Category Archives: معاشرہ

خوش کیسے رہیں ؟

خوش رہنے کے لئے ضروری ہے کہ یا تو ہم ساری دنیا کو تبدیل کر دیں یا ہم اپنی سوچ بدل دیں

دنیا کو تو کوئی بدل نہیں سکتا اس لئے ہمیں اپنے آپ کو درست رکھتے ہوئے یہ توقع چھوڑ دینا چاہیئے

مختصر یہ کہ مسئلہ متنازعہ نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ حل کرنے کا رویّہ متنازعہ ہوتا ہے

خوشی کا تعیّن اس سے نہیں ہوتا کہ کسی کے ساتھ کیا ہوا بلکہ اِس سوچ سے ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ کیا ہوا

فَن اور فنکار ؟ ؟ ؟

وطنِ عزیز میں ہر طرف ہر جگہ فَن کا مظاہرہ نظر آتا ہے ۔ جسے دیکھو اپنے تئیں فنکار بنا پھرتا ہے ۔ صدر ہو ۔ وزیر ہو ۔ صحافی ہو یا مداری ایک سے ایک بڑھ کر فنکار ہے ۔ لیکن میں اُن چھوٹے چھوٹے لوگوں کی فن کاری کی بات کروں گا جن کا کوئی نام نہیں لیکن وہ اپنے فن پارے سے لمحہ بھر کیلئے بہت سے لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں ۔

اسلام آباد اور کوہ مری کے درمیان چھَرا پانی کے قریب ایک چھوٹی سی دُکان پر جلی حروف میں لکھا ہے ۔

شاہ جی انڈے شاپ

سڑکوں پر گومتی بسوں ۔ ویگنوں ۔ ٹرکوں پر بھی بہت سے فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہوتا ہے ۔ ان فنکاروں میں کبھی کبھی کوئی حقیقت پسند بھی نظر آ جاتا ہے ۔ ملاحظہ ہو ایک شعر ۔

ہر اِک موڑ پر ملتے ہیں ہمدرد مجھے
لگتا ہے میرے شہر میں اداکار بہت ہیں

ہمارے مُلک میں ادا کاروں کی واقعی بہتات ہے ۔ اور کیوں نہ ہو اس مُلک میں جس کا صدر سب سے بڑا اداکار ہے ۔

فن کا ایک اچھوتا مظاہرہ نتھیا گلی کے خُنکی آمیز پہاڑوں پر نظر آتا ہے ۔ نتھیا گلی کے بلند ترین حصے میں ایک ہوٹل کے باغیچہ میں داخل ہوتے ہی پھولوں کی کیاری کے قریب لکھا نظر آتا ہے

آپ کی خوشی اور تفریح طبع کی خاطر ہم نے اپنا بہت سا وقت ۔ محنت اور دولت لگا کر یہ پھُول اُگائے ہیں
آپ خیال رکھیئے اُن زائرین کا جنہوں نے یہاں آ کر ابھی یہ پھُول نہیں دیکھے

آگے بڑھیں تو باغیچہ کے دوسرے سرے پر پھولوں کی کیاریوں کے قریب یہ تحریر نظر آتی ہے

پھُول توڑنا منع ہے ۔ جس نے پھُول توڑا اُسے ایف بی آئی کے حوالہ کر دیا جائے گا تاکہ وہ اُسے دہشتگرد قرار دے کر سزا دے دے

:lol:

ڈراؤنی ماں ۔ ایک سبق آموز کہانی

یری ماں کی ایک آنکھ تھی اور وہ میرے سکول کے کیفیٹیریا میں خانسامہ [cook] تھی جس کی وجہ سے میں شرمندگی محسوس کرتا تھا سو اُس سے نفرت کرتا تھا ۔ میں پانچویں جماعت میں تھا کہ وہ میری کلاس میں میری خیریت دریافت کرنے آئی ۔ میں بہت تلملایاکہ اُس کو مجھے اس طرح شرمندہ کرنے کی جُراءت کیسے ہوئی ۔ اُس واقعہ کے بعد میں اُس کی طرف لاپرواہی برتتا رہا اور اُسے حقارت کی نظروں سے دیکھتا رہا ۔

