Category Archives: یادیں

یومِ اِسلامی جمہوریہ پاکستان

flag-1
ہمارے وطن پاکستان میں 23 مارچ کو یومِ اِسلامی جمہوریہ پاکستان منایا جاتا ہے
جنتری کے مطابق بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک مُتفِقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان” قراردادِ مقاصد“ تھا لیکن وہ minar-i-pakistanقرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت
ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان پاکستان بننے کے بعد بطور ”یادگار قراردادِ پاکستان“ تعمیر کیا گیا تھا ۔ کچھ لوگوں نے اِسے ”یادگارِ پاکستان“ کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 5 دہائیوں سے ہمارے ملک سے غائب ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ ہماری قوم کو سیدھی راہ پر گامزن کرے ۔ اِن میں مِلّی یکجہتی قائم کرے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم دے ۔ آمین

میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں

آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اِجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اِس کے ساتھ اِسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اِختلافات اِتنے شدید اور تلخ ہیں کہ اِن دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ اِنہیں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں“۔

قائد اعظم کے تصَوّرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ابُو القاسم فضل الحق (المعروف اے کے فضل الحق جن کے نام پر اسلام آباد بلیو ایریا میں جناح ایوَینِیو کے متوازی سڑک کا نام رکھا گیا ہے) جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی ” قراردادِ مقاصد“ پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے

” کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر مُنسلِک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اِسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں“۔

اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس (اب اُتر پردیش) سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال muslim-majority-map اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اِس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی

مندرجہ بالا اصُول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بنگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا

مسلم اکثریتی علاقے ۔ اس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے ۔ اِس نقشے میں ہلال کے ساتھ 10 ستارے دکھائے گئے ہیں یعنی پاکستان کی مملکت 10 مُسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل دکھائی گئی ہے جس میں (1) مغربی پاکستان (جسے پاکستان لکھا گیا ہے) ۔ (2) مشرقی پاکستان (جسے بنگالستان لکھا گیا ہے) ۔ (3) جنوبی پاکستان (جس میں ریاست حیدر آباد اور ملحقہ مُسلم علاقے شامل ہیں) ۔ (4) گجرات کاٹھیا واڑ اور منادور وغیرہ ۔ اور مزید 6 چھوٹے چھوٹے علاقے شامل ہیں
m-l-working-committee

مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی

۔

۔
welcome-addr-22-march-1940
شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں

چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں
seconding-reson-march-1940

۔

۔
quaid-liaquat-mamdot
قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ

بچپن کی لطافتیں

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لُطف مجھ پہ تھے پیشتر
وہ کرم کہ تھا میرے حال پر
مجھے سب یاد ہے ذرا ذرا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے جو سب میں روبرو
تو اشاروں ہی میں گفتگو
وہ بیان شوق کا بَرمَلا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے وہ شکایتیں
وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ رُوٹھنا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر برہم
تو وفا جتانے کو دَم بہ دَم
گلہ ملامتِ اقرباء
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی ایسی بات ہوئی اگر
کہ تمہارے جی کو بُری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھُولنا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی
کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا
جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کلام ۔ مومن خان مومن

آپریشن جبرالٹر اور دوسری جنگ بندی

اطلاع ۔ آج کی تحرير ميں جنگِ 1965ء اور کشمير ميں مداخلت کے متعلق مصدقہ حقائق يکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ميری 15 سال کی محنت اور مطالعہ کا نچوڑ ہے

خیال رہے کہ 1965ء تک کشمیر کے لوگ بآسانی جنگ بندی لائین عبور کر لیتے تھے ۔ میں 1957ء میں پلندری میں گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا تھا کہ دو جوان سرینگر میں دکھائی جارہی فلم کے متعلق بحث کر رہے تھے میرے اعتراض پر انہوں نے کہا کہ پچھلے اتوار کو فلم دیکھ کر آئے ہیں ۔ میں نے یقین نہ کیا تو دو ہفتے بعد وہ نئی فلم دیکھنے گئے اور واپس آ کر سرینگر کے سینما کے ٹکٹ میرے ہاتھ میں دے دیئے ۔ میں نے اچھی طرح پرکھا ٹکٹ اصلی تھے سرینگر کے سینما کے اور ایک دن پہلے کے شو کے تھے

آپریشن جبرالٹر 1965ء کے متعلق جموں کشمیر بالخصوص مقبوضہ علاقہ کے لوگوں کے خیالات مختصر طور پر قلمبند کرتا ہوں

آپریشن جبرالٹر اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر اور جنرل ایوب خان کی ہدائت پر کشمیر سیل نے تیار کیا تھا ۔ یہ سول سروس کے لوگ تھے ۔ خیال رہے کہ ہمارے ملک میں سول سروس کے آفیسران اور آرمی کے جنرل اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور کسی صاحبِ علم کا مشورہ لینا گوارہ نہیں کرتے ۔ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ ناقابل اعتماد پیسہ بٹور قسم کے چند لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے آفیسران کو دکھاتے اور یہ کہہ کر بھاری رقوم وصول کرتے کہ وہ پاکستان کی خدمت اور جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے جہاد کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔ اس کھیل میں مقبول بٹ پہلے پاکستان میں پکڑا گیا لیکن بھارتی ہوائی جہاز “گنگا” کے اغواء کے ڈرامہ کے بعد نامعلوم کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اسے مجاہد بنا کر رہا کروا لیا مگر بعد میں وہ لندن میں گرفتار ہو کر بھارت پہنچا اور اسے سزا ہوئی ۔ اس کے پیروکار اسے شہید کہتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں جے کے ایل ایف بنائی ۔ مقبول بٹ کے بعد اس کا صدر امان اللہ بنا ۔ مقبوضہ کشمیر والی جے کے ایل ایف کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

