Category Archives: معاشرہ

ہماری حالت ايسی کيوں ہے ؟

آج ہموطن عوام ميں سے اکثر پريشان ہيں کہ ہمارا حال ايسا کيوں ہے اور بہتری کی صورت کيوں نہيں بنتی ۔ ميں پچھلے سات آٹھ سال سے اسی سوچ ميں گم رہتے رہتے محسوس کرنے لگا ہوں کہ ميری یاد داشت متاءثر ہو گئی ہے ۔ مطالعہ ميری بچپن سے عادت ہے ۔ پچھلے دنوں جامع ترمذی ابواب الفتن ميں موجود ايک حديث مبارک پر نظر پڑی تو استغفار پڑھے بغير نہ رہ سکا کيونکہ اپنی موجودہ حالت کی وجہ سمجھ ميں آ گئی تھی

رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جب ميری اُمت يہ کام کرنے لگے تو ان پر مصيبتيں اُترتی رہيں گی

1 ۔ مسلمان حاکم مُلک کے لگان [tax] کو اپنی ذاتی دولت بنائيں گے
2 ۔ امانت کو مالِ غنيمت کی طرح حلال جانيں گے
3 ۔ لوگ زکٰوة کو تاوان سمجھ کر ادا کريں گے
4 ۔ عِلم صرف دُنياوی اغراض کيلئے سيکھا جائے گا
5 ۔ شوہر بيوی کی بے جا اطاعت کرے گا
6 ۔ اولاد اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرے گی ۔ اپنے دوست کو قريب کرے گی اور اپنے باپ کو دور کرے گی
7 ۔ مسجدوں ميں کھيل کود کريں گے
8 ۔ خوف کی وجہ سے لوگوں کی آؤ بھگت اور تعظيم و تکريم کی جائے گی
9 ۔ قوم کے رہنما بہت لالچی ۔ رزيل اور بدخلق ہوں گے
10 ۔ گانے باجے ظاہر ہوں گے
11 ۔ شراب نوشی ہو گی
12 ۔ امت کی پچھلی جماعت پہلے لوگوں کو بُرا کہے گی ۔ اگلے لوگوں پر لعنت اور طعن زنی کرے گی
13 ۔ ريشمی لباس پہنے جائيں گے
يہ سب باتيں جب ہونے لگيں تو تم سُرخ آندھی کا انتظار کرو ۔ زلزلہ ۔ زمين ميں دھنسنا اور صورت کا بگڑنا اور آسمانی پتھراؤ اور ديگر نشانياں جو يکے بعد ديگرے ہونے لگيں گی

ہم کيا ہيں ؟

ملک و قوم کبھی تباہ کُن زلزلے کا شکار ہيں تو کبھی سيلاب کا ۔ دہشتگردی کہيں خود کُش حملہ کے نام سے ۔ کہيں ٹارگٹ کِلنگ کی صورت ميں اور کہيں برسرِ عام ڈکيتی بن کر مُلک اور عوام کا گوشت نوچ رہی ہے

جن کو ووٹ دے کر قوم نے اپنا نمائندہ بنايا وہ حُکمران بن کر عوام سے وصول کئے گئے ٹيکسوں کے بل بوتے پر عياشيوں ميں مشغول ہيں

خيبر پختونخواہ ميں سيلاب بڑے علاقے کو بہا کر لے گيا اور وہاں کے وزير اعلٰی کو پانچ دن تباہ شدہ علاقے کی خبر لينے ک فرصت نہ ملی

آزاد جموں کشمير کے دارالحکومت مظفرآباد ميں زلزلے کے 5 سال بعد بھی بہت سے لوگ چھپر نما عارضی مکانوں ميں رہ رہے تھے سيلاب کا ريلا وہ بھی بہا کر لے گيا اور ساتھ 53 انسان بھی ۔ وفاقی حکومت ابھی تک اس خوشی ميں مدہوش پڑی ہے کہ اس نے اپنی مرضی کا حاکم وہاں بٹھا ديا ہے

خیبر پختونخواہ ۔ بلوچستان اور آزاد جموں کشمير کے بعد پنجاب بھی تباہی سے دو چار ہو گيا اور وزيِر اعظم کے شہر ملتان مں بھی پانی داخل ہو گيا مگر وزير اعظم صاحب کو اليکشن مہم سے فرصت نہ ملی ۔ چاروں طرف سے آوازے اُٹھنے لگے تو امدادی فنڈ کے سلسلہ ميں نيشنل بنک ميں اکاؤنٹ کھولنے کا اعلان ہوا مگر يہ نہ بتايا کہ اس ميں فنڈ آئے گا کہاں سے ؟