گلے روز ایک ہم جماعت نے مجھ سے کہا “اوہ ۔ تمہاری ماں کی صرف ایک آنکھ ہے”۔ اُس وقت میرا جی چاہا کہ میں زمین کے نیچے دھنس جاؤں اور میں نے ماں سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ۔ میں نے جا کر ماں سے کہا “میں تمہارھ وجہ سے سکول میں مذاق بنا ہوں ۔ تم میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی ؟” لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا تھا ۔ میں ماں کے ردِ عمل کا احساس کئے بغیر شہر چھوڑ کر چلا گیا ۔

یں محنت کے ساتھ پڑھتا رہا ۔ مجھے کسی غیر مُلک میں تعلیم حاصل وظیفہ کیلئے وظیفہ مل گیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے اسی ملک میں ملازمت اختیار کی اور شادی کر کے رہنے لگا ۔ ایک دن میری ماں ہمیں ملنے آ گئی ۔ اُسے میری شادی اور باپ بننے کا علم نہ تھا ۔ وہ دروازے کے باہر کھڑی رہی اعر میرے بچے اس کا مذاق اُڑاتے رہے ۔

یں ماں پر چیخا ” تم نے یہاں آ کر میرے بچوں کو درانے کی جُراءت کیسے کی ؟” بڑی آہستگی سے اُس نے کہا “معافی چاہتی ہوں ۔ میں غلط جگہ پر آ گئی ہوں”۔ اور وہ چلی گئی ۔

ایک دن مُجھے اپنے بچپن کے شہر سے ایک مجلس میں شمولیت کا دعوت نامہ ملا جو میرے سکول میں پڑھے بچوں کی پرانی یادوں کے سلسلہ میں تھا ۔ میں نے اپنی بیوی سے جھوٹ بولا کہ میں دفتر کے کام سے جا رہا ہوں ۔ سکول میں اس مجلس کے بعد میرا جی چاہا کہ میں اُس مکان کو دیکھوں جہاں میں پیدا ہوا اور اپنا بچپن گذارہ ۔ مجھے ہمارے پرانے ہمسایہ نے بتا یا کہ میری ماں مر چکی ہے جس کا مُجھے کوئی افسوس نہ ہوا ۔ ہمسائے نے مجھے ایک بند لفافے میں خط دیا کہ وہ ماں نے میرے لئے دیا تھا ۔ میں بادلِ نخواستہ لفافہ کھول کر خط پڑھنے لگا ۔ لکھا تھا
“میرے پیارے بیٹے ۔ ساری زندگی تُو میرے خیالوں میں بسا رہا ۔ مُجھے افسوس ہے کہ جب تم مُلک سے باہر رہائش اختیار کر چکے تھے تو میں نے تمہارے بچوں کو ڈرا کر تمہیں بیزار کیا ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ تم اپنے سکول کی مجلس مین شمولیت کیلئے آؤ گے تو میرا دل باغ باغ ہو گیا ۔ مُشکل صرف یہ تھی کہ میں اپنی چارپائی سے اُٹھ نہ سکتی تھی کہ تمہیں جا کر دیکھوں ۔ پھر جب میں سوچتی ہوں کہ میں نے ہمیشہ تمہیں بیزار کیا تو میرا دل ٹُوٹ جاتا ہے ۔

کیا تم جانتے ہو کہ جب تم ابھی بہت چھوٹے تھے تو ایک حادثہ میں تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی ۔ دوسری ماؤں کی طرح میں بھی اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک آنکھ کے ساتھ پلتا بڑھتا اور ساتھی بچوں کے طعنے سُنتا نہ دیکھ سکتی تھی ۔ سو میں نے اپنی ایک آنکھ تمہیں دے دی ۔ جب جراحی کامیاب ہو گئی تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا کہ میرا بیٹا دونوں آنکھوں والا بن گیا اور وہ دنیا کو میری آنکھ سے دیکھے گا ۔

