اے تھری پی (MG1A3P) رکھ دیا جو آج تک رائج ہے ۔ اس کے بعد ایم جی ون اے تھری پی اور ایم جی تھری میں صرف یہ فرق رہ گیا کہ ایم جی تھری میں ڈِس اِنٹریگیٹِنگ بَیلٹ (disintegrating belt) استعمال ہوتی ہے جسے بھرنے کیلئے خاص مشین درکار ہوتی ہے ۔ اس کے استعمال شُدہ لنکس کو اکٹھا کرنا اور بھرنے کیلئے فیکٹری پہنچانا مُشکل ہوتا ہے خاص کر میدانِ جنگ سے تو انہیں واپس لانا ممکن نہیں ہوتا ۔ جبکہ ایم جی ون اے تھری پی میں لِنکڈ بَیٹ (linked belt) استعمال ہوتی ہے جس میں 50 کارتوسوں کا ایک لِنک ہوتا ہے ۔ ایسے 5 لِنکس کو جوڑ کر 250 کارتوسوں کی بَیلٹس بنا لی جاتی ہیں ۔ اس میں مشین کے علاوہ ہاتھ سے بھی کارتوس بھرے جا سکتے ہیں صرف بھرنے کی رفتار کم ہوتی ہے ۔ اِن لِنکس کو استعمال کے دوران بالخصوص میدانِ جنگ میں ہاتھ سے جوڑ کر بَیلٹ کی لمبائی بڑھائی جا سکتی ہے اور استعمال شدہ بَلٹس میدان جنگ میں بھری جا سکتی ہیں اور خالی بَیلٹس میدانِ جنگ سے واپس لائی جا سکتی ہیں ۔ انہی حقائق کی بنا پر ایم جی تھری کا ڈیزائن اپنایا نہیں گیا تھا

میں اُس اللہ الرّحمنٰ الرّحیم اور قادر و کریم کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ چاروں طرف مخالفتیں ہونے کے باوجود میری نا اہلیوں اور خطاؤں سے درگذر کرتے ہوئے اُس باری تعالیٰ نے ہمیشہ میرا سر بلند رکھا
سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو ۔ میری کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے

دسویں سالگرہ

مجھے بلاگنگ کرتے ہوئے 10 سال ہو چکے ہیں ۔ میں نے پہلا بلاگ 9 ستمبر 2004ء کو شروع کیا تھا اور اس پر صرف انگریزی لکھنا شروع کی ۔ میرے پہلے بلاگ کا عنوان تھا ” منافقت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ Hypocrisy Thy Name is “
یہاں کلِک کر کے میری پہلی تحریر دیکھی جا سکتی ہے
قارئین کے اصرار پر اسی بلاگ پر انگریزی کے ساتھ ساتھ اُردو بھی لکھنا شروع کر دی ۔ اُس زمانہ میں بلاگ پر اُردو لکھنا آج کی طرح بچوں کا کھیل نہ تھا
ایک صفحہ جس پر اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تحاریر موجود ہیں یہاں کلِک کر کے دیکھا جا سکتا ہے
اپریل 2005ء میں محسوس ہوا کہ اُردو میں وہ کچھ لکھا جائے جو میرے ہموطنوں کیلئے زیادہ مفید ہو اور انگریزی بلاگ کو بین الاقوامی امور کیلئے مُختص کر دیا جائے ۔ چنانچہ 5 مئی 2005ء سے اُردو کا الگ بلاگ شرع کر دیا تھا جو الحمد للہ بلاگر سے شروع ہو کر ورڈ پریس سے ہوتا ہوا میری اپنی ویب سائٹ پر چل رہا ہے

ماہرین انٹرنیٹ کی مدد درکار ہے

السلام علیکم خواتین و حضراتFlag-1
صرف ماہرین نہیں وہ بھی مدد فرمائیں جو اپنے آپ کو ماہر نہیں سمجھتے کیونکہ ” مہمان فقیروں کے ہوئے ہیں بادشاہ اکثر“۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سب ایجادات ماہرین کی نہیں ہیں بلکہ متعدد ایسے لوگوں کی ہیں جو متعلقہ مضمون جانتے ہی نہ تھے