کراچی ميں ايک رُکن صوبائی اسمبلی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوا ۔ اس کے بعد جو طوفان اُٹھا اس نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 37 اور اور زخميوں کی تعداد 100 پر پہنچا دی ۔ يہی نہيں اس طوفان کی گھن گرج سے حيدرآباد اور سکھر بھی محفوظ نہ رہے ۔ جنگل اور جنگل کے قانون کی مثاليں دی جاتی ہيں مگر کراچی تو ترقی يافتہ شہر ہے جہاں خواندگی کا معيار بہت اونچا ہے

کراچی کی ہمدردی ميں وزير اعلٰی نے تحقيقات کا حکم دے کر اپنا فرض پورا کر ليا اور وفاقی وزير داخلہ نے سارا ملبہ سپاہِ صحابہ کے سر ڈال کر غُسلِ صحت کر ليا

صدرِ پاکستان ملک اور عوام کو ڈوبتا اور مرتا چھوڑ کر اپنے بيٹے بلاول کی ليڈری کا اعلان کرنے براستہ فرانس لندن کے سفر پر روانہ ہو گئے

ہمارے معاشرے کا يہ حال ہے کہ کسی کو مُلا ايک آنکھ نہيں بھاتا تو کوئی دين اسلام کو موجودہ دور ميں ناقابلِ استمال قرار دينے ميں زمين آسمان کے قلابے ملا رہا ہے اور کوئی صوبائی تعصب پھيلانا فرضِ اوليں سمجھتا ہے

جو کام قوموں کے کرنے کے ہيں اُس کيلئے شايد کسی خلائی مخلوق کو لانا پڑے گا

ميں سوچتا ہوں “ہم کيا ہيں ؟”۔

ترقی يافتہ زمانہ

ايک جوان جو بارہ چودہ سال بعد ايک ماہ کی چھٹی پر پاکستان آيا تھا اپنے ايک بزرگ سے يوں ہمکلام ہوا

“ميرا دل چاہتا ہے کہ ميں آپ کے پاس بيٹھوں اور آپ کی اچھی اچھی باتيں سنوں مگر ميرے پاس ٹائم نہيں ہے”

اتنا کہہ کر وہ چلا گيا

کاش ٹائم شاپنگ مالز پر ارزاں قيمت پر دستياب ہوتا

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے چھ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

حلالہ کی اصليت

عرفان احمد شفقت صاحب نے ايک واقعہ حلالہ کی کوشش کا لکھا جو پہلی قسط يہاں اور دوسری قسط يہاں ديکھی جا سکتی ہے ۔ ميں نے پہلی قسط پر مختصر تبصرہ کيا تھا جو بقول عرفان احمد شفقت صاحب تحرير کے ساتھ ہی غائب ہو گيا تھا ۔ ميں سوچا کہ اس کی کچھ تفصيل کتاب و سُنت کے مطابق نقل کر دی جائے

حلالہ نام ديا گيا ہے کسی چیز کو شرع ميں جائز بنا لینے يا حلال بنا لینے کو

قرآن شريف کے نزول سے پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص بیوی کو طلاق دے دیتا اور پھر اس سے شادی کرنا چاہتا تو جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے عقد کرکے طلاق نہ پاتی پہلے شوہر سے نکاح نہیں کر سکتی تھی پھر اسے اپنی خواہش کا آلہ کار اس طرح بنا ليا گيا کہ جب کوئی خاوند اپنی بيوی کو طلاق دے بيٹھتا تو کسی مرد کو معاوضہ دے کر اپنی مطلقہ سے نکاح کر کے ايک رات گذرنے کے بعد طلاق کا سودا کر ليتا

اللہ سبحانہ و تعالٰی كا سورت 2 البقرہ آيت 230 ميں فرمان ہے
پھر اگر اس عورت کو طلاق دی یعنی تیسری بار تو اب حلال نہیں اسکو وہ عورت اسکے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جاويں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے

اور اس نكاح ميں جو اسے اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كرے گا شرط يہ ہے كہ وہ نكاح صحيح ہو چنانچہ وقتی يعنی كچھ مدت كے لئے نكاح يا پھر پہلے خاوند كے ليے بيوى كو حلال كرنے كے لئے نكاح كر كے پھر طلاق دے دينا دونوں حرام اور باطل ہيں ۔ عام اہل علم كا يہی قول ہے، اور ان دونوں طريقوں سے عورت اپنے پہلے خاوند كے لئے حلال نہيں ہو گی

حلالہ كی ممانعت نبی كريم صلی اللہ عليہ وآلہ سلم كی صحيح احاديث سے ثابت ہے
ابو داود ميں حديث مروى ہے كہ:
نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
” اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے ”
سنن ابو داود حديث نمبر 2076

اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروى ہے كہ نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
” كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتاً لئے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟
صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالٰی كے رسول صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم آپ ضرور بتائيں
تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم نے فرمايا:
” وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے ”
سنن ابن ماجہ حديث نمبر 1936

عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت ہے كہ انہوں نے لوگوں كو خطبہ ديتے ہوئے فرمايا:
” اللہ كی قسم ميرے پاس جو حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والا لايا گيا ميں اسے رجم كر دونگا ”
مصنف عبدالرزاق ( 6 / 265 )

امام حاكم رحمہ اللہ نے نافع سے روايت كيا ہے كہ ايك شخص نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كيا:
ايك عورت سے نكاح اس ليے كيا كہ اسے پہلے خاوند كے ليے حلال كروں نہ تو اس نے مجھے حكم ديا اور نہ وہ جانتا ہے، تو ابن عمر كہنے لگے:
“نہيں ۔ نكاح تو رغبت كے ساتھ ہے ۔ اگر وہ تو تجھے اچھی لگے اور پسند ہو تو اسے ركھو اور اگر اسے ناپسند كرو تو اس كو چھوڑ دو
وہ بيان كرتے ہيں: “ہم تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم كے دور ميں اسے زنا شمار كرتے تھے.

اور امام احمد رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا كہ:
“ايك شخص نے كسی عورت سے شادى كی اور اس كے دل ميں تھا كہ وہ اس عورت كو اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كريگا، اور اس كا عورت كو علم نہ تھا ؟”
تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب ديا:
“يہ حلالہ كرنے والا ہے، جب وہ اس سے حلالہ كا ارادہ ركھے تو وہ ملعون ہے”

واللہ اعلم.

کيا ہم بہتری چاہتے ہيں ؟

اگر اپنے ہموطنوں سے پوچھاجائے ” کيا آپ بہتری چاہتے ہيں ؟”
تو 100 فيصد جواب ” ہاں” ميں ملے گا
پھر کہا جائے ” اس کيلئے کوشش کريں گے ؟”
تو جواب ماٹھا سا ہو گا ۔ بہت کم ہوں گے جو اس کيلئے کوشش کريں گے ۔ ميں اس سلسلہ ميں درجنوں واقعات سے گذر چکا ہوں جن ميں سے صرف 3 تازہ اور ايک پرانا يہاں لکھ رہا ہوں

ہم جولائی 2009ء ميں لاہور آئے تو ہماری رہائشگاہ کی بجلی جلتی بجھتی تھی ۔ محلے والوں سے پوچھا کہ ” بجلی کی شکائت کا دفتر کہاں ہے ؟” تو جواب ملا ” کوئی فائدہ نہيں جی ۔ يہاں کوئی نہيں پوچھتا ۔ اليکٹريشن کو بلا کر خود ہی درست کروا ليں”۔ اليکٹريشن کو بلايا ۔ سارے گھر کی چيکنگ اس نے کی اور پيسے لے کر کہنے لگا “خرابی گھر سے باہر ہے ۔ بجلی کمپنی والا آ کے ٹھيک کرے گا”۔ محلے ميں کسی کو معلوم نہ تھا کہ شکائت کا دفتر کہاں ہے ۔ ميں نکلا اور بڑی سڑک پر جا کر پوچھنا شروع کيا آخر ايک نوجوان نے مجھے ان کے دفتر کا پتہ بتايا ۔ ميں نے وہاں پہنچ کر شکائت درج کرائی ۔ اُسی دن آدمی آيا اور درست کر کے چلا گيا