اتھاہ محبتوں کے ساتھ
تمہاری ماں”

سورت 17 ۔ الْإِسْرَاء / بَنِيْ إِسْرَآءِيْل ۔ آیات 23 و 24
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو
اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور [اﷲ کے حضور] عرض کرتے رہو ۔ اے میرے رب ۔ ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے [رحمت و شفقت سے] پالا تھا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی حدیث
والدین کو کوسنا سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک ہے ۔ صحیح البخاری 8 ۔ 4

ماموں مر جائیں

“اللہ کرے ماموں مر جائیں”
یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ دو کمسِن لڑکیوں کے ہیں جو اُنہوں نے اپنی کسی طلب کے نہ پورا ہونے کی بناء پر نہیں بلکہ پچھلے سال 3 اور 10 جولائی کے درمیان اپنی ماں سے دلی بد دعا کے طور پر کہے تھے ۔

پاکستان کی ہوائی فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر جو چکوال کے رہنے والے ہیں اور آجکل اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں سے میری جان پہچان ہے ۔ کئی ماہ بعد 3 جون 2008ء کو میری اُن سے ملاقات ہوئی ۔ اتفاق سے 2 جون کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام میرے مطابق میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جمشید گلزار کیانی کا انٹرویو نشر ہوا تھا ۔ اُس پر میرے دوست اظہارِ خیال کر رہے تھے کہ سانحہ جامعہ حفصہ لال مسجد اسلام آباد کا ذکر آ گیا ۔ مجھ سے پوچھنے لگے “آپ کا اس واقعہ کے متعلق کیا خیال ہے ؟” میں نے کہا کہ وہ ایک ظالمانہ فعل تھا جس میں 4 سال سے 17 سال عمر کی سینکڑوں یتیم اور لاوارث بچیاں فاسفورس بم پھینک کر زندہ جلا دی گئیں ۔ پھر اُنہوں نے سوال کیا “کیا اللہ ایسا کرنے والوں کو سزا نہیں دے گا ؟” میں نے کہا کہ اللہ کے ہاں کسی بہتری کی وجہ سے دیر تو ہو سکتی ہے لیکن اندھیر نہیں ۔

وہ کہنے لگے
“پچھلے سال ایک واقعہ چکوال ہمارے خاندان میں ہوا جس کی بنا پر مجھے یقین ہے کہ اللہ لال مسجد پر حملہ کا حُکم دینے والوں کو عبرتناک سزا دے گا ۔ میرا ایک عزیز ہے اُس کا برادرِ نسبتی [بیوی کا بھائی] فوج میں ہے اور وہ کھاریاں میں تعینات تھا ۔ جب لال مسجد کے خلاف کاروائی شروع ہوئی تو اُسے اس کاروائی میں حصہ لینے کیلئے اسلام آباد بھیج دیا گیا ۔ میرے عزیز کی دونوں کمسِن بیٹیاں 2 اور 10 جولائی 2007ء کے درمیان ہونے والی کاروائی ٹی وی پر دیکھ کر گولیاں اور گولے چلانے والے فوجیوں کو بد دعائیں دے رہی تھیں ۔ اُن کی ماں نے اُنہیں کہا کہ کچھ خیال کرو ۔ تمہارا ایک ہی ماموں ہے وہ بھی ان میں شامل ہے تو دونوں بچیوں نے دعا کیلئے ہاتھ اُٹھا کر کہا کہ اللہ کرے ماموں مر جائیں” ۔

سوال کا جواب ۔ دوسرا سوال اور ہماری باتیں

گلاس ایک خوبصورت اور لذیز پھل ہے جو جموں کشمیر ۔ شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں پایا جاتا ہے ۔ یہ کالے اور سُرخ رنگ میں ہوتا ہے ۔ کالا میٹھا ہوتا ہے اور سُرخ تُرش یا تُرشی مائل میٹھا ۔ اس پھل کو انگریزی میں چَیری [cherry] کہتے ہیں

