Category Archives: معلومات

اللہ جسے چاہے عزت دے

برطانیہ کے شہر ڈربی [Derby] سے تعلق رکھنے والے چھ سالہ مصنف بچے ليو ہنٹر [Leo Hunter] کی لکھنے کی صلاحیتوں نے اسے کئی کتابوں کی پبلشنگ کا معاہدہ دلوادیا ۔ ليو ہنٹر کا اپنے پالتو کتے کے ساتھ دوستی پر لکھاگیا چھوٹا سا ناول ” Me & My Best Friend Alsatian Kugar ” ایک امریکی فرم ” Strategic Book Publishing ” کو اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اس کے ساتھ مزید 23 ناول لکھوا کر پبلش کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے ۔ اس معاہدے کے تحت ليو ہنٹر کو اپنے 10 سے 25 صفحات پر مشتمل کتابوں کی ابتدائی فروخت کا 20 فیصد حصہ دیا جائیگا لیکن اگر کتابیں 500 سے زائد فروخت ہوئیں تو منافع کا یہ حصہ 50 فیصد تک بڑھا دیا جائیگا

بشکريہ ۔ جنگ

سيلاب ۔ تحقيق ؟

دریائے سندھ کے بہاؤ سے متعلق ميرے پاس 1922ء سے سال بہ سال کی رپورٹ ہے یہ انداز اور رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر 9 سال میں جب 4 سال خشک سالی کے ہوں تو اگلا سال بہت زیادہ سیلاب کا ہوتا ہے۔ میں نے اسی تحقیق اور مطالعے کی بناء پر حکومت سندھ کے ذمہ داروں کو گزشتہ سال سے آگاہ کرنا شروع کردیا تھالیکن کسی نے کوئی توجہ نہ دی۔ آخری خط جنوری 2010ء میں وزیراعلیٰ سندھ کو ارسال کیا ۔ صرف سندھ اسمبلی کے اسپیکر نثار کھوڑو حرکت میں آ گئے۔ انہوں نے متعلقہ وزیر اور سیکرٹری کو اور مجھے بھی بلایا۔ ایک میٹنگ میں تفیصل سے باتیں ہوئیں لیکن اس کے بعد کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پی پی پی سندھ کے سیکریٹری جنرل تاج حیدر کو بھی میں نے خط لکھا

جیکب آباد کے چاروں طرف پانی ہے۔ سڑک اور ریل کا راستہ مسدود ہے۔ سارا شہر خالی کروا لیا گیا ہے۔ صرف 5 فیصد کے قریب آبادی موجودہے جن میں، میں بھی شامل ہوں لیکن یہاں بجلی ہے نہ پینے کا پانی نہ دیگر ضروری اشیاء۔ ٹیلی فون لائن بھی بعض اوقات کئی کئی گھنٹے نہیں ملتی ہے۔ سندھ میں سیلاب سے اتنی بڑی تباہی پہلے کبھی نہیں ہوئی ہے کتنے شہر اور گاؤں ڈوب گئے ہیں یہ سراسر سندھ حکومت کی غفلت اور نااہلی کا نتیجہ ہے

انجینئر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اس کی دیکھ بھال کرے اور برسات سے پہلے اس کا باقاعدہ تفصیلی معائنہ بھی ہوتا ہے۔ اب یہ محسوس ہورہا ہے کہ اس کی دیکھ بھال کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ بجٹ تو مخصوص تھا۔ فائلوں میں پیسے خرچ بھی ہوئے ہوں گے

پانی میں گھرے جیکب آباد میں16 روز سے محصور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ، سابق وفاقی وزیر اور بلحاظِ پیشہ انجینئر الٰہی بخش سومرو صاحب سندھ کی تباہی پر انتہائی دل گرفتہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس سونے شہر میں اس لیے موجود ہوں کہ جتنے لوگ یہاں ہیں ان کی دل جوئی کر سکوں۔ حالت یہ ہے کہ واٹر پلانٹ کام نہیں کر رہا کیوں کہ اس کے اہلکاروں کو بھی شہر چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ میں یہاں اس لیے بھی بیٹھا ہوں کہ میرے شہر کے لوگوں کی دکانوں اور مال سامان کو وزیروں کے بندے لوٹ نہ سکیں

تفصيل يہاں کلک کر کے پڑھيئے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اذان اور تکبير اقامت

