قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کراچی میں اربوں کی زمین کوڑیوں کے مول امریکی قونصلیٹ کو دینے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ کمیٹی نے 2005ء میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی طرف سے کراچی میریٹ ہوٹل سے ملحقہ 150 ارب روپے سے زائد مالیت کی 21 ایکڑ قیمتی اراضی امریکی قونصلیٹ کی تعمیر کیلئے مبینہ طور پر ڈیڑھ ارب روپے میں 99 سال کی لیز پر دینے کے معاملہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پی اے سی سیکرٹریٹ کو ہدایت کی کہ اس معاملہ کو وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کے نوٹس میں لایا جائے اور وزارت خارجہ سے ایک ماہ میں ڈپلومیٹس کو زمینوں کی الاٹمنٹ کے بارے میں قواعد و ضوابط کے حوالہ سے پوچھا جائے
بشکریہ ۔ جنگ
Category Archives: معاشرہ
ایمان ۔ اتحاد ۔ نظم
عرضداشت ۔ کل ابھی یہ تحریر نامکمل تھی کہ غلطی سے شائع ہو کر اُردو سیّارہ پر ظاہر ہو گئی ۔ مگر بلاگ سے ہٹا دیئے جانے کے باعث قارئین پڑھ نہ سکے جس کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ اب پوری تحریر پڑی جا سکتی ہے
قائدِ اعظم محمد علی جناح نے 1946ء میں پاکستان کیلئے رائے شماری ہونے سے قبل ناگپور میں منعقد ہونے والی آل انڈیا مُسلم سٹوڈنٹس کنونشن میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آپ کو میں ایک مقولہ [Motto] دیتا ہوں ۔ ایمان ۔ اتحاد ۔ نظم
قائد اعظم کی وفات کے کچھ دہائیاں بعد بلند آواز والے لوگوں نے اس مقولے کو اتحاد ۔ یقین ۔ تنظیم بنا دیا ۔ اُن کا استدلال تھا کہ یقین اتحاد سے پیدا ہوتا ہے جبکہ ساری دنیا کے مفّکر کہتے ہیں کہ اتحاد یقین یا ایمان سے پیدا ہوتا ہے ۔ بہرکیف دورِ حاضر میں ایمان کی جو حالت ہے وہ سب جانتے ہیں ۔ اکثر لوگ امریکا سے ڈرتے ہیں یا امریکا کی خوشنودی چاہتے ہیں ۔ انفرادی طور پر بھی طاقتور یا بارسوخ انسان سے ڈرتے ہیں ۔ اللہ سے نہ ڈرتے ہیں نہ انہیں اللہ کی خوشنودی سے کوئی سرو کار ہے
رہ گئی تنظیم تو فوجی کاروائی کے نتیجہ میں بے گھر ہونے والے بے قصور لوگوں کو متبادل جگہ اور خوراک مہیاء کرنے میں حُکمرانوں اور ان کے حواریوں نے جو دھماچوکڑی مچائی ہے ایسی بدانتظامی کا نمونہ شاید ماضی میں دنیا کے کسی بدترین حصہ میں بھی دیکھنے میں نہ آیا ہو ۔ حکومت اور اقوامِ متحدہ کا متعلقہ ادارہ مل کر بے گھر افراد کے 15 فیصد کو ابھی تک نہ خیمے ۔ نہ خوراک اور نہ دوسری ضروریات مہیاء کر سکے ہیں ۔ باقی شہروں کا کیا ذکر دارالحکومت پشاور میں پہنچنے والے ان بے گھر افراد کی حالت سب سے زیادہ ابتر ہے ۔ خوراک کی تقسیم کا حصول اتنا سُست ہے کہ لوگ پورا پورا دن قطار میں کھڑے رہتے ہیں کیونکہ اُن کی شناخت اور تقسیم صرف ایک نقطہ پر ہو رہی ہے اور بندوبست یہ ہے کہ فی خاندان دو تھیلے گیہوں اور ایک ڈبہ تیل کا دیا جاتا ہے ۔ جن لوگوں نے بالآخر گیہوں اور تیل وصول کر لیا وہ پریشان ہیں کہ اسے کیا کریں ۔ کیا وہ گیہوں کھا کر تیل پی لیں ؟ ہمیشہ سے ڈالروں پر پلنے والی نام نہاد این جی اوز کا وہاں پر کردار صرف اتنا ہے کہ کچھ وہاں تصاویر بنوا کر واپس چلے جاتے ہیں ۔ حُکمران اور دوسرے بڑے اہلکار بھی وہاں صرف تصاویر بنوانے جاتے ہیں ۔ سرکاری کیمپوں کی حالت یہ ہے کہ اتنی شدید گرمی میں ابھی تک بہت کم خیموں میں پنکھے دیئے گئے ہیں ۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ خاص کر بچے اسہال میں مبتلاء ہو رہے ہیں ۔ بلند بانگ دعوے روزانہ کئے جا رہے ہیں