سرديوں کا موسم آيا تو گيس کا پريشر بہت کم ہو گيا ۔ اس بار ميں نے محلہ والوں سے بات کرنے کی بجائے گيس کے بل پر ٹيليفون نمبر ديکھ کر شکائت درج کرائی ۔ اُنہوں نے کہا ” آدمی 48 گھنٹے کے اندر آئے گا”۔ ليکن آدمی 24 گھنٹے سے بھی پہلے اتوار کے دن آ گيا اور ٹھيک کر گيا ۔ دوسرے دن ايک محلے دار کا ٹيليفون آيا کہ “ہماری گيس بھی ٹھيک کروا ديں”۔ ميں نے اُن سے کہا ” اپنے گيس کے بل پر ٹيليفون نمبر ديکھيئے اور شکائت درج کروا ديجئے”۔ مگر انہوں نے کچھ نہ کيا

مئی جون 2010ء ميں سيور لائين بھری رہتی تھی اور گھر کے اندر تک يہی صورتِ حال ہوتی تھی جس کی وجہ سے غسلخانہ ميں بدبُو آتی تھی ۔ ميں مقامی متعلقہ اہلکار کو بار بار کہتا رہا مگر کوئی فائدہ نہيں ہو رہا تھا پھر ميں نے اپنی گلی کے رہائشيوں سے رابطہ کيا ۔ انہوں نے بھی اس وجہ سے پريشانی ظاہر کی ۔ ميں نے اُن سے درخواست کی کہ ” آپ بھی متعلقہ اہلکار پر زور ڈالئے”۔ سب نے ہاں کہا مگر کسی نے کچھ نہ کيا ۔ 10 دن انتظار کے بعد ميں نے کالونی کے ہيڈ آفس کا ٹيليفون نمبر معلوم کيا اور وہاں رابطہ شروع کيا ۔ ہوتے ہوتے پتہ چل گيا کہ ہماری کالونی کے انچارج کون ہيں ۔ وہ زيادہ تر دفتر سے باہر ہی رہتے تھے ۔ آخر دفتر والوں نے ان کا موبائل فون نمبر ديا ۔ اُن سے رابطہ ہوا تو ساری بات بتائی ۔ اُسی دن یعنی 25 جون 2010ء کو صفائی ہو گئی اور اب تک سيور لائين ميں پانی کھڑا نہيں ہوا

ايک واقعہ پرانا ہے ۔ ہم 7 انجنيئرز کو 1976ء ميں ملک سے باہر بھيجا گيا ۔ تنخواہ ميزبان ملک نے دينا تھی ۔ تنخواہ ملنے پر معلوم ہوا کہ 20 فيصد ہماری حکومت نے کاٹ ليا ہے ۔ يہ پاکستان کے قانون کے خلاف تھا ۔ ميں نے باقی 6 ساتھيوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور منت کی کہ سب پاکستان ميں اپنے ادارے کو لکھيں کہ يہ پيسے نہ کاٹے جائيں مگر کسی نے کچھ نہ کيا ۔ صرف ميں نے لکھ کر بھيج ديا ۔ ميں 1979ء کے آخر ميں پاکستان آيا تو اپنے ادارے سے معلوم ہوا کہ ميری درخواست پر کوئی کاروائی اسلئے نہيں کی گئی کہ ميرے 2 ساتھيوں نے لکھ کر بھيج ديا تھا کہ “ہميں 20 فيصد کٹوتی منظور ہے”۔ خاصی تگ و دو کے بعد 1980ء ميں کاروائی شروع ہوئی ۔ 1983ء ميں جب ہم ملک ميں واپس آئے تو کيس چل رہا تھا مگر فيصلہ نہيں ہوا تھا ۔ منسٹری نے کچھ معلومات چاہئيں تھیں اور ايک اعتراض بھی تھا کہ 7 آدميوں ميں سے صرف ايک کی درخواست آئی باقی کيا کہتے ہيں ۔ ميں نے پھر سب کی منت کی کہ “اب ہی درخواست لکھ ديں ۔ کاروائی شروع ہو چکی ہے ۔ اِن شاء اللہ يہ کٹی ہوئی رقم واپس مل جائے گی”۔ صرف دو ساتھيوں نے لکھ کر ديا ۔ ہمارے ادارے نے لکھ بھيجا کہ 3 درخواستيں تحريری طور پر آئی ہيں باقی 4 زبانی بار بار درخواست کر چکے ہيں ۔ خير کيس چلتا رہا ۔ آخر 1990ء ميں نوٹيفيکيشن جاری کر ديا گيا ۔ اس وقت تک 4 ساتھی ريٹائر ہو چکے تھے ۔ جو موجود تھے اُنہوں نے خود رقم وصول کر لی ۔ باقيوں کو بنک ڈرافٹ کے ذريعہ رقميں بھجوا دی گئيں جو 70000سے 90000 روپے تک فی شخص تھيں

