Category Archives: معاشرہ

مہنگائی کیوں ؟

بچپن میں یعنی چار دہائیاں قبل تک ہم سُنا کرتے تھے کہ رزق کی قدر کرنا چاہیئے یعنی اسے ضائع نہیں کرنا چاہيۓ ۔ پانی ضائع کرنے پر بھی سرزنش ہوتی تھی گو اس زمانہ میں آج کی طرح پانی کی قلت نہ تھی ۔ عام دعوت ہوتی یا شادی کی دعوت ، لوگ اس طرح کھاتے کہ پلیٹ یا پیالے میں کچھ باقی نہ چھوڑتے کئی لوگ پلیٹ کو بھی اچھی طرح صاف کر لیتے جیسے اس میں کچھ ڈالا ہی نہ گیا تھا ۔ ہڈی پر کوئی گوشت کا ریشہ نہ چھوڑتا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس زمانہ میں تھوڑے میں بھی بہت برکت ہوتی تھی اور لوگ خوشحال نظر آتے تھے

دورِ حاضر میں کسی دعوت کے بعد پلیٹوں میں گوشت ۔ چاول یا روٹی اتنی زیادہ پڑی پائی جاتی ہے کہ انہیں اکٹھا کرنا دوبھر ہو جاتا ہے ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تھوڑا کھانا ہو تو زیادہ ڈالا ہی کیوں جاتا ہے ۔ اگر اپنے پیٹ کا ہی اندازہ نہیں تو پہلے تھوڑا لیا جائے پھر اگر مزید بھوک ہو تو اور ڈال لے لیا جائے

عام سی بات ہے کہ جس کی عزت یا احترام نہ کیا جائے وہ دُور ہو جاتا ہے ۔ یہی حال اناج کا ہے ۔ آجکل اس کی قدر نہیں کی جاتی اسلئے یہ عوام سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ پانی کی بات کریں تو اس کی بہت قلت ہے لیکن جہاں پینے کا صاف پانی ہے وہاں سڑکوں پر بہتا نظر آتا ہے

بجائے اپنے آپ کو سُدھارنے کے دھواں دار تقاریر معمول بن چکا ہے ۔ ہر دم دوسروں احتساب کرنے والے کب اپنا احتساب کر کے اپنے اندر موجود برائیوں کے خلاف برسرِ پیکار ہوں گے ؟

ذہانت اور وکالاتِ ذہانت

ذہانت ایسی خُو ہے جس کا بنیادی مادّہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کے دماغ میں رکھا ہے البتہ ذہانت کی نشو و نما کیلئے اس کا درُست متواتر استعمال ضروری ہے ورنہ اِسے زنگ لگ جاتا ہے ۔ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے سے بھی ذہانت کا استعمال کم ہو جاتا ہے ۔ زنگ لگ جانے کی صورت میں معمولی باتیں بھی سمجھ میں نہیں آتیں ۔ دورِ حاضر میں جس طرح عام آدمی [common man] میں عمومی سُوجھ بُوجھ [common sense] کم ہی ملتی ہے اسی طرح وکالاتِ ذہانت [intelligence agencies] کے اہلکار ذہانت کا استعمال کم ہی کرتے ہیں ۔ عام آدمی محدود وسائل اور فکرِ معاش میں مبتلا ہونے کے باعث کسی اور طرف توجہ نہیں دے سکتا لیکن وکالاتِ ذہانت کے ارکان ذرائع اور اختیارات کی فراوانی کی وجہ سے اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ عقلِ کُل ہیں ۔ ایسا رویّہ اُن کی ذہانت پر بُری طرح اثرانداز ہوتا ہے ۔ فرسودہ نظامِ تفتیش رہی سہی کسر پوری کر دیتا ہے

غُوغا تو جدیدیت کا بہت ہے لیکن تفتیش کیلئے فی زمانہ بھی ہزاروں سال پرانے طریقے ہی استعمال کئے جاتے ہیں صرف اوزار جدید ہیں جو نفسیاتی اثر رکھنے کی وجہ سے زمانہ قدیم سے زیادہ تشدد کا سبب بنتے ہیں اور زیرِ تفتیش شخص کا ذہنی توازن مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ گونٹاناموبے میں امریکی جیل میں مُلزمان سے کیا جانے والا سلوک اس کی ایک ادنٰی سی مثال ہے