اس کے برعکس جو کیمپ دردمند لوگوں نے بنائے ہیں وہاں لوگوں کو بجلی کے پنکھوں سمیت سب کچھ مہیاء کیا گیا ہے ۔ ہمارے جو وفود امداد پہنچا کر آئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ مقامی عام لوگوں نے جو کردار ادا کیا ہے اس کے بعد الخدمت فاؤنڈیشن [جماعتِ اسلامی والی] ۔ اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ اور چھوٹی چھوٹی نجی قسم کی ویلفیئر سوسائٹیاں وہاں مصروفِ عمل نظر آتی ہیں ۔ سرکاری کیمپ بدنظمی کا مظہر تھے ۔ میڈیکل ٹیمیں زیادہ تر حکومتِ پنجاب کی ہیں ۔ کچھ نجی اور کچھ فوج کی بھی ہیں ۔ کل آئندہ کے لائحہ عمل پر بات ہو رہی تھی تو حکومتی بدانتظامی کا ذکر بھی آیا ۔ ایک صاحب جو ایک سال قبل تک پیپلز پارٹی میں ہوا کرتے تھے کہنے لگے “جن کا کوئی جلوس یا جلسہ یا دعوت کبھی بغیر بگھدڑ توڑ پھوڑ یا مارکٹائی کے نہیں ہوا وہ کیا جانیں انتظام کس بلا کا نام ہے ؟ ”
سب سے کم دولت والے صوبے بلوچستان نے بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کیلئے 6 کروڑ روپیہ دیا ہے ۔ پنجاب نے 10 کروڑ روپیہ کے علاوہ میڈیکل ٹیمیں مع دوائیوں کے بھیجی ہیں ۔ پنجاب نے دونوں صوبوں میں بے گھر ہو جانے والے لوگوں کی میزبانی کی پیشکش بھی کی اور پنجاب میں ہزاروں بے گھر ہونے والے لوگ پناہ لے چکے ہیں ۔ صوبہ سندھ امداد کے بارے میں خاموش ہے شاید وہ بہت نیک لوگ ہیں اور اس مقولے کے پابند ہیں کہ ایک ہاتھ دے اور دوسرے کو پتہ نہ چلے ۔ سب سے بڑھ کر جو کام صوبہ سندھ نے کیا ہے یہ ہے کہ الطاف حسین کے کہنے پر متاءثرین کے سندھ میں داخلہ پر پابندی لگا دی ہے ۔ انسانی ہمدردی کے بلند بانگ دعوے کرنے والی ایم کیو ایم نے ایک ٹرک بھیجا تھا تو کئی دن صبح شام اس کی تشہیر کی جاتی رہی تھی ۔ اب جسقم کے ساتھ مل کر اپنے ہی پُرزور مطالبہ پر ہونے والی فوجی کاروائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے عام شہریوں کے سندھ میں داخلے کے خلاف ہڑتالیں کر رہے ہیں
ہم جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟
کسی قوم کی اور کیا بدقسمتی ہو گی کہ اُس کے رہنما جھوٹ بولیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قوم کے افراد اُسے قبول کر لیں یا کم از کم اُس پر اعتراض نہ کریں
تازہ ترین مثال یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نے 18 مئی 2009ء کو کُل جماعتی اجلاس بُلایا ۔ اُس میں جو متفقہ قراردار منظور کی گئی اس میں کہیں ذکر نہیں کہ سب جماعتوں نے فوجی کاروائی کی حمائت کی ۔ اُلٹا فوجی کاروائی پر اعتراضات کئے گئے ۔ لیکن اجلاس کے بعد وزیرِ اطلاعات نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ یہ بیان دیا کہ سب جماعتوں نے فوجی کاروائی کی حمائت کی ۔ اسی پر بس نہیں ۔ صدر صاحب نے سمجھا کہ وہ اپنا حق ادا نہیں کر سکے اور انہوں نے 19 مئی کو بیان داغ دیا کہ پوری قوم فوجی کاروائی کی حمائت کرتی ہے
اللہ کی مہربانی تو ہر صورت ہے ہی ۔ اس کے بعد شاید میرے بزرگوں اور اساتذہ کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ جب سے مجھے یاد ہے سمجھ لیں 10 سال کی عمر سے جو بات مجھے سمجھ نہیں آئی یہ ہے کہ لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ میرا اعتقاد ہے کہ جھوٹ کا بہت جلد عِلم ہو جاتا ہے کہ جھوٹ ہے
ملت کے رہبر کون ؟
