Category Archives: آپ بيتی

کمپیوٹر ماہرین کی مدد فوری درکار ہے

محترمات و محترمان جو بھی کمپیوٹر پر کام کرنے کی دسترس رکھتے ہیں سے التماس ہے کہ فوری طور پر میری رہنمائی فرمائیں ۔ یہ مسئلہ میرے اعصاب (nerves) پر سوار ہونے کی کوشش میں ہے چنانچہ استداء ہے کہ مدد میں تساہل سے کام نہ لیجئے اور جلد میری نیک دعاؤں اور شکریئے کے حقدار بنیئے
کسی طرح میرے کمپیوٹر میں علی بابا (http://offer.alibaba.com) کہیں چھپ کر بیٹھ گیا ہے

میں جب کوئی ویب سائٹ یا بلاگ کھولنے کیلئے کلِک کرتا ہوں ۔ یا پہلے علی بابا کھُلنا شروع ہو جاتا ہے یا ویب سائٹ کھُلنے کے دوران رَخنہ ڈالتا ہے یا جب انگریزی سے اُردو میں جانے کیلئے En پر کلِک کرتا ہوں تو رَخنہ ڈال دیتا ہے
جب علی بابا کھُل جائے تو کام چل پڑتا ہے گو رفتار کچھ کم ہو جاتی ہے ۔ نہ کھُلے یعنی رخنہ ڈال دے تو کمپیوٹر بیچ میں پھنس کے رہ جاتا ہے اور کبھی کبھی لکھا آتا ہے کہ یہ وِڈیو نہیں کھُل سکتی ۔ اَپ گریڈ کریں ۔ حالانکہ وہ وڈیو نہیں ہوتی
ٹاسک منیجر کھول کر دیکھتا ہوں تو لکھا ملتا ہے پھر سوائے سب کچھ بند کرنے کے اور کوئی چارہءِ کار نہیں رہ جاتا ۔ لیکن ویب سائٹ کھولنے پر دوبارہ وہی چکر چل سکتا ہے

دوسرا مسئلہ جو اسی کے ساتھ پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ویب سائٹ کی تحریر میں 2 یا 3 جگہ نیلی ہو جاتی ہیں یعنی لِنک بن جاتی ہیں ۔ ان پر کرسر (cursor) لے جاؤں تو ایک پوپ اَپ (pop up) کھُلتا ہے جس پر عام طور پر اَپ گریڈ (upgrade) جاوا فری لکھا ہوتا ہے اور کبھی کبھی کوئی شاپِنگ کا اشتہار لکھا ہوتا ہے

میں نے اوِیرا اَینٹی وائرس (Avira Antivirus) سے سکین (scan) کیا پھر اے وی جی 2015 (AVG 2015)اَینٹی وائرس (antivirus) سے سکین کیا ۔ بہت کچھ صاف ہو گیا مگر علی بابا سے جان نہیں چھوٹی

فلسطین سے ہجرت ۔ آخری حصہ

پہلی قسط یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

جب وسط نومبر 1947ء میں سیالکوٹ سے ایک قریبی عزیز کا تار میرے والدین کو موصول ہوا جس میں لکھا تھا ”بڑے پہنچ گئے ہیں بچے نہیں پہنچے“۔ تو میرے والد صاحب سخت پریشان ہوئے ۔ کوشش کے باوجود اپنی پریشانی میری والدہ سے چھپا نہ سکے ۔ والدہ کا بُرا حال ہو گیا ۔ میرے بڑے ماموں والد صاحب کے ساتھ ہی ہوتے تھے ۔ والد صاحب کو کچھ نہیں سُوجھ رہا تھا ۔ سب کچھ ماموں جان کے حوالے کیا اور چند دن بعد صبح سویرے صرف کھانے پینے کا سامان کار میں رکھا اور میری والدہ اور میرے 2 بھائیوں (7 سال اور 8 ماہ) کو اپنی کار میں ساتھ لے کر فلسطین سے بصرہ (عراق) کی طرف چل پڑے ۔ فلسطین کے اندر جب یہودیوں کا علاقہ قریب آتا تو ہَیٹ پہن لیتے ۔ جب وہاں سے نکلتے تو پھر سر پر رومال باندھ لیتے ۔ اللہ سے خیریت کی دعائیں مانگتے وہاں سے نکل کر تبوک کے قریب سعودی عرب میں داخل ہوئے تو جان کو خطرہ ٹلا

اُس زمانہ میں سعودی عرب کی سڑکیں تنگ تھیں جو کہیں ٹوٹی پھوٹی اور کہیں کچی تھیں ۔ 1200 سے 1300 کلو میٹر کے درمیان فاصلہ طے کرنا تھا ساتھ شیر خوار بچہ مگر کھانے پینے کا سامان بھی زیادہ نہ تھا کیونکہ جو کچھ خُشک خوراک گھر میں تھی وہی اُٹھائی تھی ۔ کار کی رفتار اُس زمانہ میں 60 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ نہ تھی ۔ رات کو راستہ میں قیام کرتے 4 دن اور 3 راتوں میں یمن پہنچے ۔ اُس زمانہ میں جدّہ کی بندرگاہ پر بحری جہاز لنگر انداز نہیں ہوتے تھے اور ساری نقل و حمل یمن کی بندرگاہ عدن سے ہوتی تھی ۔ معلوم ہوا کہ اگلا بحری جہاز ایک ہفتہ بعد کراچی کیلئے روانہ ہو گا ۔ ٹکٹیں لے کر ہوٹل میں قیام کیا ۔ ہفتہ بعد بندرگاہ پہنچ کر کار کو وہیں چھوڑا ۔ صرف اپنے کپڑے ساتھ لئے اور جہاز میں سوار ہوگئے

