Category Archives: معاشرہ

ہوش سے ۔ نہ کہ جوش سے

سوات میں نوجوان لڑکی کو کوڑوں کی سزا کی ویڈیو پر جو بحث چل نکلی ہے اس کھیل کی منصوبہ بندی کرنے والے یا والوں کا مدعا کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے ۔

مباحثہ اب شاید جلد ٹھنڈا نہ پڑے اور اس کے نتائج بھی شاید بہت دور رس برآمد ہوں لیکن اس ویڈیو کی حقیقت جاننے کیلئے ہمیں چند برس پیچھے اور پاکستان سے کچھ دور ایک اور مسلم مُلک عراق میں جانا ہوگا اور پھر شاید یہ تسلیم کرنا پڑے کہ یہ ویڈیو پاکستان میں خانہ جنگی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں

سال 2003ء میں عراق پر امریکی حملے سے قبل اس ملک کے لوگ عشروں سے صدام حسین کی مطلق العنان حکومت کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے ۔ صدام کی حکومت قائم کرنے کے وقت کی خون ریزی کے بعد عراق میں مختلف مسالک کے لوگوں کے درمیان خونریزی کا سبب بننے والے اختلافات سامنے نہیں آئے تھے ۔ صدام حسین خود اور اس کی حکومت کے بیشتر عہدیدار اگرچہ سُنی تھے لیکن اس کی حکومت کے دوران عراق میں اہل تشیع کو آزادی رہی اور مُلک میں تعلیمی اور معاشرتی ترقی جاری رہی

امریکی حملے کے کچھ ہی عرصے بعد مغربی خبررساں اداروں نے یہاں کی آبادیوں کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کرکے پکارنا شروع کردیا۔ لکھا جاتا کہ فلاں جگہ اتنے شیعہ جنگجو مارے گئے اور وہاں سنی عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں حالانکہ یہ دونوں ہی امریکی فوج کے خلاف لڑ رہے ہوتے تھے ۔ ان مفروضہ واقعات کی کچھ وڈیو بھی ٹی وی چینلز پر چلائی گئیں ۔ اس صورتحال میں شیعہ سنی کی تقسیم عام لوگوں کو بے معنی اور غیر ضروری لگتی تھی لیکن کچھ عرصہ بعد اس نے رنگ دکھایا ۔ عراق میں شیعہ اور سنی ملیشیا بنیں ۔ پھر ان میں تصادم شروع ہوا ۔ لوگ مسلک کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہوگئے اور نوگو زونز [No-go Zones] بن گئے ۔ آئے دن خبر دی جاتی کہ بظاہر مسلکی اختلاف پر قتل کیے جانے والے درجنوں افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں ۔ ایسے واقعات ہونا شروع ہوئے کہ ایک جگہ مسلح افراد نے مسافر بس روکی ۔ لوگوں کی شناختی دستاویزات دیکھیں اور پھر ایک فرقے کے لوگوں کو چھوڑ کر دوسروں کو مار ڈالا ۔ ان واقعات کا نتیجہ یہ نکلا کہ عراق میں امریکی فوج کیخلاف براہ راست مزاحمت میں کمی آ گئی ۔ تیل کی پائپ لائنیں اڑانے کے واقعات بھی کم ہوگئے جو امریکہ کے مفادات پر کاری ضرب لگا رہے تھے

عراق سے بہت قبل غیرمُلکی منصوبہ بندی کے تحت اس وقت کے مشرقی پاکستان میں یہ وڈیو کا عمل بڑے کامیاب طریقہ سے کیا گیا تھا پھر مئی 2007ء میں کراچی میں ایک تنظیم نے وڈیو کھیل کھیلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی ۔ اب کوڑوں کی سزا کی جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس کے بارے میں بھی کچھ باتیں اہم ہیں ۔ اس ویڈیو کے بارے میں بی بی سی کی ابتدائی خبر جمعرات کی شام آئی جو تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز میں پہنچی ۔ اخبارات نے اسے مناسب اہمیت دی ۔ اس پر بس نہ کیا گیا اور اگلے روز منظم طریقے سے اس ویڈیو کی نقول مختلف ٹی وی چینلز کو پہنچائی گئیں اور پھر اس کے بار بار نشر ہونے کا سلسلہ چل پڑا۔ باوجود اس کے کہ یہ ویڈیو منقش مواد [Graphic Content] کے زمرے میں آتی ہے اور اس کی اصلیت [Authenticity] پر سوالیہ نشانات موجود ہیں ۔

نوعمر لڑکی کو کوڑے مارنے کے دومنٹ کی یہ وڈیوبلاشبہ نہایت دلدوز ہے مگر اس حقیقت کو بھی ماننا چاہئے کہ پاکستان میں مختلف رحجانات رکھنے والے لوگ اس ملک کے قیام کے وقت سے بستے آرہے ہیں جو ایک دوسرے سے سو فیصد متفق کبھی نہیں ہوسکتے لیکن ماضی میں ان کے درمیان ایک دوسرے کے احترام کا رشتہ رہا ہے ۔ جمعہ کو ٹی وی چینلز سے نشر کی گئی ویڈیو نے اس رشتے میں بچا رہا سہا احترام ختم کردیا ۔ اب دونوں طرف کے پڑھے لکھے لوگ بھی بحث کرتے ہوئے انتہائی جذباتی ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

ان حالات کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ویڈیو کے ذریعے پاکستانیوں کو صف آراء کرنے والوں نے اس ملک کے عوام میں موجود اصل خطِ نقص [fault line] کو خوب پرکھا ہے ۔ وقت ہے کام لینے کا ہوش سے ۔ نہ کہ جوش سے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں جذبات کی رو میں بہہ جانے سے بچائے اور درست راستہ کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے ۔ آمیں ثم آمین یا رب العالمین

سورت ۔ 5 ۔ الْمَآئِدَہ ۔ آیت ۔ 8 ۔ ۔ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّہِ شُھَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی [بھی] تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم [اس] سے عدل نہ کرو ۔ عدل کیا کرو [کہ] وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے ۔ اور اﷲ سے ڈرا کرو ۔ بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے

بشکریہ ۔ ضمیمہ ۔ مزید قابلِ فہم بنانے کیلئے عبارت میں کچھ رد و بدل کیا گیا

ثقافت ۔ ایک پنپتا خطرناک پہلُو

میں بہت پہلے بھی ثقافت پر لکھ چکا ہوں ۔ اب کئی ہفتوں سے اس کی مزید تشریح کرنے کا ارادا کئے ہوئے ہوں لیکن دوسرے زیادہ اہم موضوع ہی ہوش سنبھانے نہیں دیتے ۔ اس وقت میں وہ سب کچھ چھوڑ کر ایک ایسے عمل کی بات کرنا چاہتا ہوں جو ہماری ثقافت کا حصہ بنتا جا رہا ہے ۔ وہ ہے ای میل اور ایس ایم ایس جو بغیر سوچے سمجھے سب کو بھیجے جا رہے ہیں ۔ یہ ایک خطرناک رحجان ہے ۔ بھیجنے والوں نے شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو کہ اس طرح کی ای میل اور ایس ایم ایس کی اکثریت کا مقصد قوم میں بے چینی اور بے یقینی پیدا کرنا ہوتا ہے خاص کر فی زمانہ جب اسلام پر نصارٰی ۔ یہود اور ہنود چہار جہتی یلغار کر رہے ہیں

