Category Archives: معاشرہ

نصیب اور دولت ۔ ایک کہانی ۔ ایک حقیقت

بہادر شاہ ظفر نے ناجانے کس ترنگ میں یہ شعر کہا تھا لیکن میں یہ سوال اپنے معاشرے سے پوچھتا ہوں

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

آج کے پڑھے لکھے طعنہ دیتے ہیں کہ پرانے زمانہ کے لوگ کام کچھ نہیں کرتے تھے اور کہانیاں سناتے رہتے تھے ۔ اللہ کی دی ہوئی توفیق سے میں 7 دہائیوں سے کچھ اُوپر اس معاشرے میں گذار چکا ہوں ۔ پرانے لوگوں کو دیکھا تھا اور نئے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں اور دونوں کے گفتار و عمل دونوں ہی میں نمایاں فرق پاتا ہوں

ہمارے ایک دُور کے رشتہ دار راولپنڈی امام باڑہ روڈ پر کریانہ کی دکان کرتے تھے ۔ سُنا تھا کہانی بہت اچھی کہتے ہیں سو اُنہیں دعوت دی گئی جو 1952ء اور 1953ء کے درمیانی موسمِ سرما میں ہر اتوار سے پچھلی رات کا معمول بن گئی ۔ وہ مغٖرب کے وقت دکان بند کر کے نماز پڑھ کر اپنے گھر جا کر کھانا کھاتے اور عشاء کی نماز پڑھ کر ہمارے ہاں پہنچ جاتے ۔ کہانی سنانے کا فن واقعی اُن میں کما حقہُ موجود تھا ۔ بڑے چھوٹے سب پورے انہماک کے ساتھ کہانی سُنتے تھے ۔ ہر کہانی میں مناسب مقامات پر اُنہوں نے اپنی طرف سے فقرے لگائے ہوتے تھے جیسے ایک تھا بادشاہ کے بعد کہتے ”میرا تیرا اللہ بادشاہ“۔ کہانیاں کہنے کو تو بادشاہ ۔ شہزادہ ۔ پری یا جِن کی ہوتیں لیکن ہر کہانی اپنے اندر ایک سبق لئے ہوتی تھی جو کہ بڑے لطیف انداز میں بیچ میں رکھا گیا ہوتا تھا ۔ اُن کی سنائی ایک کہانی ”نصیب اور دولت“۔ (اختصار کی خاطر میں دلچسپ فقرے نہیں لکھ رہا)

نصیب اور دولت میں بحث ہو گئی ۔ دولت کہتی ”انسان کی خوشی اور آسائش مجھ سے ہے“۔
نصیب کہتا ہے ”دولت کچھ نہیں کر سکتی ۔ اگر آدمی خود محنت کر ے تو میں اُس کی یاوری کرتا ہوں“۔

ایک لکڑ ہارا لکڑیاں کاٹنے جنگل کو جا رہا تھا ۔ دولت نے اسے بُلا کر ایک بڑا سا ہیرا دیا اور کہا ”یہ لے لو ۔ آج کے بعد تمہیں لکڑیاں کاٹنے کی ضرورت نہیں“۔ راستہ میں ایک ندی پڑتی تھی ۔ خیال کیا کہ ہاتھ منہ دھو لوں کیونکہ بازار جا کر اسے بیچنا ہے ۔ کنارے پر پاؤں پھسلا اور ہیرا ہاتھ سے ندی میں گھر گیا ۔ ہیرے کی تلاش میں ندی میں کود گیا ۔ بہت دیر تک کوشش کے باوجود ہیرہ نہ ملا تو اتنا تھک چکا تھا کہ جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹنا مشکل تھا ۔ گھر چلا گیا اور گھر میں جو بچہ کھچا تھا کھا کر سوگئے

اگلے روز لکڑ ہارے نے پھر جنگل کا رُخ کیا ۔ جنگل کے قریب اُسے وہی نصیب اور دولت ملے ۔ لکڑ ہارے نے واقعہ بیان کیا ۔ اب کے دولت نے اُسے قیمتی لال موتیوں کا ہار دیا ۔ لکڑ ہارے نے ہار اپنی پگڑی میں رکھ لیا اور گھر کی طرف چل دیا ۔ گھر کے قریب پہنچا تو اُڑتی ہوئی چیل لال موتیوں کو گوشت سمجھ کر جھپٹی اور پگڑی سمیت ہار اُچک کر لے گئی ۔ چنانچہ میاں بیوی رات بھوکے سوئے

