Category Archives: معاشرہ

سياسی کلچر

میں صدر مملکت کا کوئٹہ میں خطاب سن رہا تھا۔ صدر صاحب نے تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ جسٹس نسیم حسن شاہ کو بھٹو کا قاتل سمجھتے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ فرمایا کہ وہ چار فٹ تین انچ کا شخص لاہور میں آزاد پھر رہا ہے۔ ان کے کہنے کا مقصد تو اپنی فراخدلی ظاہر کرنا تھا اور بتانا تھا کہ پی پی پی انتقام پر یقین نہیں رکھتی لیکن ان کی تقریر کے یہ فقرے سن کر مجھے لگا جیسے وہ سوئے ہوئے زخموں کو کرید کر تازہ کر رہے ہیں اور لاہور کے پی پی پی کے جیالوں کو یاد دلا رہے ہیں کہ تمہارے بھٹو کا قاتل کون ہے اور کہاں ہے؟

جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں صدر صاحب کو زیب نہیں دیتیں اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ شاید صدر صاحب سپریم کورٹ کے این آر او پر فیصلے سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسی باتیں کر رہے ہیں جبکہ چودھری اعتزاز احسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کو جسٹس مولوی مشتاق حسین اور جسٹس انوار الحق نے پھانسی چڑھایا تھا

جسٹس نسیم حسن شاہ کے الفاظ قابل غور تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختیار غصہ نہ دلاتے تو شاید سپریم کورٹ انہیں موت کی سزا نہ دیتی۔ جنرل کے ایم عارف کی کتابیں اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے بہرحال بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا اور عدالت عالیہ نے وہی کرنا تھا جو آمر مطلق چاہتا تھا۔ رہا غصہ تو عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ جب بھٹو صاحب پر ہائیکورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا تو وہ مختلف طریقوں سے جسٹس مولوی مشتاق حسین کا تمسخر اڑاتے اور اسے غصہ دلاتے تھے

جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی اور چوہدری ظہور الٰہی نے صدر ضیاء الحق سے وہ قلم مانگ لیا جس سے صدر صاحب نے پھانسی کی تصدیق کی تھی چنانچہ چوہدری ظہور الٰہی کو کار میں سفر کرتے ہوئے ماڈل ٹاؤن موڑ لاہور پر قتل کر دیا گیا، کیا یہ انتقام نہیں تھا؟ نہ جانے کیوں میں صدر زرداری صاحب کی تقریر سنتے ہوئے محسوس کر رہا تھا کہ ان کے ان الفاظ سے پی پی پی کے جیالے پھر طیش میں آئیں گے اور پھر خدا جانے کیا ہو

دراصل ہر سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کا ایک مزاج ہوتا ہے جسے میں اس جماعت کا کلچر کہتا ہوں۔ عام طور پر سیاسی جماعت میں یہ مزاج یا کلچر اس کی قیادت پیدا کرتی ہے

ضیاء الحق کے مارشل لا لگانے کے بعد ایک عرصے تک ضیاء الحق بھٹو صاحب کو ”سر“ کہہ کر مخاطب کرتا رہا، وہ ان کا بے حد احترام کرتا تھا اور اس کا ہرگز ا رادہ بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھانے کا نہیں تھا جس روز بھٹو صاحب نے مختصر سی حراست سے رہائی کے بعد یہ بیان دیا کہ وہ اقتدار میں آکر جرنیلوں کو پھانسی چڑھا دیں گے، اسی لمحے ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کا موڈ بدلنے لگا اور احترام کی جگہ تصادم نے لینی شروع کر دی

آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ پی پی پی کا کلچر جارحیت کا کلچر ہے اور اس کی قیادت جارحیت پر یقین رکھتی ہے۔ پی پی پی کے دانشور اسے مزاحمت کہتے ہیں جبکہ دراصل پی پی پی کے مزاج اور خمیر میں جارحیت پوشیدہ ہے اور وہ مزاحمت نہیں بلکہ تصادم کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل خود زرداری صاحب کے بیانات اور خاص طور پر نوڈیرو والی تقریر اور یہ کہ اسٹبلشمنٹ نہ ہی صرف ان کے اقتدار بلکہ ان کی جان کے در پے ہے یہ ساری حکمت عملی اور انداز ان کے جارحانہ سیاسی کلچر کی غمازی کرتا تھا۔ اسی طرح راجہ ریاض کی تقریروں میں لاشیں گرانے اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سندھ کی علیحدگی کی دھمکیاں اور پھر پی پی پی کے کارکنوں کا نہ صرف میاں نواز شریف کا پتلا جلانا بلکہ سڑکوں پر ماتم کرنا، پی پی پی کے جارحانہ انداز کو بے نقاب کرتا ہے۔

بظاہر وزیراعظم صاحب چیف جسٹس کے سامنے سرنگوں ہو چکے ہیں لیکن مجھے یہ تصادم سے نکلنے کی وقتی مصلحت اور حکمت عملی لگتی ہے کیونکہ پی پی پی کی حکومت این آر او پر فیصلے کے صدر صاحب سے متعلقہ حصے اور خاص طور پر سوئس اکاؤنٹس پر مقدمات ری اوپن کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوگی۔ گزشتہ دنوں آپ نے دیکھا کہ کس طرح ججوں کو ملغوف دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور کس طریقے سے ان کی دیانت پر شکوک کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ مجھے خدشہ ہے کہ ماضی کی مانند اب بھی پیپلز پارٹی کو جارحیت مہنگی پڑے گی لیکن کیا کیجئے کہ جارحیت جیالوں کے مزاج کا حصہ ہے۔ کس قدر فکر انگیز اور حکمت سے لبریز ہے حضرت علی کا یہ فرمان کہ ”ہر شخص کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہوتی ہے“

تحرير ۔ ڈاکٹر صفدر محمود

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ مسلک

وسط فروری 2010ء ميں ہم يعنی مياں بيوی علامہ اقبال ايئرپورٹ پر بيٹی کو لينے گئے جو ايک عشرہ کيلئے دبئی اپنے بھائی کے پاس گئی تھی ۔ ہم بين الاقوامی آمد والے دروازے کے سامنے کھڑے تھے کہ کچھ دير بعد درجن بھر سبز پگڑيوں والے باريش لوگ آئے جن کے ہاتھوں میں سبز ریشمی کپڑے کے گوٹہ لگے جھنڈے بھی تھے ۔ وہ گانے لگے جو مجھے سمجھ آیا وہ يہ تھا ۔ نبی کا جھنڈا پيارا جھنڈا ہمارا جھنڈا ۔ نبی کی آمد مرحبا ۔ رسول کی آمد مرحبا ۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی کہہ رہے تھے جو کچھ مجھے سمجھ نہيں آيا اور کچھ بھول گيا ہوں ۔ وہ اس طرح سے گا رہے تھے کہ شور محسوس ہوتا تھا ۔ ایک گھنٹہ بعد ہمارے وہاں سے واپس آنے تک وہ متواتر گا رہے تھے صرف عشاء کی اذان کيلئے خاموش ہوئے

میری بیٹی کا بارہويں جماعت کا سالانہ امتحان ہو رہا تھا [1990ء]۔ دفتر سے چھٹی ہوئی میں گھر پہنچا تو شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ ديتی تھی ۔ گھر میں داخل ہوا تو کھڑکيوں کے شيشے کھڑکھڑا رہے تھے ۔ بيٹی نے آنسوؤں کے ساتھ ميرا استقبال کرتے ہوئے کہا “ابو ۔ کل ميرا پرچہ ہے اور صبح سے اس شور کی وجہ سے ایک لفظ نہیں پڑھ سکی”۔ اندازہ لگانے کيلئے کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے گھر کے پائیں باغ میں نکلا ۔ دیکھا کہ پيچھے آفيسرز میس کے ملازمین کے کوراٹروں کے ساتھ جو چھوٹی سی مسجد بنی ہے اس کے چھوٹے سے مينار پر چار لاؤڈ سپیکر لگے ہیں اور اُس پر فلمی گانوں کی نقل نعتیں پڑھی جا رہی ہيں ۔ آواز اتنی اوُنچی کہ میں دونوں کانوں کو اپنی ہتھيليوں سے بند کرنے کے بعد سجھ سکا کہ گايا کيا جا رہا ہے

اس 8 فٹ چوڑی 7 فٹ لمبی اور 8 فٹ اُونچی مسجد کی تاریخ يہ ہے کہ آفيسرز ميس جی ايم ہاؤس کے پيچھے آٹھ دس سرونٹ کوارٹر بنے ہوئے تھے جن ميں آفيسرز ميس کے ملازمين رہتے تھے ۔ 1972ء ميں پيپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اُن دنوں جی ايم ہاؤس ميں پروجيکٹس کے دفاتر بنے ہوئے تھے جو عارضی تھے مگر اس کی وجہ سے سرونٹ کوارٹرز خالی تھے ۔ اُوپر سے حُکم آيا کہ يہ کوارٹر لوگوں کو الاٹ کر ديئے جائيں ۔ جن کی سفارش کی گئی تھی وہ ہر جماعت ميں اپنا نام لکھانے والے کھڑپينچ تھے ۔ ايک دو سال بعد اُنہوں نے اپنے کوارٹروں کے ساتھ سرکاری زمين پر يہ مسجد بنا لی حالانکہ اس علاقے کی بڑی مسجد وہاں سے صرف تين منٹ کی پيدل مسافت پر تھی

ميں آفيسرز ميس پہنچا ۔ مسجد کے اندر کوئی لاؤڈ سپیکر نہيں لگايا گيا تھا کيونکہ بغير سپيکر کے مسجد کے اندر بولنے والے کی آواز مسجد کے باہر پہنچ سکتی تھی آفيسرز ميس کے دوسری طرف جا کر تاکہ شور کم ہو اور ايک دوسرے کی بات سُنی جا سکے منتظم کو بلایا ۔ مُنتظم آئے ۔ وہ اسسٹنٹ منيجر ايڈمن تھے جو ماسٹر اِن ايڈمن سائنس [Master in Admin Science] تھے منتظم سے میں نے کہا ” مسجد میں امام ظہر اور عصر کی نماز آواز کے ساتھ نہیں پڑھاتے ۔ اب عصر کی نماز ہونے والی ہے ۔ اس مسجد میں ايک لاؤڈ سپيکر کی بھی ضرورت نہیں اور آپ نے اُوپر چار لگا رکھے ہیں اور وہ بھی فُل واليوم پر صبح سے اب تک متواتر محلہ والوں کو بيزار کئے ہوئے ہیں ۔ کوئی مريض آرام کرنا چاہتا ہے ۔ کوئی طالب علم امتحان کی تياری کرنا چاہتا ہے”
جملہ آيا “آپ کا مسلک دوسرا ہے”
میں نے کہا “آپ کو کيسے معلوم ہوا کہ ميرا مسلک کیا ہے ؟ آپ تو مجھے زندگی میں پہلی بار مل رہے ہیں”
جواب میں خاموشی
میں نے سوال کیا ” يہ مسلک کيا ہوتا ہے اور آپ کا مسلک کيا ہے ؟”
جواب ملا ” میں بریلوی ہوں ”
میں نے کہا “احمد رضا بریلوی صاحب کی وہ کتاب دکھايئے جس میں لکھا ہے کہ اس طرح محلہ والوں کو بيزار کرو”
جواب میں خاموشی
میں نے پوچھا “آپ نے احمد رضا صاحب کی کونسی کتاب پڑھی ہے ؟”
جواب ملا “کوئی نہيں”
میں نے التجا کی “پھر يہ لاؤڈ سپیکر بند کر ديجئے”
جواب ملا “يہ نہيں ہو سکتا”

اسی دوران ايک اسسٹنٹ منيجر فنانس جو مجھے جانتے تھے آ کر کھڑے ہو چکے تھے ۔ اُنہوں نے اپنے ساتھی کو مخاطب کر کے کہا ” جانتے ہو یہ کون ہیں ؟ اگر يہاں آنے کی بجائے يہ ایک ٹیلیفون کر ديتے تو سب کچھ اب تک بند ہو چکا ہوتا”
مگر اُن صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا

ميرے پاس سوائے اپنی سرکاری حيثيت استعمال کرنے کے کوئی چارہ نہ رہ گيا تھا ۔ میں نے گھر پہنچ کر چيف ايڈمن آفيسر اور اسٹیشن کمانڈر دونوں کو ٹیليفون کیا جس کے بعد آدھے گھنٹہ کے اندر لاؤڈ سپيکر خاموش ہو گئے

امریکی اخبار ۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دِکھانے کے اور

امریکی عدلیہ کی آزادی پر فخر کا دم بھرنے والے امریکی میڈیا جو کسی صورت میں اپنے سرکاری عہدیدار پر کرپشن کا الزام تک برداشت نہیں کرتا کی جانب سے امریکا کے بڑے اخبارات میں پاکستانی عدلیہ کے خلاف اور اس کے این آر او کے متعلق فیصلے کے حوالے سے جو کچھ بھی شایع ہوا ہے وہ سب غلط، آدھا سچ اور انتہائی حد تک متعصبانہ اور حقیقت سے انتہائی دور ہے ۔ کئی رپورٹس نامعلوم ذرائع کے حوالے سے دی گئی ہیں اور ان میں پیپلز پارٹی کے حوالہ جات بھی شامل ہیں

صحافت کے اعلیٰ ترین معیارات کی پیروی کرنے کے دعوے کرنے والے ٹائم میگزین نے ڈھٹائی کے ساتھ پیپلز پارٹی کے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ نواز شریف کی جانب سے آئینی پیکیج کی حالیہ مخالفت چیف جسٹس کے دباؤ کا نتیجہ تھی ۔ میگزین کے مطابق چیف جسٹس نے نواز شریف کو دھمکی دی تھی کہ بصورت دیگر عدالتیں ان کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولیں گی

کئی اعلیٰ ترین وکلاء یہ سمجھتے ہیں کہ ٹائم میگزین میں جو کچھ شایع ہوا ہے وہ پروپیگنڈہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاضی انور جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے حالیہ ہفتوں کے دوران چیف جسٹس سے دو مرتبہ ملاقات کی ہے ججوں کے تقرر کے معاملے پر نواز شریف کے مؤقف کے مخالف ہیں لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ چیف جسٹس ایسے کسی معاملے پر مشاورت کے خواہاں نہیں ہیں جو پارلیمنٹ کا اثاثہ تصور کئے جاتے ہیں ۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ٹائم میگزین یہ نوٹ کرنے میں ناکام ہوگیا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے حال ہی میں سینیٹر رضا ربانی کی زیر قیادت پارلیمانی کمیٹی کے کام کی تعریف کی گئی ہے ۔

واشنگٹن سے شائع ہونے والے ایک اور جريدہ ”دی ہل” میں جارج برونو نے پاکستان میں ہونے والی ایک بغاوت کا ذکر کیا ہے ۔ بے وقوفی سے بھرپور اس تحریر میں پروپیگنڈہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور یہ مضمون پاکستانی لابِسٹس کے زیر اثر تحریر کیا گیا ہے ۔ اس مضمون میں پاکستانی عدلیہ کے سیاست زدہ ہونے کی بھی بات کی گئی ہے ۔ مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کی جانے والی کوششیں پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے آئین کی مخالفت میں نہ صرف عدالتوں میں پیدا ہونے والی اسامیوں پر تقرر کا وزیراعظم کا اختیار چھین لیا ہے بلکہ ایگزیکٹو برانچ کی طاقت بھی چھین لی ہے ۔ “دی ہل” کی جانب سے شائع کی گئی یہ رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ اسے ان معاملات میں آئینی شقوں کا علم ہی نہیں ہے ۔

تحریر میں جارج برونو نے خود کو یونیورسٹی آف نیو ہمپشائر کے “پارٹرنز فار پیس” پروگرام کے شریک ڈائریکٹر کے طور پر متعارف کرایا ہے ۔ انہوں نے خود کو سابق امریکی سفیر بتانے کے علاوہ کلنٹن انتظامیہ میں خدمات انجام دینے کا بھی دعویٰ کیا ہے ۔ تاہم انہوں نے پاکستان کی عدلیہ کے خلاف جو کچھ بھی لکھا ہے اس کے بعد ان کی ساکھ کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے پاکستان میں جاری حالیہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کے موقف اور سوئس پراسیکیوٹر جنرل کے بیان کے بعد سے پاکستان میں کرپشن کے کیسز پر غیر یقینی صورتحال برقرار ہے ۔ جبکہ ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار اور صدر زرداری کے قریبی دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی اخبار کو بتایا کہ جہاں تک میرا خیال ہے سپریم کورٹ میں ساری کارروائی ایک تماشہ اور سیاسی نمبر بڑھانے کا عمل دکھائی دیتی ہے کیونکہ چیف جسٹس اس قانونی صورتحال سے لاعلم نہیں رہے سکتے کہ درحقیقت سوئٹزرلینڈ میں اس کیس پر کارروائی نہیں ہوسکتی

بنیادی طورپر یہ امریکی میڈیا ہی تھا جس نے مقدمہ چلنے یا مؤاخذہ ہونے سے قبل ہی صدر رچرڈ نکسن کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا ۔ امریکی میڈیا یہ بات بھی بھول جاتا ہے کہ پاکستان کے منتخب سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور ماضی کے حکمرانوں، بشمول موجودہ صدرِ پاکستان، کے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کرانے کی خاطر این آر او کے اجراء میں امریکا اور برطانیہ کا ہی ہاتھ تھا ۔ پارلیمنٹ کی جانب سے این آر او کو منظور کرنے سے انکار کرنے کے بعد ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے کالعدم قرار دیا ۔ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا امریکا اپنے ملک میں ایسا غلیظ قانون منظور ہونے دے سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو امریکی میڈیا ایسی چیز کو ہمارے لئے اچھا کیوں سمجھتا ہے جو اس کے اپنے ملک کے لئے ناپسندیدہ ہو

بشکريہ ۔ جنگ

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ خوشی اور صحت کاراز

خاميوں سے پاک صرف اللہ کی ذات ہے ۔ اس کے بعد اللہ کے برگزيدہ بندے يعنی انبیاء عليہم السلام ہيں ۔ باقی ہر انسان ميں خامياں موجود ہوتی ہيں ۔ اگر غور کيا جائے تو اکثر انسانوں ميں خوبياں اُس کی خاميوں سے زيادہ بلکہ بہت زيادہ ہوتی ہيں

نجانے کيوں انسان کی عادت ہے کہ دوسرے انسانوں کی خاميوں پر نظر رکھتا ہے اور اس کے نتيجہ ميں پریشان ہوتا ہے ۔ فرض کريں کہ انسان کی کُل خواص 100 ہيں ۔ اب اگر ایک آدمی ميں 15 خامياں ہيں تو ان 15 کی وجہ سے پريشان ہونے کی بجائے اُس آدمی کی 85 خُوبيوں پر توجہ مرکوز کی جائے تو اس کا نتيجہ ايک خوشگوار احساس ہو گا جس کا صحت پر اچھا اثر پڑے گا اور ساتھ ہی اچھے تعلقات بھی استوار ہوں گے

خوشی اور صحت دوسروں کی خاميوں کی بجائے اُن کی خوبيوں پر نظر رکھنے سے حاصل ہوتی ہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

اين جی اوز [NGOs] اور حقوقِ نسواں

پچھلے سال 2 اپريل کو برطانيہ کا گارجين اخبار اچانک  ايک وڈيو سامنے لايا کہ طالبان نے ايک 17 سالہ لڑکی کو برسرِ عام کوڑے مارے اور اس کی چيخيں نکلتی رہيں ۔ اس وڈيو کو پاکستان کے ٹی وی چينلز نے بار بار دکھايا ۔ جيو نيوز پر يہ وِڈيو ہر پانچ منٹ کےوقفہ سے سارا دن دکھائی جاتی رہی ۔ لاتعداد مذاکرے اس سلسلہ ميں منعقد کئے گئے اور طالبان کو خُوب خُوب کوسا گيا ۔ حقوقِ نسواں کی ايک نام نہاد علمبردار  ثمر من اللہ نے اس کی چیخ چيخ کر اشتہار بازی کی ۔ اسلام کے نام ليواؤں کی وحشتناکيوں کے خلاف مظاہرے ہوئے اور جلوس نکالے گئے ۔ اس سب غوغا کے نتيجہ ميں عدالتِ عظمٰی نے اس کا ازخود نوٹس لے کر تحقيقات کا حُکم دے ديا

ميں نے اس پر لکھا تو مجھ پر طنز کئے گئے ۔ آخر وہی نکلا جو ميں نے لکھا تھا ” کسی نے کہا کُتا کان لے گيا اور کُتے کے پيچھے بھاگ پڑے يہ ديکھا ہی کہ کان تو دونوں اپنی جگہ پر موجود ہيں”

تحقيقات ہوئيں مگر منظرِ عام پر آنے ميں 10 ماہ لگ گئے ۔ وڈيو کی مدد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وہ دو بچے ڈھونڈ نکالے جو موقع پر موجود تھے اور ان کی مدد سے جس شخص نے وڈيو بنائی تھی اور جس عورت کو کوڑے مارے گئے تھے انہيں بھی گرفتار کر ليا ۔ جس شخص نے يہ وڈيو بنائی تھی اُسے ايک اين جی او نے پانچ لاکھ روپے اس ڈرامہ کيلئے ديئے تھے ۔ عورت کو ايک لاکھ اور دونوں بچوں کو پچاس پچاس ہزار روپے ديئے گئے تھے

مکمل خبر يہاں کلک کر کے پڑھيئے

کزن ميرج

ايک صاحب جو اپنے آپ کو بد تميز کہتے ہيں [ميں نہيں کہتا] نے لکھا تھا کہ marriage between cousins يعنی چچا ۔ ماموں ۔ پھوپھی اور خالہ کی بيٹی کے ساتھ شادی کرنے سے جو بچے پيدا ہوں گے وہ اپاہج يا کُند ذہن ہوں گے يا ہونے کا احتمال ہے ۔ ميں نے اس پر لکھنے کا وعدہ کيا تھا ۔ جلد نہ لکھ سکنے پر معذرت خواہ ہوں کيونکہ ميں اُن سے پہلے کے کچھ حضرات سے کئے گئے وعدے پورے کرنے کی کوشش ميں تھا

متذکرہ بالا نظريہ يا قياس سے پہلی بار ميرا واسطہ 1965ء ميں پڑا جب ميرے والدين نے ميری شادی کا سوچا تو کسی نے شوشہ کزن ميرج کا چھوڑ ديا مگر بات آئی گئی ہو گئی اور 14 اگست 1965ء کو ميری منگنی خالہ کی بيٹی سے ہو گئی ۔ نومبر 1967ء ميں اللہ کے فضل سے ميری شادی ہو گئی

ميں نے اس سلسلہ ميں مطالعہ شروع کيا ۔ جو بات ميری سمجھ ميں آئی اُس کا خُلاصہ يہ ہے

عيسائیوں نے کسی وجہ سے چچا ۔ ماموں ۔ پھوپھی اور خالہ کی بيٹی کو بہن قرار ديا ۔ اسلئے اُس کے ساتھ شادی حرام قرار دی گئی
مسلمانوں ميں قريبی رشتہ داروں ميں شادی کا رُجحان تھا
انسان کی نفسيات تو عام طور پر ايک جيسی ہے ۔ جس طرح آج کا مسلمان اسلام کی ہر بات کو سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح عيسائی اطِباء نے اپنے اُس رواج کو جس ميں کزن ميرج حرام قرار دی گئی تھی سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کی

اللہ کے فضل سے ہمارا پہلا بچہ دسمبر 1970ء ميں پيدا ہوا جس کا نام زکريا ہے ۔ 1972ء ميں ہم اپنے دوسرے بچے کی پيدائش کی اُميد رکھتے تھے کہ پورے پاکستان ميں ايک لہر اُٹھی يا اُٹھائی گئی کہ کزن ميرج سے بچے کُند ذہن يا اپاہج پيدا ہوتے ہيں ۔ ہم بہن بھائيوں ميں سب سے بڑی بہن ہيں جنہوں نے 1955ء ميں ايم بی بی ايس پاس کيا تھا ۔ جب اُنہوں نے اس فتوے پر ہاں کہہ دی تو ميرے والدين کا پريشان ہونا فطری تھا ۔ اُنہيں پريشان ديکھ کر ميں نے کہا “ہمارے آباؤ اجداد ميں ہميشہ سے کزن ميرج ہوتی آئيں ہيں ۔ آج تک نہيں سُنا کہ اُن کے بچوں ميں کوئی کُند ذہن يا اپاہج ہوا”۔ پھر ماضی کے دو واقعات اُنہيں ياد کرائے اور کہا “جب سالوں کی تحقيق کے بعد آزمودہ ترياک عملی طور پر چند سال بعد زہر ثابت ہوتے ہيں تو يہ فہوالمطلوب والا کُليہ بھی غلط ہو سکتا ہے”۔ اس سے ميرے والدين کی تشويش کافی حد تک دُور ہو گئی۔ [ان دو واقعات اور فہوالمطلوب کی تفصيل بعد ميں]۔ اللہ کے کرم سے بچی بخير و عافيت پيدا ہو گئی

ميرا چھوٹا بيٹا فروری 1975ء ميں پيدا ہوا ۔ اُس کی پيدائش سے پہلے مزيد تحقيق آ گئی تھی کہ اگر خاوند اور بيوی کا خون ايک سا نہ ہو تو بچہ پيدا ہوتے ہی اس کا سارا خون تبديل کرنا ہوگا ورنہ [اللہ نہ کرے] بچہ مر جائے گا ۔ ميرا اور بيوی کا خون ٹيسٹ ہوا ۔ ميرا او پازيٹِو [O +] بيوی کا بی نيگيٹِو [B -]۔ ايک طوفان کھڑا ہو گيا ۔ حُکم ہوا کہ پھر خون ديا جائے راولپنڈی آرمڈ فورسز انسٹيٹيوٹ آف پيتھالوجی ميں مزيد ٹيسٹوں کيلئے بھيجا جائے گا ۔ ٹيسٹ ہو کر نتيجہ آيا تو حُکم ہوا کہ خون دينے کيلئے رضاکار تيار رکھے جائيں ۔ بچہ پيدا ہوتے ہی اُس کا خون تبديل کيا جائے گا

اللہ کی کرم نوازی ہوئی کہ ايک لمبے تجربہ والے ڈاکٹر صاحب راولپنڈی سے کسی سلسلہ ميں واہ چھاؤنی آئے ۔ کسی نے اس معرکہ کا ذکر اُن سے کيا ۔ وہ ڈاکٹر صاحب ميری بيوی کے کمرہ ميں جا کر ساری رپورٹيں ديکھ کر آئے اور کہا ” آپ لوگوں کو يقين ہے کہ بچے کا خون تبديل کر کے آپ بچے کو بچا ليں گے ؟” جواب ملا “کوشش ہمار فرض ہے”۔ بزرگ ڈاکٹر صاحب نے کہا “آپ جانتے ہيں کہ کتنا بڑا رِسک لے رہے ہيں ؟ ميں ايسے درجنوں کيس کر چکا ہوں اور اللہ کے فضل سے سب بچے بصحت ہيں ۔ اللہ پر بھروسہ رکھ کے نيک نيّتی سے کام کريں ۔ اللہ بہتر کرے گا”۔ چنانچہ ميرا دوسرا بيٹا يعنی تيسرا بچہ بھی اللہ کے فضل سے بخير و عافيت پيدا ہوا

ميرے بڑے بيٹے زکريا نے ماشاء اللہ انجنئرنگ يونيورسٹی لاہور سے بی ايس سی انجيئرنگ پاس کی ۔ پھر جارجيہ انسٹيٹيوٹ آف ٹيکنالوجی اٹلانٹا جارجيہ امريکا سے ايم ايس انجيئرنگ پاس کی
ميری بيٹی نے ماشاء اللہ کلينيکل سائيکالوجی ميں ايم ايس سی پاس کرنے کے بعد پوسٹ ماسٹرز ڈپلومہ کيا
چھوٹے بيٹے نے ماشاء اللہ آئی بی اے کراچی سے صبح کے وقت کا کُل وقتی ايم بی اے پاس کيا ۔ پھر سٹريتھکلائيڈ يونيورسٹی يو کے سے ايم ايس سی فنانس پاس کيا
يہ تينوں بچے ماشاء اللہ کسی امتحان ميں فيل نہيں ہوئے اور اللہ کے فضل سے صحتمند اور چاک و چوبند ہيں

يہ وہ بچے ہيں جن کے ماں باپ فرسٹ کزن ۔ دادا دادی بھی فرسٹ کزن اور نانا نانی سيکنڈ کزن

ميری پھوپھی زاد بہن جو ميری بيوی کی تايا زاد ہيں اُن کی شادی اپنی پھوپھی کے بيٹے سے ہوئی ۔ اُن کے سب بچے ماشاء اللہ ٹھيک ٹھاک ہيں ۔ اُنہوں نے اپنے بيٹے کی شادی اپنی سگی بھتيجی سے کی جن کے اب ماشاء اللہ دو بچے ہيں ٹھيک ٹھاک اور ذہين

ہمارے قريبی عزيزوں ميں چار بچے نقص والے پيرا ہوئے ۔ ميرے والد صاحب کے تايا صاحب کے دو بيٹوں اور ايک بيٹی ميں سے ايک بيٹے گونگے تھے ۔ والد صاحب کے تايا صاحب کی بيوی غير خاندان سے تھيں
ميرے والد صاحب کی تايا زاد بہن کے بيٹے کی شادی غيروں ميں ہوئی ۔ اُن کا بيٹا جب پيدا ہوا تو اُس کا تالُو يعنی منہ کے اندر زبان کے اُوپر جو چھت ہوتی ہے وہ نامکمل تھی جس کی وجہ سے اُس بچے کو کئی ماہ ہستال ميں رکھنا پڑا اور اُس کی مکمل پلاسٹک سرجری ميں کئی سال لگے
ميرے خالہ زاد بھائی جو ميری بيوی کے سگے بھائی ہيں اُن کے دو بيٹوں اور تين بيٹيوں ميں سے ايک بيٹا ناقص العقل [retarded] ہے ۔ ميرے خالہ زاد بھائی کی بيوی غير خاندان سے ہے
متذکرہ بالا ميری پھوپھی زاد بہن کی ايک بيٹی کے دو بيٹوں اور تين بيٹيوں ميں سے ايک بيٹا ناقص العقل ہے ۔ اس بچے کا باپ غير خاندان سے تھا
ميں يہ نہيں کہنا چاہ رہا کہ غيروں ميں شادی کا يہ نتيجہ ہوتا ہے ۔ نہيں بالکل ايسا نہيں ہے ۔ ميری چاروں بہنوں اور ايک بھائی کی شادیاں غيروں ميں ہوئیں اور ماشاء اللہ سب کے بچے تندرست اور ذہين ہيں

دو واقعات جن کا ميں نے شروع میں حوالہ ديا تھا
مجھے 1948ء ميں گلا خراب ہونے کی وجہ سے تيز بخار ہو گيا ۔ والد صاحب ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے مجھے پنسلين کا ٹيکہ لگايا ۔ ٹيکہ لگوا کر ہم گھر کو روانہ ہوئے ۔ کوئی دس منٹ بعد ميری آنکھوں کے آگے اندھيرا آنا شروع ہوا اور ميں بيہوش ہو گيا ۔ جب ہوش میں آيا تو میں ڈاکٹر کے کلنک پر تھا اور ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے “کوئی ايسی بات نہيں ہے ۔ بچے کا دل کمزور ہے ٹيکے سے ڈر گيا ہے”۔ گھر پہنچ کر جب والد صاحب نے قصہ والدہ صاحبہ کو سُنايا تو وہ بوليں “اجمل تو اُس وقت بھی مستعد ہوتا ہے جب بڑے بڑے گرنے کو ہوتے ہيں ۔ ضرور دوائی کا اثر ہوا ہو گا”۔ بارہ پندرہ سال بعد معلوم ہوا کہ نئی تحقيق کے مطابق پنسلين سے خطر ناک ردِعمل ہوتا ہے اسلئے پنسلين پہلے ٹيسٹ کرنے کے بعد دی جائے ۔ مزيد کچھ عرصہ بعد پنسلين بنانا بند کر ديا گيا

دسمبر 1964ء ميں مجھے بخار ہوا ۔ ڈاکٹر نے مليريا تشخيص کر کے دوائی دی ۔ دو دن بعد بہتر ہونے کی بجائے حالت ابتر ہو گئی ۔ ميں نے جا کر ڈاکٹر سے کہا کہ دوائی کا کچھ غلط اثر ہوتا محسوس ہوتا ہے تو ڈاکٹر صاحب بولے “يہ دوائی امريکا کے بہترين ماہرين نے اتنے سالوں کی تحقيق اور تجربہ کے بعد بنائی ہے ۔ اس دوائی کا ردِ عمل ہو ہی نہيں سکتا”۔ دوائی جاری رکھی ۔ چار دن بعد ميں ہسپتال ميں بيہوش پڑا تھا ۔ ميرے گردوں ميں سے خون بہہ رہا تھا اور ہيموگلوبن جو عام طور پر ميری 14.2 ہوتی تھی 6.9 رہ گئی تھی ۔ کسی کو کچھ سمجھ ميں نہ آ رہا تھا سوائے اسکے کہ مجھے خون کی بوتل لگا دی گئی مگر بلڈ پريشر بہت کم ہو جانے کے باعث خون کی ايک بوتل چار دن ميں چڑھی جن ميں سے تين دن ميں متواتر بيہوش پڑا رہا تھا ۔ مزيد دس دن يہ حال رہا کہ بستر سے سر اُٹھاؤں تو بيہوش ہو جاتا تھا بغير تکئے کے ليٹا رہا اور نيند نہ آتی تھی ۔ ميرے بعد کئی اور اسی طرح کے کيس ہوئے اور ايک سال بعد نئی تحقيق آئی کہ اُس دوائی کے خطرناک ثابت ہونے کی وجہ سے ممنوع قرار دے دی گئی ہے ۔ اور دوائی تمام دوائی کی دکانوں سے اُٹھا لی گئی