کل میں نے ٹی وی پر سوات میں امن کی کوشش سے متعلق ایک مذاکرہ دیکھا جس میں انسانی حقوق کی علمبردار ایک خاتون نے کہا “یہ معاہدہ یا بات چیت قاتلوں سے کیوں کی جارہی ہے ۔ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے کہ اُن سب کو کُچل دیا جائے ۔ ایک 17 سالہ لڑکی پر ظُلم کیا گیا ۔ یہ کونسا اسلام ہے ؟” 17 سالہ لڑکی والا فقرہ وہ بار بار دُہرا رہی تھیں ۔ اُس خاتون نے مزید کہا ” لاَ إِكْرَاہَ فِي الدِّينِ ۔ دین میں کوئی زبر دستی نہیں”۔ اس کے بعد جو کچھ اُس خاتون نے کہا اس سے ثابت ہو گیا تھا کہ ایک آیت کے اس چھوٹے سے حصے کے علاوہ وہ نہیں جانتی کہ قرآن شریف میں کیا لکھا ہے ۔ قرآنی حوالہ دینے والی اس خاتون کا حُلیہ قرآن کی تعلیم کی صریح نفی کر رہا تھا

میں آج متذکرہ محترمہ کے استدلال سے پیدا ہونے والے خدشہ کے متعلق لکھنے کا سوچ رہا تھا کہ جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس آیا اور گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ میرے موبائل فون نے ٹُوں ٹُوں کیا ۔ دیکھا تو ایک نوجوان کا پیغام تھا جس کا خُلاصہ ہے “دیکھو طالبان کس طرح 17 سالہ لڑکی کو مار رہے ہیں ۔ کیا اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے ؟ طالبان سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام ہے ؟ ان کو جواب دینا ہو گا کہ نامحرم لڑکی کو ہاتھ کیوں لگایا اور سزا کیوں دی ؟ قرآن میں لکھا ہے کہ کسی کو اس کے عمل کی سزا اللہ دینے والا ہے ۔ کسی پر زبردستی سے اسلام نہیں پھیلایا جا سکتا ۔ یہ ایس ایم ایس سب کو بھیجیں”

لاَ إِكْرَاہَ فِي الدِّينِ ۔ یہ الفاظ ہوا میں نہیں کہے گئے بلکہ یہ سورت ۔ 2 ۔ البقرہ کی آیت 256 کے شروع کے تین الفاظ ہیں ۔ ان الفاظ کا اس پوری آیت اور اس سے پہلے اور اس سے بعد والی آیات کے ساتھ تعلق ہے ۔ جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے

آیت 255 ۔ اللہ (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ زندہ ہمیشہ رہنے والا۔ اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے ۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے ۔ جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ۔ ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اس کی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے
آیت 256 ۔ دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے
آیت 257 ۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا دوست اللہ ہے کہ اُن کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں یہی لوگ اہل دوزخ ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

معاملہ 17 سالہ لڑکی کا ۔ مجھے اِدھر اُدھر سے جو معلوم ہوا ہے یہ لڑکی کسی نامحرم کے ساتھ بھاگ گئی تھی جس کی سزا اس کے قبیلے والوں نے کوڑوں کی صورت میں اُسے دی ۔ صوفی محمد کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس واقعہ کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور انہیں بلاوجہ بدنام کیا جا رہا ہے ۔ اصل صورتِ حال تو اللہ ہی جانتا ہے ۔ فوری طور پر قرآن و سُنت سے مندرجہ ذیل حوالے پیش کر سکا ہوں

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء آیت 15 اور 16 ۔” تُمہاری عورتوں میں سے جو بَدکاری کی مُرتکِب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو اُنہیں گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ اُنہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کیلئے کوئی راستہ نکال دے ۔ اور تم میں سے جو اِس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو ۔ پھر اگر وہ توبہ کر یں اور اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے “۔

سورت ۔ 24 ۔ النُّور ۔ آیت 2 ۔ ” زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تمہیں دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے” ۔

سورت ۔ 24 ۔ النُّور۔ آیات 5 تا 9 ۔ “اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں اُن کو اَسی کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اِصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور غفور و رحیم ہے ۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت [یہ ہے کہ وہ] چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو ۔ اور عورت سے سزا اسطرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص [اپنے اِلزام میں] جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہو “۔

سورت ۔ 24 ۔ النُّور آیت 33 ۔ “اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دُنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری [زناکاری کا پیشہ] پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جَبَر کے بعد اللہ اُن کے لئے غفور و رحیم ہے” ۔

تمام کُتب حدیث میں موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اُجرت پر کام کرتا تھا اور اُس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کا مُرتکِب ہو گیا ۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دیکر اُس شخص کو راضی کر لیا ۔ مگر جب یہ مقدمہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا ” تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس” اور پھر آپ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی

ترمذی اور ابو داؤد کی روائت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کیلئے نکلی ۔ راستہ میں ایک شخص نے اسکو گرا لیااور زبردستی اس کی عصمت دری کی ۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آ گئے اور زانی پکڑا گیا ۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے مرد کو رجم کرایا اور عورت کو چھوڑ دیا
صحیح بُخاری میں ہے ” خلیفہ [حضرت عمر رَضِی اللہ عَنْہُ] کے ایک غلام نے ایک لونڈی سے زبردستی بدکاری کی تو خلیفہ نے غلام کو کوڑے مارے لیکن لونڈی پر حَد نہ لگائی ۔ مزید حوالوں اور تفصیل کیلئے دیکھئے میری 30 مارچ 2006ء کی تحریر ” جُرم و سزا

قصور مُلّا کا یا ؟ ؟ ؟

دوسروں کو اپنی غلطی کا بھی قصوروار ٹھہرانا میرے ہموطنوں کی خاصی بڑی تعداد کی صفتِ خاص بن چکی ہے اور اس کا سب سے زیادہ ہدف مُلّا کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔ قصور کا تعیّن کرنے کیلئے پہلے مُلّا کی اقسام بیان کرنا ضروری ہیں

پہلی قسم جو ہر جگہ دستیاب ہے یعنی جس نے ڈاڑھی رکھ لی ۔ لوگ ان کو مُلّا کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔ پھر ایک دن اُس کی دنیاوی ہوّس ظاہر ہو جاتی ہے یا جب اُس کا کوئی عمل پسند نہ آئے تو اُس کی عیب جوئی شروع کر دی جاتی ہے اور نام مُلّا کا بدنام ہوتا ہے

دوسری قسم میں وہ لوگ ہیں جنہیں لوگ اُن کے علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی غرض یا دین سے لاپرواہی کی وجہ سے کسی مسجد کا امام بنا دیتے ہیں اور ان کے عمل پر آنکھیں بند رکھی جاتی ہیں تا وقتیکہ وہ کوئی بڑی مُخربِ اخلاق حرکت کر بیٹھے یا اُن کی مرضی کے خلاف کوئی عمل کر بیٹھے

تیسری قسم دین کا عِلم رکھنے والے ہیں جن میں سے کچھ امام مسجد بھی ہیں ۔ ان میں دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل لوگ بھی شامل ہیں اور ان کی اکثریت مختلف پیشوں سے منسلک ہے یعنی ان میں سرکاری یا نجی اداروں کے ملازم بھی ہیں ۔ تاجر یا دکاندار بھی اور کچھ تدریس کا پیشہ اختیار کرتے ہیں

درحقیقت متذکرہ بالا تیسری قسم میں سے بھی آخرالذکر اصل مُلّا ہیں ۔ تیسری قسم میں سب کو مُلا کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ متذکرہ بالا پہلی دو قسمیں مُلا نہیں ہیں بلکہ وہ مُلا کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ ان کو مُلّا نہیں کہنا چاہیئے اور نہ اُن کو امام مسجد جیسا پاک رُتبہ دینا چاہیئے

امام مسجد کا قصور ؟

امام مسجد جس سے عام لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سے کردار کی توقع رکھنا شروع کر دیتے ہیں اُس بیچارے کی معاشی اور معاشرتی بشمول عِلمی محرومیوں پر لاکھوں میں ایک ہو گا جو نظر ڈالتا ہو گا ۔ میں مسجد مجددیہ ۔ پارک روڈ ۔ ایف 2/8 ۔ اسلام آباد میں نماز پڑھتا ہوں ۔ یہ مسجد علاقہ کے لوگوں نے تعمیر کروائی ہوئی ہے اور وہی اس کا خرچ چلاتے ہیں لیکن امام مسجد اور مؤذن کا تقرر وزارتِ مذہبی امور کرتی ہے ۔ 1998ء سے اس کے امام محمد فاروق صاحب ہیں ۔ انہوں نے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد دس سالہ قرآن ۔ حدیث ۔ فقہ اور تاریخِ اسلام کا حکومت کا منظور شُدہ کورس کیا ہوا ہے اور راولپنڈی اسلام آباد کے چند مُفتی صاحبان میں سے ہیں ۔ اسی مسجد میں 1998ء تک عبدالعزیز صاحب امام تھے جنہیں والد کے قتل کے بعد مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد کا امام بنا دیا گیا اور لال مسجد پر فوجی کاروائی کے دوران سے اب تک قید میں ہیں ۔ عبدالعزیز صاحب فاروق صاحب سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ اور علم والے ہیں

بہت کم مساجد ہیں جن میں پڑھے لکھے امام ہیں ۔ اس کی وجہ ان کا بہت ہی کم مشاہرہ اور واجب احترام کا نہ ہونا ہے ۔ اسی لئے دینی مدارس سے فارغ التحصیل لوگ مسجد کا امام بننا پسند نہیں کرتے اور دوسرے ذرائع معاش اختیار کرتے ہیں ۔ مُفتی محمد فاروق صاحب کو محکمہ کی طرف تنخواہ کا سکیل 10 دیا گیا ہوا ہے اور کُل 6000 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے ۔ گھر کا خرچ وہ تعلیمی اداروں میں پڑھا کر پورا کرتے ہیں ۔ آٹھویں جماعت کے بعد کسی بھی دوسرے مضمون میں 8 سال پڑھائی کرنے والے کیلئے حکومت نے تنخواہ کا سکیل 17 رکھا ہوا ہے ۔ اسلام آباد میں سب سے بڑی سرکاری مسجد ہے مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد جس کے امام کو تنخواہ کا سکیل 12 دیا گیا ہے ۔ سرکاری ریکارڈ میں امام کیلئے خطیب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے

یہ تو اسلام آباد کا حال ہے باقی جگہوں پر حالات دِگرگوں ہیں ۔ اور جس کو دیکھو اُس نے اپنی بندوق کا منہ مُلّا کی طرف کیا ہوتا ہے اور معاشرے کی ہر بُرائی کسی نہ کسی طرح مُلّا کے سر تھوپ دی جاتی ہے ۔ حالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قصور وار مُلّا نہیں بلکہ مّلّا کو قصور وار ٹھہرانے والے ہیں

کیا مُلا لوگوں سے زبردستی غلط کام کرواتے ہیں ؟
کیا مسجد میں جانے والوں نے کبھی سوچا کہ جس کے پیچھے وہ نماز پڑھتے ہیں اُس نے دین کی تعلیم حاصل بھی کی ہے یا نہیں ؟

جب مُلا کسی کی دلپسند بات نہ کہے تو مُلا کو بُرا سمجھا جاتا ہے ویسے چاہےمُلا غلط بات یا کام کرتا رہے کسی کو پروہ نہیں ہوتی ۔ لمحہ بھر غور کرنے پر ہی واضح ہو جاتا ہے کہ قصور مقتدیوں کا ہے امام کا نہیں ۔ ایسے امام کو پسند کیا جاتا ہے جو ہر جائز و ناجائز بات کی اگر حمائت نہیں تو اس پر چشم پوشی کرے

عوامی طرزِ عمل ہر شعبہ میں واضح ہے ۔ سیاسی رہنما چُنتے ہوئے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا جاتا ہے ۔ پھر مُلا ہو یا سیاسی رہنما اُن کو کوسنا بھی اپنا فرض سمجھا جاتا ہے ۔ اُن کو منتخب کرتے ہوئے اُن کی اچھی بُری عادات کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا ؟ مُلا ہو یا سیاسی رہنما قوم کی اکثریت کو درست انتخاب میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا فرض صرف دوسروں کو بُرا کہنا ہے ۔ اسی لئے انتخابات کے دن چھٹی ہونے کے باوجود اکثر لوگ ووٹ ڈالنے نہیں جاتے ۔ ایسے لوگوں نے کبھی سوچا کہ اُن کی اس حرکت کی وجہ سے غلط لوگ مُنتخب ہوتے ہیں جن کو وہ بعد میں کوستے رہتے ہیں ؟

کیاواقعی ایساہے

میرا پاکستان والے صاحب نے میری تحریر سے آگے چلتے ہوئے کچھ ایسا استدلال اختیار کیا ہے جو منطق [Logic] اور تاریخی حقائق کی نفی کرتا ہے ۔ میں نہ تو عالِمِ دین ہوں نہ عالِمِ تاریخ ۔ طالب عِلم کی حیثیت سے جو میں اپنے 60 سالہ مطالعہ کی روشنی میں اُن کے مندرجہ ذیل بیانات کے متعلق اصل صورتِ حال کو مختصر طور پر واضح کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ میری مدد فرمائے