جن 2 ساتھيوں نے لکھ کر ديا تھا کہ اُنہيں 20 فيصد کٹوتی منظور ہے اُن ميں سے ايک لاہور ميں تھے ۔ رقم ملنے کے بعد اُنہيں جو بھی ميرے ملنے والا ملا اُس سے کہا “اجمل ميرے پيسے کھا گيا ہے پورے نہيں بھيجے” ۔ ميرے ہاتھ ميں تو پيسے آئے ہی نہ تھے ۔ اکاؤنٹ آفيسر کہتا تھا کہ خود آ کر ليں ۔ ميرے منت کرنے پر بنک ڈرافٹ کی فيس اور رجسٹری کا خرچ کاٹ کر اُنہوں نے بھيج ديئے ۔ ان صاحب کی دريا دِلی کا يہ حال کہ 1989ء ميں ايک شخص آيا اور مجھے ايک سينٹی ميٹر يعنی آدھے انچ سے کم چوڑا اور 4 سينٹی ميٹر يعنی ڈيڑھ انچ سے کم لمبا کاغذ کا پرزہ ديا کہ يہ فلاں صاحب نے بھيجا ہے اور کہا ہے کہ in writing جواب لے کر آنا ۔ اس ننھے سے پرزے پر باريک سا لکھا تھا What about money ۔ ان 2 صاحبان کی وجہ سے کاروائی ساڑھے 3 سال کی تاخير سے شروع ہوئی چنانچہ کيس ٹائم بار ہو گيا اور جو منظوری 1985ء تک ہو جانا چاہيئے تھی وہ 1990ء ميں ہوئی

جس قوم کے اکثر افراد کی يہ حالت ہو کہ وہ اپنے لئے بھی ذرا سی تکليف نہ کريں مگر حصہ دو گُنا چاہيں تو اس مُلک ميں بہتری کيسے آ سکتی ہے ؟

کيا ہم آزادی کے مستحق ہيں ؟

اس کا جواب تلاش کرنے کيلئے ہم ميں سے ہر ايک کو دوسروں کی آنکھوں ميں تنکا ڈھونڈنا چھوڑ کر اپنے گريبان ميں جھانکنا اور اپنے چہرے کو اصلی آئينے ميں ديکھنا ہو گا ۔ ميں اچھی طرح جانتا ہوں کہ دوسرے پر الزام لگانا بہت آسان کام ہے مگر اپنی بُرائی کو برائی سمجھنا بہت مشکل کام ہے ۔ ہم لوگ فقط بحث مباحثوں ميں بڑھ چڑھ کر بات کرنے کو بہادری اور علم کا عروج سمجھنے لگ گئے ہيں ۔ ہميں تاريخ سے سبق سيکھنے سے کوئی شغف نہيں ۔ کيا اسی طرح کے بے عمل بے نتيجہ مباحث بغداد اور غرناطہ کی تباہی کا پيش خيمہ نہيں تھے ؟

محمد بلال صاحب نے اپنی قوم کی حالت پر کچھ روشنی ڈالی تو ميں نے تصوير کا ايک اور رُخ دکھانے کيلئے اپنے مشاہدے ميں آنے والے مندرجہ ذيل تين واقعات لکھے تھے