میرا مسئلہ
میرے کمپیوٹر میں کسی طرح وائرس گھُس گئی اور ونڈوز کو ناقص کر دیا ۔ میری مجبوری یہ ہے کہ میرے پاس جاپان کا بنا ہوا ایپسن ایل ایکس 800 پرنٹر ہے جو سیریل پورٹ سے جوڑا جاتا ہے ۔ ونڈوز 7 پر یہ پورٹ نہیں چلتی چنانچہ مجھے ونڈوز ایکس پی ہی انسٹال کرنا پڑتی ہے ۔ میں نے اسے انسٹال کیا ہے تو نامعلوم مجھ سے کچھ غلطی ہوئی ہے یا کچھ اور سبب ہے کہ میں ایکسپلورر کا بٹن دباتا ہوں تو بعض اوقات ایکسپلورر کھُلنے کا انتظار ہی کرتا رہ جاتا ہوں پھر کیا دیکھتا ہوں کہ درجن بھر ٹَیب (Tab) نمودار ہو جاتے ہیں لیکن ویب سائیٹس نہیں کھُلتیں یا یُوں کہیئے کہ کھُلنے میں بہت زیادہ وقت لیتی ہیں اور میں کچھ کام نہیں کر سکتا جب تک ان سب کو حذف (delete) نہ کر لوں ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو تین بن بُلائے مہمان ویب سائٹس کھُل جاتی ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل زیادہ بار کھُلتی ہے ۔ میں موزِلّافائرفوکس استعمال کرتا ہوں
http://free.gamingwonderland.com

یہ عمل میرے اعصاب پر بھاری ہے ۔ اسلئے سب سے درخوست ہے کہ اس مرض سے نجات حاصل کرنے کیلئے میری مدد فرمائیں ۔ ممنونِ احسان ہوں گا

قرض اور میں

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم تو واضح ہے ۔ سورت البقرۃ ۔ آیت 283 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے اور خدا سے جو اس کو پروردگار ہے ڈرے
سورت النسآء آیت 58 ۔ اللہ تعالٰی تمہیں تاکیدی حُکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرو ۔ یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالٰی کر رہا ہے ۔ بیشک اللہ تعالٰی سنتا ہے دیکھتا ہےFlag-1

نامعلوم میرے ہموطنوں میں قرض لے کر واپس نہ کرنا یا لمبی تاخیر کرنا کی عادت کیسے در آئی ؟
البتہ میرے ایسے ہموطن بھی ہیں جن کی امداد اس اُمید پر کی جائے کہ رقم شاید واپس نہ ملے اور وہ واپس کر دیتے ہیں

وسط رمضان میں کاشف صاحب کی مجبوری (پریشانی) پڑھ کر ماضی کی جو تلخ و شیریں یادیں میرے ذہن میں اُبھریں میں نے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیں لیکن رمضان مبارک کے بھرپور جدول اور عیدالفطر کے بعد قومی موضوعات کے باعث شائع نہ کر سکا ۔ سو آج پیشِ خدمت ہے

میں نے دیکھا تھا کہ والد صاحب نے جسے بھی اُدھار دیا ۔ وہ رقم واپس نہ ملی یا پھر عرصہ دراز پر محیط اقساط میں کچھ ملی باقی نہیں ۔ غریب مقروضوں کو رہنے دیتا ہوں کہ مجبوری ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ کا فرمان بھی ہے ۔ سورت البقرۃ ۔ آیت 280 ۔ اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو تو تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو
چنانچہ صرف دو مالدار آدمیوں کی بات کرتا ہوں