ناں مسلمان عربی سیکھ پائیں گے اور ناں انہیں قرآن میں کیا لکھا ہے اس کی سمجھ آئے گی۔ اس سازش کو کامیاب بنانے میں عام امام مسجدوں نے بنیادی کردار ادا کیا اور مسلمانوں کے بچوں کو قرآن عربی میں ہی ختم کرا کے سجمھا انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کر لی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسری زبان سیکھنا بہت ہی مشکل تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم تو قرآن اور نماز اپنی اپنی علاقائی زبانوں میں پڑھنے کا حکم دے دیں تا کہ قرآن اور نماز پڑھتے ہوئے آدمی خدا سے براہ راست مخاطب ہو اور اسے پتہ چلے کہ وہ خدا سے کیا مانگ رہا ہے اور خدا اسے کیا حکم دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا استدلال یہی ہے کہ نئی زبان سیکھنے کی کوفت میں کوئی بھی نہیں پڑے گا اور آسانی اسی میں ہے کہ دین کو اپنی علاقائی زبان میں پڑھا اور سیکھا جائے تا کہ ہر بات آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ پندرہ بیس کروڑ کی آبادی کو عربی زبان سکھانے سے بہتر ہے کہ اسے اسی کی زبان میں دین کی تعلیم دی جائے۔ اس کی مثال دنیاوی تعلیم ہے اور مسلمانوں کے سوا دنیا کے باقی تمام ممالک میں ان کی علاقائی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے

عربی زبان
عربی زبان سیکھنا مُشکل نہیں ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہموطن مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان جس کے حروف اور رسم الخط جانے پہچانے ہیں اور جس کے کئی الفاظ ہماری اپنی زبان میں موجود ہیں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی ۔ اس کے مقابلہ میں انگریزی جس کے حروف ۔ قوائدِ ترکیب ۔ صرفِ نحو اور رسمُ الخط سب کچھ بیگانے ہیں نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ اسے مادری زبان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سکولوں میں انگریزی پڑھانے والے کو اگر دس ہزار روپے ماہانہ معاوضہ دیا جاتا ہے تو عربی پڑھانے والے کو دو ہزار روپیہ دیا جاتا ہے ۔ انگریزی پڑھانے کیلئے اعلٰی سند یافتہ اُستاذ رکھا جاتا ہے اور عربی زبان پڑھانا کم خرچ کی خاطر کسی ایرے غیرے کے ذمہ لگا دیا جاتا ہے ۔ انگریزی پڑھانے والے کی عزت کی جاتی ہے اور عربی پڑھانے والے کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے ۔ ایک بچے کو انگریزی گھر پر پڑھانے کا پانچ ہزار روپیہ ماہانہ دیا جاتا ہے ۔ گھر آ کر قرآن شریف پڑھانے والے کو ایک سو روپیہ ماہانہ دے کر احسان کیا جاتا ہے ۔ اِن حالات میں عربی زبان کیسے سیکھی جا سکتی ہے ؟

کیا عربی زبان سیکھنا مُشکل ہے ؟
ہمارے ہموطن انگریزی کے علاوہ جرمنی ۔ فرانس ۔ جاپان اور چین کی زبانیں ۔ علومِ کیمیاء طبعیات ریاضی بالخصوص کیلکُولس بلکہ ڈِفرینشل کیلکُولس سیکھنے کیلئے سالہا سال محنت کرتے ہیں تو اُنہیں قرآن شریف جس کے حروف اُردو کی طرح ہیں اور اُردو کی طرح ہی لکھی جاتی ہے کو ترجمہ کے ذریعہ سمجھنے میں کیونکر دقت درپیش ہے ؟ خاص کر جب کتابی صورت کے علاوہ انٹرنیٹ پر قرآن شریف کا ترجمہ سیکھنے اور عربی زبان سیکھنے اور بولنے کا طریقہ آسانی سے دستیاب ہے ۔ اس کے علاوہ وطنِ عزیز میں ایسے کئی مدارس یا جامعات ہیں جہاں قرآن شریف [تجوید ترجمہ تفسیر] ۔ علوم القرآن و حدیث ۔ تعارف ادیان ۔ دینی شخصیات کا احوال ۔ آدابِ زندگی [ذاتی ۔ معاشرتی ۔ کلام ۔ سلوک ۔ عدل] وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں اور یہ گریجوئیٹ کیلئے ایک سالہ کورس ہے اور کورس کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جنہیں دین کی آرزو ہے وہ گھر بیٹھے بھی سیکھ سکتے ہیں مگر اوّل شوق ہی نہیں اور جو پڑھتے ہیں اُن کی اکثریت مادہ پرست ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتی

تلاوت بغیر عربی زبان سیکھے
اگر کوئی اُردو پڑھنا جانتا ہو تو قرآن شریف کو سمجھے بغیر پڑھ سکتا اور پھر قرآن شریف میں ایسے الفاظ بھی ہیں جو اُردو میں موجود ہیں ۔ میرا نظریہ ہے کہ کوئی زیادہ وقت نہیں دے سکتا تو صرف روزانہ فجر کی نماز کے بعد قرآن شریف کا ایک رکوع اُردو ترجمہ کے ساتھ اس نیّت سے پڑھے کہ میں نے اسے ذہن نشین کرنا ہے اور اس میں دیئے گئے اللہ کے پیغام پر عمل کرنا ہے ۔ اِن شا اللہ وہ شخص قرآن شریف کو سمجھنے لگے گا اور اس پر عمل بھی کرنے لگ جائے گا ۔ رہی بات عربی زبان پڑھ کر خود قرآن شریف کا ترجمہ کرنا اور اس کو سمجھنا تو اس کیلئے لمبی عمر کے ساتھ انتہائی خشوع و خضوع درکار ہے ۔ اُن کیلئے بھی جن کی مادری زبان عربی ہے ۔ کُجا میرے جیسے کم عِلم جنہیں اپنی زبان کی بھی درست سمجھ نہیں ۔ اگلا سوال ہو گا کہ مختلف لوگوں نے مُختلف ترجمے کئے ہیں ۔ یہ ایک معاندانہ افواہ ہے جو مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے کیلئے پھیلائی گئی ہے ۔ حکومتِ پاکستان سے منظور شدہ اُردو تراجم سب ایک سے ہی ہیں ۔ الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں مفہوم نہیں ۔ مستند عام فہم مختصر تفصیر کے ساتھ اُردو ترجمہ پڑھنے کیلئے دارالسلام پبلشرز کا احسن البیان ۔ مودودی صاحب کا تفہیم القرآن اور سعودی حکومت کا منظور شدہ قرآن مع اُردو ترجمہ اور تفسیر ۔ اولالذکر دونوں بازار میں عام ملتے ہیں اور تیسرا کسی سعودی سفارتخانہ کے تحت کام کرنے والے مکتب الدعوہ سے بغیر معاوضہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ تفہیم القرآن چھ عمدہ مجلد حصوں پر مشتمل 2500 روپے میں دستیاب ہے اور اس سے کم ہدیہ والے بھی ہیں ۔ احسن البیان کا ہدیہ اس سے کم ہے