خیر متذکرہ بالا جعلی جاسوسوں نے کشمیر سیل کے آفیسران کو باور کرایا کہ جموں کشمیر کے لوگ بالکل تیار ہیں ۔ آزاد کشمیر سے مجاہدین کے جنگ بندی لائین عبور کرتے ہی جموں کشمیر کے تمام مسلمان جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کو بالکل کُچھ خبر نہ تھی ۔ جب پاکستان کی حکومت کی مدد سے نام نہاد مجاہدین پہنچے تو وہاں کے مسلمانوں نے سمجھا کہ نجانے پھر نومبر 1947ء کی طرح ان کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے چنانچہ انہیں پناہ نہ دی نہ ان کا ساتھ دیا ۔ مقبوضہ کشمیر کےلوگوں کو بات سمجھتے بہت دن لگے جس کی وجہ سے بہت نقصان ہوا

جب 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو آزاد جموں کشمیر کے میرپور سیکٹر میں جنگی حکمتِ عملی جنرل محمد یحیٰ خان نے تیار کی تھی جس کے مطابق پہلے کمان جنرل اختر ملک نے کرنا تھی اور پھر جنرل محمد یحیٰ خان نے کمان سنبھال لینا تھی ۔ جب جنرل محمد یحیٰ خان کمان سنبھالنے گیا تو جنرل اختر ملک کمان اُس کے حوالے کرنا نہیں چاہتا تھا
جنرل اختر ملک اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھمب جوڑیاں میں موجود چند آفیسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی توی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور توی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمان (جنرل اختر ملک) کی طرف سے اکھنور سے پہلے توی کے کنارے رک جانے کا حُکم مل گیا ۔ اگر منصوبہ کے مطابق پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور پاکستانی فوجی کٹھوعہ پہنچ کر جموں کشمیر کو بھارت سے ملانے والے واحد پر قبضہ کر لیتے اور جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا
کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر دو دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے لیکن وہ غائب تھا ۔ اللہ جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔ ہمارے ملک میں کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا

آپریشن جبرالٹر کے متعلق کچھ واقف حال اور ماہرین کی تحریروں سے اقتباسات

سابق آفیسر پاکستان پولیس جو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون میں ریسرچ فیلو اور ٹَفٹس یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے اُمیدوار تھے کی کتاب “پاکستان کا انتہاء پسندی کی طرف بہاؤ ۔ اللہ ۔ فوج اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ” سے :

ترجمہ: جب وسط 1965ء میں پاکستانی فوج نے رَن آف کَچھ میں مختصر مگر تیز رفتار کاروائی سے بھارتی فوج کا رُخ موڑ دیا تو ایوب خان کے حوصلے بلند ہوئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے 12 مئی 1965ء کے خط میں ایوب خان کی توجہ بھارت کو بڑھتی ہوئی مغربی فوجی امداد کی طرف دلائی اور یہ کہ اس کے نتیجہ میں علاقہ میں طاقت کا توازن کتنی تیزی سے بھارت کے حق میں مُنتقِل ہو رہا تھا ۔ اس موضوع کو وسعت دیتے ہوئے اُس نے سفارش کی ایک دلیرانہ اور جُرأت مندانہ سٹینڈ لے کر گفت و شنید کے ذریعہ فیصلہ زیادہ ممکن ہو گا ۔ اس منطق سے متأثر ہو کر ایوب خان نے عزیز احمد کے ماتحت کشمیر سَیل کو ہدائت کی کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں گڑبڑ پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا جائے جس سے محدود فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہو ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھِیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ جموں کشمیر میں ساری جنگ بندی لائین کا دفاع اس ڈویزن کی ذمہ داری تھی ۔ آپریشن جبرالٹر کا جو خاکہ جنرل اختر ملک نے بنا کر ایوب خان سے منظور کرایا وہ یہ تھا کہ مسلح آدمی جنگ بندی لائین سے پار مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل کئے جائیں ۔ پھر بعد میں اچانک اِنفنٹری اور آرمرڈ کمک کے ساتھ جنوبی علاقہ میں جموں سرینگر روڈ پر واقعہ اکھنور پر ایک زور دار حملہ کیا جائے ۔ اس طرح بھارت سے کشمیر کو جانے والا واحد راستہ کٹ جائے گا اور وہاں موجود بھارتی فوج محصور ہو جائے گی ۔ اس طرح مسئلہ کے حل کے کئی راستے نکل آئیں گے ۔ کوئی ریزرو نہ ہونے کے باعث جنرل اختر ملک نے فیصلہ کیا کہ آزاد جموں کشمیر کے لوگوں کو تربیت دیکر ایک مجاہد فورس تیار کی جائے ۔ آپریشن جبراٹر اگست 1965ء کے پہلے ہفتہ میں شروع ہوا اور مجوّزہ لوگ بغیر بھارتیوں کو خبر ہوئے جنگ بندی لائیں عبور کر گئے ۔ پاکستان کے حامی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اس لئے اُن کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی ۔ پھر بھی اس آپریشن نے بھارتی حکومت کو پریشان کر دیا ۔ 8 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے مارشل لاء لگانے کی تجویز دے دی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بھارت کی پریشانی سے فایدہ اُٹھاتے ہوئے اُس وقت آپریشن کے دوسرے حصے پر عمل کرکے بڑا حملہ کر دیا جاتا لیکن جنرل اختر کا خیال تھا کہ حملہ اُس وقت کیا جائے جب بھارت اپنی ریزرو فوج مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل ہونے کے راستوں پر لگا دے ۔ 24 اگست کو بھارت نے حاجی پیر کے علاقہ جہاں سے آزاد جموں کشمیر کی مجاہد فورس مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھی اپنی ساری فوج لگادی ۔ یکم ستمبر کو دوپہر کے فوراً بعد اس علاقہ میں مجاہد فورس اور بھاتی فوج میں زبردست جنگ شروع ہو گئی اور بھارتی فوج پسپا ہونے لگی اور اکھنور کی حفاظت کرنے کے قابل نہ تھی ۔ عین اس وقت پاکستانی کمانڈ بدلنے کا حکمنامہ صادر ہوا جس نے بھارت کو اکھنور بچانے کا موقع فراہم کر دیا ۔ بھارت نے 6 ستمبر کو اُس وقت پاکستان پر حملہ کر دیا جب پاکستانی فوج اکھنور سے تین میل دور رہ گئی تھی” ۔

پرانے زمانہ کے ایک بریگیڈیئر جاوید حسین کے مضمون سے اقتباس

ترجمہ: “جب سپیشل سروسز گروپ کو اعتماد میں لیا گیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ مقبصہ جموں کشمیر کے مسلمان صرف اس صورت میں تعاون کریں گے کہ ردِ عمل کے طور پر بھارتی فوج کے اُن پرظُلم سے اُن کی حفاظت ممکن ہو ۔ لیکن جب اُنہیں محسوس ہوا کہ پلان بنانے والے اپنی کامیابی کا مکمل یقین رکھتے ہیں تو سپیشل سروسز گروپ نے لکھ کر بھیجا کہ یہ پلان [ آپریشن جبرالٹر] پاکستان کیلئے بے آف پِگز ثابت ہو گا ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ 1965ء میں 5 اور 6 اگست کی درمیانی رات 5000 مسلح آدمی ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ مختلف مقامات سے جنگ بندی لائین کو پار کر گئے ۔ یہ لوگ جلدی میں بھرتی اور تربیت دیئے گئے آزاد جموں کشمیر کے شہری تھے اور خال خال پاکستانی فوجی تھے ۔ یہ تھی جبرالٹر فورس ۔ شروع شروع میں جب تک معاملہ ناگہانی رہا چھاپے کامیاب رہے جس سے بھارتی فوج کی ہائی کمان میں اضطراب پیدا ہوا ۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع تھی ۔ مقبوضہ کشمیر کے دیہات میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی انتقام بے رحم اور تیز تھا جس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں نے نہ صرف جبرالٹر فورس کی مدد نہ کی بلکہ بھارتی فوج کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ پھر اچانک شکاری خود شکار ہونا شروع ہو گئے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ بھارتی فوج نے حملہ کر کے کرگِل ۔ درّہ حاجی پیر اور ٹِتھوال پر قبضہ کر کے مظفر آباد کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ۔ اس صورتِ حال کے نتیجہ میں جبرالٹر فورس مقبوضہ کشمیر میں داخلہ کے تین ہفتہ کے اندر منتشر ہو گئی اور اس میں سے چند بچنے والے بھوکے تھکے ہارے شکست خوردہ آزاد جموں کشمیر میں واپس پہنچے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے پلان کے پہلے حصّہ کا یہ حشر ہوا ”

جنرل عتیق الرحمٰن نے اپنی کتاب بیک ٹو پیولین میں ستمبر 1965 کی جنگ کے متعلق لکھا ہے ۔ “جب پاکستانی فوج نےکئی محاذوں پر بھارتی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔ لاہور محاذ سے بھارتی فوج بیاس جانے کی منصوبہ بندی کر چکی تھی اور سیالکوٹ محاذ پر بھارتی سینا بعض مقامات پر کئی کئی میل پیچھے دھکیل دی گئی تھی ۔ ان خالی جگہوں کے راستے پاکستانی فوج نے بھرپور جوابی حملے کی منصوبہ بندی کر لی ۔ جوابی حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ عین اس وقت جنگ بندی کرا دی گئی ۔ یہ جنگ بندی امریکہ اور روس کے دباؤ کے تحت ہوئی تھی” ۔

ايئر مارشل ريٹائرڈ محمد اصغر خان نے اپنی کتاب “My Political struggle” ميں لکھتے ہيں

In 1965 Zulfikar Ali Bhutto, at the time Ayub Khan’s foreign minister, had advised the president to embark upon a military adventure by launching an armed attack in the Indian-held part of Jammu in the Akhnur sector. This he said was based on the foreign-office assessment that India would not react by attacking Pakistan. Ayub Khan had accepted this assessment and the attack was launched on September 1. He was therefore totally unprepared for the Indian attack that took place on the early morning of September 6 in the Lahore sector of Punjab. Bhutto’s logic, with which Ayub Khan agreed, was that Pakistan would thus cut off India’s road-link with Srinagar and be in a position to capture most of Jammu and Kashmir without having to resort to an all-out war with India. Although I had by then relinquished command of the Pakistan Air Force, I asked to see President Ayub Khan on the morning of September 3 and expressed my opinion that India would react by launching an attack in Punjab, if we continued with our action in the Akhnur sector of the Indian-held territory of Jammu and Kashmir. I was amazed when the president expressed his conviction that India would not do this and said that Zulfikar Ali Bhutto had assured him that there was no such possibility.

