Category Archives: معلومات

کرشمہ

علامہ اقبال نے کہا تھا

پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک بے اثر

بیج سے نکلنے والی کونپل اتنی نازک ہوتی ہے کہ ذرا سا ہاتھ لگنے سے ٹوٹ جاتی ہے ۔ دیکھئے کسی بیج سے نکلنے والی نرم و نازک کونپلیں سڑک کی جمی ہوئی 6 انچ موٹی تہہ کو کس طرح پھاڑ کر اور اتنے وزن کو اُوپر اٹھا کر باہر نکل آئی ہیں

کرشمہ

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ ممولے کو باز سے لڑا کر ممولے کو جِتا دے

دیر نہ کیجئے

23 مارچ 2013ء کو دوپہر کے 12 بجنے کو تھے کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی ۔ اُٹھایا تو آواز آئی ”میں الف نظامی بول رہا ہوں ۔ بلاگ کے حوالے سے آپ سے بات کرنا ہے“۔ میرے کان ہی نہیں رونگھٹے بھی کھڑے ہو گئے کہ شاید میں نے انجانے میں کوئی گستاخی کردی ہے ۔ لیکن اُنہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بڑی پتے کی بات کہی جو میرے لئے ایک امتحان ہی بن گئی ۔ فرمانے لگے ”درخت انسانی زندگی کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں لوگ درخت کاٹنے پر تُلے رہتے ہیں ۔ آپ اپنے بلاگ پر شجرکاری کی صلاح دیں“۔

الف نظامی صاحب تحمکانہ فرمائش کر کے چلے گئے اور مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میرے سامنے ایک اُونچا پہاڑ ہے جسے میں نے اس بڑھاپے میں سر کرنا ہے

میں مضمون کا سِرا تلاش کر رہا تھا تو یاد آیا کہ میں جس سرکاری کوٹھی میں اکتوبر 1984ء سے اگست 1994ء تک رہائش پذیر رہا ۔ اس کے ساتھ 4 کنال کے قریب خالی زمین تھی جس میں کناروں پر باٹل برش کے 2 ۔ سوہانجنا کا ایک اور امرود کے 3 درخت تھے ۔ میں نے ان میں ایک لوکاٹ کا ۔ 2 آلو بخارے کے 3 خوبانی کے درختوں کا اضافہ کیا جو عمدہ قسم کے تھے اور دور دور سے منگوائے تھے ۔ میرے بعد وہاں گریڈ 20 کے جو افسر آئے وہ بھی انجنیئر تھے ۔ میں 1995ء میں کسی کام سے اُن کے ہاں گیا تو میدان صاف تھا ۔ بولے ”بہت گند تھا ۔ میں نے سب درخت کٹوا دیئے ہیں“۔ مجھے یوں لگا کہ کسی نے میرا دل کاٹ دیا ہے ۔ موصوف کو اتنا بھی فہم نہ تھا کہ سُوہانجنا ایک کمیاب درخت ہے اور درجن بھر ایسے امراض کا علاج مہیاء کرتا ہے جو ایلوپیتھتک طریقہ علاج میں موجود نہیں

متذکرہ واقعہ ایک نمونہ ہے میرے ہموطنوں کی عمومی ذہنی حالت کا ۔ جدھر دیکھو درخت کاٹنے پر زور ہے

آج دنیا کی ترقی یافتہ سائنس ماحولیات پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے اور ساتھ ہی شجر کاری کو صحتمند ماحول کا لازمی جزو قرار دیا جاتا ہے ۔ دین اسلام کے حوالے سے بات کریں تو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ ”اگر مسلمان ایک درخت لگائے یا فصل بوئے جس میں سے ایک پرندہ یا انسان یا درندہ بھی کھائے تو اس خیرات کا بڑا اجر ہے (صحیح بخاری 2320 ۔ صحیح مُسلم 1553)

درخت گرمی کی حدت کو کم اور بارش برسانے میں کردار ادا کرتے ہیں جبکہ بارش اپنے اندر کئی صحتمند فوائد لئے ہوتی ہے
درخت ہوا میں اُڑتے کئی قسم کے ذرّات کو روک کر فضا کو صحتمند کرتے ہیں
کئی درخت انسان کو مختلف بیماریوں سے محفوظ کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر گھر کے ارد گرد نِیم کے درخت لگا دیئے جائیں تو مچھروں اور کئی اور پتنگوں سے نجات مل سکتی ہے ۔ اگر دیسی سفیدے کے درخت گھر کے گرد لگا دیئے جائیں تو زکام سے نجات کا ذریعہ بنتے ہیں

مارچ کا مہینہ درخت لگانے کیلئے موزوں ترین ہے درخت لگایئے اپنی اچھی صحت کیلئے اور ساتھ اللہ سے انعام بھی حاصل کیجئے

دوسرے ممالک میں درخت لگانے کا حال کچھ اس طرح ہے کہ میں پہلی بار 1975ء میں متحدہ عرب عمارات گیا تو صرف العین میں ایک کیلو میٹر لمبی سڑک پر کچھ درخت نظر آئے تھے ۔ ابو ظہبی ۔ دبئی شارقہ وغیرہ میں کہیں درخت نظر نہ آئے ۔ مگر سُنا تھا کہ کوشش ہو رہی ہے ۔ اُنہوں نے درخت اُگانے کیلئے مٹی تک دوسرے ملکوں سے بحری جہازوں پر درآمد کر کے بچھائی ۔ پھر ماہرین نے بتایا کہ درختوں کی افزائش کیلئے چڑیاں اور دوسرے چھوٹے پرندے ضروری ہیں تو اُنہوں نے چڑیاں اور چھوٹے پرندے ہزاروں کی تعداد میں درآمد کئے ۔ شروع میں چڑیاں مرتی رہیں مگر اُنہوں نے ہمت نہ ہاری ۔ میں 2008ء سے اب تک 4 بار دبئی جا چکا ہوں ۔ اب تو وہاں ہر طرف ہریالی اور درخت نظر آتے ہیں

جس زمانہ میں میں جرمنی میں تھا تو معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایک درخت کاٹ دے تو اُسے جرمانہ ادا کرنے کے علاوہ ایک کے بدلے 10 درخت لگا کر اُن کی حفاظت بھی کرنا ہو گی

ہم لوگ غیرملکیوں کی برائیاں تو اپنانے میں بڑے تیز ہیں ۔ اپنانا تو اُن کی اچھایاں چاہئیں

مُفلِسی کیوں ؟

بجٹ 2012ء ۔ 2013ء میں وفاقی حکومت کے اخراجات 32 کھرب (3200000000000) روپے ہیں
جبکہ کُل متوقع آمدن 23 کھرب روپے ہے
چنانچہ 9 کھرب روپے کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اُدھار ۔ خیرات یا ڈاکہ ضروری ہے
عوام کی یلغار سے بچنے کیلئے اس کمی کو 3 ارب (3000000000) روپے مالیت کے نوٹ روزانہ پورا سال چھاپے جاتے ہیں

متذکرہ نقصان کا کم از کم آدھا حصہ سرکاری ادارے مُفت کا مال سمجھ کر اُڑا رہے ہیں جن کے سربراہان کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں ۔ یہ لوگ سارا سال روزانہ ڈیڑھ ارب (1500000000) روپیہ کے حساب سے دولت اُڑا رہے ہیں

پچھلے لگ بھگ 5 سال میں حکومت نے اپنے پسندیدہ لوگوں کو 7 کھرب (700000000000) روپے کی ٹیکس کی معافی دی
جبکہ آئی ایم ایف سے 6 کھرب (600000000000) روپیہ ادھار لیا
یعنی اپنی سیاست چمکانے کیلئے یہ غیر منصفانہ چھوٹ نہ دی جاتی تو قرض لینے کی ضرورت نہ پڑتی

حکومتی پارٹی کے رُکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے انکشاف کیا کہ اسمبلیوں کے اراکین کو دیئے جانے والے ڈویلوپمنٹ فنڈ کے ایک کروڑ (10000000) روپیہ میں سے 60 لاکھ یعنی 60 فیصد کمیشن ہوتا ہے
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تعداد 1100 ہے ۔ باقی حساب خود لگا لیجئے

بجلی کے محکمہ میں نقصان ایک ارب (1000000000) روپیہ روزانہ ہے یعنی سال میں 3 کھرب 65 ارب (365000000000) روپے سالانہ
نیپرا کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کی ملکیت 3 بجلی کمپنیوں سے 26 ارب (26000000000) روپے مالیت کا فرنس آئل چوری ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سے ٹرانسفارمر اور کیبلز چوری ہوتے ہیں جو کہ بڑے شہروں میں سستے داموں بیچے جاتے ہیں
لائین لاسز (Line losses) 40 فیصد تک پہنچ چکی ہیں جن میں سے اصل لائن لاسز 6 سے 7 فیصد ہوں گی باقی بجلی چوری ہوتی ہے اور چوری کرنے والوں کو حکمرانوں کی پُشت پناہی حاصل ہے

حکومت کے حساب میں بجلی کے محکمہ کو حکومت 360 ارب یا زیادہ امداد (subsidy) دیتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں حکومت چوری ۔ ہیرا پھیری اور لُوٹ مار کی امداد کر رہی ہے

وزیر اعظم سیکرٹیریئٹ کا روزانہ خرچ 2008ء میں 6 لاکھ 41 ہزار 3 سو 6 (641306) روپے تھا جو 2012ء ۔ 2013ء کے بجٹ میں 19 لاکھ 52 ہزار 2 سو 22 (1952222) روپے ہو گیا ہے یعنی 3 گُنا سے بھی زیادہ ۔ اسی طرح کیبنٹ ڈویژن کا روزانہ خرچ 2008ء میں 40 لاکھ (4000000) روپے تھا جو اب بڑھ کر 80 لاکھ (8000000) روپے روزانہ ہو گیا ہے یعنی 2 گُنا

حال ہی میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اپنی بیوی بیٹے بہو اور دوسرے عزیز و اقارب کے ساتھ 4 دن کے دورے پر برطانیہ گئے تھے ۔ یہ سب لوگ لندن کے علاقہ نائٹس برِج میں واقع برکلی ہوٹل میں ٹھہرے جس میں 6 کمرے فی کمرہ 1200 پاؤنڈ روزانہ اور 20 کمرے فی کمرہ 800 پاؤنڈ روزانہ پر حاصل کئے گئے ۔ اس طرح صرف ہوٹل کا کرایہ ایک کروڑ 46 لاکھ (14600000) روپیہ ادا کیا گیا ۔ مزید یہ کہ کرایہ پر لی گئی 28 مرسڈیز بینز گاڑیاں استعمال کی گئیں جن پر خرچ اس کے علاوہ تھا ۔ کھانوں کے ساتھ بھی کچھ کم نہ کیا ہو گا ۔ یہ سب گُلچھڑے عوام سے نچوڑے ٹیکسوں کے پیسے پر اُڑائے گئے

ایوانِ صدر کے اخراجات معلوم نہیں ہو سکے ۔ شاید اُنہیں دیکھنے کیلئے پہلے مقویِ قلب ٹیکہ لگوانا پڑے گا

غریبوں اور شہیدوں کی سیاست کرنے والی حکمران جماعت کا ایک اور کرشمہ یہ ہے کہ 2008ء میں اِن کی حکومت قائم ہونے سے قبل مُلک کا ہر فرد (یعنی میں اور آپ سب بشمول بوڑھے جوان اور چند گھنٹوں کی عمر والے بچوں کے) 30000 روپے کا مقروض تھا مگر یکم فروری 2013ء کو ہر ایک 76000 روپے کا مقروض ہو گیا اور اُمید کی جا رہی ہے کہ 30 جون 2013ء تک ہر ایک 83000 روپے کا مقروض ہو جائے گا ۔ یہ رقم اُس قرض کے علاوہ ہے جو کسی نے ذاتی طور پر اپنے کار و بار یا گھریلو اخراجات کیلئے لیا ہوا ہے

اعترافِ گناہ

اُس نے لکھا ہے ”جیسے ہمارے مُلک میں کُنبہ پروری کا رواج چلتا ہے کہ اپنوں کا خاص خیال رکھا جائے ۔ ویسے ہی فوج میں بھی ہے ۔ کہا جاتا ہے بڑا حوصلے والا شخص ہے ۔ یاروں کا یار ہے ۔ دوستوں کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ چاہے کسی اور کا گلا ہی کیوں نہ کٹتا ہو ۔ فوج میں عام رواج ہے کہ اپنی یونٹ کے لئے سب کچھ جائز ہے ۔ جھوٹ بھی دھوکہ بھی اور چوری بھی ۔ میں کوئی انوکھی بات نہیں کہہ رہا ۔ یہی دستور ہے“

اُس نے لکھا ہے ”پی ایم اے میں سب پر آگے بڑھنے کی جستجو اور محنت کا دباؤ ہوتا ہے ۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ فوج میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بجائے ایک ہی مقصد کے لئے مل جل کر کام کرنے کی زیادہ اہمیت ہے ۔ سبقت لے جانے کی کاوش انسان کی سیرت کو مَسَخ کر دیتی ہے اور اس کی اخلاقی قوت ماند پڑ جاتی ہے ۔ یہ سوچ ذرا اور گہری ہو جائے تو جھُوٹ اور فریب کو جنم دیتی ہے اور بھائی چارے کی بجائے دشمنیاں پیدا کرتی ہے ۔ کمانڈر کے کردار میں ایسے نقائص جنم لیتے ہیں کہ وہ اچھا لیڈر نہیں بن پاتا ۔ میں نے پی ایم اے میں مقابلے کے اس ماحول کے بڑے کڑوے رنگ دیکھے ہیں ۔ پھر ساری عمر فوج میں جگہ جگہ اس کے دل سوز اثرات دیکھتا رہا“۔

ایک دن اُس نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور شوگر اسکینڈل کی انکوائری کے متعلق کچھ باتیں بتا دیں۔ اس نے حکومت کے کچھ وزراء کے نام لئے اور کہا ”وزیراعظم شوکت عزیز اور صدر مشرف کے قریبی ساتھی طارق عزیز کا دباؤ ہے کہ شوگر اسکینڈل کی انکوائری روک دی جائے“۔

امریکی فوج اور خفیہ اداروں نے تین مرتبہ اُس کی وفاداریاں خریدنے کی کوشش کی۔ لکھتے ہیں ”کمپنی کمانڈر کورس کرنے 7 ماہ کے لئے فورٹ بیننگ (Fort Benning) گئے تو امریکی فوج کے ایک افسر نے پیشکش کی کہ تم اسی رینک اور سروس کے ساتھ امریکی فوج جائن کر سکتے ہو لیکن میں نے انکار کر دیا“۔

کچھ عرصے کے بعد ایک اور کورس کے لئے پھر امریکا گئے ۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ میجر اشفاق پرویز کیانی بھی تھے۔ ایک دفعہ پھر اُسے امریکی فوج میں بھرتی کی پیشکش ہوئی جو اُس نے ٹھکرا دی ۔ پھر کہا گیا پاکستانی فوج میں رہ کر ہمارے لئے کام کرو ۔ اُس نے انکار کر دیا ۔ اُس نے لکھا ہے ”یہ صرف مجھ پر ہی تو عنایت نہیں کر رہے تھے ۔ سب کو ہی دانہ ڈالتے ہوں گے ۔ کامیابی بھی پاتے ہوں گے ۔ تب ہی تو سلسلہ جاری تھا“۔ اُس نے لکھا ہے ”امریکا میں اس کورس کے اختتام پر پیرو کے ایک افسر نے مجھے فری میسن تنظیم میں شامل ہونے کی آفر کی لیکن میں شامل نہ ہوا“۔

ایک دن جنرل مشرف نے بلاکر کہا کہ لاہور ریس کورس میں چھ ستمبر کو شہیدوں کے نام پر گھوڑوں کی ریس کا اہتمام ہے طارق عزیز چاہتے ہیں تم چیف گیسٹ بن کر انعامات تقسیم کرو۔ اُس نے کہا کہ یہ غیر اسلامی کام ہے ۔ انکار کر دیا اور کچھ عرصے کے بعد ریٹائرڈ ہو گئے

لکھا ہے کہ فوجی و سیاسی حکمران ہمیشہ امریکی اشاروں پر ناچتے ہیں

یہ چند اقتباسات تھے جنرل پرویز مشرف کے دست راست اور قریبی رشتہ دار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک؟“ سے

اس کتاب کے ”پیش لفظ“ کے آغاز میں لکھتے ہیں ”فوجی نوکری کے آخری ایام تک تو کچھ ایسا نہ کیا تھا جس پر اَن مِٹ ندامت ہوتی ۔ پھر جو کچھ اس درد دل کی خاطر کرگزرا اور جس انجام پر اس ملک کو پہنچایا ۔ آج اس کے بوجھ تلے پس رہا ہوں ۔ ویسے تو زندگی میں جو بھی کیا اکیلے ہی کیا۔ کوئی ساتھ دینے پر آمادہ ہی نہ ہوتا تھا لیکن جو بھی کیا وقت نے اسے پھیر دیا ۔ کچھ بھی بدلا نہیں ۔ پھر بھی مجھ سے جو بن پایا میں کرتا رہا ۔ اکیلے ہی ۔ پھر فوجی زندگی کے آخری موڑ پر قانون توڑ کر کسی اور کا ساتھ دیا اور سب کچھ بدل گیا ۔ پاکستان کا مطلب بھی ہماری پہچان بھی قوم کی تقدیر بھی قبلہ بھی ۔ لیکن جو بدلنا چاہا تھا جوں کا توں ہی رہا بلکہ اور بگڑ گیا۔ ایک چمکتے ہوئے خواب کو حقیقت میں بدلتے بدلتے اس میں اندھیرے گھول دئے ۔ صرف ایک دن ہاتھ میں لگام تھی ۔ 12 اکتوبر 1999ء ۔ پھر اس کے بعد پاؤں بھی رکابوں میں نہ رہے ۔ اب لکھنا کیا ؟ اب عمر کے اس آخری حصے میں برہنہ ہونے پر کوئی کیا دیکھے؟

یہ موصوف نے 12 اکتوبر 1999ء کو سیاسی حکومت کا تختہ اُلٹانے کا ذکر کیا ہے

جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک (30 جنوری 2013ء) میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے واضح الفاظ میں بتایا کہ 12 اکتوبر 1999ء کا واقعہ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ اسے کی بہت پہلے منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیاء ڈی جی ملٹری آپریشنز تھے اور خیال تھا کہ شاید وہ ساتھ نہ دیں ۔ اسلئے ان کا تبادلہ کر کے ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کو لایا گیا ۔ اس وجہ سے تاخیر ہوئی تھی

مزید لکھا ہے کہ کرگل آپریشن کا جنرل پرویز مشرف کے علاوہ صرف 3 اور جنرلوں کو علم تھا حتٰی کہ خود لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کو بھی علم نہ تھا ۔ سیاسی قیادت اور سول بیورو کریسی کو بھی علم نہ تھا ۔ آپریشن 1998٭ میں شروع کیا گیا اور وزیر اعظم (نواز شریف) کو جولائی 1999ء میں بتایا گیا تھا

بے چارہ روپیہ

قدر و قیمت کا محاورہ تو سب نے سُن رکھا ہو گا لیکن بہت کم ہوں گے جنہوں نے اس کے معنی پر غور کیا ہو گا (شاید اسلئے کہ پچھلی 4 دہائیوں سے ہمارے تعلیمی ادارے غور کرنے کی تربیت سے عاری ہیں)۔ کسی چیز کی ایک تو قیمت ہوتی ہے جسے جنسِ مبادلہ کہا جا سکتا ہے اور ایک قدر ہوتی ہے ۔ قدر کا تعلق قیمت سے نہیں ہوتا بلکہ قیمت سے مبرّا دوسرے اوصاف سے ہوتا ہے جو قیمت سے کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں ۔ قدر قیمت کے برابر ۔ قیمت سے کم یا قیمت سے زیادہ ہو سکتی ہے اور بعض اوقات قیمت سے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس کے پاس زر کی فراوانی ہو وہ بیش قیمت چیز کی بھی قدر نہ کرے

آمدم بر سرِ مطلب ۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد پاکستانی ایک روپیہ بھارت کے ایک روپے کے برابر تھا ۔ چند سال بعد پاکستانی روپے کی قدر بڑھنے لگی اور ایک دہائی بعد پاکستانی ایک روپیہ بھارت کے ایک روپیہ 15 پیسے کے برابر ہو گیا اور یہ تناسب کم از کم 1969ء تک قائم رہا ۔ البتہ کھُلے بازار میں (open market) ایسا وقت بھی آیا تھا کہ ایک پاکستانی روپے کے بھارتی ایک روپیہ 30 پیسے تک مل جاتے تھے

پاکستان بننے سے قبل سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ہندوستان کا روپیہ اُن کے مقامی سکوں کی طرح چلتا تھا ۔ پاکستان بنا تو اس کی جگہ پاکستانی روپے نے لے لی ۔ پہلی ایک دہائی میں پاکستانی روپے کی قدر اتنی بڑی کہ ایک پاکستانی روپے کا سوا سعودی ریال ملتا تھا اور خلیجی ریاستوں میں اس سے بھی زیادہ درہم ملتے تھے

آجکل ہر طرف ڈالر کا رَولا ہے ۔ ماضی میں پاکستانی روپیہ بھی امریکی ڈالر اور برطانوی پاؤنڈ کی طرح قابلِ قدر تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے کرنسی نوٹ پر گورنر بینک دولتِ پاکستان کی طرف سے لکھا ہوتا تھا ”میں وعدہ کرتا ہوں کہ حاملِ ھذا کو جس دارالاِجراء سے وہ چاہے عندالطلب مبلغ ۔ ۔ ۔ روپیہ ادا کروں گا“۔ دیکھیئے 1972ء سے پہلے کے 10 اور 100 روپے کے نوٹ

یہاں ”جس دارالاجراء سے وہ چاہے“ کا مطلب ہے کہ جس مُلک کی کرنسی میں وہ مانگے ۔ یہی وجہ تھی کہ اُس دور میں یعنی 1971ء تک اگر کسی غیر ملک میں جانا ہو تو غیر ملکی زرِ مبادلہ ڈالر یا پاؤنڈ وغیرہ حاصل کرنے کا کوئی چکر نہیں ہوتا تھا ۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ مشرق وسطہ میں دُکاندار اپنے مال کے عوض روپے کے نوٹ پوری قیمت پر لے لیتے تھے ۔ یورپ میں خاص خاص دُکاندار بھی ایسا ہی کرتے تھے اور کسی بنک میں جا کر روپے دے کر اس کے بدلے بغیر کسی نقصان کے مقامی کرنسی حاصل کی جا سکتی تھی

یہ سلسلہ بوجوہ 1972ء میں ختم ہو گیا اور پاکستانی کرنسی پر تحریر امتیازی وعدہ بھی چھپنا بند ہو گیا ۔ موجودہ کرنسی کے نوٹ دیکھیئے جن میں سے 100 اور 500 روپے کے نئے نوٹوں کی تصاویر نچے دی گئی ہیں

ان پر لکھا ہے ”حاملِ ھذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا“۔ اس میں ایک تو صرف روپے ہی ادا کرنے کا وعدہ ہے اور دوسرے واضح نہیں کہ کون ادا کرے گا ؟
اگر مُلک کے حکمران مُلک کی آمدن سے کم خرچ کریں تو کرنسی کی قدر بڑھتی ہے ۔ ایسی کرنسی کو مضبوط کرنسی کہا جاتا ہے ۔ کرنسی کی قدر کے ساتھ اس کی قیمت بھی بڑھنے لگتی ہے جیسا کہ پاکستان بننے کے بعد 2 دہائیوں تک ہوا ۔ اگر مُلک کے حکمران مُلک کی آمدن سے زیادہ خرچہ کریں تو کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہنے سے کرنسی کی قیمت گرتی جاتی ہے ۔ حکمران مُلک کو جتنا زیادہ نقصان پہنچائیں گے کرنسی کی قیمت اتنی ہی تیزی سے گرے گی ۔ پاکستانی روپیہ قیمت کے لحاظ سے تو اب بھی 100 پیسے کے برابر ہے ۔ نظر ڈالتے ہیں اس کی قدر کے سفر پر

پاکستان بننے سے لے کر 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بننے تک ساڑھے 23 سال (باوجود امریکی ڈالر کی قدر بڑھنے کے) ایک امریکی ڈالر 4.75 روپے کے برابر رہا

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1972ء میں اچانک روپے کی قیمت کم کر دی اور ایک امریکی ڈالر 11 روپے کا ہو گیا ۔ پھر چند ماہ بعد دوبارہ تبدیلی کر کے ایک امریکی ڈالر 9.90 روپے کا کر دیا گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 48 پیسے رہ گئی

ضیاء الحق کی حکومت کے دوران 1988ء تک 11 سال میں ایک امریکی ڈالر 17 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 28 پیسے رہ گئی

بینظیر بھٹو کی حکومت کے پہلے دور میں 1990ء تک 2 سال میں ایک امریکی ڈالر 22 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 21.6 پیسے رہ گئی

نواز شریف کی حکومت کے پہلے دور میں 1993ء تک ایک امریکی ڈالر 25.69 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 18.5 پیسے رہ گئی

بینظیر بھٹو کی حکومت کے دوسرے دور میں 1996ء تک ایک امریکی ڈالر 40.22 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 11.8 پیسے رہ گئی

نواز شریف کی حکومت کے دوسرے دور میں 1999ء تک ایک امریکی ڈالر 51.75 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 9 پیسے رہ گئی

پرویز مشرف کی حکومت میں 2008ء تک ایک امریکی ڈالر 62 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 7.6 پیسے رہ گئی

آصف علی زرداری کی پونے 5 سالہ دورِ حکومت میں ایک امریکی ڈالر 97.75 روپے کا ہو گیا ہے ۔ یعنی روپے کی قدر 4.8 پیسے سے بھی کم رہ گئی ہے

یعنی 1971ء میں جس چیز کی قیمت ایک روپیہ تھی وہ چیز اب کم از کم 21 روپے کی ہے

پاکستان نہیں بننا چاہیئے تھا؟

دنیا کا سب سے بڑا مذہب غربت ہے ۔ یقین نہیں آتا تو اس عورت کا تعاقب کر کے دیکھیں جو سامنے ایک بھارتی شہر کے ریلوے سٹیشن پر گھوم رہی ہے ۔ وہ ایک مسلمان عورت ہے جس کا نام بیگم ہے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ ریلوے اسٹیشن کے ٹوائلٹ میں داخل ہوگی اور جب باہر آئے گی تو اس کا نام بیگم کی بجائے لکشمی ہو گا، ماتھے پر سندور ہوگا ، ہاتھ میں چوڑیاں ،گلے میں منگل سوتر اور بدن پر ساڑھی…اللہ کے نام والا تعویز اس کے بازو پر نہیں ہوگا۔ اب وہ ایک روایتی شادی شدہ ہندو عورت ہے لیکن صرف صبح 9 سے شام 5 بجے تک ۔گھر واپس جا کر وہ دوبارہ اپنے مذہب میں ”داخل“ ہو جائے گی ۔ بیگم سے لکشمی تک کا سفر میرے اور آپ کے لئے تو شائد حیرت اور تکلیف کا باعث ہو مگر اس مسلمان عورت کے لئے نہیں جو ”سیکولر“ بھارت میں رہتی ہے اور جسے اپنا پیٹ پالنے کے لئے ایک نوکری کی تلاش ہے ۔کئی برس ٹھوکریں کھانے کے باوجود جب بطور مسلمان اسے نوکری نہیں ملی تو اس کے غریب ذہن نے سمجھایا کہ اب ذرا ہندو بن کر بھی کوشش کرو ، اس نے یہی کیا اور کام بن گیا ۔ آج کل وہ ایک ہسپتال میں آیا ہے ۔ حال ہی میں ہسپتال کی انتظامیہ نے اسے کہا ہے کہ” انہیں چند مزید لڑکیوں کی بھی ضرورت ہے مگر وہ مسلمان نہ ہوں ۔ اگر انہیں پتہ چل گیاکہ میں مسلمان ہوں تو وہ فوراً مجھے نوکری سے نکال دیں گے“۔

اس کے باوجود ہمارے سیکولر طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا

جس ملک میں عورتیں خود کو زندہ رکھنے کے لئے اتنی مجبور ہوں کہ اپنا ہونے والا بچہ ”ایڈوانس“ پکڑ کر بیچ دیں اور یہ آپشن وہ تب استعمال کرتی ہوں جب ان کا اپنا خریدار کوئی نہ رہے،اس ملک میں کسی مسلمان عورت کا معمولی سی نوکری کی خاطر بھیس بدلنا تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہئے ۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 13فیصد ہے جبکہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں مسلمان صرف 3 فیصد ہیں ،انڈین فارن سروس میں 1.8 فیصد اور انڈین پولیس سروس میں 4 فیصد ۔ بھارتی ریلویز میں 14لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں صرف 64,000 مسلمان ہیں جو 4.8 فیصد بنتا ہے اور اس میں سے بھی 98.7 فیصد وہ ہیں جو نچلے درجے کے ملازمین میں شمار ہوتے ہیں ۔ پھر بھی ،پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا

حال ہی میں بھارت نے ایک مسلمان سید آصف ابراہیم کو انٹیلیجنس بیورو کا چیف مقرر کیا ۔ اس اقدام نے ہمارے ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے دانشوروں کو بھنگڑے ڈالنے کا ایک اور موقع فراہم دیا اور ان کی زنبیل میں ایک اور دلیل کا اضافہ ہو گیا ۔ بھارت کا (سابقہ) صدر مسلمان ، آئی بی کا چیف مسلمان ، فلم انڈسٹری کا بادشاہ مسلمان ۔ ”اب بھی کہتے ہو کہ پاکستان بننا چاہئیے تھا۔ you loosers “

بھارتی صدر تو خیر ایک رسمی سا عہدہ ہے جس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ بھارت اس عہدے کو اپنا سیکولر امیج بہتر بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ بھارت کے جاسوسی ادارے میں مسلمان سربراہ کی تعیناتی 125 سال میں پہلی مرتبہ عمل میں آئی ہے اور اس کا مسلمانیت سے کتنا تعلق ہے ، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی مختلف سیکورٹی ایجنسیوں میں 90 لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں دفاع کی تینوں ایجنسیاں بھی شامل ہیں ۔ ان میں سے جب 5 لاکھ 20 ہزار افراد کا ڈیٹا کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ ان ایجنسیوں میں مسلمان عہدے داروں کا تناسب فقط 3.6 فیصد ہے جبکہ نچلے درجے کے ملازمین میں سے 4.6 فیصد مسلمان ہیں ۔ اوررہی بات فلم انڈسٹری کی تو جو لوگ شاہ رخ خان ،عامر خان اور سلمان خان کو سچ مچ کا مسلمان سمجھتے ہیں ان کے حق میں علامہ طاہر القادری سے دعا ہی کروائی جا سکتی ہے

اگراب بھی کسی سیکولر بھائی کا یہ خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا تو انہیں چاہئیے کہ فوراً ممبئی میں اپنا ایک فلیٹ بک کروا لیں لیکن خیال رکھیں کہ اس فلیٹ میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہو کیونکہ ودیا بالن کے بھارت کی کل آبادی لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ ہے جن میں سے نصف کو ٹوائلٹ کی سہولت ہی میسر نہیں ا ور مسز بالن اس ضمن میں بہت پریشان ہیں ۔ انہوں نے بھارتیوں کو شرم دلانے کے لئے ایک مہم بھی چلائی مگر بے سود ۔ بھارت ماتا میں 60کروڑ لوگ بغیر ٹوائلٹ کے زندگی گزارتے ہیں ۔ جھارکنڈ، اڑیسہ اور بہار میں یہ شرح 75فیصد سے بھی زیادہ ہے اور ان تینوں ریاستوں کی کل آبادی پورے پاکستان کے برابر ہے ۔ بنگلور جسے بھارت کی سِلیکون ویلی کہا جاتا ہے ، بھارت کے ماتھے کا سندور ہے ۔ رات گئے جب 60 لاکھ آبادی کا یہ شہر سو جاتا ہے تو نچلی ذات کے ہندو جنہیں اچھوت یا دلت کہا جاتا ہے 15000 کی تعداد میں نکلتے ہیں اور 60 لاکھ شہریوں کا گند صاف کرتے ہیں ۔ پورے بھارت مہان میں یہ کام کرنے والوں کی تعداد سرکار کے مطابق 3 لاکھ جبکہ اصل میں 10 لاکھ کے قریب ہے اور یہ لوگ اوسطً 4 ڈالر یومیہ سے بھی کم کماتے ہیں ۔ بھارتی شہروں میں مسلمانوں کی غربت ان اچھوتوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔ بھارت کے وہ چھوٹے دیہات جہاں مسلمانوں کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے (اکثریت نہیں ہے) ان میں سے ایک تہائی ایسے ہیں جہاں سرے سے کوئی سکول ہی نہیں ہے ۔ اور ایسے بڑے دیہات جہاں مسلمان بستے ہیں ، ان میں سے 40 فیصد میں کسی بھی قسم کی کوئی صحت کی سہولت میسر نہیں ۔ یہ بیان مجھ جیسے کسی تنگ نظر مسلمان کا نہیں بلکہ بھارت کی مشہور زمانہ سچر کمیشن رپورٹ کا نتیجہ ہے ۔مگر کیا کریں . پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا ؟