جہاز یمن سے بمبئی گیا اور وہاں چند دن قیام کے بعد کراچی روانہ ہوا ۔ کراچی میں ایک رشتہ دار عبدالکرم صاحب جو سینٹرل ہوٹل کے مالک تھے اُنہیں والد صاحب نے چلنے سے قبل اطلاع دے دی تھی سو وہ بندرگاہ پر استقبال کیلئے پہنچے ہوئے تھے ۔ عبدالکریم صاحب نے ملتے ہی میرے والدین سے کہا ”مبارک ہو ۔ اللہ کے فضل سے بچے بخیریت سیالکوٹ پہنچ گئے ہیں“۔ (آجکل عبدالکریم صاحب کا پوتا طارق سلیم مالک ہے)

اگلے روز ریلوے سٹیشن گئے تو معلوم ہوا کہ ٹرین 3 دن بعد روانہ ہو گی اور وزیر آباد تک جائے گی ۔ پیشگی بُکنگ نہ تھی ۔ ٹکٹ خرید کر چلے گئے ۔ 3 دن عبدالکریم صاحب کے ہاں ہی قیام کیا پھر روانہ ہو کر شاید 3 دن میں وزیرآباد پہنچے ۔ بھاپ سے چلنے والا انجن تھا اور بھاپ بائلر کے نیچے کوئلے جلا کر حاصل کی جاتی تھی ۔ ٹرین راستہ میں ہر چھوٹے بڑے سٹیشن پر رُکتی رہی ۔ وزیر آباد پہنچ کر معلوم ہوا کہ کوئی بس سیالکوٹ نہیں جاتی ۔ ایک ٹانگہ لیا اور جنوری 1948ء کے پہلے ہفتے میں سیالکوٹ پہنچے

فلسطین میں والد صاحب کی رہائش طُولکرم میں تھی اور کاروبار حیفہ میں ۔ طُولکرم مسلمانوں کا علاقہ تھا اور حیفہ میں یہودیوں کی اکثریت تھی ۔ والدین کے آ جانے کے کچھ ماہ بعد صیہونی دہشتگردوں نے جن کے سربراہ میناخم بیگِن اور موشے دایان تھے والد صاحب کے کاروبار پر قبضہ کر لیا اور میرے ماموں جان بچا کر مصر چلے گئے ۔ گویا ہم دوہرے مہاجر ہوئے ۔ فلسطین سے کاروبار کے لحاظ سے اور ریاست جموں کشمیر سے وطنیت اور جائیداد کے لحاظ سے

پیار کا ایک اور رُخ

میں اپنی چھوٹی پوتی ھناء کے پیار کا طریقہ لکھ چکا ہوں
میرا پوتا ابراھیم ہمارے ساتھ پیار کا زبان سے بہت کم اظہار کرتا ہے ۔ وہ ابھی ایک سال کا تھا کہ ہم ایک ماہ کیلئے دبئی گئے تو اُس نے ہمیں پہلی بار دیکھا اور چند1932351_10152391747461156_6284905569951163734_nFB دنوں میں بہت مانوس ہو گیا ۔ ابراھیم کی دادی صوفہ پر بیٹھ کر نماز پڑھتیں تو ابراھیم ہاتھ پاؤں پر چلتا اُس کے پاس پہنچ جاتا اور دادی کی ٹانگ کے سہارے اُس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ۔ جب دادی رکوع یا سجدے کیلئے جھُکتیں تو وہ دادی کو گال پر چوم لیتا ۔ یہ ابراھیم کا معمول بن گیا

میں بڑے صوفہ پر بیٹھا ہوتا تو ابراھیم میرے قریب آ کر اشارے سے صوفے پر بیٹھنے کا کہتا ۔ میں اُسے اُٹھا کر بٹھا دیتا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ کھِسکنا شروع کرتا اور میرے ساتھ جُڑ کر بیٹھ جاتا ۔ چند منٹ بعد وہ اپنا ایک پاؤں میری ٹانگ پر رکھ دیتا ۔ تھوڑا تھوڑا کھِسکتے کسی طرح زور لگا کر ابراھیم میری گود میں پہنچ جاتا اور سر پیچھے کو جھُکا کر اُوپر میرے چہرے کی طرف دیکھتا ۔ اس پر میں اُسے گلے لگاتا اور پیار کرتا تو ابراھیم بہت خوش ہوتا ۔ یہ بھی اس کا معمول بن گیا

اگلی بار ہم گئے تو ابراھیم ڈیڑھ سال کا تھا ۔ اب طریقہ بدل گیا ۔ ابراھیم میرا ہاتھ پکڑ لیتا اور مجھے کھینچتا ہوا اپنے کمرے میں لیجاتا ۔ وہاں مجھے گیند یا دوسرے کھلونے نکالنے کا کہتا ۔ جب میں نکال کر اُسے دیتا تو خود اُن سے کھیلنے کی بجائے مجھے اُن سے کھیلنے کا کہتا ۔ میں کھیلتا اور وہ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ۔ کبھی مجھے بلاکس یا لِیگو سے مکان بنانے کا کہتا ۔ میں بناتا ۔ جب مکان مکمل ہونے کو ہوتا تو تھوڑا توڑ دیتا اور اسے مکمل کرنے کا کہتا ۔ ایک دن ابراھیم نے 3 بار مکان توڑا تو میں اُٹھ کر صوفہ پر بیٹھ گیا ۔ ابراھیم مجھے کنکھیوں سے دیکھتا رہا اور تھوڑی دیر بعد صوفہ پر چڑھ کر میرے قریب بیٹھ گیا۔ پھر اُس نے وہی کیا جو ایک سال کی عمر میں کرتا تھا۔ اس اضافے کے ساتھ کہ مجھے لپٹ کر چوم لیا ۔ میں نے ہنس کر ابراھیم کو پیار کیا تو کھِل اُٹھا ۔ بعد میں مجھے کہنے لگا اب بنائیں میں نہیں توڑوں گا

