Category Archives: آپ بيتی

شالا مار یا شالیمار باغ ۔ لاہور

میری ڈائری میں 20 جنوری 1957ء کی تحریر

اصلی شاہی نام
پہلا تختہ ۔ فرح بخش
دوسرا تختہ ۔ فیض بخش

شاہ جہاں نے بصرفہ 6 لاکھ روپیہ تعمیر کروایا اور شاہ نہر پر مزید 2 لاکھ روپیہ خرچ آیا
تعمیر 3 ربیع الاول 1051ھ (1641ء) کو شروع ہوئی اور مکمل ایک سال 5 ماہ 4 دن میں ہوئی
رقبہ ۔ تقریباً 40 ایکڑ
درخت 24 جمادی لاول 1051ھ (1641ء) کو لگائے گئے
غور و پرداخت کیلئے 128 مالی کام کرتے تھے
نقصانات ۔ بہت سے سنگِ مرمر اور آرائش کی دوسری اشیاء سکھ اپنے دورِ حکومت (1767ء تا 1846ء) میں اُکھاڑ کر لے گئے

عرضِ بلاگر
نہر جو شالامار باغ کے عقب میں بہتی تھی اور اس کا پانی شالامار باغ میں بھی آتا تھا ناجانے کس دور میں خُشک ہوئی

غرض اور محبت

جنوری 1961ء میں جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا اپنی ڈائری میں لکھا تھا
خواہشات جسمانی فطرت ہیں جن سے مغلوب انسان کا مقصد حصولِ محبوب بن جاتا ہے ۔ محبوب کے حصول کی خاطر انسان پتھر کے پہاڑ کھودتا ہے دریاؤں کا سینہ چیرتا ہے تُند لہروں سے ٹکراتا ہے ۔ قیس و فرہاد نے ان خواہشات پر سب کچھ قربان کر دیا پھر بھی اس دنیا سے ناخوش ہی گئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عشق نے اپنا حق ادا کرتے ہوئے اُن کے اسماء کو حیاتِ جاودانی بخش دی

محبت لاغرض ہوتی ہے ۔ سچا عاشق سب کچھ سہہ سکتا ہے لیکن اپنے محبوب کی رسوائی برداشت نہیں کر سکتا ۔ قابلِ تعریف ہے وہ انسان جو جسمانی خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے محبوب کی خوشنودی کو مقصدِ حیات بنا لیتا ہے اور محبوب کے نام پر آنچ آنے کے ڈر سے محبت کا اظہار بھی نہیں کرتا

بچے اور والدین ۔ قصور کس کا ؟

میں نے ایک ہمجماعت اور دوست کے تحریک دلانے پر 1957ء میں عملی نفسیات (Practical Psychology) کا مطالعہ شروع کیا ۔ 1960ء میں ایک دوسرے ہمجماعت دوست نے مجھے بچوں کی نفسیات پر ماہرین کی لکھی ایک کتاب دی جو اُس کے کوئی عزیز امریکہ سے لے کر آئے تھے ۔ کتاب بہت کارآمد اور دلچسپ تھی ۔ اس میں عام رائے کہ ”بچے ناسمجھ ہوتے ہیں“ کے خلاف یہ لکھا تھا کہ بچہ 2 ماہ کا بھی ہو تو اُس کے سامنے ایسی حرکت یا بات نہ کریں جو بچہ بڑا ہو کر کرے تو آپ کو اچھی نہ لگے ۔ اب نمونے کے چند واقعات

میں عزیزوں کے گھر بیٹھا تھا کہ اُن کا پانچ چھ سال کا بیٹا روتا ہوا باہر سے آیا ۔ ماں نے پوچھا ” کیا ہوا ؟“ بولا ”فلاں نے مارا ہے“۔ ماں نے اُسے ڈانٹتے ہوئے کہا ” تیرے ہاتھ ٹوٹے ہوئے تھے ۔ اس نے ایک لگائی تھی تو تم نے اُسے دو کیوں نہ لگائیں ۔ آئیندہ روتے ہوئے گھر نہ آنا ۔ اپنا بدلا لے کر آنا“۔

ہمارے سمیت چند خاندان ایک گھر میں چائے پر مدعو تھے ۔ اُن کا 4 سالہ بیٹا یہ کہتے ہوئے بھاگتا ہوا آیا ”الف مجھے مارتا ہے ۔ الف مجھے مارتا ہے“۔ چند لمحے بعد الف بھی کمرے میں داخل ہوا جو اس وقت 5 ساڑھے 5 سال کا تھا ۔ خاتونِ خانہ (لڑکے کی ماں) نے الف کو ڈانٹا ”شرم نہیں آتی اپنے سے چھوٹے کو مارتے ہو”۔ پھر الف کے باپ سے شکائت کی ” آپ اسے اچھی تربیت دیں“۔ الف کے باپ نے الف کو ایک چپت لگائی اور ڈانتے ہوئے کہا ”کیوں مارا ہے اُسے ؟“ الف رونے لگا
ایک بزرگ مہمان خاتون نے الف کو چُپ کرایا اور پوچھا ”آپ اچھے بچے ہو ۔ مجھے بتاؤ کیا ہوا تھا“۔
الف نے بتایا ”ہم دونوں باہر کھڑے پرندے دیکھ رہے تھے کہ اِس نے ایک موٹی لکڑی اٹھا کر زور سے میرے سر پر ماری پھر لکڑی پھینک کر شور مچاتا ہوا اندر بھاگا“۔ُ

