Category Archives: معاشرہ

خُدا را آنکھیں کھولو

ایک گروپ کے اصرار پر میں نے لیکچر دینے کی حامی بھر لی۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ہال میں تقریباً 125 پڑھے لکھے حضرات ملک بھر سے موجود ہیں۔ کوئی پچاس منٹ کی گفتگو اور اتنے ہی وقت پر محیط سوال و جواب کے سیشن کے بعد باہر نکلا تو ایک گورے چٹے رنگ والا خوبرو نوجوان عقیدت مندی کے انداز میں میرے ساتھ چلنے لگا۔ اس نے نہایت مہذب الفاظ میں اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ

“میرا تعلق وزیرستان سے ہے ۔ میں آپ کو واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ میرے علاقے وزیرستان میں ہر شخص ایک انجانی موت کے خوف تلے زندگی گزار رہا ہے کیونکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ کسی لمحے بھی امریکی ڈرون کے میزائل یا طالبان یا دہشت گردوں یا پاکستانی فوج کی گولی اس کی زندگی کا چراغ بجھا دے گی۔ ہمارے ایک سروے کے مطابق وزیرستان کے 90 فیصد لوگ ذہنی مریض بن چکے ہیں، بے چارگی اور بے بسی نے ان سے زندہ رہنے کا احساس چھین لیا ہے، لوگ حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کیلئے رکا، اس نے نگاہیں جھکا لیں اور خوفزدگی کے عالم میں کہا سر! ہمارے لوگ اب پاکستان سے علیحدگی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو ملک اور اس کی حکومت ہمیں احساس تحفظ نہیں دے سکتی اس ملک کے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ؟”

اس کا یہ فقرہ سن کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا بلکہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں امریکی ڈرون کے میزائل کا نشانہ بن گیا ہوں۔ میں چلتے چلتے رک گیا۔

ڈاکٹر صفدر محمود کی تحریر سے اقتباس ۔ بشکریہ جنگ

داڑھی میں اسلام ہے یا اسلام میں داڑھی ؟

دورِ حاضر میں مسلمانوں کی نسبت زیادہ غیر مسلموں نے سمجھ لیا ہے کہ داڑھی والا مسلمان ہوتا ہے بلکہ کٹر مسلمان ۔ اول ۔ یہودی پیشوا جسے ربی [Rabby] کہتے ہیں پوری بڑی داڑھی رکھتے ہیں جیسے کہ افغانستان کے طالبان رکھتے ہیں لیکن داڑھی والے یہودی کو کوئی انتہاء پسند نہیں کہتا جبکہ مسلمان اُسی طرح کی داڑھی رکھے تو اُسے انتہاء پسند اور دہشتگرد تک کہا جاتا ہے ۔ داڑھی سکھ بھی رکھتے ہیں لیکن اُن کی داڑھی باقی لوگوں سے ذرا مختلف ہوتی ہے ۔ عیسائی ۔ ہندو اور دہریئے بھی داڑھی رکھتے ہیں مگر اُنہیں کوئی تِرچھی نظر سے نہیں دیکھتا ۔ بہرحال آمدن بمطلب

نہ تو اسلامی شریعت میں زبردستی داڑھی رکھوانے کا حُکم ہے اور داڑھی منڈوانے کا ۔ شریعت کے مطابق مسلمان اس لئے داڑھی رکھتا ہے کہ جس رسول سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت کا وہ پیروکار ہے اُن کی سنّت ہے لیکن صرف داڑھی رکھنا ہی سنّت نہیں بلکہ اور بھی بہت سی سنتیں ہیں ۔ اگر داڑھی تو سنّت سمجھ کر رکھ لی جائے اور فرائض پر توجہ نہ دی جائے تو کیا درست ہو گا ؟

شریعت لوگوں کی جان و مال اور آبرو کے تحفظ کا نام ہے ۔ جو کچھ کسی نے کرنا ہے وہ خود کرنا ہے اور اپنی بہتری کیلئے کرنا ہے ۔ اتنا ضرور ہے کہ اس کے عمل سے کسی پر ناگوار اثر نہ پرے ۔ بلاشُبہ اسلام سے محبت کرنے والے ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں داڑھیوں میں اپنے صالح آباؤ واجداد کی شکلیں نظر آتی ہیں اور جو حتی المقدور شعائر اسلامی کی پاسداری بھی کرتے ہیں ۔

