Category Archives: معاشرہ

ہم کدھر جا رہے ہیں ؟

کچھ سالوں سے ایک مہم زوروں پر تھی کہ پاکستان کو لادینی [Secular] ریاست ہونا چاہئیے ۔ پھر ثبوت کے طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کی صرف ایک تقریر کو جواز بنانا شروع کیا گیا جس میں قائداعظم نے پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب کوئی ہندو ۔ سکھ ۔ عیسائی نہیں ۔ حقیقت میں یہ اسلامی ریاست کے اصول کی ترویج تھی ۔ پھر بغیر کسی ثبوت کے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان تو بنایا ہی لادینی ریاست کے طور پر تھا ۔ قائداعظم کی سب تقاریر اور لوگوں کی امنگوں کا اظہار گویا سب جھوٹ تھا ۔ یہ بحث چلتی رہی ۔ دین سے آزادی چاہنے والے اپنی ہر قسم کی اہلیت بروئے کار لاتے رہے ۔ ملکی ذرائع ابلاغ کی اکثریت میں بھی دین بیزار مضامین کی بھرمار رہی ۔ مگر اس تصوّر کو خاص ستائش پھر بھی نہ ملی ۔ پھر ان لوگوں نے مولویوں کی طرف منہ موڑا اور ان کی تضحیک و تمسخر میں انسانیت کی حدیں پھلانگ گئے ۔ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کی امریکہ غلامی کے زیرِ سایہ ہوتا رہا ۔

پھر فوج کشی مکمل ہونے کے بعد ابھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ سُلگ رہے تھے کہ وسط جولائی میں جیو ٹی وی پر ایک مباحثہ دکھایا گیا جس میں ایک علامہ نقوی صاحب تھے ۔ ایک بالکل بے ضرر قسم کے غالباً سُنّی مولوی تھے اور ایک جدید زمانہ کی خاتون ۔ سب سے پہلے علامہ نقوی صاحب کو موقع دیا گیا ۔ انہوں نے فرمایا کہ اسلام میں ریاست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اس میں تو صرف نبوّت کی بات کی گئی ہے اور یہ بھی کہا کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لے کر اب تک کوئی اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی ۔ شائد ان کا مسلک اس لحاظ سے ٹھیک ہو کہ وہ کسی خلیفہ کو مانتے ہی نہیں ۔ دوسرے مولوی صاحب نے قرآن شریف کی ایک آیت پڑھ کر کہا کہ صرف اسی سے ریاست کا تصور مل جاتا ہے لیکن ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ محترمہ کی تقریر شروع ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ قرآن میں واضح کیا گیا ہے کہ دین کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اسی لئے قرآن میں ریاست کے امور کا کوئی ذکر نہیں ۔ محترمہ نے یہ بھی کہا کہ صلح حدیبیہ کے مضمون کے شروع میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں لکھا گیا بلکہ وہ لکھا گیا جو انگریزی میں اَو گاڈ ہوتا ہے ۔ ان کے مطابق اس سے بھی ثابت ہوا کہ دین کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ محترمہ نے اپنی تُند و تیز آواز کا بھر پور فائدہ اُٹھایا اور کسی کو بولنے نہ دیا ۔

صلح حدیبیہ کے وقت اور حالات کا تدارک کیا جائے تو سمجھ میں آ جاتا ہے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی بجائے یا اللہ کیوں لکھا گیا لیکن محترمہ اتنی ترقی کر گئی تھیں کہ ان کو “یا اللہ” تو معلوم نہ تھا “او گاڈ” معلوم تھا ۔ بہرحال یہ اوائل اسلام کا واقعہ ہے اس وقت یا اللہ لکھنا بھی بڑی بات تھی کیونکہ مکہ کے کافر مسلمانوں کی کوئی بات ماننے کیلئے تیار نہ تھے ۔ باقی لگتا ہے کہ محترمہ نے قرآن شریف کبھی پڑھا ہی نہیں کیونکہ قرآن شریف میں سارے ریاستی امور کی حدود مقرر کی گئی ہیں جو میں انشاء اللہ پھر کبھی تحریر کروں گا [میں حدود آرڈیننس کی بات نہیں کر رہا ۔ حد کی کی جمع حدود کی بات کر رہا ہوں]