میں کسی سے ملنے گیا ۔ مجھے بیٹھک (ڈرائنگ روم) میں بٹھا کر کہا گیا کہ ابھی آتے ہیں ۔ ابھی صاحبِ خانہ بیٹھک میں پہنچے نہیں تھے کہ باہر کے دروازے کی گھنٹی بجی ۔ میں نے صاحب خانہ کو کہتے سُنا ”جاؤ باہر جو انکل آئے ہیں اُن سے کہو ۔ ابو گھر پر نہیں ہیں“۔

ایک شادی پر گئے ہوئے تھے ۔ کچھ حضرات ایک حلقے میں بیٹھے ایک تین چار سالہ بچے کو کچھ کہتے اور وہ بچہ گندھی گالیاں دینے لگ جاتا اور یہ صاحبان قہقہے لگاتے

ہم 8 پاکستانی خاندان نومبر 1976ء سے جنوری 1983ء تک لبیا میں ایک عمارت میں رہے ۔ ساتھیوں کے بچے بعد دوپہر ہمارے گھر آ کر ہمارے بچوں کے کمرے میں جا کر سب کھلونے نکال لاتے اور کھیلتے رہتے
میرا چھوٹا بیٹا فوزی جب 3 سال کا ہو گیا تو میری بہن نے اُسے پلاسٹک کی بنی ہوئی ایک کار لا کر دی جس میں بچہ بیٹھ کر پیڈل چلائے تو کار چلتی تھی ۔ میرے کزن نے ایک لکڑی کا جِگسا پزل لا کر دیا جس میں لکڑی کی ایک بڑی تختی پر تصویر بنی تھی جو جِگسا پزل کے ٹکڑوں پر بھی بنی تھی تاکہ چھوٹا بچہ تختی پر رکھ کر آسانی سے ٹکڑیاں جوڑ سکے
دوسرے دن فوزی کھیل رہا تھا تو ساتھیوں کے بچے بھی آ گئے ۔ کچھ دیر بعد فوزی کے رونے کی آواز آئی میں لاؤئج میں گیا تو باقی بچے دروازہ کھول کر نکل گئے ۔ میں فوزی کو کمرے میں لے آیا اور پچکار کر چُپ کرایا ۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی بجی ۔ میں نے جا کر دروازہ کھولا تو ایک ساتھی اپنے 9 سالہ بیٹے آصف کو ساتھ لئے کھڑے تھے ۔ شکائت کی کہ ”فوزی نے آصف کو مارا ہے“۔
حیرانی تو ہوئی کہ 3 سالہ کمزور سے بچے نے 9 سالہ اچھی صحت والے کو کیسے مارا ۔ خیر ۔ میں نے فوزی سے پوچھا ”آپ نے اسے کیوں مارا ؟“
فوزی بولا ”انہوں نے میری کار توڑ دی پھر آصف جِگسا مجھ سے چھینتا تھا ۔ میں گر گیا اور جِگسا اس کے منہ پر لگا“۔
میں نے آصف سے پوچھا ”فوزی ٹھیک کہہ رہا ہے ؟“ تو اُس نے ”ہاں“ کہا
میں نے کار کو دیکھا تو اُس کے اگلے پہیئوں کا ایکسل ٹوٹا ہوا تھا ۔ میں نے فوزی سے وجہ پوچھی
فوزی نے بتایا ”کہ میں کار پر بیٹھا تھا تو آصف ۔ عاصم اور اویس کار پر چڑھ گئے اور کار ٹوٹ گئی“۔
7 سالہ عاصم اور آصف بھائی تھے ۔ 8 سالہ اویس ایک اور ساتھی کا بیٹا تھا ۔ آصف اور اویس اُونچے قد کے ساتھ موٹے بھی تھے

کچھ دن بعد پھر بچے آئے ہوئے تھے تو شور سُن کر میں پہنچ گیا ۔ دیکھا کہ بچوں کے کمرے میں آصف اور عاصم فوزی کو گھیسٹ کر الماری کے سامنے سے ہٹا رہے تھے ۔ فوزی شور کر رہا تھا ”میں نے کھلونے نہیں دینے ۔ میں ان کے گھر گیا تو اپنے کھلونے دکھائے بھی نہیں ۔ مجھے نکال دیا کہ ہمارے ابو امی ناراض ہوتے ہیں ۔ اپنے گھر جاؤ“۔
میں نے اُن سے وجہ پوچھی تو عاصم بولا ”ہماری امی نے کھلونے الماری میں رکھ کر تالہ لگایا ہوا ہے کہ پاکستان لے کر جائیں گے ۔ بعد دوپہر ہمیں کہتے ہیں جاؤ جا کر باہر کھیلو ۔ ہم نے آرام کرنا ہے“۔
دوسرے دن میں نے دفتر کے راستہ میں اُن کے والد سے ذکر کیا تو مُسکرا کر بولے ”ہاں ۔ ہم بعد دوپہر آرام کرتے ہیں اور بچوں کو باہر نکال دیتے ہیں“۔