1 ۔ ایک شخص نے 1949ء میں میرے والد صاحب کے 30000 روپے دینا تھے ۔ 20000 روپے لمبے عرصہ پر محیط چھوٹی چھوٹی اقساط میں ادا کئے پھر موصوف دنیا سے کُوچ کر گئے ۔ میرے والد صاحب بھی جولائی 1991ء میں چل بسے ۔ والد صاحب کی وفات کے ایک سال بعد مقروض صاحب کا بیٹا 10000 روپے مجھے دینے آیا ۔ میں نے صرف اتنا کہا ”محترم آج اس رقم کی کیا قیمت رہ گئی ہے ؟ پھر بھی والد صاحب کی زندگی میں ادا کر دیتے تو بہتر ہوتا“۔
خیال کیجئے کہ 1949ء میں ایک روپے کے ملتے تھے
(1) اچھی گندم کا آٹا 6 کلوگرام ۔ ۔ ۔ یا
(2) خالص دودھ8 لیٹر ۔ ۔ ۔ یا
(3) دیسی گھی ایک کلو گرام ۔ ۔ ۔ یا
(4) بکرے کا صاف کیا ہوا گوشت سوا کلوگرام ۔ ۔ ۔ یا
(5) دیسی مرغی کے انڈے 24

2 ۔ دوسرے صاحب نے 1975ء میں والد صاحب کو 250000 روپے دینا تھے ۔ اُن کے پیچھے بھاگ بھاگ کے قسطوں میں 1991ء میں والد صاحب کے فوت ہونے تک آدھی رقم وصول کی اور بقیہ آدھی رقم نہیں ملی

والد صاحب کے تجربہ کی بناء پر میں نے جب بھی کسی کو رقم دی یہ سوچ کر دی کہ واپس نہیں ملے گی ۔ دو اصحاب جن سے رقم واپس ملنے کی توقع تھی اُن میں سے ایک نے واپس نہ کی اور دوسرے نے جو میرا بہترین دوست تھا 10 سال بعد واپس کی
جسے یہ سوچ کر رقم دی تھی کہ واپس ملنا مُشکل ہے اُس نے واپس کر دی ۔ یہ واقعہ تفصیل کا تقاضہ کرتا ہے

میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا (1959ء) ۔ ایک لڑکا میرے پاس آیا اور رازداری سے بات کی کہ فلاں لڑکے کی مالی حالت بہت خراب ہے اُس کے والد بیمار ہو گئے ہیں ۔ اُسے مدد کی اشد ضرورت ہے ۔ کچھ میں نے کیا ہے ۔ کچھ آپ کر دیں ۔ اگر اس نے واپس نہ کئے تو انجنیئرنگ کے بعد ملازمت ملنے پر میں واپس کر دوں گا”۔

جس لڑکے کی مدد کرنا تھی میں اُسے جانتا تھا کیونکہ 1955ء تک میرے والد صاحب نے اُس کے والد کو اپنی دکان کے ایک کونے میں بیٹھ کر پرچون صابن بیچنے کی اجازت دی ہوئی تھی جس کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے ۔ شریف سفید پوش لوگ تھے ۔ میں نے پوچھا کہ اُسے کب تک رقم چاہیئے تو کہا ”فائنل امتحان تک کا خرچہ اُسے چاہیئے ۔ ابھی تو میں دے دوں گا ۔ آپ کے پاس اسلئے آیا ہوں کہ تین چار ماہ میں بند و بست کر لیں“۔ اُن دنوں میری مالی حالت بھی اچھی نہ تھی ۔ میرے والد صاحب 3 سال سے بیمار چلے آ رہے تھے اور اُن کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا ۔ میں نے 4 ماہ تک کا وعدہ کر لیا اور بچت میں لگ گیا جو کہ انتہائی مُشکل کام تھا ۔ اللہ نے مہربانی کی اور میں نے 4 ماہ میں 1500 روپیہ اکٹھا کر کے دے دیا اور اس بات کو بالکل بھُلا دیا

