Category Archives: معلومات

ایک اور اوّل

حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں 2013ء کے دوران ہونے والے ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں ۔ اس سال بھی اُنہی 5 ممالک کے باشندے سب سے زیادہ حادثات کا باعث بنے جو سال 2012ء میں حادثات کا سبب بنے تھے

سال 2013ء میں کُل 1567 حادثات ہوئے جن میں سے 1128 کا سبب انہی 5 ممالک کے باشندے بنے

کُل 160 اموات ہوئیں جن میں سے 101 اموات کے ذمہ دار انہی 5 ممالک کے باشندے ہیں

کُل 2344 لوگ زخمی ہوئے جن میں 1702 لوگوں کے زخمی ہونے کے ذمہ دار انہی 5 ممالک کے باشندے ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستانی ۔ ۔ ۔ ۔ بھارتی ۔ ۔ ۔ اماراتی (مقامی) ۔ ۔ ۔ ۔ بنگلادیشی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مصری

حادثات ۔ ۔ 373 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 314 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 298 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 78 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 65

اموات ۔ ۔ ۔ 33 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 30 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5

زخمی ۔ ۔ ۔ 577 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 432 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 467 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 111 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 115

آئین اور ہم

آئینِ تمام قوانین کا منبع ہے لیکن میرے ہموطنوں کی بھاری اکثریت آئین کا مطالعہ کرنے کو غیرضروری سمجھتی ہے البتہ آئے دن شور و غوغا ہوتا ہے کہ پاکستان کو سیکولر ریاست ہونا چاہیئے ۔ مطالبہ کرنے والے ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں سوچتے کہ اُن کا مطالبہ آئین کی خلاف ورزی ہے
اس کے برعکس کچھ کہتے ہیں کہ پاکستان کا آئین غیر اسلامی ہے
یہ احوال ہے پڑھے لکھے لوگوں کا ۔ جو سکول ہی نہیں گیا اُس سے کیا شکوہ

آئینِ پاکستان میں کچھ ایسی شقات ہیں جو شاید کسی اور مُلک کے آئین میں نہیں ۔ اس میں دین اسلام کے متعلق کیا کہا گیا ہے جاننا ہر پاکستانی پر فرض ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام بہتری کی کوشش نہیں کرتے اور اپنا کام صرف مطالبہ کرنا سمجھ رکھا ہے حالانکہ جب تک عوام بہتری کی کوشش نہیں کریں گے تب تک کچھ بہتر نہیں ہو گا بلکہ مزید ابتر ہوتا جائے گا
تمہید آئین

وفاقی شرعی عدالت کا دائرہءِ اختیار

شرعی  عدالت 1

شرعی عدالت 2

شرعی عدالت 3

Preamble

Whereas sovereignty over the entire Universe belongs to Almighty Allah alone, and the authority to be exercised by the people of Pakistan within the limits prescribed by Him is a sacred trust;
And whereas it is the will of the people of Pakistan to establish an order :-

Wherein the State shall exercise its powers and authority through the chosen representatives of the people;

Wherein the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed;

Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and Sunnah;
Wherein adequate provision shall be made for the minorities freely to profess and practise their religions and develop their cultures;

Wherein the territories now included in or in accession with Pakistan and such other territories as may hereafter be included in or accede to Pakistan shall form a Federation wherein the units will be autonomous with such boundaries and limitations on their powers and authority as may be prescribed;
Therein shall be guaranteed fundamental rights, including equality of status, of opportunity and before law, social, economic and political justice, and freedom of thought, expression, belief, faith, worship and association, subject to law and public morality;

Wherein adequate provision shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes;

Wherein the independence of the judiciary shall be fully secured;

Wherein the integrity of the territories of the Federation, its independence and all its rights, including its sovereign rights on land, sea and air, shall be safeguarded;

So that the people of Pakistan may prosper and attain their rightful and honoured place amongst the nations of the World and make their full contribution towards international peace and progress and happiness of humanity :

Now, therefore, we, the people of Pakistan,
Cognisant of our responsibility before Almighty Allah and men;
Cognisant of the sacrifices made by the people in the cause of Pakistan;
Faithful to the declaration made by the Founder of Pakistan, Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah, that Pakistan would be a democratic State based on Islamic principles of social justice;
Dedicated to the preservation of democracy achieved by the unremitting struggle of the people against oppression and tyranny;
Inspired by the resolve to protect our national and political unity and solidarity by creating an egalitarian society through a new order;
Do hereby, through our representatives in the National Assembly, adopt, enact and give to ourselves, this Constitution.

203D Powers, Jurisdiction and Functions of the Court.

(1) The Court may, 501[either of its own motion or] 501 on the petition of a citizen of Pakistan or the Federal Government or a Provincial Government, examine and decide the question whether or not any law or provision of law is repugnant to the injunctions of Islam, as laid down in the Holy Quran and Sunnah of the Holy Prophet, hereinafter referred to as the Injunctions of Islam.

502[
(1A) Where the Court takes up the examination of any law or provision of law under clause (1) and such law or provision of law appears to it to be repugnant to the Injunctions of Islam, the Court shall cause to be given to the Federal Government in the case of a law with respect to a matter in the Federal Legislative List 503[] 503, or to the Provincial Government in the case of a law with respect to a matter not enumerated 504[in the Federal Legislative List] 504, a notice specifying the particular provisions that appear to it to be so repugnant, and afford to such Government adequate opportunity to have its point of view placed before the Court.

] 502
(2) If the Court decides that any law or provision of law is repugnant to the Injunctions of Islam, it shall set out in its decision:
(a) the reasons for its holding that opinion; and
(b) the extent to which such law or provision is so repugnant; and specify the day on which the decision shall take effect 505[:] 505

506[Provided that no such decision shall be deemed to take effect before the expiration of the period within which an appeal therefrom may be preferred to the Supreme Court or, where an appeal has been so preferred, before the disposal of such appeal.] 506

(3) If any law or provision of law is held by the Court to be repugnant to the Injunctions of Islam,
(a) the President in the case of a law with respect to a matter in the Federal Legislative List or the Concurrent Legislative List, or the Governor in the case of a law with respect to a matter not enumerated in either of those Lists, shall take steps to amend the law so as to bring such law or provision into conformity with the Injunctions of Islam; and
(b) such law or provision shall, to the extent to which it is held to be so repugnant, cease to have effect on the day on which the decision of the Court takes effect.

معلوماتِ عامہ کا امتحان

1 ۔ کھانے کی کونسی چیز ایسی ہے جو وقت گزرنے سے خراب نہیں ہوتی ؟

2 ۔ مندرجہ ذیل میں قدرِ مُشترک کیا ہے ؟
بُلٹ پروف واسکٹ (bulletproof vests)
آگ سے بچاؤ کا راستہ (fire escapes)
کار کے وائپر (windshield wipers)
اور لیزر پرنٹر (laser printers)
۔
سوچئے
۔
۔
۔
جوابات

1 ۔ قدرتی شہد

2 ۔ یہ سب عورتوں نے ایجاد کئے

نئے سال کا خاندان

فیس بُک پر کچھ روز قبل دیکھا کہ بڑے جوش سے اظہار کیا جا رہا تھا کہ سن 2014ء بالکل ویسا ہی ہے جیسا سن 1947ء تھا ۔ بات درست ہے لیکن ایک 1947ء ہی نہیں بہت سے اور سال بھی 2014ء پر منطبق ہیں

سال 2014ء کے 365 دن ہوں گے ۔ سال 1947ء کے بھی 365 دن تھے
سال 2014ء بدھ کے روز شروع ہوا ہے ۔ سال 1947ء بھی بدھ کے روز شروع ہوا تھا
نیچے سال 1900ء کے بعد سے 2014ء پر منطبق ہونے والوں کی فہرست ہے
خیال رہے کے چھُٹیاں منطبق نہیں ہوتیں
سال پر کلک کر کے پورے سال دیکھا جا سکتا ہے

سال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2014ء سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درمیانی مدت
1902 ۔ ۔ ۔ ۔ 112 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
1913 ۔ ۔ ۔ ۔ 101 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1919 ۔ ۔ ۔ ۔ 95 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1930 ۔ ۔ ۔ ۔ 84 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1941 ۔ ۔ ۔ ۔ 73 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1947 ۔ ۔ ۔ ۔ 67 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1958 ۔ ۔ ۔ ۔ 56 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1969 ۔ ۔ ۔ ۔ 45 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1975 ۔ ۔ ۔ ۔ 39 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1986 ۔ ۔ ۔ ۔ 28 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1997 ۔ ۔ ۔ ۔ 17 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
2003 ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
2014 ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ سال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال

ملک کو اسلامی نظریہ سے علیحدہ کرنے کی سازش کا انکشاف

پاکستان کو اسلامی نظریہ سے علیحدہ کرنے کے لئے بابائے قوم محمد علی جناح کی جانب سے معاشرے کو مُلک کے نظریئے کے مطابق اسلامی بنانے کی خاطر تشکیل دیئے گئے محکمہ برائے اسلامی تنظیم نو (ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن) کو بابائے قوم کے انتقال کے فوراً بعد بند اور اس کا ریکارڈ ضائع کردیا گیا تھا

پنجاب کے سیکریٹری آرکائیوز نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظم نے اپنے پہلے ایگزیکٹو اقدام کے طور پر ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم کرنے کے لئے احکامات دیئے تھے جس کا واحد مقصد مُلک کی کمیونٹی کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تنظیم نو کرنا تھا لیکن ان کے انتقال کے فوراً بعد ہی اس محکمہ کو بند کردیا گیا تھا۔ سیکریٹری آرکائیوز () اوریا مقبول جان نے کہا کہ وہ جلد ہی مُلک کی اعلیٰ قیادت کو پاکستان کے خلاف اس سنگین سازش سے آگاہ کریں گے

سرکاری دستاویز میں اس محکمہ کے جو اغراض و مقاصد بتائے گئے ہیں وہ یہ ہیں ۔
اسلامی تعلیمی نظام
اسلامی قانون اور معاشرتی تنظیم نو
اسلامی معیشت
شہری اخلاق
یہ وہ چار شعبہ جات تھے جو قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے طے کئے گئے تھے۔ سیکریٹری اوریا مقبول جان نے کہا کہ اس ڈپارٹمنٹ کا سربراہ علامہ محمد اسد کو بنایا گیا تھا لیکن قائد اعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے علامہ کا تبادلہ کردیا اور انہیں امور خارجہ سے وابستہ ملازمت دیدی۔ اوریا مقبول جان نے بتایا کہ علامہ اسد کے جانے کے بعد ڈپارٹمنٹ کو بھی ختم کردیا گیا۔ بعد میں 1948ء میں پُراسرار انداز سے محکمہ کی عمارت میں آگ لگ گئی اور پورا ریکارڈ تباہ ہوگیا۔ اوریا نے کہا کہ یہ ملک کو قائد اعظم کی بصیرت کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے خلاف ایک سازش تھی

انہوں نے مزید بتایا کہ اپنی سوانح عمری ”یورپی بدو“ میں علامہ محمد اسد نے لکھا تھا کہ کس طرح اچانک ان کا ملازمت سے تبادلہ کیا گیا۔ علامہ اسد نے بھی سازش کے متعلق باتیں لکھی ہیں۔ سیکریٹری آرکائیوز اوریا مقبول کی جانب سے دی نیوز کو دی جانے والی سرکاری دستاویز کی نقل کے مطابق اس محکمہ کے جو اغراض و مقاصد بتائے گئے ہیں ان میں لکھا ہے کہ کئی قربانیوں اور غیر معمولی مشکلات کے نتیجے میں پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظم چاہتے تھے کہ ملک کو اسلامی طریقہ کار کے مطابق چلایا جائے اور وہ پاکستان کے قیام کو سفر کا اختتام نہیں سمجھتے تھے۔ دستاویز میں لکھا ہے کہ ”پاکستان کے متعلق کہا گیا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کے قیام کو نہیں روک سکتی اور ایسا ہوا بھی لیکن کئی مشکلات اور مسائل کے خاتمے کے لئے ابھی بہت کوشش کرنا باقی ہے اور اس کے لئے ہمیں اپنے نظریہ کی ریاست قائم کرنا ہوگی یعنی کہ ایک ایسی ریاست بنائیں گے جہاں اسلامی اصولوں کے تحت نظام حکومت تشکیل دیا جائے گا۔ کئی برسوں کی غلامی اور رسوائی کے بعد یہ کام آسان نہیں ہے کیونکہ اسی وجہ سے ہماری طاقت اور سماجی سطح پر حوصلہ کمزور ہوا ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے حصول کے لئے ہماری جدوجہد کا محور نظریاتی پلیٹ فارم رہا ہے۔ ہم یہ کہتے رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ ہم اسلامی استقامت کی وجہ سے بحیثیت مسلم ایک قوم ہیں، ہمارے لئے مذہب صرف ایک عقیدہ یا اخلاقی قواعد نہیں ہے بلکہ عملی رویہ کا ایک مجموعہ قانون بھی ہے۔ تقریباً تمام دیگر مذاہب کے برعکس، اسلام کا تعلق صرف روحانیت سے نہیں بلکہ یہ ہماری طبعی زندگی کو بھی ترتیب دینے کے لئے ہے۔ قرآن میں بتائی گئی اسکیم کے مطابق اور حضور پاکﷺ کی زندگی کی مثال سے انسانی بقاء کے تمام پہلوئوں کو زیر غور رکھا جاتا ہے جسے ہم انسانی زندگی کہتے ہیں۔ لہٰذا ہم صرف اسلامی عقائد کو اپنے پاس رکھ کر اسلامی زندگی نہیں گزار سکتے۔ ہمیں اس سے کہیں زیادہ کرنا ہوگا۔ اسلام کے تحت ہمیں رویہ، انفرادیت، سماجی رکھ رکھاؤ کو بھی اسی انداز میں ڈھالنا ہوگا“۔

ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کی دستاویزات میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی راہ میں ممکنہ رکاوٹوں کا بھی ذکر موجود ہے اور خبردار کیا گیا ہے کہ یقیناً، خالصتاً ثقافتی اور نسلی بنیادوں پر قوم پرستی کے نظریات پر عمل پیرا دنیا کے درمیان نظریاتی ریاست کا تصور بالکل منفرد ہے تو ایسے ماحول میں جہاں پوری دنیا ایسے ممالک کو جدید اور پسندیدہ کہتی ہے ایسے میں زبرست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

دستاویز میں مزید لکھا ہے کہ ہمارے دور کے لوگوں کی اکثریت نسلی وابستگی اور تاریخی روایات کو قومیت کی واحد قانونی حیثیت کے طور پر دیکھتے آئے ہیں۔ دوسری جانب ہم نظریاتی کمیونٹی، ایک ایسی کمیونٹی جس میں لوگوں کی زندگی کے متعلق ایک طے شدہ رائے ہو اور اس میں اخلاقی اقدار پائی جاتی ہوں، کو قومیت کی اعلیٰ ترین قسم سمجھتے ہیں جس کی انسان خواہش کرسکتا ہے۔ ہم یہ دعوٰی صرف اس لئے نہیں کرتے کہ ہم یہ بات باور کرچکے ہیں کہ ہمارا مخصوص نظریہ ”اسلام“ براہِ راست خدا کی طرف سے ہے بلکہ اسلئے بھی کہ ہماری منطق ہمیں بتاتی ہے کہ ایک حادثے یا پھر رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر یا پھر جغرافیائی محل و وقوع کی بنیاد پر قائم ہونے والی کمیونٹی کے برعکس مشترکہ طور پر ایک نظریہ پر عمل کرنے والی ایک کمیونٹی انسانی زندگی کا ایک بہترین اظہار ہے

دستاویز میں مزید لکھا ہے کہ ہماری قوم اس وقت تک مسلم ملت کہلائے جانے کے لئے متحد نہیں ہوسکتی جب تک شرمناک بوکھلاہٹ اور بد دلی، سماجی تانے بانے کے نقصان، اخلاقی کرپشن پر قابو نہیں پا لیتے۔ اور یہی وجہ مقام ہے جہاں ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن اپنا کام دکھائے گا۔ اس کے بعد اس دستاویز میں ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کی جانب سے جس منصوبے
پر عمل کرنا ہے اس کا ذکر کیا گیا ہے

تحریر ۔ انصار عباسی

دل کا داغ جو مٹ نہ سکا

کچھ اصحاب کی خواہش پوری کرتے ہوئے میں اپنی 21 دسمبر 2012ء کی تحریر دہرا رہا ہوں

سانحہ مشرقی پاکستان 1971ء کے متعلق جو اعداد و شمار اور واقعات ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پھیلائے گئے ہیں وہ اتنے غلط ہیں کہ جتنا زیادہ کوئی جھوٹ بول سکے ۔ درست اعداد و شمار قارئین تک پہنچانے کیلئے میں اپنے ذہن کو مجتمع کرنے کی تگ و دو میں تھا کہ ایسے ایسے مضامین نظر سے گذرے اور ٹی وی پروگرام و مذاکرے دیکھنے کو ملے کہ ذہن پریشان ہو کر رہ گیا

ہمارا ملک پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد صرف ایک نسل گذرنے پر صورتِ حال کچھ ایسی ہونا شروع ہوئی کہ میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ”کیا آزادی اس قوم کو راس نہیں آئی جو ہر دم اور ہر طور اس سلطنتِ خدا داد کے بخیئے اُدھیڑنے کے در پئے رہتی ہے“۔ اب تو حال یہاں تک پہنچا ہے کہ بھارت کو بہترین دوست اور شیخ مجیب الرحمٰن کو محبِ پاکستان ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

میں ذاتی معلومات پر مبنی واقعات پہلے لکھ چکا ہوں جو مندرجہ ذیل موضوعات پر باری باری کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں ۔ آج صرف اعداد و شمار پیش کر رہا ہوں
بھولے بسرے واقعات ۔ پہلا سوال
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔1 ۔ دوسرا سوال اور ذرائع
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔2 ۔ معلومات
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔3 ۔ مشاہدہ اور تجزيہ

مارچ سے دسمبر 1971ء تک مشرقی پاکستان میں جو ہلاکتیں ہوئیں اور ان کے اسباب کے متعلق غلط اور انتہائی مبالغہ آمیز اعداد و شمار زبان زد عام رہے ہیں ۔ پچھلی 4 دہائیوں میں غیر جانب دار لوگوں کی تحریر کردہ کُتب اور دستاویزات سامنے آ چکی ہیں ۔ جن کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے

شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے حواریوں کا پروپیگنڈہ تھا کہ فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو ہلاک کیا ۔ فوجی کاروائی ڈھاکہ اور اس کے گرد و نواح میں 26 مارچ 1971ء کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ چنانچہ یہ ہلاکتیں 265 دنوں میں ہوئیں ۔ اس طرح ہر ماہ 339630 یا ہر روز 11321 بنگالی ہلاک کئے گئے ۔ ایک سرسری نظر ہی اس استلال کو انتہائی مبالغہ آمیز یا جھوٹ قرار دینے کیلئے کافی ہے

حمود الرحمٰن کمیشن کو فوج کے نمائندہ نے بتایا تھا کہ فوجی کاروائی کے دوران 26000 بنگالی ہلاک ہوئے لیکن کمیشن نے اس تعداد کو بہت مبالغہ آمیز قرار دیا تھا

شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں لکھا

“The three million deaths figure is so gross as to be absurd … [it] appears nothing more than a gigantic rumour. The need for ‘millions’ dead appears to have become part of a morbid competition with six million Jews to obtain the attention and sympathy of the international community.”

(ترجمہ ۔ تین ملین کا ہندسہ اتنا بھاری ہے کہ سرِ دست لغو لگتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ ایک قوی ہیکل افواہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ملینز کی تعداد چھ ملین یہودیوں کے ہمعصر ہونے کی ایک بھونڈی کوشش لگتی ہے تاکہ بین الاقوامی توجہ اور ہمدردی حاصل کی جا سکے)

مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے لوگوں میں پنجابی ۔ پٹھان ۔ کشمیری ۔ سندھی ۔ بلوچ اور اُردو بولنے والے شامل تھے ۔ ان میں سرکاری محکموں ۔ سکولوں ۔ کالجوں ۔ بنکوں اور دیگر اداروں کے ملازم ۔ تاجر ۔ کارخانہ دار اور مزدور شامل تھے ۔ ان کارخانہ داروں میں سہگل ۔ آدم جی ۔ بھوانی اور اصفہانی قابلِ ذکر ہیں ۔ بھارت کی تشکیل کردہ اور پروردہ مُکتی باہنی والے مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے تمام لوگوں کو پنجابی کہتے تھے اور یہی تخلص زبان زدِ عام ہوا

جونہی فوجی کاروائی شروع ہوئی مُکتی باہنی اور اس کے حواریوں نے غیر بنگالیوں کی املاک کی لوٹ مار اور نہتے بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیاتی اور قتلِ عام شروع کر دیا ۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں مغربی پاکستان کے ذرائع یا اس سے بے خبر تھے یا بیہوش پڑے تھے

یہ حقیقت بھی بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے نائبین پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ جمعہ 26 مارچ 1971ء کی صبح منظم مسلح بغاوت شروع کر دی جائے گی ۔ اس تیاری کیلئے بہت پہلے سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکتی باہنی کا تربیتی مرکز بنایا جا چکا تھا

فوجی کاروائی 26 مارچ کو شروع ہوئی تھی ۔ مکتی باہنی نے یکم سے 25 مارچ تک ہزاروں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے لوگ ہلاک کئے ۔ مُکتی باہنی کے ہاتھوں قتل و غارت کے غیر ملکی ذرائع کے شائع کردہ محتاط اعداد و شمار بھی رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق 200000 تک مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
امریکی کونسل کے مطابق 66000 مغربی پاکستانی ڈھاکہ اور گرد و نواح میں ہلاک کئے گئے
خود بنگالی ذرائع نے ڈھاکہ اور گرد و نواح میں 30000 سے 40000 مغربی پاکستانی ہلاک ہونے کا اعتراف کیا تھا
شروع مارچ 1971ء میں صرف بوگرہ میں 15000 مغربی پاکستانیوں کو ہلاک کیا گیا
وسط مارچ کے بعد چٹاگانگ میں 10000 سے 12000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
جیسور میں 29 اور 30 مارچ کو 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
دیناج پور میں 28 مارچ سے یکم اپریل تک 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
میمن سنگھ میں 17 اپریل سے 20 اپریل تک 5000 کے قریب مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
اس کے بعد مکتی باہنی نے قتل و غارتگری کا بازار پوری شدت کے ساتھ گرم کیا ۔ اس طرح کہ اعداد و شمار بتانے والا بھی کوئی نہ رہا