Bhutto was too shrewd a person to really believe that India would not react and one is therefore left with the inevitable conclusion that he thought that India would react in an all-out offensive and thought that a military defeat would result. He thought that he could then make some arrangement with the Indian leadership and take over from Ayub Khan. In a conversation that I had after the 1970 elections with Abdul Hamid Khan Jatoi, an eminent People’s Party leader of Sindh, I was told that after the success of the PPP in the 1970 elections, he had asked Bhutto what he proposed to do to curb the power of the armed forces in national affairs. He told me that Bhutto had replied, “Don’t worry about that. By the time I have finished with them they will be fit only for Guards of Honour.” Earlier in 1969, after being released from prison when he had asked me to join his ‘Pakistan People’s Party’, I had wanted to know what his programme was. He had replied in all seriousness that the people are fools and his programme is to make a fool of them. He had said, “Come join with me and we will rule together for at least twenty years. No one will be able to remove us.”

نيچے پاکستان کے ايک سابق پوليس آفيسر حسن عباس کی کتاب
” Pakistan’s Drift Into Extremism: Allah, The Army, And America’s War On Terror ”
۔ حسن عباس نے جب يہ کتاب لکھی ہارورڈ لاء سکول ميں ريسرچ فيلو [Research fellow at the Harvard Law School]
اور فليچر سکول آف لاء اينڈ ڈپلوميسی ٹفٹس يونيورسٹی سے پی ايچ ڈی کے اُميدوار تھے [Ph. D candidate at the Fletcher School of Law and Diplomacy, Tufts university]

“When the Pakistan Army inflicted a short, sharp reverse on the Indians in the Rann of Kutch in mid-1965, Ayub’s spirits got a boost.

Bhutto, in his letter to Ayub of May 12, 1965, drew his attention to increasing Western military aid to India and how fast the balance of power in the region was shifting in India’s favor as a result. He expanded on this theme and recommended that “a bold and courageous stand” would “open up greater possibility for a negotiated settlement.”

Ayub Khan was won over by the force of this logic, and he tasked the Kashmir Cell under Foreign Secretary, Aziz Ahmed, to draw up plans to stir up some trouble in Indian-held Jammu and Kashmir, which could then be exploited in Pakistan’s favor by limited military involvement.

The Kashmir Cell was a ondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the12th Division of the Pakistan Army. This division was responsible for the defense of the entire length of the Cease-fire Line (CLF) in the Kashmir region.

The plan of this operation (Gibraltar) as finalized by General Akhtar Malik and approved by Ayub Khan was to infiltrate a sizable armed force across the CFL into Indian Kashmir. Later, grand slam was to be launched. This was to be a quick strike by armored and infantry forces from the southern tip of the CFL to Akhnur, a town astride the Jammu-Srinagar Road. This would cut the main Indian artery into the Kashmir valley, bottle up the Indian forces there, and so open up a number of options that could then be exploited as the situation demanded. Having no reserves for this purpose, General Akhtar Malik decided that the only option for him was to simultaneously train a force of Azad Kashmiri irregulars (mujahids) for this purpose. Operation Gibraltar was launched in the first week of August 1965, and all the infiltrators made it across the CFL without a single case of detection by the Indians. The pro-Pakistan elements in Kashmir had not been taken into confidence prior to this operation, and there was no help forthcoming for the infiltrators in most areas. Overall, despite lack of support from the local population, the operation managed to cause anxiety to the Indians, at times verging on panic. On August 8 the Kashmir government recommended that martial law be imposed in Kashmir. It seemed that the right time to launch operation Grand Slam was when such anxiety was at its height. But it was General Akhtar Malik’s opinion that this be delayed till the Indians had committed their reserves to seal off the infiltration routes, which he felt was certain to happen eventually. On August 24, India concentrated its forces to launch its operations in order to seal off Haji Pir Pass, through which lay the main infiltration routes. By early afternoon of the first day (September 01, 1965) all the objectives were taken, the Indian forces were on the run, and Akhnur lay tantalizingly close and inadequately defended. “At this point, someone’s prayers worked” says Indian journalist, MJ Akbar: “An inexplicable change of command took place.”Loss of time is inherent in any such change . . . . And this was enough for the Indians to bolster the defenses of Akhnur and launch their strike against Lahore across the international frontier between the two countries. This came on September 6 while the Pakistani forces were still three miles short of Akhnur.