ہر معاشرے میں نیک اور گناہگار موجود ہوتے ہیں ۔ مسلم معاشرہ میں بھی یہ دونوں طبقات موجود ہیں ۔ گناہ گاروں میں داڑھی والے بھی ہیں اور بغیر داڑھی والے بھی ۔ یہی صورتحال نیک اعمال کے حامل افراد کی بھی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ سب انسان برابر ہیں سوائے اس کے کہ کوئی تقوٰی میں بہتر ہو ۔ چنانچہ کسی کو داڑھی کے ہونے یا نہ ہونے سے نیکی یا برائی کی سند نہیں دی جا سکتی

طالبِ علم

الحمدللہ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک قاری محمد سعد صاحب سے ہفتہ عشرہ قبل کیا ہوا وعدہ پورا کرنے کی مجھے توفیق عطا کی ۔ بلا شُبہ انسان جو کچھ بھی ہے اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے ہے

طالب کا مطلب ہے طلب یا چاہت یا تمنا رکھنے والا ۔ طالب علم کا مقصد یا مدعا یا نصبُ العین تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ شومئیِ قسمت سمجھ لیجئے یا غلط تربیت کا اثر کہ دورِ حاضر کے اکثر طلباء و طالبات کا مقصد یا مدعا یا نصبُ العین اسناد حاصل کرنا معلوم ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز کے ان سند یافتہ جوانوں کو دساور میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پچھلے ساٹھ سال کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ شروع کی دو دہائیوں میں جو ہموطن اعلٰی تعلیم کیلئے دساور گئے وہ کم سے کم وقت میں اعلٰی معیار کی جامعات سے کامیاب اور کامران ہوئے حالانکہ اپنے یہاں ان طلباء و طالبات کے نمبر 60 اور 80 فیصد کے درمیان ہوتے تھے ۔ فی زمانہ حال یہ ہے کہ طلباء و طالبات اپنے یہاں تو 80 سے 95 فیصد نمبر حاصل کر تے ہیں لیکن دساور میں ان کی کامیابی کا تناسب بہت کم ہو گیا ہے

آج سے 27 سال قبل تک اساتذہ کی کوشش ہوتی تھی کہ اُن کے شاگرد ایسا علم حاصل کریں کہ جہاں بھی وہ جائیں کامیاب ہوں اور اُنہیں دیکھنے والا یا ملنے والا کہہ اُٹھے کہ یہ جوان تعلیم یافتہ ہیں ۔ والدین بھی اپنے بچوں کو اسی مقصد کیلئے درس گاہوں میں بھیجتے تھے کہ اُن کی اولاد پڑھنا لکھنا سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی بن جائیں ۔ لگ بھگ آدھی صدی قبل میری انجنیئرنگ کالج لاہور کی تعلیم کے دوران ایک شام میں پروفیسر عنایت علی قریشی صاحب [اللہ غریقِ رحمت کرے] کے گھر اپنے کسی کام کیلئے گیا تو وہاں ایک بزرگ اپنے بیٹے کے ساتھ موجود تھے ۔ اُن کا بیٹا انجنئرنگ کالج کا ہی طالب علم تھا ۔ وہ بزرگ پروفیسر صاحب سے کہہ رہے تھے “میں نے اسے انسان بننے کیلئے یہاں بھیجا تھا ۔ ایک سال میں اس نے انگریزی تو فرفر بولنا شروع کر دی ہے لیکن ابھی تک گدھے کا گدھا ہے ۔ میں اسے واپس نا لیجاؤں اور خود ہی اسے انسان بناؤں ؟”

شاگرد اور اُن کے والدین اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے اور اساتذہ کی اپنے شاگردوں کی تربیت میں دلچسپی کے نتیجہ میں طلباء اور طالبات کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ امتحان دینے والی پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ زندگی گزارنے کے اسلوب بھی سیکھیں ۔ کھیلوں میں حصہ لینا ۔ جسمانی ورزش کی تربیت ۔ بیت بازی اور علمی مباحثوں میں حصہ لینا عام سی بات تھی ۔ ہمیں سکول اور کالج میں آدابِ محفل بھی سکھائے جاتے تھے اور گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ہم نے عمارت میں لگی آگ بجھانے کا طریقہ ۔ ابتدائی طِبی امداد اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کے طریقے بھی عملی طور پر سیکھے تھے ۔ اس کے علاوہ طلباء و طالبات اپنے طور پر معلوماتِ عامہ کا علم حاصل کرتے اور اکثریت حکومت کے متعلقہ ادارے کے ترتیب دیئے ہوئے امتحانات میں بھی بیٹھتے ۔