پاکستان کے فوجیوں کی تعداد جو زبان زدِ عام ہے صریح افواہ کے سوا کچھ نہیں ۔ جن 93000 قیدیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں فوجیوں کے علاوہ پولیس ۔ سویلین سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ۔ تاجر ۔ عام مزدور ۔ دکاندار وغیرہ اور ان سب کے خاندان عورتوں اور بچوں سمیت شامل تھے ۔ ان قیدیوں میں درجنوں میرے ساتھی یعنی پاکستان آرڈننس فیکٹریز واہ کینٹ کے سویلین ملازمین اور ان کے اہلَ خانہ بھی تھے جنہیں 6 ماہ سے 3 سال کیلئے پاکستان آرڈننس فیکٹری غازی پور (ڈھاکہ) میں مشینیں سَیٹ کرنے اور مقامی لوگوں کی تربیت کیلئے بھیجا گیا تھا
کچھ اصحاب کے کی خواہش پر میں اپنی 21 دسمبر 2012ء کی تحریر دہرا رہا ہوں

مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی تعداد 20000 تھی جن میں پولیس ۔ میڈیکل اور دوسری نہ لڑنے والی نفری ملا کر کل تعداد 34000 بنتی تھی ۔ یہ پاکستانی فوج 9 ماہ سے مکتی باہنی کے 100000 جنگجوؤں سے گوریلا جنگ لڑتے لڑتے بے حال ہو چکی تھی ۔ ایسے وقت میں بھارت کی ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس 3 ڈویژن تازہ دم فوج سے مقابلہ کرنا پڑا ۔ پاکستانی فوج کی ہلاکتیں 4000 کے قریب ہوئیں ۔ بقول بھارتی لیفٹننٹ جنرل جے ایف آر جیکب بھارتی فوج کی ہلاکتیں 1477 اور زخمی 4000 ہوئے تھے

شیخ مجیب الرحمٰن کو اس کے خاندان سمیت 15 اگست 1975ء کو ہلاک کر دیا گیا ۔ ہلاک کرنے والے بنگلا دیش ہی کے فوجی تھے جو نہ پنجابی تھے نہ بہاری ۔ صرف ایک بیٹی حسینہ بچی جو ملک سے باہر تھی

مشرقی پاکستان شیخ مجیب الرحمٰن اور بھارت کی تیار کردہ مکتی باہنی کو پذیرائی نہ ملتی اگر حکومتِ پاکستان نے مشرقی پاکستان کی معیشت و معاشرت کی طرف توجہ دی ہوتی اور بے لگام بیورو کریسی کو لگام دے کر اُن کے فرض (عوام کی بہبود) کی طرف متوجہ کیا ہوتا ۔ پچھلے کم از کم 5 سال میں جو ملک کا حال ہے ۔ دل بہت پریشان ہے کہ کیا ہو گا ۔ اللہ محبِ وطن پاکستانیوں پر اپنا کرم فرمائے اور اس ملک کو محفوظ بنائے

مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی بڑی تعداد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتی تھی جس کے نتیجہ میں مغربی پاکستانیوں کے ساتھ وہ بھی مکتی باہنی کا نشانہ بنے ۔ نہ صرف یہ بلکہ بنگلا دیش بننے کے بعد جن لوگوں نے وحدتِ پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی تھی انہیں طرح طرح سے تنگ کیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے ۔ بہاریوں کو نہ شہریت دی اور نہ مہاجرین کا درجہ ۔ وہ ابھی تک کس مپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ جماعتِ اسلامی کے دلاور حسین سیّدی سمیت 6 لیڈر ابھی بھی بغاوت کے مقدمات بھگت رہے ہیں

یہ حقیقت ہے کہ اب بھی بنگلا دیش کے عوام کی اکثریت کے دل پاکستانی ہیں ۔ اس کا ایک ادنٰی سا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مدِ مقابل ہوتی ہیں ۔ بنگلا دیش کے عوام جوش و خروش کے ساتھ پاکستانی ٹیم کے حق میں بول رہے ہوتے ہیں