پی ٹی وی اور جیو ٹی وی پر چُن چُن کر ایسے لوگ بُلائے جاتے ہیں کہ دین اسلام کی تضحیک کی جا سکے یا اسے صیہونی رنگ میں پیش کیا جا سکے یا ثابت کیا جا سکے چودہ سو سال پرانا دین آج کے ترقی یافتہ دور میں نہیں چل سکتا ۔ یہ سب کچھ وہ لوگ کر رہے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ کسی نے شائد ان کے متعلق ہی کہا تھا “ہو دوست تم جسکے ۔ دشمن اسکا آسماں کیوں ہو”۔

جولائی ہی میں ایک فلم “خدا کیلئے” بہت زیادہ اشتہاربازی کے بعد ریلیز کی گئی ۔ خیال رہے کہ کوئی فلم حکومت کی منظوری کے بغیر ریلیز نہیں ہو سکتی ۔ سُنا گیا ہے کہ اس فلم میں ایک مسلم عالم دکھایا گیا ہے جس سے دو فقرے کہلوائے گئے ہیں ۔

ایک ۔ اسلام میں مسلم لڑکی کو عیسائی لڑکے سے شادی کی اجازت ہے
دوسرا ۔ اسلام میں موسیقی کی ممانعت نہیں

جہاں تک مسلم لڑکی کی غیر مسلم لڑکے سے شادی کا تعلق ہے تو اسکی سورةت ة 2 ۔ البقرہ ة ۔ آیت 221 میں صریح ممانعت کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ سورت 5 ۔ المآئد ہ  ۔ آیت  51 ۔ سورت ة نمبر 9 ۔ التوبہ ۔ آیات 84 اور 113 ۔ ان آیات میں یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست بنانے ۔ غیر مسلموں کا جنازہ پڑھنے اور خواہ وہ رشتہ دار ہوں ان کیلئے دعائے مغفرت کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ [آیات کا ترجمہ نیچے نقل کیا ہے]

جہاں تک موسیقی کا تعلق ہے تو ہر وہ چیز جو یادِ الٰہی سے غافل کر دے اس کی قرآن شریف میں ممانعت کی گئی ہے ۔ موسیقی کے علاوہ تاش کھیلنا اور دیگر کئی عمل بھی ایسے ہیں جو یادِ الٰہی سے غافل کرتے ہیں ۔ اس کے متعلق متعدد آیات ہیں ۔ عدنان صاحب جو کسی زمانہ میں موسیقی کے رَسیا تھے اور یہ فلم بنانے والے شعیب منصور کے مداح بھی انہوں نے اپنے روزنامچہ پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔

اب تک جو کچھ ہو چکا ہے اسے اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف ایک احساس اُبھرتا ہے کہ ہمارے ملک پر پرویز مشرف کی حکومت بھی نہیں بلکہ صیہونیوں اور انتہاء پسند عیسائیوں کی حکومت ہے ۔

سور ت 2 ۔ البقرہ  ۔ آیت 221
اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بیشک مسلمان لونڈی (آزاد) مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے، اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور یقیناً مشرک مرد سے مؤمن غلام بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے،

سورت نمبر ة 5 ۔ المآئدةہ ۔ آیت 51 ۔
اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست مت بناؤ یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ ان میں سے ہو گا، یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا

سورة ت نمبر 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 84
اور آپ کبھی بھی ان میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں ۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ نافرمان ہونے کی حالت میں ہی مر گئے

سورت ة نمبر 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 113
نبی اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ (مشرکین) اہلِ جہنم ہیں

ایوانِ صدر اور صحافیوں کا کردار

لال مسجد تنازع بظاہر تو اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے اور حکومت نے بہت سے ” محب وطن حلقوں “ کے پُرزور اصرار اور دباؤ پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف خونی آپریشن کرکے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اپنی ”رِٹ” قائم کر دی ہے لیکن اس سارے معاملے کو شروع سے آخر تک جس انداز سے ہینڈل کیاگیا اور اب اس آپریشن کے جو مابعد اثرات سامنے آرہے ہیں، ان کے پیش نظر بحیثیت قوم بحرانوں اور مسائل سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت اور بالخصوص ہماری قیادت کی اہلیت کا سوال سب سے زیادہ توجہ اور غور وفکر کا مستحق ہے۔ جیساکہ سب جانتے ہیں لال مسجد کا تنازع اس سال جنوری میں سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آباد کی سات مساجد کو تجاوزات قرار دے کر منہدم کرنے اور دیگر بہت سی مساجد اور جامعہ حفصہ سمیت کئی مدارس کو انہدام کا نوٹس دیئے جانے پر شروع ہوا تھا، اگر یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ یہ تمام مساجد ومدارس واقعی سر کاری زمین پر قائم تھے اورغیر قانونی طور پر قائم کئے گئے تھے تو سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام آباد میں ان چند مساجد ومدارس کے علاوہ باقی تمام عمارات سو فیصد قانونی طور پر قائم تھیں؟ اورکیا وفاقی دارالحکومت میں لینڈ مافیا کا صفایا کردیاگیا تھا کہ اب صرف مساجد و مدارس سے قبضہ واگزار کروانا باقی رہ گیا تھا؟ اگر اس کاجواب نفی میں ہے اور اخباری ریکارڈ کے مطابق یقینا نفی میں ہے تو پھر ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کو گوناگوں داخلی چیلنجوں کا سامنا تھا، صرف مساجد و مدارس کے خلاف کارروائی کس کے کہنے پر کن مقاصد کیلئے کی گئی تھی؟ اس سوال کا جواب سب سے پہلے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