انجنیئرنگ کے بعد ملازمت شروع کی اور ماہ و سال گذرتے گئے ۔ اوائل 1965ء میں مجھے ایک خط ملا جس میں 1500 روپے کا بنک ڈرافٹ تھا ۔ اور ایک خط تھا جس میں شکریہ کے ساتھ تاخیر ہو جانے کی معافی مانگی تھی ۔ تاخیر کی وجہ اُس کے والد صاحب پر چڑھا قرض پہلے اُتارنا تھی ۔ اللہ کے بندے نے اپنا پتہ نہیں لکھا تھا

خاص بات یہ ہے کہ اُسے میری راولپنڈی شہر میں جھنگی محلہ کی رہائش کا علم تھا اور 1958ء کے بعد میری اس سے ملاقات نہ ہوئی تھی ۔ ہم 1964ء میں سیٹیلائیٹ ٹاؤن منتقل ہو گئے تھے ۔ میں حیران تھا کہ اُسے میری نئی رہائشگاہ کا کیسے علم ہوا ؟ کچھ دن بعد مجھے اُس لڑکے کا خط ملا جو مجھ سے پیسے لے کر گیا تھا ۔ اس میں لکھا تھا کہ اُس نے میرا پتہ اُس سے پوچھا تھا اور اُس نے واپڈا میں اپنے کے ساتھ کام کرنے والے میرے ایک دوست سے میرا پتہ معلوم کر کے اُسے لکھا تھا

حیرت ہے ۔ ۔ ۔

میں 4 اگست کو ایک قومی نغمے کو انٹرنیٹ پر تلاش کر رہا تھا ۔ وہ نغمہ تو نہ ملا البتہ میری تصویر کے ساتھ اللہ کا مندرجہ ذیل فرمان جو میرے بلاگ کی زینت ہے نظر آیا
۔ سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ
مجھے تجسس ہوا کہ دیکھوں یہ کس نے نقل کیا ہے چنانچہ دیئے ہوئے حوالہ کو کھولا تو وہ پلس گوگل کام کا ایک صفحہ تھا ۔ میں نے آج تک پلس گوگل کام پر کچھ نہیں لکھا اور نہ ہی اس سے قبل کبھی کھول کر دیکھا تھا ۔ اس صفحہ پر مندرجہ عبارت لکھی تھی جسے 5051 لوگ پڑھ چکے تھے اور جس کا تعاقب کرنے والے 200 تھے

Iftikhar ajmal Bhopal commented on a post on Blogger.
Shared publicly – 13 Nov 2013
اللہ کا فرمان اٹل ہے ۔ سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔
(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)
سورت 13 الرعد آیت 11۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ
(اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے)

برائی کے خلاف جد و جہد انسان کا فرض ہے جس سے عصرِ حاضر کا انسان غافل ہو چکا ہے ۔کوئی خود غلط کام نہیں بھی کرتا لیکن وہ دوسرے کو غلط کام سے روکنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ گویا انسان مصلحتی بن چکا ہے جو کی اسلام کی نفی ہے ۔
محترم اگر جھاڑو دیا جائے تو غلیظ جگہوں سے کچھ گندگی کم ہو جاتی ہے لیکن صاف جگہوں پر اس میں سے کچھ گندگی پہنچ جاتی ہے ۔ اسلئے جھاڑو نہیں پھیرنا چاہیئے ۔ معاشرے کے ہر تکنیکی گروہ میں اچھے لوگ ہیں اور بُرے بھی ۔ چنانچہ وکلاء کو استثنٰی حاصل نہیں ہے ۔
دوسری بات کہ جج صاحبان کے جن اقارب کی بات آپ کر رہے ہیں وہ آپ ہی کے تکنیکی گروہ (وکلاء) سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کیا وکلاء کی بار کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ جج صاحبان کے ان اقارب وکلاء کو کسی نظم کا پابند کر سکیں ؟ اگر نہیں تو پہلے اپنی بار کے قواعد و ضوابط درست کروایئے پھر جہاد کا عَلَم بلند کیجئے ۔ جس کا اپنا گھر ہی درست نہ ہو وہ دوسروں کو کیا درست کرے گا ۔
پوری تحریر پڑھنے کے بعد یہ تاءثر اُبھر سکتا ہے کہ جیسے جج صاحبان کے اقارب آپ کا رزق کم کرنے کیلئے کوشاں ہیں جو باعثِ خلش ہے ۔ بلاشبہ پرہیز گار سب جج نہیں اور سب وکلاء بھی کچھ جج صاحبان سے پیچھے نہیں ۔ میں وکیل نہیں ہوں لیکن وکلاء کے بہت قریب رہا ہوں اور بات چند سال کی نہیں یہ قُرب چالیس سال سے زائد پر محیط ہے جس میں وکلاء کی تین جنریشنز سے واسطہ پڑا ۔ میرا تجربہ بتاتا ہے کہ اگر وکلاء بد اخلاقی چھوڑ دیں تو کوئی جج کم ہی کسی بد اخلاقی کی جراءت کرے گا
http://www.theajmals.com