فہوالمطلوب
جنہوں نے دسويں جماعت تک جيوميٹری اُردو ميں پڑی ہے اُنہيں شاید ياد ہو کہ زيادہ تر مسئلے [theorum] تو براہِ راست حل کئے جاتے تھے مگر کچھ ايسے تھے کہ جن ميں جواب فرض کر ليا جاتا تھا اور پھر اُسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔ آخر ميں لکھا جاتا تھا چونکہ مفروضہ غلط ثابت نہيں ہو سکا اسلئے يہ درست ہے ۔ فہوالمطلوب ۔ فہوالمطلوب عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اور وہی چاہيئے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ سُنا ہے کہ ۔ ۔ ۔

سُنا ہے کہ مردوں کا چال چلن ٹھيک نہيں ۔ مرد ظُلم کرتے ہيں ۔ جو عمل بُرا ہے وہ بُرا ہے چاہے جو بھی کرے اسلئے غلط عمل کرنے والے کا دفاع نہيں ملامت کرنا چاہيئے ليکن ۔ ۔ ۔

عورتيں اپنے بيٹے يا بھائی يا خاوند کے متعلق کيا کہتی ہيں ؟ اگر بيٹے بھائی خاوند سب ٹھيک ہيں تو پھر بُرا کون ہے ؟
اگر بيٹا بُرا ہے تو اُس کی ماں عورت نے بيٹے کی تربيت درست کيوں نہ کی ؟
اگر خاوند بُرا ہے تو کيا اُس بيوی عورت نے اُسے درست کرنے کی کوشش کی يا بصورتِ ديگر احتجاج کے طور پر اُس سے کم از کم گھر کے اندر ہی عليحدگی اختيار کی ہے ؟

سُنا ہے کہ بازاروں ميں باغيچوں ميں سير و سياحت کی جگہوں ميں مخلوط محفلوں ميں کچھ عورتيں ننگے سر پھرتی ہيں ۔ کچھ کپڑے اتنے چُست پہنے ہوتی ہيں کہ جسم کے تمام خد وخال عياں ہوتے ہيں ۔ کچھ کی قميضوں کے گريبان اتنے بڑے ہوتے ہيں کہ پُشت پر شانے اور سامنے آدھی چھاتی نظر آتی ہے کچھ نے ساڑھی زيبِ تن کی ہوتی ہے اور ان کی کمر اور پيٹ ننگے ہوتے ہيں اور کچھ ايسی بھی ہوتی ہيں جنہوں نے نہائت مہين کپڑے کی قميض بغير بنيان یا شميض پہنی ہوتی ہے

کيا عورت يہ ديکھنے کيلئے ايسا کرتی ہے کہ مرد خراب ہيں يا نہيں ؟

کہتے ہيں کہ ايک شخص جو کئی جرائم ميں ملوث تھا پکڑا گيا اور اسے پھانسی کی سزا ہوئی ۔ حسبِ معمول پھانسی چڑھانے سے پہلے اُس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو کہنے لگا “ميں نے اپنی ماں کے کان ميں کچھ کہنا ہے” ۔ جب ماں سُننے کيلئے آئی تو اُس نے ماں کے کان کو دانتوں سے کاٹ ليا ۔ بڑی مشکل سے چھڑايا گيا تو کہنے لگا “ميری ماں لوگوں کی شکايات اس کان سے سُنتی تھی اگر يہ ميری درست تربيت کرتی تو ميں آج پھانسی نہ چڑھتا”

سُنا ہے کہ کچھ عورتيں ماڈلنگ کرتی ہيں جس ميں جن کپڑوں کا وہ اشتہار ہوتی ہيں اُن کی نسبت اُن کے جسم کے خدو خال اور حرکات کی نمائش زيادہ ہوتی ہے
سُنا ہے کہ کچھ عورتيں مخلوط محفلوں ميں ناچتی ہيں اور اپنے اعضاء کی خوبصورتی بھی نماياں کرتی ہيں

کيا متذکرہ بالا سب عورتيں صحتمند معاشرہ کی نشانی ہيں ؟

سورت 7 الْأَعْرَاف آیت 26
اے اولادِ آدم ۔ ہم نے تم پر لباس اتارا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقوٰی کا لباس ہے۔ یہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ شائد کہ لوگ اس سے سبق لیں

سورت 24 النور آيت 30
مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے

سورت 24 النّور آیت 31
اور اے نبی ۔ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل کھينچ لیں ۔ وہ اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں سوائے شوہر یا باپ یا شوہروں کے باپ اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا بھتیجے یا بھانجے کے یا اپنی میل جول کی عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو [کم سِنی کے باعث ابھی] عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے ۔ اور نہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی چلا کریں کہ ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ [حکمِ شریعت سے] پوشیدہ کئے ہوئے ہیں ۔ اے مومنو ۔ تم سب کے سب اللہ سے توبہ کرو ۔ توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے

سورت 33 الْأَحْزَاب آیت 59
اے نبی ۔ اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں ۔ اور اللہ غفور و رحیم ہے