کچھ ماہ بعد فوزی کے رونے کی آواز سُن کر میں باہر نکلا تو فوزی نے اپنے دونوں ہاتھ چُلُو بنا کر ناک کے نیچے رکھے تھے جن میں ناک سے خون گِر رہا تھا ۔ میں اُسے اُٹھا کر غسلخانہ میں گیا ۔ اُس کے ہاتھ دھوئے اور سر پر پانی ڈالنا شروع کیا مگر خون بند نہیں ہو رہا تھا ۔ فرِج سے برف لا کر فوزی کے سر اور ماتھے پر رکھی ۔ خون بند ہوا تو پوچھا ”خون کیسے نکلا ؟“
فوزی بولا میں اویس کے گھر گیا ۔ وہاں فُٹبال پڑا تھا ۔ میں نے اُٹھایا ۔ اویس نے مجھ سے چھین کر میری ناک پر زور سے مارا“۔
میں نے پوچھا ”وہاں آنٹی ۔ انکل نہیں تھے ؟“
بولا ”انکل تھے ۔ مجھے کہا کہ نیچے ہاتھ رکھو اور دروازہ کھول کر کہا ۔ گھر جاؤ“۔
میں شام کو اُن کے گھر گیا تو اویس کے والد نکلے ۔ میں نے بات کی تو ہنستے ہوئے بولے ”اویس کا غصہ بڑا سخت ہے ۔ اُس نے فُٹبال اُسے مار دیا تھا تو میں نے گھر بھیج دیا“۔

میں بچپن سے سکے جمع کیا کرتا تھا ۔ پلاسٹک کی بنی 5 انچ قطر کی ایک گُلک بھر گئی تھی اور ایک آدھی تھی جو میں نے دسمبر 1978ء میں اپنے بڑے بیٹے زکریا کو دے دی جو اُس وقت 8 سال کا تھا ۔ مجھے کچھ اور غیرمُلکی سکے ملے تو میں نے زکریا کو دیئے ۔ کچھ دیر بعد زکریا پریشان میرے پاس آیا اور بولا ” ابو ۔ جو گُلک سِکوں سے بھری ہوئی تھی وہ الماری میں نہیں ہے“۔ میں نے جا کر سب جگہ ڈھونڈا مگر گُلک غائب تھی
بچوں کے کھلونے بھی غائب ہوتے رہتے تھے ۔ ایک دن ہم شاپِنگ مال گئے تو لیگو (lego) کئی قسم کے آئے ہوئے تھے ۔ ہم نے بچوں کو تین الگ الگ قسم کے لے دیئے ۔ کچھ دن بعد بچوں نے بتایا کہ ایک پورا لیگو غائب ہے اور باقی 2 آدھے آدھے غائب ہیں
گھر میں سوائے ہمارے اور ساتھیوں کے بچوں کے اور کوئی نہیں آتا تھا جو بچوں کے کمرے میں جائے

زکریا جب 2 سال کا تھا تو اپنے سائے سے ڈرنا شروع ہو گیا ۔ ایک عالمِ دین سے بات کی تو وہ قرآن شریف کی کچھ آیات پڑھ کر مہینہ بھر دم کرتے رہے جس سے زکریا کا ڈرنا کم ہوا لیکن گیا نہیں ۔ اُن صاحب نے مشورہ دیا کہ قرآن شریف کی 5 سورتیں باریک لکھی ہوئی تعویذ کیلئے ملتی ہیں ۔ وہ تعویز بنا کر زکریا کو پہنا دیں ۔ سو ایسا ہی کیا ۔ غسلخانہ میں جانے کے وقت اُسے اُتار دیتے تھے ۔ جب ہم لبیا میں تھے تو ایک دن زکریا نے بتایا کہ ”میں باتھ روم جا رہا تھا تو تعویز اُتار کر میز پر رکھا تھا ۔ پتہ نہیں کہاں چلا گیا“۔
ایک ڈیڑھ ماہ بعد میری بیگم آصف عاصم کے گھر گئی ہوئی تھیں کہ اُن کی والدہ نے میری بیگم کو وہ تعویز دیتے ہوئے کہا کہ ”بچے یہ شاید زکریا سے لے آئے تھے“۔

کیا ان سب واقعات میں قصور بچوں کا ہے یا والدین کا ؟

میں سڑک پر

جب میں اسلام آباد میں کار لے کر سڑک پر نکلتا ہوں تو جن عوامل سے عام طور پر دوچار ہوتا ہوں ان میں سے چند لکھنے لگا ہوں ۔ ان پر تنقید ہو سکتی ہے اور ان کا مذاق بھی اُڑایا جا سکتا ہے لیکن کچھ قارئین انہیں پڑھ کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں تو یہی میرا حاصل و مقصود ہے
یہ واقعات ٹرک ۔ بس ۔ ویگن یا ٹیکسی ڈرائیوروں سے متعلق نہیں ہیں بلکہ پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کے ہیں

1 ۔ میں سڑک کی بائیں قطار (lane) میں جا رہا ہوں ۔ بائیں طرف مُڑنے کا اشارہ دیا ہوا ہے ۔ میں موڑ کے قریب پہنچ کر داہنے آئینے میں پھر بائیں آئینےمیں دیکھتا ہوں دونوں اطراف کافی پیچھے تک سڑک خالی ہے ۔ جونہی میں مُڑنے لگتا ہوں ایک تیز رفتار گاڑی میری بائیں جانب سے قوس بناتی ہوئی سیدھی چلی جاتی ہے ۔ اگر اللہ کی مہربانی شاملِ حال نہ ہو جاتی تو شاید میں یہ لکھ نہ رہا ہوتا

2 ۔ چوراہے پر گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ میں داہنی طرف سے دوسری قطار میں ہوں کیونکہ مجھے سیدھا جانا ہے ۔ میرے آگے 5 گاڑیاں ہیں ۔ ٹریفک لائٹ سبز ہونے پر سب گاڑیاں چل پڑتی ہیں ۔ میں چوراہے کے قریب پہنچتا ہوں ۔ اچانک میرے بائیں جانب تیسری یعنی بائیں جانب مُڑنے والی قطار سے ایک گاڑی تیزی سے داہنی طرف مُڑ کر میری گاڑی کے سامنے والے بمپر کو مکمل توڑتی ہوئی داہنی طرف چلی جاتی ہے

3 ۔ میں نے بائیں جانب مُڑنا ہے اسلئے بائیں قطار میں ہوں ۔ رفتار کم ہے ۔ مُڑنے کا اشارہ دیا ہوا ہے ۔ میں مُڑنے کے قریب ہوں کہ ہارن کی آواز آنے لگی ۔ داہنے آئینے میں دیکھا تو دُور تک سڑک خالی نظر آئی ۔ گاڑی کے اندر والے آئینے میں دیکھا تو میرے پیچھے ایک گاڑی تھی ۔ سوچا شاید کوئی جان پہچان والا ہے اور مجھے ہارن سے مطلع کر رہا ہے ۔ پہچان نہ سکا ۔ پھر وہ کار تیزی سے میرے داہنی جانب والی قطار میں آئی اور میرے قریب سے گذرتے ہوئے محترمہ نے مجھے مُکا دکھایا اور کچھ بولتی ہوئی سیدھی چلی گئیں

4 ۔ سڑک پر بائیں جانب گاڑیاں پارک ہیں ۔ ان کے داہنی جانب 2 گاڑیاں متوازی کھڑی ہیں ۔ مجھے رُکنا پڑتا ہے ۔ پیچھے اور بہت سی گاڑیاں رُک جاتی ہیں اور اُن کے ہارن بجنے لگتے ہیں ۔ چند منٹ انتظار کے بعد میں گاڑی سے اُتر کر گیا اور جن صاحبان نے سڑک بند کر رکھی تھی سے گاڑیاں ایک طرف کرنے کی مؤدبانہ درخواست کی ۔ موصوف جوان انتہائی بیزاری اور بدتمیزی کے ساتھ گویا ہوئے ” اُدھر کہیں سے نکال لو گاڑی ۔ ڈسٹرب نہیں کرو“۔

5 ۔ چوراہے پر گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ میرے داہنی طرف داہنی جانب مڑنے والی قطار ہے ۔ بائیں جانب 2 قطاریں ہیں ۔ اشارہ کھُلنے پر گاڑیاں چلتی ہیں ۔ میں چوراہے کو عبور کر چکا ہوں ۔ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی میرے اور میرے بائیں جانب والی گاڑی کے درمیان گھُس کر زبردستی میری گاڑی کے آگے گھُسنے کی کوشش کرتی ہے ۔ میں یکدم بریک لگاتا ہوں مگر وہ میری گاڑی کی بائیں ہیڈ لائیٹ کے بائیں جانب کو پچکا دیتی ہے ۔ اُس گاڑی کو روک لیا جاتا ہے گاڑی والے صاحب باہر نکلے بغیر مجھے ڈانٹ پلاتے ہیں ” اِن کو کار چلانا نہیں آتی ۔ اِن کی ٹائیمنگ غلط ہے ۔ دیر سے بریک لگائی ہے“۔ اور گاڑی بھگا کر لے جاتے ہیں

6 ۔ پارکنگ ایریا میں ایک گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ دیکھ کر مُڑنے کا اشارہ دیا اور گاڑی پارک کرنے لگا ۔ ساتھ والی گاڑی باہر نکلنا شروع ہو گئی اور مجھے پیچھے ہٹنا پڑا ۔ جب جگہ بن گئی تو میں گاڑی پارک کرنے کو آگے بڑھا لیکن ایک گاڑی بڑی تیزی سے زبردستی گھُس کر وہاں کھڑی ہو گئی اور گاڑی والے صاحب جلدی سے نکل کر یہ جا وہ جا ۔ میں دیکھتا ہی رہ گیا