دوسرا سوال یہ ہے کہ چکودرا کِسے کہتے ہیں ؟

ہموطنوں کی حالت یہ ہے کہ انگریزی سیکھتے سیکھتے اُردو سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور صحیح انگریزی بولنا یا لکھنا ابھی بھی ان سے بہت دُور ہے ۔ اکثریت کو اپنی زبان بھَونڈی لگتی ہے ۔ جو لفظ وہ اُردو میں بولنا بھونڈا سمجھتے ہیں اُس کا انگریزی ترجمہ فخریہ بولتے ہیں

ہماری قوم اتنی صُلح پسند ہے کہ تایا ۔ چچا ۔ پھُوپھا ۔ ماموں ۔ خالو سب کو ایک گھاٹ پانی پلا دیا ہے یعنی سب اَنکَل بنا دیئے ہیں ۔ اِن بزرگان کی خواتین کو آنٹی بنا کر خواتین میں بھی مساوات قائم کی گئی ہے ۔ یہی سلوک اِن اَنکلان یا آنٹیوں کی اولاد کے ساتھ کچھ بڑھ کر ہی برتا گیا ہے تاکہ ثابت ہو جائے کہ کم از کم نئی نسل میں عورت اور مرد سب برابر ہیں یعنی لڑکا ہو یا لڑکی سب کزن ۔ جس کِسی سے ان میں سے کسی کا تعارف کروایا جاتا ہے وہ بیچارہ یا بیچاری سوچتی ہی رہ جاتی ہے کہ موصوف دراصل ہیں کون ؟

مزید یہ کہ انگریزی زبان کو ترقی کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔ جیسے کسی نے کہا تھا کہ انگریزوں کی ترقی کے کیا کہنے ۔ اُن کا بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے ۔ جن شعبوں میں ترقی ہونا ضروری ہے وہاں تو قوم تنزّل کا شکار ہے لیکن ایک لحاظ سے کافی ترقی کر لی ہے ۔ ملاحظہ ہو بتدریج ترقی

بیت الخلاء اور غسلخانہ یا حمام کو پہلے ٹائیلٹ [toilet] کہنا شروع کیا پھر باتھ روم [bathroom] اور اب واش روم [wash room] کہا جاتا ہے ۔ مزید ترقی کی گنجائش ہے کیونکہ امریکہ میں بیت الخلاء کو ریسٹ روم [rest room] کہا جاتا ہے ۔ ہو سکتا ہے سارے دن کی تھکی امریکی قوم بیت الخلاء میں آرام محسوس کرتی ہو

ایک سوال

کبھی کبھی میرے بچپن اور جوانی کا چِلبلا پن لوٹ آتا ہے اور تحریک پیدا ہوتی ہے کہ میں کوئی اچھُوتا سوال پوچھوں ۔ آج بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں ۔

ہر اُردو جاننے والے سے یہ سوال ہے لیکن میرے بیٹوں اور بیٹیوں کو جواب لکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔

اُردو میں گلاس کس کو کہتے ہیں ؟

میں اُس گلاس کی بات نہیں کر رہا جو لفظ ہم نے انگریزی سے مستعار لے لیا اور پانی پینے والے ایک برتن کا نام کہا جاتا ہے ۔ ویسے انگریزی میں بھی پانی پینے والے برتن کا نام tumbler تھا ۔ جب شیشے سے اسے بنایا گیا تو نام گلاس ٹمبلر ہو گیا اور گھِس کر صرف گلاس رہ گیا ۔

اگر کوئی قاری جواب مخفی رکھنا چاہے تو وہ مجھے برقیہ [e-mail] کر دے ۔ میرے برقیہ کا پتہ یہ ہے
iabhopal@yahoo.com