Category Archives: معاشرہ

آزاد يا کَٹھ پُتلی ؟

آزادیءِ نسواں ايک پُر کشش نعرہ ہے جو عورتوں کے دِل موہ ليتا ہے اور وہ مردوں کی غلامی سے نجات کے شوق ميں مردوں کی کٹھ پُتلی بن جاتی ہيں ۔ کيا يہ حقيقت نہيں کہ آج مغربی دُنيا کی نام نہاد آزاد عورت کی حيثيت ايک کٹھ پُتلی کی سی ہے جس کا ہر عمل مرد کی خواہشات کا مرہونِ منت ہے ؟   

عورت کی عُمدگی کو اس کی عقل و فہم کی بجائے  اس کے جسمانی خدوخال اور جِنسی کشش سے ناپا جانے لگا  ۔ عورت سے اس کا قدرتی منصب و کردار [ماں ۔ بہن ۔ بيوی ۔بيٹی] چھين کر اسے اشتہاروں ۔ سينماؤں ۔  سٹيج اور محفل کی زينت بنا ديا گيا تاکہ وہ مرد کی تفننِ طبع کا سامان مہياء کر سکے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے عطا کردہ تمام حقوق جن کی رو سے وہ گھر کی مالکن اور قابلِ احترام بنتی ہے عورت سے چھين کر نہ صرف روزی کمانے کی ذمہ داری اس پر ڈالی گئی بلکہ مرد گاہکوں کی خوشنودی کی خاطر دفاتر اور ہوٹلوں کی زينت بنايا گيا ۔ عورت کو آزادی کا چکمہ دے کر مرد نے اسے اپنی نفسانی خواہشات کا کھلونا بنا ديا اور اب عورت کو اس جال سے باہر نکلنے کا راستہ بھی ميسّر نہيں ۔  

آخر ايسا کيوں ہے کہ اشتہار موبائل فون کا ہو ۔ کار ۔ ٹيليويزن حتٰی کہ  ريزر بليڈ کا ۔ اس ميں تصوير عورت کی ہوتی ہے ۔ نيم عُرياں يا عُرياں ناچ ہو تو عورت کا ۔ کپڑوں کے اشتہار ہوں يا کوئی اور اُن ميں سب سے بڑا عنصر عورت کے جسم کی نمائش کا ہوتا ہے ۔ کيا نيم عُرياں نوجوان عورت کا کُولہے مٹکا کر مردوں سے داد و تحسين پانا آزادیءِ نسواں کہلاتا ہے ؟  

مغربی دنيا ميں مرد جب چاہتا ہے عورت سے لُطف اُٹھاتا ہے اور اس کے نتيجہ ميں بچہ جننا يا ضائع کرنا مرد کے حُکم کا تابع ہوتا ہے جبکہ ساری تکليف يا زحمت عورت اُٹھاتی ہے ۔ خاوند کے ساتھ ساتھ بيوی بھی گھر کے خرچ کيلئے پيسہ کماتی ہے اور امورِ خانہ داری اور بچوں کی پرورش عورت کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ کيا يہی مساوات يا مساوی حقوق ہيں ؟  اگر مادی مساوات ہی کرنا ہے تو پھر مردوں کو بھی امورِ خانہ داری کے علاوہ بچوں کی پرورش کرنا چاہيئے ۔ اس کے علاوہ مردوں کے بھی نيم عُرہاں يا عُرہاں ناچ ہونا چاہئيں تھے اور بچہ جننے کی تکليف عورت اور مرد باری باری اُٹھاتے ۔ ليکن ايسا نہيں ہے اور نہ ہو گا ۔  

مغربی معاشرہ جہاں عورت کی آزادی کا ڈھنڈورہ پيٹا جاتا ہے وہاں عورت کی بے بسی قابلِ رحم ہے ۔ عورت مرد کو خوش کرتے ہوئے عام طور پر شادی سے پہلے حاملہ ہو جاتی ہے اور پھر اسی مرد کی خوشنودی کی خاطر حمل ضائع کر کے جسمانی اور ذہنی اذيّت سے گذرتی ہے ۔ شادی کے بعد اپنے خاوند کے بچہ پيدا کرنا يا  ضائع کرنا بھی خاوند کے حُکم سے ہوتا ہے ۔  