لکڑ ہارا اگلی صبح پَو پھٹتے ہی لکڑیاں کاٹنے جنگل کو چل دیا ۔ جنگل کے پاس پھر نصیب اور دولت ملے ۔ دولت اپنا خالص سونے کا کنگن دینے لگی ۔ لکڑ ہارے نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ ”اپنی محنت سے کمائی سوکھی روٹی فاقے سے بہتر ہے“۔ نصیب نے قہقہہ لگا کر دولت کی طرف دیکھا اور کہا ”اب دیکھو کیا ہوتا ہے“۔

لکڑ ہارا جنگل میں داخل ہو کر ایک درخت پر لکڑیاں کاٹنے چڑھا ۔ درخت کی اُونچی شاخ پر چیل کا گھونسلہ تھا ۔ لکڑ ہارے نے دیکھا کہ گھونسلے سے ایک کپڑا لٹک رہا ہے ۔ اُس نے سوچا کہیں اُس کی پگڑی نا ہو ۔ لکڑ ہارا اُوپر چڑھا تو اس کی نظر گھونسلے میں پڑے لال موتیوں کے ہار پر پڑی ۔ لکڑ ہارا پگڑی اور ہار لے کر نیچے اُترا اور گھر کی راہ لی ۔ راستہ میں ندی سے مچھلی پکڑی اور گھر پہنچا ۔ بیوی کو ہار دکھایا اور کہا ”جلدی سے مچھلی پکاؤ میں کھا کر اسے بیچنے شہر جاؤں گا“۔ بیوی نے مچھلی کا پیٹ چاک کیا تو بیچ میں سے وہ ہیرا نکل آیا جو لکڑ ہارے کا ندی میں گرا تھا“۔ دونوں بہت خوش ہوئے انہیں بیچ کر مکان بنایا ۔ زمین خرید کر کھیتی باڑی شروع کر دی اور بہت دولتمند ہو گئے

ڈاکٹر طاہرالقادری ۔ وضاحت

وجدان عالم صاحب نے ایک تحریر شائع کی ہے جس میں میرا ذکر ہونے اور تحریر میں کچھ تشنگی ہونے کے باعث کچھ وضاحت کی ضرورت پیشِ آئی ۔ میں نے جو تحریر چند اصحاب کو بھیجی وہ میری نہیں ہے ۔ وہ میں نے یہاں سے نقل کی تھی ۔ قارئین اس ویب سائٹ کو ضرور دیکھیں تا کہ حقیقت سے آشنا ہو سکیں ۔ اس میں ڈاکٹر طاہر القادری کی تقاریر کی وڈیوز اور کئی حوالے بھی شامل ہیں

میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے زورِ بیان کی وجہ سے اُن سے بہت متاءثر تھا ۔ 1990ء میں واہ چھاؤنی کی جامع مسجد میں اُن کو سُننے اور دیکھنے کے بعد میں نے اُن کی معلومات کی تصدیق کیلئے تحقیق شروع کی ۔ اُس کے بعد ہر دن مجھے اُن سے دُور لیتا گیا اور اُن کا لکھا قرآن شریف کا ترجمہ اُونٹ کی کمر پر آخری چھلنی ثابت ہوا ۔ اس کا ایک ہلکا سا مشاہدہ حاضر ہے

سورت 2 البقرہ آیت 9 ۔ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ

ترجمہ ہے ۔ وہ اللہ تعالٰی اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں

طاہرالقادری لکھتے ہیں ۔ وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے
اپنے استدلال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ اس مقام پر مضاف محذوف ہے جو کہ رسول ہے یعنی یُخٰدِعُونَ اﷲَ کہہ کر مراد یُخٰدِعُونَ رَسُولَ اﷲِ لیا گیا ہے۔ اکثر ائمہ تفسیر نے یہ معنی بیان کیا ہے۔ بطور حوالہ ملاحظہ فرمائیں تفسیر القرطبی، البیضاوی، البغوی، النسفی، الکشاف، المظھری، زاد المسیر، الخازن وغیرہ