پاکستان اور بھارت کا مقابلہ کرنا مقصد ہے اور نہ مجھے اس بات پر ڈھول بجانے کا شوق ہے کہ اگر ہمارے ہاں 22.6 فیصد افراد 73 پنس یومیہ سے بھی کم آمدن رکھتے ہیں تو کیا ہوا، بھارت میں یہی شرح 41.6 فیصد ہے ۔ یہاں اگر بچے غذائی کمی کا شکار ہو کر مرتے ہیں تو بھارت میں یہ شرح دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے لہذا ہمیں گھوڑے بیچ کر سو جانا چاہئے ۔ اگر پاکستان میں بچے 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کسی بیماری کی وجہ سے مر جاتے ہیں تو بھارت میں سالانہ 21 لاکھ بچے ایسے ہیں جو under weight پیدا ہوکر مرجاتے ہیں لہذا ہم پھر جیت گئے

جی نہیں ، ایسی جیت پر لعنت اور ایسا سوچنا پرلے درجے کی حماقت ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس بنیاد پر پاکستان بنا کیا وہ نظریہ درست تھی ؟ نظریہ بڑا سادہ تھا کہ اگر مسلمان متحدہ ہندوستان میں رہے تو بطور اقلیت انہیں ان کے حقوق نہیں ملیں گے ۔ اس بات کا تعین کرنے کا سادہ ترین طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا بھارت کا ایک عام مسلمان پاکستانی مسلمان سے بہتر حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے ؟ پاکستان کی تمام جملہ خرابیوں کے باوجود ،جن میں زیادہ تر حصہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ہے اورجو فوجی آمریتوں کی دین ہے ، ایک عام پاکستانی کے حالات بھارتی مسلمان سے کہیں بہتر ہیں ۔ ہمیں صرف بھارتی فلم اور میڈیا کی چکا چوند دکھائی دیتی ہے، یہ پتہ نہیں چلتا کہ سیکولر بھارت میں فقط ہندو ہی ”دبنگ“ ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قوم دھنیا پی کر سو جائے

جتنا جذبہ ہم بھارت کو کرکٹ کے میدان میں ہرانے کے لئے بروئے کار لاتے ہیں اگر اس کا 10 فیصد بھی ہم دیگر شعبوں میں استعمال کریں تو
ہمارا بین الاقوامی امیج بھارت سے بہتر ہو جائے گا۔ بھارت کا امیج اس کی ”The Dirty Picture“کی وجہ سے بہتر ہے جبکہ ہم اپنے ملک کی dirtiest pictureپینٹ کرتے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کے وجود پر معذرت خواہانہ رویہ اپنا لیتے ہیں ، لاحول ولا۔

تحریر ۔ یاسر پیرزادہ

ساتویں کی ڈائری

اسلامیہ مڈل سکول سرکلر روڈ راولپنڈی (کب کا ہائی ہو چکا) سے میں نے ساتویں جماعت پاس کی تھی ۔ مجھے اس دور (1949ء۔1950ء) میں لکھی ڈائری سے پھٹا ایک ورق مل گیا تو میں نے سنبھال کر رکھ لیا تھا مگر ایسا سنبھالا کہ 2 دہائیاں بعد پچھلے دنوں کچھ اور تلاش کرتے ملا ۔ سوچا اسے کمپیوٹر میں محفوظ کیا جائے

مُلک ۔ ۔ ۔ آزادی دلانے والے ۔ ۔ ۔ آزادی کا دن

پاکستان ۔ ۔ ۔ محمد علی جناح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 اگست 1947ء
بھارت ۔ ۔ کرمچند موہنداس گاندھی ۔ ۔ 15 اگست 1947ء
ترکی ۔ ۔ ۔ ۔ مصطفٰی کمال پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ یکم نومبر 1923ء
مصر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سعد زغلول پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ 12 جنوری 1924ء
امریکا ۔ ۔ ۔ ۔ ابراھیم لنکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4 جولائی 1776ء
چین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موزے تُنگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 اکتوبر 1948ء
فرانس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 جولائی
اٹلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26 مارچ
یونان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 مارچ
پرتگال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 اکتوبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیدائش

چرچل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1874 ء
علامہ اقبال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 نومبر 1876ء
قاعد اعظم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 دسمبر 1876ء
سر آغا خان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1877ء
محمد علی جوہر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 دسمبر 1878ء
مارشل سٹالن ۔ ۔۔ ۔ ۔ 1879ء