آج کی صورتِ حال دیکھ کر پریشانی کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ متذکرہ فرق کا سبب معیارِ تعلیم کا انحطاط ہے جس کے ذمہ دار صرف اساتذہ ہی نہیں طلباء و طالبات اور اُن کے والدین بھی ہیں ۔ حکومت نے 1970ء کی دہائی میں بجائے اِسکے کہ اُس وقت کے مروجہ نظامِ تعلیم میں بہتری پیدا کرتی تقریباً تمام نجی تعلیمی ادارے قومیا لئے اور ان پر اپنے پسندیدہ لوگوں کو مسلط کیا جن کی اکثریت کے پاس اسناد تو تھیں لیکن اُنہیں تدریسی تجربہ نہ تھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے بہتری کے جو تعلیمی نظام چل رہا تھا وہ تنزل پذیر ہو گیا ۔

دورِ حاضر میں اساتذہ ۔ طلباء و طالبات اور اُن کے والدین سب کی صرف یہی کوشش ہوتی ہے کہ عِلم حاصل ہو نہ ہو کسی طرح تعلیمی سند حاصل کر لی جائے چاہے اس کے لئے رٹا لگایا جائے ۔ نقل ماری جائے یا ممتحن کی خدمت کی جائے یا اثر و رسوخ استعمال کیا جائے ۔ ہمارے زمانہ تعلیم میں بھی کبھی کبھی نقل مارنے کا انکشاف ہوتا رہتا تھا لیکن بہت کم تھا اور اس عمل کو بہت بُرا سمجھا جاتا تھا ۔ اب شاید نقل مارنے کو معیوب سمجھنے کی بجائے ہوشیاری سمجھا جانے لگا ہے کہ ہر کمرہ امتحان میں نقل مارنے والوں کا ذکر خیر ہوتا ہے مگر اس کے سدِباب کیلئے کوئی کوشش نظر نہیں آتی ۔ نقل مارنے کو انگریزی میں cheating کہا جاتا ہے اور دراصل نقل مارنا دھوکہ دہی ہی ہے ۔ نقل مارنے والا طالب علم صرف اپنے ممتحن ۔ اساتذہ اور طالب علم ساتھیوں کو ہی دھوکہ نہیں دیتا بلکہ اپنے والدین اور اپنے آپ کو بھی دھوکہ دے رہا ہو تا ہے ۔ [صحیح اُردو “نقل کرنا” ہے لیکن میں نے “نقل مارنا” اسلئے لکھا ہے کہ عام طور پر مستعمل یہی ہے]

نقل مارنا بڑا جُرم اور بڑا گناہ ہے بلکہ گناہوں کا مرکب ہے ۔ نقل مارنے والا بیک وقت چار جرائم یا گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اور چاروں میں سے ہر ایک گناہِ کبیرہ ہے ۔
ایک ۔ وہ جھوٹ بولتا ہے ۔ جو اُس کے علم میں نہیں نقل مار کر بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے ۔
دو ۔ امتحان کا پرچہ دیتے ہوئے اس پر اعتماد کیا جاتا ہے کہ وہ دیانتداری سے جوابات لکھے گا لیکن وہ نقل مار کر امانت میں خیانت کر رہا ہوتا ہے
تین ۔ وہ نقل مار کر سب کو اپنے لائق ہونے کی جھوٹی گواہی دے رہا ہوتا ہے یا دھوکہ دے رہا ہوتا ہے اور
چار ۔ وہ نقل مار کر اُن طلباء کے ساتھ بے انصافی کرتا ہے اور اُن کا حق مارتا ہے جو نقل نہیں مارتے ۔

ایسا گناہ جس کا اثر کسی اور انسان پر بھی پڑتا ہو جیسا کہ نقل مارنے سے بھی ہوتا ہے تو یہ حقوق العباد کی نفی ہے جس کے متعلق اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا فرمان ہے کہ جب تک متعلقہ انسان معاف نہیں کریں گے اللہ تعالٰی بھی معاف نہیں کریں گے ۔

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت ۔ 42 ۔ اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت ۔ 283 ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور اللہ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔اور شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔

سورت ۔ 4 ۔ النِسآ ۔ آیت ۔ 135 ۔ اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لئے سچی گواہی دو خواہ [اس میں] تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا ۔ اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا [شہادت سے] بچنا چاہو گے تو [جان رکھو] اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے

قانون اور ہموطن

یہ صد سالہ غلامی کا اثر ہے یا ہماری دین سے بیگانگی کہ ہموطنوں کی اکثریت میں ملک کے آئین و قوانین کی پاسداری کا فُقدان ہے ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ آئین و قانون کی مُخالفت پر فخر کیا جاتا ہے تو درست ہو گا ۔ میں دنیا کے کوئی درجن بھر ممالک میں گیا بلکہ رہا ہوں جن میں امریکہ ۔ برطانیہ ۔ افریقہ ۔ جزیرہ نما عرب اور یورپ کے متعدد ممالک شامل ہیں مگر یہ صفت وطنِ عزیز کے علاوہ کسی اور ملک میں نہیں دیکھی ۔ کمال تو یہ ہے کہ وہ ہموطن جواپنے عمل سے وطنِ عزیز میں آئین و قانون کی کھُلی مخالفت کرتے ہیں دساور کے ان ممالک میں وہاں کے آئین و قانون کی پاسداری کی پوری کوشش کرتے ہیں

ہموطنوں میں اس رویّہ کی بڑی وجہ حُکمرانوں کے آئین اور قانون کے ماوراء اقدامات اور آئین و قانون کی کھُلے عام خلاف ورزی ہے ۔ حُکمرانوں یعنی صدر ۔ وزیرِ اعظم ۔ گورنروں ۔ وُزرائے اعلٰی ۔ چیئرمین سینٹ ۔ اسمبلیوں کے سپیکر ۔ وفاقی اور صوبائی وزراء ۔ سنیٹروں اور اسمبلیوں کے ارکان پر صرف آئینی و قانونی ہی نہیں اخلاقی پابندیاں بھی ہوتی ہیں ۔ اُنہیں ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف قومی اور عوامی مفاد میں کام کرنا ہوتا ہے اور عوام کے سامنے اپنے کردار کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے ۔ اپنے دفاتر اور رہائش گاہوں کے اندر بھی وہ ان قوانین اور اقدار کے پابند ہوتے ہیں ۔

سنیٹر اور ارکان اسمبلی تو سیاسی ہوتے ہیں اور اپنی اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں مگر اُن پر آئین کے مطابق دوسری جماعتوں کی آئینی و قانونی رائے کا احترام واجب ہوتا ہے ۔ صدر ۔ وزیرِ اعظم ۔چیئرمین سینٹ اور قومی اسمبلی کے سپیکر کو سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہی منتخب کرتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد یہ پورے مُلک کیلئے ہوتے ہیں اور اُنہیں جماعتی سیاست سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہوتا ہے ۔ یہی صورتِ حال اپنے اپنے صوبے کے لحاظ سے صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر اور وزرائے اعلٰی کی ہوتی ہے ۔

صوبائی گورنروں کو صدر نامزد کرتا ہے اسلئے وہ ذاتی لحاظ سے کچھ بھی ہوں حکومتی ذمہ داری کے لحاظ سے وہ کسی جماعت یا گروہ کے نہیں پورے صوبے کے نمائندہ ہوتے ہے ۔ چنانچہ آئین کے مطابق انہیں کسی مخصوص جماعت یا گروہ کی کسی ایسی حمائت کی اجازت نہیں ہوتی جس سے دوسری کسی جماعت یا گروہ کو نقصان پہنچتا ہو یا اُسکی دل آزاری ہوتی ہو ۔ گورنر اپنی تقرری پر حلف اُٹھاتا ہے کہ
وہ اپنی تمام ذمہ داریاں اور کام دیانتداری سے آئین و قانون کے مطابق کرے گا
وہ نظریہ اسلام کی پوری کوشش سے حفاظت کرے گا
وہ اپنی ذاتی دلچسپی کو اپنے دفتری کام اور کردار پر اثر انداز نہیں ہونے دے گا
وہ ہر حالت میں بغیر کسی جانبداری یا میلان یا مخالفت کے قانون کے مطابق تمام قسم کے لوگوں کی بہتری کیلئے کام کرے گا

