Category Archives: معلومات

اسرائیل ۔ حقائق کیا ہیں ؟

دورِ حاضر پروپیگنڈہ کا دور ہے اور صریح جھوٹ پر مبنی معاندانہ پروپیگنڈہ اس قدر اور اتنے شد و مد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ حقائق ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں ۔ ایسے مسلمان اور پاکستانی بھی ہیں جو اسرائیل کی دہشتگردی کو اُس کے دفاع کی جنگ کہتے ہیں

حُسنِ اتفاق کہ آدھی صدی سے زائد عرصہ سے ظُلم اور دہشتگردی کا شکار رہنے والی دونوں ریاستوں فلسطین اور جموں کشمیر سے میرے خاندان کا گہرا تعلق رہا ہے ۔ مختصر یہ کہ میں ۔ میری دو بہنیں دادا دادی اور پھوپھی جموں کشمیر سے نومبر دسمبر 1947ء میں نکالے جانے پر ہجرت کر کے پاکستان آئے اور میرے والدین مع میرے دو چھوٹے بھائیوں جن میں سے ایک 8 ماہ کا تھا نے مجبور ہو کر فلسطین سے ہجرت کی اور جنوری 1948ء میں پاکستان پہنچے ۔ چنانچہ ان دونوں علاقوں کی تاریخ کا مطالع اور ان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنا میرے لئے ایک فطری عمل تھا ۔ میں نے اس سلسلہ میں سالہا سال مطالعہ کیا ۔ جو حقائق سامنے آئے ان کو مختصر طور پر انشاء اللہ قسط وار قارئین کی نذر کرنے کا ارادہ ہے ۔ آجکل چونکہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی بے مثال دہشتگردی جاری ہے اسلئے پہلی ترجیح فلسطین کو ۔ میری اس سلسلہ وار تحریر کا ماخذ موجود تاریخی و دیگر دستاویزات ۔ انٹرنیٹ پر موجود درجن سے زائد تاریخی دستاویزات اور آدھی صدی پر محیط عرصہ میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات ہیں

اسرائیلی فوج کی دہشتگردی کی چند مثالیں
اسرائیل کا موقف ہے کہ حماس اسرائیل پر حملے کرتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 2008ء کو ختم ہونے والے 10 سال میں غزہ یا اس کے ارد گرد صرف 20 اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیلی فوج جو بیہیمانہ قتلِ عام کیا ان میں سے چند مشہور واقعات یہ ہیں

پچھلے دو ہفتوں میں 800 سے زیادہ فلسطینی جن میں بھاری اکثریت بچوں اور عورتوں کی تھی ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 3250 سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ سکول پر بمباری کی جس میں 40 مہاجرین ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد اسرائیلی بری فوج نے 100 فلسطینی ایک شیلٹر میں اکٹھے کئے اور پھر ان پر گولہ باری کر کے سب کو ہلاک کر دیا

سن 2006ء میں اس بنیاد پر کہ میں حذب اللہ نے 2 دو اسرائیلی پکڑ لئے تھے اسرائیلی نے بمباری کر کے 1000 شہری ہلاک کر دیئے ۔ اسی سال میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک گاؤں مرواہن کے رہنے والوں کو حُکم دیا کہ وہ گاؤں خالی کر دیں ۔ جب لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تو اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے قریب آ کر اُن کو براہِ راست نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں 1000 میں سوائے دو کے باقی سب ہلاک ہو گئے ۔ دو اس وجہ سے بچ گئے کہ وہ زمین پر گر کر مردہ بن گئے تھے

اسرائیل نے 1996ء میں اقوامِ متحدہ کی بیس [Base] قانا پر گولہ باری کی جس میں 106 مہاجرین ہلاک ہوئے

لبنان پر 1982ء میں حملہ کر کے 17500 فلسطینی مہاجرین ہلاک کیا جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی
اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے دو تین دنوں میں وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا

يہ تحرير ميں نے 10 جنوری 2009ء کو لکھی تھی ۔ اس کے بعد آج تک يعنی 17 ماہ ميں جو کچھ ہوا وہ شايد سب کے ذہنوں پر ہو گا

