میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ پہلے 3 دن ساری فیکٹریوں کا تعارفی دورہ کرایا گیا ۔ پھر مطالعاتی اور تربیتی پروگرام کیلئے 6 ماہ مختلف ورکشاپس میں بھیجا گیا اور 2 ماہ کیلئے ڈیزائن اینڈ ڈرائینگ آفس میں ۔ جنوری 1964ء میں میرا سمال آرمز گروپ میں مستقل طور پر تقرر ہوا ۔ (یہ فیکٹری اللہ کے کرم سے 1967ء میں میرے ہاتھوں ویپنز فیکٹری میں تبدیل ہوئی)۔ اُن دنوں سمال آرمز گروپ کے سربراہ ایک ورکس منیجر اور میرے سمیت 2 اسسٹنٹ ورکس منیجر ۔ 8 فورمین اور باقی ماتحت عملہ تھا ۔ 4 بڑی اور ایک چھوٹی ورکشاپس تھیں ۔ ان میں سے ایک بڑی ورکشاپ خالی تھی یعنی وہاں کوئی مشین وغیرہ نہ تھی ۔ انفیلڈ رائفل نمبر 4 مارک 2 کی پروڈکشن بند ہو جانے کے بعد کوئی کام نہیں ہو رہا تھا سوائے چند فالتو پرزوں کی تیاری کے جو انفیلڈ رائفل کیلئے بنائے جا رہے تھے
رائفل جی تھری کی پلاننگ ہو چکی تھی ۔ ڈویلوپمنٹ شروع ہونے والی تھی ۔ ایک بڑی ورکشاپ میں درآمد شدہ پرزوں سے رائفل جی تھری کی اسمبلی ہونا تھی اور اسی ورکشاپ کے دوسرے حصہ میں جی تھری بیرل کی ڈویلوپمنٹ شروع کرنا تھی ۔ مجھے اس ورکشاب کا انچارج بنا دیا گیا ۔ میرے باس (ورکس منیجر) 6 ماہ پلاننگ کیلئے جرمنی گذار کے آئے تھے لیکن کام شروع ہونے سے معلوم ہوا کہ اسمبلی کیلئے چند فکسچر نہ آرڈر کئے گئے اور نہ پی او ایف میں بنوائے گئے تھے جو میرے گلے پڑ گئے اور مجھے ایسا کوئی مستری نہ دیا گیا جو نیک نیّتی سے کام کرے ۔ خیر ۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔ بھُگتنا پڑا ۔ یہ تو دیگ میں سے نمونے کے چند چاول ہیں ۔ اب آتے ہیں اصل موضوع ” مٹیرئل“ کی طرف
درآمد شدہ پرزوں سے اسمبلی کر نا 6 ماہ کا منصوبہ تھا لیکن دو ماہ بعد بیرل اور دوسرے پرزوں کی ڈویلوپمنٹ شروع کرنا تھی تاکہ جب درآمد شدہ پُرزے ختم ہو جائیں تو اپنے تیار کردہ پرزے رائفل بنانے کیلئے موجود ہوں
ابھی ایک ماہ گذرا تھا کہ میں نے اپنے باس سے کہا ”رائفل میں براہِ راست استعمال ہونے والے سب مٹیرئل تو آرڈر کئے جا رہے ہیں ۔ جو مٹیرئل استعمال ہوتے ہیں اور رائفل کا حصہ نہیں بنتے اُن کا کیا بند و بست ہے ؟“
اُنہوں نے ایک فورمین کا نام لے کر اُسے پوچھنے کا کہا ۔ میں اُس فور مین کے پاس گیا اور پوچھا
اُس نے جواب دیا ”سٹور سے”۔
میں کہا ”یہ سٹور میں کہاں سے آتے ہیں ؟ ان کی پلاننگ کون کرتا ہے ؟ آرڈر کون اور کب کرتا ہے ؟“
بولے ”نیوٹن بُوتھ نے منگوائے تھے جب فیکٹری بنی تھی“۔
نیوٹن بُوتھ کے بعد غلام فاروق آئے اُن کے بعد جنرل حاجی افتخار اور اب جنرل اُمراؤ خان تھے ۔ اس دوران کسی کے ذہن میں یہ بات کیوں نہ آئی ؟ یہ ایک بڑا سوال تھا