جون 2012ء میں ہم 2 ماہ کیلئے دبئی گئے ۔ اس دوران وہ لیگو یا جِگ سا پزل نکالتا اور خود جوڑنے لگ جاتا جہاں سمجھ نہ آتی یا اُس سے نہ بن رہا ہوتا تو میری طرف دیکھنے لگ جاتا لیکن بولتا کچھ نہیں تھا ۔ مطلب یہ ہوتا کہ میں مدد کروں ۔ کبھی کہتا میرے سات آنکھ مچولی ( لُکن مِیٹی یا چھپن چھوت ۔ انگریزی میں ہائیڈ انیڑ سِیک) کھیلو

اس سال ہم جنوری میں 3 ماہ کیلئے دبئی گئے ۔ ابراھیم ماشاء اللہ ساڑھے 4 سال کا تھا اور نرسری سکول جاتا تھا ۔ کبھی کاغذ پر لکھ کر I love Dada مجھے دے جاتا اور کبھی I love Dado لکھ کر اپنی دادی کو دیتا ۔ ایک دن کاغذ پر خلائی جہاز (Space Ship) بنا کر اُس میں ایک پائلٹ بنا دیا اور سامنے ایک عورت بنا کر اُسے کے ہاتھ میں بڑا سا گُلدستہ بنا دیا ۔ پھر آ کر بتانے لگا کہ خلائی جہاز میں دادا ہیں (انجنیئر جو ہوا) ۔ اور گلدستہ والی دادی ہیں ۔ جب واپسی میں چند دن رہ گئے تو 2 بڑے کاغذ لے کر ان پر اچھی کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ بنائے جس طرح کا اُسے سکول سے ملا تھا اور نیچے لکھا دستخط ۔ ابراھیم ۔ ایک دادا کیلئے تھا اور ایک دادی کیلئے (Certificate of Good Performance for Dada, Signed by: Ebrahim )
کبھی کہتا آئی پیڈ پر میرے ساتھ ساتھ ٹینس وغیرہ کھیلو

گذشتہ عیدالاضحےٰ پر ہمارے پاس اسلام آباد آئے ہوئے تھے ۔ دن میں کم از کم ایک بار ابراھیم میرے قریب آ جاتا لیکن بولتا کچھ نہیں ۔ میں پکڑ کر گودی میں بٹھاتا تو مجھ سے لپٹ جاتا ۔ واپس جانے سے ایک دن قبل ابراھیم نے اپنی دادی سے ایک کاغذ مانگا ۔ تو اُنہوں نے دے دیا ۔ اُس پر کچھ لکھنے لگا تو دادی کہیں اور مصروف ہو گئیں ۔ اُن کے جانے کے بعد وہ کاغذ میز پڑا پایا تو اُٹھا کر دیکھا ۔ اس پر لکھا تھا ” I love you”

فلسطین سے ہجرت

والد صاحب مارچ 1930ء میں مصر گئے تھے ۔ چند سال بعد دادا جان جو اُن دنوں حیدرآباد دکن میں تھے نے تقاضا کیا کہ ”مجھ سے اب کاروبار نہیں سنبھالا جاتا اسلئے واپس آ جاؤ“ ۔ سو والد صاحب مصر میں کام سمیٹ کر واپس آ گئے اور جنوبی ہندوستان میں دادا جان کا کاروبار سنبھال لیا جس میں فوج کو ضروریاتِ زندگی کی سپلائی کا کام بھی شامل تھا ۔ برطانیہ سے نیا کرنل کوارٹر ماسٹر تعینات ہوا ۔ اُس نے دادا جان کو ”بلڈی انڈین“ کہہ کر مخاطب کیا تو دادا جان نے اُسے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا ۔ وہ وائسرائے ہند کا رشتہ دار تھا ۔ اُسی دن دہلی روانہ ہوا اور دادا جان کی کمپنی کو بلیک لسٹ کروا دیا ۔ اُنہی دنوں والد صاحب کو فلسطین میں کاروبار مل گیا اور وہ سب کو اپنے گھر جموں میں چھوڑ کر فلسطین چلے گئے ۔ وہ کبھی والدہ صاحبہ کو ساتھ لیجاتے کبھی ہندوستان چھوڑ جاتے تھے ۔ 1946ء میں آئے اور والدہ صاحبہ اور میرے چھوٹے بھائی کو ساتھ فلسطین لے گئے ۔ فلسطین میں 1947ء میں اللہ نے مجھے ایک اور بھائی عطا کیا

فلسطین میں یورپ سے آئے یہودیوں (صیہونیوں) نے فلسطین کے باسی مسلمانوں پر حملے اور اُن کی املاک پر قبضہ شروع کر دیا ۔ مسلمانوں کا یہودیوں کے محلے جانا یا اس کے قریب سے گذرنا موت کو آواز دینا بن چکا تھا