مُلا کی تاریخ
جو قوم اپنی تاریخ میں ہی دلچسپی نہیں لیتی وہ بیچارے امام مسجد کی تاریخ کیسے جان سکتی ہے ؟ مُلا انگریزی کے پروفیسر [Professor] کا ہم وزن ہے ۔ وطنِ عزیز میں تو گیارہویں جماعت کو پڑھانے والے کو بھی پروفیسر کہتے ہیں لیکن میں اس کی نہیں بلکہ عمدہ جامعہ [university] کے پروفیسر کی بات کر رہا ہوں ۔ مُلا ایک ایسے شخص کو کہا جاتا تھا جو صرف عالِمِ دین نہیں بلکہ کئی علُوم کا عالِم ہوتا تھا ۔ زمانہ قدیم میں مساجد اور کلیسا عِلم کا گہوارہ تھے اور یہی جامعات تھے ۔ علمِ کیمیا کا ماہر ایواگیڈرو ایک پادری تھا ۔ یونانی ماہرِ کیمیا مارک ایک راہب تھا ۔ وہ مسلمان جنہوں نے ریاضی ۔ جغرافیہ ۔ فلکیات ۔ طب ۔ طبعیات ۔ کیمیا اور عِلمِ ہندسہ وغیرہ کو جدید ترقی کی پٹڑی پر چڑھایاسارے مُلا ہی تھے اور دین پر قائم رہتے ہوئے دنیاوی عِلم میں عروج حاصل کیا تھا ۔ جب عیسائیوں نے مذہب کو دنیا سے الگ کیا تو علِم کو کلیسا بدر کر دیا جس کے نتیجہ میں عیسائی اپنے مذہب سے دور ہوتے چلے گئے ۔ ہند وستان پر انگریزوں کا غلبہ ہو جانے کے بعد تمام عالِم خواہ وہ دین کے تھے یا دنیاوی عِلم کے سب کو تہہ تیغ کر دیا گیا اور مساجد جو کہ جامعات [universities] تھیں کا خرچ چلانے کیلئے مُختص جاگیریں ضبط کر لی گئیں ۔ پھر چھوٹے قصبوں اور دیہات سے کم پڑھے لکھے روٹی کے محتاج چند سو جوانوں کو چُن کر دین اسلام کی خاص تعلیم و تربیت کیلئے برطانیہ بھیجا گیا ۔ اس تعلیم و تربیت کے بعد انہيں واپس لا کر مساجد کے امام بنا دیا گیا اور ان کا نان و نفقہ متعلقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا گیا ۔ اس طرح مُلا جمعراتی کی پود لگا کر اُس کی آبیاری کی جاتی رہی ۔ حکومت ان مُلاؤں سے اپنی مرضی کے فتوے لیتی رہی ۔ دین کا کامل علم نہ رکھنے کی وجہ سے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے ان انگریز غلام مُلاؤں نے اپنے مقتدیوں کو رسم و رواج میں اُلجھایا اور فرقوں میں بانٹ دیا ۔ بد قسمتی یہ ہے آج بھی امام مسجدوں کی بھاری اکثریت ایسے ہی مُلاؤں پر مشتمل ہے ۔ جبکہ نہ حکومت اور نہ مقتدی اسلام نافذ کرنا چاہتے ہوں تو ملاؤں کا کیا قصور ؟

قرآن شریف اپنی زبان میں
قرآن شریف کا ترجمہ رائج کرنا اسلئے بھی غلط ہے کہ کسی زبان کا ترجمہ کیا جائے تو مضمون کی اصل روح کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور بعض اوقات مترجم اصل عبارت کا مفہوم ہی بدل کے رکھ دیتا ہے ۔ اس وقت دنیا کی ہر بڑی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ موجود ہے ۔ اگر صرف دوسری زبانوں پر ہی انحصار شروع کر دیا جائے تو اللہ کا اصل پیغام لوگوں کے ذہنوں سے محو ہونا شروع ہو جائے گا ۔ مزید برآں پہلے سے کوشاں مخالف قوتوں کو اسے بدلنے میں سہولت ہو جائے گی اور قرآن شریف کے ساتھ وہی کچھ ہو گا جو تورات ۔ زبور اور انجیل کے ساتھ ہوا آج دنیا میں بائبل کے نام سے درجنوں مختلف کتابیں موجود ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے قرآن شریف میں کچھ ایسی تاثیر رکھی ہے کہ عربی نہ سمجھتے ہوئے بھی قرآن شریف کی تلاوت بہت اثر رکھتی ہے اور پورا قرآن شریف لوگ زبانی یاد کر لیتے ہیں ۔ لیکن یہ سب تو صرف بحث ہے ۔ آجکل قرآن شریف کے مستند بامحاوہ ترجمہ آسانی سے دست یاب ہے ۔ اسے پڑھ کر اپنے فراض و حقوق کو اچھی طرح سے ذہن نشین کیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ عربی میں تلاوت جاری رکھی جائے تو اللہ کے کلام کی برکت سے بہت کچھ سمجھ آنے لگ جاتا ہے ۔ آزمائش شرط ہے

قرآن شریف سے قبل جتنے صحیفے اُتارے گئے وہ ایک مخصوص قوم کیلئے تھے ۔ جب اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے دین مکمل کرنا چاہا تو ایسی زبان میں قرآن شریف اُتارا جو اُس وقت کی آباد دنیا کے اکثر حصہ میں سمجھی جاتی تھی اور وہ زبان عربی تھی ۔ تاریخ پر غور کیا جائے تو عربی زبان نہ صرف جزیرہ نما عرب بلکہ ملحقہ علاقوں میں بھی بولی یا کم از کم سمجھی جاتی تھی ۔ مشہور واقع حبشہ کا ہے جو افریقہ میں واقع تھا اور مکہ سے سب سے پہلے ہجرت کرنے والے مسلمان حبشہ پہنچے تھے اور وہاں کے عیسائی بادشاہ کو سورت مریم سنانے پر بادشاہ نے اُنہیں اپنا مہمان بنا لیا تھا

اپنی اپنی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ کرنا بھی آسان نہیں ۔ پچھلے 55 سال کے دعووں کے برعکس اب تک نہ مُلک میں اُردو نافذ کی گئی ہے اور نہ تعلیم اُردو میں شروع ہوئی ہے وجہ صرف یہ ہے کہ عام پڑھی جانے والی آسان کتابوں کا بھی اُردو میں ترجمہ نہیں ہوا ۔ علاقائی زبانوں میں کون اور کیسے ترجمہ کرے گا ؟ پھر پاکستان میں درجن بھر زبانیں بولی جاتی ہیں اور ہر زبان ہر ضلع میں فرق بولی جاتی ہے اور کئی اضلاع میں ہر تحصیل میں فرق فرق بولی جاتی ہے ۔ پنجابی ہی دیکھ لیں ۔ ہر ضلع میں فرق فرق ہے ۔ راولپنڈی کی تو ہر تحصل کی پنجابی فرق ہے ۔ ایک تحصیل میں آؤں گا دوسری میں آ ریساں تیسری آساں نا چھوتھی میں اچھی ریساں ۔ ایک تحصیل میں شودا کا مطلب بدمعاش یا انگریزی والا شوئی [showy] ہے اور دوسری تحصیل میں شودا کا مطلب بیچارا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بہت کم لوگ ہیں جو اپنی مادری یا علاقائی زبان کو ہی پڑھ ۔ لکھ یا درست طریقہ سے بول سکتے ہیں ۔ اصل مسئلہ ہماری قوم کا خواندگی ہے جو 31 فیصد ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو معمولی اُردو لکھ اور پڑھ لیتے ہیں

قرآن شریف اپنی زبان میں پڑھنے کا نتیجہ
اپنی زبان میں قرآن شریف اور نماز پڑھنے سے لوگوں کے اللہ کے بتائے راستے پر چل پڑنے والی بات تاریخ کی صریح نفی ہے ۔ ترکی کے مصطفٰے کمال پاشا نے مئی 1881ء میں حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد مولویوں کو جاہل قرار دے کر اُن سے دین چھین لیا ۔ مسجدوں کو تالے لگا دیئے ۔ اپنی قوم کا [بقول اُسکے] ترقی کی راہ میں حائل لباس اُتروا کر اُنہیں ترقی دلانے والا یورپی نیم عُریاں لباس پہنا دیا ۔ یہاں تک کہ اپنا رسم الخط بدل کر انگریزی رسم الخط رائج کیا ۔ قرآن شریف کا ترجمہ اپنی زبان میں کروایا اور حُکم دیا کہ قرآن شریف اور نماز صرف ترکی زبان میں پڑھی جائے گی ۔ مصطفٰے کمال پاشا 10 نومبر 1938ء تک حکمران رہا ۔ اس عرصہ میں مسلمانی زیادہ ہونے کی بجائے بہت کم ہو گئی اور ترکی میں مسلمانوں نے شراب اور سؤر کے گوشت کا کثرت سے استعمال شروع کر دیا اور دیگر غیراسلامی عادات اپنا لیں لیکن اس جدیدیت کو اپنانے کے ایک صدی بعد بھی ترکی کو یورپی یونین کی رُکنیت نہ مل سکی ۔ میں 1979ء میں بیوی بچوں سمیت استنبول گیا ۔ اتفاق سے رمضان کا مہینہ تھا ۔ میری بیگم کو فکر پڑی تھی کہ افطار میں دیر نہیں ہونا چاہیئے ۔ مجھے ہوٹل میں صرف ایک شخص ملا جسے معلوم تھا کہ روزہ کتنے بجے کھُلے گا ۔ مُسلمانوں کے اس بڑے شہر میں روزہ کب کھلے گا معلوم کرنا تو در کنار اکثریت کو روزے کا ہی معلوم نہ تھا ۔ اسے کہتے ہیں

نہ خُدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

دوسرے ممالک میں اپنی اپنی زبان میں تعلیم
دوسرے ممالک میں اپنی زبان میں تعلیم کے حوالے پر میں مُسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔ درست ہے کہ جرمنی ۔ فرانس ۔ اطالیہ ۔ چین ۔ جاپان حتٰی کہ عرب ممالک میں بھی دنیاوی تعلیم اپنی اپنی زبانوں میں ہے لیکن وطنِ عزیز میں آج تک دنیاوی تعلیم کا علاقائی تو چھوڑ قومی زبان میں پڑھانے کا بندوبست ہو نہیں سکا یعنی اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ انسان کی لکھی سائنس ۔ ریاضی وغیرہ کی کتابوں کا ترجمہ اُردو میں کر لیا جائے جو کوئی مُشکل کام نہیں اور ہم چلے ہیں اللہ کے کلام کا ترجمہ درجنوں علاقائی زبانوں میں کرنے جن کی سو سے زائد مقامی طرحیں ہیں ۔ وہ اللہ کا کلام جسے عام عربی پڑھنے والا بھی بغیر اُستاذ کے سمجھ نہیں سکتا ۔ جبکہ قرآن شریف کو سمجھنے کیلئے ہر سورت اور آیت کے شانِ نزول اور تاریخ کو بھی تحقیقی نگاہ سے پڑھنا پڑتا ہے

قرآن اور ہم

سیّدہ شگفتہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ “قرآن پاک رٹ لینا ۔ آسان ۔ ۔ سمجھ لینا ۔ مشکل ۔ ۔ سمجھ کر عمل کرنا ۔ مشکل ترین ہے ۔ مزید لکھتی ہیں “حفاظِ قرآن کا تصور صرف مدارس سے ہی کیوں مختص ہے ۔ تمام معاشرے سے کیوں نہیں ؟”

سیّدہ شگفتہ صاحبہ کا سوال دعوت ہے کہ ہر مسلمان ہموطن اپنے آپ سے یہ سوال پوچھے
موضوع بھی بہت اہم چھیڑا ہے ۔ تبصرہ طویل ہو جانے اور اس سوچ کے تحت کہ عام قارئین مستفید ہو سکیں میں نے اس کا جواب اپنے بلاگ کے سرِ ورق رقم کرنا مناسب خیال کیا ۔ میرا تجربہ ہے کہ قرآن شریف رَٹ لینے سے سمجھ کر پڑھنا آسان ہے ۔ اگر سمجھ کر پڑھ لیا جائے تو عمل کرنا بہت مشکل نہیں رہتا ۔ صرف اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا دنیاوی قوانین پر عمل کرنا ۔ اصل مشکل صرف رویّئے اور نیّت کی ہے ۔ اگر اَن پڑھ خاندان کی ایک عورت جو ایک دن کیلئے بھی کسی مدرسہ یا سکول نہیں گئی محنت مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ دو سال کے اندر پہلے ناظرہ قرآن شریف پڑھ لیتی ہے اور پھر قرآن ترجمہ کے ساتھ ۔ تو پڑھے لکھے خاندانوں کے لوگ جو سکولوں اور کالجوں کے بھاری اخراجات ادا کر کے سائنس ۔ انگریزی ۔ سیاست ۔ وکالت وغیرہ پڑھتے ہیں وہ قرآن شریف کو سمجھ کر کیوں نہیں پڑھ سکتے ؟ جس عورت کا میں نے ذکر کیا ہے ہماری ملازمہ ہے جو اپنی شادی کے کئی سال بعد ہمارے پاس آئی اور سات آٹھ سال قبل میری بیوی سے پہلے ناظرہ اور پھر ترجمہ کے ساتھ قرآن شریف پڑھا ۔ پھر کچھ سال اپنے خاوند کے خاندانی معاملات کے سلسلہ میں اِدھر اُدھر رہی پھر میاں بیوی واپس ہمارے پاس آ گئے ہوئے ہیں

قرآن شریف کا نزول بطور آئینِ حیات ہوا تھا تاکہ اس پر عمل کیا جائے اور کسی چیز پر عمل پیرا ہونے کیلئے اسے سمجھ کر پڑھنا لازم ہوتا ہے ۔ قرآن شریف کی عزت یہ نہیں ہے کہ اسے مخمل کا غلاف چڑھا کر اُونچی جگہ پر رکھ دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے

سورت ۔ 73 ۔ المزمل ۔ آیت ۔ 4 ۔ ۔ ۔ ۔ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ۔ ترجمہ ۔ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو

اللہ نے قرآن شریف ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا حُکم دیا ہے ۔ پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں کہ ٹھہر ٹھہر کر وہ چیز پڑھی جاتی ہے جسے ذہن نشین کرنا ہو ۔ ایک غلط نظریہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ کچھ نہ کر سکیں وہ قرآن شریف کو طوطے کی طرح رَٹ لیں ۔ کچھ لوگوں نے قرآن شریف کو کسی کے مرنے پر فرفر پڑھنے کیلئے مُختص کر دیا ہے ۔ قرآن شریف کی تلاوت کارِ ثواب ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ طوطے کی طرح بغیر سمجھے پڑھا جائے ۔ شاید قرآن شریف کو بغیر سمجھے پڑھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہماری نماز ہمیں بُرائی سے نہیں روک پاتی

سورت ۔ 29 ۔ العنکبوت ۔ آیت ۔ 45 ۔ ۔ کتاب جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کو پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو ۔ کچھ شک نہیں کہ نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر بڑا [اچھا کام] ہے ۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے جانتا ہے

حفظ کرنا بھی اچھی بات ہے ۔ اگر حفاظ نہ ہوتے تو قرآن شریف کے خلاف ہر دور میں کی گئی سازشوں کے باوجود اس کا مکمل درست حالت میں ہم تک پہنچنا بہت مُشکل تھا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے قرآن شریف کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا شاید اسی لئے ہزاروں مسلمانوں کو توفیق دی کہ اسے حفظ کر لیں ورنہ کوئی اور کتاب دنیا میں ایسی نہیں جسے کسی انسان نے ہُوبہُو یاد کیا ہو ۔ میرے ایک دوست ایم ایس سی انجنرنگ ہیں اور حافظ قرآن ہیں ۔ اُن کے بیٹے اچھے سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں اور انہوں نے قرآن شریف بھی حفظ کیا ہوا ہے ۔ اللہ کے فضل سے وہ دین پر عمل پیرا ہیں اور دنیا کا کام بھی احسن طریقہ سے چلا رہے ہیں

مدرسوں کے متعلق بھی عام لوگوں کی معلومات بہت کم ہیں ۔ جو باقاعدہ مدرسے ہیں وہاں قرآن شریف کا رَٹا نہیں لگوایا جاتا البتہ کچھ طالب علم قرآن شریف حفظ کر لیتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں قرآن ۔ حدیث ۔ اصولِ فقہ ۔ فقہ ۔ اُردو ۔ عربی ۔ انگریزی ۔ ریاضی ۔ سب کچھ پڑھایا جاتا ہے اور اب تو کئی مدارس میں کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے ۔ عام لوگ مدرسہ شاید اُسے سمجھتے ہیں جو محلے کی مسجد کے ساتھ ہوتا ہے جہاں بچے اُونچی آواز میں قرآن شریف کے الفاظ رَٹ رہے ہوتے ہیں ۔ یہ دراصل مدرسے نہیں ہوتے ۔ دیگر بہت سی مساجد کے امام جو اس محلہ کے لوگوں نے مقرر کر رکھے ہیں یا جو لوگ ان مساجد میں بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ دینی لحاظ سے تعلیم یافتہ نہیں ہوتے تو وہ بچوں کو سوائے اس کے اور کیا پڑھائیں گے ؟

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آیات 8 تا 13 ۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ مؤمن نہیں ہیں ۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں ۔ مگر دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ ان کے دِلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں اس کی پاداش میں ان کیلئے دردناک عذاب ہے ۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔ خبردار حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے ۔ اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں ۔ خبردار حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں مگر یہ جانتے نہیں ہیں

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 120 ۔ یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو ۔ صاف کہدو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے ۔ ورنہ اگر اُس علم کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار

اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

کیسی دنیا

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
تیری دنیا میں ایسا کیوں ہے ؟
پیسے والے ہیں سارے عقلمند
میرے جیسے بیوقوف کیوں ہیں ؟

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
امیروں کا ایسا خیال کیوں ہے ؟
کہ وہ سب تو ہیں پڑھے لکھے
ہر میرے جیسا اَن پڑھ کیوں ہے ؟

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
یہاں ایسی باتیں کیوں ہوتی ہیں ؟
میں نہ بنوا سکا ایک بھی مکان
ساتھیوں کی ہے ہر شہر میں کوٹھی

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
دنیا میں یہ کیسی جمہوریت ہے ؟
ملک کے لئے غریب جانیں گنوائیں
امیروں کبیروں کو کرسی سے اُلفت ہے

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
جمہور پر ٹیکس سے خزانہ بھرتے ہیں
پر جمہور کیلئے بس محنت کی  سوکھی روٹی
وزیروں مشیروں کے لئے ہر شے مُفت ہے

ہمتِ کرے انسان

سب ہموطنوں کو نویدِ صبح مبارک ہو ۔ اللہ کرے کہ اب ہر ہموطن پورے خلوص اور استقلال کے ساتھ خود اپنے نفس کے خلاف تحریک چلا کر اپنے اندر پیدا شدہ تمام قباہتوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے ۔

الحمدللہ ۔ وکلاء ۔ سول سوسائیٹی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے ثابت کر دیا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

جب 3 نومبر 2007ء کے بعد وکلاء کی تحریک نے زور پکڑا اور اپنی تحریک کو اپنے خُون سے سیراب کرنے کے باوجود انہوں نے شرافت کا ساتھ نہ چھوڑتے ہوئے اپنی جد و جہد جاری رکھی تو جمہور خود بخود اُن کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئی ۔ میں تو دعا اور دوا کر ہی رہا تھا ۔ وہ لوگ جو احتجاج کو بدامنی حتٰی کہ بدتمیزی تک کہتے تھے اُن میں اس تحریک کی خبریں ٹی وی سے سننے اور اخبار میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور پھر تحریک سے اُن کی دلچسپی بڑھنا شروع ہوئی ۔ تمام استعماری طاقتوں نے پھر دیکھ لیا کہ نہتے جمہور کی طاقت کیا ہوتی ہے ۔ لاہور جی پی او چوک پر پہنچنے والوں کو لگائی گئی کئی رکاوٹیں نہ روک سکیں ۔ نہ پولیس کی بھاری نفری اُن پر لاٹھیاں برسا کر اور اشک آور گیس کے 200 کے قریب گولے پھینک ان کے جذبہ کو کم کر سکی ۔ نواز شریف کے ساتھ حق کی راہ پر نکلنے والا جلوس ماڈل ٹاؤن سے کالا شاہ کاکو تک سات رکاوٹیں جو بڑے بڑے سامان سے بھرے کنٹینر لگا کر بنائی گئی تھیں ہٹاتے ہوئے گوجرانوالہ تک پہنچے ۔ مگر   آمر کی ضد گوجرانوالہ پہنچنے سے کچھ قبل دم توڑ گئی تھی

پاکستان بننے کے بعد یہ تحریک ہر لحاظ سے منفرد تھی ۔ اسے شروع کرنے والے نہ صرف تعلیم یافتہ تھے بلکہ قانون دان تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک جتنی تحاریک چلیں سوائے تحریک ختمِ نبوّت کے اُن سب کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق کسی شخص یا جماعت سے تھا جبکہ اس تحریک کا فائدہ تحریک شروع کرنے والوں کو ہوتا یا نہ ہوتا اصل فائدہ جمہور کو اور ملک کو ہونا تھا عدل کی صورت میں اور عدل قائم ہونے کے نتیجہ میں ملک و قوم کی ترقی کی صورت میں کیونکہ کسی قوم کی ترقی کی اوّلین شرط ملک میں عدل ہونا ہے ۔

یہ کسی کی شکست نہیں ۔ یہ فتح ہے جمہور کی اور جمہور کی فتح سب کی فتح ہوتی ہے ۔ یہ بھنگرے ڈالنے کا وقت نہیں بلکہ اپنے گناہوں اور اپنی غلطیوں پر پشیمان ہو کر اللہ سے معافی مانگنے کا ہے ۔ سچ کہا تھا کسی نے

سدا نہ باغ وِچ بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ باغ میں بُلبُل چہکے
سدا نہ رہن بہاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ رہیں بہاریں
دُشمن مرے تو خوشی نہ کریئے ۔ ۔ ۔ مرے دُشمن تو خوشی نہ کریں ہم
سجناں وی ٹُر جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ پیارے بھی چلے جائیں گے اک دن

عین اُس وقت جب قوم کو آنے والی خوشی کی بہار کی خوشبو آ رہی تھی چند ناعاقبت اندیشوں نے جن میں پیر پی پی پی کے مظہرالحق اور ایم کیو ایم کے رہنما شامل تھے قوم کے دماغ پراگندہ کرنے کیلئے کراہت آمیز آواز اُٹھائی ۔ اللہ ان لوگوں کو نیک ہدائت دے اور ہمارے پیارے وطن کو ایسے خودغرض لوگوں سے بچائے

پچھلی دو دہائیوں میں پڑھے لکھے ہموطنوں نے مجھے بہت مایوس کیا ۔ اکثر ان جملوں کا سامنا ہوتا لیکن کوئی خود کچھ کرنے کیلئے تیار ہوتا ۔
سب چور ہیں
ہماری قوم مردہ ہے
میں اکیلا کیا کروں ؟
اس مُلک میں کچھ نہیں ہو سکتا
غریب یا شریف آدمی کی کون سُنتا ہے ؟
وہی ہو گا جو امریکہ کرے گا

پہلے دو جملوں پر میں اُن سے کہتا کہ اگر میں آپکے جملے کو دہراؤں تو آپ خود وہ ہو جائیں گے جو آپ دوسروں کیلئے کہہ رہے ہیں مگر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا

پۓ در پۓ مُطلق العنانی نے ہمارے ہموطنوں کو بے حِس بنا دیا تھا یا پھر وہ حوادثِ روزگار میں پھنس کر رہ گئے تھے کہ کسی قومی معاملہ میں دِلچسپی کھو بیٹھے تھے ۔ میرا عقیدہ ۔ مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ اگر ذاتی غرض کی بجائے اجتمائی فائدے یا مقصد کیلئے جد و جہد کی جائے تو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں ۔ میں نے اور کئی دوسرے محبِ وطن حضرات نے متعدد بار اس کا اظہار اپنی تحاریر میں کیا

میں نے پچھلی چار دہائیوں میں مختلف قومی سطح کی محافل میں ہموطنوں کو استقلال کے ساتھ جد و جہد کی تلقین کی جس کی بنیاد میری اپنی زندگی کی جہدِ مسلسل تھی ۔آج مجھے 1973ء کے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب ہر طرف سے مجھے رُوپوش ہوجانے کا مشورہ اس بناء پر دیا جاتا تھا کہ مجھے خُفیہ والے کسی بھی وقت اُٹھا کر ایسی جگہ لے جائیں گے جہاں سے میری کوئی خبر نہ آئے گی ۔ وجہ سچ بولنا ۔ برائی کے خلاف اور اپنے ادارے کے ملازمین کے حقوق کیلئے آواز اُٹھانا تھی ۔ اللہ کی مہربانی ہوئی اور خُفیہ کے اعلٰی عہدیداروں نے نہ صرف مجھ سے معافی مانگی بلکہ آئیندہ کئی سال اپنے مسائل میں مجھ سے مشورہ کرتے رہے

وہ دن بھی یاد آئے ہیں جب پاکستان کے تمام سرکاری اداروں کے انجنیئرز کے حقوق کیلئے تحریک چلی تو میں فیڈریشن آف انجیئرز ایسوسی ایشنز آف پاکستان کا سینئر وائس پریزیڈنٹ ہونے کی حثیت سے اُن تین انجیئرز میں شامل تھا جنہوں نے 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے وقت نہ دیا اور کئی دن ضائع کرنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ وزیرِ مالیات سے رابطہ کریں وزیرِ مالیات نے وقت دینے کے بعد ہمیں اپنے دفتر کے بغلی کمرہ میں صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک بھوکا پیاسا بٹھائے رکھا اور بات نہ کی ۔ ہم گھروں کو نہ گئے اور دوسرے دن پھر پہنچ گئے ۔ وزیر مالیات نے ہمیں لاٹھیوں ۔ قید خانے اور چکی پیسنے سے ڈرایا لیکن پورے پاکستان میں انجنیئرز کی ہڑتال کا اعلان کرنے کے بعد نمونے کے طور پر صرف ایک گرڈ سٹیشن پر انجنیئرز نے کام چھوڑ دیا تو حکومت نے تمام انجنیئرز کو تنخواہ کا سکیل 17 اور سب سے جونیئر انجنیئرز کو پانچ پانچ اکنریمنٹ دینے کا اعلان کر دیا ۔ خیال رہے کہ میں مقابلہ کا امتحان پاس کر کے سکیل 17 سے بھی زیادہ تنخواہ پر بھرتی ہوا تھا ۔ اسلئے متذکرہ تحریک میں میرا ذاتی فائدہ بالکل نہ تھا ۔ ہم سب تحریک میں اپنی اپنی جیبوں سے خرچ کر رہے تھے

میں سب واقعات لکھنا شروع کروں تو کتاب بن جائے گی ۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ “ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا”۔ لیکن جد و جہد میں کوئی خود غرضی نہیں ہونا چاہیئے ۔ میں نے 22 جنوری 2008ء کو “شفاف انتخابات” کے عنوان سے جو لکھا تھا کاش اس پر کم از کم میری قوم کے سب پڑھے لکھے ہی عمل کرتے ۔ اب بھی سب کا بھلا ہو گا کہ ان صولوں کو یاد کر لیں اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرائیں ۔ اسی لئے نیچے نقل کر رہا ہوں

آنے والی حکومت آپ کی ہو گی اگر ۔ ۔ ۔

آپ خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیں

آپ تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کو ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کسی کو نہ بتائیں کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کوئی پوچھے تو جواب میں کہیں ” آپ بالکل فکر نہ کریں ”

اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے عزیز و اقرب کو بھی اسی پر آمادہ کریں