Category Archives: معاشرہ

کیا پردہ صرف مسلمان عورتیں کرتی ہیں ؟

Jew Women
متصل تصویر دیکھ کر اگر آپ سمجھیں کہ یہ مسلمان ہیں تو آپ غلطی پر ہیں

یہ حقیقت ہے کہ قرآن کے علاوہ اللہ کی اُتاری ہر کتاب توریت ہو یا انجیل یا زبور سب میں پردہ کا حُکم موجود تھا ۔ جس طرح آج مسلمانوں کی بڑی تعداد دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر پردے کو تَج چکی ہے اسی طرح پہلے والے اہلِ کتاب نے بھی کیا

اُوپر والی تصویر میں 2 مرد اور 2 عورتیں اور نچلی تصویر میں 2 عورتیں یہودی ہیں ۔ یہ مسلمانوں کی طرح پردہ کے پابند ہیں اور مسلمانوں ہی کی طرح اپنی عورتوں کو درمیان میں بٹھایا ہے کہ کوئی غیر مرد قریب نہ آنے پائے ۔ یہ پردے کی پابند یہودی Jew women-2عورتیں ماضی سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ آجکل کے جدید زمانے کی عورتیں ہیں جو پردے پر فخر محسوس کرتی ہیں

بہت سے یہودی اپنے خاندان کی ہر عمر کی لڑکیوں کو اسی طرح مکمل پردہ کرانے لگے ہیں سوائے اس کے کہ چھوٹی بچیاں چہرہ نہیں ڈھانپتیں ۔ اسرائیل میں بھی ایسی پردے والی یہودی عورتیں کافی تعداد میں ہیں ۔ اِن یہودی عورتوں کا اعتقاد ہے کہ عورت کے جسم کو غیر مردوں کی نظروں سے بچانا ضروری ہے چنانچہ وہ اپنے پورے جسم کو اچھی طرح سے اس طرح ڈھانپتی ہیں کے جسم کے خد و خال بالکل ظاہر نہ ہونے پائیں

مندرجہ ذیل ربط کی دوسری سطر پر کلِک کر ایک وڈیو دیکھیئے جس میں دکھایا گیا ہے کہ پردہ کرنے والی یہودی عورتیں گلی بازار میں کس طرح جاتی ہیں ۔ عورت کے ساتھ 2 چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو ننگے سر نہیں ہیں ۔ یہودی مذہب کے مطابق اُنہیں ٹوپیاں پہنائی گئی ہیں
//www.dailymotion.com/embed/video/xzfb69
The new ultra-Orthodox Jewish woman by old-mcdonald

یہودی عورتوں کا یہ لباس جو مسلمانوں کے برقعہ اور نقاب کی مانند ہے فرُمّکا (frumka) کہلاتا ہے جو فرُمّ یعنی عابد (devotee) اور لفظ ” بُرقعہ“ سے بنا ہے ۔ ربی داؤد بنِظری (Rabbi David Benizri) کے مطابق یہ تحریک یہودیوں میں 6 یا 7 سال قبل 100 عورتوں نے شروع کی جو مقبول ہونا شروع ہوئی اور اب ایسی عورتوں کی تعداد 30000 سے بڑھ چکی ہے ۔ ربی داؤد بنِظری مزید کہتے ہیں کہ عورت کی حیاء کی بگڑتی صورتِ حال نے یہودی عورتوں کے ذہنوں میں بیداری اور اپنے جسم کی حفاظت کا جذبہ پیدا کیا

ایک 22 سالہ یہودی عورت ساری رَوتھبرگ (Saari Rothberg)۔ نے پردے کے فوائد بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہمارے جسم ہمارے خاوندوں کی امانت ہیں انہیں غیر کیوں
دیکھیں
یہاں کلِک کر کے اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں

اب مسئلہ صرف یہ ہے مسلم خواتین اپنے دین کی پیروی کرتے ہوئے جسم کو اچھی طرح ڈھانپیں تو دنیا کے نام نہاد ترقی پسند اور آزادی کے علمبردار اُنہیں ” انتہاء پسند“ یا ”مجبور و مظلوم“ قرار دیتے ہیں اور اُنہیں اس پردے سے آزاد کرانے کیلئے آسمان سر پر اُٹھا لیا جاتا ہے لیکن جب یہودی عورتیں پردہ کریں تو اسے اُن کی خوبی اور اپنے مذہب سے لگاؤ قرار دیا جاتا ہے