آئین کی شق 105 کے مطابق گورنر صوبے کی کابینہ یا وزیرِ اعلٰی کے مشورہ کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے ۔ گورنرکسی مشورے پر دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس بھیج سکتا ہے اور اگر وہ تجویز وزیرِ اعلٰی دوبارہ گورنر کو بھیج دے تو گورنر اُس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے ۔

اصل صورتِ حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے چاروں صوبوں کے گورنر آئین و قانون کے مطابق کم اور آئین و قانون کے خلاف زیادہ عمل کرتے ہیں بالخصوص پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے تو آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔ مختلف شہروں میں محفلیں منعقد کر کے اُن میں انتہائی گھٹیا بیان دینا ۔ گورنر ہاؤس میں شراب نوشی کی محفلیں منعقد کرنا ۔ جو اراکانِ اسمبلی حکومت میں نہیں اُنہیں حکومت کے خلاف اُکسانا اور صوبائی اسمبلی کی بھیجی ہوئی سمری کو ہمیشہ کیلئے دبا کر بیٹھ جانا اُن کا طرّہ امتیاز ہے ۔

جب حُکمران کھُلے بندوں آئین اور قانون کی خلاف ورزی کریں تو عوام سے آئین اور قانون کی پاسداری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ؟

فرح کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی ؟

پہلے ایک معذرت
کل کی تحریر کے ساتھ نقشہ نمبر 2 کسی وجہ سے شائع نہ ہوا تھا جو آج تحریر کے ساتھ شائع ہو گیا ہے ۔ ملاحظہ فرمایا جا سکتا ہے

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد بورڈ آف انٹرمیڈیئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی طرف سے پاکستان کے [پی سی او] چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی فرح کے بارہویں جماعت کے نمبر بڑھانے کے خلاف درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلہ کے صفحہ 13 پر فزکس ۔ 2 کے سوال نمبر 5 بی اور اُردو کے سوال نمبر 2 کے جوابات کا حوالہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ پرچوں کے نظری جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی ۔ مزید لکھا ہے “مجھے باقی پرچوں میں بھی کوئی بے ضابتگی نظر نہیں آئی”

متذکرہ سوالات کے جوابات جو کہ عدالت کے ریکارڈ پر ہیں مندرجہ ذیل ہیں ۔ [ نقل بمطابق اصل ہے]

فزکس ۔ 2 کے سوال نمبر 5 بی کا ایک جز

Question: A capacitor is connected across a battery: (b) Is this true even if the plates are of different sizes

Answer: No, the plates of capacitor is not of different sizes, however to decrease the electrostatic factor a dielectric medium is putted in between them

اس جواب پر ممتحن نے پہلے کاٹا لگایا اور صفر نمبر دیا
پھر ایک نمبر دیا اور
پھر بڑھا کر 2 نبر کر دیئے ۔

اُردو کے سوال نمبر 2 کے جواب

سوال ۔ بابر کی جفا کشی کی کوئی مثال دیں
جواب ۔
بابر کا تیر کے کمان سے بھی تیز چلنا اور کچھ ہی میل میں لمبا سفر تے کرنا
ایک شہر سے آگرہ پہنچ جانا اور گھوڑے کے بغیر گنگا میں ننگی تلوار ہاتھ میں پکڑے کود پڑنا

اس جواب پر پہلے ایک نمبر دیا گیا
پھر اسے بڑھا کر 2 کر دیا گیا

تبصرہ ۔
کالج میں فزکس پڑھانے والے ایک پروفیسر صاحب نے بتایا ہے کہ فزکس کے سوال کا جواب غلط ہے اور کوئی نمبر نہیں ملنا چاہیئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جواب کیلئے صرف ایک نمبر تھا اور جواب غلط ہونے کے باوجود 2 نمبر دیئے گئے
اُردو کے سوال کے جواب میں کیا لکھا گیا ؟ یہ نہ میری سمجھ میں آیا ہے اور نہ میرے ارد گرد کسی کی سمجھ میں آیا ہے البتہ لکھنے والی فرح عبدالحمید ڈوگر اور فیصلہ دینے والے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی سمجھ آیا ہے ۔ اسی لئے اس جواب کےغلط اور بھونڈا ہونے کے باوجود 3 میں سے 2 نمبر دیئے گئے