7 ۔ سروس روڈ پر سڑک کے دونوں جانب گاڑیاں پارک ہیں ۔ میں جانا چاہتا ہوں داہنے بائیں دیکھ کر کہ کوئی گاڑی نہیں آ رہی گاڑی رِیوَرس (reverse) کرتا ہوں ۔ آدھی گاڑی پیچھے آ چکی ہے کہ اچانک پیچھے سے موٹر سائیکل اور کاریں گذرنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ کافی انتظار کے بعد گاڑیاں تھمتی ہیں تو جلدی سے گاڑی پیچھے لیجاتا ہوں ۔ مڑنے لگتا ہوں تو دیکھتا ہوں میں دونوں طرف سے گاڑیوں میں گھِر گیا ہوں اور موٹر سائیکل آگے سے گذرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ چند لمحے بعد ہارن بجنے شروع ہو جاتے ہیں لیکن کوئی شخص اتنا نہیں کرتا کے اپنی گاڑی تھوڑی پیچھے ہٹائے تاکہ میں گاڑی نکال لوں اور راستہ کھُل جائے

8 ۔ میں پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے چلتا ہوں ۔ مارکیٹ میں داخل ہونے سے قبل بے خیالی میں داہنی طرف دیکھتا ہوں تو چونک جاتا ہوں ۔ ایک جوان میری گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی آڑی کھڑی کر کے چل دیئے ہیں ساتھ ایک جوان خاتون بھی ہیں ۔ اُن کے پاس جا کر مؤدبانہ درخواست کرتا ہوں کہ 2 گاڑیوں کے بعد بہت جگہ ہے اپنی گاڑی میری گاڑی کے پیچھے سے ہٹا کر اُدھر کھڑی کر دیجئے ۔ موصوف میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور خاتون سے گپ لگاتے چلے جا رہے ہیں ۔ میں 3 بار عرض کرتا ہوں مگر بے سود ۔ آخر میں اُس جوان کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ کر غُصیلی آواز میں کہتا ہوں ”گاڑی ہٹائیں وہاں سے“۔ تو صاحب واپس جا کر گاڑی ہٹاتے ہیں ۔ کیا میرے ہموطن صرف ڈنڈے کی بات سمجھتے ہیں ؟

بیوقوف کی پہچان

میں اُن دنوں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ رہائش راولپنڈی شہر میں تھی ۔ چند ہمجماعت آئے کہ یومِ آزادی منانے کیلئے راجہ بازار سجایا گیا ہے چلو دیکھتے ہیں ۔ میرے لئے یہ پہلا موقع تھا سو چل پڑا ۔ راجہ بازار پہنچے تو بہت لوگ تھے جن میں زیادہ تعداد جوانوں کی تھی ۔ عورتیں اور لڑکیاں بھی تھیں مگر کم تعداد میں ۔ ابھی تھوڑا ہی چلے تھے تو مجھے پریشانی شروع ہوئی کہ یہ جگہ سیر کرنے کی حالت میں نہیں ہے ۔ میں نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تو ساتھیوں نے کہا ” تھوڑا سا تو دیکھ لیں“۔ اور ہم ہجوم میں سے تیز تیز راستہ بنانے لگے ۔ ہم نے دیکھا کہ آگے کچھ لڑکیاں ہیں تو راستہ بدل کر نکلنے کی کوشش کی ۔ کچھ جوان جو سامنے سے آ رہے تھے وہ لڑکیوں کے قریب سے ہو کر گذرے ۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ اُنہوں نے کیا کیا لیکن لڑکیوں کی رفتار تیز ہو گئی جیسے کوئی پریشانی میں بچ کر نکلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس پر ہم سب واپس ہو لئے ۔ بھیڑ کی وجہ سے رفتار کافی سُست تھی تھوڑی دیر بعد ایک ساتھی نے کہا ”وہی بدمعاش پھر آ رہے ہیں“۔ میں اُن کی طرف غور سے دیکھنے لگا ۔ وہ 3 صحتمند لڑکے تھے ۔ اچانک وہ تیزی سے اپنے داہنی طرف کو گئے ۔ میں نے جو اُدھر نظر کی تو دیکھا کہ کچھ لڑکیاں آ رہی ہیں ۔ پلک جھپکنے سے بھی پہلے میں لپک کر اُن میں درمیان والے لڑکے کے سامنے پہنچا جو اُن کا لیڈر لگتا تھا اور پوری قوت سے اُسے دھکا دیا ۔ اس ناگہانی دھکے سے وہ سنبھل نہ پایا اور سڑک پر گرا ۔ وہ اُٹھ کر مجھ پر کودا مگر بڑے لوگوں نے اُسے اور اس کے ساتھیوں کو قابو کر لیا اور مجھے جانے کا کہا ۔ میں اگر بیچ میں نہ آتا تو وہ لڑکے سیدھے اُن لڑکیوں سے ٹکرا جاتے اور نامعلوم مزید کیا کرتے

واپسی پر میرے ساتھی کہنے لگے ” بیوقوف ذرا دیکھ کر تو ہاتھ ڈالتے ۔ تم سے دو گنا طاقتور تھا ۔ لوگ بیچ میں نہ پڑتے تو اُس نے تمہارا قیمہ بنا دینا تھا“۔ مگر مجھے اپنے کئے پر کوئی افسوس نہ تھا (ہوا جو بیوقوف)

میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ لاہور میں انجینئرنگ کی سٹیشنری الفا میاں قلعہ گوجر سنگھ اور ڈرائینگ اینڈ سروے سٹور انارکلی میں ملتی تھی ۔ الفا میاں مہنگا تھا اسلئے میں اور میرے جیسے لڑکے انارکلی سے سامان لیتے تھے ۔ ایک دن انارکلی سے ہو کر میں اور ایک ساتھی واپس آ رہے تھے کہ جی پی او کے سٹاپ سے بس پر چڑھیں گے ۔ وہاں انتطار کیا بس آئی اور بھری ہوئی تھی کھڑی نہ ہوئی ۔ کچھ اور ہمجماعت بھی پہنچ گئے تھے ۔ فیصلہ پیدل چلنے کا ہوا ۔ مال کے کنارے جا رہے تھے ۔ باقی ساتھی بار بار رُک جاتے تو مجھے اُن کی انتظار کرنا پڑتی ۔ میں نے اعتراض کیا تو ایک بولا ”یار 13 کلو میٹر پیدل جانا ہے ۔ آنکھیں سینکتے ہوئے جا رہے ہیں کہ سفر کٹ جائے ۔ مجھے بُرا لگا اور کہہ دیا ”کچھ کرنے کے قابل ہو تو لے جاؤ کسی کو ساتھ ۔ یوں ہیجڑوں کی طرح کیا دانت نکال رہے ہو“۔
ایک صاحب بولے “یار ۔ تم تو ہو بیوقوف ۔ باقی سب کو تو اپنے جیسا نہ سمجھو“۔

قصہ میری شادی کا

میں اپنی شادی کا چھوٹا سا حوالہ قبل ازیں دے چکا ہوں ۔ میری شادی کا قصہ بھی شاید میری طرح عجوبہءِ روزگار ہے

میں 2 بہنوں اور 3 بھائیوں سے بڑا ہوں اور 2 بہنیں مجھ سے ڈھائی اور ساڑھے پانچ سال بڑی ہیں ۔ مجھ سے ڈھائی سال بڑی بہن 1964ء میں اُن کی شادی تک میری خودساختہ محافظ ۔ مُنتظم عوامی تعلقات (public relations manager) اور مُخبر رہیں ۔ میرے متعلق یا اُن کے مطابق کوئی دلچسپ بات ہو تو مجھے علیحدگی میں بتاتیں ۔ بچپن میں میری یہ بہن مجھ سے جتنا زیادہ پیار کرتی تھیں میں اتنا ہی ان کو چڑاتا تھا ۔ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں آخری امتحان دے کر گھر راولپنڈی پہنچا تو موقع پاتے ہی بولیں ”آؤ تمہیں بڑی دلچسپ بات بتاؤں ۔ فلاں لڑکی جو گارڈن کالج میں تمہاری ہمجماعت تھی نا ۔ اُس کی امی ہماری امی کے پاس آئیں تھیں ۔ تمہارے رشتہ کیلئے“۔ میں نے ٹوکا تو بولیں ”میری بات تو سُنو ۔ پہلے وہ اپنی بیٹی کی تعریفیں کرتی رہیں اور بتایا کہ میڈیکل کالج کے آخری سال میں ہے پھر تمہاری تعریفیں شروع ہو گئیں پھر کہنے لگیں کہ ہماری خواہش ہے کہ اچھے لوگوں سے واسطہ پڑے ۔ یہ کس لئے کر رہی تھیں ؟ تمہارے رشتہ کیلئے نا ”۔
خیر ۔ اس کے بعد اگلے ڈھائی تین سالوں میں میری بہن نے مزید 4 مختلف لوگوں کی تشریف آوری کے متعلق بتایا ۔ ایک دن میں کہیں گیا ہوا تھا واپس گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ بہن مجھے اُچک کر ایک طرف لے گئیں اور کان میں کہا ”تمہارے سلسلے میں فلاں مُلک سے لوگ آئے ہوئے ہیں ساتھ لڑکی بھی ہے ۔ دیکھ لو پھر مجھے بتانا کیسی ہے“۔ میں نے چڑانے کیلئے کہا ”آپ جو میرے لئے لڑکی تلاش نہیں کرتیں تو لوگوں نے مجھے لڑکی سمجھ لیا ہے“۔ خیر یہ تو سب تھا بہن بھائی کا معاملہ

شادی کیلئے پسند کے بارے میں قبل ازیں لکھ چکا ہوں ۔ اب کچھ تفصیل ۔ میرے بھائی نے جو مجھ سے سوا 3 سال چھوٹا ہے شروع 1965ء میں شادی کیلئے بیقراری دکھائی تو میری والدہ محترمہ (اللہ جنت نصیب کرے) جو کب سے میری شادی کی فکر میں تھیں متحرک ہو گئیں اور اپنے سے چھوٹی بہن کی بیٹی کو بہو بنانے کیلئے اُن کے پاس سیالکوٹ گئیں لیکن خالہ صاحبہ نے اپنی بیٹی کا رشتہ کرنے سے انکار کر دیا