مندرجہ بالا تحریر میرا تبصرہ ہے جو میں نے لاء سوسائٹی پاکستان کی ایک پوسٹ پر کیا تھا ۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں صرف ”حیرت“ ہے کہ یہ کس نے پلس گوگل پر نقل کیا

ہم نے کیا دیا ؟

ہجری جنتری کے مطابق آج سے 69 سال قبل آج کے دن پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور اُس روز جمعجہ تھا ۔ آج بھی رمضان المبارک کی 27 تاریخ ہے لیکن جمعہ ایک دن قبل تھا
کبھی ہم نے سوچا کہ پاکستان کو ہم نے کیا دیا ؟
کیا اُن شہداء کی روحیں جنہوں نے اس کے حصول کیلئے اپنے خون کا نذرانہ دیا پریشان نہیں ہو رہی ہوں گی ؟
کیا مسلمان دوشیزاؤں کی عزتیں لُٹنے کا علاج ہم نے اس طرح کرنا تھا ؟
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے چند سال بعد لکھی گئی نظم پر ذرا غور کیجئے

آؤ بچو، سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد

دیکھو یہ سندھ ہے یہاں ظالم داہر کا ٹولہ تھا
یہیں محمد بن قاسم ” اللہ اکبر“ بولا تھا
ٹوٹی ہوئی تلواروں میں کیا بجلی تھی کیا شعلہ تھا
گنتی کے کچھ غازی تھے لاکھوں کا لشکر ڈولا تھا
یہاں کے ذرے ذرے میں اب دولت ہے ایمان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد

یہ اپنا پنجاب سجا ہے بڑے بڑے دریاؤں سے
جگا دیا اقبال نے اس کو آزادی کے نعروں سے
اس کے جوانوں نے کھیلا ہے اپنے خون کے دھاروں سے
دشمن تھرا جاتے ہیں اب بھی ان کی للکاروں سے
دُور دُور تک دھاک جمی ہے یہاں کے شیر جوان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد

یہ علاقہ سرحد کا ہے سب کی نرالی شان یہاں
بندوقوں کی چھاؤں میں بچے ہوتے ہیں جوان یہاں
ٹھوکر میں زلزلے یہاں ہیں مٹھی میں طوفان یہاں
سر پہ کفن باندھے پھرتا ہے دیکھو ہر اک پٹھان یہاں
قوم کہے تو ابھی لگا دیں بازی یہ سب جان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد

ایک طرف خیبر دیکھو سرحد کی شان بڑھاتا ہے
شیرِ خدا کی قوت کا افسانہ یہ دہراتا ہے
ایک طرف کشمیر ہمیں جنت کی یاد دلاتا ہے
یہ راوی اور اٹک کا پانی امرت کو شرماتا ہے
پیارے شہیدوں کا صدقہ ہے دولت پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد