ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن
ٹھیک آج سے 60 سال قبل جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے وطن پر بھارت کے طاقت کے بل پر ناجائز قبضہ کے خلاف اعلانِ جہاد کیا جو کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دینے کے باوجود آج تک جاری ہے ۔ انشاء اللہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ۔
کہتے ہیں ہر دم یہ جموں کشمیر کے مسلماں ۔ اے وطن تیری آزادی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے
ایک نظم
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
کرتا نہیں کیوں دوسرا اس پہ کچھ بات چیت ۔ ۔ ۔ دیکھتا ہوں میں جسے وہ چپ تیری محفل میں ہے
اے شہیدِ مُلک و ملت میں تیرے اُوپر نثار ۔ ۔ ۔ اب تیری ہمت کا چرچہ غیر کی محفل میں ہے
وقت آنے دے بتا دیں گے تجہے اے آسمان ۔ ۔ ۔ ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
کھینج کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی اُمید ۔ ۔ ۔ عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچۂ قاتل میں ہے
ہے لئے ہتھیار دشمن تاک میں بیٹھا اُدھر ۔ ۔ ۔ اور ہم تیار ہیں کھُلا سینہ لئے اپنا اِدھر
خون سے کھیلیں گے ہولی گر وطن مشکل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہاتھ جن میں ہو جنوں کٹتے نہیں تلوار سے ۔ ۔ ۔ سر جو اُٹھ جاتے ہیں وہ جھُکتے نہیں للکا ر سے
اور بھڑکے گا جو شعلہ سا ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہم جو گھر سے نکلے ہی تھے باندھ کے سر پہ کفن ۔ ۔ ۔ جان ہتھیلی پر لئے ہوئے لے چلے ہیں یہ قدم
زندگی تو اپنی مہمان موت کی محفل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
یوں کھڑا مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار ۔ ۔ ۔ کیا تمناءِ شہادت بھی کِسی کے دِل میں ہے
دل میں طوفانوں کی تولی اور نسوں میں انقلاب ۔ ۔ ۔ ہوش دشمن کے اڑا دیں گے ہمیں روکو نہ آج
دُور رہ پائے جو ہم سے دم کہاں منزل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
وہ جِسم بھی کیا جِسم ہے جس میں نہ ہو خونِ جنوں ۔ ۔ ۔ طوفانوں سے کیا لڑے جو کشتی ساحل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
نظم ۔ بسمل عظیم آبادی