Category Archives: معاشرہ

بچوں کو لکھنا کيسے سيکھائيں

عنيقہ ناز صاحبہ نے اچھا موضوع چُنا ہے ۔ طريقہ جو بتايا ہے اُس سے ميرے پوتے پوتياں مستفيد ہو سکتے ہيں ۔ ايسے بچے تو پہلے سے ہی اُونچے نام والے سکولوں ميں پڑھتے ہيں ۔ اگر ايسے بچوں ميں تعليم کی کمزوری پائی جاتی ہے تو اس ميں طريقہ تعليم کا کوئی دوش نہيں ۔ اُن کے والدين کی لاپرواہی يا غرور کا نتيجہ ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس اصلاحِ طريقہ تعليم کی ضرورت اُن 60 سے 70 فيصد طلباء و طالبات کو ہے جن کے والدين ايسے سُلجھے ہوئے طريقوں پر عمل کرنے سے قاصر ہيں جس کی تين وجوہات ہيں

ايک ۔ والدين اَن پڑھ ہيں يا کم پڑھے لکھے ہيں
دو ۔ والدين گھر کے اخراجات مہيا کرنے ميں اتنے مصروف ہوتے ہيں کہ بچوں کو وقت نہيں دے سکتے

تين ۔ سب سے بڑی وجہ يہ ہے کہ اس طريقہ پر چلنے کيلئے اُن کے پاس وسائل نہيں ہيں

اس کا حل ميں بعد ميں بتاؤں گا پہلے ميری آپ بيتی

اللہ کی کرم نوازی ہے کہ ميں نے بلامعاوضہ پہلی جماعت سے لے کر ايم ايس سی تک کے بچوں کو پڑھايا ہے اور ملازمت کے طور پر 3 سال ايسوسيئيٹ انجنيئر ڈپلومہ کلاسز اور 5 سال بی ايس سی انجنيئرنگ کلاسز کو پڑھايا ہے

ميں نے درجن بھر ننھے بچوں کو سکول داخل ہونے سے پہلے پڑھنا لکھنا سکھايا ۔ ان ميں 4 ميرے مجھ سے 10 سے 15 سال چھوٹے بھائی بہن اور 3 ميرے بچے ہيں ۔ ان سب پر ميں نے بڑے حِلم کے ساتھ محنت کی مگر ميری مجھ سے 15 سال چھوٹی بہن کو پڑھانا اور لکھانا ميرے لئے سب سے بڑا امتحان تھا ۔ ميں نے کہا پڑھو “الف” تو اس نے کہا “پڑھو الف”۔ خير اس سے تو جلدی جان چھوٹ گئی ميں نے صرف الف کہنا شروع کيا ۔ ميں نے کہا “ب”۔ تو بہن نے کہا “نہيں آتا” ۔ ميں نے کہا ” A ” تو اس نے کہا ” A “۔ ميں نے کہا ” B “۔ تو اُس نے کہا “نہيں آتا”۔ ميں نے کہا “ايک” تو اُس نے کہا “ايک”۔ ميں نے کہا “دو”۔ تو اس نے کہا “نہيں آتا”

ميں انجنئرنگ کالج سے گرميوں کی چھٹيوں ميں گھر آيا ہوا اپنا فرض نبھا رہا تھا۔ تين دن ميں پوری کوشش کرتا رہا مگر ميری پياری بہن کا جواب نہ بدل سکا ۔ پھر اس کا ايک حل ذہن ميں آيا ۔ ميں بازار سے اچھے معيار کا سفيد کاغذ اور رنگدار پنسليں لايا اور ايک کاغذ پر رنگدار سيب بنايا اور ساتھ لکھا ” A for Apple “۔ پھر بہن کو دکھا کر کہا ” A for Apple “۔ اُس نے کہا ” A for Apple “۔ ميں نے دوسرے کاغذ پر کرکٹ کا بلا بنايا اور اسے کہا ” B for Bat “۔ تو بلا توقف بہن نے کہا ” B for Bat “۔ اسی طرح انگور کا گچھا بنا کر لکھا الف سے انگور اور بلّی بنا کر لکھا ب سے بلّی اور وہ پڑھتی گئی ۔ گنتی کيلئے بنايا ايک سيب دو ناشپاتی تين آلو بخارے وغيرہ وغيرہ ۔ ميرا نُسخہ کامياب ہو گيا ۔ اس طرح ميں نے اُسے حروفِ ابجد اور Alphabet صرف ايک ماہ ميں پڑھا دی البتہ ميری ڈرائينگ بنانے کی اچھی مشق ہو گئی ۔ لکھنے کيلئے چار لکيری کاپی لايا اُس پر ہلکی پنسل سے ميں لکھ ديتا اور بہن سے کہتا کہ ان لکيروں پر لکيريں لگاؤ مگر ديکھو اگر آپ کی لکير ميری لکير سے باہر نہ گئی تو آپ بادشاہ بنو گی ميں وزير اور اگر آپ کی لکير باہر چلی گئی تو آپ وزير بنو گی اور ميں بادشاہ

