Category Archives: پيغام

عید الفطر مبارک

کُلُ عام انتم بخیر

سب قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک

آیئے ہم سب مل کر مکمل خلوص اور یکسوئی کے ساتھ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم کے حضور عاجزی سے اپنی دانستہ اور نادانستہ غلطیوں کی معافی مانگیں اور استدعا کریں کہ مالک و خالق و قادر و کریم رمضان المبارک میں ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرما اور ہم پر اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے اور اسے صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے ۔ آمین ثم آمین

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
اے دُعا ہاں عرض کر عرشِ الہی تھام کے
اے خدا اب پھیر دے رُخ گردشِ ایام کے
ڈھونڈتے ہیں اب مداوا سوزشِ غم کے لئے
کر رہے ہیں زخمِ دل فریاد مرہم کے لئے
صلح تھی کل جن سے اب وہ بر سر پیکار ہیں
وقت اور تقدیر دونوں درپئے آزار ہیں
اے مددگار ِ غریباں، اے پناہ ِ بے کـَساں
اے نصیر ِ عاجزاں، اے مایۂ بے مائیگاں
رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا
اک نظر ہو جائے آقا ۔ اب ہمارے حال پر
ڈال دے پردے ہماری شامت اعمال پر
خلق کے راندے ہوئے، دنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں اب تیرے در پر ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں، بدکار ہیں، ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی اُمت میں ہیں
حق پرستوں کی اگر کی تُو نے دِلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بُت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں
کلام ۔ آغا حشر (1879ء)

مشکور ہوں

مالک و خالقِ حقیقی کا شکر ادا کرتا ہوں اسلئے کہ

میں آزادانہ اِظہارِ خیال کر سکتا ہوں جبکہ بہت سے لوگ خوف کے زیرِ سایہ پَل رہے ہیں
میں صبح سویرے اُٹھ کر باہر تازہ ہوا میں سانس لے سکتا ہوں جبکہ کئی لوگوں کو تازہ ہوا میسّر نہیں
بُرائی سے میرے دِل کو ٹھیس پہنچتی ہے جبکہ کئی اِتنے سنگدِل ہیں کہ بے اثر رہتے ہیں
مجھے دوسروں کی خدمت کا موقع ملتا ہے جبکہ کئی لوگ اِس نعمت سے محروم رہتے ہیں

الحمدللہ رب العالمین

موت کی تیاری

معاندانہ پروپیگنڈہ اور کج بحثی تو ہمیشہ سے ہے لیکن وطنِ عزیز میں ہموطن اپنے ہی ہموطنوں کے خلاف صرف یہ نہیں کہ معاندانہ اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتے ہیں بلکہ بغیر کسی ثبوت کے اس پر بحث بھی کرتے ہیں ۔ پچھلے دنوں ایک پڑھے لکھے اور بظاہر ذہین جدّت پسند شخص نے میرے داہنے بائیں اُوپر نیچے تیز و طرار جملے اس طرح مارنے شروع کئے جیسے پولیس تھانے میں کسی بے سہارا آدمی سے ناکردہ گناہ کا اقبالِ جُرم کروایا جاتا ہے ۔ میں نے اُنہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ گویا ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اور کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھے ۔ چند لمحوں میں اُنہوں نے مدعی ۔ وکیل اور مُنصف کا کردار ادا کرتے ہوئے فیصلہ بھی سُنا دیا کہ قبائلی علاقوں کے لوگ طالبان اور دہشتگرد ہیں وہ تعلیم ۔ ترقی اور عورتوں کے دُشمن ہیں انہوں نے لڑکیوں کے سکول جلا دئیے ہیں ۔

میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوا کہ میری معلومات محدود ہیں ۔ تعلیم اور سائنس کے سہارے جدید لوگ چاند اور مریخ سے ہوتے ہوئے آسمان کے پاس پہنچ گئے ہوئے ہیں اور میں ابھی تک کسی غار میں بیٹھا پتھروں سے کھیل رہا ہوں ۔ اُن پڑھے لکھے سائنسی جدّت پسند روشن خیال صاحب کے جانے کے بعد میں نے اپنا کمپیوٹر چلایا اور لگا انٹرنیٹ کھنگالنے ۔ میری تو پریشانی اور بڑھی جب میں نے دیکھا کہ تعلیمیافتہ اور باعلم ہونے کے دعویدار کئی بلاگرز کی تحاریر اور دنیا بھر کے اخبار بھی متذکرہ بالا تاءثر لئے ہوئے تھے