مجھے تلاش کے بعد اسلام آباد میں الھدٰی انٹرنیشنل کی لائبریری میں صرف تفسیر المظھری ملی ہے جس کے متعلقہ صفحہ کا عکس یہ ہے ۔ اس میں تو ڈاکٹر طاہرالقادری کا استدلال کہیں نظر نہیں آتا
المظھری

ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب اور تحریکِ انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ کو ٹی وی پر کہتے میں نے خود سُنا کہ ”گلو بٹ مسلم لیگ ن کا کارندہ اور نواز اور شہباز کا پالتو ہے“۔ اگر یہ دونوں سچے ہیں تو پھر یہ کیا ہے ؟
Gullu Butt 1
Gullu Butt 2

میرے حقوق ۔ ایک فتنہ

موضوع پر آنے سے پہلے متعلقہ حوالہ پرانے زمانے سے
میں 1950ء میں مسلم ہائی سکول اصغر مال راولپنڈی میں آٹھویں جماعت میں داخل ہوا ۔ بہت جلد چند ہمجاعتوں سے میری دوستی ہو گئی ۔ منصوبہ بنایا گیا کہ ہم سب پیسے ڈال کر رسالہ تعلیم و تربیت لیا کریں اور اس میں دی اچھی باتوں سے مستفید ہوں ۔ یقینی طور پر ہمارے سدھار میں اس رسالے کا اہم کردار رہا ۔ اس رسالے میں ایک کارٹون چھپا کہ
ماں بیٹے سے کہتی ہے ”بات کرنے سے پہلے سوچا کرو“۔
بیٹا کہتا ہے ”اور سوچنے سے پہلے ؟“
ماں کہتی ہے ”یہ کہ سوچنا چاہیئے یا نہیں“۔

کچھ شماروں کے بعد ایک کارٹون چھپا جس میں ماں نے حلوے کی پلیٹ بھر کر میز پر رکھی تو
بیٹا کہتا ہے ”امی ۔ بھائیجان کیلئے اتنا زیادہ حلوہ“۔
ماں کہتی ہے ”یہ تمہارے لئے ہے“۔
بیٹا کہتا ہے ”اتنا کم“۔

کہنے کو یہ دو کارٹون یا لطیفے ہیں مگر مجھے زندگی کے ہر قدم پر یاد رہے ۔ میں نے پچھلی چار دہایئوں میں اکثر لوگوں کو ان دو بچوں کی مانند پایا ۔ اب آتے ہیں موضوع کی طرف

عصرِ حاضر میں حقوق کا بہت چرچا ہے ۔ انسانی حقوق ۔ عورتوں کے حقوق ۔ بچوں کے حقوق ۔ مریضوں کے حقوق ۔ اور ناجانے کس کس کے حقوق ۔ مسئلہ یہ ہے کہ حقوق پورے کسی کے نہیں ہوتے مگر وقت کے ساتھ ان کی تعداد اور قسمیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں
حقوق کی تکرار سن سن کر مجھے ٹی وی شروع ہونے سے پہلے کا ریڈیو پاکستان کا ایک پروگرام چوہدری نظام دین یاد آیا
ایک آدمی کہتا ہے ” اخبار میں حقوق کی خبر ہے ۔ یہ حقوق کیا ہوتے ہیں ؟“
دوسرا کہتا ہے ”اگر گاؤں کے سارے حقے ایک جگہ جمع کر دیئے جائیں تو ایک حقوق بن جاتا ہے“۔

میری پریشانی یہ ہے کہ مجھے میرے اُستاذ نے پڑھایا تھا کہ ”جو ایک آدمی کا حق ہوتا ہے ۔ وہ دوسرے آدمی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اسلئے اگر ہر آدمی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے پوری کرے تو سب کے حقوق خود بخود پورے ہو جائیں گے“۔

میں نے اپنا سبق یاد رکھا ہے اور اللہ سُبحانُہُ تعالٰی نے میری مدد فرمائی چنانچہ میں نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں تندہی کے ساتھ پوری کیں ۔ اور نتیجہ یہی ہوا کہ میرے ذہن میں کبھی حق یا حقوق قسم کی کوئی آواز پیدا نہیں ہوئی ۔ میں نے اطمینان کی زندگی گذاری اور گذار رہا ہوں

الحمد للہ میں آج اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے اپنی ایک چھوٹی سی ذمہ داری کو پورا کرنے میں کامیاب ہوا جو میرے محترم قارئین اور قاریات کا حق ہے