ميں نے اس طرح 2 ماہ ميں اپنی اس بہن کو پڑھنا اور لکھنا سکھا ديا تو اُس نے ايسی رفتار پکڑی کہ ہر جماعت ميں شاباش ليتی بڑھتی گئی اور ايم ايس سی بوٹنی کے بعد ايم فِل کيا ۔ ايک سال بعد پی ايچ ڈی بھی کر ليتی اگر اُس کی شادی نہ کر دی جاتی

ہمارا معاشرہ جس ميں 40 فيصد آبادی غربت کی لکير سے نيچے زندگی بسر کر رہی ہے اور مزيد 20 فيصد بمشکل گذارہ کر رہے ہيں وہ اپنے بچوں کيلئے ايسی کاپياں جو عام کاپيوں سے خاصی مہنگی ملتی ہيں کيسے مہيا کر سکتے ہيں ۔ اس مسئلے کا حل تختی اور سليٹ ہے جس کا استعمال دو تين دہائيوں سے ترک کر ديا گيا ہے ۔ تختی پر استاذ پنسل سے لکھ ديتے تھے اور بچے قلم سے لکھتے تھے ۔ اب تو وہ قلميں عجائب گھر ميں بھی نظر نہيں آتيں ۔ سليٹ پر استاذ گنتی سکھاتے ۔ اگر کہيں غلطی ہو جاتی تو مٹا کر درست کرتے اور ساتھ سمجھاتے بھی ۔ ايک تختی اور ايک سليٹ گھر کے سب بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا سکتی ہيں اور اس کے بعد کسی اور کے بھی کام آ سکتی ہيں

تختی پر قلم سے لکھنے کيلئے قلم کو ايک خاص طريقے سے پکڑا اور چلايا جاتا تھا اور دباؤ کا بھی خاص دھيان رکھنا پڑتا تھا ۔ يہ سب کام استاذ سکھاتے تھے ۔ اس سے انگليوں ہتھيلی اور کلائی کے پٹھے موذوں طور پر نشو و نما پاتے تھے اور بعد ميں پنسل يا پين سے لکھنا آسان ہوتا تھا

بچوں کو لکيريں لگانے کا شوق 2 سے 3 سال کی عمر کے درميان شروع ہو جاتا ہے ۔ ايک طرف سے استعمال شدہ کاغذ خاصی تعداد ميں سنبھال رکھيئے ورنہ بازار سے نيا سفيد کاغذ لے آيئے اور آدھی لمبائی والی رنگدار پنسليں بھی ۔ بچے کو رنگدار پنسليں ديجئے اور ايک ايک کر کے کاغذ ديتے جايئے ۔ اس بات کا خاص خيال رکھيئے کہ بچہ پنسل يا کاغذ منہ کی طرف نہ ليجائے ۔ پنسل کی صورت ميں وہ اُسے کاٹے گا اور اس کي نوک ٹوٹ کر بچے کے حلق ميں اٹک سکتی ہے جو پريشانی کا باعث بنے گی ۔ کاغذ بچہ تيزی سے منہ ميں ڈال کر کھينچتا ہے ۔ اس صورت ميں کاغذ کا چھوٹا ساٹکڑا منہ ميں رہ سکتا ہے جس کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب تالو يا حلق سے چپک کر مصيبت کھڑی کر ديتاہے ۔ بچے کو محدود وقت کيلئے پنسليں ديجئے اور پھر لے کر چھپا ديجئے ورنہ آپ کے گھر کی ديواريں آپ کے کپڑے بچے کا جسم يا جو کچھ اُسے مل جائے اُس پر ابسٹريکٹ آرٹ [abstract art] کے نمونے بن جائيں گے

اِس کا ديرپا حل کيا ہے؟

ميں جانتا ہوں کہ مندرجہ ذيل خبر پڑھنے پر انٹرنيٹ صارف اس عمل کو جاہليت بھی قرار دے سکتے ہيں ليکن ميرا صرف ايک سوال ہے کہ اِس کا حل کيا ہے ؟ کيا اپنے دين کی توہين اور قرآن شريف ميں تحريف برداشت کر لی جائے ؟

لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بنچ نے گستاخانہ مواد کی اشاعت اور قرآن پاک میں تحریف کے الزامات پر 9 ویب سائٹس یاہو، ایم ایس این، ہاٹ میل، یو ٹیوب ، گوگل ، اسلام ایکسپوزڈ، ان دا نیم آف اللہ ، امیزون اور بنگ کو فوری طور پر بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عالیہ بہاولپور بنچ نے بہاولپور کے ایک شہری محمد صدیق کی طرف سے دائر کردہ رٹ پٹیشن نمبر3246/2010 پر چیئرمین پی ٹی اے کو ہدایت جاری کی اور 28 جون کو ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ وفاق کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد حسین آزاد نے بھی رٹ پٹیشنر کے مؤقف کی تائید کی۔ جسٹس مظہر اقبال کی عدالت میں مدعی کے وکیل لطیف الرحمن ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اِن ویب سائٹس پر توہین آمیز موادموجود ہے، عدالت کو اس حوالے سے سی ڈی اور ریکارڈ بھی پیش کیا گیا، جس پر عدالت نے مذکورہ ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا، ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد حسین آزاد نے بتایا کہ انہوں نے پٹیشنر کی پٹیشن اور اس کا مطالبہ دیکھتے ہوئے عدالت میں خود استدعا کی کہ ان ویب سائٹس جن پر گستاخانہ مواد شائع کیا جارہا ہے کو فوری بلاک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان ویب سائٹس پر اس قسم کے مواد کا شائع ہونا نہایت قابل مذمت ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس کی جتنی مذمت کریں اتنا کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے پٹیشنر اور میری استدعا پر ان ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا۔ بعد ازاں صدر ہائیکورٹ بار اسلم دھکڑ نے کہا کہ عدالت نے تاریخی فیصلہ دیا ہے ، انہوں نے کہا کہ بہاو لپور کے وکلا آج مکمل ہڑتال کریں گے اوراس سلسلہ میں خصوصی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔

ہماری تاريخ کمزور ہے

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں شہریوں کو معلومات تک رسائی دینے کے باوجود یہ رسائی عملی طور پر حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ مثلاً جب یہ دعویٰ داغا گیا کہ قائد اعظم نے9 اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلا کر قومی ترانہ لکھنے کے لئے کہا تو مجاورین قائد اعظم کا فرض بنتا تھا کہ وہ اس بہتان کی تحقیق کرتے اور ریکارڈ کھنگال کر اس کی تصدیق یا تردید کرتے۔ آپ پوچھیں گے کہ مجاورین قائداعظم کون ہیں؟ میں قائد اعظم کے مجاور ان اداروں کوکہتا ہوں جو قائد اعظم کے نام پرغریب قوم کے ”تنگ دست“ خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ کہنے کو قائد اعظم اکادمی بھی موجود ہے جہاں معروف سکالرز بیٹھے ہوئے ہیں ۔ قائد اعظم پیپرز سیل بھی قائم ہے جہاں ملازمت پیشہ حضرات کسی جذبے سے تہی دامن محض نوکری اور تنخواہ کے لئے بیٹھے عیش کررہے ہیں۔ ان کے پاس سرکاری ریکارڈ بھی موجود ہے اور قائد اعظم کے کاغذات بھی۔ لاہور میں نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن میں بھی عاشقان قائد اعظم خطابت کے گل کھلاتے رہتے ہیں۔ تحقیق قدرے مشکل اور صبر آزما کام ہے اس میں وقت بھی لگتا ہے اور پیسہ بھی اس لئے میرے نزدیک یہ ان اداروں کا کام تھا کہ وہ اس موضوع پر تحقیق کرتے اور وضاحت کرتے کیونکہ یہ بالکل ایک انہونی بات تھی جس نے طالبعلموں اور نوجوانوں کو قائد اعظم کے حوالے سے گمراہ کرکے رکھ دیا

پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے مجھے فون کیا اور غصے سے کہا ”اگر قائداعظم کو جگن ناتھ آزاد سے ہی قومی ترانہ لکھوانا تھا تو پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی؟“ میں نے اسے پیار سے سمجھایا کہ آزاد پاکستان کا شہری تھا اس سے ترانہ لکھوانا کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مجھے یہ ساری کہانی فرضی اور خیالی پلاؤ لگتی ہے کیونکہ جگن ناتھ آزاد نے خودکبھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔ یہ شوشہ اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے اور ہمارے نام نہاد سیکولر حضرات نے چھوڑا ہے۔ہاں مجھے یاد آیا جگن ناتھ آزاد پاکستان اکثر آتا رہا۔ ڈاکٹر انور سدید اور محترم رفیع الدین ہاشمی سے کئی بار ملا ان بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس نے کبھی بھی قائد اعظم سے ملاقات یا قومی ترانہ لکھوانے کا ذکر نہیں کیا اگر جگن ناتھ آزاد کو یہ اعزاز حاصل ہوتا تو وہ اس کا ہر بار ذکر کرتا بلکہ بقول شخصے اچھل اچھل کر ذکرکرتا۔ ان دعویداروں کے مطابق جسے یہ اعزاز حاصل تھا اس نے تو کبھی اس کا ذکر نہیں کیا لیکن اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے اور ہمارے دو تین لکھاریوں نے یہ ہوائی اڑا دی جس کی کسی ریکارڈ یا قائد اعظم کے سٹاف سے تصدیق نہیں ہوتی

میں جن دنوں حقائق جاننے کے لئے مضطرب تھا اور شواہد اکٹھے کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کررہا تھا تو مجھے بعض دلچسپ تجربات ہوئے۔ مثلاً مجھے ریڈیو پروگراموں کی تفصیلات پڑھنے کے لئے اگست 1947ء کے اخبارات ڈھونڈھنے میں خاصی ”کھجل خواری“ہوئی تب مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستان کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے کن مصائب کا شکار ہیں۔ 1964۔65 میں جب میں مسلم لیگ کے دور حکومت 1947۔54 پر ریسرچ کررہا تھا تو پاکستان ٹائمز کی لائبریری میں اخبار کامکمل ریکارڈ موجود تھا جہاں میں نے ان سات برسوں کا ایک ایک اخبار پڑھا۔ پنجاب پبلک لائبریری میں اردو اخبارات کے علاوہ مشرقی پاکستان کے اخبارات کا ریکارڈ بھی موجود تھا۔ آج یہ سارا ریکارڈ ضائع ہوچکا ہم کس قدر علم دوست قوم ہیں؟؟

سچ کی تلاش کے اس سفر میں بعض مقامات پر عزت نفس بھی مجروح ہوئی اور ”جھڑکیاں“ بھی کھانی پڑیں لیکن میں نے قائد اعظم کی خاطر سب کچھ برداشت کیا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ میں ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز اور ریکارڈ دیکھناچاہتا تھا۔ ایک عزیزی نے کہا تم سیکرٹری انفارمیشن رہے ہو تمہارے لئے یہ کام مشکل نہیں ہوگا۔ میں مسکرایا اور عرض کیا کہ یہ قوم بڑی کرسی پرست ہے ریٹائرڈ لوگوں کو ردی کی ٹوکری کا حصہ سمجھتی ہے۔ ایک بار پھرمیرے تجربے کی تصدیق ہوگئی جب میں نے ریڈیو پاکستان کے نو وارد ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کرنے کے لئے متعدد کوششیں کیں اور انہوں نے مجھے گھاس ڈالنا مناسب نہ سمجھا

مروت، اخلاق اور بزرگوں کا ادب والدین اور سکول کی تربیت کی دین ہوتا ہے نہ کہ عہددوں اور کرسی کی عطا، مدت ہوئی انور محمود مشرف کے سیکرٹری انفارمیشن تھے وہ میرے جونیئر رفیق کار اور چھوٹا بھائی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ میں مشرف کے دور میں زیر عتاب اوایس ڈی تھا چنانچہ انور صاحب نے میرا فون سننے سے انکار کردیا۔ بہرحال میں ریڈیو پاکستان(پی بی سی)کے کنٹرولر ہوم سروس علی منشا صاحب کا ممنون ہوں جنہوں نے آرکائیوز اور تاریخی ریکارڈ کے حوالے سے میری مدد کی اور علیحدہ سے ایک تصدیقی بیان بھی بھجوایا کہ جگن ناتھ آزاد کا قومی ترانہ ریڈیو پاکستان سے ہرگز نشر نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ میری تحقیق کا دائرہ 1949تک محدود تھا کیونکہ اس کے بعد تو کمیٹی بنی اور بالآخر 1954میں حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا قومی ترانہ پاکستان کا ترانہ بن گیا

