Category Archives: معاشرہ

فارَینزِک

میرے دماغ میں ایک کِیڑا ہے جو عام طور پر سویا رہتا ہے لیکن جب کوئی نیا منظر دیکھے یا نئی بات سُنے تو وہ مجھے کاٹنا شروع کر دیتا ہے کہ اُس منظر یا بات کو سمجھوں اور میں سمجھنے کی کوشش میں لگ جاتا ہوں ۔ میں 2 سالوں سے ”حقوق اور آزادیءِ تقریر“ کو ہی نہیں سمجھ پایا تھا کہ 2 ہفتے سے مجھے ”فارَینزِک“ کے کیڑے نے کاٹنا شروع کر رکھا ہے ۔ “فورَینزِک“ انگریزی کا لفظ ہے Forensic جو ”فورَینزِک“ لکھا جانا چاہیئے البتہ ہو سکتا ہے کہ زمانے کی ترقی کے ساتھ”فورَینزِک“ بھی ترقی کر کے ”فارَینزِک“ بن گیا ہو

یہ لفظ ”فارَینزِک“ کچھ لوگوں کی زبان سے چِپَک کر رہ گیا ہے ۔ عوام بیچارے کیا کریں ہند و پاکستان میں انگریزوں کی حکمرانی کے زمانے سے اُن کے ذہنوں کو لیڈروں کا غلام بننا سکھایا گیا ہے ۔ وہ بیچارے تو 5 وقت ”سُبحان اللہ ۔ الحمدللہ ۔ اللہ اکبر“ کی تسبیح کی بجائے سارا دن ”فارَینزِک ۔ فارَینزِک“ پڑھتے ہیں اور اتنی فرصت نہیں ملتی کہ ڈکشنری کھول کر ”فارَینزِک“ کا مطلب ہی دیکھ لیں

مجھے اللہ نے توفیق دی تو میں نے اخبار اور ٹی وی سے دُور بیٹھ کر آج ڈکشنری کھولی تو پرانے زمانہ کی ضرب المثل یاد آئی ”کھودا پہاڑ ۔ نکلا چوہا ۔ وہ بھی مرا ہوا“۔
آئی جنون انگریزی سے اُردو ڈکشنری نے Forensic کا مطلب بتایا ”عدالت کے متعلق“۔

مریم وَیبسٹر انگریزی کی ڈکشنری نے بتایا ۔

Simple Definition of forensic
a) relating to the use of scientific knowledge or methods in solving crimes
b) relating to, used in, or suitable to a court of law

یعنی (الف) جُرم معلوم کرنے کیلئے سائنس کے عِلم یا طریقوں کے استعمال کے متعلق ۔ (ب) جو قانونی عدالت میں استعمال کیا جاتا ہو یا اس کے متعلق ہو

آکسفَورڈ ڈکشنری نے بتایا ۔

Relating to or denoting the application of scientific methods and techniques to the investigation of crime

جُرم معلوم کرنے کیلئے سائنسی طریقوں کے استعمال کے متعلق

تھِسَورَس نے بتایا

a) Relating to, used in, or appropriate for courts of law or for public discussion or argumentation.
b) Relating to the use of science or technology in the investigation and establishment of facts or evidence in a court of law:

(الف) قانونی عدالت یا عوامی بحث میں استعمال سے متعلق یا اس کیلئے موزُوں
(ب) تفتیش اور حقائق معلوم کرنے کیلئے یا بطور شواہد قانونی عدالت میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال

اپنے جوانوں کے نام

کچھ لوگ یہاں اَفسر بن کر ۔ لوگوں کے خدا بن جاتے ہیں
کچھ لوگ ترقی جب پائیں تو ۔ اور بھی سر کو جھُکاتے ہیں
یہ دونوں قِسمیں اِنساں کی ہیں ۔ روزِ اوّل سے دُنیا میں
کچھ مَر کے بھی زندہ رہتے ہیں ۔کچھ جیتے جی مَر جاتے ہیں
ہے میری دعا اے بچو ۔ تُم انسانوں کی اس قسم میں ہو
خوشبو کی طرح ہر دم مہکے رُوح جو تمہارے جسم میں ہو
دُنیا میں اچھے کام کرو ۔ اور جب دنیا سے جاؤ تُم
غیروں کی آنکھوں میں آنسو اپنوں سے بڑھ کر لاؤ تُم
یہ لوگ جو تُم سے جَلتے ہیں یہ جھُوٹی دار پہ چلتے ہیں
یہ وقت کے چڑھتے سورج ہیں تب دیکھو جب ڈَھلتے ہیں
کرو وعدہ ان سا مَت ہو نا ۔ تُم اپنے اصلی کو مَت کھونا
دُنیا ہے اصل میں کچھ پانا ۔ اور لینا اصلی کا گُم ہونا
جو لوگ اس دُنیا کے لالچ میں ۔ سجدہ گاہ بدلتے ہیں
پھُولوں کو سجا کر کالر میں اَن دیکھی آگ میں جلتے ہیں
ہے ایک ۔ بَس ایک ہی راہِ وفا ۔ وہ راہِ وفا ہے راہِ خدا
ہر دَم یہ رکھنا لب پہ دُعا ۔ یا رب مجھے سیدھی راہ دِکھا
وہ راہ کہ جس پر چلتے ہوئے حاصل ہو سنہرا انعام تیرا
نہیں چاہیئے مجھ کو وہ رَستہ جس پہ پھیلا ہے قہرِ خدا
اس دُنیا کی آسائشیں سب بے شک کرتا ہوں تُجھ سے طلب
ہو شامل جن میں رحم تیرا ۔ ہو دُور جن سے تیرا غضب“۔

بے پردہ لڑکی

اگر آپ کو کوئی مسلمان لڑکی نظر آئے جس نے لباس اسلامی شرع کے مطابق نہ پہن رکھا ہو تو ایک لمحہ کیلئے بھی یہ خیال نہ کریں کہ وہ اسلامی ترازو پر آپ سے کم وزن رکھتی ہے
اگر آپ نے ایسا کیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ آپ کا درجہ اُس لڑکی سے کم تر ہے
یقین کریں کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے
کیا معلوم اُس لڑکی کا اللہ سے آپ کی نسبت بہتر رابطہ ہو اور اُس کا دل آپ کے دل سے کہیں بہتر ہو کیونکہ آپ اس بارے میں نہیں جانتے
شاید غیر شرعی لباس ہی اُس کی واحد کمزوری ہو اور آپ میں اس لڑکی سے کہیں زیادہ خامیاں ہوں

مفتی اسمٰعیل منک

یہ ترقی ہے یا جہالت

کمپیوٹر اور پھر سمارٹ موبائل فون عام ہونے کے بعد پڑھے لکھے لوگ فیس بُک پر جو دیکھتے ہیں شیئر کر دیتے ہیں ۔ کتنے لوگ ہیں جو تصدیق کرتے ہیں کہ جو وہ شیئر کرنے لگے ہیں وہ حقیقت ہے یا اختراع ؟
میرا خیال کہ اگر تصدیق کرنے لگیں تو شاید کوئی بھی شیئر نہ کرے ۔ جبکہ کہا گیا ہے کہ ” کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغیر تصدیق کے آگے بیان کر دے“۔

جھوٹ کی قسمیں جس کے مرتکب اکثر لوگ ہوتے ہیں
لوگوں کو ہنسانے کیلئے غلط بیانی کرنا
کھانا مزیدار نہ بھی ہو تو کسی کو خوش کرنے کیلئے کہنا ”بہت مزیدار ہے“۔
کسی کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے بیماری کا دورہ پڑنا یا بیہوش ہو جانا
کسی کو بیوقوف بنانے کیلئے یا شُغل کی خاطر غلط بیانی کرنا ۔ اپریل فُول بھی اِسی میں آتا ہے
اپنے آپ کو مُشکل سے نکالنے کیلئے غلط بیانی کرنا
دوسرے کے سامنے چھوٹا ہونے کے ڈر سے غلط بیانی کرنا
ذاتی نفع کی خاطر غلط بیانی کرنا جیسے کوئی چیز خریدتے ہوئے کہنا کہ ”فلاں تو اتنی قیمت پر دے رہا ہے“۔
دوسرے کو نقصان پہنچانے کی خاطر غلط بیانی کرنا جیسے کوئی راستی پوچھے تو راستہ نہ معلوم ہوتے ہوئے یا جان بوجھ کر اُسے غلط راستہ بتانا
جس خبر کی سچائی کی تصدیق نہ کی ہو اُسے بیان کرنا (ابتداء میں اس کی مچال دی جا چکی ہے)۔
ذاتی مفاد کے تحت سچ بولنے کی بجائے چُپ رہنا
کسی کی توجہ یا محبت حاصل کرنے کیلئے غلط دعوٰی یا غلط بیانی کرنا
حقیقت معلوم نہ ہوتے ہوئے کسی کے حق میں گواہی دینا
اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینا

یومِ پاکستان

flag-1بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ مقاصد” تھا لیکن وہ minar-i-pakistanقرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان پاکستان بننے کے بعد بطور یادگار قراردادِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا ۔ عوام نے اسے یادگارِ پاکستان کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 60 سال سے زائد عرصہ سے ہمارے ملک سے غائب ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ ہماری قوم کو سیدھی راہ پر گامزن کرے ۔ ان میں ملی یکجہتی قائم کرے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم دے ۔ آمین

میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں

آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف
ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات اتنے شدید اور تلخ ہیں کہ ان دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ انہیں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے
مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین
سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں“۔

قائد اعظم کے تصورات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اے کے فضل الحق جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی قرارداد مقاصد پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے

”کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر منسلک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں“۔

اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس (اب اُتر پردیش) سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال muslim-majority-map اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی

مندرجہ بالا اصول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بنگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا

مسلم اکثریتی علاقے ۔ اس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے
m-l-working-committee

مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی

۔

۔

۔
welcome-addr-22-march-1940
شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں

چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں

seconding-reson-march-1940

۔

۔

quaid-liaquat-mamdot
قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