غیروں کو تو کیا کہنا کہ آخر غیر ہیں ۔ اپنے ہموطنوں کے باعلم ہونے کے دعویدار جدت پسند گروہ کے جاہلانہ رویّہ پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے ۔ ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ آج تک وزیرستان اور باجوڑ سمیت کسی قبائلی علاقہ میں کوئی سکول نہیں جلا اور نہ طالبان نے کوئی سکول جلایا ہے ۔ جو سکول جلے ہیں یا جلائے گئے ہیں وہ سوات کے سَیٹلڈ [settled] علاقہ میں واقع ہیں جو صوبہ سرحد کی حکومت کے زیرِ انتظام ہے جبکہ قبائلی علاقے براہِ راست وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ہیں ۔ اس حقیقت سے متعلقہ وفاقی وزیر بھی متفق ہیں ۔

قبائلی علاقوں میں لڑی جانے والی احمقانہ جنگ میں عورتوں اور بچوں سمیت ہزاروں محبِ وطن اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور سب پاکستانی ہیں ۔ یہ جنگ وطن کو محفوظ بنانے کی بجائے پوری قوم کو تیزی سے تباہی کی طرف لے جا رہی ہے اور فائدہ صرف پاکستان کے دشمنوں کو ہو رہا ہے ۔

جس طرح سے وطنِ عزیز میں بے بنیاد اور معاندانہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قوم خود اپنی قبر کھود کر اس میں دفن ہو جانے کی تیاری بڑے زور شور سے کر رہی ہے ۔

اللہ ہمارے حکمرانوں اور عوام کو بھی عقلِ سلیم عطا فرمائے اور سیدھی راہ پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین

تن آسانی دُشمن ہے خودداری و غیرت کی

کچھ روز قبل ٹی وی پر ایک با ہمت اور خوددار لڑکے کودیکھ یہ تحریر لکھ رہا ہوں ۔ خودداری اور غیرت وہ صفات ہیں جو انسان کو بلند و بالا کر دیتی ہیں لیکن ہماری قوم ہولناک گہرے کھڈ کی طرف پھسلتی جا رہی ہے ۔ ہموطنوں نے خودغرضی کو غیرت کا نام دے دیا ہے اور وطنِ عزیز میں [جھوٹی] غیرت کے نام پر قتل کے واقعات نے غیرت کا تصور ہی مسخ کر کے رکھ دیا ہے ۔

وطن عزیز میں ہمیں ہر گلی ہر سڑک پر بھکاری نظر آتے ہیں ۔ عورتیں مرد بچے ۔ جن کو اللہ تعالٰی نے کامل جسم کے ساتھ صحت بھی دی ہوتی ہے لیکن وہ محنت کرنے کی بجائے بھیک مانگتے ہیں ۔ ان کے مختلف عُذر ہوتے ہیں جو درُست بھی ہو سکتے ہیں ۔ کوئی اپنے آپ یا اپنے باپ یا ماں کو مریض بتاتا ہے تو کوئی ملازمت یا مزدوری نہ ملنے کا بہانہ بناتا ہے ۔

یہ عِلّت صرف وطنِ عزیز ہی میں نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں بھی ہے مگر بھیک مانگنے کے طریقے مختلف ہیں ۔ مثال کے طور پر یورپ میں بھیک مانگنا چونکہ جُرم ہے وہاں بھکاری کوئی ساز لے کر بازار میں بیٹھ جاتا ہے ۔ اپنے سامنے ایک کپڑا بچھا دیتا ہے اور ساز بجانا شروع کر دیتا ہے ۔ لوگ بھیک دینے کی بجائے اسے موسیقی کا نذرانہ دیتے ہیں گو سب جانتے ہیں کہ وہ بھیک مانگ رہا ہے اور وہ بھیک دے رہے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ٹوپی اُلٹی کر کے خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں اور راہگذر اس میں کچھ ڈالتے رہتے ہیں ۔

اب بات اللہ کے خود دار اور غیرتمند بندوں کی ۔یہ لوگ جو کہ تعداد میں اتنے کم ہیں کہ انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں بلند ہمت اور مضبوط قوتِ ارادی سے اپنی مجبوریوں پر فتح پالیتے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر آدمی ماشاء اللہ اور سُبحان اللہ کہتے ہوئے اپنے اعضاء سلامت ہونے پر اللہ کا شکر ادا نہ کرے تو اَس جیسا بدقسمت کم ہی ہو گا

کچھ روز قبل ٹی وی پر ایک لڑکے کو دکھایا گیا جس کے دونوں بازو کٹے ہوئے تھے اور وھ کٹے ہوئے بازوؤں کے سِروں میں قلم دبوچ کر لکھ رہا تھا ۔ ماشاء اللہ سُبحان اللہ و الحمد للہ رب العالمین