آج تو حالات بالکل ہی دِگرگُوں ہو چکے ہيں ۔ لگ بھگ چار دہائياں پہلے کی بات ہے ميں اس زمانہ ميں مغربی جرمنی ميں تھا ۔ ايک ہم عمر آسٹروی نزاد جرمن ميرا دوست بن گيا ۔ ہم اکٹھے گومتے پھرتے ۔ جب میرا  واپسی کا سلسلہ ہوا تو کہنے لگا "اجمل ميرے لئے کسی دن بہت سا وقت نکالو ميں تمہارے ساتھ بہت سی باتيں کرنا چاہتا ہوں"۔ اگلے اتوار کو سارا دن اکٹھے گذارا ۔ اُس نے اپنی پيدائش سے ليکر اُس دن تک کی آپ بيتی اور اپنے خيالات بتائے ۔ آخر ميں کہنے لگا " اجمل ۔ ميں مسلمانوں کی بہت عزت کرتا ہوں ۔ ميں نے آسٹريا ۔جرمنی اور تُرکی ميں تعليم حاصل کی ہے ۔ ميں دو سال انقرہ يونيورسٹی ميں رہا ۔ وہاں تُرکوں کی تمام عادتيں يورپ کے لوگوں کی طرح تھيں ۔ شراب پيتے ۔ لحم الخنزير کھاتے ۔ ناچتے گاتے مگر ايک عجيب بات تھی وہاں بہت ڈھونڈنے سے شائد کوئی عورت ملے جو شادی سے پہلے کسی مرد کے ساتھ سوئی ہو جبکہ يورپ ميں بہت ڈھونڈنے سے شائد کوئی عورت ملے جو شادی سے پہلے کسی مرد کے ساتھ نہ سوئی ہو ۔ وہاں سے آنے کے بعد ميں بالکل بدل گيا ۔ ميں نے الکُحل بلکہ بيئر پينا بھی چھوڑ دی ۔ لڑکيوں کے ساتھ ناچنا بھی چھوڑ ديا ۔ اب ميں اپنے وطن ميں اجنبی ہوں ۔ مسلمان جيسے کيسے بھی ہيں ميرے دل ميں اُن کيلئے بہت عزت ہے"۔ کيا يہی ہے آزادیءِ نسواں جس کا پرچار مغرب والے کرتے ہيں ؟ 

ہمارے ہم وطن "کوا دُم ميں مور کا پنکھ لگا کر لگا تھا مور بننے ۔ نہ تو مور بنا نہ کوّوں ميں واپس آ سکا" کی مثال بن رہے ہيں ۔ ہمارا مسئلہ آزادیءِ نسواں نہيں بلکہ عورت کا جو احترام اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مردوں پر واجب کيا ہے اُسے بحال کرنا ہمارا اصل مسئلہ اور ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ نہ تو اللہ نے عورت کو قيد کرنے کا حُکم ديا ہے اور نہ آوارہ گردی کی اجازت ۔ 

حقيقت يہ ہے کہ آزادیءِ نسواں کا نعرہ مردوں نے روشناس کروايا اور عورتوں کو ماں بہن بيوی اور بيٹی کے پاکيزہ اور مقدّس مقام سے دھکيل کر جِنسِ نمائش اور مردوں کی خواہشات کی کٹھ پُتلی بنا ديا ۔  اصل ميں تو  يہ آزاریءِ نسواں کی بجائے مرد کو کھُلی چھُٹی ہے ۔ اے مُسلماں ۔ کھول آنکھ کہ زمانہ چال قيامت کی چل گيا ۔

    * 

میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

  Hypocrisy Thy Name – –  http://iabhopal.wordpress.com  – – یہ منافقت نہیں ہے کیا

کانٹا يا کنويں کا کُتا

خاور صاحب نے ايک تُمہيد کے بعد يہ سوال پوچھا ہے ۔ ” اس بيمارى كو پيدا كرنے والاكانٹا كہاں چُبھا ہے يا كتّا كہاں سے نكالنا چاہيئے ـ آپ سب مجھے بتائيں ـ سوال يہ ہے كہ ان رسوم كی پيدائش كی وجہ كيا ہے؟ ميرا يہ سوال خاص طور پر ہے اجمل صاحب ۔ ميرا پاكستان والے افضل صاحب ۔ جناب شيخو صاحب ۔ اپنا ڈيره والے منير احمد طاہرصاحب ۔ كيفے حقيقت والے ضياء صاحب سے”

منير احمد طاہر صاحب اظہارِخيال کر چکے ہيں ۔ ٹھيک ہی کہتے ہيں کہ ہمارے ملک ميں ہر چيز ہی اُلٹ ہے ۔