دورِ حاضر میں تفتیش کا طریقہ جو قدیم زمانہ میں نہ تھا یہ ہے کہ وکالات ذہانت کے اہلکار اپنی مرضی کے چُنے ہوئے شواہد پر ایک کہانی مرتّب کرتے ہیں اور اس میں مفروضہ مُلزِم یا مُلزِموں کو کردار عطا کرتے ہیں ۔ اس کہانی کا ہیرو گرفتار شدہ یا نامزد ملزم ہوتا ہے ۔ اگر گرفتار ملزم تفتیش کاروں کی پٹڑی پر چڑھ جائے تو اُسے وِلیئن [villain] کا کردار بھی دیا جا سکتا ہے ۔ اسے مناسب معاوضہ دے کر کسی اور تک پہنچا جاتا ہے

طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ گرفتار ملزم کو تیار شدہ کہانی سنائی جاتی ہے ۔ اگر وہ اقرار نہ کرے تو اس پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیا جاتا ہے ۔ جب ملزم نڈھال ہو جائے تو اسے پھر اُسی کہانی کا کردار بننے کو کہا جاتا ہے ۔ یہ عمل ہر بار پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ دُہرایا جاتا ہے اور ذہنی اذیت کے طریقے بدل بدل کر استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اگر ملزم کی کوئی دُکھتی رگ تفتیش کاروں کے عِلم میں آجائے تو وہ ملزم سے سب کچھ منوا لیتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک پچاس پچپن سالہ عزّت دار مرد کو کہا جائے کہ “اگر تم تعاون نہیں کرو گے تو تمہاری جوان بیٹی کو ہم یہاں لے آئیں گے ۔ اُس کے سامنے تمہیں ننگا کریں گے اور تفتیش کریں گے “۔ تو وہ شخص تمام ناکردہ جرائم اپنے سر لینے کے لئے تیار ہو جائے گا تاکہ اس کی بیٹی اُسے ننگا ديکھنے اور تفتیش کی اذیت سے بچ جائے

جدید آلات کا استعمال اس طرح بھی کیا جاتا ہے کہ پہلے مفروضہ مُلزمان کے بیانات ریکارڈ کر لئے جاتے ہیں ۔ تفتش کاروں کے پاس اُجرتی آواز نقل کرنے والا شخص ہوتا ہے ۔ وہ نقال ٹیپ سُن سُن کر آواز کی نقل کی مشق کر لیتا ہے ۔ پھر اُسے ایک خود ساختہ بیان لکھ کر دیا جاتا ہے جو نقال اُس آواز میں پڑھ دیتا ہے اور اُسے ریکارڈ کر لیا جاتا ہے ۔ اس بیان میں مفروضہ ملزمان میں سے ایک کا اقبالِ جُرم ہوتا ہے ۔ اس مصنوعی بیان کی ٹیپ پھر دوسرے ملزمان کے سامنے چلا کر اُنہیں جُرم قبول کرنے کیلئے ہر طرح کا دباؤ ڈالا جاتا ہے اور جُرم قبول نہ کرنے کی صورت میں مختلف طریقوں سے ڈرایا جاتا ہے اور ذہنی اذیت بھی دی جاتی ہے ۔ اس طرح بھی گرفتار آدمی ناکردہ جُرم اپنے سر پر لینے پر مجبور ہو جاتا ہے

مندرجہ بالا سطور میں جو سادہ سا خاکہ پیش کیا گیا ہے حقائق اس سے بہت زیادہ بھیانک ہیں ۔ یہ طریقے صرف وطنِ عزیز یا بھارت میں ہی نہیں بلکہ امریکہ اور کئی مغربی ممالک میں بھی زیرِ استعمال ہیں ۔ چنانچہ وکالاتِ ذہانت [intelligence agencies] کے گرفتار کئے ہوئے کسی شخص کا بیان درست ہے یا غلط یہ وہ خود جانتا ہے یا پھر اللہ جانتا ہے

ہمارے متعلقہ مُلکی ادارے کیا تھے ۔ اب کیا ہیں اور کیا ہونا چاہیئے اس کیلئے میری اگلی تحریر اِن شاء اللہ جلد

ہر اچھی چیز کا قاتل دور

میرے بچپن کی یادوں میں ذرائع ابلاغ کے کھاتے میں دو چیزوں سے میرا جذباتی لگاؤ رہا ۔ وہ ہیں