جو بوئے گا سو کاٹے گا

مثل مشہور ہے “جو بوئے گا سو کاٹے گا ” اور پنجابی میں کہتے ہیں “مُنجی بیج کے کپاہ نئیں اُگدی “۔ مطلب یہ ہے کہ جیسا کوئی عمل کرتا ہے ویسا ہی اسے بدلہ ملتا ہے ۔ کچھ بزرگ کہا کرتے تھے “یہ سودا نقد و نقد ہے ۔ اِس ہاتھ سے دے اُس ہاتھ سے لے”۔ دنیا میں ایسے عظیم لوگ بھی اللہ کے فضل سے ہیں جو اس عمل کو سمجھتے ہوئے پوری کوشش کرتے ہیں کہ اُن کے کسی عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے ۔

قانون کے مطابق میں نے 4 اگست 1999ء کو ملازمت سے ریٹائر ہونا تھا لیکن ذاتی وجوہ کے باعث 3 مئی 1991ء کو ریٹائرمنٹ کیلئے درخواست دے دی اور چھٹیاں گذار کر 3 اگست 1992ء کو ریٹائر ہو گیا ۔ ریٹائر ہونے کے کچھ سال بعد میں کسی کام کے سلسلہ میں ڈائریکٹر ایڈمن کے پاس گیا اور کہا”جناب ۔ میں آپ کے کام میں مُخل ہو رہا ہوں ۔ آپ میرا یہ کام کروا دیں تو میں آپ کا مشکور ہوں گا”۔ ڈائریکٹر ایڈمن ملازمت کے لحاظ سے مجھ سے جونیئر تھے ۔ وہ میرے طرزِ تخاطب پر برہم ہو گئے ۔ میں نے وضاحت کی کوشش کی “میں ریٹائرڈ آدمی ہوں اور اب آپ میرے افسر ہیں”۔ وہ کہنے لگے “دیکھئیے اجمل صاحب ۔ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے ۔ آپ اب بھی ہمارے محترم ہیں ۔ آپ دوسرے ریٹائرڈ لوگوں کے ساتھ اپنے آپ کو نہ ملائیں ۔ جو اُنہوں نے بویا وہ کاٹیں گے اور جو آپ نے کیا اُس کا صلہ اللہ آپ کو دے گا”۔

آجکل وزیرِ اعظم کے سابق مشیر برائے قومی تحفظ ریٹائرڈ میجر جنرل محمود علی درانی صاحب کے بیانات آ رہے ہیں کہ اُنہیں جلدبازی میں برطرف کر دیا گیا اور جس طرح اُنہیں بر طرف کیا گیا اُس سے اُنہیں دُکھ پہنچا ۔ میں نے 4 اگست 1992ء سے 3 اگست 1994ء تک میجر جنرل محمود علی درانی صاحب کے ماتحت بطور ڈائریکٹر پی او ایف ویلفیئر ٹرسٹ کنٹریکٹ پر کام کیا ۔ یہ ادارہ نجی نوعیت کا تھا ۔

میجر جنرل محمود علی درانی صاحب وسط 1992ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین مقرر ہوئے ۔ اس تقرری کی مدت تین سال ہوتی ہے ۔ مجھے اپنی کنٹریکٹ کی ملازمت کے دوران 1994ء کے کم از 2 ایسے واقعات یاد ہیں جن میں میجر جنرل محمود علی درانی صاحب نے اپنے ماتحت افسروں کو بغیر کسی جواز کے صرف اور صرف اپنی انا کی خاطر بغیر کوئی نوٹس دیئے ملازمت سے نکال دیا تھا حالانکہ وہ اچھا بھلا اور محنت سے کام کر رہے تھے ۔ اب اتفاق سے وہی کچھ اُن کے ساتھ ہوا ہے تو بار بار شکایت کر رہے ہیں ۔

کاش لوگ اُس وقت سوچا کریں جب وہ خود کسی کے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں

جل کےدل

آدھی صدی سے زائد قبل ایک گانا لکھنے والے کی روح سے معذرت کے ساتھ کچھ حسبِ حال تبدیلیاں شامل کر کے

دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

عوام خطاوار ہیں یا اُن کو بہکانے والے ؟
سب کے چہروں پر داغ ہیں کالے کالے

کتنے انتخابات ہوئے کوئی داغ دھویا نہ گیا
جل کے دِل خاک ہوا ۔ آنکھ سے رویا نہ گیا

[بہکانے والے یعنی حُکمران طبقہ]