میں جولائی میں کراچی ایک کورس کے سلسلے میں گیا ہوا تھا اور چھوٹے ماموں کے پاس ٹھہرا تھا ۔ اچانک ایک دن بڑے ماموں شارجہ سے پہنچ گئے ۔ مجھ سے علیحدگی میں پوچھا ” تم کسی ڈاکٹر کو پسند کرتے ہو ؟“ میں نے انکار کیا تو پوچھا ”وہ ڈاکٹر کون ہے؟“ میں نے کہا ”میں نہیں جانتا آپ کس ڈاکٹر کی بات کر رہے ہیں“۔ پھر کہا ”تم ۔ ۔ ۔ ۔ سے شادی نہیں کرنا چاہتے ؟“ میں نے کہا ”امّی گئی تھیں مگر خالہ نے انکار کر دیا“۔ پھر بڑے ماموں نے چھوٹے ماموں کو بُلایا اور اُن پر چڑھائی کر دی ” تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو کہ ہماری دونوں بڑی بہنیں جو ماں کے برابر ہیں جُدا ہونے کو ہیں“۔ دو دن بعد میں نے واپس راولپنڈی جانا تھا ۔ بڑے ماموں نے کہا ”ہم دونوں بھی تمہارے ساتھ جائیں گے“ ۔

دونوں ماموں میرے ساتھ وزیرآباد تک گئے اور سیالکوٹ جانے کیلئے اُتر گئے ۔ بڑے ماموں کہہ گئے کہ ”آپا جی سے کہہ دینا ہم چھوٹی آپا کو لے کر راولپنڈی پہنچ رہے ہیں“۔ بڑے ماموں کو میں نے بچپن سے یہی دیکھا تھا کہ ہر وقت مذاق ۔ ہنسنا اور ہنسانا ۔ اس بار وہ بالکل سنجیدہ تھے اور بہت متفکر نظر آتے تھے ۔ باتیں بھی نہیں کر رہے تھے حالانکہ بڑے ماموں موجود ہوں تو گھر گُل و گُلزار نہ بنا ہو ماننے والی بات نہ تھی ۔ میں حیران تھا کہ بڑے ماموں اتنے سنجیدہ ہو سکتے ہیں

دونوں ماموں 2 دن بعد بڑی خالہ جو میری امی کے بعد بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں کو لے کر پہنچ گئے ۔ ہم سب بہن بھائیوں کو بھگا دیا گیا اور مباحثہ شروع ہوا ۔ گھنٹہ ڈیڑھ بعد بڑے ماموں کی زور دار آواز آئی ”اجمل“۔ میں بھاگتا ہوا پہنچا ۔ بڑے ماموں ہنس رہے تھے اور بولے ”جاؤ بھاگ کر مٹھائی لاؤ اور منہ میٹھا کراؤ“۔ میں نے ماموں کو ہنستے دیکھا تو بے تکلف ہو کر بولا ”کتنی ۔ ایک من یا ایک ٹرک ؟“

میرے ہموطن جو قومی اور اجتمائی بہتری کی نہ منصوبہ بندی کرتے ہیں نہ پیش بندی ۔ البتہ فتور پھیلانے کیلئے کچھ ہموطن سالوں پہلے پیش بندی کرنے کے بعد منصوبہ بندی کر کے عملی جامہ بھی پہنا دیتے ہیں ۔ لوگ جو اجنبی نہیں رشتہ دار ہی تھے نے پہلے تو میری خالہ سے تعلقات بڑھائے پھر ہمدرد اور خیرخواہ بنے اور ناجانے میرے والدین اور میرے متعلق کیا کیا من گھڑت باتیں اس طرح بتاتے رہے کہ خالہ کو یقین آ گیا ۔ وہ خالہ جو میری امی کی پکی سہیلی بھی تھیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں سے رشتہ کے سلسلہ میں امی کے رشتہ مانگنے جانے سے قبل کسی نے کسی قسم کا اشارہ بھی نہیں دیا تھا اور نہ ہی میری شادی کی کبھی بات کی تھی ۔ کوئی پوچھتا بھی تو میرے والدین ٹال دیتے تھے

شادی کے کئی سال بعد میری بیوی نے بتایا کہ منگنی کے بعد بھی یہ کوششیں جاری رہیں اور ایک موزوں قسم کا رشتہ بھی بتایا جو لڑکا مجھ سے زیادہ تعلیم یافتہ تھا ۔ کماتا بھی زیادہ تھا اور دولتمند خاندان سے تعلق تھا ۔ جب دباؤ بہت بڑھ گیا تو میری خالہ نے اپنی بیٹی سے بات کی جس نے کہا ”اب میں صرف اجمل سے شادی کروں گی“۔ شادی کے کئی سال بعد مجھے بیوی کے بڑے بھائی نے بتایا ”جس آدمی کی تم تعریف کر رہے ہو اس نے تمہاری منگنی کے بعد مجھے خط لکھا تھا کہ آرڈننس کلب میں شراب ملتی ہے اور اجمل بھی اس کا ممبر ہے“۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میری ہی تحریک پر 1966ء میں آرڈننس کلب میں شراب کی فروخت بند ہوئی تھی