پچھلے ماہ کے کچھ تجربوں کے بعد منیجر صاحب سے مزید بات بیکار تھی ۔ کچھ دن بعد جنرل منیجر دورے پر آئے ۔ مجھ سے پوچھا ” کوئی مُشکل ؟“ اُن سے بھی وہی سوال پوچھ لیا جو منیجر صاحب سے پوچھا تھا ۔ خاموشی سے چلے گئے ۔ مجھے ڈویلوپمنٹ کے کام کے ساتھ رائفل جی تھری کے معاملات کیلئے ٹیکنکل چیف کے سیکریٹری کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی ۔ ایک دن مجھے میٹنگ میں بُلایا گیا ۔ میٹنگ ختم ہونے پر سب افسران چلے گئے ۔ مجھ سے ٹیکنیکل چیف نے حال احوال پوچھا تو میں نے اپنی پریشانی بتائی ۔ وہ ہنس کر کہنے لگے ”تم مین سٹور کے سربراہ کو مل کر مٹیرئل کی سپلائی کا موجودہ طریقہ کار معلوم کرو پھر محکمہ پرچیز میں جا کے اُن کا طریقہ کار دیکھو ۔ اس کے بعد اس سب کا م کے طریقہ کار کے متعلق ایک منصوبہ بنا کر براہِ راست مجھے دو ۔ معلومات حاصل کرنے میں کوئی دقعت ہو تو میرے پی اے سے مدد لینا“۔ پھر پی اے کو بُلا کر کہہ دیا ”سٹور اور پرچیز کے سربراہان کو بتا دیں کہ اجمل بھوپال اُن کے پاس آئیں گے“۔
پہلے ہی میں گھنٹہ دو گھنٹے روزانہ فالتو بیٹھتا تھا ۔ ایک اور ذمہ داری میرے سر پر آ پڑی تھی لیکن میں خوش تھا کہ مسئلہ حل ہونے کی راہ نکل آئی ۔ میں نے صبح 7 بجے سے رات 8 بجے تک روزانہ کام کر کے ایک ماہ کے اندر ایک مسؤدہ تیار کیا جس میں میٹیرئل کی پلاننگ ۔ مجاز افسر سے منظوری ۔ ٹینڈرنگ ۔ انتخاب کئے گئے مٹیریل کی ڈیمانڈ اور اُس کی منظورٰی ۔ آرڈرنگ ۔ وصولی ۔ سٹورنگ ۔ اور متعلقہ ورکشاپ کو اجراء سمیت تمام عوامل شامل کئے ۔ یہ مسؤدہ میں نے اگلی میٹنگ کے بعد ٹیکنکل چیف کے حوالے کر دیا
شاید دو ہفتے بعد سٹورز کے سربراہ کا ٹیلیفون آیا ۔ اُنہوں نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے اُن کا کام کر دیا اور آئیندہ میرے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ میں حیران تھا کہ میں نے کیا کر دیا ۔ میں نے کہا ” آپ کی بڑی نوازش اور مہربانی ہے ورنہ میں نے تو اپنی طرف سے آپ کی کوئی خدمت نہیں کی“۔ کچھ دن بعد سٹورز کے ایک افسر میرے پاس آئے اور مجھے ایک لمبی چوڑی نوٹیفیکشن دکھائی ۔ میں نے دیکھا کہ یہ من و عن وہ مسؤدہ ہے جو میں نے ٹیکنیکل چیف کو دیا تھا جسے پی او ایف بورڈ کی منظوری کے بعد نفاذ کیلئے جاری کر دیا گیا تھا ۔ میں نے اپنے اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھ ناچیز کو ملازمت کی ابتداء ہی میں ایسی کامیابی عطا فرمائی تھی ۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تو وہ افسر کچھ پریشان ہوئے لیکن جلد سنبھل کر بولے ”واقعی اللہ آپ کے ساتھ ہے ۔ اس کام کا پچھلے 10 سالوں میں تجربہ کار لوگوں کو یاد نہ آیا اور آپ نے ایک سال میں انجام دے دیا ۔ آپ نے بہت اچھا طریقہ کار وضع کیا ہے ۔ جب کسی وضاحت کی ضرورت ہوئی تو میری مدد کیجئے گا“
وقت گذرتا گیا ۔ مئی 1976ء میں مجھے لبیا بطور ایڈوائزر حکومتِ لبیا بھیج دیا گیا ۔ مارچ 1983ء میں واپس پی او ایف کی ملازمت بطور پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ شروع کی ۔ ستمبر 1985ء میں اُس وقت کے چیئرمین نے ناراض ہو کر وہاں سے ہٹا کر جنرل منیجر ری آرگنائزیشن لگا دیا جو ایم آئی ایس کا حصہ تھا مگر ناکارہ (کھُڈا لائین) اسامی سمجھی جاتی تھی ۔ جن صاحب سے میں نے ٹیک اَوور کیا وہ دن بھر بیٹھے اخبار اور کتابیں پڑھتے رہتے تھے ۔ میں نے کام کا پوچھا تو بولے ”کوئی کام نہیں ہے ۔ کرسی آرام کیلئے ہے ۔ موج میلہ کرو“۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی اور میں نے اپنے لئے کام پیدا کر لیا ۔ تمام سنیئر اسامیوں کے فرائض اور ذمہ داریوں کے مسؤدے تیار کرتا اور پی او ایف بورڈ کی منظوری کے بعد نوٹیفیکشنز کرواتا رہا ۔ یہ کام وقت کو پانی کی طرح غٹ غٹ پیتا تھا ۔ 2 سال میں ختم ہوا