دس بارہ سال قبل میں نے ایک ایسا شخص دیکھا تھا جس کے دونوں بازو کُہنیوں کے اُوپر سے کٹے ہوئے تھے اور وہ سلائی کا کام کرتا تھا ۔ ایک پاؤں سے وہ کپڑے کو قابو رکھتا اور دوسرےپاؤں سے سلائی کی مشین چلاتا جس میں بجلی کی موٹر نہیں لگی تھی ۔ وہ بائیسائکل بھی اس طرح چلاتا تھا کہ ایک پاؤں سے ہینڈل کو سنبھالتا اور دوسرے سے پیڈل کو گھماتا ۔ وہ پاؤں کی انگلیوں میں قلم پکڑ کر لکھ بھی لیتا تھا ۔ ماشاء اللہ سُبحان اللہ و الحمد للہ رب العالمین

باسٹھواں یوم آزادی

 آؤ بچو ۔ سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر دی ہم نے قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد

آج آنے والی رات کو 11 بج کر 57 منٹ پر سلطنتِ خداداد پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے پورے 61 سال ہو جائیں گے ۔ میں کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ میں آزادی کی سالگرہ مبارک تو ہر سال ہی لکھتا ہوں اور اب یہ الفاظ ہی حالات نے پھیکے پھیکے کر دئیے ہیں ۔ آزادی کے 61 سال بعد بھی ہم پسماندگی اور پریشانی کا شکار کیوں ہیں ؟ اس پر غور کر کے ہمیں اپنی خامیاں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ جتنی جلد یہ خامیاں دور ہوں گی اتنی ہی تیز رفتاری سے ہمارا ملک ترقی کرے گا ۔ الحمدللہ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمارے مُلک کو ہر قسم کی نعمت سے مالامال کیا ہے لیکن ہموطنوں کی ناسمجھی کی وجہ سے قوم تنزل کا شکار ہے ۔

اندرونِ وطن

سب حقوق کا راگ الاپتے ہیں اور حقوق کے نام پر لمبی لمبی تقاریر اور مباحث بھی کرتے ہیں لیکن دوسروں کا حق غصب کرنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ سڑک پر اپنی گاڑی میں نکلیں تو دوسری گاڑیوں میں سے اکثریت کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح آپ سے آگے نکل جائیں یا آپ سے پہلے مُڑ جائیں ۔ چوراہے پر بتی ابھی سبز ہو نہیں پاتی کہ لوگ گاڑیاں بھگانے لگتے ہیں ۔ سڑک کے کنارے کھڑے کو کوئی سڑک پار کرنے نہیں دیتا

ہموطنوں کی اکثریت کو ہر چیز غیرملکی پسند ہے ۔ اپنے وطن کی بنی عمدہ چیز کو وہ حقیر جانتے ہیں اور دساور کی بنی گھٹیا چیز کو عمدہ سمجھ کر خریدتے ہیں ۔ کئی بار میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ کوئی صاحب دساور کی بنی چیز زیادہ دام دے کر خرید لائے اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ پاکستان کی بنی ہوئی ہے اور کم قیمت پر ملتی ہے ۔ مقامی دکاندار جب گاہکوں کی نفسیات تبدیل کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے مال پر فرانس ۔ جرمنی ۔ جاپان یا چین کا بنا ہوا لکھوانا شروع کر دیا ۔ میں اور دفتر کا ساتھی بازار کچھ خرید کرنے گئے وہاں ایک چیز پر چینی یا جاپانی زبان میں کچھ لکھا تھا ۔ اتفاق سے قریبی دکان سے دو جاپانی کچھ خرید رہے تھے ۔ میرا ساتھی وہ چیز لے کر ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا یہ جاپان کا بنا ہوا ہے تو وہ مسکرا کر کہنے لگے کہ یہ لکھا ہے پاکستان کا بنا ہوا

ملبہ یا کُوڑا کرکٹ بنائی گئی جگہ کی بجائے اپنے گھر کے قریب جہاں بھی خالی پلاٹ یا جگہ ہو وہاں انبار لگا دینا اپنی خُوبی سمجھا جاتا ہے ۔ قومی یا دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچانا شاید بہادری سمجھا جاتا ہے اور بجلی کی چوری کئی ہموطنوں کی فطرت ہے اور وہ اسے اپنی عقلمندی یا چابکدستی سمجھتے ہیں ۔ دکاندار مال کا عیب گاہک کی نظروں سے اوجھل کر کے عیب دار مال بیچتے ہیں