ایک ہر فن مولا باس

وسط 1966ء میں مجھے مشین گن پروجیکٹ دے کر ابتدائی پلاننگ کا کہا گیا جو میں نے کی اور ستمبر تک ہر قسم کی منظوری پاکستان آرڈننس فیکٹریز بورڈ (پی او ایف بورڈ) سے لے لی ۔ اکتوبر میں اچانک ایک صاحب کو میرا باس بنا دیا گیا جنہیں ویپنز پروڈکش کا کچھ علم نہ تھا بلکہ شاید ویپنز فیکٹری کا کام کبھی دیکھا بھی نہ تھا ۔ وہ اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے تھے اور باتوں سے ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے ۔ آج کسی اور واقعہ نے اُن کی یاد دلا دی ۔ سوچا کہ قارئین کی تفننِ طبع کیلئے متذکرہ باس کے چند معرکے بیان کئے جائیں

ڈھبریاں اور کابلے
ہم نومبر 1966ء میں جرمنی گئے ۔ کوٹیشنز طلب کرنا ۔ سپلائرز سے گفت و شنید کر کے درست مشینوں کا چناؤ اور قیمتیں کم کروانا ۔ تفصیلی مطالعہ کر کے مشین کا تکنیکی اور فنانشل موازنہ کا چارٹ بنانا ۔ مشین خریدنے کے جواز پر دلائل لکھنا ۔ یہ سب میرے ذمہ تھا ۔ باس صرف دستخط کرتے پھر میں سارا کیس پاکستان پی او ایف بورڈ کو بھیج دیتا

بڑی مہنگی مہنگی مشینیں خریدنے کے کیسوں پر باس نے بلا چوں و چرا دستخط کر دیئے ۔ ایک سستے سے ایکسینٹرِک (eccentric) پریس کے کیس پر باس نے اعتراض کیا ”سب سے سستا پریس کیوں چھوڑ دیا ہے ؟“ استفسار پر معلوم ہوا کہ کرینک (crank) پریس کی بات کر رہے تھے جس کی کوٹیش شاید غلطی سے کسی کمپنی نے بھیج دی تھی ۔ میں نے کہا ” ایکسینٹرِک پریس اور کرینک پریس کے کام میں فرق ہوتا ہے“ اور فرق سمجھانے کی کوشش بھی کی ۔ اس پر باس شور مچانے لگے اور بولے ”میں پریسز کی ڈھبریاں اور کابلے جانتا ہوں (I know nuts and bolts of presses)“۔ اُسی وقت ایک جرمن انجنیئر ہمارے کمرہ میں داخل ہوا تو اُس سے بولے ”یہ تمہارے دوست مسٹر بھوپال نے ایکسینٹرِک پریس اور کرینک پریس کو فرق فرق کر دیا ہے“۔ وہ جرمن بہت چالاک آدمی تھا بولا ” میں اس کا ماہر نہیں ہوں ۔ پریس شاپ کے فورمین سے جا کر پوچھتے ہیں“۔ وہاں پہنچ کر جونہی جرمن انجیئر نے بات کی اُس نے انجنیئر کو کھری کھری سنا دیں“۔ باس صورتِ حال بھانپ کر ہم سے پہلے ہی رفو چکر ہو گئے ۔ باس شاید صرف ڈھبریاں اور کابلے ہی جانتے تھے

انگلش کیک
ہم چند جرمن انجیئروں کے ہمراہ ٹرین میں ڈوسل ڈورف سے میونخ جا رہے تھے ۔ ٹرین میں کافی منگوائی گئی تو باس بولے میں چائے پیئوں گا ۔ ساتھ کھانے کیلئے مقامی کیک منگوایا گیا تھا ۔ باس کہنے لگے ”انگلش کیک جیسا کوئی نہیں ۔ میں انگلش کیک کھاؤں گا“۔ انگلش کیک خُشک ہوتا ہے ۔ مقامی کیک پر تھوڑی کریم اور کافی زیادہ پھل کا مربہ لگا ہوا تھا ۔ جرمنوں کو معلوم نہ تھا کہ انگلش کیک کیسا ہوتا ہے سو میں اور ایک جرمن انجنیئر جا کر انگلش لے آئے ۔ باس نے انگلش کیک کھانا شروع کیا تو گلے میں پھنس گیا ۔ باس کا بُرا حال ہوا ۔ بعد میں جرمن انجیئر کہنے لگا ”بلڈی انگلش کیک“۔