اخبار ۔ سِول اینڈ مِلٹری گزٹ۔ جو میں نے ساتویں جماعت میں پڑھنا شروع کیا اور سات آٹھ سال بعد اس کی اشاعت بند ہونے تک پڑھتا رہا ۔ اس میں چھپنے والی قسط در قسط ریاست جموں کشمیر کے متعلق اقوامِ متحدہ کی کاروائی کے تراشے آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں

رسالہ ۔ ریڈرز ڈائجسٹ جو میں نے آٹھویں جماعت میں پہنچتے ہی سالانہ بنیاد پر لینا شروع کیا اور 40 سال متواتر خریدتا اور پڑھتا رہا

اللہ کی مہربانی سے ان دونوں نے مجھے انگریزی سمجھنے اور لکھنے کی استطاعت عطا کی ۔ ان دونوں کے عمدہ انگریزی میں لکھے مضامین کے علاوہ سِول اینڈ مِلٹری گزٹ کے معمے [Crossword puzzles] اور ریڈرز ڈائجسٹ کا اپنی لفظی استعداد بڑھاؤ [Increase your word power] ۔ ان دونوں ذرائع نے مجھے وہ گُر بخشا کہ میرے سکول و کالج کے اساتذہ کے بعد میرے افسران بھی میرے انگریزی میں لکھے مضامین کے معترف رہے

آج صبح سویرے جب میں نے پڑھا کہ ریڈرز ڈائجسٹ شائع کرنے والا ادارہ دیوالیہ ہو گیا ہے تو کچھ دیر کیلئے میں سکتے میں آ گیا ۔ زبان تو نہیں مگر میرا دِل گریہ کرنے لگا ۔ ثابت ہوا کہ دورِ حاضر میں کوئی اچھی چیز زندہ نہیں رہ سکتی

خبر
دنیا بھر میں ڈاکٹروں، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں میں یکساں مقبول اور عوامی انتظار گاہوں کی میزوں کی زینت ”ریڈرز ڈائجسٹ“ کی ایسوسی ایشن نے 90سال کے بعد گزشتہ روز عمداً دیوالیہ ہونے کے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے ،مذکورہ ایسوسی ایشن ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں رونما ہونے والے مالیاتی بحران کا حال ہی میں شکار ہوئی ہے ،ادارے کے حصص کی خریداری میں اہم سرمایہ کاری کرنے والی فرم” رپل وڈ ہولڈنگز“ جس نے 2006ء میں 2.4 بلین ڈالر کے متوقع منافع کا اعلان کر رکھا تھا کی 600ملین ڈالر کی تمام سرمایہ کاری مکمل طور پر ڈوب جائے گی ،ریڈرز ڈائجسٹ کا آغاز نیو یارک میں ایک بیوی اور شوہر نے 1921ء میں ایک کمرے سے کیا تھا ،اس وقت ڈائجسٹ کی ایسوسی ایشن کے 94 میگزینز میں سے 9 کی صرف امریکا میں ایک ملین سے زیادہ سرکولیشن ہے ، اس کے علاوہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا کے 78 ممالک میں130ملین افراد اس کے مستقل پڑھنے والے ہیں،گروپ کے انفارمیشن بیورو کے مطابق ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں معاشی بحران کے علاوہ لوگوں کے مطالعہ کرنے کی عادات اور رجحان میں تبدیلی کے باعث گزشتہ سال ادارے کے محاصل میں 18.4 فیصد کی ریکارڈ کمی ہوئی جبکہ رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران آمدنی کی اس کمی میں 7.2فیصد مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

بلاگستان کا جشنِ تعلیم

میرا مشاہدہ ہے کہ جدیدیت کے اس دور میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تعلیم کسے کہتے ہیں کیونکہ پڑھائی عام ہے اور تعلیم خال خال ۔ ہم 18 جولائی کو لاہور آئے ۔ جو مکان ہم نے کرایہ پر لیا ہے اس کے سامنے والے مکان میں جو صاحب رہتے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی ۔ کچھ دن بعد رات کو بجلی غائب تھی تو میں باہر کھُلی ہوا میں نکلا اتفاق سے وہ بھی باہر کھڑے تھے ۔ بات چیت کے دوران کہنے لگے “میرے بچے ایک اعلٰی معیار کے سکول میں پڑھتے ہیں ۔ پڑھائی اور لباس ٹھیک ہے تربیت کہیں نظر نہیں آتی”