یہی نہیں کچھ ممالک نے قانون بنا کر مُسلم عورتوں کیلئے پردہ کرنا ممنوع قراد دے دیا ہے اور یورپ کے باقی ممالک اور کئی امریکی ریاستوں میں پردہ میں مُسلم خاتون نظر آئے تو اُسے تنگ اور پریشان کیا جاتا ہے

یہی اصل چہرہ ہے انسانی حقوق کی علمبردار آزاد خیال دنیا کا

بابائے مشین گن

اَج ہینجوں دِل وچ میرےآیا ایہہ خیال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (آج یونہی دِل میں میرے آیا یہ خیال)
میں لکھ دیواں اپنے ماضی داکُج حال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (میں لکھ دوں اپنے ماضی کا کچھ حال)
ہُن تے مینوں کوئی آکھے دماغی بیمار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اب تو مجھے کوئی کہے دماغی بیمار)
موُرکھ کوئی کہندا ۔ کوئی تعصب پال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بیوقوف کوئی بُلاوے ۔ کوئی متعصب)
گل پرانی نئیں اِک زمانہ جیئا وی سی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بات پرانی نہیں ایک زمانہ ایسا بھی تھا)
اَیس نکمّے نُوں مَن دے سی سمجھدار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اِس نکمے کو مانتے تھے سمجھدار)
عوام دِتا سی بابائے مشین گن دا خطاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (عوام نے دیا تھا بابائے مشین گب کا خطاب)
ساتھی افسر بُلاندے سی محترم اُستاذ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ساتھی افسر مخاطب کرتے تھے ۔ محترم اُستاذ)

(یہ بند میں نے اُن دنوں کی اُردو میں لکھا ہے جب اس زبان کو اُردو کا نام دیا گیا تھا یعنی آج سے 2 صدیاں قبل ۔ موجودہ اُردو خطوط وحدانی میں لکھ دی ہے ۔ دیگر میں شاعر نہیں ۔ التماس ہے کہ قارئین شاعری کے اصولوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کے مطلب اور نیچے دیئے حقائق پر غور فرمائیں ۔ مشکور ہوں گا)

میں نے یکم مئی 1963ء کو پولی ٹیکنک انسٹیٹوٹ راولپنڈی میں سِنیئر لیکچرر کی کُرسی چھوڑ کر پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) کی ملازمت کم معاوضہ پر اسلئے اختیار کی کہ عملی کام سیکھ کر درست انجنیئر بنوں پھر اپنے عِلم اور تجربہ کو انجنیئرنگ کے طالب عِلموں تک پہنچاؤں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے مُلک میں انتظامی ڈھانچے کے بادشاہ سب سادے گریجوئیٹ ہیں جنہیں ٹیکنیکل اہلِ وطن کا پنپنا نہیں بھاتا (خیال رہے کہ وہ انجیئر ۔ ڈاکٹر ۔ ایم ایس سی فزکس یا کیمسٹری ۔ ایم کام ۔ ایم اے اکنامکس سب کو نالائق سمجھتے ہیں جس کی وجہ ان کا تعصب ہے)۔ خیر ۔ یہ انکشاف تو بہت بعد میں ہوا ۔ اسلئے پہلے بات میری یا ادارہ پی او ایف کی مُشکلات اور اُن کے حل کیلئے میری محنت کی

میں اس سلسلے میں قبل ازیں 2 واقعات ”گھر کی مُرغی“ اور ”کرے کوئی بھرے کوئی“ عنوانات کے تحت لکھ چُکا ہوں ۔ آج کچھ اور

مشین گن کی ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن کیلئے پلاننگ کرنے کے سلسلہ میں اواخر 1966ء میں مجھے جرمنی اُس فرم میں بھیج دیا گیا جس سے معاہدہ ہو چکا تھا ۔ معاہدہ پاکستان میں ہوا تھا جس میں مشین گن کے متعلق ٹیکنیکل تفصیلات مہیاء نہیں تھیں ۔ صرف مشین گن کا ماڈل ایم جی ون اے تھری (MG1A3) درج تھا ۔ میں نے اُس وقت جواز مہیاء کرتے ہوئے معاہدے میں کچھ نئی شقیں ڈلوا دیں تھیں جن میں سے ایک شق تھی کہ اگلے 20 سال میں اس ماڈل میں جو بھی تبدیلی یا بہتری لائی جائے گی دونوں فریق اس کی معلومات ایک دوسرے کو دینے کے پا بند ہوں گے

جرمنی میں ٹیکنیکل معلومات حاصل کرنے کیلئے میں اپنے طور پر فیکٹری میں چلا جاتا ۔ یہاں ایک واقعہ تفننِ طبع کی خاطر ۔ جرمن لوگ کہتے ہیں ”Wasser ist fuer washung (پانی دھونے کیلئے ہوتا ہے)“ اور بیئر پیتے ہیں ۔ وہاں رواج تھا کہ تعارفی ملاقات میں بیئر پیش کی جاتی تھی (بیئر پانی سے سستی تھی) ۔ ورکشاپ میں مشین لگی تھی جس میں سکے ڈال کر کوکا کولا اور سیوَن اَپ نکالے جا سکتے تھے ۔ میں کبھی کوکا کولا کی 2 بوتلیں نکال کر ورکشاپ کے فورمین کے دفتر میں چلا جاتا اور یہ میری رُم ہے کہہ کر فورمین کو پیش کر دیتا اور کسی دوسرے کو سیون اپ پیش کرتے ہوئے کہتا کہ یہ میری جِن ہے ( یہ نام میں نے نویں جماعت میں ناول ٹیژر آئی لینڈ میں پڑھے تھے) ۔ یہ اخراجات میں اپنی جیب سے قومی خدمت کیلئے کرتا تھا ۔ اللہ سُحانُہُ و تعالیٰ نے مجھے کامیابی دی اور جرمن انجیئروں میں ہر دل عزیز بنا دیا ۔ چنانچہ میں ذاتی سطح پر وہ ٹیکنیکل معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا جو مجھے سرکاری طور پر نہیں مِل سکتی تھیں

پہلی چیز جو میں دیکھی ۔ ایم جی وَن اے تھری میں ایک انرشیا بولٹ تھی جس کے ایک طرف پِن (Pin) اور دوسری طرف سلِیو (Sleeve) تھی جبکہ وہاں جو ایم جی جوڑی جارہی تھی اس کے دونوں طرف سلِیوز تھیں ۔ میں نے حسبِ معمول دو بوتلیں سیون اپ کی نکالیں اور فورمین کے کمرے میں جا بیٹھا ۔ تھوڑی دیر بعد فورمین فارغ ہو کر آیا اور آتے ہی کہا ”از راہ مہربانی بتایئے کہ میں آپ کیلئے کیا کر سکتا ہوں ؟ (Was Ich fuer zie can tuen bitte)“ یہ جرمنوں کی عادت ہے وہ بڑی میٹھی زبان بولتے ہیں ۔ میں نے بوتل پیش کرتے ہوئے حقیقت بتائی ۔ وہ کہنے لگا ”یہ ایم جی تھری بن رہی ہے“۔ میں نے استفسار کیا کہ یہ تبدیلی کیوں کی گئی تو اُس نے بتایا ”میں جنگِ عظیم دوم میں نیوی میں تھا اور برما کے محاذ پر لڑائی میں حصہ لیا تھا ۔ میں جانتا ہوں کہ اگر جنگ کے دوران گنر جلدی میں انرشیا بولٹ اُلٹی ڈال دے تو مشین گن فائر نہیں کرے گی“۔

اس فور مین سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا ۔ میری دلچسپی اور گہری نظر دیکھ کر وہ ایک دن 15 منٹ کی ٹی بریک کے دوران جب سب دُور بیٹھ کر چائے پینے میں مشغول تھے مجھے ورکشاپ میں لے جا کر مشین گن کی ہاؤسنگ دکھاتے ہوئے پوچھا ”یہاں کچھ دیکھ رہے ہو ؟“ میں نے غور کیا تو سوراخ جس میں سے کارتوس چلنے کے بعد خالی کھوکھے باہر نکلتے ہیں اُس کی شکل اور سائز ایم جی ون اے تھری سے مختلف لگا ۔ میں نے اُسے بتایا تو وہ بہت خوش ہوا اور دفتر کی طرف چل پڑا ۔ راستہ میں بولا ”آج میں آپ کو کچھ پلاؤں گا ۔ کیا پئیں گے جوس یا کافی ؟“ میرے کہنے پر اُس نے کافی منگائی (میں جانتا تھا کہ جوس کافی مہنگا ہے)۔ کہنے لگا ”یہ بھی ایم جی تھری کی ہاؤسنگ ہے ۔ ایم جی ون اے تھری میں کبھی کبھار کارتُوس چلنے کے بعد کھوکھا باہر نکلتے ہوئے اس سورخ میں پھنس جاتا ۔ جس سے مشین گن چلنا بند ہو جاتی تھی اور حادثہ کا بھی خدشہ تھا ۔ اسلئے فوج کی شکایت پر اس کے ڈیزائین میں ہماری کمپنی نے تبدیلی کی“۔

میں نے اپنے دفتر میں جا کر جرمن انجنیئر سے بات کی ۔ وہ مجھے اپنے باس پلاننگ انجیئر کے پاس لے گیا ۔ پلاننگ انجنیئر نے کہا ”یہ معاملہ میرے بس سے باہر ہے ۔ آپ کا نقطہ نظر میری سمجھ میں آ گیا ہے ۔ میں ٹیکنیکل چیف سے بات کروں گا“۔ اور وہ اُٹھ کر غالباً ٹیکنیکل چیف کے پاس چلا گیا ۔ اگلے روز اُس نے بتایا ”میں نے بات کی ہے ۔ بہتر ہو گاکہ آپ ٹیکنیکل چیف کو خود ٹیکنیکل معلومات اور معاہدے کی شقّات کے حوالے سے بات کریں ۔ میں نے کہا ”چیک کریں ۔ اگر ٹیکنیکل چیف فارغ ہوئے تو ابھی چلتے ہیں“۔ میں نے اپنے (پاکستانی) باس کو کہا تو اُنہوں نے کہا ”مجھے سمجھا دو ۔ میں ٹیکنیکل چیف کے پاس جاؤں گا ۔ تمہارا اُن کے پاس جانا درست نہیں ۔ وہ چیف ہے“۔ خیر میں نے اپنے باس کو سب کچھ واضح کیا ۔ وہ جرمن پلاننگ انجنیئر کے پاس گئے مگر واپس آ کر کہا ”میں نے سوچا ہے کہ تم ہی چلے جاؤ“۔ چند منٹ بعد پلاننگ انجنیئر آیا اور ہم دونو چل پڑے ۔ پیچھے سے ایک جرمن انجنیئر نے آ کر میرے کان میں کہا ”چیف نے آپ کو بُلایا تھا ۔ آپ نے اپنے باس کو کیوں بھیج دیا ؟ میرے باس نے اُنہیں کہہ دیا کہ آپ کے جانے کی ضرورت نہیں مسٹر اجمل جائے گا“۔ (خیال رہے یہ رویّہ ہمارے ملک میں عام پایا جاتا ہے جو میرے خیال کے مطابق ہماری بدقسمتی ہے)

میری بات چیف نے غور سے سُنی اور میرے نقطہ نظر کو سراہتے ہوئے کہا ”میں ایک دو دن میں بتاؤں کا“۔ واپسی پر پلاننگ انجنیئر نے مجھے بتایاکہ معاملہ معاہدے کا ہونے کی وجہ سے صرف ادارے کا بورڈ ہی اس کا فیصلہ کر سکتا ہے ۔ دو تین دن بعد جرمن انجنیئر نے آ کر کہا ”مسٹر اجمل ۔ چلیئے ۔ میٹنگ ہو رہی ہے جس میں آپ کو بلایا ہے“۔ راستہ میں بولا ” آپ کو صبح بلایا گیا تھا مگر آپ کی بجائے آپ کے باس چلے گئے ۔ وہاں وہ اپنا مؤقف ہی واضح نہ کر سکے تو ٹیکنیکل چیف نے مجھے کہا کہ آپ کو بلا لاؤں“۔ میں کمرے میں داخل ہو کر کرسی پر بیٹھا تو چیف نے مجھے بولنے کا اشارہ دیا ۔ میں چیف کی طرف منہ کر کے بولنے لگا تو چیف نے ڈائریکٹر سیلز اور چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف اشارہ کر کے کہا” آپ انہیں نہیں پہچانتے ؟“

میں بات سمجھ گیا اور چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھ کر بات شروع کی ۔ وہ اعتراضات کرتے رہے اور میں دلائل دیتا رہا“۔ آخر ٹیکنیکل چیف جو ابھی تک صرف مُسکرا رہے تھے چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھ کر بولے” میرا خیال ہے کہ اس نے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا جو میرے مطابق درست ہے“۔ اس پر چیف فار کمرشل افیئرز نے ڈائریکٹر سیلز سے اُس کا نظریہ دریافت کیا تو وہ چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ” آپ کو شاید یاد ہو گا کہ جب پاکستان میں معاہدہ کے مسؤدے پر بحث ہونے لگی تھی تو ممبر پی ایف بورڈ فار انڈسٹریل اینڈ کمرشل ریلیشنز نے مسٹر اجمل کو بُلا لیا تھا اور اسی کی بحث اور مہیاء کردہ جواز کے نتیجہ میں معاہدے میں چند نئی شقیں ڈالی گئی تھیں ۔ آج جس شق کے تحت انہوں نے بات کی ۔ یہ ان میں سب سے اہم شق ہے “۔

چیف فار کمرشل افیئرز کچھ دیر سوچ میں پڑے رہے پھر بولے ”آپ درست کہتے ہیں“۔ اس میٹنگ کے دوران وہ نہائت سنجیدہ رہے لیکن اب وقفہ کے بعد مسکرا کر میرے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے بولے ” اب آپ نے ہمیں بھی اپنی کی ہوئی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا ہے“۔ میں نے خوشی کا اظہار اور شکریہ کے ساتھ ہاں میں ہاں ملائی

یہی چیف ٹیکنیکل اور ڈائریکٹر سیلز اور چیف فار کمرشل افیئرز 1968ء میں میری ایجاد کے نتیجے میں مجھے جرمنی لے جانے کیلئے ایک چھوٹے پرائیویٹ ہوائی جہاز پر پاکستان پہنچ گئے تھے

مندرجہ بالا تبدیلیوں اور میرے ڈیزائین کردہ سوراخ (Polygon profile bore) والی نالی (barrel) کے ساتھ میں نے مشین گن کا نام ایم جی ون اے تھری (MG1A3) کی بجائے ایم جی ون اے تھری پی (MG1A3P) رکھ دیا جو آج تک رائج ہے ۔ اس کے بعد ایم جی ون اے تھری پی اور ایم جی تھری میں صرف یہ فرق رہ گیا کہ ایم جی تھری میں ڈِس اِنٹریگیٹِنگ بَیلٹ (disintegrating belt) استعمال ہوتی ہے جسے بھرنے کیلئے خاص مشین درکار ہوتی ہے ۔ اس کے استعمال شُدہ لنکس کو اکٹھا کرنا اور بھرنے کیلئے فیکٹری پہنچانا مُشکل ہوتا ہے خاص کر میدانِ جنگ سے تو انہیں واپس لانا ممکن نہیں ہوتا ۔ جبکہ ایم جی ون اے تھری پی میں لِنکڈ بَیٹ (linked belt) استعمال ہوتی ہے جس میں 50 کارتوسوں کا ایک لِنک ہوتا ہے ۔ ایسے 5 لِنکس کو جوڑ کر 250 کارتوسوں کی بَیلٹس بنا لی جاتی ہیں ۔ اس میں مشین کے علاوہ ہاتھ سے بھی کارتوس بھرے جا سکتے ہیں صرف بھرنے کی رفتار کم ہوتی ہے ۔ اِن لِنکس کو استعمال کے دوران بالخصوص میدانِ جنگ میں ہاتھ سے جوڑ کر بَیلٹ کی لمبائی بڑھائی جا سکتی ہے اور استعمال شدہ بَلٹس میدان جنگ میں بھری جا سکتی ہیں اور خالی بَیلٹس میدانِ جنگ سے واپس لائی جا سکتی ہیں ۔ انہی حقائق کی بنا پر ایم جی تھری کا ڈیزائن اپنایا نہیں گیا تھا

میں اُس اللہ الرّحمنٰ الرّحیم اور قادر و کریم کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ چاروں طرف مخالفتیں ہونے کے باوجود میری نا اہلیوں اور خطاؤں سے درگذر کرتے ہوئے اُس باری تعالیٰ نے ہمیشہ میرا سر بلند رکھا
سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو ۔ میری کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے

دودھ کی تیاری

نیچے دی گئ وڈیو میں این ڈی ٹی وی والے بتاتے ہیں کہ بھارت میں اضافی طلب کو پورا کرنے کیلئے دودھ کیسے تیار کرتے ہیں
یہ طریقے تو غیر ملک میں زیرِ استعمال ہیں ۔ ہمیں اپنی فکر کرنا چاہیئے کہ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے

ایک حقیقت تو عیاں ہے کہ میرے بہت سے ہموطن ایوری ڈے پاؤڈر کو خالص دودھ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں ۔ میں اَن پڑھ لوگوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھوں کی بات کر رہا ہوں ۔ ایک صاحب ایم ایس سی انجیئرنگ ہیں
میں نے اُن سے کہا کہ ”مجھے اس پاؤدر کے بغیر چائے دے دیجئے“۔
بولے ”کیوں ؟ آپ دودھ نہیں لیتے ؟“
میں کہا ”جناب میں دودھ پیتا ہوں مگر یہ دودھ نہیں ہے“۔
فرمایا ”اس پر تو خالص دودھ لکھا ہے“۔

دراصل ایوری ڈے کی ڈبیہ پر ”خاص دودھ“ لکھا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں جو دودھ ڈبوں میں مختلف ناموں سے بِک رہا ہے اور میرے ہموطن ڈھڑا دھڑ استعمال کر رہے ہیں کبھی ڈبہ کو بغیر ہلائے دودھ نکال لیجئے پھر ڈبہ کو پھاڑ کر ڈبہ میں دیکھیئے کہ نیچے کیا بیٹھا ہوا ہے ؟
جو دودھ دکانوں پر بکتا ہے اُس میں بھی کہیں دودھ ہے کہیں ملاوٹ والا ہے اور کہیں خاص قسم کا دودھ ہے کیونکہ فنکار ہمارے ہاں بھی کم نہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خواب

سوتے ہوئے یا جاگتے میں بھی خواب دیکھنا جُرم نہیں ہے
لیکن
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے خواب پورے ہوں تو زیادہ مت سویئے
خاص کر جاگتے ہوئے مت سویئے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Good Time For savages “

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ توقعات

جس کی دوسروں سے توقع رکھتے ہیں وہ خوبی پہلے اپنے آپ میں پیدا کیجئے
اگر دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں تو اپنے آپ کو بدلیئے
الزامات اور شکایات سے معاملات مزید بگڑتے ہیں
اچھی تبدیلی نعروں جلوسوں اور دھرنوں سے نہیں آتی
بلکہ
پُرخلوص لگاتار محنت سے آتی ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Medical Ethics ? “

شیطانی چرخہ اور اس کا سبب

جب 1964ء میں پاکستان میں پہلا ٹی وی چینل (پی ٹی وی) لاہور میں شروع ہوا تو چند عُلماء کے اسے شیطانی چرخہ کہنے پر روشن خیال لوگوں نے شور برپا کر دیا اور عُلماء کو جاہل ۔ ترقی کے دُشمن ۔ مُلک کے دُشمن اور جو کچھ اُن کے منہ میں آیا قرار دے دیا تھا ۔ آج میں اُس دور کا سوچتا ہوں تو کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کے وہ عُلماء کتنے بارِیک بِین اور دُور اندَیش تھے کہ بالکل درست بات کہی تھی

آرمی چیف نے وزیرِ اعظم سے ملاقات کی ۔ ملاقات کے بعد ترجمان وزیر اعظم ہاؤس نے بتایا کی سکیورٹی اور موجودہ حالات پر بات ہوئی ۔ رات کو طاہر القادری نے اپنے ساتھیوں کو خوشخبری سُنائی کہ ”حکومت کے کہنے پر فوج نے ثالث اور ضامن بننا قبول کر لیا ہے ۔ مجھے آرمی چیف نے بُلایا “۔ اس کے بعد عمران خان بھی اسی پٹڑی پر چڑھ دوڑا ۔ میڈیا شاید بریکنگ نیوز کے چارے کو ترس رہا تھا۔ تمام ٹی وی چینلز پر کہرام مچ گیا اور اس حوالے سے نواز شریف اور اُس کی حکومت کو ہارا ہوا کھلاڑی ثابت کرنے میں ایک نے دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششیں شروع کر دیں ۔ اگلا سارا دن اسی میں گذر گیا

بات قومی اسمبلی تک پہنچی جہاں اپوزیشن لیڈر نے ناراضگی کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور آئین کے خلاف ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور وزیر اعظم کی مکمل حمائت کا اعلان کیا ۔ میڈیا نے تھوڑا سا بیان بدلا اور کہنا شروع کر دیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ حکومت نے آرمی چیف کو مصالحت کا کہا ہے ۔ طاہر القادری نے اپنا دستور جاری رکھتے ہوئے اور اور تقریر کر ڈالی کہ ”نواز شریف حکومت کا اخلاقی جواز ہی باقی نہیں رہا ۔ اب تو فوج نے نواز شریف کا جھوٹ کا پول کھول دیا“۔

وزیرِ داخلہ کا قومی اسمبلی میں بیان قارئین نے ٹی وی سے سُن لیا ہو گا یا اخبار میں پڑھ لیا ہو گا ۔ ذرا دیکھیئے کہ حقیقت کیا ہے ۔ ڈی جی ایس پی آر نے صرف ٹویٹر پر یہ لکھا
Tweet ISPR
ترجمہ ۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم سے گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے موجودہ بحران کے حل کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کا کہا

According to Merriam Webster dictionary, “facilitate”, means to make (something) easier, to help cause (something), to help (something) run more smoothly and effectively

اُردو ترجمہ facilitate کا ۔ سہولت پیدا کرنا ۔ آسان بنانا ۔ معاملہ حل کرنے میں مدد کرنا ۔ آسان یا مؤثر بنانے میں مدد کرنا
اس کا مطلب کسی طرح بھی ثالثی (moderatorship) یا مصالحت (mediatorship) یا ضمانتی (Sponsor, Surety) نہیں بنتا
It neither means “rapprochement” or “reconcilement”. Nor it means “moderatorship”, “mediatorship”, Sponsor, Surety
طاہر القادری اور عمران خان نے لفظ ”ثالث“ اور “ضامن“ کا بار بار استعمال کیا اور میڈیا ان کے بیانات کو مسلسل اُچھالتا رہا ۔ ٹی وی چینلز میں غلط خبریں دینے اور اشتعال انگیزی میں اے آر وائی سب سے آگے رہا اور اے آر وائی میں بھی لُقمان مبشّر نے جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ اس مُلک پاکستان میں تباہی پھیلانا ہے ۔ جب عمران اور طاہر القادری کے حُکم پر اُن کے پیروکار پارلیمنٹ اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی طرف بڑھے اور پولیس پر لاٹھیاں اور غلیلوں کے ساتھ شیشے کی گولیوں اور شیشے کے ٹکڑوں کی بارش کر دی تو بجائے درست صورتِ حال بتانے کے اے آر وائی سے 100 فیصد جھوٹ پھیلایا گیا کہ مظاہرین میں سے ایک عورت سمیت 7 آدمی ہلاک ہو گئے ہیں ۔ اس خبر کے سُنتے ہی جو مظاہریں پہلے تشدد پر نہیں اُترے تھے وہ بھی تشدد پر اُتر آئے

درحقیقت موجودہ بحران میڈیا ہی کا پیدا کردہ ہے اور میڈیا ہی اسے بد سے بدتر کی طرف لے جانے میں کوشاں ہے ۔ لیکن میڈیا کاروباری ادارہ ہے اور کوئی کام بغیر منافع کے نہیں کرتا جس میں جائز منافع ہوتا ہے اور ناجائز بھی ۔ زیادہ معاوضہ ناجائز کاموں میں ملتا ہے
دیکھنا یہ چاہیئے کہ منافع کے پیچھے کون ہے ؟

موجودہ صورتِ حال میں طاہر القادری اور عمران خان سامنے نظر آتے ہیں لیکن عام طور پر سامنے نظر آنے والا یا والے کسی اور کے ہاتھ میں کھیل رہے ہوتے ہیں یعنی کسی اور کے روبوٹ بنے ہوتے ہیں جس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ جب مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے ۔ معاہدہ لکھ کر دستخط ہونا تھے تو تحریکِ انصاف کی کور کمیٹی کے فیصلہ سے متفق ہونے کے بعد کہ آگے نہیں بڑھا جائے گا اچانک عمران خان نے آگے بڑھنے کا حُکم دے دیا

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خواہشات اور حقوق

Flag-1آپ جو چاہیں ۔ خواب دیکھیئے
آپ جو بننا چاہیں ۔ بنیئے
آپ جہاں جانا چاہیں ۔ جایئے
بلاشُبہ آپ کے پاس ایک ہی زندگی ہے اور آپ اس کا بھرپور استعمال چاہتے ہیں
مگر یاد رکھیئے کہ
دوسرے بھی آپ ہی جیسی خواہشات اور حقوق رکھتے ہیں

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Afghan Refugees