نومبر 1967ء میں شادی ہو گئی لیکن ابلیس نے پیچھا نہ چھوڑا ۔ شادی کے چند ماہ بعد میں بیوی کو ایک ماہ کیلئے خالہ کے پاس چھوڑ آیا جیسا کہ ہمارے خاندانوں میں رواج تھا ۔ 2 ہفتے بعد بیوی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ واپس پہنچ گئی ۔ مجھے حیرانی کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی ۔ جب بھائی چلے گئے تو میں نے کہا ”آپ نے تو ایک ماہ رہنے کا کہا تھا ۔ خیریت تو ہے نا“۔ بولی ”اب پہلے والی بات نہیں ۔ میں اب آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی“۔ میں خاموش ہو گیا ۔ کچھ دن بعد خود ہی بتایا ”دوسرے ہفتے کے آخر میں کچھ قریبی رشتہ دار اکٹھے ہوئے اور میری مظلومیت اور آپ کی زیادتیوں پر باتیں ہوئیں ۔ میں کمرے میں سب سُن رہی تھی ۔ پھر ایک رشتہ دار نے فیصلہ دے دیا کہ طلاق لے لی جائے ۔ کچھ دیر بعد امی یہ کہہ کر کمرے میں آئیں کہ جس کا معاملہ ہے میں اُس سے تو پوچھ لُوں ۔ میری مرضی پوچھی ۔ میں نے کہا میں اپنے گھر میں بہت خوش ہوں ۔ میں واپس جانا چاہتی ہوں ۔ مجھے بھائیجان کل صبح واپس چھوڑ آئیں“۔

میری خالہ شروع سے ہی میرا بہت خیال رکھتی تھیں ۔ ناجانے منگنی سے قبل کیسے دھوکہ کھا گئیں لیکن اُس کے بعد اُنہوں نے بہت سمجھداری سے کام لیا اور میرا خیال بھی بہت رکھا

یہ تو کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے

میں بیوقوف بن گیا

جی ہاں ۔ میں واقعی بیوقوف بن گیا ۔ اور لکھ اِس لئے رہا ہوں کہ آپ ہوشیار ہو جائیں اور میری طرح بیوقوف نہ بنیں ۔ ویسے میں اِتنا بیوقوف نہیں جتنا آپ اب سمجھنے کی کوشش کرنے لگے ہیں ۔ بس ہاتھ ہو گیا میرے ساتھ

بیگم پیچھے لگیں تھیں کہ موسمِ سرما کیلئے ایک اور شلوار قمیض لے لو ۔ بنی بنائی میری پسند کی مل نہیں رہی تھی ۔ 24 دسمبر 2014ء کو میں کلثوم ہسپتال ۔ بلیو ایریا گیا ہوا تھا تو بیگم نے ٹیلیفون پر کہا ”سُنا ہے بلیو ایریا میں ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز بہت اچھی دکان ہے ۔ وہیں سے کپڑا خرید لاؤ“۔ اپنا خیال مرکز جی 9 المعروف کراچی کمپنی جانے کا تھا لیکن سرتابی کی جراءت نہ ہوئی ۔ چنانچہ ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز ۔ دکان نمبر 8۔9 چوہدری پلازہ بلیو ایئریا پہنچا اور کہا شلوار قمیض کیلئے اچھا اُونی کپڑا چاہیئے

پتھاریدار یا چھوٹی دکان ہو تو آدمی خریدنے سے قبل بڑے غور سے پرکھتا ہے ۔ اتنی بڑی دکان اور وہ بھی بلیو ایریا میں اور میں پینڈو ۔ اُس نے اُنہی سے سلوانے پر زور دیا ۔ وہ 1000 روپیہ سلائی لیتے ہیں اور محلے والا 600 روپیہ ۔ سوچا اتنا مہنگا کپڑا لیا ہے کہیں محلے والا درزی خراب نہ کر دے ۔ چنانچہ مان لیا اس شرط پر کہ سِلنے کے بعد گھر پہنچایا جائے گا ۔ یکم جنوری 2015ء کو پہنچانے کا وعدہ تھا لیکن نہ پہنچا ۔ 2 بار ٹیلیفون کرنے پر 2 جنوری جمعہ کے دن پہنچایا جب میں نماز پڑھنے گیا ہوا تھا۔ بیگم نے پیسے دے کر وصول کر لیا

میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ کپڑا اُونی نہیں بلکہ نائلون قسم کا ہے اور اتنا گرم بھی نہیں ۔ اب معلوم نہیں اُس نے مجھے اُونی دکھایا اور سِلنے کیلئے کوئی اور دے دیا یا میری نظر بڑی دکان دیکھ کر اتنی چکاچوند ہو گئی تھی یعنی میں ہپنوٹائز ہو گیا تھا اور نائلون بھی مجھے بڑھیا اُون دکھائی دی

میرے ساتھ جو ہونا تھا ہو گیا ۔ کہتے ہیں ہمسایہ ماں جایہ ۔ مجھے شاید محلے والے درزی کا حق مارنے کی سزا ملی ہے
میری قارئین سے درخواست ہے کہ ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز ہو یا کوئی اور بڑی سے بڑی دکان ۔ دکاندار کی پیاری گفتگو کو نظر انداز کرتے ہوئے اچھی طرح دیکھ بھال کر کے چیز خریدیئے