جس انداز سے اس کارروائی کے بعد ملک میں علماء اور دینی مدارس کا میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا اور اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات اور معاہدوں کو بار بارسبوتاژ کرکے علماء ، دینی طبقوں اور بالخصوص لال مسجد انتظامیہ کو اشتعال دلانے اور انتہائی اقدامات پر مجبور کرنے کی کو ششیں کی گئیں وہ کوئی راز کی بات نہیں ہے بلکہ ان مذاکرات میں شریک اعلیٰ حکومتی شخصیت چوہدری شجاعت حسین نے خود تسلیم کیا تھا کہ نادیدہ قوت نے لال مسجد انتظامیہ کے ساتھ مساجد کے معاملے میں طے پانے والے معاہدے کو سبوتاژ کردیا، لال مسجد انتظامیہ کے بعض اقدامات سے تمام قومی حلقوں اورخود علماء نے شدید اختلاف کیا لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ مولانا برادران نے کسی بھی مرحلے پر مذاکرات اور گفت وشنید سے انکا ر نہیں کیا، جبکہ حکومت نے 3 جولائی کو آپریشن کے آغاز پر ہی اعلان کردیا تھا کہ اب لال مسجد انتظامیہ سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، یہ اعلان لال مسجد کے اندر موجود افراد کی کئی دنوں تک کی زبردست مزاحمت اور بعض سنجیدہ رہنماؤں کی مداخلت پر واپس لے لیاگیا اور 9 جولائی کو علماء اور چوہدری شجاعت حسین کی کوششوں سے دوبارہ لال مسجد انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا اور کئی گھنٹوں تک گفت وشنید کے بعد بالآخر تینوں فریقوں کی رضامندی سے معاہدے کا ایک ڈرافٹ تیارکرلیا گیا لیکن مذاکرات میں شامل علماء کے مطابق جب ڈرافٹ پر دستخط کرنے کا مرحلہ آیا تو چوہدری شجاعت حسین اور ان کے رفقاء نے انکشاف کیا کہ ان کے پاس اس کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے اور یہ کہ اس کا فیصلہ ایوان صدر میں ہی ہوگا،

ایوان صدر میں اس ڈرافٹ میں یکطرفہ طور پر تبدیلیاں کی گئیں اور علماء کوتبدیل شدہ ڈرافٹ پر صرف ”ہاں یا نہ“ میں جواب دینے کا پیغام دیاگیا جو ظاہر ہے کہ علماء کیلئے ناقابل قبول تھا۔”جنگ “کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق علامہ غازی بعد میں ایوان صدر کے منظور شدہ ڈرافٹ پر بھی راضی ہوگئے تھے لیکن حکو مت نے آپریشن روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اس کا اس کے سوا اور کیا مطلب لیاجاسکتا ہے کہ حکومت نے نامعلوم مصلحتوں کی بنا پر ہر حال میں آپریشن کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا اور مذاکرات کو محض ایک اسٹریٹجی کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔

حکومت کا یہ طرز عمل اپنی جگہ ، اس کے ساتھ ساتھ بعض مخصوصہ ذہنیت کے حامل سیاستدانوں، دانشوروں اور کالم نگاروں نے اس سارے معاملے کو خرابی تک لے جانے میں جو کردار ادا کیا وہ بھی کچھ کم افسوسناک نہیں ہے، بعض کالم نگاروں کو لال مسجد تنازع کی شکل میں علماء ، دینی مدارس اور مذہبی طبقے کے خلاف اپنے بغض کے اظہار کا گویا ایک اچھا موقع ہاتھ آگیا تھا اور انہوں نے یہ موقع ایسے وقت میں بھی ضائع نہیں ہونے دیا جب پوری قوم لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے اندر موجود ہزاروں بچوں اور بچیوں کی زندگی کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا تھی ، ایسے وقت میں دونوں فریقوں کو فہم وتدبر اور صبروتحمل کی تلقین کرنے کی بجائے ملک کے بعض نامی گرامی دانشوروں اور کالم نگاروں نے حکومت کو فوری آپریشن کرنے، ” دہشت گردوں“ کو ”کچل دینے“ کے مشورے دیے اورمولانا عبدالعزیز کی برقع میں گرفتاری کے [ڈرامہ کے] بعد علماء اوردینی مدارس کے خلاف ایسی زبان استعمال کی گئی جس نے لال مسجد انتظامیہ کی مخالف دینی قوتوں کو بھی ان کی حمایت کرنے اور خود علامہ غازی اور ان کے ساتھیوں کو آخر دم تک مزاحمت کرنے پر مجبور کردیا۔

مولانا برادران پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے سرکاری زمین پر اپنا ایک ذاتی”قلعہ“ بنایا ہوا ہے جہاں انہیں تمام سہولتیں حاصل ہیں، آپریشن کے اختتام پر صحافی خاص طور پر اس ”قلعے“ کو دیکھنے کیلئے اندر گئے اور یہ رپورٹ دی کہ دس ہزار کے قریب طلبا وطالبات کو مفت تعلیم ، رہائش اور طعام فراہم کرنے والے مولانا برادران کے تین تین کمروں پر مشتمل سادہ سے مکانات کے کسی کمرے میں ایئر کنڈیشنر تو درکنار ائیر کولر اور صوفہ سیٹ تک نہیں تھے، بھاری اسلحے اور” غیر ملکی دہشت گردوں کی موجودگی کے الزامات بھی محض افسانہ تھے، اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے بعض دانشور قومی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے کس قسم کے تحقیقی معیار کا ثبوت دیتے ہیں۔ لال مسجد تنازع کے دوران مذکورہ حلقوں کی جانب سے ”حکومتی رٹ“ کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا اور لال مسجد انتظامیہ کو حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے پر گردن زدنے کے لائق قرار دیا گیا ۔ اصولی طور پر اس موقف کے درست ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے لیکن اگر ماضی قریب میں خود انہی حلقوں کے طرز عمل پر غور کیا جائے تو کم از کم ان کی جانب سے یہ موقف بڑا عجیب لگتا ہے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک سال قبل اکبر بگٹی مرحوم نے جب حکومت سے باقاعدہ طور پر بغاوت کرکے اور بھاری ہتھیاروں سے لیس لشکر تشکیل دے کر بلوچستان میں ایک جنگ شروع کردی تھی اور حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے وہاں کارروائیاں کر رہی تھی تو انہی دانشوروں اورسیاسی جماعتوں نے نہ صرف حکومت کی مخالفت کی تھی بلکہ حکومت کے خلاف اکبر بگٹی کی بغاوت کو ”حقوق“ کی جائز جدوجہد سے تعبیر کیاتھا، لال مسجد آپریشن کی سب سے بڑھ کر حمایت کرنے والی ایک حکومتی حلیف جماعت نے تو حکومتی رٹ قائم کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی آپریشن کی صورت میں حکومت سے الگ ہونے تک کی دھمکی دی تھی (جس پر اکبر بگٹی کی ہلاکت کے باوجود بھی عمل نہیں کیا گیا)۔ کیا بلوچستان میں حکومتی رٹ اہم نہیں تھی ؟ اس کاجواب ان حلقوں کے ذمے ہے۔ پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے دہرے معیارات سے نجات حاصل کرنے اور قومی معاملات پر تعصبات سے ہٹ کر متوازن سوچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریر ۔ مولوی محمد شفیع چترالی

زہر آلود چکا چوند

ایک ماہ سے زائد گذر گیا شعیب صفدر صاحب نے “دامن تر” کے عنوان سے ڈاکٹر شبیر احمد کا مضمون نقل کیا تھا ۔ میں نے اس پر اپنے مشاہدات لکھنے کا ان سے وعدہ کیا تھا ۔ پانچ ہفتے یوں گزر گئے کہ پہلے میں دس دن بیمار رہا ۔ پھر میرے پھوپھی زاد بھائی جو دودھیال میں میرے اکلوتے بھائی ہیں اور میرے بچپن سے دوست ہیں کو دل کا دورا پڑا اور اچانک آپریشن کرانا پڑا ۔