روک دو ۔ Stop it
ایک دن کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھے باس ۔ دو جرمن انجنیئر اور میں چائے پی رہے تھے ۔ باس گویا ہوئے ”میرے ماتحت ورکشاپس میں ایک میں ایک ایکسٹرُوژن پریس (Extrusion Press) تھا ۔ ایک دن میں اُس ورکشاپ میں داخل ہوا ۔ ایکسٹرُوژن پریس چل رہی تھی ۔ میں نے دیکھتے ہی کہا ” روک دو “۔ اور پریس روک دیا گیا ۔ جرمن ہکّا بکّا باس کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ باس کچھ سانس لے کر بولے ”اگر پریس نہ روکا جاتا تو حادثہ ہو جاتا“۔ جرمن ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ وجہ ظاہر ہے ۔ یہ تو بتایا نہ تھا کہ حادثہ کیوں ہو جاتا ۔ میں جانتا تھا کہ باس نے ساری زندگی کبھی کوئی مشین یا پریس کو نہیں چلایا تھا ۔ پھر باس کو کیسے معلوم ہوا کہ حادثہ ہو جائے گا ؟
اُسی ورکشاپ میں ایک ہاٹ رولنگ مِل تھی جسے اسسٹنٹ منیجر یا اُوپر کے افسروں میں سے صرف 3 نے چلایا تھا ۔ میں نے اور میرے ایک ساتھی نے 1963ء میں تربیت کے دوران ہاٹ رولنگ مِل کو چلایا تھا جس کیلئے پی او ایف کے ٹیکنیکل چیف سے اجازت لینا پڑی تھی ۔ تیسرا وہ اسسٹنٹ منیجر تھا جو برطانیہ سے اس کی تربیت لے کر آیا تھا ۔ وہ 1964ء کے آخر میں پی ایف کو خیرباد کہہ گیا تھا ۔ ہمیں ایکسٹرُوژن پریس چلانے کی اجازت نہیں ملی تھی

ایک اہم واقعہ
ابھی ہم جرمنی میں ہی تھے کہ ایک دن دفتر میں ایک خط کی آفس کاپی مجھے دے کر کہا ”اسے فائل کر دو“۔ وہ خط چیئرمین پی او ایف بورڈ کے خط کا جواب تھا ۔ باس نے 2 دن قبل خود ہی جواب لکھ کر ٹائپ کرا کے بھیج دیا تھا ۔ ساری ڈاک میں ہی پڑھتا اور جواب لکھتا تھا لیکن چیئرمین صاحب کا خط میں نے نہیں دیکھا تھا ۔ باس سے چیئرمین صاحب کا خط مانگ کر لیا ۔ جب پڑھا تو میں پریشان ہو گیا ۔ باس نے جو جواب لکھا تھا وہ درُست جواب کا اُلٹ تھا ۔ میں نے باس کو بتایا تو مجھ پر چیخنے لگے ۔ اسی اثناء میں سفارتخانے کے ٹیکنیکل اتاشی آ گئے جو ہفتہ میں 3 دن سفارتخانہ میں اور 3 دن ہمارے ساتھ کام کرتے تھے ۔ باس نے خط اورُ جواب اُنہیں دیا ۔ اُنہوں نے خط پڑھا اور بولے ”اجمل درست کہہ رہا ہے“۔ معاملہ سیکرٹ تھا اسلئے باس نے جی پی او جا کر خط کا جواب بذریعہ رجسٹری سفارتخانہ کو بھیجا تھا کہ ڈپلومیٹک بیگ میں پاکستان چلا جائے ۔ سفارتخانہ بون میں تھا اور ہم ڈوسلڈورف میں ۔ باس بہت پریشان بار بار کہہ رہے تھے ”اب کیا کریں ؟“ میں نے کہا ”سفارتخانہ سے بیگ جا چکا ۔ وائرلیس سسٹم غیر معینہ مدت کیلئے بند ہے ۔ آپ مجھ پر چھوڑ دیں ۔ اللہ کوئی صورت نکال دے گا“۔ میں قریبی چھوٹے ڈاکخانہ میں گیا اور ایک ایروگرام لے آیا ۔ اس پر اپنے قلم سے چیئرمین کے خط کا درست اور تفصیلی جواب لکھا ۔ پہلے اُوپر ایک ممبر پی ایف بورڈ کے نام لکھا”یہ خط ملتے ہی چیئرمین صاحب کو پہنچا دیں“۔ ایروگرام کے باہر ممبر پی او ایف بورڈ کا نام اور گھر کا پتہ لکھا ۔ عہدہ وغیرہ کچھ نہ لکھا اور عام ڈاک کے ذریعہ جی پی او جا کر پوسٹ کر دیا ۔ اگر رجسٹری کرتا تو پہنچنے میں 2 سے 4 دن زیادہ لگتے اور خط ہر ایک کی نظر سے گزرتا ۔ دوسرے دن باس بار بار پوچھتے رہے پھر شور مچانے لگے تو میں نے جو کیا تھا بتا دیا ۔ باس کرسی سے اُچھل پڑے اور میرے پیچھے پڑ گئے ۔ میں خاموش رہا ۔ پاکستان واپس آ کر فیکٹری گئے تو پہلے ہی روز باس بولے ”چلو میرے ساتھ“۔ ہم چیئرمین صاحب کے دفتر جا پہنچے ۔ چیئرمین صاحب سے کہنے لگے ”اس نے کی تھی وہ حرکت“۔ چیئرمین صاحب نے کہا ”کون سی ؟“ بولے ”وہ خط“۔ چیئرمین بولے ”اس نے بہترین راستہ اختیار کیا جو ان حالات میں محفوظ بھی تھا“۔ پھر چیئرمین صاحب مجھ سے مخاطب ہو کر بولے ”جائیں جا کے اپنا کام کریں“۔