When the Special Service Group (SSG), the army’s unit that specializes in special operations, was taken into confidence, they pointed out that the Kashmiri Muslims would cooperate only when they were assured of protection against the inevitable Indian retribution. However, when it became clear that the planners’ belief in their plan had blinded them to the faults in it, the SSG warned, them in writing that the operation as planned would turn out to be Pakistan’s Bay of Pigs. The Kashmir Cell was a nondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the 12th Division of the Pakistan Army. On the night of August 5/6 1965, 5,000 lightly armed men slipped across the ceasefire line into occupied Kashmir from multiple points. They were the hastily recruited and trained Azad Kashmir civilians with a sprinkling of Azad Kashmir and Pakistani soldiers. They were the Gibraltar Force. In the early stages of the operation, while the surprise lasted, they conducted a series of spectacular raids and ambushes, which caused great alarm and trepidation in the Indian high command. Then the expected happened. Indian retribution against Muslim villages was swift and brutal; as a result, the locals not only refused to cooperate with the raiders but also started to assist the Indian forces to flush them out. Suddenly, from hunters the raiders had become the hunted. To make matters worse, the Indian forces went on the offensive capturing Kargil, Haji Pir pass and Tithwal and threatening Muzaffarabad.

With its fate sealed, the Gibraltar force disintegrated within three weeks of the launch and its few survivors limped back to Azad Kashmir hungry, tired and defeated. Phase-I of the field marshal’s plan had backfired.

آپ کے پاس 3 روپے ہوں گے ؟

کوٹھی کے خوبصورت لان میں سردی کی ایک دوپہر میں اور علی بھائی (مشہور اداکار محمد علی) بیٹھے گفتگو کر رہے تھے ۔ چپڑاسی نے علی بھائی سے آ کر کہا ”باہر کوئی آدمی آپ سے ملنے آیا ہے ۔ یہ اس کا چوتھا چکر ہے“۔
علی بھائی نے اسے بلوا لیا ۔ کاروباری سا آدمی تھا ۔ لباس صاف سُتھرا مگر چہرے پر پریشانی جھلَک رہی تھی ۔ شیو بڑھی ہوئی ۔ سُرخ آنکھیں اور بال قدرے سفید لیکن پریشان ۔ وہ سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گیا تو علی بھائی نے کہا ” جی فرمایئے“۔
”فرمانے کے قابل کہاں ہوں صاحب جی ۔ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں“۔ اس آدمی نے بڑی گھمبیر آواز میں کہا اور میری طرف دیکھا جیسے وہ علی بھائی سے کچھ تنہائی میں کہنا چاہتا تھا
علی بھائی نے اس سے کہا ” آپ ان کی فکر نہ کیجئے جو کہنا ہے کہیئے“۔
اس آدمی نے کہا ”چَوبُرجی میں میری برف فیکٹری ہے علی صاحب“۔
” جی“۔
” لیکن کاروباری حماقتوں کے سبب وہ اب میرے ہاتھ سے جا رہی ہے“۔
” کیوں ؟ کیسے جا رہی ہے“۔ علی بھائی نے تفصیل جاننے کے لئے پوچھا
وہ آدمی بولا ” ایک آدمی سے میں نے 70ہزار روپے قرض لئے تھے لیکن میں لوٹا نہیں سکا ۔ میں نے کچھ پیسے سنبھال کر رکھے تھے لیکن چور لے گئے ۔ اب وہ آدمی اس فیکٹری کی قرقی لے کر آ رہا ہے“۔
یہ کہہ کر وہ آدمی رونے لگا اور علی بھائی اسے غور سے دیکھتے رہے اور اس سے کہنے لگے ” آپ کا برف خانہ میانی صاحب والی سڑک سے ملحقہ تو نہیں؟“
وہ آدمی بولا ” جی جی وہی ۔ ۔ ۔ علی بھائی میں صاحب اولاد ہوں اگر یہ فیکٹری چلی گئی تو میرا گھر برباد ہو جائے گا ۔ میں مجبور ہو کر آپ کے پاس آیا ہوں“۔
”فرمایئے میں کیا کر سکتا ہوں ؟“
” میرے پاس 20 ہزار ہیں ۔ 50 ہزار آپ مجھے اُدھار دے دیں میں آپ کو قسطوں میں لوٹا دوں گا“۔
علی بھائی نے مُسکرا کر اس آدمی کو دیکھا۔ سگریٹ سُلگائی اور مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگے ”روبی بھائی ۔ یہ آسمان بھی بڑا ڈرامہ باز ہے ۔
کیسے کیسے ڈرامے دکھاتا ہے ۔ شطرنج کی چالیں چلتا ہے ۔ کبھی مات کبھی جیت“۔
یہ بات کہی اور اُٹھ کر اندر چلے گئے ۔ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں نوٹوں کا ایک بنڈل تھا ۔ کرسی پر بیٹھ گئے
اور اس آدمی سے کہنے لگے ”پہلے تو آپ کی داڑھی ہوتی تھی“۔
وہ آدمی حیران رہ گیا اور چونک کر کہنے لگا ” جی ۔ یہ بہت پرانی بات ہے“۔
”جی میں پرانی بات ہی کر رہا ہوں“۔ علی بھائی نے کہا اور اچانک کہیں کھو گئے ۔ سگریٹ کا دھُواں چھوڑ کر فضا میں کچھ تلاش کرتے رہے ۔ پھر اس آدمی سے کہنے لگے ” آپ کے پاس 3 روپے ٹوٹے ہوئے ہیں ؟ “
” جی جی ہیں“۔
اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے اور ان میں سے 3 روپے نکال کر علی بھائی کی طرف بڑھا دیئے
علی بھائی نے وہ پکڑ لئے اور نوٹوں کا بنڈل اُٹھا کر اس آدمی کی طرف بڑھایا ”یہ 50 ہزار روپے ہیں ۔ لے جایئے“۔
اس آدمی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور نوٹ پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے
اس آدمی نے جذبات کی گرفت سے نکل کر پوچھا ” علی بھائی مگر یہ 3 روپے آپ نے کس لئے ۔ ۔ ۔ ؟“
علی بھائی نے اس کی بات کاٹ کر کہا ”یہ میں نے آپ سے اپنے 3 دن کی مزدوری لی ہے“۔
”مزدوری ۔ ۔ ۔ مجھ سے ؟ میں آپ کی بات نہیں سمجھا “ اس آدمی نے یہ بات پوچھی تو ایک حیرت اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی
علی بھائی نے مُسکرا کر جواب دیا ” 1952ء میں جب میں لاہور آیا تھا تو میں نے آپ کے برف خانے میں برف کی سلیں اُٹھا کر قبرستان لے جانے کی مزدوری کی تھی“۔
یہ جواب میرے اور اس آدمی کے لئے دنیا کا سب سے بڑا انکشاف تھا
علی بھائی نے مزید بات آگے بڑھائی ” مگر آپ نے جب مجھے کام سے نکالا تو میرے 3 دن کی مزدوری رکھ لی تھی ۔ وہ آج میں نے وصول کر لی ہے“۔
علی بھائی نے مُسکرا کر وہ 3 روپے جیب میں ڈال لئے
” آپ یہ 50 ہزار لے جائیں ۔ جب آپ سہولت محسوس کریں دے دیجئے گا “۔
علی بھائی نے یہ بات کہہ کر مزے سے سگریٹ پینے لگے ۔ میں اور وہ آدمی کرسیوں پر یوں بیٹھے تھے جیسے ہم زندہ آدمی نہ ہوں بلکہ فرعون کے عہد کی 2 حنوط شدہ مَمِیاں کرسی پر رکھی ہوں
احمد عقیل روبی صاحب کا تحریر کردہ واقعہ تو ختم ہوا

کیا آپ کو سمجھ آئی کہ کروڑ پتی محمد علی کیلئے 3 روپے کی کیا اہمیت تھی کہ لے لئے ؟
یہ محمد علی کی معاملہ فہمی ہے ۔ محمد علی نے سوچا ہو گا ” اچھا بھلا چلتا کار و بار تباہ ہونے کی وجہ شاید ایک غریب مزدور کی 3 دِن کی مزدوری نہ دینا ہو “۔
محمد علی نے اپنی مزدوری وصول کر لی تا کہ اُس شخص کی سختی ختم ہو

بشکریہ ۔ مصطفٰے ملک صاحب ” گھریلو باغبانی والے“۔

گوادر کی ہیرو (ایک تاریخی حقیقت)

آج کون کون جانتا ہے کہ پاکستان کیلئے لازوال محبت و ایثار کا جذبہ رکھنے والی ایک عظیم خاتون نے اپنی مدِمقابل 4 عالمی طاقتوں سے ایک قانونی جنگ لڑ کر 15 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مُشتمل گوادر جیسا اہم ترین ساحلی علاقہ پاکستان میں ضَم کروایا تھا ؟

آج ہر کوئی گوادر پورٹ کا کرَیڈِٹ تو لینا چاہتا ہے مگر اس عظیم مُحسن پاکستان کا نام کوئی نہیں جانتا جس نے دنیا کے 4 طاقتور اسٹیک ہولڈرز ۔ برطانوی پارلیمنٹ ۔ امریکی سی آئی اے ۔ ایران اور عمان سے چَومُکھی جنگ لڑ کر کھویا ہوا گوادر واپس پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا
مطالعہ پاکستان سے چِڑنے والے لوگ پاکستان کے خلاف پیش گوئیاں کرنیوالے نام نہاد دانشوروں کو صرف اسی لئے تقویّت دیتے ہیں کہ تعمیر پاکستان کو اپنا ایمان بنا کر اَنمِٹ نقُوش چھوڑ جانے والی تحریکِ پاکستان کی ان بے مثال ہَستیوں سے نئی نسل کہیں متاءثر نہ ہونے لگے ۔ یہ وہ خوفناک مطالعہ پاکستان ہے جس سے کچھ لوگوں کو پسینے آجاتے ہیں

بلوچی میں ”گوات“ کے معنی کھُلی یا تازہ ہوا اور ”دَر“ کے معنی دروازہ ہیں ۔ علاقہ گوات دَر جو گوادر کے نام سے مشہور ہوا 1956ء تک عالمی استعمار کے قبضہ میں تھا ۔ خان آف قلات مِیر نصِیر نُوری بلوچ نے 1783ء میں گوادر عمان کے حاکم کو سونپ دیا تھا ۔ جب خان آف قلات فوت ہو گیا تو اُس کے ورثاء نے گوادر کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا جس کے بعد زور آزمائی شروع ہوئی ۔ برطانیہ صلح جوئی کے بہانے شامل ہوا اور براجمان ہو گیا ۔ لگ بھگ سوا سو سال گوادر برطانیہ کے قبضہ میں رہا

قیام پاکستان کے بعد اُس وقت کے خان آف قلات نے جب اپنی جاگیر پاکستان میں ضَم کر دی تو پاکستان نے گوادر کا معاملہ اٹھایا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ امریکی سی آئی اے کی اِیماء پر شاہ ایران نے اسے چاہ بہار کے ساتھ ملانے کی تدبیر بنانا شروع کر دی اور امریکہ کے صدر نکسن برطانیہ پر دباؤ ڈالنے لگے کہ گوادر شاہ ایران کے حوالے کر دیا جائے

1956ء میں ملک فیروز خان نون نے وزارت خارجہ سنبھالی تو گوادر واگزار کرانے کا عہد کیا ۔ باریک بینی سے تمام  تاریخی حقائق و کاغذات کا جائزہ لیکر یہ مشن ایک تعلیم یافتہ باوقار خاتون کو سونپ دیاجنہوں نے برطانیہ میں پاکستان کی لابِنگ شروع کی اور مضبُوط دلائل کے ساتھ معاملہ برطانوی حکومت کے سامنے رکھا کہ ”قلات خاندان کی جاگیر اب پاکستان کی ملکیت تھی لہٰذا جاگیر کے اس حصے کی وراثت پر بھی اب پاکستان کا حق تسلیم ہونا چاہیئے نیز یہ کہ پاکستان وہ تمام جاگیریں منسوخ کر چکا ہے جو معاوضے کی بنیاد پر حکومت برطانیہ نے بانٹیں تھیں مزید یہ کہ اگر ہم اپنے قانون سے گوادر کی جاگیر منسوخ کرکے فوج کشی سے واگزار کرا لیں تو کامن ویلتھ کا رُکن ہونے کی وجہ سے برطانیہ پاکستان پر حملہ نہیں کر سکتا“۔

محترمہ نے دو سال پر محیط یہ جنگ تلوار کی بجائے محض قلم ۔ دلائل اور گفت و شُنِید سے جِیتی ۔ عمان کے سلطان سعید بن تیمور نے حامی تو بھر لی مگر سودے بازی کا عندیہ دیا ۔ ملک فیروز خان نون جب وزیراعظم بنے تو ان کے چھ ماہ کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد عمان نے تین ملین ڈالر کے عوض گوادر کا قبضہ پاکستان کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ۔ ملک صاحب اپنی سوانح ”چشم دِید“ میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں ” جہاں مُلک کی حفاظت اور وقار کا مسئلہ درپیش ہو وہاں قیمت نہیں دیکھی جاتی ۔ ویسے بھی یہ رقم گوادر کی آمدنی سے محض چند سال میں پوری ہو جائے گی“۔ یوں دو سال کی بھر پُور عقلی جنگ کے بعد 8 ستمبر 1958ء کو گوادر کا 2400 مربع میل یا 15 لاکھ ایکٹر سے زائد رقبہ پاکستان کی ملکیت میں شامل ہو گیا

گوادر فتح کرنیوالی ملک و قوم کی یہ محسن پاکستان کے ساتویں وزیراعظم ملک فیروخان نون کی بیوی محترمہ وقارالنساء نون ہیں جن کی اس عظیم کاوش کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی اور انہیں قوم سے متعارف نہ کرانا ایک بے حسی کے سوا کچھ نہیں ۔ محترمہ نے تحریک پاکستان کو اُجاگر کرنے کیلئے خواتین کے کئی دَستے مرتب کئے اور سِول نافرمانی کی تحریک میں انگریز کی خضر حیات کابینہ کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور جلُوس منَظم کرنے کی پاداش میں تین بار گرفتار بھی ہوئیں۔

قیام پاکستان کے بعد انہوں نے لْٹے پٹے مہاجرین کی دیکھ بھال کیلئے بہبودِ خواتین کی اوّلِین تنظِیم اَپوا کی بانی اراکین میں بھی آپ شامل تھیں ۔ وقارالنساء گرلز کالج راولپنڈی اور وقارالنساء اسکول ڈھاکہ کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی ۔ ہلال احمر کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں ۔ پاکستان کی محبت میں ان کا جذبہ بڑھاپے میں بھی سرد نہ پڑا ۔ ضیاء الحق کے دَور میں بطَور وزیر ، سیاحت کے فروغ کیلئے دنیا بھر کو پاکستان کی طرف بخوبی راغب کیا ۔ برطانیہ میں مقیم ان کی بے اولاد بہن کی جائیداد جب انہیں منتقل ہوئی تو اس فنڈ سے انہوں نے ”وکی نون ایجوکیشن فاؤنڈیشن“ قائم کیا جو آج بھی سماجی خدمات کا چراغ جلائے ہوئے ہے ۔ محترمہ کی وصِیّت کے مطابق اس فنڈ کا ایک حصہ ان نادار مگر ذہین طلباء کو آکسفورڈ جیسے اداروں سے تعلیم دلوانے پر خرچ ہوتا ہے جو واپس آکر اس مملکتِ خدا داد پاکستان کی خدمت کرنے پر راضی ہوں

محترمہ وقارالنساء نون طویل علالت کے بعد 16 جنوری سن 2000ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ۔ ایک عمرہ کرنے کے بعد انہوں نے وصیت کی تھی کہ مجھے غیر سمجھ کے چھوڑ نہ دینا بلکہ میری تدفین بھی ایک کلمہ گو مسلمان کی طرح انجام دینا۔ محترمہ کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی ۔ ان کی اولاد وہ پاکستانی ہیں جو حُب الوطنی میں ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے ہیں ۔ محترمہ کو گوادر حاصل کرنے پر 1959ء میں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز ”نشان امتیاز“ عطا کیا گیا تھا مگر ان کا اصل انعام وہ عزت و احترام ہے جو ہم بطور قوم انہیں دے سکتے ہیں

گوٹھ نوّں پوترا کے مکینوں کا یادگار کردار

غالباً 29 جون 2018ء کو 27 اَپ شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جاتے ہوئے جب تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھی تو محراب پور سے چند کلو میٹر آگے گوٹھ نوّں پوترا کے پاس اکانومی کلاس کی ایک بوگی کے پہیئے ٹرین سے تقریبآَ الگ ہو گئے ۔ ٹرین ڈرائیور نے بروقت بریک لگا کر ٹرین کو روک لیا اور الحمدللّہ ٹرین ایک بڑے حادثہ سے بال بال بچی

سواریوں کو اس بے آباد جگہ پر عجب بے بسی کا احساس تھا اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ اچانک نہ جانے کدھر سے قریبی دیہات کے باسی قطار اندر قطار آنا شروع ہو گئے ۔ سُبحان اللہ عجیب منظر تھا ۔ کسی نے پانی کا کولر اُٹھایا ہوا ہے ۔ کسی نے مٹکا ۔ کوئی جگ اُٹھائے ہے تو کوئی دودھ کا برتن ۔ کوئی بزرگ اپنی پگڑی میں برف لا رہا ہے اور کچھ نوجوان بوریاں بھر کر برف لا رہے ہیں ۔ ایک عمر رسیدہ شخص کپڑے میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لائے ۔ غرض بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار اپنی استداد کے مطابق ہر کوئی کچھ نا کچھ لئے چلا آ رہا تھا ۔ چند منٹوں میں چنے چاول پلاؤ کی دیگ ایک رکشہ پر لائی گئی ۔ دیہاتیوں کے پاس قیمتی برتن نہ تھے ۔ چاول کھلانے کے لئے مٹی کی پلیٹیں لے آئے ۔ آتے ہی سب کھانے پینے کی چیزیں بانٹنا شروع کر دیں
ہمدردی کے جذبہ سے سرشار گاؤں کے نیک سیرت سادہ دل لوگ بے حد خوش نظر آ رہے تھے کہ اُنہیں خدمت کا موقع ملا ۔ نہ مدد کرنے والے جانتے تھے کہ جس کی وہ مدد کر رہے ہیں وہ کس صوبے ۔ کس ذات برادری ۔ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور نہ پریشان حال مسافر جانتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آئے ہیں ؟ بس ایک ہی رشتہ تھا ۔ انسانیت کا ۔ پاکستانیت کا اور احسان کا کہ اللہ کا فرمان ہے
اللّہ تعالٰی ان سب کو جزائےعظیم دے ۔ ان کے رزق میں وسعت وبرکت عطا فرمائے اور ان کو دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرمائے ۔ آمین

اسی دوران ریلوے کی امدادی کاروائیاں مکمل ہوئیں تو ٹرین کو واپس محراب پور لانے کا فیصلہ ہوا ۔ ٹرین کی روانگی کے وقت ان دیہاتوں کے امدادی کارکن اس طرح ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ رہے تھے جیسے اپنے کسی بہت خاص عزیز کو رُخصت کیا جاتا ہے

االلہ اللہ ۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے باری تعالٰی کی حمد کے ساتھ میری آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے ۔ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
مجھے اپنے دیہاتی بھائیوں کی ہمدردی اور مہمانداری کا تجربہ ہے ۔ میں جوانی میں سیر و سیاحت کا شوقین تھا ۔ جہاں بھی جاتا بڑے شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہات کی طرف چلا جاتا ۔ قصبہ یا گاؤں کے اندر سارا سفر پیدل ہی ہوتا تھا ۔ میں نے خیبر پختون خواہ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی سیر کی اور پہاڑوں کی بھی ۔ ہر قصبہ ہر گاؤں کے باسیوں کو میں نے مُخلص ہمدرد پایا ۔ اُن کی ایک اور عادت بڑے شہروں میں رہنے والوں سے مُختلف تھی ۔ وہ برملا سیدھی بات کرتے تھے ۔ کسی لفظ یا فقرے پر مٹھاس چڑھانے کی کوشش نہیں کرتے تھے ۔ مجھے یہ طور پسند آیا کیونکہ مجھے بھی آج تک کسی بات پر ملمع چڑھانا نہیں آیا ۔ میں محسوس کرتا رہا کہ وہ بھی میرے انداز سے خوش تھے

ہمارے مُلک سلطنتِ خدا داد پاکستان کے اکثر عوام ہمدرد ۔ دُکھ درد بانٹنے والے ۔ مصیبت میں کام آنے والے ۔ اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی مدد کرنے والے اور فرض شناسی اور جذبہءِ خدمت و ایثار سے سرشار ہیں

جب میں اپنے مُلک کے بڑے شہروں کے پڑھے لکھے اور اچھی مالی حالت والے لوگوں کی زبان سے سُنتا ہوں
”یہ مُلک کوئی رہنے کے قابل ہے“۔
”سب چور ہیں“۔
”سب بے ایمان ہیں“۔
تو میرا کلیجہ کٹ کے رہ جاتا ہے ۔ اِن پڑھے لکھے جاہلوں کے ذہنوں میں ہالی وُڈ کی بنی مووی فلموں ۔ ٹی وی ڈراموں اور غیر مُلکی معاندانہ پروپیگنڈہ نے گھر کیا ہوا ہے ۔ یہ نہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور نہ اپنے دماغ سے سوچتے ہیں
اللہ ہم سب کو کریم ایسے ہموطنوں کو نیک ھدائت دے