چاہے مرد ہو یا عورت شرم و حیاء بذاتِ خود ایک لباس ہے جب اسے اُتار دیا جائے تو پھر کسی چیز کی شرم نہیں رہتی اور انسان پھر انسان نہیں رہتا بلکہ جانور بن جاتا ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں انسانوں کو شہروں کے باغیچوں میں اور شہروں سے منسلک جنگلوں میں کھُلے عام جانوروں کی طرح جنسی ہوّس پوری کرتے دیکھا جا سکتا ہے ۔ بوس و کنار اور عورت مرد یا لڑکے لڑکی کا آپس میں چپکنا تو ہر جگہ دیکھنے میں آتا ہے ۔ سمندر کے کنارے چلے جائیں تو کئی عورتیں ۔ مرد ۔ لڑکیاں اور لڑکے بالکل ننگے نہا رہے ہوتے ہیں یا ریت پر لیٹے اپنی جلد کا رنگ گہرا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔ اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ یہ ان کی خصلت بن چکی ہے ۔ یہ وہ آزادی ہے جو حقوق کے نام پر حاصل کی گئی ہے لیکن جس نے انسان اور جانور میں فرق مٹا دیا ہے

ابھی تک امریکی حکومت نے پچھلے دو سال کے اعداد و شمار شائع نہیں کئے ۔ 2004 عیسوی میں امریکہ میں 15 لاکھ بچے کنواری یعنی غیر شادی شدہ ماؤں کے ہاں پیدا ہوئے ۔ یہ کل پیدا ہونے والے بچوں کا 35.7 فیصد بنتے ہیں ۔ خیال رہے کہ بہت سے مانع حمل نسخے کئی دہائیاں قبل ایجاد ہو چکے ہیں جو نہ ہوتے تو بغیر شادی کے ماں بننے والیوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہوتی ۔

امریکہ میں شادی شدہ جوڑوں کی تعداد 25 سال قبل 75 فیصد تھی جو کم ہو کر 56 فیصد رہ گئی ہے ۔ صرف ماں کے ساتھ رہنے والے بچوں کی تعداد 417 فیصد بڑھ گئی ہے اور اکیلے رہنے والے بچوں کی تعداد 1440 فیصد بڑھ کر 2 کروڑ 20 لاکھ ہو گئی ہے ۔ صرف 3 کروڑ 64 لاکھ بچے والدین کے ساتھ رہتے ہیں جو کہ کل بچوں کا 51 فیصد ہیں ۔

میرے انگریزی بلاگ [حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے] کی ایک 50 سالہ امریکی قاری لکھتی ہیں کہ اپنی جوانی کے تلخ تجربہ کے نتیجہ میں اس نے اپنی اکلوتی اولاد 18 سالہ بیٹی کی عفت کی حفاظت بہت زیادہ مشکلیں برداشت کر کے کی ۔ لکھتی ہیں کہ جب لڑکی 12 سال کی ہو گئی تو لڑکی کا دادا اسے اپنے پاس بلا کر کہتا رہتا “جاؤ کسی لڑکے کو دوست بناؤ اور زندگی کے مزے لوٹو”۔ لڑکی کا باپ کمپیوٹر پر عورتوں کی بے حیائی کی ننگی تصاویر بیٹی کمرے میں آ جائے تو بھی دیکھتا رہتا ہے ۔ مزید لکھتی ہیں کہ پورے شہر میں اسے اور اس کی بیٹی کو اُجڈ سمجھا جاتا ہے اور کوئی بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا ۔ اس کی بیٹی کے سکول میں ہر سال حکومت کی طرف سے کچھ لیکچرز کا انتظام ہوتا ہے جس میں جنسی ملاپ کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ اپنی سوسائٹی کے متعلق لکھتی ہیں کہ 14 سالہ لڑکیوں سے لے کر 60 سالہ عورتوں تک سب جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں اور وہ اپنی عیاشیوں کے قصے مزے لے لے کر سناتی ہیں ۔

یہ ہے اس معاشررے کی ایک چھوٹی سی جھلک جس معاشرے کو دُور سے دیکھتے ہوئے ہمارے لوگوں کے دل للچاتے ہیں ۔