اگست 1947ء تک ہمارے علاقے یعنی ریاست جموں کشمیر میں کوئی گڑبڑ نہ تھی اور سب کو کامل یقین تھا کہ جموں کشمیر پوری ریاست پاکستان کا حصہ بنے گی ۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی یہ ریاست پاکستان کا حصہ ہی بنتی تھی ۔ اگست 1947ء کے آخر میں معلوم ہوا کہ مسلم اکثریتی ضلع گورداس پور کو تقسیم کر کے بھارت کو کٹھوعہ کے راستے جموں کشمیر کا راستہ دے دیا گیا ہے ۔ ستمبر 1947ء میں بھارت سے آئی ہوئی ہندو مہاسبھا ۔ راشٹریہ سیوک سنگ اور اکالی دَل کے مسلحہ دستوں نے بھارتی فوج کی پُشت پناہی سے صوبہ جموں کے دیہات میں مسمانوں کی مار دھاڑ اور املاک کو آگ لگانا شروع کر دی ۔ ہوتے ہوتے بات شہر جموں تک پہنچی ۔یہ خبریں جب فلسطین پہنچیں تو میرے والدین پریشان ہوئے اور واپسی کا سوچنے لگے ۔ جموں سے اپنی ہجرت کا حال تو میں لکھ چکا ہوں ۔ دیکھئے پیراگراف 26 تا 31 ۔

اکتوبر شروع ہو چکا تھا ۔ والد صاحب کچھ فیصلہ نہ کر پا رہے تھے کہ بمبئی کے راستے جموں جائیں یا پاکستان ۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان کوئی ہوائی جہاز نہیں جا رہا اور بمبئی جائیں تو بھارت سے کسی مسلمان کو ریاست جموں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ۔ پریشانی میں اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وسط نومبر 1947ء میں سیالکوٹ سے ایک قریبی عزیز کا تار اُنہیں موصول ہوا جس میں لکھا تھا ”بڑے پہنچ گئے ہیں بچے نہیں پہنچے“۔

یومِ شہداء

آج کے دن سیکولرزم کا پرچار کرنے والوں نے دنیا کی تاریخ کی بدترین خونی تاریخ رقم کی ۔ ریاست جموں کشمیر کے ضلع جموں کے صرف ایک ضلع جموں توی میں ایک لاکھ کے لگ بھگ مسلمان مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے صرف چند گھنٹوں میں تہہ تیغ کر دئیے اور نعرہ لگایا کہ ہم نے ان کا پاکستان بنا دیا ہے

ستمبر 1947 ء کے آخری ہفتہ میں مجھے (10 سال) اور میری دو بہنوں (12 سال اور 15 سال) کو ہمارے ہمسایہ کے خاندان والے اپنے ساتھ جموں چھاؤنی ستواری لے گئے تھے ۔ ہمارے ساتھ اس کوٹھی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا تھا ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئے 6 نومبر 1947ء کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ جونہی کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا ۔ سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا ۔

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔ نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947ء کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947ء کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا

تین دن بعد يعنی 9 نومبر کو ایک ادھیڑ عمر اور ایک جوان خاتون اور ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی آئے ۔ جوان خاتون کی گردن میں پچھلی طرف ایک انچ لمبا اور کافی گہرا زخم تھا جس میں پیپ پڑ چکی تھی ۔ یہ لوگ جموں میں ہمارے محلہ دار تھے ۔ لڑکی میرے ہم جماعت لڑکے ممتاز کی بڑی بہن تھی جوان خاتون اُس کی بھابھی اور بڑی خاتون اُس کی والدہ تھیں ۔ اُن کا پورا خاندان 6 نومبر والے قافلہ میں تھا ۔ انہوں نے دیکھا کہ جوان لڑکیوں کو اُٹھا کر لے جا رہے ہیں ۔ وہ بس سے نکل بھاگے ۔ ممتاز کی بھابھی اور دونوں بہنوں نے اغواء سے بچنے کے لئے نہر میں چھلانگیں لگائیں ۔ چھلانگ لگاتے ہوئے ایک کافر نے نیزے سے وار کیا جو بھابھی کی گردن میں لگا ۔ خون کا فوارہ پھوٹا اور وہ گر کر بیہوش ہوگئی ۔ پھر گولیاں چلنی شروع ہو گئیں ۔ ممتاز کی والدہ گولیوں سے بچنے کے لئے زمین پر لیٹ گئیں اس کے اُوپر چار پانچ لاشیں گریں اُس کی ہڈیاں چٹخ رہی تھیں مگر وہ اُسی طرح پڑی رہی ۔ اُس نے دیکھا کہ ایک بلوائی نے ایک شیرخوار بچے کو ماں سے چھین کر ہوا میں اُچھالا اور نیزے سے ہلاک کر دیا ۔

شور شرابا ختم ہونے پر اُس خاتون کو خیال ہوا کہ بلوائی چلے گئے ۔ بڑی مشکل سے اُس نے اپنے آپ کو لاشوں کے نیچے سے نکالا اور اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگی ۔ لاشوں پر اور اپنی بے چارگی پر آنسو بہاتی رہی ۔ اچانک بہو اور بیٹیوں کا خیال آیا اور دیوانہ وار نہر کی طرف بھاگی ۔ بہو نہر کے کنارے پڑی ملی اس کے منہ میں پانی ڈالا تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ تھوڑی دیر بعد بڑی بیٹی آ کر چیختی چلّاتی ماں اور بھابھی کے ساتھ لپٹ گئی ۔ اُس نے بتایا کہ چھوٹی بہن ڈوب گئی ۔ وہ نہر کی تہہ میں تیرتی ہوئی دور نکل گئی تھی اور واپس سب کو ڈھونڈنے آئی تھی ۔