دوران سفر بات یہاں آکر رک گئی کہ کس طرح قائد اعظم کے اے ڈی سی جناب عطا ربانی سے رابطہ کرکے یہ پوچھا جائے کہ کیا کبھی جگن ناتھ آزاد قائد اعظم سے ملے تھے کیونکہ اس سطح پر ملاقاتیں بہرحال اے ڈی سی کے ذریعہ ہی ہوتی ہیں۔ میں نے کہیں سے محترم عطاربانی صاحب کے صاحبزادے سینیٹر رضا ربانی کا سیل نمبر لیا ۔کئی کوششوں کے بعد ان تک پہنچا۔ اپنا تعارف کرایا اور التجا کی کہ قومی خدمت کے حوالے سے اور ریکارڈ کی تصحیح کے لئے مجھے یہ بات اپنے والد گرامی سے پوچھ دیں یا مجھے ان کا رابطہ عطا فرمادیں۔ انہوں نے مجھے جھڑک دیا اور میں نے قائد اعظم کی خاطر وہ جھڑک بھی برداشت کرلی۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے نظامی صاحب کے ذریعے محترم عطا ربانی صاحب سابق اے ڈی سی ٹُو قائد اعظم تک رسائی حاصل ہوئی اور میں نے ان سے براہ راست بات کرکے اپنی تسلی و تشفی کی کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائد اعظم سے ملے اور نہ کبھی قائد اعظم کی زبان سے ان کا ذکر سنا

اس کے باوجود اگر ہمارے مہربان نہ مانیں اور اپنی ضد پہ قائم رہیں تو اسے ضد ہی کہا جاسکتا ہے اور ضد کا علاج تو لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا

بشکريہ ۔ جنگ

کيا وِکی پِيڈيا اور آل تھِنگز پاکستان قابلِ اعتبار ہيں ؟

اس کالم کا مقصد صرف اور صرف سچ کی تلاش ہے نہ کہ کسی بحث میں الجھنا۔ میں اپنی حد تک کھُلے ذہن کے ساتھ سچ کی تلاش کے تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ پچھلے دنوں میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 9 اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلاکر پاکستان کا ترانہ لکھنے کو کہا۔ انہوں نے پانچ دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو قائداعظم کی منظوری کے بعد آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور پھر یہ ترانہ 18ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا۔ جب 23 فروری 1949ء کو حکومتِ پاکستان نے قومی ترانے کے لئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کردیا گیا۔

اس انکشاف کے بعد مجھے بہت سے طلباء اور بزرگ شہریوں کے فون آئے جو حقیقت حال جاننا چاہتے تھے لیکن میرا جواب یہی تھا کہ بظاہر یہ بات قرین قیاس نہیں ہے لیکن میں تحقیق کے بغیر اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے ان سکالروں سے رابطے کئے جنہوں نے قائداعظم پر تحقیق کرتے اور لکھتے عمر گزار دی ہے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ یہ شوشہ ہے، بالکل بے بنیاد اور ناقابل یقین دعویٰ ہے لیکن میں ان کی بات بلاتحقیق ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ قائداعظم اور جگن ناتھ کے حوالے سے یہ دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پر کئی ”بلاگز“ (Blogs) میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کرکے محفوظ کر دی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کوکنفیوز کیا جا سکے اور ان ساری معلومات کی بنیاد کوئی ٹھوس تحقیق نہیں تھی بلکہ سنی سنائی یا پھر جگن ناتھ آزاد کے صاحبزادے چندر کے آزاد کے انکشافات تھے جن کی حمایت میں چندر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے

سچ کی تلاش میں، میں جن حقائق تک پہنچا ان کا ذکر بعد میں کروں گا۔ پہلے تمہید کے طور پر یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جگن ناتھ آزاد معروف شاعر تلوک چند کا بیٹا تھا ۔ وہ 1918ء میں عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوا۔ اس نے 1937ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور 1944ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔ تھوڑا سا عرصہ ”ادبی دنیا“ سے منسلک رہنے کے بعد اس نے لاہور میں ”جئے ہند“ نامی اخبار میں نوکری کرلی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ستمبر میں ہندوستان ہجرت کر گیا۔ اکتوبر میں ایک بار لاہور آیا اور فرقہ وارانہ فسادات کے خوف سے مستقل طور پر ہندوستان چلا گیا۔

وِکی پیڈیا (Wikipedia) اور All things Pakistanکے بلاگز میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ قائداعظم نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو 9 اگست کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کے لئے پانچ دن دیئے۔ قائداعظم نے اسے فوراً منظور کیا اور یہ ترانہ اعلان آزاد ی کے بعد ریڈیو پاکستان پر چلایا گیا۔ چندر نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت ِ پاکستان نے جگن ناتھ کو 1979ء میں صدارتی اقبال میڈل عطا کیا

میرا پہلا ردعمل کہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے ، کیوں تھا؟ ہر بڑے شخص کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایک تصویر ہوتی ہے اور جو بات اس تصویر کے چوکھٹے میں فٹ نہ آئے انسان اسے بغیر ثبوت ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ قائداعظم سر تا پا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس ضمن میں سینکڑوں واقعات کا حوالہ دے سکتا ہوں ۔ اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالا تر تھی کہ قائداعظم کسی کو ترانہ لکھنے کے لئے کہیں اور پھر کابینہ، حکومت یا ماہرین کی رائے لئے بغیر اسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کر دیں جبکہ ان کا اردو، فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا

میرے لئے دوسری ناقابل یقین صورت یہ تھی کہ قائداعظم نے عمر کا معتد بہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا۔ ان کے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات، مسلم لیگی سیاستدان، وکلا وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت ان کی عمر 71 سال کے لگ بھگ تھی۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29 سال کے غیرمعروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے پھر وہ پاکستان مخالف اخبار ”جئے ہند“ کے ملازم تھے۔ ان کی قائداعظم سے دوستی تو کجا تعارف بھی ممکن نظر نہیں آتا

پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو محض تخیلاتی باتیں ہیں جبکہ مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔ ذہنی جستجو نے رہنمائی کی اور کہا کہ قائداعظم کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کر مل لے۔ وہ مسلمانان ہند و پاکستان کے قائداعظم اور جولائی 1947 سے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کا کہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہوگا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989ء میں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مل گئی جس کا نام ہے Visitors of the Quaid-e-Azam
۔ احمد سعید نے بڑی محنت سے تاریخ وار قائداعظم کے ملاقاتیوں کی تفصیل جمع کی ہے جو 25 اپریل 1948ء تک کے عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں قائداعظم کے ملاقاتیوں میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔

”پاکستان زندہ باد“ کے مصنف سید انصار ناصری نے بھی قائداعظم کی کراچی آمد 7 اگست شام سے لے کر 15 اگست تک کی مصروفیات کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بھی آزاد کا ذکر کہیں نہیں۔ سید انصار ناصری کو یہ تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی 3 جون 1947ء والی تقریر کا اردو ترجمہ آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیا تھا اور قائداعظم کی مانند آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کیا تھا

لیکن سچی بات یہ ہے کہ پھر بھی میر ی تسلی نہیں ہوئی۔ دل نے کہا کہ جب 7 اگست 1947ء کو قائداعظم بطور نامزد گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو ان کے ساتھ ان کے اے ڈی سی بھی تھے۔ اے ڈی سی ہی ملاقاتوں کا سارا اہتمام کرتا اور اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے اور صرف وہی اس سچائی کی تلاش پر مہر ثبت کرسکتا ہے۔ جب قائداعظم کراچی اترے تو جناب عطا ربانی بطور اے ڈی سی ان کے ساتھ تھے اور پھر ساتھ ہی رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ زندہ ہیں لیکن ان تک رسائی ایک کٹھن کام تھا۔ خاصی جدوجہد کے بعد میں بذریعہ نظامی صاحب ان تک پہنچا۔ جناب عطا ربانی صاحب کا جچا تلا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائداعظم سے ملا اور نہ ہی میں نے کبھی ان کا نام قائداعظم سے سنا۔

اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہوجانا چاہئے تھا کہ جگن ناتھ آزا د کو قائداعظم نے بلایا۔ اگست 1947ء میں شدید فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جگن ناتھ آزاد لاہور میں مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لیتے پھر رہے تھے اور ان کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ان حالات میں ان کی کراچی میں قائداعظم سے ملاقات کا تصو ر بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا حالانکہ وہ پاکستان میں کئی دفعہ آئے حتیٰ کہ وہ علامہ اقبال کی صد سالہ کانفرنس کی تقریبات میں بھی مدعو تھے جہاں انہوں نے مقالات بھی پیش کئے جو اس حوالے سے چھپنے والی کتاب میں بھی شامل ہیں

عادل انجم نے جگن ناتھ آزاد کے ترانے کا شوشہ چھوڑا تھا۔ انہوں نے چندر آزاد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کو 1979ء میں صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صدارتی اقبال ایوارڈ کی ساری فہرست دیکھی ہے اس میں جگن ناتھ آزاد کا نام نہیں۔ پھر میں کابینہ ڈویژن پہنچا اور قومی ایوارڈ یافتگان کا ریکارڈ کھنگالا۔ اس میں بھی جگن ناتھ آزاد کا نام نہیں ہے۔

وہ جھوٹ بول کر سچ کوبھی پیار آ جائے۔ اب آیئے اس بحث کے دوسرے حصے کی طرف… ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کا کوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949ء تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا اور 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کے ساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صداگونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا۔

پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو

ان دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر تھے۔ 15 اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا

”توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے“

میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14 اگست سے لے کر اواخر اگست تک اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ سچ کی تلاش میں، میں ریڈیو پاکستان آرکائیوز سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے 14 اگست سے 21 اگست 1947ء تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے سختی سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ پھر میں نے ریڈیو پاکستان کا رسالہ ”آہنگ“ ملاحظہ کروایا جس میں سارے پروگراموں کی تفصیلات شائع ہوتی ہیں۔ یہ رسالہ باقاعدگی سے 1948 سے چھپنا شروع ہوا۔

18 ماہ تک آزاد کے ترانے کے بجنے کی خبردینے والے براہ کرم ریڈیو پاکستان اکادمی کی لائبریری میں موجود آہنگ کی جلدیں دیکھ لیں اور اپنے موقف سے تائب ہوجائیں۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ اگر آزادی کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949ء تک نشر ہوتا رہا تو پھر اس کا کسی پاکستانی کتاب، کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اس کے سننے والے کہاں چلے گئے؟ اگر جگن ناتھ آزاد نے قائداعظم کے کہنے پر ترانہ لکھا تھا تو انہوں نے اس منفرد اعزاز کا کبھی ذکرکیو ں نہ کیا؟ جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب ”آنکھیں ترستیں ہیں“ (1982ء) میں ضمناً یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا ؟ اس کا ذکر موجود نہیں۔ اگر یہ قائداعظم کے فرمان پر لکھا گیا ہوتا تو وہ یقینا اس کتاب میں اس کا ذکر کرتا

جگن ناتھ آزاد کے والد تلوک چند نے نعتیں لکھیں۔ جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کے لئے ملی نغمہ لکھا جو ہوسکتا ہے کہ پہلے کسی وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائداعظم سے ملے، نہ انہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا اور نہ ہی ان کا قومی ترانہ اٹھارہ ماہ تک نشر ہوتا رہا یا قومی تقریبات میں بجتا رہا

قائداعظم بانی پاکستان اور ہمارے عظیم محسن ہیں۔ ان کے احترام کا تقاضا ہے کہ بلاتحقیق اور بغیر ٹھوس شواہد ان سے کوئی بات منسوب نہ کی جائے

تحریر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود ۔ بشکريہ ۔ جنگ

امريکا 71 سال قبل اور ہم

نيچے امريکا کے صرف 71 سال قبل کے

دور کی تصاوير ديکھنے کے بعد سوچيئے کہ ہميں کس عمل کی ضرورت ہے

ہم سجھتے ہيں کہ ہميں بُرا دور مِلا ہے اور مختلف قسم کی شکايات کرتے رہتے ہيں ۔ پٹرول مہنگا ہے ۔ بے روزگاری ہے ۔ يہ نہيں ہے وہ نہيں ہے ۔ ہم دورِ حاضر سے نالاں ہيں ۔ مہنگائی بے انصافی اور سب سے بڑھ کر بے حسی زوروں پر ہے

کيا يہ سب حالات ہمارے ہی پيدا کردہ نہيں ہيں ؟
ہمارا 71 سال قبل 71 سال قبل کے امريکا جيسا حال تو نہ تھا بلکہ 40 سال قبل بھی ہمارا ايسا حال نہ تھا

امريکا 71 سال ميں بلنديوں پر پہنچ گيا اور ساری دنيا پر قبضہ جمانا شروع کر ديا مگر ہم نے پچھلے 40 سال میں اپنا يہ حشر کر ليا ہے جسے ہم خود ہی کوس بھی رہے ہيں

ہم بجائے خود اُوپر چڑھنے کے دوسرے ہموطن کو نيچے گِرا کر سمجھتے ہيں کہ ہم اُونچے ہو گئے ہيں ۔ يہ تنزل ہے ترقی نہيں

ہميں باہمی گريبان پکڑنا اور باہمی تفگ بازی چھوڑ کر محنت سے صرف اپنے کی بجائے اپنی آنے والی نسلوں يعنی اپنی قوم اور اپنے مُلک پاکستان کيلئے خلوصِ نيت سے محنت کرنا ہو گی

ورنہ اگر ہمارے لچھن يوں ہی رہے تو ہم پر آج سے بھی زيادہ بُرا وقت آ سکتا ہے

ہر حال ميں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہيئے اور ديانتداری سے محنت کرنا چاہيئے ۔ يہی ترقی کی مشعلِ راہ ہے

فاطمہ جناح پارک تو زندہ رہے

فاطمہ جناح پارک جو اسلام آباد ميں ہمارے گھر سے 5 منٹ کے پيدل راستہ پر ہے ۔ پرويز مشرف کے زمانہ ميں اسے بھی ماڈرن کرنے کی کوشش کے سلسلہ ميں وہاں ايسی تعميرات ہوئيں کہ باغ ايک بازار بننا شروع ہو گيا تھا ۔ مجبور ہو کر شہريوں نے عدالتِ عظمٰی کا رُخ کيا تھا

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ، فاطمہ جناح پارک میں تعمیرات کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ سنایا۔عدالت نے اس مقدمہ کی گزشتہ ماہ سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔ عدالت نے پارک میں واقع غیرملکی چین کے ریستوراں [ميکڈانلڈ] اور تفریحی کلب [باؤلنگ] کو گرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے ریستوران کے مالک امین لاکھانی کا سپریم کورٹ کے بارے میں ریمارکس سے متعلق معافی نامہ قبول کرتے فیصلے میں کہا ہے کہ ان دونوں عمارتوں کے مالکان اپنے خرچ پر انہیں تین ماہ میں گرائیں گے۔سپریم کورٹ نے پارک میں نظریہ پاکستان کونسل کو لائبریری کیلئے الاٹ کی جانے والی زمین کی لیز بھی ختم کرنے کا حکم دیا

عدالت نے ان تعمیرات کی اجازت دینے والے سابق چیئرمین سی ڈی اے اور موجودہ سیکریٹری پٹرولیم کامران لاشاری کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا حکم دیا ہے

ميکڈانلڈ کھانے والے کيا کھائيں گے
باؤلنگ کرنے والے کدھر جائيں گے

غیرت

غیرت کا جو استعمال وطنِ عزیز میں ہے اُسے دیکھ کر بعض اوقات کہنا پڑتا ہے کہ ایسی غیرت سے ہم باز آئے ۔ دو مثالیں ذہن میں آئی ہیں ايک اَن پڑھ گھریلو ملازم کی اور دوسری پڑھے لکھے افسر کی

اَن پڑھ کی غيرت
واقعہ ہے 1980ء کی دہائی کا ۔ ایک عورت نے ميری بيگم کے سامنے اپنی مُفلسی بيان کر کے ملازمہ رکھنے کی درخواست کی ۔ اُسے گھر کا کام کرنے کيلئے اسے رکھ ليا گيا اور اس کے خاندان کو اپنی رہائشگاہ سے منسلک کوارٹر میں رہائش دی ۔ اُن کی حالت يہ تھی کہ گال پچکے ہوئے کپڑے خستہ ۔ ميری بيوی مدد کرتی رہی ۔ اللہ نے کرم کيا دوڈھائی سال میں سب صحتمند اور خوشحال ہو گئے ۔ ايک دن اس ملازمہ نے بدتميزی کی جس پر ميری بيوی نے صرف اتنا کہا “ميرے سامنے اس طرح بولتے ہوئے تمہيں شرم نہيں آتی”۔ کچھ دن بعد وہ لوگ کوارٹر خالی کر کے چلے گئے ۔ ڈيڑھ دو سال بعد اس ملازمہ کا خاوند مجھے سڑک پر ملا ۔ کپڑے ميلے کچلے ۔ قميض پھٹی ہوئی ۔ گال چار سال قبل کی طرح پچکے ہوئے ۔ حال احوال پوچھا تو جن کے ہاں کام کيلئے رہ رہے تھے اُن کے ظلم کی داستان سنائی
میں نے کہا کہ “واپس ہمارے پاس آ جاتے”
کہنے لگا “غيرُت آنی آئی [غیرت کی وجہ سے نہيں آيا]”

پڑھے لکھے کی غيرت
دو دہائيوں سے زيادہ عرصہ ہوا کہ ٹيکسلا میں ایک شخص قتل ہو گيا ۔ قصہ مختصر يوں تھا کہ ‘ب” نے “ج” کے گھر والوں کے ساتھ کوئی زيادتی کی جبکہ “ج” گھر پر موجود نہ تھا ۔ گھر آنے پر واقعہ کا عِلم ہوا تو “ج” نے “ب” کے گھر جا کر اُسے آواز دی ۔ جب “ب” باہر نہ نکلا تو “ج” نے “ب” کو بُرا بھلا کہا ۔ تھوڑی دير بعد “ب” ہاتھ میں پستول لئے نکلا اور آتے ہی “ج” کو ہلاک کر دیا ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹريز کی انتظاميہ میں ايک گریڈ 18 کے افسر جنہوں نے ماسٹر آف ایڈمن سائنس پاس کيا ہوا تھا ٹيکسلا میں رہتے تھے ۔ میں نے اُن سے قتل کی وجہ دريافت کی تو وہ يوں گويا ہوئے “دیکھيں نا جی ۔ غيرت بھی کوئی چيز ہوتی ہے ۔ “ج” نے “ب” کو گالياں ديں ۔ “ب” کو غيرت تو آنا تھی ۔ اُس نے جو کيا درست کيا ”