کراچی کے طول و عرض میں میرے کئی بہت قریبی عزیز رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میں کراچی کے حالات پر نظر رکھتا ہوں ۔ نومبر کے آخری ہفتے میں تو میرا چھوٹا بیٹا اور بہو بیٹی بھی کراچی میں موجود تھے ۔ پاکستانی صاحب کی تحریر پڑھ کر جی چاہا تھا کہ میرے علم میں آنے والے واقعات کے متوقع نتائج بیان کروں پھر ٹھٹھک گیا کہ کہیں اس کا منفی اثر نہ ہو جائے ۔ لیکن جو مجھے صاف نظر آ رہا تھا اور اُسے لکھتے ڈر رہا تھا وہ وقوع پذیر ہو گیا ۔

الطاف حسین کا بار بار بیان آ رہا تھا کہ “کراچی میں طالبان جمع ہو رہے ہیں” ۔ “کراچی کو طالبان نے گھیرے میں لے لیا ہے” ۔ “عوام کراچی کو بچانے کیلئے تیار ہو جائیں” ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ دبئی سے 22 نومبر رات گئے واپسی ہوئی ۔ 24 نومبر کو میرا کراچی میں اپنی ایک پھوپھی زاد بہن سے رابطہ ہوا تو میں نے انہیں محتاط رہنے کا مشورہ دیا ۔ وجہ پوچھنے پر میں نے بتا دیا کہ الطاف حسین کے بیانات معنی خیز اور خطرناک ہیں

29 نومبر کی رات ٹی وی اے آر وائی ون ورڈ لگایا تو کراچی میں بلووں کا معلوم ہوا ۔ جیو سمیت باقی سب ٹی وی سٹیشن دیکھے مگر سوائے اے آر وائی اور سماع کے کسی چینل نے یہ خبر نہ دی ۔ کراچی میں پھوپھی زاد بہن کو ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بیٹی کے ہمراہ کہیں گئی ہوئی تھیں ۔ واپسی پر راستہ میں پٹھانوں کے علاقہ میں کچھ لوگوں نے جو ایم کیو ایم کے لگتے تھے فائرنگ کی اُنہوں نے ایک پٹھان کو گرتے دیکھا ۔ رکشا والے نے رکشا بھگایا اور متوقع متنازع علاقوں سے بچتا ہوا نارتھ کراچی پہنچ گیا ۔ اُن کا بیٹا اپنے کام کے سلسلہ میں کراچی میں پھرتا رہتا ہے ۔ اس نے دیکھا کہ ایم کیو ایم کے جوانوں نے دو پٹھانوں کو پِک اَپ سے اُتار کر پولیس والوں کی موجودگی میں زد و کوب کرنا شروع کر دیا ۔ اُس نے اپنی ایف ایکس کار موڑی اور بچتا بچاتا رات گئے گھر پہنچا ۔

تمام عینی شاہد کہتے ہیں کہ پہل ایم کیو ایم نے کی اور زیادتی بھی ایم کیو ایم نے کی ۔ یہی کچھ تھا جس کا اعلان الطاف حسین بار بار کر رہا تھا ۔ لیکن ایم کیو ایم کے رہنما کہتے ہیں کہ یہ کام اُن کے دشمنوں کا ہے ۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم والوں کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ ہے کہ ظُلم بھی
کرتے ہیں اور مظلوم بھی کہلوانا چاہتے ہیں ۔ اگر بقول ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے باہر کے لوگ دہشتگردی کر رہے ہیں تو پولیس ۔ رینجرز اور ایم کیو ایم کی چابکدست تنظیم کی موجودگی میں ایسا کیونکر ممکن ہے ؟

وہ جو کراچی کی مظلوم مہاجر تنظیم تھی وہ تو مئی 1993ء میں چیئرمین عظیم احمد طارق کے قتل [شہادت] کے ساتھ ہی مر گئی تھی یا الطاف حسین نے مار دی تھی جو اُس محنتی اور صُلح جُو رہنما عظیم احمد طارق کا بھی قاتل ہے ۔ میں دس سال کی عمر میں 1947ء میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا لیکن میں نے یا میرے خاندان والوں نے اپنے آپ کو کبھی مہاجر نہ سمجھا ۔ میں صرف پاکستانی ہوں ۔ نہ پٹھان ہوں ۔ نہ بلوچی ۔ نہ سندھی ۔ نہ پنجابی ۔ نہ مہاجر