میں وطنِ عزیز میں تعلیم کے حوالے سے صرف دو پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا لیکن پہلے اپنے پڑھائی کے طریقہ کار کا بالکل مختصر بیان ۔ میرا طریقہ دسویں جماعت تک یہ رہا کہ سکول کا کام [home task] وہیں فارغ وقت یا آدھی چھٹی [recess] کے دوران یا گرمیوں میں چھٹی کے بعد دھوپ ڈھلنے تک کسی درخت کے نیچے بيٹھ کر ختم کر لیتا ۔ گھر پہنچنے پر کھانا کھاتا پھر سودا سلف لاتا ۔ اس کے بعد ہاکی کھیلنے چلا جاتا ۔ واپس آ کر نہاتا اور تازہ دم ہو جاتا ۔ اگر کچھ کام رہ گیا ہوتا تو کر لیتا ورنہ بیٹھ کر اخبار یا رسالہ یا کوئی اور کتاب پڑھتا ۔ رات کا کھانا کھا کر عشاء کے فوراً بعد سو جاتا ۔ صبح فجر سے پہلے اُٹھ کر گھر سے دو کلو میٹر دور ايک دوست کے ساتھ جاتا ۔ وہاں سے پھلائی کی ٹہنی توڑ کر دونوں مسواک کرتے واپس لوٹتے ۔ گھر واپس آ کر نہاتا ۔ نماز پڑھتا اور جو سبق اس دن سکول میں پڑھنا ہوتا اس پر نظر ڈالتا ۔ اس کے بعد ناشتہ کر کے سکول روانہ ہو جاتا ۔ گیارہویں بارہویں میں اس معمول میں معمولی فرق پڑا لیکن انجنيئرنگ کالج میں تو سوائے پڑھائی کے اور کچھ نہ تھا ۔ راتوں کو جاگ کر پڑھنا معمول بن گیا کیوں کہ دن کا وقت بہت کم تھا

ایک پہلو
ہمارے سکول کالج کے زمانہ میں تعلیمی اداروں کا ماحول کچھ مختلف تھا ۔ اساتذہ کا اپنے شاگردوں کے ساتھ دلی لگاؤ محسوس کیا جا سکتا تھا ۔ سکول ۔ کالج وغیرہ سے فارغ ہو کر جب بھی میں نے مُڑ کر دیکھا مجھے محسوس ہوا کہ ہمارے اساتذہ نے ہمیں اس طرح تعلیم دی جیسے کہ ہم اُن کے اپنے پیارے بچے تھے ۔ پرائمری سے لے کر انجنیئر بننے تک جہاں تک مجھے یاد پڑھتا ہے ہمارے اساتذہ کبھی کبھی وقت بچا کر ہمیں ایک اچھا انسان یعنی حق پر چلنے والا ہمدرد انسان بننے کی ترغیب دیتے اور اس کا عملی طریقہ بھی سمجھاتے ۔ ہم پر اپنے اساتذہ کی باتوں کا بہت اثر ہوتا ۔ شریر سے شریر طالب علم بھی اساتذہ کا احترام کرتا ۔ اگر استاذ کسی کی سرزنش کرتا تو وہ اسے اپنی بہتری سمجھ کر قبول کرتا ۔ بہت کم دفعہ ایسا ہوا کہ کسی طالب علم نے غلط سزا کی شکائت کی

ہمارے بعد ایک دور آیا کہ بچے کی سرزنش سکول میں ہوئی تو والد صاحب استاذ سے بدلا چکانے سکول پہنچ گئے یا سکول سے گھر جاتے ہوئے لفنگوں سے ان کو سزا دِلوا دی ۔ دورِ حاضر میں تو استاذ کو شاگرد کا خادم تصور کیا جاتا ہے سو کسی استاذ کی مجال نہیں کہ کسی کے بچے کو بُری نظر سے دیکھ سکے

دوسرا پہلو
ہمارے زمانہ میں اکثر سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ براہِ راست مقرر کردہ کتابوں سے نہیں پڑھاتے تھے بلکہ نصاب [syllabus] کے مطابق پڑھاتے تھے اور ہدائت کرتےتھے کہ کتابیں خود پڑھیں ۔ یہی نہیں بلکہ کچھ اور کتابوں کے نام لکھوا دیتے کہ پانچ سات یا دس لڑکے مل کر خرید لیں اور باری باری پڑھیں ۔ اساتذہ کبھی خلاصہ [notes] نہیں لکھواتے تھے ۔ اس کی بجائے ہدائت کرتے کہ اچھی طرح پڑھ کر خود خلاصہ [notes] تیار کریں اور اگر چاہیں تو فارغ وقت میں مجھے [استاذ کو] دکھا دیں ۔ اگر استاذ سے اشارہ [guess] مانگتے کہ امتحان میں کیا آئے گا تو یا ڈانٹ پڑ جاتی یا کہا جاتا “جو تم نے نہ پڑھا وہی امتحان میں آئے گا”۔ اُس زمانہ میں سکول یا کالج کے داخلی [internal] امتحان کیلئے کوئی چھٹی نہ ہوتی تھی اور بورڈ یا یونیورسٹی کے امتحان کیلئے دو ہفتے کی چھٹیاں ہوتی تھیں ۔ ہر امتحان میں 7 میں سے 5 یا 8 میں سے 6 سوال کرنا ہوتے تھے اور ہر سوال کے ایک سے 4 جزو ہوتے تھے جبکہ ہر جزو ایک مکمل سوال ہوتا تھا

سنا تھا کچھ سال قبل تک 10 میں سے 5 سوال کرنا ہوتے تھے [اب کا مجھے معلوم نہیں]۔ پورے نصاب کی تیاری بہت کم طلباء کرتے تھے ۔ یہ بھی سنا ہے کہ امتحان میں تمام سوالات پڑھائی گئی کتابوں میں سے آتے ہیں ۔ اور چونکہ 10 میں سے 5 کی رعائت کے باعث اکثر تعلیمی اداروں میں پورا نصاب نہیں پڑھایا جاتا اسلئے نصاب سے باہر [out of course] کا شور مچتا رہتا ہے

يہی وجہ ہے کہ عِلم جسے ماضی میں بڑی دولت کہا جاتا تھا اب اس کی بجائے اسناد کی تعداد دولت بن گئی ہے ۔ جو طالب علم اپنے طور محنت کر کے عِلم حاصل کرتے ہیں کہ تعلیم یافتہ بن جائیں ان کی ہمارے ہاں کوئی قدر نہیں کچھ لوگ انہیں بیوقوف یا پاگل کا خطاب دیتے ہیں

زندگی کی حقیقت

ہر کوئی اپنے دوست سے کہتا ہے “ہم ہمیشہ دوست رہیں گے”۔ یہ وعدہ کتنا دیرپا ہوتا ہے ؟ کبھی کسی نے سوچا ؟

ایک وقت دو بہت گہرے دوست ہوتے ہیں ۔ کچھ عرصہ بعد دوست ہوتے ہیں ۔ مزید کچھ عرصہ بعد صرف ملنا جُلنا رہ جاتا ہے اور پھر کبھی ملتے بھی نہیں

عام طور پر تو ایسے ہوتا ہے کہ اِدھر آمنا سامنا ختم ہوا ۔ اُدھر دوستی ہِرن ہو گئی جسے کہتے ہیں آنکھ اَوجھل پہاڑ اَوجھل

لیکن ہر شخص کو دوست کی ضرورت ہوتی ہے اور دوست کی مدد بھی درکار ہوتی ہے

دوستی کو اگر بے غرض اور مُخلص رکھ کر وقت اور جغرافیہ میں قید نہ کیا جائے تو دوستی کا ہمیشہ قائم رہنا ممکن ہو سکتا ہے ۔ دوست تو ہوتا ہی وہ ہے جو آڑے وقت کام آئے لیکن دوستی کی بنیاد غرض ہو تو پھر ایسا نہیں ہوتا

کبھی کبھی ایسے بے مروت شخص سے بھی واسطہ پڑتا ہے کہ آپ اُس کے آڑے وقت کام آئیں لیکن وہ آپ کا دوست نہ بنے اور بعض اوقات آپ کو زِک پہنچائے ۔ یہ تجربہ بھی ایک لحاظ سے اچھا ہوتا ہے کہ دوست پہچاننے میں مدد دیتا ہے

ہر شخص کی زندگی میں ایسا لمحہ آتا ہے کہ کوئی دوست نہ ہونے کا احساس اُس کیلئے کرخت اور بعض اوقات وبالِ جان بن جاتا ہے
صرف اتنا سوچنا کہ میرا دوست ہے انسان کو بڑی بڑی پریشانیوں سے بچا لیتا ہے یا راحت کا باعث ہوتا ہے

بے لوث بھلائی کیجئے کہ بُرے وقت میں کئی لوگوں کی حقیقی دوستی کا تصور انتہائی خوشگوار اثرات کا حامل ہوتا ہے

سورت ۔ 41 ۔ سُورة فُصِّلَت یا حٰم السَّجْدَہ ۔ آیات 34 و 35 ۔ ۔ ۔ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، اور برائی کو بہتر [طریقے] سے دور کیا کرو اس کے نتیجہ میں وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا ۔ اور یہ [خوبی] صرف اُنہی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جو صبر کرتے ہیں، اور یہ [توفیق] صرف اسی کو حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب والا ہوتا ہے

تشریح

ماحول انسان کے ذہن پر اس قدر اثر انداز ہوتا ہے کہ بعض اوقات انسان کے لئے حقیقت کو سمجھنا ہی محال ہو جاتا ہے ۔ کل میں نے اسی حوالے لکھا تھا ۔ تشریح نہ کی کہ میں اسلام آباد گيا ہوا تھا ۔ وہاں بھتیجے کا کمپیوٹر استعمال کیا جس میں اُردو نہیں تھی

ماضی کی تلخیوں کو بھُلانا دینا چاہیئے مگر ان سے سبق ضرور حاصل کرناچاہیئے
حال میں رہنے کا مطلب ہے کہ نہ تو یہ سوچا جائے کہ بڑے آدمی کی اولاد چھوٹا کام نہ کرے اور نہ یہ کہ چھوٹے آدمی کی اولاد بڑا کام نہیں کر سکتی ۔ نہ مستقبل کے لئے خیالی پلاؤ پکائے جائیں بلکہ حال میں مستقبل کیلئے جد و جہد کی جائے

گاہے گاہے باز خواں

میری تحریر “امریکا نے میری سالگرہ کیسے منائی” پر کچھ تبصرے آئے ہیں جو عصر حاضر کےجوانوں کے لئے غور طلب ہیں

پاکستان سے محمد سعد صاحب نے لکھا
بہرحال، پاکستان کے موجودہ حالات میں میں لوگوں سے اس بات پر زیادہ توجہ دینے کی گزارش کروں گا کہ جاپانیوں نے جس ہمت کے ساتھ اس تباہی کا ازالہ کیا، اس سے ہمیں بھی کچھ سیکھنا چاہيئے۔

ہسپانیہ سے جاوید گوندل صاحب نے لکھا
ویسے عجب اتفاق ہے جنگل کے اس قانون میں امریکہ کا نام ہمیشہ ہی سب سے اوپر رہا ہے ۔ اور امریکہ اپنے آپ کو اشرف اقوام اور انتہائی تہذیب یافتہ کہلوانے پہ بھی سب سے زیادہ زور دیتا ہے ۔ طرف تماشہ یہ ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جاپان ہتھیار پھینکنا چاہ رہا ہے اور اس بات کا ٹرومین کو علم تھا]کیونکہ جاپانیوں نے باقاعدہ طور پر ہتھیار پھینکے کا پیغام ٹرومین کو بھیجا تھا ۔ ٹرومین کو جوہری بم کی انسانیت سوز ہلاکت کا بھی علم تھا ۔ اس بم سے ہیروشیما پر پہلے حملے کے بعد پتہ چل گیا تھا کہ ایٹمی بم نے کس قدر تباہی مچائی ہے مگر اس کے باوجود ٹرومین نے تیسرے دن ناگا ساکی پہ اٹیمی بم حملے کا حکم دیا ۔ ایٹمی حملے میں جو مر جاتے ہیں وہ خوش قسمت ہوتے ہیں جو اس حملے میں زندہ رہ جاتے ہیں وہ مردوں سے برتر ہوتے ہیں اور مرنے کی التجائیں کرتے ہیں

امریکا سے ڈاکٹر وھاج الدین احمد صاحب نے لکھا
اگرچہ ٹرومن کا حکم تھا لیکن اتحادی فوجوں کے سب کمانڈر اس میں ملوث ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس اقدام کو تمام قومیں اچھا قرار دیتی ہیں اس لئے کہ اس کی وجہ سے جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا ۔ مغربی اقوام کی دور اندیشی بھی ملاحظہ ہو کہ یورپ اور امریکہ سے اتنی دور یہ بم پھینکے گئے ۔ ابھی آپ نے عراق میں جو بم استعمال ہوئے ہیں کے متعلق ساری کہانیاں اور تصویریں نہیں دیکھیں اور یہ مہذب قومیں ہیں شاید کبھی ایسی تصویریں شائع کی جائیں گی جن سے معلوم ہوگا کہ عراق میں ایسی بیماریاں کہاں سے آئیں؟