محلِ وقوع

جن صاحب نے ہیلو۔ہائے۔اےاواے ۔ A Pass By ۔ بھونچال ۔ ميرے نام اور ديگر ناموں سے پراگندہ تبصرے مختلف بلاگز پر کئے ہيں اُن کا محلِ وقوع دريافت ہو گيا ہے ۔ اگر ميں اسلام آباد ميں ہوتا تو شايد اُن تک پہنچ بھی جاتا ۔ محلِ وقوع کچھ اس طرح ہے

اسلام آباد ميں بنی گالہ کے جنوب ميں ۔ راول جھيل کے مشرق کی طرف ۔ لکھوال کے مشرق مشرق شمال کی طرف ۔ پارک روڈ بنی گالہ لِنک کے قريب مشرق کی طرف

موصوف ہائر ايجوکيشن کميشن اسلام آباد کا انٹرنيٹ استعمال کر رہے ہيں . آئی پِيز ہيں
111.68.99.198
111.68.99.208

چھٹا يومِ پيدائش

ميں نے اپنا پہلا بلاگ منافقت Hypocrisy Thy Name is . . . کے نام سے 9 ستمبر 2004ء کو انگريزی ميں شروع کيا ۔ اس پر اُردو لکھنے کی فرمائش ہوئی تو ميں نے اُردو ميں لکھنا شروع کيا مگر جو قارئين اُردو نہيں جانتے تھے نے احتجاج کيا تو ميں نے اُسے انگريزی کيلئے مختص کرتے ہوئے اُردو کيلئے 5 مئی 2005ء کو يہ بلاگ شروع کيا اور قارئين کے اسرار پر اپنے انگريزی بلاگ کا نام “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے” رکھ ديا

ميرے اس اُردو بلاگ کو شروع ہوئے آج پانچ سال ہو گئے ہيں ۔ ميں نے 5 مئی 2005ء کو اسے بلاگسپاٹ پر بنايا تھا ۔ حکومت نے بلاگسپاٹ بلاک کر ديا تو اسے 24 دسمبر 2006ء کو ورڈ پريس پر منتقل کيا ۔ پھر اُردو ٹيک والوں کی مہربانی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسے 2 اکتوبر 2007ء کو اُردو ٹيک پر منتقل کر ديا ۔ آخر 26 جولائی 2008ء کو اس بلاگ کو اپنی ڈومين پر منتقل کيا جہاں اللہ کے فضل سے آج تک چل رہا ہے ۔ جب ميں نے يہ بلاگ شروع کيا تو مجھے اُميد نہ تھی کہ میں يا ميرا يہ بلاگ پانچ سال پورے کر سکيں گے ۔ زندگی ۔ صحت اور موت اللہ کے ہاتھ ميں ہے ۔ ميں بارہا بار شکرگذار ہوں اللہ کا کہ ميں ابھی تک اس قابل ہوں کہ پڑھ رہا ہوں اور لکھ رہا ہوں

ميں نے پہلی بار اپنے اس بلاگ کے اعداد و شمار اکٹھے کئے ہيں جو کچھ اس طرح ہيں

ميرا يہ بلاگ
دنيا کی سب سے بڑی ويب سائيٹس بشمول اخبارات و بلاگز ميں 172308 ويں نمبر پر ہے
پاکستان کی سب سے بڑی ويب سائيٹس بشمول اخبارات و بلاگز ميں 2583 ويں نمبرپر ہے

ميرا يہ بلاگ
روزانہ اوسطاً 12681 بار ديکھا جاتا ہے
اور اس کا گوگل پيج رينک 3 ہے

اگر ميں اپنے اس بلاگ پر چھوٹے چھوٹے اشتہارات کی اجازت دے دوں تو روزانہ 45 امريکی ڈالر آمدن ہو سکتی ہے
ميرے اس بلاگ کی ماليت 1990313 امريکی ڈالر لگائی گئی ہے

اب تک کی تحارير ۔ 1246
اب تک کے تبصرے ۔ 7571

اس بلاگ پر ميری تحارير ميں قارئين کی دلچسپی کا کچھ اندازہ مندرجہ ذيل اعداد و شمار سے ہو سکتا ہے

ميری ايک تحرير 8021 بار ديکھی گئی ہے
ميری 3 تحارير 2000 سے 2499 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 11 تحارير 1500 سے 1999 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 5 تحارير 1000 سے 1499 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 6 تحارير 900 سے 999 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 10 تحارير 800 سے 899 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 28 تحارير 700 سے 799 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 26 تحارير 650 سے 699 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 46 تحارير 600 سے 649 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 74 تحارير 550 سے 599 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 115 تحارير 500 سے 549 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 94 تحارير 450 سے 499 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 70 تحارير 400 سے 449 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 211 تحارير 350 سے 399 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 160 تحارير 300 سے 349 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 232 تحارير 250 سے 299 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 81 تحارير 200 سے 249 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 65 تحارير 100 سے 199 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 7 تحارير 65 سے 99 بار ديکھی گئيں ہيں
65 بار سے کم ميری کوئی تحرير نہيں ديکھی گئی

آئين ؟ ؟ ؟

علامہ اقبال نے فرمايا ہے
آئينِ جواں مرداں حق گوئی و بيباکی
اللہ کے بندوں کو آتی نہيں روباہی

مگر میں بات کر رہا ہوں پاکستان کے آئين کی ۔ عرصہ سے سُنتا آيا ہوں کہ پاکستان کا آئين 1973ء تک کسی نے نہ بنایا ۔ یہ فقرہ اتنے شد و مد سے دہرایا جاتا رہا ہے کہ ہموطنوں کی اکثريت اس جھُوٹ کو سچ سمجھتی ہے

اگست 1947ء کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے قتلِ عام عورتوں اور لڑکيوں کے اغواء اور مسلمانوں کی بڑی تعداد کو پاکستان کی طرف دھکيلنے اور پاکستان کے حصے کے اثاثے ضبط کر لينے کے بعد پاکستان جن نامساعد حالات سے دوچار تھا اُن کا اندازہ آج لگانا اگر ناممکن نہيں تو بہت مشکل ضرور ہے ۔ اس کے بعد قائداعظم کی وفات اور 1951ء میں قائدِ ملت لياقت علی خان کے قتل کے بعد کی صورتِ حال اعصاب پر سوار ہونے کيلئے کافی تھی ۔ اس کے باوجود پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی نے متفقہ طور پر آئين تيار کر ليا تھا جو اسمبلی کی ايک ہی نشست ميں منظور ہو جانا تھا ۔ معمول کے مطابق پہلے آئين کی منظوری کابينہ نے دينا تھی جس کا اجلاس اُس وقت کے وزير اعظم خواجہ ناظم الدين صاحب بلايا ہی چاہتے تھے کہ غلام محمد جس کا ريموٹ کنٹرول نمعلوم کس کے پاس تھا نے وزير اعظم کو بر طرف کر ديا ۔ سردار عبدالرب نشتر صاحب کے اسے غلط اقدام کہنے پر غلام احمد نے مُنتخب کابينہ کو برطرف کر کے اپنی من پسند کابينہ نامزد کر دی ۔ آئين پر ہونے والا کام نہ رُکا تو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی ہی کو 24 اکتوبر 1954ء کو چلتا کيا ۔ کہا جاتا ہے کہ غلام محمد مرزائی تھا اور شرابی بھی تھا ۔ [اس پر اعتراض کرنے سے پہلے کراچی والے معلوم کر ليں کہ غلام محمد کی قبر کہاں ہے ۔ ميری شُنيد کے مطابق کراچی کے لوگوں نے اس کی لاش کو مسلمانوں کے قبرستان ميں دفن نہ ہونے ديا تو اُسے عيسائيوں کے قبرستان یا اس کے مضافات ميں دفن کيا گيا تھا]

کچھ عرصہ بعد آئين بنانے کا کام نئے وزيرِ اعظم چوہدری محمد علی کے ماتحت ايک کميٹی کے سپرد ہوا مگر اس کميٹی کے اراکين کا تبادلہ کبھی کہيں کبھی کہيں کيا جاتا رہا جو تاخير کا سبب بنا ۔ مسؤدے ميں کئی تبديليوں کے بعد آخر آئين 1956ء ميں منظور ہو گيا مگر 1958ء میں سب کچھ ختم کر کے مارشل لاء لگا ديا گيا

جب مشرقی پاکستان کھونے کے بعد مغربی پاکستان کی اسمبلی کا اجلاس بطور پاکستان کی اسمبلی کے ہوا تو سياستدانوں کے دباؤ پر تيسری بار آئين بنانے کام شروع کيا گيا ۔ پيپلز پارٹی کی حکومت تھی جو سيکولر جماعت تھی ۔ مسؤدہ تيار کرنے کا کام محمود علی قصوری [خورشيد محمود قصوری کے والد] کے سپرد کيا گيا جو کميونسٹ تھے ۔ پرانے مسؤدوں کو بھُلا کر نيا سيکولر مسؤدہ تيار کيا گيا ۔ اس پر بھی ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو کوئی پریشانی تھی کہ آخری دنوں میں عبدالحفيظ پيرزادہ نے اس میں رد و بدل کر کے پيش کيا ۔ اس مسؤدے کو منظور کرنے کی سب کو جلدی تھی اسلئے اس میں کئی خامياں رہ گئيں ۔ سب سے بڑی خامی يہ کہ آئين توڑنا غداری قرار ديا گيا مگر کسی کو غدار کس طرح ثابت کيا جائے گا ۔ اُسے سزا دينے کی کاروائی کون کرے گا اور کس طرح کرے گا ۔ اس کا کہيں ذکر نہيں

جنرل ضياءالحق تو بحیثيت صدر ہی مر گيا مگر پرويز مشرف کے خلاف آئين توڑنے پر آج تک کچھ اسلئے نہيں کيا گيا کہ موجودہ صورت میں يہ کام صرف حکومت کر سکتی ہے جو پی پی پی ۔ ايم کيو ايم ۔ فضل الرحمٰن کی جے يو آئی اور اے اين پی پر مشتمل ہے ۔ يہ لوگ بولنے کے شير اور عمل کے گيدڑ سے بھی کم ہيں اور انہيں مُلک و قوم سے زيادہ حکمرانی کی کرسیاں پسند ہيں جو انہيں پرويز مشرف کے طفيل ملی ہيں تو يہ کيوں اپنے پاؤں پر کُلہاڑا ماريں گے ؟

بينظير کا قتل ۔ چند حقائق

ميں نے کبھی پی پی پی کو ووٹ نہيں ديا ليکن 27 دسمبر 2007ء کو ساڑھے پانچ بجے شام مجھے اُس کے قتل کی خبر موبائل فون پر ملی تو برملا ميرے منہ سے نکلا “ظُلم ۔ ظُلم ۔ بہت بڑا ظُلم “۔ ميرے ارد گرد اجنبی لوگ ميری طرف سواليہ نظروں سے ديکھنے لگے ۔ ميں نے جب اُنہيں خبر بتائی تو اُنہوں يقين نہيں آ رہا تھا

پچھلے سوا دو سال ميں بہت کچھ پڑھا اور سنا جا چکا ہے اور اب اقوامِ متحدہ کے خاص کميشن کی رپورٹ کے کچھ حصے بھی سامنے آ چکے ہيں ۔ کميشن کی رپورٹ کے مطابق “27 دسمبر 2007ء کو کيا ہوا” پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

جو حقائق ميرے علم ميں تھے اور مجھے ابھی تک ياد ہيں

سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ميٹنگ ميں فيصلہ ہوا تھا کہ بينظير مری روڈ سے لياقت روڈ کے راستے لياقت باغ ميں داخل ہو نگی اور جلسہ ختم ہونے پر لياقت باغ سے باہر نکل کر داہنی طرف مُڑ کر آنے والے راستہ پر جانے کی بجائے بائيں طرف مُڑ کر لياقت روڈ پر سے ڈی اے وی کالج چوک سے بائيں مُڑ کر گوالمنڈی کے راستہ واپس جائيں گی ۔ مگر جب جلسہ کے بعد اُن کی گاڑی لياقت باغ سے باہر نکلی تو بائيں طرف لياقت روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھيں چنانچہ خلافِ توقع داہنی طرف مُڑنے کی وجہ سے گاڑی کو مُڑنے ميں زيادہ وقت لگا اور لوگ اکٹھے ہو گئے

لياقت روڈ کے دوسرے سرے پر راجہ بازار کے پاس ڈسٹرکٹ ہيڈ کوارٹر ہسپتال لياقت باغ سے صرف دو منٹ کی ڈرائيو پر تھا جہاں تمام عملہ عام قوانين کے تحت ہر قسم کے حالات سے نپٹنے کيلئے تيار تھا مگر اُس طرف کا راستہ بند کر ديا گيا

رحمان ملک بينظير کا سيکيورٹی ايڈوائزر تھا اور بينظير کی ملکيت اُس بُلٹ پروف گاڑی ميں سوار تھا جو کسی بھی ايمرجنسی کی صورت ميں بينظير نے استعمال کرنا تھی ۔ لياقت باغ آتے ہوئے يہ گاڑی اُس گاڑی کے پيچھے چلتی رہی جس ميں بينظير سوار تھيں مگر لياقت باغ سے واپسی پر وہ گاڑی سب سے پہلے لياقت باغ سے نکلی اور جب تک بينظير کی گاڑی لياقت باغ سے نکل کر داہنی طرف مڑ رہی تھی رحمان ملک زرداری ہاؤس ايف 8 اسلام آباد پہنچ چکا تھا

ضروری شواہد اکٹھے کئے بغير اور کسی قسم کی تفتيش کے بغير جائے وقوعہ کی دھلائی کر کے تمام نشانات مٹا ديئے گئے

پوليس مقتول کا پوسٹ مارٹم ہر صورت ميں کراتی ہے اور اس سلسلہ ميں کبھی مقتول کے ورثاء کی رائے نہيں لی جاتی مگر بينظير کا پوسٹ مارٹم کرنے کيلئے ہسپتال کے ڈاکٹر اسرار کرتے رہے مگر پوليس نے پوسٹ مارٹم نہ کرنے دیا

آصف زرداری ۔ بلاول زرداری يا پی پی پی ميں سے کسی نے اس قتل کی ايف آئی آر کٹوانے کيلئے پوليس کو درخواست نہ دی جو عمل سمجھ سے باہر ہے

پی پی پی کی حکومت بن جانے کے بعد بھی کوئی تحقيقات يا تفتيش نہ کروائی گئی

پی پی پی کی حکومت نے يہ جانتے ہوئے کہ اقوامِ متحدہ قاتل کا تعين نہيں کرتی عوام پر ٹيکس لگا کر وصول کئے گئے لاکھوں ڈالرز کے عوض تحقيقات اقوامِ متحدہ کے حوالے کیں ۔ پھر اقوامِ متحدہ کے کميشن کو متعلقہ عہديداران سے تفتيش بھی نہ کرنے دی گئی اور رپورٹ کو جلد مکمل ہونے سے روکنے کيلئے بار بار روڑے اٹکائے گئے

سوال يہ ہے کہ بينظير کو قتل کروانے والے کون ہيں ؟ حقيقت تو اللہ جانتا ہے يا قتل کروانے والے جانتے ہيں مگر حالات و واقعات تو پرويز مشرف اور آصف علی زرداری کی طرف اشارہ کرتے ہيں

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ہندسے

عصرِ حاضر میں تعلیم بہت ترقی کر چکی ہے ۔ معیار کی ضمانت کا اصول ہے کہ پیداوار جتنی زیادہ ہو گی معیار اتنا ہی گِر جائے گا ۔ کسی حد تک یہ اصول عصرِ حاضر پر بھی لاگو ہوا ہے ۔ آجکل مضامین بہت ہیں اور لوگوں کو بہت کچھ معلوم ہے لیکن عام طور پر دیکھا گیا کہ معلومات زیادہ تر سطحی ہیں

آج سے چودہ صدیاں قبل یورپ اور ملحقہ علاقوں میں رومن ہندسے مروج تھے ۔ مسلمانوں نے عربی کے اُن ہندسوں کو رواج دیا جو آجکل انگریزی میں مستعمل ہیں اور ساری دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں [1 ۔ 2 ۔ 3 ۔ 4 ۔ 5 ۔ 6 ۔ 7 ۔ 8 ۔ 9]۔ اگر یہ ہندسے رواج نہ پاتےتو نہ الجبرا اور علمِ ہِندسہ [جیومیٹری] بنتے اور نہ ہی آج کمپیوٹر ہوتا ۔ نیچے رومن ہندسے اور عربی کے ہندسوں کا تقابلی جائزہ دیکھ کر میرے متذکرہ استدلال کی تصدیق کی جا سکتی ہے

عربی گنتی کی بنیاد اعشاری نظام تھا ۔ ان پر مزید کام کرتے ہوئے ایک معروف مُسلم سائنسدان ابو عبداللہ محمد ابن موسٰی الخوارزمی نے صفر کو بھی قیمت عطا کی ۔ اکائی کے حصے اعشاریہ کی صورت ميں کئے اور ریاضی کے دو ایسے نظام وضع کئے جنہيں ايلگورتھم [algorithm] اور لوگرتھم [logrithm] کے ناموں سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔ میں مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ اس وقت زیر نظر گنتی کے ہندسے ہیں

اين جی اوز [NGOs] اور حقوقِ نسواں

پچھلے سال 2 اپريل کو برطانيہ کا گارجين اخبار اچانک  ايک وڈيو سامنے لايا کہ طالبان نے ايک 17 سالہ لڑکی کو برسرِ عام کوڑے مارے اور اس کی چيخيں نکلتی رہيں ۔ اس وڈيو کو پاکستان کے ٹی وی چينلز نے بار بار دکھايا ۔ جيو نيوز پر يہ وِڈيو ہر پانچ منٹ کےوقفہ سے سارا دن دکھائی جاتی رہی ۔ لاتعداد مذاکرے اس سلسلہ ميں منعقد کئے گئے اور طالبان کو خُوب خُوب کوسا گيا ۔ حقوقِ نسواں کی ايک نام نہاد علمبردار  ثمر من اللہ نے اس کی چیخ چيخ کر اشتہار بازی کی ۔ اسلام کے نام ليواؤں کی وحشتناکيوں کے خلاف مظاہرے ہوئے اور جلوس نکالے گئے ۔ اس سب غوغا کے نتيجہ ميں عدالتِ عظمٰی نے اس کا ازخود نوٹس لے کر تحقيقات کا حُکم دے ديا

ميں نے اس پر لکھا تو مجھ پر طنز کئے گئے ۔ آخر وہی نکلا جو ميں نے لکھا تھا ” کسی نے کہا کُتا کان لے گيا اور کُتے کے پيچھے بھاگ پڑے يہ ديکھا ہی کہ کان تو دونوں اپنی جگہ پر موجود ہيں”

تحقيقات ہوئيں مگر منظرِ عام پر آنے ميں 10 ماہ لگ گئے ۔ وڈيو کی مدد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وہ دو بچے ڈھونڈ نکالے جو موقع پر موجود تھے اور ان کی مدد سے جس شخص نے وڈيو بنائی تھی اور جس عورت کو کوڑے مارے گئے تھے انہيں بھی گرفتار کر ليا ۔ جس شخص نے يہ وڈيو بنائی تھی اُسے ايک اين جی او نے پانچ لاکھ روپے اس ڈرامہ کيلئے ديئے تھے ۔ عورت کو ايک لاکھ اور دونوں بچوں کو پچاس پچاس ہزار روپے ديئے گئے تھے

مکمل خبر يہاں کلک کر کے پڑھيئے