پھر میں نے تجویز دی کہ اِنوَینٹری کو کمپیوٹرائز کیا جائے ۔ یہ تجویز آگے چل پڑی لیکن مجھے شامل کئے بغیر ۔ پہلے چیئرمین چلے گئے ۔ جب معاملہ نئے آنے والے چیئرمین کے پاس پہنچا تو انہوں نے ممبر پی او ایف بورڈ فار انڈسٹریل اینڈ کمرشل ریلیشنز ۔ متعلقہ محکموں یعنی سٹورز اور پرچیز کے سربراہان جو جنرل منیجر ہوتے ہیں اور تمام فیکٹریوں کی سربراہان جو ایم ڈی ہوتے ہیں کی مشترکہ میٹنگ بُلائی (اُن دنوں میں کسی محکمہ کا سربراہ نہیں تھا) ۔ میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ ٹیلیفون آیا ۔ میرے پی اے نے بتایا چیئرمین آفس سے ٹیلیفون ہے ۔ بات کی تو ٹیلیفون کرنے والے نے اپنا تعارف کرائے بغیر کہا ”بھوپال صاحب ۔ چیئرمین صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں“۔ میں جا کر حسبِ معمول سٹاف آفیسر ٹُو چیئرمین کے دفتر میں پہنچا تو وہ دفتر میں نہیں تھے ۔ میں چیئرمین کے پرائیویٹ سیکریٹری کے پاس گیا ۔ وہ بولا ”چیئرمین کانفرنس روم میں ہیں ۔ وہاں سے کسی نے ٹیلیفون کیا ہو گا“۔ میں کانفرنس روم میں داخل ہوا تو وہاں سب بڑے لوگ بیٹھے تھے ۔ میں نے سلام کیا تو چیئرمین صاحب نے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ جب میں بیٹھ گیا تو اُنہوں نے سٹورز کے جنرل منیجر کی طرف اشارہ کیا ۔ وہ بولے ”جناب ۔ یہ موجودہ طریقہ کار آج سے 23 سال قبل بھوپال صاحب نے ہی وضع کیا تھا جو کامیابی سے چل رہا ہے ۔ اسلئے اِنوؒنٹری منیجمنٹ کی کمپیوٹرائزیشن کیلئے ان سے بہتر کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ میری درخواست ہے کہ پروجیکٹ ان کے ذمہ کیا جائے“۔ سو فیصلہ ہو گیا اور میں قادرِ مطلق کی کرم فرمائی سے ناکارہ سے پھر کار آمد آدمی بن گیا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوا اور میرے ہاتھوں پاکستان کا سب سے بڑا اور پہلا کمپیوٹرائزڈ اِنوینٹری منیجمنٹ سسٹم بن کر انسٹال بھی ہوا ۔ اسی سلسلے میں پاکستان کے دفاعی اداروں کے کئی سینئر افسران میرے شاگرد بنے اور واپس جا کر اپنے اداروں میں اس سسٹم کو ڈویلوپ کروایا ۔ ایک بریگیڈیئر صاحب میرے پی او ایف چھوڑنے کے 10 سال بعد اتفاقیہ طور پر ایک دفتر میں ملے اور مجھے اُستاذ محترم کہہ کر مخاطب کیا حالانکہ وہ سروس میں مجھ سے کم از کم 5 سال سنیئر تھے ۔ مجھے یاد نہیں تھا مگر اُنہوں نے یاد رکھا تھا ۔ جن صاحب کے پاس ہم بیٹھے تھے اُنہیں مخاطب کر کے بولے ”یہ بھوپال صاحب میرے اُستاد ہیں ۔ اِنہوں نے مجھے کمپیوٹر پر اِنوَینٹری منیجمنٹ سکھائی تھی“۔
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ۔
اور کہیئے کہ اے اللہ (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے ۔ (سورۃ 3 ۔ آل عمران ۔ آیۃ 26) ۔