اذان کب دی جاتی ہے اور تکبير اقامت کب کہی جاتی ہے اور کب نہیں ؟

کہنے کو یہ بہت آسان سوال ہے مگر عصرِ حاضر میں سوائے مُستند دينی مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کے اس کا جواب بہت کم مسلمان جانتے ہیں

نماز سے قبل اذان ضروری ہے ۔ اگر نماز کا وقت ہو جانے کے باوجود اس علاقہ میں کسی جگہ بھی اذان نہ ہو ئی ہو يا کم از کم آواز نہ سُنی گئی ہو تو پہلے اذان کہہ کر پھر نماز پڑھنا چاہيئے

باجماعت نماز کيلئے تکبير اقامت ضروری ہے

مندرجہ ذيل صورتوں ميں نہ اذان کہی جائے گی اور نہ تکبير اقامت

مسجد ميں کچھ لوگ نماز پڑھی جانے کے بعد پہنچیں اور باجماعت نماز پڑھيں
مسجد ميں کچھ لوگ کسی شرعی مجبوری کی وجہ سے مثال کے طور پر مسافر مقررہ وقت سے پہلے باجماعت نماز پڑھيں
مسجد کے علاوہ کوئی بھی جگہ جہاں باجماعت نماز ادا کر دی گئی ہو

مزيد
مسجد میں جہاں معمول کے امام کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے ہیں دوسری جماعت میں شامل نمازيوں کے امام وہاں کھڑے نہیں ہوں گے بلکہ کم از کم ايک صف پيچھے کھڑے ہوں گے

میں نے دينی مدرسہ ميں تعليم حاصل نہيں کی
اگر کسی قاری کو متذکرہ بالا بيان سے اختلاف ہو یا کوئی بات لکھنا رہ گئی ہو تو ميری رہنمائی فرمائيں

سيلاب زدگان کی امداد

ميں ويب گردی کر رہا تھا کہ سيلاب زدگان کی امداد کا جائزہ لوں ۔ مجھے صرف ايک سرکاری ويب سائٹ ملی ہے جو حکومتِ پنجاب کی ہے ۔جس کے مطابق

اب تک موصول ہو نے والی امداد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 191710000 روپے
خيموں کی کُل تعداد جو مطلوب ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100000
جتنے خيمے متاءثرين کيلئے بھيج ديئے گئے ہيں ۔ ۔ ۔ 26538

اس ميں ايسے افراد اور جماعتوں کيلئے رہنمائی موجود جو کچھ کرنا چاہتے ہيں ۔ مثال کہ طور پر

اگر آپ ريسکيو يا کسی قسم کی مدد چاہتے ہيں
يا
جو ريليف کا کام آپ کر رہے ہيں اس ميں کسی قسم کی مدد يا سہولت چاہتے ہيں
تو مندرجہ ذيل نمبر پر ٹيليفوں کيجئے

1124

اگر آپ اين جی او ہيں اور امداد پہنچانے کيلئے معلومات حاصل کرنا چاہتے ہيں يا تجاويز دينا چاہتے ہيں
يا
آپ رضاکارانہ طور پر امدادی کام ميں حصہ لينا چاہتے ہيں
يا
آپ ايک ريليف کيمپ يا ڈسٹريبيوشن سينٹر اپنانا چاہتے ہيں
تو
مندرجہ ذيل پتہ يا ٹيليفون يا فيکس پر رابطہ کيجئے

ريليف اينڈ کرائسس منيجمنٹ ڈيپارٹمنٹ ۔ 8/48 ۔ لارنس روڈ ۔ لاہور

ٹيليفون نمبر ۔ لاہور کا کوڈ ہے 042
99204408
99204404
99204403

فيکس نمبر
99204405
99204439

ريليف کنٹرول سينٹر
99200549
99201253

پوليس کنٹرول روم ۔ [ان نمبروں پر غير ممالک سے سکائپ کے ذريعہ بات کی جا سکتی ہے]
+92-42-9211879 begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting
+92-42-9211880

مزيد تفصيل کيلئے يہاں کلِک کيجئے

کيا کريں ؟ کيسے کريں ؟

جب سے سيلاب زدگان کی مدد کے متعلق بات شروع ہوئی ہے ” کيا کريں ؟ کيسے کريں ؟ ” کافی سننے ميں آيا ۔ دريں اثنا مجھے ايک قول ياد آيا ” تعليمی سند اس بات کا اشارہ ہے کہ اب عملی زندگی ميں قدم رکھا جا سکتا ہے”

يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ تجربہ کا کوئی نعم البدل نہيں ۔ مثال کے طور پر ايک آدمی تيراکی کے جتنے بھی تحريری امتحان پاس کر لے جب تک پانی ميں ڈبکی نہيں لگائے گا تيرنا نہيں سيکھ سکتا ۔ آج ہم جن لوگوں کو سائنس کا اُستاد مانتے ہيں اُنہوں نے يہ مقام اسناد کی وجہ سے حاصل نہيں کيا تھا بلکہ يہ مقام اُنہوں نے محنت اور تجربے سے حاصل کيا

چنانچہ بجائے فلسفہ شروع کرنے کے بہتر ہو گا کہ جو تجربہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی توفيق اور اللہ ہی کی رہنمائی سے ہميں اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کے بعد امداد کے سلسلہ ميں حاصل ہوا اور اب سيلاب زدگان کی امداد کيلئے اسے اللہ کے فضل سے بخير و خُوبی استعمال کيا جا رہا ہے بيان کيا جائے

زلزلہ کی تباہی کے بعد ہم نے امداد کی پہلی کھيپ انجمن ہلالِ احمر کے حوالے کی ۔ دو دن گذرنے کے بعد بھی کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ امداد بھيجی بھی گئی ہے کہ نہيں ۔ امداد کا حجم ايک ٹرک سے زيادہ ہونے کے باعث کسی کونے کھدرے ميں تو چھپ نہيں سکتی تھی

اس کے بعد ہمارے علم ميں آيا کہ جامعہ فريديہ اسلام آباد والے بندوبست کر رہے ہيں ۔ ميں نے لال مسجد جاکر حالات معلوم کئے ۔ اُنہوں نے کہا ” وہاں نہ چولہا ہے نہ ديگچی نہ رکابی نہ پيالہ ۔ اسلئے بھنے ہوئے چنے ۔ کھجوريں ۔ چھوہارے ۔ بسکٹ وغيرہ کا بندوبست کريں ۔ دوسرے دن مجھ سے چھوٹا بھائی ايک سوزوکی پک اپ بھر کر لال مسجد پہنچا ۔ ميں کار ميں براہِ راست وہاں پہنچا ۔ يک دم جامعہ فريديہ کے چند اساتذہ اور طلباء آ گئے اور بورياں اُٹھا کر لے گئے ۔ آخری بوری مرحوم عبدالرشيد غازی نے اٹھائی تھی ۔ يہ عبدالرشيد غازی صاحب سے ميری دوسری اور آخری ملاقات تھی

دوسرے دن معلوم کيا تو وہ لوگ خود سوچ ميں پڑے تھے کہ خالی ٹرک واپس کيوں نہ آيا ۔ انہوں نے تين ٹرک اور بھيجے اور ساتھ ايک ايسے آدمی کو بھيجا جس کے پاس موبائل فون تھا ۔ اس نے بھی رات تک رابطہ نہ کيا ۔ اگلے دن اس کا فون آيا کہ متاثرہ علاقے تک جا نہيں سکتے اور نہ وہاں موبائل کام کرتا ہے کيونکہ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے ۔ وہ واپس مانسہرہ شہر آ کر ٹيليفون کر رہا ہے ۔ اس نے بتايا کہ ٹرک کھڑے کر کے سامان کندھوں پر لاد کر ميلوں پيدل چل کے پہنچايا جا رہا ہے

اس پر ہم لوگوں نے سوچا کہ کيوں نا ہم خود ايک ايسی جماعت تشکيل ديں جس ميں کندھوں پر سامان رکھ کر پہنچانے والے بھی ہوں اور کم از کم ايک آدمی ايسا شامل ہو جو علاقہ سے اچھی طرح واقف ہو ۔ مينجمنٹ ميرے سب سے چھوٹے بھائی جو راولپنڈی ميڈيکل کالج ميں پروفيسر اور ڈسٹرکٹ ہيڈکوارٹر ہسپتال راولپنڈی ميں سرجری يونٹ کا سربراہ ہے نے اپنے ذمہ لی ۔ تين دنوں ميں خيموں ۔ لوہے کی چادروں ۔ پينے کے پانی سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے 10 لٹر والے کينوں اور کھانے کا خشک سامان سے لدے تين ٹرک تيار ہو گئے اور ميرا بھائی اپنی کار پر قافلے کی کمان کرتا ہوا روانہ ہوا ۔ ايک پک اپ ميں چند لوگ آگے بھيج ديئے کہ جا کر صورتِ حال کا جائزہ لے کر امدادی سامان کا خيال رکھتے ہوئے متاثرين کے ناموں کے ساتھ فہرست تيار کر ليں کہ کس کی کيا ضروت ہے ؟ اور انہيں بتا ديں کہ انہيں کوئی تکليف کرنے کی ضرورت نہيں ۔ جہاں وہ بيٹھے ہيں وہيں انہيں مطلوبہ چيزیں مل جائيں گی جو فی الحال تھوڑی ہيں بعد ميں اِن شاء اللہ اور آ جائيں گی

ٹرک جہاں تک جا سکتے تھے گئے ۔ وہاں پہلے بھيجے گئے نمائندوں ميں سے ايک آدمی اپنی پک اپ کی بجائے ايک بڑی پک اور اس کے ڈرائيور کے ساتھ کھڑا تھا جو علاقہ سے اچھی طرح واقف اور ماہر ڈرائيور تھا ۔ اس پک اپ والے نے کہا کہ “صرف ڈيزل آپ ڈلواتے رہيں ميں مزدوری نہيں لوں گا”۔ اسے جذبہ کہا جاتا ہے ۔ ميرا بھائی پک اپ پر پہلے پھيرے ميں گيا ۔ سامان پک اپ پر لاد کر دو دن ليجاتے رہے کيونکہ راستے ختم ہو چکے تھے پہاڑ کے اوپر نيچے جان ہتھيلی پر رکھے ہوئے سفر کرتے رہے

وہاں اپنا آدمی فہرست کے ساتھ موجود تھا وہ پک اپ کا سامان ديکھ کر بتاتا جاتا کہ يہ فلاں کو دے ديں يہ فلاں کو ۔ اگر کوئی از خود سامان لينے آگے بڑھتا تو اسے نہائت تحمل سے کہا جاتا کہ “جن کے نام لکھے گئے ہيں ان سب کو ملے گا ۔ صرف اپنا سامان اٹھانے ميں آپ ہماری مدد کر سکتے ہيں”

تيسرے دن ان کی واپسی ہوئی ۔ اس کے بعد ايک ايک ہفتہ کے وقفہ سے مزيد دو پھيرے لگائے گئے جن ميں ايک بار ميرا دوسرا بھائی بھی ساتھ گيا اور ايک بار ميری بھابھی بھی ساتھ گئيں تاکہ عورتوں کی مخصوص بيماريوں کے سلسلہ ميں ان کا معائنہ کر سکيں ۔ وہ ڈاکٹر ہيں ۔ مردوں اور عورتوں کی عام بيماريوں کے سلسہ ميں ميرا بھائی ہی انہيں ديکھتا رہا

اللہ کی مہربانی سے سيلاب کے سلسہ ميں بھی متذکرہ بالا تجربہ دہرايا گيا ہے اور کسی قسم کی بھيڑ چال نہيں ہوئی ۔ سب نے بڑے تحمل کے ساتھ سامان وصول کيا

زلزلہ کے سلسلہ ميں راستہ بہت دشوار گزار ہو گيا تھا اور وہاں فوری طور پر عارضی گھر بنانے کی ضرورت تھی کيونکہ ٹھنڈا علاقہ تھا اور موسم بھی سرد تھا ۔ سيلاب کے اثر سے راستہ زيرِ آب ہو گيا ہے اور پک اپ کی بجائے کشتی سے کام لينا پڑتا ہے

امدادی اداروں کے متعلق استفسار کيا جاتا ہے ۔ زلزلہ کے بعد سب سے زيادہ اور محنت سے امدادی کام ان لوگوں نے کيا جہنيں ہماری حکومت اور بہت سے ہموطن انتہاء پسند کہتے ہيں ۔سب سے آگے جماعت الدعوہ اس کے بعد جماعت اسلامی کا الخدمت ۔ چھوٹی چھوٹی جماعتيں مثال کے طور پر الشمس ۔ البدر ۔ اور ہم جيسے لوگوں نے بھی حصہ ڈالا

اب سيلاب ميں سب سے آگے پاکستان کے فوجی ہيں پھر وہی لوگ پيش پيش ہيں جنہيں انتہاء پسند کہا جاتا ہے اور ہم جيسے لوگ اپنی ہمت کے مطابق کام کر رہے ہيں ۔ رفاہی اداروں ميں جماعتِ اسلامی کا الخدمت اور فلاحِ انسانيت قابلِ ذکر ہيں

اگر لوگ باجماعت ہو کر مربوط طريقہ سے خود جا کر امداد کريں تو اس سے جو لُطف اور اطمينان حاصل ہو گا وہ کرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا اور اس کا اجر بھی سب سے زيادہ ہے

ايک درخواست ہے کہ متاءثرين کی بھاری تعداد کھاتے پيتے لوگ تھے ۔ از راہِ کرم اُنہيں پرانے کپڑے دے کر ان کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کيجئے ۔ زلزلہ کے بعد پرانے کپڑے پہنچانے سے نہ صرف متاءثرين کی عزتِ نفس اتنی مجروح ہوئی کہ زيادہ تر لوگوں نے آنسو بہاتے ہوئے لينے سے انکار کرديا بلکہ ڈھيروں کے ڈھير کپڑے ضائع ہوئے

سيلاب ۔ امداد کا حُجم اور انتظامات

ذيل ميں سيلاب سے متاءثرين کيلئے درکار مدد اور حکومت پاکستان کے انتظامات کا خاکہ نقل کر رہا ہوں
اللہ متاءثرين کی مدد فرمائے

اقوام متحدہ کے امدادی پروگرام کے ترجمان موریزیو گیلانیو نے گزشتہ روز اسلام آباد بین الاقوامی میڈیا کو سیلاب کی صورتحال سے پیدا شدہ مسائل کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پانی سے پھیلنے والے امراض باعث تشویش ہیں ۔ ان حالات سے ہر ممکن طریقے سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس نے کہا ہے کہ
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی سے جنم لینے والے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں
اموات کی نئی لہر سامنے آسکتی ہے جسے روکنا سب سے اہم ہے
پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے 60 لاکھ زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں
ٹائیفائڈ، ہیپاٹائٹس اے اور ای ان علاقوں میں پھیل سکتے ہیں
35 لاکھ بچوں کی زندگی کو سنگین خطرہ ہے
اس وقت اسہال اور ممکنہ طور پر ہیضے کے نتیجے میں ہونیوالی ہلاکتوں کو روکنا ہو گا
عالمی ادارہ صحت ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو امداد فراہم کرنے کیلئے تیار ہے
تاہم حکومت پاکستان نے ابھی تک کسی کیس کی تصدیق نہیں کی

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آفس کی ترجمان ایلزبتھ بائرز نے بتایا کہ
عالمی سطح پر پاکستان کی خراب ساکھ کے باعث سیلاب زدگان کی امداد کیلئے ریلیف پہنچانے والی ایجنسیوں کو فنڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ ہم نے اکثر یہ بات نوٹ کی ہے کہ مغربی رائے عامہ میں پاکستان کی ساکھ خراب ہے جس کے نتیجے میں پاکستان یمن کی طرح ان ممالک میں شامل ہے جن میں سرمایہ کاری بہت کم کی جاتی ہے

ہومنٹیرین گروپ کئیر انٹرنیشنل [humanitarian group CARE International] کی ترجمان میلانی بروکس نے کہا کہ
اقوام متحدہ کو امداد دینے والی ریاستوں پر واضح کرنا ہوگا کہ ملنے والی امداد طالبان کے ہاتھوں میں نہیں جارہی۔ اقوام متحدہ کو بتانا ہوگا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کسان ، خواتین ، بچے اور غریب ہیں لیکن بد قسمتی سے ماضی میں پاکستان کو تعلق طالبان اور دہشت گردی سے ہی جوڑا جاتا رہا ہے
دیہی علاقوں کی تعمیر نو ، انفراسٹرکچر اور فصلوں کی تباہی سے ہونیوالے نقصان کو پورا کرنے کیلئے کھربوں روپے کی ضرورت ہوگی

حکومتِ پاکستان کے انتظام کی حالت روزانہ نجی ٹی وی چينل پر جو پيش کی جا رہی ہے اس کے علاوہ دی نيوز کے مطابق

نواز شریف کے ہمرا ہ اسلام آبا د میں بروز ہفتہ 14 اگست 2010ء کو کی گئی مشترکہ کانفرنس میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سیلاب ریلیف فنڈ کو کنٹرول کرنے اور اس کے اخراجات کو مانیٹر کرنے کے لئے آزاد کمیشن کے قیام کے سلسل میں 3 ناموں کا اعلان کیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ان اشخاص سے مشاورت کے بعد کميشن کے نام سامنے لائے جائینگے ۔ وہ 3 نام جن کا وزیراعظم نے اعلان کیا جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم ، جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد اور جسٹس (ر) رانا بھگوان داس ہیں جنہوں نے رابطہ کرن پر بتايا ہے کہ حکومت نے ابھی تک ان سے رابطہ نہيں کيا

مسلم لیگ ن میں موجود ذرائع نے بتایا کہ وزر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نواز شریف کے ہونے والی ملاقات کے دوران مذکورہ ناموں پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا اور دونوں رہنماؤں کو اس امر پر اتفاق ہوا تھا کہ کمیشن کا جتنی جلدی ممکن ہو سکے اعلان کر دیا جائے۔مسلم لیگ ن کو امید تھی کہ حکومت کی جانب سے کمیشن کا پیر تک اعلان کر دیا جائے گا۔ اسحق ڈار سے کہا گیا ہے کہ وہ کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے حکومت سے مسلسل رابطے میں رہیں

مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ دیگر کو بھی کمیشن کی تشکیل کیلئے ایگزیکٹیو آرڈر یا صدارتی آرڈیننس کا انتظا ر ہے تاکہ کمیشن کام کا آغاز کرے

خیا ل کیا جا رہا ہے کہ کمیشن کیلئے جن نامور اور اہم شخصیات کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے وہ کمیشن کا حصہ نہیں بنیں اگر حکومت نے صرف ان کے ناموں کو فنڈ جمع کرنے کیلئے استعمال کیا اور ان کو فنڈز کے استعمال کی اجازت نہ دی اگر ان افراد کو کرپشن روکنے اور شفّافیت برقرار رکھنے کا اختیار نہ ہوا تو بھی یہ مجوزہ کمیشن میں شامل نہیں ہو نگے

امريکا کی دہشتگردی ۔ مزيد معلومات

ميں نے کل امريکا کی پہلی دہشتگری کے عنوان کے تحت لکھا تھا اس پر عرصہ دراز سے جاپان ميں رہائشی ياسر صاحب اور ابو احمد صاحب نے مزيد معلومات فراہم کی ہيں جو نقل کر رہا ہوں

ياسر صاحب لکھتے ہيں
دھماکے کے بعد کالی بارش بھی ہوئی۔
چھ سے دس کلومیٹر سے زیادہ کاعلاقہ اس سےمتاثر ہوا جس کے متاثرین ابھی تک عدالت میں جا رھے ہیں کہ حکومت کے ریکارڈ میں اپنے آپ کو تابکاری کے متاثرین میں شامل کروایں۔ ان کے مطابق ان کی اولاد میں بھی اس تابکاری کے اثرات ہیں۔
جسے گلے کا کینسر وغیرہ۔

ابو احمد صاحب لکھتے ہيں
محترم افتخار اجمل صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سب سے پہلے سال گرہ مبارک!!!! اللہ کرے کہ آپ اچھی صحت، عافیت اور خوشیوں کے ساتھ تا دیر زندہ و سلامت رہیں۔
جاپان پر امریکی دہشت گردی پر آپ کی یہ پوسٹ خاصی معلومات افزا اور فکر انگیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہہ اس سوپر پاور ریاست کی بنیادوں میں ہی ظلم، ناانصافی، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری شامل ہے۔ گوروں نے اس پر قبضہ کرنے کے لیے کروڑوں کی تعداد میں اصل امریکی باشندوں (ریڈ انڈینز) کا قتلِ عام کیا۔ اور تو اور ان اصل باشندوں کوبغیر جنگ کے بھوکا مارنے کے لیے کروڑوں بے زبان جنگلی بھینسے (bisons) شوٹ کرے کے انھیں گلنے سڑنے کو چھوڑ دیا۔ صرف اس لیے کہ انھی بھینسوں گوشت اور کھال وغیرہ پر ان نہتے ریڈ انڈنیز کا گزارا تھا۔
پھر افریقہ سے لاکھوں آزاد لوگوں، (زیادہ تر مسلمان قبائل) کو غلام بنا کر امریکہ لایا گیا اور ان سے جانوروں کی طرح مشقت لے کر اس ملک کی معاشی بنیادیں کھڑی کی گئیں۔
میرا خیال ہے کہ چھے اگست کا سانحہ امریکیوں کی اولین دہشت گردی نہ تھا۔ اس کا سلسلہ امریکہ کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی شروع ہو گیا تھا اور اب تک جاری ہے۔ امریکہ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بلا مبالغہ درجنوں ملکوں پر حملہ اور قبضہ کیا ہے۔ جنوبی امریکہ تو کل تک ان کا محفوظ پچھواڑا سمجھا جاتا رہا تھا، اس سلسلے میں امریکیوں نے منرو ڈاکٹرن بھی جاری کر رکھی تھی۔ یہ تو حال ہی میں لاطینی امریکی ملکوں میں جمہوری انقلابوں کے ذریعے امریکہ تسلط کے خاتمے کی شروعات ہو رہی ہیں ورنہ ان ملکوں میں امریکہ مخالف حکومتوں کا قیام اور استحکام ناممکن رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ نے وہاں پنوشے جیسے ڈکٹیٹروں کی خوب پشت پناہی کی۔
امریکہ کی عالمی دہشت گردی کی تاریخ کے حوالے سے کافی مواد اب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔
بہرحال میرا اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا اصلاً کوئی ارادہ نہ تھا۔ دراصل میں نے چند ہی روز قبل سرزمینِ بلاگستان پرایک قاری کی حیثیت سے قدم رکھا ہے اور یہ جان کر کافی مایوسی اور افسوس ہوا کہ سارے نہیں تو بہت سے پاکستانی بلاگر بھائی بہن اس وطنِ عزیز اور اس کے بنیادی نظریے سے یا تو نا بلد ہیں ، یا بوجوہ اس سے صرف نظر فرماتے ہوئے غیروں کے پراپیگنڈے کی جگالی کرنے میں مصروف ہیں۔
اسلام کو حیلے بہانوںسے دورِ حاضر میں ناقابلِ عمل قراد دینا ان میں سے بعض کا مطمحِ نظر لگتا ہے۔ سیکولرزم، لبرلزم اور نیشنلزم کے لبادوں میں یہ لوگ در اصل امریکہ ایجنڈے کو ہی بڑھاوا دے رہے ہیں اور نتائج سے بے پروا ہو کر اُسی شاخ پر آرا چلا رہے ہیں جس پر خود بیٹھے ہیں۔ ایسے میں آپ جیسے بزرگوں کا دم مجھے غنیمت لگا، جو اس نام نہاد ترقی کے دور میں بھی چودہ سو سال پہلے نازل ہونے والے دینِ حق وانصاف و عدل کی بات کرتے ہیں۔ جو نام نہاد جدیدیت (در اصل مغربیت) کی آندھیوں کے مقابلے میں اسلامی مشرقی اقدار کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ بقولِ حضرت اقبال
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
میں پاکستان کی دوسری نسل سے تعلق رکھتا ہوں۔قیام ِ پاکستان کے وقت بھارت میں عرصہ حیات تنگ ہونے پر میرے ماں باپ نے اپنے والدین کے ساتھ خون کی ندیاں پار کر کے سرزمینِ پاک پر قدم رکھا۔جو دل خراش کہانیاں ان سے سننے کو ملیں ان کی وجہ سے ہم جیسے گئے گزرے دنیا پرستوں کے دلوں میں بھی اپنی اصل اقدار اور وطنِ عزیز سے محبت کا کم از کم ایک چھوٹا سا ذرہ ضرور موجود ہے۔(عمل کا خانہ بھلے صفر ہی ہے)۔ اس بنا پر جہاں سے بھی ہمیں آوازِ دوست یا بوئے جوئے مولیاں آتی ہے اس طرف طبیعت ضرور لپکتی ہے۔ آپ کے صفحے پر آمد بھی اسی باعث ہوئی۔ ابھی تک مجھے آپ کے جیسا کوئی اور مخلص بلاگر نظر نہیں آیا۔ یقیناً اور بھی بہت سے دین و وطن دوست اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہوں گے اور شاید ابھی میری ان تک میری رسائی نہیں ہو سکی۔ اس سلسلے میں بھی آپ کی رہنمائی چاہوں گا۔ فی الحال میری طرف سےان سب کو یہ پیامِ محبت دے دیجئے
بہ آں گروہ کہ از ساغرِ وفا مستند
سلامِ ما برسانید ، ہر کُجا ہستند
آخر میں ایک بار پھر آپ کی صحت ، عافیت ، درازی عمر اور نیکیوں کی قبولیت کی دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