ماں بیٹی نے زخمی خاتون کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اس کے بازو اپنی گردنوں کے گرد رکھ کر چل پڑے ۔ ایک نامعلوم منزل کی طرف ۔ رات ہو گئی تو جنگلی جانوروں سے بے نیاز وہیں پڑ رہیں ۔ صبح ہوئی تو پھر چل پڑیں ۔ چند گھنٹے بعد دور ایک کچا مکان نظر آیا ۔ بہو اور بیٹی کو جھاڑیوں میں چھپا کر بڑی خاتون مکان تک گئی ۔ کھانے کو کچھ نہ لائی ۔ جیب خالی تھی اور مانگنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ جموں چھاؤنی کا راستہ پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی تک سارا سفر غلط سمت میں طے کیا تھا ۔ چاروناچار اُلٹے پاؤں سفر شروع کیا ۔ بھوک پیاس نے ستایا تو جھاڑیوں کے سبز پتے توڑ کے کھا لئے اور ایک گڑھے میں بارش کا پانی جمع تھا جس میں کیڑے پڑ چکے تھے وہ پی لیا ۔ چلتے چلتے پاؤں سوج گئے ۔ مزید ایک دن کی مسافت کے بعد وہاں پہنچے جہاں سے وہ چلی تھیں ۔ حد نظر تک لاشیں بکھری پڑی تھیں اور ان سے بدبو پھیل رہی تھی ۔ نہر سے پانی پیا تو کچھ افاقہ ہوا اور آگے چل پڑے ۔ قریب ہی ایک ٹرانسفارمر کو اُٹھائے ہوئے چار کھمبے تھے ۔ ان سے ایک عورت کی برہنہ لاش کو اس طرح باندھا گیا تھا کہ ایک بازو ایک کھمبے سے دوسرا بازو دوسرے کھمبے سے ایک ٹانگ تیسرے کھمبے سے اور دوسری ٹانگ چوتھے کھمبے سے ۔ اس کی گردن سے ایک کاغذ لٹکایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا یہ ہوائی جہاز پاکستان جا رہا ہے ۔

چار ہفتوں میں جو 6 نومبر 1947 کی شام کو ختم ہوئے بھارتی فوج ۔ راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہا سبھا اور اکالی دل کے مسلحہ لوگوں نے صوبہ جموں میں دو لاکھ کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا جن میں مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے سب شامل تھے ۔ سینکڑوں جوان لڑکیاں اغواء کر لی گئیں اور لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا ۔ تیس ہزار سے زائد مسلمان صرف نومبر کے پہلے چھ دنوں میں ہلاک کئے گئے

بچوں کی باتیں ۔ میری پوتی ھناء

ماشاء اللہ میری 2 پوتیاں (10 سال اور ڈھائی سال) اور ایک پوتا (5 سال) ہیں ۔ بڑی پوتی بڑے بیٹے زکریا کی بیٹی ہے اور اٹلانٹا ۔ جارجیا ۔ امریکہ میں ہے ۔ ہمیں 11 ستمبر 2001ء کے بعد سے ویزہ نہیں دیتے کہ آرڈننس فیکٹری میں ملازمت کی تھی کہیں وائٹ ہاؤس کو بھک سے نہ اُڑا دوں ۔ وہ لوگ 3 سال بعد آتے ہیں ۔ پوتا اور چھوٹی پوتی چھوٹے بیٹے فوزی کے بچے ہیں جو پونے 7 سال سے دبئی میں ہے ۔ تینوں بچے بہت پیار کرنے والے ہیں اور دادا ۔ دادی سے بہت لگاؤ رکھتے ہیں ۔ دراصل یہ والدین کی تربیت کا اثر ہوتا ہے

تینوں بچوں کے پیار کا طریقہ فرق فرق ہے ۔ چھوٹی پوتی ھناء سب سے زیادہ بے باک ہے ۔ 2 واقعات بیان کرتا ہوں

پہلا واقعہ ۔ جنوری تا اپریل 2014ء ہم دبئی میں تھے ۔ ھناء اپنی امی کے کام میں مُخل ہو رہی تھی ۔ میں سنگل صوفہ پر بیٹھتا تھا ۔ ھناء عام طور پر آ کر میری گود میں یا مجھے ایک طرف کر کے میرے ساتھ بیٹھ جاتی تھی ۔ اس دن میں نے اُس کا دھیان اپنی امی سے ہٹانے کی کوشش کیIMG-20131015-WA0004
میں ”ھناء ۔ آؤ دادا کے پاس بیٹھ جاؤ“
ھناء ”نہیں“
میں ”ھناء دادا سے پیار کرتی ہے“
ھناء ”نہیں“
میں ”دادا ھناء سے پیار کرتے ہیں“
ھناء ”نہیں“
میں ”ھناء دادا سے باتیں کرو“
ھناء ”نہیں“
میں ”دادا ھناء سے بات کرنا چاہتے ہیں“
ھناء ”نہیں نہیں نہیں“