سوت کا کٹ
پاکستان آنے کے بعد 1968ء میں ایک ملنگ (Milling) مشین کی ضرورت تھی ۔ باس مجھے اپنے گورو کے پاس لے گئے جو کئی سال قبل پی او ایف چھوڑ گیا تھا ۔ چند نجی کمپنیوں سے نکالے جانے کے بعد بے روزگار تھا تو یاروں نے اُسے کنٹریکٹ پر پی او ایف میں بطور ایڈوازر بھرتی کروا لیا تھا ۔ گورو بولے ”فلاں ورکشاپ میں درجنوں ملنگ مشینیں بیکار پڑی ہیں ۔ اُن میں سے لے لیں“ ۔ میں اس ورکشاپ کو کو کئی بار دیکھ چکا تھا ۔ میں نے کہا ”وہ مشینیں بہت ہلکے کام کیلئے ہیں ۔ مطلوبہ کام نہیں کر سکتیں“۔ گورو بولے ”آپ ابھی بچے ہیں ۔ میں اپنے زمانے میں اُن مشینوں پر ایک سوت کا کٹ (cut) لگواتا رہا ہوں“ (سوت اِنچ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے)۔ میں نے کہا ” از راہِ کرم ساتھ جا کر مجھے ایسی مشین دکھا دیجئے“۔ دوسرے دن میں باس اور گورو اُس ورکشاپ میں گئے ۔ مستری کو بُلایا ۔ گورو نے اُسے کہا ”میٹریل اس مشین پر باندھو اور ایک سوت کا کٹ لگاؤ ۔ مستری اُچھل پڑا اور بولا ”آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ مشین برباد کروائیں گے ۔ اس ورکشاپ میں کسی مشین پر چوتھائی سوت بھی نہیں کاٹا جا سکتا“۔ باس اور گورو دُم دبا کر بھاگ لئے

جہادِ کشمیر
باس کئی بار مجھے کہہ چکے تھے ”تم نے کشمیر کیلئے کیا کیا ؟ میں نے کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا“۔ میں نے 1947ء میں تیسری جماعت کا امتحان پاس کیا تھا ۔ میں سوچتا کہ باس اُن دنوں کالج میں ہوں گے ۔ ایک دن باس حسبِ معمول محفل جمائے اپنے کچھ اور معرکے بیان کر رہے تھے کہ اُن کے ایک ہم عصر نے پوچھا ”آپ بندوق چلانا جانتے ہیں ؟“ بولے ”نہیں“۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ باس نے جہاد کیسے کیا ہو گا ۔ آخر ایک دن جب باس بہت چہچہا رہے تھے مجھے دیکھ کر جہادِ کشمیر کی بات کی تو میں نے پوچھا ”آپ نے آزاد کشمیر کے کس علاقے میں جہاد کیا تھا ؟“ باس جواب گول کر کے کوئی اور قصہ سنانے لگے ۔ مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ 1947ء میں باس انجنیئرنگ کالج فرسٹ ایئر میں تھے ۔ تھوڑی دیر بعد میں نے کہا ”جہاد کی وجہ سے آپ نے پڑھائی کے ایک سال کی قربانی دی“۔ بولے ”میں واپس آیا تو امتحان ہو چکے تھے ۔ مجھے استثنٰی دے کر سیکنڈ ایئر میں بٹھا دیا تھا“۔ یہ بات ماننے والی نہ تھی لیکن باس تھے اور باس ہمیشہ درست ہوتا ہے اسلئے خاموش رہا

