ہمارے ملک میں انسانیت کے غم خوار تو سب ہی ہیں اور رفاہِ عام یا بہبودِ عامہ [welfare] کا ڈھنڈورہ بھی بہت پیٹا جاتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ایک محفل کے ارکان اور قارئین کو آسان سی بہبودِ عامہ کی دعوت دی تھی جو انہوں نے میرے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے کرنا تھی لیکن کسی ایک نے بھی حامی نہ بھری ۔ آج میں انسانیت کے سینے پر ایک رِستے ناسُور کو لے کے حاضر ہوا ہوں ۔ بنیادی طور پر میرے مخاطب راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہنے والے ہیں البتہ دوسرے شہروں میں بسنے والوں کو بھی دل و جان سے خوش آمدَید کہا جائے گا ۔
کسی جگہ گاڑی روکیں تو کوئی بچی یا بچہ اپنے منہ کی طرف اشارہ کر کے ہاتھ پھیلا دیتا ہے ۔ اُس کے چہرے سے اس کا خالی پیٹ عیاں ہوتا ہے ۔ انسانیت دوستی کے علمبردار سامراجی مُلک بچوں سے مزدوری کے خلاف مہم چلا کر اس بہانے پاکستان سے اپنے ملکوں میں درآمدات پر تو پابندی لگا دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ بچے اپنا پیٹ کیسے بھریں ؟ کہاوت مشہور ہے کہ کسی نے ایک بھوکے سے کہا کہ ایک اور ایک کتنے ہوتے ہیں تو اُس نے جواب دیا “دو روٹیاں”۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کاروں والے ایک پھول تو دس روپے میں خرید لیتے ہیں مگر ان محروم بچوں کو دھتکار دیتے ہیں ۔ ایسے بچوں کو کوڑے سے گلی سڑی اشیاء اُٹھا کر کھاتے بھی دیکھا گیا ہے ۔
ایک اہلِ دِل نوجوان نے خود ہی اپنے ذمہ لیا کہ وہ ان بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرے گا اور ان بچوں کے کوائف اکٹھا کرنا شروع کئے جن سے ظاہر ہوا کہ حقیقی محروم بچوں کی اکثریت اُن بے کس افغان مہاجرین کی اولاد ہے جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے کنارے خیمہ بستیوں میں آباد ہیں اور مزدوری کرتے ہیں ۔ یہ نوجوان ان بچوں کے والدین تک پہنچا اور انہیں سمجھایا کہ اگر یہ بچے پڑھ لکھ لیں گے تو ان کا مستقبل اچھا ہو گا اور انہیں بھیک نہیں مانگنا پڑے گی ۔ والدین کا خدشہ تھا کہ جو روکھی سوکھی روٹی ان بچوں کو مل رہی ہے وہ اس سے بھی محروم نہ ہو جائیں ۔ اس نوجوان نے انہیں قائل کیا کہ بچوں کی تعلیم کے دوران ان کی روٹی کا بھی بندوبست کیا جائے گا ۔ پھر اپنی محنت اور کوشش سے اس نوجوان نے چند بچوں کی تعلیم کا بندوبست اسلام آباد کے ایک افغانی سکول میں کیا ۔ ایک بچے کی ماہانہ فیس 350 روپے ہے اور بس کا کرایہ 200 روپے ۔ان بچوں کو روزانہ ایک وقت کے کھانے کے طور پر ایک روٹی اور پاؤ دودھ کی ڈبیہ دی جائے تو خرچ 550 روپے ماہانہ آتا ہے ۔ یعنی فی بچہ کُل خرچ 1100 روپے ماہانہ ہے ۔
اس جوان کی اَن تھک محنت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو پسند آئی اور اب ایسے 47 بچے جمع ہو گئے ہیں جن کی تعلیم کے خرچہ کے علاوہ انہیں کم از کم ایک وقت کا کھانا بھی مہیا کرنے کا بندوبست کیا جانا ہے تاکہ یہ ننھے پھول سڑکوں کی گرد و غُبار سے مرجھانے کی بجائے پڑھ لکھ کر کسی گلستان کی زینت بنیں ۔ اگر اس منصوبہ کو احسن طریقہ سے چلایا جائے تو بچوں کی تعداد اور بڑھے گی ۔ متذکرہ نوجوان اس ایک نجی کمپنی میں معمولی ملازم ہے اور دو چار بچوں سے زیادہ کا انتظام کرنے سے قاصر ہے ۔
مجھ سے جو کچھ ہو سکتا ہے میں کروں گا ہی ۔ میری تمام قارئین سے التماس ہے کہ آگے بڑھیں اور اس رفاہِ عام کے کام میں عملی حصہ لے کر انسانیت دوستی کا ثبوت دیں ۔ امدادکے مختلف پہلو ہیں ۔
اوّل ۔ کوئی رفاہی ادارہ کم از کم ان بچوں کی تعلیم کا مناسب بندوبست اپنے ذمہ لے لے ۔ ویسے تو صرف اسلام آباد میں این جی او کے نام سے 40 سے زائد ادارے ہیں لیکن وہ غیر مُلکی امداد جمع کرنے کے ماہر ہیں ۔ ایدھی ٹرسٹ جیسے اداروں کے پاس پہلے ہی بہت کام ہے اسلئے اُن پر مزید بوجھ ڈالا مناسب نہیں ۔
دوم ۔ تعلیم کا کوئی سستا بندوبست ہو سکے لیکن خیال رہے یہ بچے فارسی اور پشتو بولتے ہیں ۔
سوم ۔ انفرادی طور پر قارئین سے جو کچھ بھی ہو سکے جسمانی یا مالی یا دونوں طرح امداد کریں
میں یہ کام کرنے والے نیک دل نوجوان کا پتہ نہیں لکھ رہا کہ اپنی ملازمت کے علاوہ وقت نکال کر وہ رفاہِ عام میں مصروف ہے ۔ اس کے پاس ای میل پڑھنے کا بھی وقت نہیں ہو گا ۔ خواہش مند قارئین تبصرہ کے خانے میں اپنے کوائف لکھ سکتے ہیں یا مجھے بذریعہ ای میل مطلع کر سکتے ہیں ۔ ای میل پتہ معلوم کرنے کیلئے اُوپر رابطہ پر کلِک کیجئے ۔