جب نہیں کی کچھ زیادہ ہی گردان ہوگئی تو میں نے ایک کرتب سوچا اور کہا ”ابراھیم ۔ آپ دادا سے پیار کرتے ہو ۔ آؤ دادا کے پاس بیٹھ جاؤ“
ابراھیم کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے ھناء میری گود میں بیٹھ کر مجھ سے لپٹ گئی ۔ ایک ہاتھ سے بھائی کو پیچھے کرتی جائے اور کہتی جائے ”میرے دادا ۔ میرے دادا“

دوسرا واقعہ ۔ پچھلی عیدالاضحےٰ پر بچے اسلام آباد آئے ہوئے تھے ۔ کھانے کی 4 فٹ چوڑی 8 فٹ لمبی میز کے ایک سِرے پر ایک کرسی ہے جس پر میں بیٹھتا ہوں اور باقی سب کی بھی کرسیاں مقرر ہیں ۔ میز کی لمبائی کے ساتھ چار چار کرسیاں ہیں اور دوسرے سرے پر 3 کرسیاں ۔ ھناء ہمیشہ ہر ایک کو اُس کی کرسی پر بٹھاتی تھی ۔ ایک دن ھناء میری کرسی پر بیٹھ گئی

میں نے کہا ”ھناء ۔ یہ دادا کی کرسی ہے“
پھر بہو بیٹی نے کہا “ھناء ۔ دادا کو بیٹھنے دو“
ھناء میرے داہنے ہاتھ والی لمبائی کے ساتھ آخری کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ”دادا ۔ وہاں بیٹھ جائیں“
میں وہاں نے بیٹھ کر کہا ”ھناء دادا سے پیار کرتی ہے“
ھناء ”نہیں“
ھناء کی دادی نے کہا ”ھنا دادی سے پیار کرتی ہے“
ھناء ”نہیں ۔ میں دادا سے پیار کرتی ہوں“
میں نے کہا ”میں کھانا کیسے کھاؤں ؟“
ھناء نے اپنی امی سے کہا”دادا کو کھانا دیں“
بہو بیٹی نے کہا ”میں نہیں دیتی ۔ آپ خود جا کر دو“
ھناء مجھ سے مخاطب ہو کر قریب والی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے”یہاں آ جائیں“

کھانا کھانے کے بعد ھناء اپنی امی سے چاکلیٹ کا ڈبہ لے کر آئی سب سے اچھی چاکلیٹ نکال کر مجھے دی پھر دادی کو دی ۔ اپنے والدین اور پھوپھو کو ایک ایک چاکلیٹ دے کر پھر ہمیں ایک ایک چاکلیٹ اور دی ۔ اس کے بعد میری گود میں بیٹھ گئی ۔ کبھی میرے ساتھ بغل گیر ہو کبھی چومے اور دادا یہ دادا وہ باتیں کرتی جائے جیسے مجھے راضی کر رہی ہو

مٹیریل کہاں سے آتا ہے ؟

میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ پہلے 3 دن ساری فیکٹریوں کا تعارفی دورہ کرایا گیا ۔ پھر مطالعاتی اور تربیتی پروگرام کیلئے 6 ماہ مختلف ورکشاپس میں بھیجا گیا اور 2 ماہ کیلئے ڈیزائن اینڈ ڈرائینگ آفس میں ۔ جنوری 1964ء میں میرا سمال آرمز گروپ میں مستقل طور پر تقرر ہوا ۔ (یہ فیکٹری اللہ کے کرم سے 1967ء میں میرے ہاتھوں ویپنز فیکٹری میں تبدیل ہوئی)۔ اُن دنوں سمال آرمز گروپ کے سربراہ ایک ورکس منیجر اور میرے سمیت 2 اسسٹنٹ ورکس منیجر ۔ 8 فورمین اور باقی ماتحت عملہ تھا ۔ 4 بڑی اور ایک چھوٹی ورکشاپس تھیں ۔ ان میں سے ایک بڑی ورکشاپ خالی تھی یعنی وہاں کوئی مشین وغیرہ نہ تھی ۔ انفیلڈ رائفل نمبر 4 مارک 2 کی پروڈکشن بند ہو جانے کے بعد کوئی کام نہیں ہو رہا تھا سوائے چند فالتو پرزوں کی تیاری کے جو انفیلڈ رائفل کیلئے بنائے جا رہے تھے

رائفل جی تھری کی پلاننگ ہو چکی تھی ۔ ڈویلوپمنٹ شروع ہونے والی تھی ۔ ایک بڑی ورکشاپ میں درآمد شدہ پرزوں سے رائفل جی تھری کی اسمبلی ہونا تھی اور اسی ورکشاپ کے دوسرے حصہ میں جی تھری بیرل کی ڈویلوپمنٹ شروع کرنا تھی ۔ مجھے اس ورکشاب کا انچارج بنا دیا گیا ۔ میرے باس (ورکس منیجر) 6 ماہ پلاننگ کیلئے جرمنی گذار کے آئے تھے لیکن کام شروع ہونے سے معلوم ہوا کہ اسمبلی کیلئے چند فکسچر نہ آرڈر کئے گئے اور نہ پی او ایف میں بنوائے گئے تھے جو میرے گلے پڑ گئے اور مجھے ایسا کوئی مستری نہ دیا گیا جو نیک نیّتی سے کام کرے ۔ خیر ۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔ بھُگتنا پڑا ۔ یہ تو دیگ میں سے نمونے کے چند چاول ہیں ۔ اب آتے ہیں اصل موضوع ” مٹیرئل“ کی طرف