1 ۔ ايک پڑھے لکھے صاحب نے کپڑا خريدا اور ساتھ کی دکان پر ميں اور دو جاپانی کچھ خريد رہے تھے ۔ اُن کی ستائش حاصل کرنے کيلئے کپڑے پر لگے ليبل کو اُنہيں دکھايا جو جاپانی زبان ميں لکھا تھا ۔ وہ دو نوں جاپانی ہنسنے لگے ۔ جب وہ شخص چلا گيا تو ميں نے اُن جاپانيوں سے پوچھا کہ آپ ہنسے کيوں ؟ بولے کہ جاپانی ميں لکھا تھا “پاکستان کا بنا ہوا”
2 ۔ کراچی ميں ايک بہت پرانا پلاسٹک کے برتنوں وغيرہ کا کارخانہ ہے ۔ ميں وہاں گيا ہوا تھا تو مالک سے کہا کہ آپ کا معيار بہت اچھا ہے تو اپنا مال ملک ميں پھيلاتے کيوں نہيں ؟ بولے “کيا کريں لوگ باہر کا بنا مال پسند کرتے ہيں چاہے گھٹيا ہو ۔ بھائی ۔ کيا بتائيں ہماری اپنی اماں دبئی گئيں اور وہاں سے ايک ٹب لے آئيں کہا اماں ہم سے کہا ہوتا يہ وہاں سے لانے کی کيا ضرورت تھی؟” بوليں” ارے تم کہاں ايسا بناتے ہو”۔ تو ميں نے اُلٹا کر کے ماں کو دکھايا ہمارے کارخانے کا بنا تھا
3 ۔ ايک پاکستانی نوجوان لندن سے پتلون خريد لائے اور بڑے فخر سے مجھے دکھا کر کہنے لگے يہ ديکھو کتنی بہترين ہے ہمارے ملک ميں تو ايسا مال بنتا ہی نہيں ۔ ميں تجسس سے پتلون اندر باہر سے ديکھنے لگا اچانک ميری نظر ايک ليبل پر پڑی جو پتلون کے اندر لگا تھا ۔ انگريزی ميں لکھا تھا “پاکستان کی ساختہ پاکستانی کپڑے سے”

مزيد يہ کہ :
ہمارے ملک ميں ہر قسم کا کپڑا بہت عمدہ معيار کا بنتا ہے اور قيمتيں بھی مناسب ہيں ۔ ميرے ہموطنوں کی اکثريت کپڑا خريدنے جاتے ہيں تو غير مُلکی تلاش کرتے ہيں ۔ کوئی مقامی کپڑے کو جاپانی کہہ کر بيچ دے تو دُگنی قيمت پر خريد ليتے ہيں اور اگر پاکستانی کہے تو آدھی قيمت پر لينے کو تيار نہيں ہوتے

پاکستان ميں ميلامائن کے برتن بيس پچيس سال سے بن رہے ہيں جو بين الاقوامی معيار کے ہيں ۔ ايک کارخانہ حيدرآباد ميں تھا جس کا بنا ہوا ڈنر سيٹ جو ميں نے 1994ء ميں کراچی بوہری بازار سے خريدا تھا اُس دن سے آج تک ہمارے استعمال ميں ہے ۔ 1994ء ہی ميں ايک ميرے دفتر کے ساتھی ايرانی ميلامائن ڈنر سيٹ ڈھونڈ رہے تھے کسی نے وہی انہيں ايرانی کہہ کر ڈيڑھ گنا قيمت ميں ديا تو بڑے خوش تھے کہ بہت سستا مل گيا ۔ کراچی ميں سَيلُوکو ۔ گولڈن اور منيار اچھے معيار کا سامان بناتے تھے ۔ مگر ميرے ہموطنوں کی آنکھيں دساور پر لگی رہتی ہيں جس کے باعث ان کمپنيوں کو خاصہ نقصان برداشت کرنا پڑا

اب آيئے تعليم کی طرف جس کا رونا اکثر رويا جاتا ہے ۔ ہم ميں سے وہ لوگ جن کو تعليمی ترقی کا شوق پيدا ہوتا ہے اپنے بچوں کو ايسے سکول ميں داخل کراتے ہيں جس کا نام انگريزی ميں ہو يا جديد طرز کا ہو ۔ اپنے سرکاری سکولوں کو جنہيں انہی لوگوں کی جيب سے ادا کردہ ٹيکس کے پيسے سے چلايا جاتا ہے اچھوت تصور کيا جاتا ہے ۔ اگر ان سکولوں کی ہم حوصلہ افزائی کريں تو پھر ہميں ان کی برائياں گننے کا بھی حق پہنچتا ہے ۔ سيانے کہتے ہيں “جس شہر نہ جانا اس کا راستہ کيوں پوچھنا”۔ بلکہ ان سکولوں ميں ہم اپنے بچوں کو پڑھائيں تو ہم ان کی بہتری کی بھی کوشش کر سکتے ہيں ۔ 5000 سے 10000 روپے ماہانہ ادا کر کے انگريزی نام کے سکولوں ميں تو بچوں کو پڑھايا جاتا ہے اور جب سرکاری سکولوں کی بات آتی ہے تو 50 روپے ماہانہ بھی کھلتا ہے ۔ ايسا دوغلا پن کيوں ؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم ميں سے جو زيادہ شور مچانے والے ہيں دراصل شور مچانا اُن کا مشغلہ ہے جسے وہ اپنی بڑھائی سمجھتے ہيں ۔ يا يوں کہيئے کہ مسئلہ جھوٹی انا کا ہے

اگر ہم چاہتے ہيں کہ ہم بحثيت قوم عزت پائيں اور ترقی کريں تو اس کا ايک ہی حل ہے ۔ آج سے فيصلہ کر ليں کہ جو چيز اپنے ملک ميں بنتی ہے اور اس سے گذارا ہو سکتا ہے تو وہ صرف اپنے ملک کی بنی ہوئی ہی خريديں ۔ اگر غير ملک ميں کوئی چيز اچھی ہے تو اسے ملک ميں بڑائی کی خاطر نہيں بلکہ اس کی صنعت قائم کرنے کيلئے لايئے ۔ اس طرح ہمارے ذہين اور محنتی ہُنرمند جو مجبور ہو کر مُلک چھوڑ گئے ہيں وہ بھی واپس آنے کا سوچيں گے ۔ اگر وہ نہ بھی آئيں تو اگلی نسلوں ميں باہر جانے کی سوچ ختم ہو جائے گی

“ميں بھی پاکستان ہوں ۔ تو بھی پاکستان ہے” صرف ٹی وی يا محفلوں ميں گانے سے کچھ نہيں ہو گا ۔ پاکستانی بن کے دکھانا ہو گا اور اس کيلئے يہ بھی ضروری ہے کہ پنجابی ۔ سندھی ۔ پختون ۔ بلوچ ۔ مہاجر اور اُردو سپيکنگ صرف گھر کے اندر ہوں ۔ گھر سے باہر سب پاکستانی ہوں

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ اسلام ميں داخلے کا امتحان

مسلمان والدين کے ہاں پيدا ہونے والی ہر لڑکی اور ہر لڑکا مسلمان ہوتا ہے اور ساری زندگی وہ اپنے آپ کو اِسی بنا پر مسلمان سمجھتے ہيں ۔ تقريباً تمام سکولوں ميں پہلے چھ کلمے پڑھائے جاتے ہيں جو کہ سب بچے طوطے کی طرح رَٹ ليتے ہيں مگر بہت ہی کم ايسے طلباء و طالبات ہوتے ہيں جو ان کلموں کے معنی اور مقصد پر غور کرتے ہوں گے ۔ يہ چھ کلمے دراصل اسلام ميں داخلے کا امتحان ہيں جس کے بعد مسلمان ہونے کی کئی اور منازل بھی ہيں ۔ صرف چھٹا کلمہ نقل کر رہا ہوں تاکہ سب اپنا احتساب کريں کہ انہيں اسلام ميں داخلہ مل گيا ہے يا نہيں ؟

چھٹا کلمہ

اَللَّھُمَ اِنیِ اَعُوذُ ِبکَ مِن اَن اُشرِکَ بِک شَیئًا وَّاَنَا اَعلَمُ بِہٖ وَ اَستَغفِرُکَ لِمَالَا اَعلَمُ بِہٖ تُبتُ عَنہُ وَ تَبَرَّاَتُ مِنَ الکُفرِ و َالشِّرکِ وَ الکِذبِ وَالغِیبَۃِ وَ البِدعَۃِ وَ النَّمِیمَۃِ وَ الفَوَاحِشِ وَ البُہتَانِ وَ المَعَاصِی کُلِّھَا وَ اَسلَمتُ وَ اَقُولُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ

اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تیرے ساتھ کسی کو شریک کروں اور وہ میرے علم میں ہو ۔ اور میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اس گناہ سے جس کا مجھے علم نہیں ۔ میں نے اس سے توبہ کی اور میں بیزار ہوا کفرسے اور شرک سے اور جھوٹ سے اور غیبت سے اور ہر نئی بات سے جو بری ہو اورچُغلی سے اور بے حیائی کے کاموں سے اور کسی پر بہتان باندھنے سے اور ہر قسم کی نافرمانی سے اور میں اسلام لایا اور میں کہتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں