Category Archives: معاشرہ

تہمت اور عمل

آج صبح ساڑھے سات بجے ایک خبر پڑھی تو سلطان باہو کا کلام دماغ میں گھوم گیا جو قارئین کی نظر کر دیا تھا
جی چاہا تھا کہ دماغ میں پیدا ہونے والے جن الفاظ نے سلطان باہو کے کلام کی یاد دلائی تھی وہ بھی اُس کے ساتھ ہی لکھ دوں لیکن اسے سلطان باہو سے گستاخی سمجھتے ہوئے اپنا قلم اور کلام روک لیا جو متعلقہ خبر کے ساتھ پیشِ خدمت ہے

دوسرے نُوں راہ ہر کوئی دسے
آپے راہ تے سدھی چلنا اَوکھا
غیر دی اَکھ وِچ تنکا وِی دِسے
اپنی اَکھ دا شہتِیر نہ دِسدا
لوکاں نوں کرپٹ کہنا سوکھا
پر اپنے آپ نوں بچانا اَوکھا
کوئی کِسے دی گل نئیں سُندا
لوکاں نُوں سمجھانا اَوکھا
(آخری شعر سلطان باہو کا ہے)

خیبر پختونخوا کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اس سال میں عمران خان نے 4 بار سرکاری ہیلی کاپٹر بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ سے بنوں ۔ کوہاٹ ۔ منگورہ اور پشاور جانے کیلئے استعمال کیا

اَوکھا

راہ دے وِچ کھلَونا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (راستہ میں کھڑا رہنا مُشکل)
اپنا آپ لُکاؤنا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اپنے آپ کو چھپانا مُشکل)
اَینی وَدھ گئی دُنیاداری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اتنی ہو گئی دنیا داری)
کلَیاں بہہ کے رونا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (رونے کیلئے خلوَت پانا مُشکل)
داغ محبت والا باہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (داغ محبت کا باہو)
لگ جاوے تے دھونا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ (لگ جائے تو دھونا مُشکل)
کلَیاں عِشق کمانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اکیلے عشق کا حاصل بھی مُشکل)
کسے نُوں یار بنانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کسی کو دوست بنانا بھی مُشکل)
پیار پیار تے ہر کوئی بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پیار پیار تو سب کہتے ہیں)
کر کے پیار نبھانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کر کے پیار نبھانا مُشکل)
دُکھاں تے ہر کوئی ہَس لیندا ۔ ۔ (دُکھوں پر سب ہنس تو لیتے ہیں)
کِسے دا درد وٹاؤنا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کسی کا درد بانٹنا ہے مُشکل)
گلاں نال نئیں رُتبے مِلدے ۔ ۔ ۔ (باتوں سے بُلندی حاصل نہیں ہوتی)
جوگی بھَیس بناؤنا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (فقیر بن کے رہنا بھی مُشکل)
کوئی کِسے دی گل نئیں سُندا ۔ (کوئی کسی کی بات نہیں سُنتا)
لوکاں نُوں سمجھانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (لوگوں کو سمجھانا بھی ہے مُشکل)

کلام ۔ سلطان باہو

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Unparalleled Impunity??? “

تبدیلی کی 60 سالہ تاریخ

آہستہ چلو ۔ کہ روانی آئے ۔ ۔ ۔ جو بات بگڑتی ہو ۔ وہ بنانی آئے
انجام جس کا نہ معلوم ہو شاداب ۔ ۔ ۔ کیا خاک تمہیں وہ کہانی آئے

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں ماضی میں 2 اہم تبدیلیاں ملتی ہیں
1 ۔ اسلام کا پھیلنا
2 ۔ پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا

مندرجہ بالا دونوں تبدیلیوں کے محرک اعلٰی فکر و عمل کے مالک اسلاف تھے ۔ یہ تبدیلیاں کئی دہائیوں کی لگاتار پُرخلوص محنت کا نتیجہ تھیں اور بتدریج وقوع پذیر ہوئیں ۔ اِن کے بر عکس پچھلی 6 دہائیوں سے جو لوگ تبدیلی کا غوغا کرتے آ رہے ہیں اِن میں اُن جیسی ایک بھی خوبی نہیں پائی گئی ۔ چنانچہ اِنہوں نے صرف انتشار ہی پھیلایا ہے

پاکستان میں تبدیلی کی پہلی یلغار
1954ء میں میری ملاقات بچپن کے دوست سے 7 سال بعد ہوئی ۔ جب میں گارڈن کالج میں فرسٹ ایئرمیں داخل ہوا وہ سیکنڈ ایئر میں تھا ۔ ایک دن میرے پاس آیا 50 کے لگ بھگ اشتہار مجھے تھماتے ہوئے بولا ”جب چھُٹی ہو تو لڑکوں میں بانٹ دینا“۔
میں نے پوچھا ”یہ ایپسو (آل پاکستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن) اور یہ اجتماع کیا ہے ؟“
بولا ”یہ سارے پاکستان کے طلباء کی نمائندہ ہے اور کوئٹہ میں اجتماع ہو گا جہاں پورے پاکستان کے کالجوں کے طلباء آئیں گے اور علمی گفتگو ہو گی ۔ ہم نوجوانوں میں شعور بیدار کرنا چاہتے ہیں جس سے مُلک میں تبدیلی لائیں گے ۔ گھِسے پِٹے دماغوں کی جگہ جدید علوم سے واقف تازہ دماغ کام کریں گے ۔ مُلک ترقی کرے گا“۔

میں روزانہ عصر کے بعد باسکٹ بال کھیلنے کیلئے کالج جایا کرتا تھا ۔ اجتماع ہو جانے کے بعد ایک دن میں گیا تو کوئی لڑکا باسکٹ بال کھیلنے نہیں پہنچا تھا ۔ میں کالج کے برآمدوں میں گھوم رہا تھا کہ ایک بند کمرے سے مدھم آوازیں آئیں ۔ کھڑی اور دونو دروازے اندر سے بند تھے ۔ ایک دروازے میں چابی کا سوراخ تھا ۔ اُس میں دیکھنے کی کوشش کی مگر کسی کا چہرہ نظر نہ آیا ۔ کان لگا کر سُنا تو میرا ماتھا ٹھنکا ۔ کہا جا رہا تھا ”حسبِ معمول اجتماع پر جماتیئے (اسلامی جمیعتِ طلباء) چھائے ہوئے تھے ۔ ہم نے کرائے کے داڑھی والے لئے جنہوں نے اجتماع میں شور و غُل اور مار دھاڑ کی ۔ پولیس نے اُنہیں پکڑا تو اُنہوں نے اسلامی جمیعتِ طلباء کا نام لیا جس پر جمیعت کے سارے کرتا دھرتا دھر لئے گئے“۔ اس کے بعد ایک دبا دبا قہقہ لگا ۔ یہ کوئٹہ کے اجتماع میں اپنی کارستانیوں کی داستان سُنائی جا رہی تھی ۔ ایک آواز میں نے پہچان لی ۔ وہ میرے دوست کی تھی جس نے مجھے اشتہار بانٹنے کو دیئے تھے

اگلے روز انجان بن کر اُس سے اجتماع کی کاروائی کا پوچھا تو بولا ”کیا بتاؤں بہت اچھا اجتماع ہو رہا تھا کہ جماتیوں نے حملہ کر دیا اور مار دھاڑ شروع کر دی ۔ سب کچھ گڑ بڑ ہو گیا“۔
چند دن بعد مجھے بہاولپور سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے چوتھے سال کے طالب علم کا خط ملا ۔ یہ صاحب میرے ایک عزیز کے ہم جماعت ہونے کی وجہ سے میرے بڑے بھائی کا درجہ رکھتے تھے ۔ ان کی آزاد خیالی مشہور تھی لیکن اُنہوں نے لکھا تھا ”اگر آپ ایپسو کے رُکن ہیں تو فوری طور پر لکھ کر اس سے مستعفی ہو جائیں اور ان سے دُور رہیں ۔ یہ لوگ ہمدرد کے بھیس میں ہمارے دشمن ہیں ۔ تفصیل جلد لکھوں گا“۔ اس تفصیل اور بعد کے مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو کہیں سے پیسہ مل رہا تھا جس میں سے انتشار پھیلانے اور جوان نسل کو غلط راہ پر چلانے کیلئے خوب خرچ کر رہے تھے

پاکستان میں تبدیلی کی دوسری یلغار
مسلمان طلباء و طالبات نے 1937ء میں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن سے الگ ہو کر مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن بنائی تھی جو آل انڈیا مسلم لیگ کی ذیلی جماعت تھی ۔ اس کے اراکین نے تحریکِ پاکستان میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد یہ فیڈریشن مسلم نیشنل گارڈ میں تبدیل ہو گئی تھی ۔ 1956ء میں ایک مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کا نام سامنے آیا لیکن جلد ہی تبدیل ہو کر مسلم ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن ہو گیا ۔ ان کا بھی بیان کردہ ایجنڈا وہی تھا جو ایپسو کا تھا ۔ ایک سال کے اندر ہی واضح ہو گیا کہ ان کے کرتا دھرتا وہی تھے جو ایپسو کے تھے ۔ اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگ جانے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ طلباء کی سب تنظیمیں بھی ختم ہو گئیں

پاکستان میں تبدیلی کی تیسری یلغار
1972ء میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے پی پی پی کی ذیلی جماعت پاکستان کی قسمت بدلنے والی تبدیلی کے نعرے سے اُٹھی ۔ تبدیلی یہ آئی کہ سکولوں اور کالجوں میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہ رہی ۔ اساتذہ کی عزت پاؤں میں روندنا معمول بن گیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ زور دار لڑکے امتحان کے کمرے میں پستول ساتھ رکھ کر کھُلے عام نقل کرتے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ محبِ وطن محنتی اساتذہ تدریس کے پیشے سے کنارہ کشی کرنے لگے اور ٹیوشن سینٹر اور بِیکن ہاؤس قسم کے سکول کھُلنے لگے

اب عمران خان صاحب چوتھی یلغار کے ساتھ دھاڑ رہے ہیں
اللہ خیر کرے

میں نے ایوب خان ۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ادوارِ حکومت کا ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ جمہوری حکومتیں نہیں تھیں ۔ ویسے تبدیلی کا دعویٰ پرویز مشرف نے بھی بہت زوردار کیا تھا جس کا نتیجہ ہم آج تک بھُگت رہے ہیں

انسان بمقابلہ جانور

انسان دوسرے انسان کے ساتھ بالخصوص جب اُس کا تعلق بالکل مختلف قبیلہ اور رنگ و نسل سے ہو ۔ ”کیسا سلوک کرتا ہے“ کا نقشہ ذہن میں قائم کر لیجئے پھر
مندرجہ ذیل ربط پر کلِک کر دیکھیئے کہ کون بہتر ہے ؟

انسان یا جانور ؟

کاش کسی کے دل میں ۔ ۔ ۔

چاہتا ہوں‌کہ اچھی بات کسی کوسکھا سکوں
کاش کسی کے دِل میں اُتر جائے میری بات

یہی مُلک پاکستان تھا
دُنیا بھی یہی تھی
لیکن ایک دور تھا جب ۔ ۔ ۔
ہم سب پاکستانی تھے
ہم سب بھائی بھائی تھے
ہم سب کو اِس مملکتِ خدا داد کی بہتری کی فِکر تھی
یعنی
ہم سب کو ہم سب کی کی فکر تھی

پھر رُت بدلی
ہم نے انگلِش مِیڈِیم سکولوں میں پڑھنا شروع کر دیا
ہم اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے لگے
ہم نے محنت کی جگہ حصولِ مایہ کو اپنا نصب العین بنایا
ہم پرانی خاندانی قدروں کی بجائے کوٹھی کار اور بدیشی (غیرمُلکی) لباس کو ترقی کا نشان سمجھنے لگے

نتیجہ
یہاں کلِک کر کے اُس دور کے سربراہِ حکومت اور آج کے سربراہِ حکومت میں فرق آپ خود تلاش کیجئے
کاش کسی کے دِل میں اُتر جائے میری بات