درآمد شدہ پرزوں سے اسمبلی کر نا 6 ماہ کا منصوبہ تھا لیکن دو ماہ بعد بیرل اور دوسرے پرزوں کی ڈویلوپمنٹ شروع کرنا تھی تاکہ جب درآمد شدہ پُرزے ختم ہو جائیں تو اپنے تیار کردہ پرزے رائفل بنانے کیلئے موجود ہوں
ابھی ایک ماہ گذرا تھا کہ میں نے اپنے باس سے کہا ”رائفل میں براہِ راست استعمال ہونے والے سب مٹیرئل تو آرڈر کئے جا رہے ہیں ۔ جو مٹیرئل استعمال ہوتے ہیں اور رائفل کا حصہ نہیں بنتے اُن کا کیا بند و بست ہے ؟“
اُنہوں نے ایک فورمین کا نام لے کر اُسے پوچھنے کا کہا ۔ میں اُس فور مین کے پاس گیا اور پوچھا
اُس نے جواب دیا ”سٹور سے”۔
میں کہا ”یہ سٹور میں کہاں سے آتے ہیں ؟ ان کی پلاننگ کون کرتا ہے ؟ آرڈر کون اور کب کرتا ہے ؟“
بولے ”نیوٹن بُوتھ نے منگوائے تھے جب فیکٹری بنی تھی“۔

نیوٹن بُوتھ کے بعد غلام فاروق آئے اُن کے بعد جنرل حاجی افتخار اور اب جنرل اُمراؤ خان تھے ۔ اس دوران کسی کے ذہن میں یہ بات کیوں نہ آئی ؟ یہ ایک بڑا سوال تھا
پچھلے ماہ کے کچھ تجربوں کے بعد منیجر صاحب سے مزید بات بیکار تھی ۔ کچھ دن بعد جنرل منیجر دورے پر آئے ۔ مجھ سے پوچھا ” کوئی مُشکل ؟“ اُن سے بھی وہی سوال پوچھ لیا جو منیجر صاحب سے پوچھا تھا ۔ خاموشی سے چلے گئے ۔ مجھے ڈویلوپمنٹ کے کام کے ساتھ رائفل جی تھری کے معاملات کیلئے ٹیکنکل چیف کے سیکریٹری کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی ۔ ایک دن مجھے میٹنگ میں بُلایا گیا ۔ میٹنگ ختم ہونے پر سب افسران چلے گئے ۔ مجھ سے ٹیکنیکل چیف نے حال احوال پوچھا تو میں نے اپنی پریشانی بتائی ۔ وہ ہنس کر کہنے لگے ”تم مین سٹور کے سربراہ کو مل کر مٹیرئل کی سپلائی کا موجودہ طریقہ کار معلوم کرو پھر محکمہ پرچیز میں جا کے اُن کا طریقہ کار دیکھو ۔ اس کے بعد اس سب کا م کے طریقہ کار کے متعلق ایک منصوبہ بنا کر براہِ راست مجھے دو ۔ معلومات حاصل کرنے میں کوئی دقعت ہو تو میرے پی اے سے مدد لینا“۔ پھر پی اے کو بُلا کر کہہ دیا ”سٹور اور پرچیز کے سربراہان کو بتا دیں کہ اجمل بھوپال اُن کے پاس آئیں گے“۔

پہلے ہی میں گھنٹہ دو گھنٹے روزانہ فالتو بیٹھتا تھا ۔ ایک اور ذمہ داری میرے سر پر آ پڑی تھی لیکن میں خوش تھا کہ مسئلہ حل ہونے کی راہ نکل آئی ۔ میں نے صبح 7 بجے سے رات 8 بجے تک روزانہ کام کر کے ایک ماہ کے اندر ایک مسؤدہ تیار کیا جس میں میٹیرئل کی پلاننگ ۔ مجاز افسر سے منظوری ۔ ٹینڈرنگ ۔ انتخاب کئے گئے مٹیریل کی ڈیمانڈ اور اُس کی منظورٰی ۔ آرڈرنگ ۔ وصولی ۔ سٹورنگ ۔ اور متعلقہ ورکشاپ کو اجراء سمیت تمام عوامل شامل کئے ۔ یہ مسؤدہ میں نے اگلی میٹنگ کے بعد ٹیکنکل چیف کے حوالے کر دیا

شاید دو ہفتے بعد سٹورز کے سربراہ کا ٹیلیفون آیا ۔ اُنہوں نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے اُن کا کام کر دیا اور آئیندہ میرے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ میں حیران تھا کہ میں نے کیا کر دیا ۔ میں نے کہا ” آپ کی بڑی نوازش اور مہربانی ہے ورنہ میں نے تو اپنی طرف سے آپ کی کوئی خدمت نہیں کی“۔ کچھ دن بعد سٹورز کے ایک افسر میرے پاس آئے اور مجھے ایک لمبی چوڑی نوٹیفیکشن دکھائی ۔ میں نے دیکھا کہ یہ من و عن وہ مسؤدہ ہے جو میں نے ٹیکنیکل چیف کو دیا تھا جسے پی او ایف بورڈ کی منظوری کے بعد نفاذ کیلئے جاری کر دیا گیا تھا ۔ میں نے اپنے اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھ ناچیز کو ملازمت کی ابتداء ہی میں ایسی کامیابی عطا فرمائی تھی ۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تو وہ افسر کچھ پریشان ہوئے لیکن جلد سنبھل کر بولے ”واقعی اللہ آپ کے ساتھ ہے ۔ اس کام کا پچھلے 10 سالوں میں تجربہ کار لوگوں کو یاد نہ آیا اور آپ نے ایک سال میں انجام دے دیا ۔ آپ نے بہت اچھا طریقہ کار وضع کیا ہے ۔ جب کسی وضاحت کی ضرورت ہوئی تو میری مدد کیجئے گا“