میرے وطن میں باتیں کرنے والے تو بہت ہیں لیکن خاموشی سے پہاڑ جیسے کام کرنے والے کچھ لوگ بھی ہیں کہ اللہ نے دشمنوں کی تمامتر سازشوں اور حکمرانوں کے گُلچھڑے اُڑانے کے باوجود شاید انہی کی وجہ سے اس مملکتِ خدا داد پاکستان کو قائم رکھا ہوا ہے اور یہی لوگ ملت کے اصل رہبر ہیں ۔ ایسا ہی ایک خاندان صوبہ سرحد کے ایک قصبہ تراکئی میں ہے جنہوں نے نقل مکانی کر کے آنے والے صرف اپنے عزیز و اقارب کو ہی نہیں ہزاروں غیروں کو بھی اپنے گھروں میں پناہ دے رکھی ہے اور ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں
تراکئی کا ایک مالدار سیاسی خاندان ہے جس کے سربراہ کا نام لیاقت ہے ۔ اس خاندان نے اپنے عزیز و اقارب کے تعاون سے مختلف علاقوں میں اپنی ذاتی زمینوں پر 7 کیمپ بنائے ہیں اور ان میں کل شام [15 مئی] تک 15000 افراد کو پناہ دی ہے اور مزید 500 کو اپنے گھروں میں رکھا ہے ۔ یہ خاندان ان مہمانوں کی تمام ضروریات پوری کر رہا ہے ۔ انہیں صبح کا ناشتہ ۔ دو وقت کا کھانا ۔ تین وقت چائے ۔ پینے کا ٹھنڈا پانی مہیا کیا جا رہا ہے ۔ مہمانوں کی طبی ضروریات کیلئے ڈاکٹر ۔ نرسیں ۔ دوائیوں کی سہولت موجود ہے ۔ دن رات ایمبولینس اور دوسری ٹرانسپورٹ بھی استعمال کیلئے موجود رہتی ہے ۔ اس پر بھی لیاقت نے کہا “مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے ان مہمانوں کو صبح کے ناشتہ میں پراٹھے مہیا نہیں کر سکا کیونکہ ان کی تیاری میں وقت بہت لگتا ہے “۔ کیمپوں کی تفصیل یہ ہے ۔ 2 شیوا اڈا میں ۔ ایک تولاندئی میں ۔ ایک بازارگئی میں اور 3 تراکئی میں ہیں ۔ پہلے دن 2 کیمپ تیار کئے گئے تھے جو بڑھ کر 7 ہو چکے ہیں ۔ اول روز سے ان تمام کیمپوں میں لگے ہر خیمے میں بجلی اور بجلی کا پنکھا موجود ہیں ۔ گھروں میں جہاں مہمانوں کو رکھا گیا ہے ہر کمرے میں بجلی اور پنکھا موجود ہیں
ایک طرف حکومتی کاروائیوں کی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اشتہار بازی پر زور ہے اور حقیقت سے بہت زیادہ بتایا جا رہا ہے ۔ اسی طرح ایم کیو ایم نے کراچی سے ایک ٹرک بھیجا تو دن رات چھوٹے چھوٹے وقفوں سے ہر ٹی وی چینل پر اسے دکھایا جاتا رہا ۔ دوسری طرف یہ بلند مرتبت اور بلند ہمت خاندان ذرائع ابلاغ کے نرغے میں آنا پسند نہیں کرتا ۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ سب کچھ انسانیت کی خدمت کیلئے کر رہے ہیں جو ان کا بحثیت انسان اور مسلمان فرض ہے اسلئے دکھاوا سے اپنا عمل ضائع نہیں کرنا چاہتے
کیا ہم عقلبند ہیں ؟
نہیں جناب ۔ میں نے اِملا کی غلطی نہیں کی ۔ میں نے عقلبند ہی لکھا ہے ۔ عقلبند کا مطلب ہے کہ عقل کو مقُفل رکھنا یعنی عقل سے کام نہ لینا مبادا خرچ نہ ہو جائے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حُکمران اور بہت سے ہموطن آجکل عقلبند ہو چکے ہیں ۔ شمال مغربی علاقہ جہاں فوجی کاروائی جاری ہے کی مصدقہ خبر بعد میں ۔ پہلے ۔ ۔ ۔
میں بیزار تھا ۔ نہ کچھ پڑھنے کو جی چاہتا تھا نہ لکھنے کو ۔ ایسے ہی ٹی وی لگا کر خبط الحواس بنا بیٹھا تھا کہ ایک فقرے نے چونکا دیا “کوئی بھی شخص ہتھیار اُس وقت اُٹھاتا ہے جب معاشرہ اُسے انصاف نہیں دے پاتا “یہ الفاظ تھے ایک بھارتی قلم کار اور سماجی کارکن ارن دھتی رائے کے جسے میں نے چوکنے کے بعد پہلی بار دیکھا ۔ وہ کراچی میں موجود تھی اور برملا بول رہی تھی ۔ ارن دھتی رائے نے مزید کہا “وہ نوجوان جو عورتوں پر پلاسٹک کے تھیلوں کی طرح پابندی لگانا چاہتا ہے وہ بھی کسی فیکٹری میں تیار ہوا ہے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح پلاسٹک بیگ کسی فیکٹری میں تیار ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیکٹری کہاں ہے ؟ اور اسے کون چلا رہا ہے ؟” ارن دھتی رائے نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ” جب آپ کہتے ہیں طالبان ۔ تو آپ کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ کیا اس سے مراد عسکریت پسند ہے ؟ یا اس سے مراد کوئی نظریہ ہے ؟ دونوں سے لڑنے کا طریقہ الگ الگ ہے ۔ جنگ سے یہ چیزیں ختم نہیں ہو سکتیں ۔ دہشتگردی کے خلاف جو جنگ لڑی جا رہی ہے ۔ اُس نے دنیا کو پہلے سے بھی زیادہ خطرناک بنا دیا ہے ”
اب آتے ہیں تازہ ترین مگر اہم خبر کی جانب ۔ فوجی کاروائی سے متاءثرہ علاقوں سے آئے ہوئے لوگ جہاں پناہ گزین ہیں وہاں ہمارے محلہ کا ایک وفد فوری امداد کے سلسلہ میں مطالعہ کرنے گیا تھا کہ کس نوعیت کی اور کتنی مقدار میں مدد درکار ہے وہ واپس آ گئے ہیں ۔ جو کچھ اُن بھائیوں نے بتایا ہے اسے بیان کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے ۔ میں صرف چند جو جگر پاش نہیں ہیں تحریر میں لانا چاہتا ہوں
فوجی کاروائی سے قبل اعلان کیا گیا کہ آپ کے پاس اتنا وقت ہے علاقہ خالی کر دیں ۔ مقررہ وقت کے بعد کے ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔ وقت اتنا کم تھا کہ ایک عورت جو اپنے گھر کے صحن میں کپڑے دھو رہی تھی اور اس کا ننھا بچہ کمرے میں سویا ہوا تھا وہ اپنے لپٹے ہوئے بچے کو اُٹھا کر گھر سے نکل بھاگی ۔ کچھ دور جا کر اسے احساس ہوا کہ وہ لپٹے ہوئے بچے کی بجائے کچھ اور لپٹا ہوا اُٹھا کر آ گئی ہے ۔ پھر دیوانہ وار بھاگتی ہوئی گئی اور اپنے بچے کو اُٹھا کر لائی ۔ سب لوگوں کو 15 سے 40 کلو میٹر پیدل چل کر کسی مقام پر سانس لیا جو لوگ چپلیوں میں بھاگے تھے ان کی چپلیاں ٹوٹ گئیں اور راستہ میں پاؤں زخمی ہو گئے
ایک شخص نے وفد سے سوال کیا ” اس طرح اعلان کرنے سے کیا عسکریت پسند وہاں بیٹھے رہے ہوں گے کہ فوج آئے اور اُنہیں ہلاک کر دے ؟” وہ بولتا رہا ” پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا اور جب کاروائی کے بعد امن کی اطلاع ملی تو ہم خوشی خوشی اپنے گھروں کو لوٹے ۔ مگر ہماری خوشی خاک میں مل گئی جب ہم نے دیکھا کہ ہمارے گھر اور دکانیں وغیرہ تباہ ہو چکے ہیں اور پھر عسکریت پسندوں نے ہمارے ساتھ زیادہ سختی برتنا شروع کر دی تھی”
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ارن دھتی رائے نے جو خیال ظاہر کیا وہ پاکستان میں کسی کو نہیں سوجھتا یا انہوں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی ؟
عقلبند اور عقلمند کا فیصلہ قارئین خود کر لیں
ماں کا ایک دن یا عمر بھر
کل دنیا میں ماں کا دن [Mothers Day] منایا گیا ۔ جب کوئی قوم مادہ پرست یا مردہ پرست ہو جائے تو زندگی کی عمدگیوں سے محروم ہو جاتی ہے اور بظاہر ترقی دراصل اُس کا بحثیت انسان تنزل ہوتی ہے ۔ والدین بالخصوص ماں کی خدمت بنی نوع انسان پر ہر لمحہ فرض ہے اور والدین کی حُکم بجا آوری کا اللہ سُبحانہُ و تعالٰی نے متعدد بار حُکم دیا ہے سوائے اس کے کہ کفر یا شرک کا حُکم دیں ۔ دین سے دور ہو جانے والے لوگوں کی اکثریت مادی دنیا میں کھو کر ماں جیسی عظیم ہستی کی خدمت میں ملنے والی نعمتوں سے نا آشنا ہو چکی ہے اور رسمی طور پر اپنی پردہ پوشی کیلئے ماں کی یاد کو صرف ایک دن پر محمول کر دیا ہے ۔ بدقسمتی ہے ہماری قوم کی کہ اب میرے ہموطن بھی اُن کے ساتھ شامل ہوناشروع ہو گئے ہیں ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ماں کا دن نہ منایا جائے ۔ ایسا کریں گے تو انفرادی طور پر مجھے اور میری بیگم کو نقصان ہو گا یعنی ہمارے بیٹے ۔ بہو بیٹی اور پیاری پوتی کا بھیجا ہوا جو کیک ہم نے کل کھایا ہے اور جو تحفے پچھلے سالوں میں اِنہوں نے ۔ بیٹی نے ۔ چھوٹے بیٹے اور چھوٹی بہو بیٹی نے ہمیں بھیجے یا دیئے وہ ملنا بند ہو جائیں گے ۔
۔ اللہ کی مہربانی سے ہمارے بچے ہمیشہ سے ہمارا بہت خیال و خدمت کرتے ہیں اور اس طرح کے دنوں کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہم پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی بڑی رحمت ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ سب کو ایسی اولاد دے ۔ میرا بڑا بیٹا زکریا ۔ بڑی بہو بیٹی اور ہماری پیاری پوتی امریکہ میں ہیں ۔ چھوٹا بیٹا فوزی اور چھوٹی بہو بیٹی سوا سال سے دبئی میں ہیں اور بیٹی ہمارے پاس ہے
کچھ لوگ ماں کی قبر پر کتبہ لکھ کر اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

دن منانے کے ساتھ ساتھ ماں کا ہمیشہ خیال رکھنا اور خدمت کرنا چاہیئے ۔ ماں کی زندگی میں اس کی خدمت کا نہ صرف بہت اجر ہے بلکہ اس سے خدمت کرنے والے بچے کو سکون بھی ملتا ہے اور میرا یقین ہے کہ اللہ ایسے بچوں کی بالخصوص مدد کرتا ہے ۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ماں کے پاؤں میں جنت ہے ۔ رسول اللہ سیْدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا “غارت ہو وہ جس نے بوڑھے والدین پائے اور اُس کی بخشش نہ ہوئی” ۔ مطلب یہ ہے کہ والدین کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکا
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت ۔ 36 ۔ ۔ اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ اللہ تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا
سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آیت ۔ 151 ۔ ۔ کہو [لوگو] آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کر دی ہیں ۔ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ [سے بدسلوکی نہ کرنا بلکہ] سلوک کرتے رہنا ۔ ۔ ۔
سورت ۔ 17 ۔ بنٔی اسرآءیل ۔ آیات ۔ 23 و 24 ۔ ۔ اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو ۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں [شفقت سے] پرورش کیا ہے تو بھی اُن [کے حال] پر رحمت فرما
[تبصرہ ۔ انسان اُس وقت اُف کرتا ہے جب اُسے تکلیف پہنچتی ہے ۔ سو اللہ کا حُکم ہے کہ اگر والدین سے کوئی تکلیف بھی پہنچے تو بُرا نہ مناؤ]
سورت ۔ 31 ۔ لقمٰن ۔ آیات ۔ 14 و 15 ۔ ۔ اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے [پھر اس کو دودھ پلاتی ہے] اور [آخرکار] دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے [اپنے نیز] اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی [کہ تم کو] میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا [کے کاموں] میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا
سورت ۔ 46 ۔ الاحقاف ۔ آیات ۔ 15 تا 18 ۔ ۔ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا۔ اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا ڈھائی برس میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے۔ اور میرے لئے میری اولاد میں صلاح [وتقویٰ] دے۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں
یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے اور ان کے گناہوں سے درگزر فرمائیں گے اور [یہی] اہل جنت میں [ہوں گے]۔ [یہ] سچا وعدہ [ہے] جو ان سے کیا جاتا ہے
اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ اُف اُف! تم مجھے یہ بتاتے ہو کہ میں [زمین سے] نکالا جاؤں گا حالانکہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اور وہ دونوں اللہ کی جناب میں فریاد کرتے [ہوئے کہتے] تھے کہ کم بخت ایمان لا۔ اللہ کا وعدہ تو سچا ہے۔ تو کہنے لگا یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں
یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں جنوں اور انسانوں کی [دوسری] اُمتوں میں سے جو ان سے پہلے گزر چکیں عذاب کا وعدہ متحقق ہوگیا۔ بےشک وہ نقصان اٹھانے والے تھے
اللہ کم از کم سب مسلمانوں کو ماں کی عظمت کو عملی طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
بقیہ ۔ بنیادی مجرم کون ؟
ہند کے مسلمانوں کی اکثریت کسی کا بھی غلام بننے پر نفسیاتی طور پر تیار ہو چکی تھی کہ مولانا الطاف حسین حالی کو فکر ہوئی اور اُنہوں نے عرضداشت شروع کی ۔ مسلمانوں نے انگڑائی لی مگر جاگ نہ پائے ۔ پھر مولانا شوکت علی نے یہ جھنڈا اُٹھایا جس کے بعد اُن کے چھوٹے بھائی محمد علی جوہر اور فرزندِ سیالکوٹ محمد اقبال نے اپنے خطوط ۔ تقاریر اور کردار سے قوم کو جاگنے پر مجبور کر دیا ۔ اُن دونوں نے ہند میں کانگرس کی سیاست سے تنگ آ کر برطانیہ واپس گئے ہوئے محمد علی جناح کو قائل کیا کہ آپ کی ہند کے مسلمانوں کو ضرورت ہے ۔ اُنہوں نے واپس آ کر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور اپنی بے لوث انتھک محنت سے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی
پاکستان بنا تو سب پاکستانی سینہ تان کر چلتے ۔ اپنے مُلک پر فخر کرتے اور اس کی ترقی کیلئے محنت سے کام کرتے تھے ۔ اِن میں مقامی بھی شامل تھے اور وہ بھی جو اپنا گھربار چھوڑ کر پاکستان آئے تھے ۔ قائداعظم کی وفات کا قوم کو جھٹکا تو لگا مگر محنت اور حُب الوطنی میں فرق نہ آیا ۔ پھر پہلے وزیرِاعظم کے قتل کے بعد قوم ابھی سنبھل نہ پائی تھی کہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی منتخب کردہ اسمبلی غلام محمد نے توڑ دی ۔ غلام محمد اور اس کے بعد سکندر مرزا کے پُتلی تماشہ سے تنگ آ کر 1958ء میں ایک پختون عبدالقیوم خان نے قوم کو پکارا ۔ سوجھ رکھنے والے اہلِ وطن نے لبیک کہا اور عبدالقیوم خان نے پشاور سے لاہور تک 6 میل لمبا جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا ۔ پشاور سے جلوس روانہ ہوا اور جہلم پہنچنے سے پہلے ہی 20 میل سے زائد لمبا ہو گیا ۔ سکندر مرزا گھبراگیا اور مارشل لاء لگا دیا
اس مارشل لاء کے دوران معاشی حالات 1965ء کے آخر تک ٹھیک رہے ۔ لوگوں کو آسانی سے دو وقت کی روٹی ملنے لگی ۔ پیٹ بھر گئے تو لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جگڑنے لگے ۔ آپریشن جبرالٹر کی غلط معلومات پر مبنی تشہیر نے عوام میں غلط جذبات کو جنم دیا اور ناکامی کے نتیجہ میں لوگ حکومت پر اعتماد کھو بیٹھے اور چینی کی قیمت میں 9 فیصد اضافے کی وجہ سے سڑکوں پر نکل آئے ۔ مارشل لاء پھر آ گیا
عوامی دور آیا اور پرچی ایجاد ہوئی اور معاملہ “جس کی لاٹھی اُس کی بھینس” تک پہنچ گیا ۔ صنعتوں اور تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے اور وہاں حُکمران جماعت کے کارکنوں کی بھرتی کے نتیجہ میں صنعتکار اپنا پیسہ مُلک سے باہر لے گئے اور عوام روزگار کی تلاش میں مُلک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ دساور سے کمایا پیسہ معیشت کیلئے بہت کم استعمال ہوا ۔ زیادہ تر فضولیات میں اُڑا دیا گیا جن میں وی سی آر ۔ میوزک ڈیک اور دوسری دکھاوے کی اشیاء کے علاوہ شادی کی کئی کئی دن بڑی بڑی دعوتیں شامل ہیں ۔ کچھ لوگ امیر اور مُلک غریب ہو گیا ۔ 1977ء کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کو گولی کے زور پر روکنے کی کوشش کی گئی ۔ دو تین روز کی کاروائی کے بعد لاہور پولیس کی حُب الوطنی جاگ اُٹھی اور اُس نے کاروائی سے انکار کیا ۔ فوج بلائی گئی جس کی صرف ایک کاروائی کے بعد کاروائی کے سربراہ بریگیڈیئر نے کور کمانڈر کے سامنے اپنے بِلے اور پیٹی رکھتے ہوئے کہا “میں اپنے بھائیوں کی حفاظت کیلئے بھرتی ہوا تھا ۔ اُن کے قتل کیلئے نہیں”
دوسرے شہریوں کو دیکھتے ہوئے فوجیوں نے بھی مال بنانا شروع کیا اور وہ منہ زور ہو گئے ۔ عدالتوں کو لیٹرل اَینٹری [lateral entry] کی کھاد پہلے ہی پڑ چکی تھی ۔ معاشرے کی درستگی کرنے والے ناپید ہو گئے ۔ سیاستدانوں کے جھوٹے نعروں اور دوغلے کردار نے “سونے پر سہاگہ” یا زیادہ موزوں ہو گا ” ایک کریلہ دوسرے نیم چڑھا” کا کام کیا ۔ پھر ایک ڈکٹیٹر نے نہ صرف قوم کے فرزندوں کے خون سے ہاتھ رنگے بلکہ سینکڑوں کو ڈالروں کے عِوض بیچ دیا ۔ لوٹ مار اتنی بڑھی کہ سمجھ سے باہر ہو گئی
قوم کو بھُلانا نہیں چاہیئے تھا خان عبدالقیوم خان کو جس نے اپنے وقت کے ڈکٹیٹر کے خلاف آواز اُٹھائی اور قید و بند جھیلی ۔ لاہور کے اُن تھانیدار اور بریگیڈیئر کو جنہوں نے اپنی قوم پر گولی چلانے کی بجائے ملازمت سے مستعفی ہونے کو ترجیح دی ۔ مگر قوم کی کوتاہ اندیش اکثریت نے صرف اتنا خیال رکھا کہ مال کتنا اور اکٹھا کرنا ہے ۔ قوم غلط راہ پر آگے بڑھتی گئی اور قومی جذبہ اور احساسِ زیاں کھو بیٹھی ۔ 12 اکتوبر 1999ء کو ملک کے وزیرِاعظم کو جبری ہٹا دیا گیا لیکن قوم سوئی رہی
دین سے بیگانہ قوم نے جاہلانہ رسم و رواج میں گُم ہو کر اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں میں کیڑے نکالنا شغف اپنایا اور نتیجہ میں ہونے والی اپنی بربادی کا دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرایا ۔ کچھ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے والے اور آگے بڑھے اور قائداعظم میں کیڑے نکانے شروع کئے اور اپنے ہاتھوں تیار کردہ جہنم کو دین کی قباحت قرار دیا ۔ چار دہائیاں قبل بے معنی مباحث کی جگہ حجام کی دُکان ہوا کرتی تھی ۔ قوم پٹڑی سے اُتر گئی اور ہر محفل لاحاصل مباحث کا مرکز بن گئی ۔ دین اور مُلک کے آئین و قانون کی خلاف ورزی روز کا معمول بن گئی ۔ یہ کسی قوم کے زوال کی آخری نشانی ہوتی ہے
حکومت نے اُس علاقہ میں جہاں کبھی بھی مُلک کا آئین نافذ نہیں کیا گیا تھا امن قائم کرنے کیلئے 15 سال پرانا عدل ریگولیشن نافذ کرنے کی منظوری دی تو 1500 کلو میٹر دُور بیٹھے لوگوں نے طوفان مچا دیا ۔ ریاست کے اندر ریاست کا شور مچانے والے اتنا بھی نہیں جانتے کہ اُن کے پسندیدہ مُلک امریکہ میں مختلف علاقوں کے قوانین مختلف ہیں جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہم جنس پرستی جو اُن کے مذہب کے مطابق بھی گناہِ کبیرہ ہے وہ کسی علاقہ میں جُرم ہے اور کسی میں قانون کے عین مطابق
اگر ہماری قوم کی اکثریت سرد مہری ۔ بے حِسی یا بیوقوفانہ خودغرضی کا شکار نہ ہوتی تو کوئی ڈکٹیٹر مُلک پر قبضہ نہیں کر سکتا تھا اور نہ کوئی مُلک خواہ امریکا ہی ہو ہمارے مُلک میں مداخلت تو کیا اس کی طرف بُری آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ اسی سرد مہری ۔ بے حِسی اور خودغرضی کی وجہ سے ہماری قوم نے مشرقی پاکستان گنوایا تھا اور باقی کو اس حال میں پہنچایا جہاں آج ہے ۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کے بانیوں میں سے ایک بنجامِن فرینکلِن [Benjamin Franklin] سے 1787ء میں کسی نے پوچھا “آپ نے ہمیں کیا دیا ہے؟” اُس نے جواب دیا “جمہوریت ۔ اگر آپ لوگ اسے سنبھال سکیں” ۔ ہماری قوم کو قائداعظم نے ایک مُلک اور جمہوریت زبردست سیاسی قوت کے ساتھ دی تھی ۔ آدھی صدی میں ہم نے اُس کا جو حال کر دیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ جمہوریت مضبوط اداروں کی بنا پر ہوتی ہے اور اداروں کو فعال رکھنے کیلئے مسلسل جد و جہد ضروری ہوتی ہے ۔ اگر گھر یا دفتر میں بیٹھے اداروں کی صحت کی سند جاری کر دی جائے تو ادارے انحطاط کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اداروں کے اصل محافظ عوام ہوتے ہیں ۔ ایک فرانسیسی مفکّر [Montesquieu] نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں کہا تھا ” بادشاہت میں ایک شہزادے کا ظُلم و تشدد عوامی بہبود کیلئے اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا جمہوریت میں ایک شہری کی سرد مہری”
مئی 2006ء میں ایک نوجوان سیّد عدنان کاکا خیل اُٹھا اور اسلام آباد کے کنوینشن سینٹر میں مُلک کے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو آئینہ دکھا دیا ۔ فروری 2007ء میں اس کی وڈیو کی سی ڈی راولپنڈی بار میں پہنچی اور وکلاء نے بار بار دیکھی ۔ مارچ 2007ء میں پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معطل کیا تو راولپنڈی کے وکلاء کی حُب الوطنی جاگ چکی تھی چنانچہ وکلاء کی تحریک شروع ہوئی جو دو سال زندہ رکھی گئی
قوم کو مرہونِ منت ہونا چاہیئے سیّد عدنان کاکا خیل کا اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کا جس نے ایک باوردی ڈکٹیٹر کے سامنے جھُکنے سے انکار کیا اور قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں اور اُن وکلاء کا جنہوں نے اپنی روزی پر لات مار کر ۔ اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک عمدہ تحریک چلائی ۔ قوم کو شکرگذار ہونا چاہیئے اُن درجنوں بوڑھوں کا اور سینکڑوں جوانوں کا جنہوں نے تمام پابندیوں کو توڑ کر اور 200 اشک آور گیس کے گولے برداشت کرکے لاہور جی پی او چوک پر پورا دن احتجاج کیا ۔ قوم کو آفرین کہنا چاہیئے اُس سپرنٹنڈنٹ پولیس گُوجرانوالا کو جس نے غیر قانونی حُکم ماننے سے انکار کیا ۔ قوم کو مشکور ہونا چاہیئے اُس مجسٹریٹ کا جس جی پی او چوک لاہور پر احتجاج کرنے والوں پر گولی چلانے کے غیر قانونی حُکم کو ماننے سے انکار کیا ۔ میاں نواز شریف کو بھی کچھ تو داد دینا چاہیئے جس نے اپنی جان داؤ پر لگا غیرقانونی نظربندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولیس کا حصار توڑا اور جلوس کی سربراہی کر کے اُسے کامیاب بنایا ۔ اللہ کی کرم فرمائی ہے کہ ابھی اس قوم میں زندگی کی رمق باقی ہے ۔ سچ کہا تھا شاعرِ مشرق نے
نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ۔ ابھی تو جمہوریت کے سکول میں داخلہ لیا ہے ۔ بہت سے سبق یاد کرنا اور کئی امتحان دینا باقی ہیں اور اِن شآءَ اللہ کامیاب بھی ہونا ہے
سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ۔
اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے