Category Archives: معلومات

تقسیم قائد اعظم کی خواہش تھی یا مجبوری ؟

لارڈ کلائيو سے لے کر 1947ء تک جتنے وائسرائے کا انتخاب ہوا وہ ہندوستان ميں سربراہ مملکت کی حيثيت سے آتے تھے ۔ ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلہ پر ذمہ داری قبول کرنے کی 3 شرائط پيش کيں ۔ 1 ۔ اپنی پسند کا اسٹاف ۔ 2 ۔ جی 130 کا وہ ہوائی جہاز جو جنگ کے دوران برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زير استعمال تھا ۔ 3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات ۔ کليمنٹ ايٹلی نے پہلی دونوں شرائط کو بے چوں و چرا منظور کرليا ليکن تيسری پر استعجاب سے کہا ”کیا یہ شہنشاہ معظم کے اختیار میں مداخلت نہیں ہو گی؟(Would it not be an encroachment on H.M Government ?)” ماؤنٹ بيٹن نے کہا يہ ناگزير ہے، چونکہ مقصود يہ تھا کہ ماؤنٹ بيٹن ہندوستانی ليڈروں سے گفت و شنيد کرکے ہر فيصلے کے لئے برطانيہ آئے تو يہ مشکل مرحلہ ہوتا اس لئے کليمنٹ ايٹلی نے ايک سرد آہ بھری اور اسے بھی تسليم کرليا ۔

21مارچ 1947ء کو ماؤنٹ بيٹن بحيثيت آخری وائسرائے نئي دہلي پہنچا ۔ آئی سی ايس افسران ميں کرشنا مينن پہلا سول افسر تھا جسے ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے اپنا مشير مقرر کيا ۔ کرشنا مينن بڑا گھاگ، فطين اور اُلجھے ہوئے مسائل کا حل کرنے والا افسر تھا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھے جبکہ مہاراجہ جموں کشمير کے پاکستان سے الحاق کے بارے ميں بيان دے چکے تھے اور کرشنا مينن کے مشورے پر ہی کشمير ميں فوج کشی کی گئی تھی

انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے دونوں کو تھی (یعنی انگریزوں اور ہندوؤں کو)۔ کیونکہ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا ۔ ماؤنٹ بيٹن نے سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کي اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے ہوئی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا ۔ جواہر لال نہرو نے کہا ”مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے ۔ لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتي ہے“۔ نہرو جب رخصت ہونے لگے تو ماؤنٹ بيٹن نے کہا ”پنڈت نہرو آپ مجھے برطانيہ کا وہ آخری وائسرائے نہ سمجھيں جو اقتدار کے خاتمے کے لئے آيا ہے بلکہ ہندوستان کی تعمير و ترقي کے علمبرداروں ميں ميرا شمار کيجئے“۔ پنڈت نہرو مسکرائے اور کہا ”لوگ جو کہتے ہيں کہ آپ کے پاس جادو ہے تو واقعی آج ثابت ہوگيا“۔

ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ”آپ تو اُن سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے اُن کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی“۔

لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر ہم سے اکثر يہ سوال کرتے ہيں کہ آپ اور آپ کے بزرگوں نے يہ پاکستان کيوں بنايا تھا؟ اگر يہاں يہي سب کچھ ہونا تھا تو اس سے تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے ۔ اصل بات يہ ہے کہ لوگوں کو تاريخ کا علم نہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ قائد اعظم تو متحدہ ہندوستان کے لئے راضی ہوگئے تھے ۔ امپیرئل ہوٹل ميں کونسل مسلم ليگ کے اجلاس ميں مولانا حسرت موہانی نے قائد اعظم پر کھل کر نکتہ چينی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”کيبنٹ مشن نے ہندوستان کو تين حصوں ميں تقسيم کيا ہے (1)بنگال آسام زون (2)پنجاب سندھ بلوچستان صوبہ سرحد زون (3)باقيماندہ ہندوستان زون”۔

کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
کيبنٹ مشن کے سيکرٹری وُڈ رَووِیئٹ (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ”مسٹر جناح ۔ کیا یہ عظیم تر پاکستان کی طرف قدم نہیں ؟ (Mr. Jinnah is it not a step forward for a greater Pakistan?) ۔ قائد اعظم نے کہا ”بالکل ۔ آپ درست سمجھے ہیں (Exactly you have taken the point)“

آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا ”رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال آسام پنجاب سندھ بلوچستان صوبہ سرحد”۔ صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی 1947ء کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے

مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنيف INDIA WINS FREEDOMکے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں ”اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے“۔ کيونکہ اُنہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک کہا ہے کہ ”دس سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا موقف مضبوط تھا“۔ مولانا ابوالکلام آزاد ممتاز عالم دين ہيں، صاحب نسبت بزرگ ہيں، علم و فضل ميں يکتائے روزگار ہيں ليکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندو کانگريس کی تنگ نظری اور تعصب کو سمجھنے ميں غلطی کر بيٹھے

ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے يہ گل کھلائے کہ کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کيا ۔ لاہور کے ايک معروف وکيل نے جو تجزيہ کار بھی ہيں، ايک ٹی وی پروگرام ميں معروف تجزيہ نگار ڈاکٹر جميل جالبی سے پوچھا تھا ”ڈاکٹر صاحب ۔ آپ پاکستان کيوں آئے؟“ ڈاکٹر جميل جالبی نے جواب ديا ”ہم نے پاکستان بنايا ۔ ہم تو اپنے گھر ميں آئے ہيں“۔

ميڈيا سے ميری درخواست ہے کہ تاريخ پاکستان کو زيادہ سے زيادہ روشناس کرائيں ۔ محرکات تحريک پاکستان استحکام پاکستان کا موجب بنيں گے

تحریر ۔ سعید صدیقی (جو پاکستان بننے سے قبل حکومت کے ایک عہدیدار تھے اور اعلٰی سطح کی میٹنگز میں شریک ہوتے تھے)

کونسی جماعت زیادہ مقبول ہے ؟

معروف ادارے انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹیٹیوٹ کے سروے کے مطابق صورتِ حال کچھ یوں ہے

فروری مارچ 2012 ۔ پیپلز پارٹی ۔ مسلم لیگ ن ۔ تحریکِ انصاف ۔ ایم کیو ایم ۔ اے این پی ۔ جمعیت فضل ۔ بی این پی
قومی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 16 فیصد ۔ ۔ ۔ 27 فیصد ۔ ۔ ۔ 31 فیصد
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ 41 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 33 فیصد
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 فیصد ۔ ۔ ۔ 6 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 15 فیصد ۔ ۔ ۔ 9 فیصد
خیبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 8 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 49 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13 فیصد
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 11 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 35 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 6 فیصد

جولائی اگست 2012 ۔ پیپلز پارٹی ۔ مسلم لیگ ن ۔ تحریکِ انصاف ۔ ایم کیو ایم ۔ اے این پی ۔ جمعیت فضل ۔ بی این پی
قومی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 فیصد ۔ ۔ ۔ 28 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 25 فیصد
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 7 فیصد ۔ ۔ ۔ 43 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 27 فیصد

سوچتا ہوں ۔ ۔ ۔

جب اعداد و شمار دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں سوچتا ہی رہتا ہوں
کیا کوئی سیاسی سونامی آ کر
لے جائے گا اس گند کو بہا کر
یا اس بے ہنگم لُوٹ کا ختم ہونا
ہے صرف قیامت کا برپا ہونا

میں لکھ چکا ہوں کہ صرف ایک سال میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کی 9 ارب روپے کی گیس چوری یا ناقص پائیپوں سے خارج ہوئی اور یہ نقصان بے قصور صارفین کے بل بڑھا کر پورا کیا جاتا ہے ۔ سوئی سدرن والے ”سمجھدار“ ہیں وہ اپنے اعداد و شمار کو ہوا نہیں لگنے دیتے ۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے اعداد و شمار ہوشرُبا ہیں

ایسے وقت کہ جب سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیاں بڑھے ہوئے نرخوں کو مزید بڑھانے پر زور دے رہی ہیں ، مُسلم لیگ ن کی رُکن قومی اسمبلی شریں ارشد خان کے مطالبے پر پیر 3 ستمبر کو وزیر اعظم کے مشیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین نے قومی اسمبلی میں ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق 313 کمپنیوں اور اداروں میں سے ہر ایک سوئی سدرن یا سوئی نادرن کا کم از کم ایک کروڑ روپے کا نا دہندہ ہے ۔ ان میں بڑی نجی انڈسٹریل کمپنیاں ۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں ۔ سی این جی سٹیشنز ۔پاکستان ریلوے ۔ فوج کے ماتحت ادارے ۔ واپڈا ۔ پارلیمنٹ ہاؤس وغیرہ شامل ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل صرف 41 ادارے اور کمپنیاں 75 ارب 81 کروڑ 19 لاکھ 45 ہزار روپے کے نا دہندہ ہیں

پاکستان ریلوے ۔ 11 کروڑ 20 لاکھ 91 ہزار روپے
پاکستان سٹیل ۔ 8 ارب 78 کروڑ 21 لاکھ 83 ہزار روپے
پاکستان سٹیل ٹاؤنشپ ڈیپارٹمنٹ ۔ ایک کروڑ 74 لاکھ 69 ہزار روپے
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ۔ 4141 ارب 80 کروڑ 51 لاکھ 33 ہزار روپے
کے ای ایس سی / کے ٹی پی ایس رہائشی کمپلیکس ۔ 3 کروڑ 67 لاکھ 86 ہزار
واپڈا (جامشورو ۔ کوٹری ۔ سکھر ۔ کوئٹہ) ۔ 2222 ارب 2 کروڑ 39 لاکھ 87 ہزار روپے
سینٹرل جیل کراچی ۔ 2 کروڑ 82 لاکھ 63 ہزار روپے
سینٹرل جیل حیدر آباد ۔ ایک کروڑ 41 لاکھ 72 ہزار
ڈپٹی ڈائریکٹر مکینیکل ڈویژن ۔ 1 سی ڈی اے برائے وزیر اعظم سیکرٹیریئٹ ۔ اسلام آباد ۔ 2 کروڑ 56 لاکھ 35 ہزار روپے
ڈپٹی ڈائریکٹر ایئر کنڈیشننگ ۔ سی ڈی اے سیکرٹیریئٹ بلڈنگ ایم بلاک ۔ اسلام آباد ۔ ایک کروڑ 5 لاکھ 80 ہزار
اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجیئر ۔ سٹور ورکشاپ انجنیئرنگ ڈویژن پاک پی ڈبلیو ڈی ۔ اسلام آباد ۔ ایک کروڑ 67 لاکھ 80 ہزار روپے
پولیس ٹریننگ کالج سہالا ۔ اسلام آباد ۔ 2 کروڑ 75 لاکھ 85 ہزار روپے
ای اینڈ ایم مینٹننس ڈویژن ۔ سی ڈی اے برائے پارلیمنٹ ہاؤس ۔ اسلام آباد ۔ 5 کروڑ 68 لاکھ 28 ہزار روپے
ای اینڈ ایم مینٹننس ڈویژن ۔ پارلیمنٹ ہاؤس ۔ اسلام آباد ۔ 4 کروڑ 48 لاکھ 45 ہزار روپے

ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ 3 کروڑ 11 لاکھ 36 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی احسان شامی روڈ ۔ 2 کروڑ 99 لاکھ 49 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی تنصیل روڈ ۔ 2 کروڑ 43 لاکھ 9 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی عابد مجید روڈ ۔ ایک کروڑ 67 لاکھ 60 ہزار
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 52 لاکھ 95 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ شامی روڈ ۔ ایک کروڑ 15 لاکھ 93 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ طفیل روڈ ۔ 2 کروڑ 22 لاکھ 78 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ ایسٹ بینک روڈ ۔ راولپنڈی برائے جی ایچ کیو ۔ ایک کروڑ 30 لاکھ 72 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ بہاولپور ۔ 2 کروڑ 75 لاکھ 35 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ بہاولپور ۔ بلال کالونی ۔ ایک کروڑ 93 لاکھ 62 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ مانکی چوک ۔ نوشہرہ چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 53 لاکھ 22 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ ایم ای ایس ۔ لاہور چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 52 لاکھ 55 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ نوشہرہ چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 46 لاکھ 14 ہزار روپے
اسسٹنٹ گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ اٹک ۔ ایک کروڑ 27 لاکھ 26 ہزار روپے
اسسٹنٹ گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ رسالپور ۔ ایک کروڑ 20 لاکھ 8 ہزار روپے
کماڈنٹ آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ۔ راولپنڈی ۔ ایک کروڑ 44 لاکھ 85 ہزار روپے
چھاؤنی 47 آرٹلری بریگیڈ ۔ سرگودھا چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 22 لاکھ 86 ہزار روپے
پی ایم اے ۔ کاکول (اندرونی علاقہ) ۔ ایبٹ آباد ۔ ایک کروڑ 4 ہزار روپے

حبیب اللہ کوسٹل پاور کمپنی شیخ مدینہ ۔ کوئٹہ ۔ ایک ارب 32 کروڑ ایک لاکھ 12 ہزار روپے
لکی انرجی (پرائیویٹ ) لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 27 کروڑ 41 لاکھ 95 ہزار روپے
ٹاٹا انرجی لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 18 کروڑ 83 لاکھ 7 ہزار روپے
عدنان پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 3 کروڑ 95 لاکھ 92 ہزار روپے
اولمپیا پاور جنریشن ۔ کراچی ۔ 18 کروڑ 30 لاکھ 50 ہزار روپے
نو ڈیرو پاور پلانٹ ۔ لاڑکانہ ۔ 16 کروڑ 24 لاکھ 48 ہزار
گلستان پاور ۔ کوٹری ۔ 13 کروڑ 69 لاکھ 72 ہزار روپے
ندیم پاور جنریشن ۔ کوٹری ۔ 10 کروڑ 30 لاکھ 35 ہزار روپے
بھنیرو انرجی لمیٹڈ ۔ کوٹری ۔ 8 کروڑ 39 لاکھ 8 ہزار روپے

دعوے اور حقیقت

سندھ حکومت بالخصوص کراچی والوں کا سدا یہ دعوٰی رہا ہے کہ سندھ آمدن زیادہ کر کے دیتا ہے اسلئے اسے اپنی پوری آمدن اخراجات کیلئے دی جائے ۔ سندھ حکومت اور کراچی والوں کا یہ بھی دعوٰی رہا ہے کہ پنجاب کو اس کی آمدن سے زیادہ حصہ دیا جاتا ہے یعنی جو سندھ کماتا ہے اس میں سے پنجاب کو دیا جاتا ہے

قدرت کا اصول ہے کہ نہ جھوٹ زیادہ دیر چلتا ہے اور نہ سچ زیادہ دیر چھُپا رہتا ہے ۔ وفاقی حکومت نے پچھلے مالی سال (یکم جولائی 2011ء تا 30 جون 2012ء) کے اعداد و شمار شائع کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے ۔ غور سے دیکھ لیجئے کہ مظلوم کون ہے اور مظلومیت کے نعرے کون لگاتا ہے ۔ خیال رہے کہ وفاقی حکومت اُنہی سیاسی جماعتوں پر مُشتمل ہے جو سندھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر حکمران ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ تفصیل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلوچستان
کُل ریوینیو وصولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 کھرب 93 ارب ۔ ۔ 3 کھرب 88 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 22 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 51 ارب
مقررہ قابلِ تقسیم ریوینیو ۔ ۔ ۔ ۔ 5 کھرب 8 ارب ۔ ۔ ۔2کھرب 38 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ارب ۔ ۔ ۔ ۔
ریوینیو جو صوبے کے پاس رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 85 ارب ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 50 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 19 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 51 ارب
ٹیکس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ارب
اخراجات کیلئے جو بچا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 27 ارب ۔ ۔ ۔ 2 کھرب 10 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 25 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 93 ارب
خسارہ جو صوبے نے ظاہر کیا۔ ۔ ۔ ۔ 8.9 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ارب ۔ ۔ ۔
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سال کے کُل اخراجات ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 35.9 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 38 ارب ۔ ۔ ۔ 2 کھرب 28 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 93 ارب

غور کیجئے ۔ ۔ ۔
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے ۔ پھر سندھ ۔ پھر خیبر پختونخوا ۔ پھر بلوچستان ۔ پنجاب کی آبادی مُلک کی آبادی کا 65 فیصد ہے اور باقی 3 صوبوں کی کُل آبادی 35 فیصد ہے

پنجاب نے 5 کھرب 93 ارب روپیہ کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 85 ارب روپیہ پنجاب کو دیا یعنی 12.33 فیصد
سندھ نے 3 کھرب 88 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 1 کھرب 50 ارب روپیہ سندھ کو دیا یعنی 36.66 فیصد
خیبر پختونخوا نے 2 کھرب 22 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 2 کھرب 19 ارب روپیہ خیبر پختونخوا کو دیا یعنی 98.65 فیصد
بلوچستان نے 1 کھرب 51 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے سارا یعنی 1 کھرب 51 ارب روپیہ بلوچستان کو دیا یعنی 100.00 فیصد

اس کے باوجود
پنجاب کا خسارہ 9 ارب روپیہ
سندھ کا خسارہ 28 ارب روپیہ
خیبر پختونخوا کا خسارہ 3 ارب روپیہ
اخراجات سب سے کم پنجاب نے کئے ۔ اس سے زیادہ بلوچستان نے ۔ اس سے زیادہ خیبر پختونخوا نے اور سب سے زیادہ سندھ نے
یعنی سندھ حکومت کے اخراجات پنجاب حکومت کے اخراجات سے 75.13 فیصد زیادہ ہوئے

بلاگران سے گذارش

عرصہ سے میں نے اس بلاگ کے حاشیہ میں مندرج روابط کی طرف توجہ نہیں دی تھی ۔ پچھلے دنوں کچھ بلاگ کھولنے کی کوشش کی تو ندارد جس سے اپنی بے توجہی کا احساس ہوا ۔ یعنی بلاگوں کے پتے تبدیل ہو چکے تھے ۔ ایک اور حقیقت سامنے آئی کی کچھ بلاگ جو پچھلے 2 سالوں میں نمودار ہوئے یا مجھے نظر پڑے وہ بھی درج نہیں ہیں ۔ چنانچہ جب وقت میسّر ہوا تو ان کے پتوں کی تلاش شروع کی جس میں کافی حد تک کامیابی ہوئی ۔ اب پرانے بلاگ حتی المقدور نئے پتوں کے ساتھ اور کچھ نئے بلاگ درج کر دیئے گئے ہیں ۔ وہ بلاگ جون پر پچھلے 2 ماہ میں کچھ تحریر نہیں کیا گیا اُنہیں شامل نہیں کیا گیا ۔ وہ بلاگ بھی شامل نہیں کئے گئے جو فلمی ہیں یا کاپی پیسٹ ہیں یا مشاعرہ ہیں

بلاگران سے گذارش ہے کہ توجہ فرمائیں اور نیچے دی گئی فہرست میں اپنے بلاگ کے عنوان پر کلِک کر کے کے دیکھ لیں کہ ان کے بلاگ کا پتہ درست درج کیا گیا ہے ۔ اگر کوئی صاحبہ یا صاحب متواتر لکھنے والے ہیں اور اُن کا بلاگ فہرست میں شامل نہیں وہ تبصرہ کے کے ذریعہ مطلع کر سکتے ہیں

ابو شامل
احمد عرفان شفقت
ارتقائے حیات
اسد حبیب
اظہارالحق
افتخار راجہ
اقبال جہانگیر (آوازِ پاکستان)۔
امتياز خان
چاچا ٹام
باذوق
باسم
بلا امتیاز
بلو بلا
تانیا رحمٰن
جاوید اقبال
جاوید گوندل
جعفر (حالِ دل)۔
جواد احمد
حجابِ شب
حرفِ دعا
حلیمہ عثمان (قلم کارواں)۔
حکیم خالد
حیدر آبادی
خاور کھوکھر
خرم شہزاد
راشد ادریس رانا
شازل
شاہ فیصل
شاہدہ اکرم
شعيب صفدر
شگفتہ
صدائے مسلم
ضیاء الحسن خان
عادل بھیّا
عدنان شاھد
عدنان مسعود
عمر فاروق
عمران اقبال
عمّار ابنِ ضیاء
لبنٰی مرزا
محمد بلال
محمد کاشف
میرا پاکستان
پروفیسر محمد عقیل
کائنات بشیر
کاشف نصیر
کوثر بیگ
یازگل
یاسر جاپانی

عیدالفظر کس دن ہو گی ؟

وطن عزیز میں ہر سال روئتِ ہلال اور اس کے نتیجہ میں عید کے دن کا ابہام پیدا کیا جاتا ہے مگر جب سے انٹرنیٹ شروع ہوا ہے ابہام ہونا نہیں چاہیئے لیکن کچھ خود پسند یا مصنوعی جدّت پسند لوگ رولا ڈال کر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر راقم الحروف ایسے ابہام میں کبھی مبتلا نہیں ہوا اور اب تو انٹرنیٹ کی مدد سے با آسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ کس جگہ کس دن نیا چاند نطر آئے گا ۔ لیجئے حاضر ہے اس سال کی صورتِ حال

افغانستان ۔ ایران ۔ متحدہ عرب امارات ۔ سعودی عرب ۔ افریقہ ۔ برطانیہ ۔ یورپ ۔ امریکا وغیرہ میں بتاریخ 18 اگست 2012 بروز ہفتہ مغرب کے وقت ۔ ۔ ۔ ایک فیصد چاند نظر آئے گا

پاکستان میں بتاریخ 18 اگست 2012ء بروز ہفتہ کسی جگہ چاند نظر نہیں آئے گا
اسی طرح جاپان ۔ انڈونیشیا ۔ آسٹریلیا ۔ فلپین ۔ روس ۔ چین ۔ میانمار ۔ بنگلا دیش ۔ بھارت ۔ سری لنکا وغیرہ میں 18 اگست 2012 بروز ہفتہ کسی جگہ چاند نظر نہیں آئے گا

اسلام آباد ۔ لاہور ۔ کراچی ۔ پشاور اور کوئٹہ میں بتاریخ 19 اگست 2012 بروز اتوار مغرب کے وقت ۔ ۔ 3 فیصد چاند نظر آئے گا

جاپان ۔ انڈونیشیا ۔ آسٹریلیا ۔ فلپین ۔ روس ۔ چین ۔ میانمار ۔ بنگلا دیش ۔ بھارت ۔ سری لنکا وغیرہ میں بھی بتاریخ 19 اگست 2012 بروز اتوار مغرب کے وقت ۔ ۔ ۔ 3 فیصد چاند نظر آئے گا