پابندياں صرف مسلمانوں کيلئے

بدھ مت پر عمل کرنے والی خواتين اپنا جسم اور بال ڈھانپتی ہيں مگر ان کا يہ عمل اپنے عقيدہ سے خلوص کہا جاتا ہے ۔ ان کے سر ڈھانپنے کو کوئی عليحدگی کا مظہر قرار نہيں ديتا ۔

 

 

 

 

عيسائی راہبائيں [نَنّز] بھی اپنا جسم اور بال ڈھانپتی ہيں مگر ان کا بھی يہ عمل اپنے عقيدہ سے خلوص کہا جاتا ہے ۔ ان کے سر ڈھانپنے کو کوئی عليحدگی کا مظہر قرار نہيں ديتا ۔

 

 چونکہ مسلم خواتين اپنے دين کی پيروی کرتے ہوئے سر ڈھانپتی ہيں اسلئے مغربی ملکوں ميں ان کا سر ڈھانپنا ممنوع قرار ديا گيا ہے ۔ حال ہی ميں برطانيہ کے ايک وزير جيک سٹرا نے مسلم خواتين کے سر ڈھانپنے کو عليحدگی کا مظہر قرار ديا اور اُنہيں بے پردہ ہونے کی تلقين کی پھر اس کی تائيد کرتے ہوئے برطانيہ کے وزيرِاعظم ٹونی بليئر نے بھی اسے عليحدگی کا مظہر قرار ديا ۔

آخر کيوں مسلم خواتين کے جسم اچھی طرح ڈھانپنے کو بغاوت ۔ تنگدلی ۔ انتہاء پسندی ۔ جہالت ۔ جنسياتی وغيرہ سب کچھ کہا جاتا ہے ليکن حقيقت يعنی پيدا کرنے والے کی فرماں برداری ماننے سے انکار کيا جاتا ہے ؟

پھر دعوٰی ہے کہ مغربی دنيا والے کشادہ دل اور روشن خيال ہيں جبکہ ان کا قول و فعل انہيں منافق ثابت کرتا ہے ۔

بشکريہ : حجاب ہيپّوکريسی

مزید لوریاں

میں نے دو دن قبل کچھ لوریاں لکھی تھیں اب مجھے کچھ لوریاں موصول ہوئی ہیں جو پیشِ خدمت ہیں

ابو حلیمہ صاحب نے بھیجیں

عربی

حسبی ربّی جل اللہ
معافی قلبی غیر اللہ
نور محمّد صلی اللہ
حق لا الٰہ الا اللہ

ملایو

Nina bobo,
oh, nina bobo,
kalau tidak bobo,
digigit nyamuk.
Adik sayang,
adikku sayang
tidurlah tidur
dalam buaian.

ترجمہ
پیارے سے بچے سو جا
سو جا نہیں تو مچھر کاٹ لے گا
میرے پیارے بچے
میری جان سے پیارے بچے
سو جا سو جا۔

صبا سیّد صاحبہ نے بھیجی


سندھی 

امڑ ڈی دعا آؤن سندھڑی تان سِر ڈیان
غیر پھنجی انکھین سان
ھن دھرتی تی کین ڈسان
وڈو تھی دشمن سان وڑان
پھنجی سندھو دیش میں
سمڑ واری ڈی تہ لولی
کیھن امڑ مان سُمان
مھنجی سندھ، منھنجی جند
آھی سورن مہ ایان
سمڑ واری ڈی تہ لولی
کیھن امڑ مان سُمان

ترجمہ
ماں دعا کرو کہ میں سندھ پر اپنی جان دے دوں
اپنی آنکھوں سے اپنے وطن میں غیروں کی حکمرانی نہ دیکھوں
بڑا ہوکر دشمن سے جہاد کروں، اپنے وطن سندھ کے لیے
لیکن ابھی مجھے سونا ہے، مگر مجھے نیند نہیں آرہی
سونے والی لوری دو ماں تاکہ میں سو سکوں
کیونکہ میرا سندھ، میری جان بڑی مشکلوں میں ہے،
میں کیسے سو سکتا ہوں
اسلئے سونے والی لوری دو مان تاکہ میں سو سکوں

پاکستان بننے سے پہلے کی پنجابی لوری

اَلّڑ بَلّڑ باوے دا
باوا کنک لیاوے گا
بی بی بہہ کے چھَٹے گی
پریموں پونی کتے گی

ترجمہ
الڑ بلڑ مُنّے کا
مُنّا گندم لائے گا
مُنّے کی ماں بیٹھ صاف کرے گی
اس وقت ملازمہ روئی کاتے گی

ثقافت کا ایک اہم حصہ ۔ لوری

لوری ان الفاظ کو کہتے ہيں جو ماں اپنے ننھے بچے کو سلانے کيلئے کہتی ہے ۔ يہ الفاظ منظوم بھی ہو سکتے ہيں اور نثر ميں بھی ۔ مغربی دنيا ميں يہ رسم ختم ہونے کے ساتھ ماں بچے کا وہ خاص تعلق بھی ختم ہو گيا ہے جو مشرقی قوموں ميں ابھی باقی ہے گو مغرب پرستی کی زد ميں آ کر قليل ہوتا جا رہا ہے ۔ لورياں لسانی اور علاقائی اثر سے بدل جاتی ہيں ليکن مدعا سب کا ايک ہی ہوتا ہے ۔

تمام دنيا کے مسلمانوں کا ايک اُمت ہونا بالخصوص لوريوں پر اثر انداز ہوا اور الفاظ مختلف ہونے کے باوجود ان ميں دين اسلام کی جھلک نماياں ہوتی ہے ۔ ميرے چھوٹے بہن بھائیوں کو سُلانے کيلئے ميری محترمہ والدہ [اللہ انہيں جنت ميں جگہ دے] جو لورياں سناتی تھيں وہ جتنی مجھے یاد ہیں لکھ رہا ہوں ۔

پنجابی ميں لَوری

اللہ تُوں بَيلی وی تُوں
قادر تُوں کريم وی تُوں
دِتا ای تے پالِيں وی تُوں
اللہ اللہ کريا کرو
خالی دَم نہ بھَريا کرو
مدد تيری يا رسول
دِل وِچَوں غم ہٹاؤ حضور
اللہ ای اللہ ۔ اللہ ای اللہ ۔ اللہ ای اللہ

اُردو ميں لَوری

اللہ ہی اللہ کيا کرو
دُکھ نہ کسی کو ديا کرو
جو دنيا کا مالک ہے
ياد اُسی کو کيا کرو
اللہ ہی اللہ ۔ اللہ ہی اللہ ۔ اللہ ہی اللہ

عربی ميں لَوری

نامْ ھنا يا حَلْو يا اُوت اُوت
اَنا جِبلَک جَوزً کُوت کُوت
يا حبِيبی يا مُحَمد
صَلّ اللہُ علَيہِ وَ سَلّم
اللہ ۔ اللہ ۔ اللہ ۔ اللہ

ترجمہ ۔ نام ۔ سو جا ۔ ۔ حَلْو ۔ ميٹھا مگر بہت پيارے کيلئے استعمال ہوتا ہے يہ حَلو [Helv] بولا جاتا ہے حلُو [Huloo] نہيں اگر بچی ہو تو حَلوہ [Helva] جو ہم حلوہ [Hulva] کہتے ہيں وہ نہيں ۔ ۔ اُوت اُوت ۔ ننھے مُنے يا ننھی مُنی ۔ ۔ اَنا ۔ ميں ۔ ۔ جِبلَک ۔ تمہارے لئے لاؤں گی ۔ ۔ ۔جَوزً۔ جوڑا يہ لفظ زوجً ہے مگر جوز بولا جاتا ہے ۔ ۔ کُوت کُوت بطخ کے چوزے ۔ ۔ حبِيبی ۔ ميرے پيارے

مسلمان ؟

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ صدق اللہ العظیم ۔

[تیری ذات پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے ۔ بیشک تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے]

میں عالمِ دین نہیں اگر کچھ ہوں تو انجنیئر اور سائنسدان ہوں ۔ ساری عمر میں میں نے جو کچھ پڑھا ۔ دین کا جو علم میں نے حاصل کیا ہے اس کی بنیاد پر اپنا نظریا پیش کر رہا ہوں ۔ ہر وہ شخص جو شہادہ پڑھ لے وہ مسلمان کہلاتا ہے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی ۔ جس طرح ایک شخص ایم بی بی ایس یا ایم ڈی کی سند حاصل کر لے اور جو کچھ اُس نے پڑھا ہے اس کے مطابق عمل نہ کرے ۔ یا تو اس کی سند پر شک کیا جائے گا یا اسے نالائق کہا جائے گا ۔ اسی طرح شہادہ پڑھ لینے کے بعد شہادہ کا مقصد پورا کیا جائے تب ہی اسے مسلمان کہا جائے گا ۔