میرے ہموطن ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں پاکستان میں کیا رکھا ہے ؟ یا کہہ دیں گے یہ بھی کوئی ملک ہے ۔ اپنے ہموطنوں کے متعلق کہیں گے کہ سب چور ہیں ۔ اس وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے آپکو بھی چور کہہ رہے ہیں

بیرونِ وطن

بیرونِ وطن ہموطنوں کی اکثریت بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو نیچا دِکھانے پر تُلے رہتے ہیں ۔ گو اپنا یہ حال کہ عمر برطانیہ میں گذاری مگر صحیح انگریزی بولنا اور لکھنا نہ سیکھا ۔ سعودی عرب میں بیس پچیس سال رہے اور قرآن شریف صحیح طور پڑھنا نہیں آتا ۔

ایک صاحب جو برطانوی شہری ہیں پاکستان آئے ۔ ایک پتلون مجھے دکھا کر کہنے لگے “یہ میں نے لندن سے خریدی ہے ۔ ایسی اچھی کوئی پاکستان میں بنا سکتا ہے ؟” میں نے پتلون پکڑ کر دیکھی تو خیال آیا کہ یہ کپڑا تو وطنِ عزیز میں ملتا ہے ۔ میں نے پتلون بنانے والی کمپنی کا نام ڈھونڈنا شروع کیا ۔ پتلون کے اندر کی طرف ایک لیبل نظر آیا جس پر انگریزی میں لکھا تھا “پاکستان کی بنی ہوئی”۔

کچھ سالوں سے ایک نیا موضوع مل گیا ۔ “پاکستان خطرناک مُلک ہے ۔ وہاں روزانہ دھماکے ہوتے ہیں ۔ جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے”۔ جس کو دیکھو وہ ہر باعمل مسلمان کو دہشتگرد قرار دے رہا ہے ۔

میں پاکستان سے باہر درجن بھر ملکوں میں گیا ہوں اور آٹھ دس دوسری قوموں سے میرا واسطہ رہا ہے ۔ میں نے کسی کے منہ سے اپنے ملک یا قوم کے خلاف ایک لفظ نہیں سُنا لیکن جس ملک میں بھی میں گیا وہاں کے پاکستانی یا جن کے والدین پاکستانی تھے کو پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف وہاں کے مقامی لوگوں کے سامنے باتیں کرتے سنا ۔

کاش ہموطن ایک قوم بن جائیں اور ہم صحیح طور سے یومِ پاکستان منا سکیں

سُنہرے اصول

1 ۔ کسی سے مت کہئیے ” تُم مجھے پسند نہیں”

2 ۔ جب تک ٹھوس وجہ نہ ہو ۔ کسی کو بُرا نہ سمجھئیے

3 ۔ خواہ کوئی اچھا ہو یا بُرا ۔ ہر ایک سے اچھا سلوک کیجئے لیکن بُرے شخص کے معاملہ میں ہوشیاری اور بُردباری سے کام لیجئے

4 ۔ کوئی بیہودہ گفتگو کرے تو زبان درازی سے نہیں ۔ سرد مہری سے اپنی ناپسندیدگی کا اُسے احساس دلایئے

5۔ جب تک تسلی سے غور نہ کر لیں ۔ کسی کی بات پر یقین نہ کیجئے

6۔ اکیلی لڑکی یا نوجوان عورت اپنے محرم کے علاوہ کسی مرد یا 12 سال سے زائد عمر کے لڑکے کو اپنے اتنا قریب آنے کا موقع نہ دے کہ وہ اُس کے جسم کو ہاتھ لگا سکے

7 ۔ اکیلی لڑکی یا نوجوان عورت اپنے محرم کے علاوہ کسی مرد یا 12 سال سے زائد عمر کے لڑکے کے ساتھ تنہا کمرے میں یا کسی الگ جگہ میں ہونے سے بچے

8 ۔ اکیلا لڑکا غیر محرم اکیلی عورت یا اپنے سے بڑی عمر کی لڑکی کے ساتھ تنہا کمرے میں یا کسی الگ جگہ میں ہونے سے بچے

توقعات یا پریشانی ؟

جب بات دسترست سے باہر ہو تو پریشانیوں سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کیجئے

دنیا کیسی ہونا چاہیئے ؟ اس کا فیصلہ آپ کے ذمّہ نہیں
دوسروں کے چال چلن اور برتاؤ کے اصول مرتّب کرنا آپ کی ذمّہ داری نہیں

کيونکہ جب دنیا آپ کے بنائے اصولوں پر نہیں چلتی تو آپ کو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے ۔

ہم لوگوں کی پریشانی کی وجہ عام طور پر یہی ہوتی ہے ۔ اِس پریشانی سے بچئیے