وقت گذرتا گیا ۔ مئی 1976ء میں مجھے لبیا بطور ایڈوائزر حکومتِ لبیا بھیج دیا گیا ۔ مارچ 1983ء میں واپس پی او ایف کی ملازمت بطور پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ شروع کی ۔ ستمبر 1985ء میں اُس وقت کے چیئرمین نے ناراض ہو کر وہاں سے ہٹا کر جنرل منیجر ری آرگنائزیشن لگا دیا جو ایم آئی ایس کا حصہ تھا مگر ناکارہ (کھُڈا لائین) اسامی سمجھی جاتی تھی ۔ جن صاحب سے میں نے ٹیک اَوور کیا وہ دن بھر بیٹھے اخبار اور کتابیں پڑھتے رہتے تھے ۔ میں نے کام کا پوچھا تو بولے ”کوئی کام نہیں ہے ۔ کرسی آرام کیلئے ہے ۔ موج میلہ کرو“۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی اور میں نے اپنے لئے کام پیدا کر لیا ۔ تمام سنیئر اسامیوں کے فرائض اور ذمہ داریوں کے مسؤدے تیار کرتا اور پی او ایف بورڈ کی منظوری کے بعد نوٹیفیکشنز کرواتا رہا ۔ یہ کام وقت کو پانی کی طرح غٹ غٹ پیتا تھا ۔ 2 سال میں ختم ہوا

پھر میں نے تجویز دی کہ اِنوَینٹری کو کمپیوٹرائز کیا جائے ۔ یہ تجویز آگے چل پڑی لیکن مجھے شامل کئے بغیر ۔ پہلے چیئرمین چلے گئے ۔ جب معاملہ نئے آنے والے چیئرمین کے پاس پہنچا تو انہوں نے ممبر پی او ایف بورڈ فار انڈسٹریل اینڈ کمرشل ریلیشنز ۔ متعلقہ محکموں یعنی سٹورز اور پرچیز کے سربراہان جو جنرل منیجر ہوتے ہیں اور تمام فیکٹریوں کی سربراہان جو ایم ڈی ہوتے ہیں کی مشترکہ میٹنگ بُلائی (اُن دنوں میں کسی محکمہ کا سربراہ نہیں تھا) ۔ میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ ٹیلیفون آیا ۔ میرے پی اے نے بتایا چیئرمین آفس سے ٹیلیفون ہے ۔ بات کی تو ٹیلیفون کرنے والے نے اپنا تعارف کرائے بغیر کہا ”بھوپال صاحب ۔ چیئرمین صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں“۔ میں جا کر حسبِ معمول سٹاف آفیسر ٹُو چیئرمین کے دفتر میں پہنچا تو وہ دفتر میں نہیں تھے ۔ میں چیئرمین کے پرائیویٹ سیکریٹری کے پاس گیا ۔ وہ بولا ”چیئرمین کانفرنس روم میں ہیں ۔ وہاں سے کسی نے ٹیلیفون کیا ہو گا“۔ میں کانفرنس روم میں داخل ہوا تو وہاں سب بڑے لوگ بیٹھے تھے ۔ میں نے سلام کیا تو چیئرمین صاحب نے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ جب میں بیٹھ گیا تو اُنہوں نے سٹورز کے جنرل منیجر کی طرف اشارہ کیا ۔ وہ بولے ”جناب ۔ یہ موجودہ طریقہ کار آج سے 23 سال قبل بھوپال صاحب نے ہی وضع کیا تھا جو کامیابی سے چل رہا ہے ۔ اسلئے اِنوؒنٹری منیجمنٹ کی کمپیوٹرائزیشن کیلئے ان سے بہتر کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ میری درخواست ہے کہ پروجیکٹ ان کے ذمہ کیا جائے“۔ سو فیصلہ ہو گیا اور میں قادرِ مطلق کی کرم فرمائی سے ناکارہ سے پھر کار آمد آدمی بن گیا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوا اور میرے ہاتھوں پاکستان کا سب سے بڑا اور پہلا کمپیوٹرائزڈ اِنوینٹری منیجمنٹ سسٹم بن کر انسٹال بھی ہوا ۔ اسی سلسلے میں پاکستان کے دفاعی اداروں کے کئی سینئر افسران میرے شاگرد بنے اور واپس جا کر اپنے اداروں میں اس سسٹم کو ڈویلوپ کروایا ۔ ایک بریگیڈیئر صاحب میرے پی او ایف چھوڑنے کے 10 سال بعد اتفاقیہ طور پر ایک دفتر میں ملے اور مجھے اُستاذ محترم کہہ کر مخاطب کیا حالانکہ وہ سروس میں مجھ سے کم از کم 5 سال سنیئر تھے ۔ مجھے یاد نہیں تھا مگر اُنہوں نے یاد رکھا تھا ۔ جن صاحب کے پاس ہم بیٹھے تھے اُنہیں مخاطب کر کے بولے ”یہ بھوپال صاحب میرے اُستاد ہیں ۔ اِنہوں نے مجھے کمپیوٹر پر اِنوَینٹری منیجمنٹ سکھائی تھی“۔

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ۔

اور کہیئے کہ اے اللہ (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے ۔ (سورۃ 3 ۔ آل عمران ۔ آیۃ 26) ۔