غیرمطمئن قوم

انڈا ٹوٹنے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
اگر انڈا باہر سے لگائی گئی طاقت سے ٹوٹے تو ایک ممکنہ زندگی ضائع ہو جاتی ہے
اگر انڈا اندر سے لگائی گئی طاقت سے ٹوٹے تو ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے
یعنی صحتمند تبدیلی اندر سے جنم لیتی ہے

ہمارا یہ حال ہے کہ خود تو بدلتے نہیں ساری دنیا کو بدلنے کے نعرے لگاتے ہیں اور اسی بہانے سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑے ہو کر جن کی بہتری کے دعوے کرتے ہیں اُنہی کیلئے زحمت کا سبب بنتے ہیں اور بعض اوقات اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے املاک کو نقصان پہنچا کر عوام پر مالی بوجھ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں

دوسری طرف ہمارا یہ حال ہے کہ کیسا بھی ماحول ہو ہم کبھی اس سے مطمئن یا خوش نہیں ہوتے یعنی روتے رہنا ہماری عادت بن چکی ہے
گیلپ انٹرنیشنل نے دنیا بھرمیں خوش رہنے والے ممالک کی فہرست جاری کی ہے ۔ 138 قوموں میں سے پہلی 10 خوش رہنے والی اقوام میں سے 9 کا تعلق لاطینی امریکا سے ہے ۔ متحدہ عرب امارات کا 15واں، کینیڈا کا 16واں، آسٹریلیا کا 18واں، دنیا میں سب سے زیادہ خوش سمجھے جانے والے امریکیوں کا 24واں اور چین کا 31 واں نمبر ہے اور پاکستان کا 117 نمبر ہے

یہ سوالات پوچھے گئے تھے کل دنیا کی بنیاد پر جتنوں نے ان سوالات کے جواب ہاں میں دیئے وہ سامنے لکھے ہیں
1 ۔ کیا کل آپ نے اپنے آپ کو آرام میں پایا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 72 فیصد
2 ۔ کیا کل آپ سے اچھا سلوک کیا گیا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 85 فیصد
3 ۔ کیا کل آپ نے کچھ سیکھا یا کوئی دلچسپ کام کیا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 43 فیصد
4 ۔ کیا ان چیزوں کا احساس آپ کو کل کے اکثر حصہ میں ہوا ؟ ۔ ۔ 73 فیصد
5 ۔ پُر لُطف کیا تھا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 72 فیصد

زندگی کی مثبت سوچ رکھنے والوں میں سرِ فہرست مندرجہ ذیل 10 ممالک ہیں
۔ ۔ نام ملک ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں کہنے والے ۔ ۔ ۔ ۔ نام ملک ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں کہنے والے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نام ملک ۔ ۔ ہاں کہنے والے
1 ۔ پاناما ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 85 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ۔ پراگوئے ۔ ۔ ۔ ۔ 85 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ۔ السالوے ڈور ۔ 84 فیصد
4 ۔ وینزولا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 84 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 ۔ ترِینِیداد و توبَیگو ۔ ۔ ۔ 83 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 ۔ تھائی لینڈ ۔ ۔ ۔ ۔ 83 فیصد
7 ۔ گوآٹے مالا ۔ ۔ 82 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8 ۔ فِلِیپِینز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 82 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 9 ۔ اِیکوے ڈور ۔ ۔ ۔ ۔ 81 فیصد
10 ۔ کوسٹا رِکا۔ ۔ 81 فیصد

پاکستان ۔ ۔ ۔ 36 فیصد