اول ۔ ایسا شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے یعنی اللہ کی پوری صفات پر یقین رکھتا ہے ۔ اللہ کے تمام احکام کی بجا آوری کی پوری کوشش کرتا ہے اور احکام کی بجا آوری میں اُسے اپنے مال و جان کے چلے جانے کی بھی پرواہ نہیں ۔ یہ شخص بہترین مسلمان ہے ۔

دوسرا ۔ ایسا شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے یعنی اللہ کی پوری صفات پر یقین رکھتا ہے موٹے موٹے ارکان کی پابندی کرتا ہے لیکن ہر بات میں اللہ کے حکم کے مطابق نہیں چل پاتا ۔ اس کی ایک زندہ مثال جو میں نے دیکھی یہ ہے کہ کوئی آٹھ سال قبل سیٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ایک آدمی کا باقی سارا خاندان کہیں گیا ہوا تھا اور وہ گھر پر اکیلا تھا ۔ وہ بہت پرہیزگار نہ تھا ۔ آدھی رات کو ڈاکو اس کے گھر میں گھس آئے اور اسے جگا کر مال متاع کی چابیاں حوالے کرنے کو کہا ۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ ڈاکوؤں کا سرغنہ اس پر پستول تان کر کھڑا ہو گیا اور باقی ڈاکو گھر سے قیمتی اشیاء اکٹھی کرنے لگے ۔ ڈاکو وقفہ وقفہ سے اس کے سر پر پستول کی نالی مار کر کہتا چابیاں کہاں ہیں ؟ مال کہاں ہے ؟ مگر وہ کچھ نہ بولا ۔ آخر ڈاکو نے کہا اب نہیں بتاؤ گے تو میں تمہیں جان سے مار دونگا ۔ وہ بولا جان اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر یہ وقت میری موت کا ہے تو چابیاں لے کر بھی تم مجھے مار دو گے اور اگر میں نے زندہ رہنا ہے تو تم مجھے نہیں مار سکتے ۔ اتنی دیر میں باقی ڈاکو سامان اکٹھا کر کے آ گئے ۔ سرغنہ نے انہیں سامان وہیں چھوڑنے کا اشارہ کیا اور ڈاکو بغیر کچھ لئے چلے گئے ۔ بس کئی دن وہ سر کی ٹکور کرتا رہا ۔ اس کو کہتے ہیں اللہ پر یقین اور اس کا تعلق براہِ راست دل و دماغ کے ساتھ ہے ۔

تیسرا ۔ ایسا شخص جو اسلام کے ارکان یعنی نماز ۔ روزہ ۔ زکات ۔ حج وغیرہ پورے کرتا ہے لیکن اللہ پر یقین اتنا کامل نہیں کہ اس کے سہارے سمندر یا آگ میں کود پڑے ۔ مگر اللہ اس کے رسولوں اور اسلام کے خلاف بات برداشت نہیں کرتا ۔

چوتھا ۔ ایسا شخص جو اسلام کے ارکان کی بھی پابندی نہیں کرتا لیکن دل و دماغ اسکے یہی کہتے ہیں کہ اسلام کے تمام اصول صحیح ہیں اور اسے پابندی کرنا چاہئیے اور وہ اللہ اس کے رسولوں اور اسلام کے خلاف بات برداشت نہیں کرتا ۔ یہ قسم ایمان کی انتہائی کمزوری سے متعلق ہے ۔

ایسا شخص جو اللہ یا اس کے رسول پر یقین نہیں رکھتا ۔ اسے تو سب جانتے ہیں کہ غیر مسلم ہے ۔

ایسا شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو ۔ کلمہ پڑھتا ہو اور دوسرے ارکان بھی بظاہر ادا کرتا ہو لیکن اللہ یا اس کے رسول یا دین اسلام کے احکام کی مخالفت کرتا ہو یا ان کو بُرا کہتا ہو یا ان کا مذاق اُڑاتا ہو یا اگر کوئی ان میں سے کسی کو بُرا کہے یا ان میں سے کسی کا مذاق اُڑائے اور وہ طاقت رکھتے ہوئے اس کا سدِباب نہ کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے دل سے بُرا نہ جانے اور ایسے لوگوں کو بُرا نہ جانے یا ایسے لوگوں سے قطع تعلق نہ کرے تو کیا اُسے مسلمان کہا جائے گا ؟