يہ ٹھيک ہے کہ مسئلہ بہت گھمبير ہو چکا ہے بلکہ دن بدن گھمبير تر ہوتا جا رہا ہے ۔ شيخ سعدی صاحب نے چھوٹی چھوٹی مگر بڑی فلسفيانہ کہانياں لکھی ہيں ۔ “ايک صبح ايک آدمی حکيم کے پاس جا کر پيٹ درد کی شکائت کرتا ہے ۔ حکيم پوچھتا ہے کہ رات کو کيا کھايا تھا ؟ مريض کہتا ہے کہ جلی ہوئی روٹی ۔ حکيم اپنے نائب سے کہتا ہے آنکھوں کا دارو لاؤ ميں اس کی آنکھوں ميں ڈالوں تا کہ يہ ديکھ کر روٹی کھايا کرے”۔

ايک اور چيز ہے کہ درخت کے پتے بيمار ہو جاتے ہيں تو اپنے لوگ پتوں پر ولائتی دوائياں چھڑکنا شروع کر ديتے ہيں يہ کوئی نہيں سوچتا کہ کيڑا درخت کے تنے ميں لگا ہے يا جڑوں کو ديمک چاٹ رہی ہے اور يہ کہ ديسی درخت ہے تو علاج بھی ديسی طريقہ سے ہو سکتا ہے ۔ ہماری قوم کی تمام بيمارياں غيرمُلکی جراثيم کا نتيجہ ہيں ۔ ديسی حکيم چاہے حکيم سعيد ہو ۔ ڈاکٹر غلام مرتضٰے ملک ہو يا ڈاکٹر عبدالقدير خان يا اُنہيں مار کے دفن کر ديتے ہيں يا زندہ درگور کر ديتے ہيں ۔

آپ کہيں گے کہ اِدھر اُدھر کی ہانک رہا ہے بتاتا نہيں کانٹا يا کُتا کہاں ہے ؟ غير مُلکی حکمرانوں کے مُلک چھوڑ دينے کے باوجود ان کی وضع کردہ لادينی تعليم يافتہ مسلمانوں کی اکثريت کو اپنے دين سے بيگانہ کر ديا تھا ۔ جس کے زيرِاثر وہ سمجھنے لگے تھے کہ اسلام موجودہ زمانہ کی ترقی کا ساتھ نہيں دے سکتا ۔ اسلئے وہ تغيّرپضير زمانہ کو اس کی خاميوں اور خرابيوں کے ساتھ قبول کرتے گئے ۔ تحريکِ پاکستان کی بُنياد بلاشُبہ اسلام تھا جس کا عينی گواہ ميں خود بھی ہوں ۔ بدقسمتی سے جو بحث پاکستان بننے کے اعلان کے بعد انہيں تعليم يافتہ ميں سے کچھ نے شروع کی تھی آج بھی جاری ہے کہ کيا پاکستان ايک سيکولر سٹيٹ ہونا چاہيئے تھی يا پھر اسے ہندوستان ميں بسنے والے مسلمانوں کيلئے عليحدہ مملکت ہونا چاہيئے ۔ يہ ايک بڑی غلطی ہے جس کا خميازہ قوم بھُگت رہی ہے ۔

چنانچہ يہ کانٹا غلام محمد اور اُس کے بابو ساتھيوں نے 1953 عيسوی میں چبھويا تھا ۔ اس کے بعدجس نے کانٹا نکالنے کے نام پر جراحی کی وہ تھوڑی سی روئی يا پٹی کا ٹکڑا يا جراحی کا اوزار اندر چھوڑ گيا ۔ آج کا نحيف مريض جب نوجوان اور توانا تھا کافی عرصہ تکليف برداش کر گيا ۔ رفتہ رفتہ زخم ميں پڑی پيپ کا زہر سارے جسم پر اثرانداز ہوا تو جسم لاغر ہوتا گيا اور تکليف بھی بڑھتی گئی ۔

دوسرے الفاظ ميں کُتا کنويں ميں پھينک ديا اور بعد ميں آنے والوں نے کُتے کو تو کنويں سے نہ نکلا البتہ پانی کے بوکے نکال نکال کر کنواں خشک کر ديا دوسرے مردہ کُتے کی سڑاند نے کنويں کو گندا بنا ديا ۔ جنابِ والا ۔ يہ مريض يا کنواں پاکستان ہے اور کاٹنا جو چبھويا گيا يا کتا جو گہرے کنوئيں ميں پھينکا گيا وہ اسے دينی اور دُنيوی عِلم سے دور کرنے کا عمل ۔

ہمارے ملک ميں تعليم کے ساتھ جو کچھ آدھی صدی سے ہوتا چلا آ رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ 1972 عيسوی تک تو صرف اتنا تھا کہ تعليم کی طرف توجہ نہ دی گئی مگر جو تھا وہ چلتا رہا ۔ گو دينی تعليم نہ ہونے کے برابر تھی ۔ 1972 تعليمی ادارے قوميا کر اعلٰی معيار قائم کرنے کے بہانے ان کا جو حشر کيا گيا وہ کسی دوشيزہ سے بدکاری کرنے سے کم نہ تھا ۔ اُس کے بعد دو معيار کے تعليمی ادارے بنانے کی حوصلہ افزائی کی گئی جو آج تک جاری ہے ۔ اس کا مقصد قوم کو دو طبقوں ميں تقسيم کرنا تھا ۔ حاکم اور محکوم ۔ سو يہ مقصد بڑے کرّوفر کے ساتھ حاصل کيا جا چکا ہے ۔

يہ کانٹا چبھونے کے بعد جراحی يہ ہوتی رہی کہ ايسے قانون اور اصول وضح کئے گئے جس کے نتيجہ ميں امير امير تر ہوئے اور متوسط طبقہ غريب ہوتا گيا اور اب معمولی استثنٰی کے ساتھ دو طبقے تقريباً بن گئے ہيں ۔ ايک بہت امير اور دوسرا غريب ۔ مگر اوّلالذکر طبقہ کی نقل ميں کچھ متوسط طبقہ نے اپنے لوازمات اپنی اوقات سے کہيں زيادہ بڑھا لئے ہيں جو اُنہيں بھی لوٹ مار پر اُکساتے رہتے ہيں ۔ علم سے بے بہرہ اور دين سے بيگانہ ہو کر اچھی زندگی گذارنے کے بہانے لوگ اپنے ہی بھائيوں کا گلا کاٹنے اور لوٹ مار ميں لگ چکے ہيں ۔ پہلے ہماری عِلمی حقيقتوں سے عاری اور فلمی دنيا ميں گُم رہنے والی قوم بے خيالی ميں ہندوانہ رسوم اپنائے جا رہی تھی اور ہمارے ملک کی آزاد خيال اين جی اوز اس سلسہ ميں اُن کی حوصلہ افزائی کرتی رہتی تھيں ۔ اب موجودہ حکومت کی روشن خيالی نے وارے نيارے کر ديئے ہيں ۔ روشن خيالی کے نرغے ميں آئے ہوئے لوگ نہ صرف ہندوانہ اور مغربی رسوم اپنانا قابلِ فخر سمجھنے لگ گئے ہيں بلکہ رشوت اور لوٹ مار کو حق اور دھوکہ دہی و دوسری خرافات کو ہوشياری کا نام دے ديا ہے اور عُريانی اور جنسی اظہار کو ترقی کی نشانی قرار دے ديا ہے ۔

مثل مشہور ہے کہ آئينے ميں اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے اسلئے ہمارے حکمران جو عُلم کو اپنا غلام اور دِين کو اجنبی سمجھتے ہيں کو قوم کے مال پر عياشياں کرتے ہوئے سب عوام خوشحال نظر آتے ہيں ۔ جہاں تک قوم کا تعلق ہے کچھ کو لوٹ مار سے فرصت نہيں ۔ کچھ امير بننے کی دوڑ ميں سرگرداں ہيں اور کچھ ايک وقت کی روٹی مِل جانے کے بعد اپنے بچوں کے لئے دوسرے وقت کی روٹی کيلئے اتنے پريشان ہيں کہ گردوپيش کا ہوش نہيں ۔ نتيجہ ظاہر ہے کہ کوئی تحريک ظُلم اور اجاراداری کے خلاف نہيں اُٹھتی ۔

کانٹے يا کنويں کے کُتے کی نشاندہی ميں نے کر دی ہے ۔ کانٹا يا کُتا نکالا کيسے جائے ؟ يہ ايک تفصيلی موضوع ہے انشاءاللہ آئيندہ ۔

ارونا حقائق سے پردہ اُٹھاتی ہے

پہلے خبر ۔  

جمعہ 21 اپريل کو سندھ ہائی کورٹ کے حيدرآباد سرکٹ بنچ نے ازخود مواخذہ کرتے ہوئے ارونا اور اسکے خاوند معظّم کے خلاف سول جج حيدرآباد کا ديا ہوا پوليس ريمانڈ معطل کرديا  ۔ ہائی کورٹ کا حکم بذريعہ ٹيليفون اور فيکس فيصلہ کے ايک گھينٹے کے اندر تمام متعلقہ آفيسران اور محکموں کو پہنچا ديا گيا ۔ مزيد جوڈيشيل مجسٹريٹ اوکاڑہ نے ارونا اور معظّم کے خلاف تمام کيس ختم کر کے اُن کی رہائی کا حُکم دے ديا ۔ اور وہ دونوں پوليس کی حفاظت ميں حيدرآباد کيلئے روانہ ہوگئے ۔ ارونا نے جوڈيشيل مجسٹريٹ اوکاڑہ کو بتايا کہ دو صوبائی وزيروں نے اُس کے خلاف اُسکے والدين کی اعانت کی ۔ 

واقعہ ۔

 ايک ريٹائرڈ جج عطا محمد کی چوبيس سالہ بيٹی ارونا حيدرآباد کے ايک پرائيوٹ ميڈيکل کالج کی طالبہ تھی اُس نے اگست 2005 ميں پی ٹی سی ايل کے سافٹ ويئر انجنيئر معظّم سے شادی کر لی اور کچھ دن بعد اپنے والدين کو اس سے مطلع کيا ۔ ارونا کی والدہ اپنی نند يا بہن کے ساتھ فوراً حيدرآباد پہنچ گئیں اور ارونا کو حيدرآباد ميں ايک قريبی عزيز فرحان کے ہاں لے گئیں جہاں ارونا نے ساری تفصيلات بيان کيں ۔ ميزبانوں نے مشروب پيش کيا جسے پی کر ارونا بيہوش ہو گئی ۔ جب اُس کی آنکھ کھُلی تو وہ سکھر ميں تھی ۔ پھر اُسے ساہيوال ليجايا گيا جہاں اُسے اپنے خاوند معظم سے عليحدگی پر مجبور کيا گيا اور تين دن تک مارا پيٹا گيا مگر وہ نہ مانی ۔ پھر اُسے اسلام آباد لے گئے جہاں چار ماہ تک اُس پر يہی دباء ڈالا جاتا رہا ۔ ايک دن وہ کسی طرح بس اڈا پير ودھائی پہنچنے ميں کامياب ہو گئی جہاں سے وہ بس میں سوار ہو کر ملتان پہنچی اور دوسرے دن ميں حيدرآباد معظّم کے پاس پہنچ گئی ۔  

ارونا کے والد نے حدود قوانين کے تحت رينالہ خورد پوليس سٹيشن ميں کيس رجسٹر کرا ديا کہ "ميں اپنی والدہ کے گاؤں رينالہ خورد جا رہا تھا کہ معظم ۔ اُسکا بھائی جنيد ۔ شاہد اور اُنکے دو ساتھيوں نے ميری بيٹی ارونا کو اغواء کر ليا" ۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد اوکاڑہ پوليس 19 اپريل کو حيدرآباد پہنچی ۔ اُنہيں گرفتار کر کے سول جج حيدرآباد سے اُنہيں جيل بھيجنے کي درخواست کی ۔ سول جج حيدرآباد نے ريمانڈ دے ديا ۔ چنانچہ وہ اُنہيں اپنے ساتھ لے گئے ۔ ارونا کے والد کے وکيل نے عدالت ميں بيان کيا کہ ارونا نے سول جج کی عدالت ميں خُلا کی درخواست دی ہوئی تھی اور خُلا کا فيصلہ ہو چکا ہے مگر ارونا نے اس کی ترديد کی ۔

بد قسمتی سے ہمارے مُلک ميں کچھ ايسے لوگ ہيں جو ہر خبر کو اپنی مقصد براری کيلئے استعمال کرتے ہيں اوراسکے لئے خبر کو توڑ مروڑ کر پيش کرنے کے بھی ماہر ہيں ۔ ميری ايسے حضرات سے درخواست ہے کہ صرف اتنا ياد رکھنے کی کوشش کريں کہ اللہ سب ديکھ رہا ہے اور سب جانتا ہے ۔ اللہ ظاہر تو کيا دِلوں کے بھيد بھی جانتا ہے ۔  

" اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ "  سُورة 2 الْبَقَرَة آيت  42    

اللہ ہميں نيک عمل کی توفيق عطا فرمائے آمين ۔   وَمَا عَلَينَا اِلَّالّبلاغ ۔

نشتر پارک کراچی کا سانحہ

 گمان غالب ہے کہ 12  ربیع الاوّل 1427 کو نشتر پارک میں ہونے والا سانحہ ہر لحاظ سے پہلا سانحہ ہے ۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں آج تک میلاد النّبی صلّی اللہ علیہ و سلّم کے دن کبھی قتلِ عام نہیں ہوا اور اس سے بڑا ظُلم کیا ہو گا کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی عبادت میں مشغول لوگوں کا قتلِ عام ۔ اگر اُن میں گناہ گار بھی تھے تو اُس  وقت وہ اللہ کے دربار میں حاضر تھے ۔ اس سانحہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔ جس کسی نے بھی ظُلم کیا ہے وہ میرے خیال کے مطابق مُسلمان ہو ہی نہیں سکتا اور انتہائی درندہ صفت انسان ہے یا ہیں ۔ اللہ الرّحمٰن الرّحیم ہلاک ہونے والوں کی بخشش کرے اور اُن کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے ۔ آمین ۔

ماؤں پہ کیا گذری ہو گی جب اُنہوں نے اپنے خوشی خوشی رُخصت کئے ہوئے جگر گوشوں کی خون میں لت پت لاشیں دیکھی ہو ں گی ؟  بیویوں کے دِلوں پر کیسے کیسے خنجر چل گئے ہوں گے جب اُن کے سروں کے صاحب رضاکاروں نے لا کر اُن کے سامنے ڈھیر کر دیئے ہوں گے ؟  اُن نونہالوں کا کیا حال کیا ہوا ہو گا جن کی ننھی ننھی خواہشیں پوری کرنے والے ابّوُ  نہ اب اُن سے بات کریں گے نہ اُن کو کہیں نظر آئیں گے ؟  ایک ایک کی طرف خیال جاتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔

لیکن ہمارے ملک میں عجیب عجیب قسم کے لوگ بستے ہیں ۔ کم از کم 50 انسان مر گئے یعنی 50 گھر اُجڑ گئے اور سینکڑوں بچے یتیم ہو گئے ۔ بجائے مرنے والوں کے بیوی بچوں کی ڈھارس بندھانے کے اُلٹا اُن کے زخموں پر نمک چھِڑک رہے ہیں ۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سب دہشت گرد تھے ۔ اُن کے خیال میں گویا اچھا ہوا کہ مر گئے ۔ ایک اسے جماعتِ اسلامی اور جمیعت عُلمائے اسلام کا کام کہتے ہیں  ۔ سندھ کی حکومت نے تو حکومتِ پاکستان سے مطالبہ بھی کر دیا ہے کہ جماعتِ اسلامی دہشت گردوں کی جماعت ہے اسلئے اس پر فوراً پابندی عائد کی جائے ۔

مجھے   جماعتِ اسلامی یا جمیعت عُلمائے اسلام یا سنّی تحریک سے کوئی دلچسپی نہیں مگر انسانوں کی اس طرح ہلاکت اور وہ بھی ناکردہ گناہ پر انسانی ہمدردی کا تقاضہ کرتی ہے ۔  

اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَہِ رَجِعُون

آج صبح سے نشتر پارک کراچی میں اہلِ سنّت کا ایک بہت بڑا اجتماع نبی پاک صَلّی اللہُ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی شان اور اُن کی بتائے ہوئے راستے کے ذکرِ خَیر کے سلسہ میں ہو رہا تھا ۔ اپنے رسول سے محبت رکھنے والے ہزاروں مُسلمان اس میں شریک تھے کہ مغرب کی نماز کے دوران [تقریباً سوا سات بجے] ایک زوردار دھماکہ ہوا ۔ ابتدائی اطلاع کے مطابق 47 افراد جان بحق اور کم از کم 50 زخمی ہوئے ہیں ۔ حاجی محمد حنیف بلّو ہلاک ہو گئے ہیں ۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَہِ رَجِعُون ۔ مولانا قادری بھی زخمی ہوئے ہیں ۔ باقی ابھی معلوم نہیں ہو سکا ۔ دھماکہ سٹیج کے پاس ہوا ۔