Category Archives: طور طريقہ

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ مسلک

وسط فروری 2010ء ميں ہم يعنی مياں بيوی علامہ اقبال ايئرپورٹ پر بيٹی کو لينے گئے جو ايک عشرہ کيلئے دبئی اپنے بھائی کے پاس گئی تھی ۔ ہم بين الاقوامی آمد والے دروازے کے سامنے کھڑے تھے کہ کچھ دير بعد درجن بھر سبز پگڑيوں والے باريش لوگ آئے جن کے ہاتھوں میں سبز ریشمی کپڑے کے گوٹہ لگے جھنڈے بھی تھے ۔ وہ گانے لگے جو مجھے سمجھ آیا وہ يہ تھا ۔ نبی کا جھنڈا پيارا جھنڈا ہمارا جھنڈا ۔ نبی کی آمد مرحبا ۔ رسول کی آمد مرحبا ۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی کہہ رہے تھے جو کچھ مجھے سمجھ نہيں آيا اور کچھ بھول گيا ہوں ۔ وہ اس طرح سے گا رہے تھے کہ شور محسوس ہوتا تھا ۔ ایک گھنٹہ بعد ہمارے وہاں سے واپس آنے تک وہ متواتر گا رہے تھے صرف عشاء کی اذان کيلئے خاموش ہوئے

میری بیٹی کا بارہويں جماعت کا سالانہ امتحان ہو رہا تھا [1990ء]۔ دفتر سے چھٹی ہوئی میں گھر پہنچا تو شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ ديتی تھی ۔ گھر میں داخل ہوا تو کھڑکيوں کے شيشے کھڑکھڑا رہے تھے ۔ بيٹی نے آنسوؤں کے ساتھ ميرا استقبال کرتے ہوئے کہا “ابو ۔ کل ميرا پرچہ ہے اور صبح سے اس شور کی وجہ سے ایک لفظ نہیں پڑھ سکی”۔ اندازہ لگانے کيلئے کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے گھر کے پائیں باغ میں نکلا ۔ دیکھا کہ پيچھے آفيسرز میس کے ملازمین کے کوراٹروں کے ساتھ جو چھوٹی سی مسجد بنی ہے اس کے چھوٹے سے مينار پر چار لاؤڈ سپیکر لگے ہیں اور اُس پر فلمی گانوں کی نقل نعتیں پڑھی جا رہی ہيں ۔ آواز اتنی اوُنچی کہ میں دونوں کانوں کو اپنی ہتھيليوں سے بند کرنے کے بعد سجھ سکا کہ گايا کيا جا رہا ہے

اس 8 فٹ چوڑی 7 فٹ لمبی اور 8 فٹ اُونچی مسجد کی تاریخ يہ ہے کہ آفيسرز ميس جی ايم ہاؤس کے پيچھے آٹھ دس سرونٹ کوارٹر بنے ہوئے تھے جن ميں آفيسرز ميس کے ملازمين رہتے تھے ۔ 1972ء ميں پيپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اُن دنوں جی ايم ہاؤس ميں پروجيکٹس کے دفاتر بنے ہوئے تھے جو عارضی تھے مگر اس کی وجہ سے سرونٹ کوارٹرز خالی تھے ۔ اُوپر سے حُکم آيا کہ يہ کوارٹر لوگوں کو الاٹ کر ديئے جائيں ۔ جن کی سفارش کی گئی تھی وہ ہر جماعت ميں اپنا نام لکھانے والے کھڑپينچ تھے ۔ ايک دو سال بعد اُنہوں نے اپنے کوارٹروں کے ساتھ سرکاری زمين پر يہ مسجد بنا لی حالانکہ اس علاقے کی بڑی مسجد وہاں سے صرف تين منٹ کی پيدل مسافت پر تھی

ميں آفيسرز ميس پہنچا ۔ مسجد کے اندر کوئی لاؤڈ سپیکر نہيں لگايا گيا تھا کيونکہ بغير سپيکر کے مسجد کے اندر بولنے والے کی آواز مسجد کے باہر پہنچ سکتی تھی آفيسرز ميس کے دوسری طرف جا کر تاکہ شور کم ہو اور ايک دوسرے کی بات سُنی جا سکے منتظم کو بلایا ۔ مُنتظم آئے ۔ وہ اسسٹنٹ منيجر ايڈمن تھے جو ماسٹر اِن ايڈمن سائنس [Master in Admin Science] تھے منتظم سے میں نے کہا ” مسجد میں امام ظہر اور عصر کی نماز آواز کے ساتھ نہیں پڑھاتے ۔ اب عصر کی نماز ہونے والی ہے ۔ اس مسجد میں ايک لاؤڈ سپيکر کی بھی ضرورت نہیں اور آپ نے اُوپر چار لگا رکھے ہیں اور وہ بھی فُل واليوم پر صبح سے اب تک متواتر محلہ والوں کو بيزار کئے ہوئے ہیں ۔ کوئی مريض آرام کرنا چاہتا ہے ۔ کوئی طالب علم امتحان کی تياری کرنا چاہتا ہے”
جملہ آيا “آپ کا مسلک دوسرا ہے”
میں نے کہا “آپ کو کيسے معلوم ہوا کہ ميرا مسلک کیا ہے ؟ آپ تو مجھے زندگی میں پہلی بار مل رہے ہیں”
جواب میں خاموشی
میں نے سوال کیا ” يہ مسلک کيا ہوتا ہے اور آپ کا مسلک کيا ہے ؟”
جواب ملا ” میں بریلوی ہوں ”
میں نے کہا “احمد رضا بریلوی صاحب کی وہ کتاب دکھايئے جس میں لکھا ہے کہ اس طرح محلہ والوں کو بيزار کرو”
جواب میں خاموشی
میں نے پوچھا “آپ نے احمد رضا صاحب کی کونسی کتاب پڑھی ہے ؟”
جواب ملا “کوئی نہيں”
میں نے التجا کی “پھر يہ لاؤڈ سپیکر بند کر ديجئے”
جواب ملا “يہ نہيں ہو سکتا”

اسی دوران ايک اسسٹنٹ منيجر فنانس جو مجھے جانتے تھے آ کر کھڑے ہو چکے تھے ۔ اُنہوں نے اپنے ساتھی کو مخاطب کر کے کہا ” جانتے ہو یہ کون ہیں ؟ اگر يہاں آنے کی بجائے يہ ایک ٹیلیفون کر ديتے تو سب کچھ اب تک بند ہو چکا ہوتا”
مگر اُن صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا

ميرے پاس سوائے اپنی سرکاری حيثيت استعمال کرنے کے کوئی چارہ نہ رہ گيا تھا ۔ میں نے گھر پہنچ کر چيف ايڈمن آفيسر اور اسٹیشن کمانڈر دونوں کو ٹیليفون کیا جس کے بعد آدھے گھنٹہ کے اندر لاؤڈ سپيکر خاموش ہو گئے

غَلَط العام

غَلَطُ العام غَلَط ہی ہوتا اور کبھی درُست نہیں ہو سکتا ۔ اسے درست تسلیم کرنا انسان کی کم عِلمی کا نتیجہ ہوتا ہے یا ضد کا ۔ اگر غور کیا جائے تو غلط العام الفاظ یا محاورے مذموم مقاصد کی پیداوار ہوتے ہیں یا معاشرے کی سوچ میں انحطاط آنے سے پھیلتے ہیں

پچھلے دنوں ڈاکٹر منیر عباسی صاحب نے ایک غلط العام کی طرف توجہ دلائی اور پھر شگفتہ صاحبہ نے بھی اس پر لکھا ۔ ہمیں ساتویں یا آٹھویں جماعت [1950ء] میں استاذ نے بتایا تھا جسے لوگوں نے “لکھے موسٰی پڑھے خدا ” بنا لیا ہے دراصل “لکھے مُو سا پڑھے خُود آ ” ہے ۔ کبھی کسی مسلمان نے نہ سوچا کہ اس محاورے کو غلط ادا کرنے کی وجہ سے وہ گُستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں

مُغل حُکمرانوں کے زمانہ میں برِّ صغیر ہند میں صوبیدار ہوا کرتا تھا جیسے آجکل کور کمانڈر ہوتا ہے ۔ صوبیدار کے ماتحت حوالدار ہوتے تھے جیسے آجکل بریگیڈ کمانڈر ہوتے ہیں ۔ انگریزوں نے برِّ صغیر ہند پر قبضہ کے بعد مقامیوں کی تحقیر کی خاطر اپنی فوج کے سب سے نچلے افسر سیکنڈ لیفٹننٹ کے ماتحت صوبیدار کو کر دیا اور اس کے ماتحت حوالداروں کو ۔ یہی نام عہدوں کے اب تک جاری ہیں اور کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی

سلطان ٹیپو بہادر اور غیرتمند محبِ وطن تھے اور اپنے وطن کے دفاع میں لڑتے جان دے دی ۔ اُن کی تحقیر کیلئے انگریزوں نے اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھنا شروع کیا ۔ اُن کی دیکھا دیکھی برِّ صغیر ہند کے لوگوں نے بھی اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھنا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ پاکستان بننے کے بعد بھی لوگ اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھتے رہے ۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ وہ اپنے ایک غیرتمند رہنما کی تحقیر کر رہا ہے

انگریز حکمرانوں نے اور بھی بہت کچھ غلط عام کیا جسے برِ صغیر ہند کے بہت سے باشندوں نے اپنا لیا ۔ یہی نہیں برِّ صغیر ہند کے مسلمانوں نے شادی پر جہیز ۔ مہندی ۔ ناچ گانا اور بارات کے باجے ۔ ڈولی یا پالکی کی رسمیں ہندوؤں سے اپنا لیں اور مسلمانوں کی اکثریت ان میں مُبتلا ہے ۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ رسوم اسلام کا حصہ بن گئیں ؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا

کچھ روز قبل عنیقہ ناز صاحبہ کی ایک تحریر جو ابو شامل صاحب کے بلاگ پر نقل شاہنواز فاروقی کی ایک تحریر کے نتیجہ میں عمل میں آئی اور شاہنواز فاروقی کے استدلال کو غلط ثابت کرنے کیلئے جانفشانی کی گئی ۔ میں نے بھی بچپن [1947ء تا 1953ء] میں کچھ لوگوں کو اپنے بیٹے یا کسی پڑھے لکھے آدمی کیلئے “بابو” کا لفظ استعمال کرتے سُنا تھا ۔ لیکن ہمارے بزرگوں اور اساتذہ نے ہمیں بتایا تھا کہ انگریزوں نے “بابو” کا لفظ برِّ صغیر ہند کے باشندوں کیلئے تحقیر کے طور پر استعمال کیا اور چونکہ حاکم [انگریز] کی نقل کا عام رواج ہو چکا تھا برِّ صغیر ہند کے لوگوں میں بھی مستعمل ہو گیا مگر یہ اچھا لفظ نہیں ہے ۔ البتہ یہ تو سب جانتے ہوں گے کہ سرکاری ملازمین کو بُرے الفاظ میں یاد کرنے کیلئے لوگ اور ذرائع ابلاغ عام طور پر اب بھی بابو کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ چنانچہ بابو کو اچھے معنی کا لفظ قرار دینا غلط العام تو ہو سکتا ہے لیکن درست نہیں ہے

آخر میں ایک ايسا جُملہ جو آج سے پانچ دہائیاں قبل معیوب سمجھا جاتا تھا اور شریف مرد یا لڑکے اسے اپنی زبان سے ادا نہیں کرتے تھے ۔ لاپرواہ لڑکے بھی اسے بڑوں کے سامنے بولنے سے ڈرتے تھے اور لڑکیوں یا خواتین کے سامنے کوئی بولتا نہ تھا ۔ عصرِ حاضر میں زبان زدِ عام ہے ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے مرد عورتیں لڑکے اور لڑکیاں اسے بے دھڑک سب کے سامنے بولتے ہیں ۔ شاید دو سال قبل ایک بلاگر نے یہ محاورہ لکھا تو میں نے اُسے سمجھایا کہ آئيندہ نہ لکھے ۔ اُس کی نوازش اور نیک دلی کہ وہ مان گیا کچھ اور نے بھی آئیندہ نہ بولنے کا اقرار کیا ۔ کسی نے اُس وقت مجھ سے اس کا مطلب پوچھا تھا لیکن میں نے بتانے سے گریز کیا تھا ۔ یہ محاورہ ہے “پنگا لینا ۔ دینا یا کرنا”۔ اب اتنا بتا دیتا ہوں کہ اگر ہاتھ کی چاروں انگلیاں اکٹھی جوڑی جائیں تو اسے پنگا کہتے ہیں ۔ چنانچہ اس محاورے کا مطلب فحش ہے اور کسی شریف آدمی بالخصوص عورت کو اسے دہرانا زیب نہیں دیتا ۔ غلط بات غلط ہی ہوتی ہے چاہے سب اُس کے مرتکب ہوں

طریقہ ۔ غیرتی اور حکومتی

این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر سعید مہدی مستعفی ہوگئے۔ ان پر پولو گراؤنڈ کیس ختم کروانے کا الزام ہے تاہم سعید مہدی نے کہا ہے کہ انہوں نے کیس ختم کرنے کیلئے کوئی درخواست نہیں دی تھی اور استعفیٰ اپنی عزت بحال رکھنے اور پارٹی گائیڈ لائن کے مطابق دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آج بھی مقدمہ کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوں۔این آر او سے استفادہ کرنے والے افراد کی جانب سے یہ پہلا استعفیٰ ہے۔ سعید مہدی نے اپنے استعفے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف دور میں انہیں دو مقدمات میں ملوث کیا گیا تھا جس میں طیارہ کیس اور پولو گراؤنڈ کیس شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں 7اپریل 2000ء کو گرفتار کیا گیا جبکہ ایک روز قبل وہ طیارہ سازش کیس میں بری ہوگئے تھے

Minister for Information and Broadcasting Qamar Zaman Kaira on Monday said the NRO beneficiary ministers will not resign, as they were accused and not convicted, terming the demand unjustified.

Talking to media persons here at the CDA Academy, the minister made it clear that the cabinet members, who had benefited from the NRO were accused and not convicted to be asked to step down as minister

روپیہ سب کچھ ہے

“بس جی ۔ روپیہ ہونا چاہیئے”
“روپے کے بغیر زندگی مشکل ہے”
“روپے کو روپیہ کھینچتا ہے”
“روپیہ ہو تو سب کام ہو جاتے ہیں” ۔ وغیرہ وغیرہ

یہ سب کج فہمی یا کم عقلی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو مالدار ہمیشہ مالدار اور بے مایہ ہمیشہ بے مایہ رہتا

حقیقت يہ ہے کہ طاقت روپیہ نہیں ہے بلکہ اصل طاقت انسان کے اندر ہوتی ہے

روپے سے بہترین بستر تو خریدا جا سکتا ہے مگر نیند نہیں
روپے سے کسی کی زبان تو خریدی جا سکتی ہے مگر دل نہیں
روپے سے جسم تو خریدا جا سکتا ہے مگر محبت نہیں
روپے سے ایئر کنڈیشنر تو خریدا جا سکتا ہے مگر دل کی ٹھنڈک نہیں
روپے سے مقویات تو خریدی جا سکتی ہیں مگر صحت نہیں
ساری دنیا کی دولت لگا کر بھی دل کا اطمینان نہیں خریدا جا سکتا

روپے کا ایک کارِ منصبی ایسا ہے جو انسان کو بہت کچھ دے جاتا ہے
وہ ہے خود غرضی سے باہر نکل کر روپے کا ضروتمندوں پر استعمال

اللہ ہمیں اپنی دولت کے درست استعمال کی توفیق عطا فرمائے

بُوجھیئے وہ کون ہے ؟

مندرجہ ذیل عبارت میں تھری ملین ڈالر مین [Three Million Dollar Man] کون ہے ؟ بوجھیئے تو جانیں

امریکہ اور برطانیہ میں گزارے گئے ان چند دنوں میں مجھے شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنے ہوں گے ۔ غیرملکی امدادکسی مسئلے کا حل نہیں ۔ ہمیں صرف دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ کرپشن اور بدانتظامی کے خلاف بھی متحد ہونا ہوگا ۔ لندن میں ایک انتہائی قابل اعتماد شخصیت نے مجھے بتایا کہ پچھلے دنوں ایک عرب ملک کی فضائی کمپنی نے پاکستان میں اپنی پروازوں کی تعداد میں اضافے کی کوشش کی ۔ جب کامیابی نہ ہوئی تو مذکورہ فضائی کمپنی نے ایک مقتدر شخصیت کو تین ملین ڈالر دے کر اپنا کام کروا لیا

یہ مقتدر شخصیت صرف خود کھانے کی شوقین ہے اور بدقسمتی سے ڈالر کھانے کی شوقین ہے ۔ اس شخصیت کو نجانے یہ احساس کیوں نہیں ہو پا رہا کہ زیادہ کھانے سے ناصرف بدہضمی ہوجاتی ہے ۔ بلکہ بدنامی بھی ہوتی ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اس قسم کی بے حس مقتدر شخصیات کو اقتدار کے ایوانوں سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے کیونکہ یہ شخصیات صرف جمہوریت نہیں بلکہ پاکستان کیلئے بھی خطرہ بنتی جارہی ہیں ۔ اور کوئی جانے نہ جانے لیکن جناب نواز شریف اس ”تھری ملین ڈالر مین“ کا نام ضرور جانتے ہیں ۔ ان سے گزارش ہے کہ ”تھری ملین ڈالر مین“ کو بے نقاب کریں اور اسے بھی پرویز مشرف کے پاس لندن بھیج دیں

بشکریہ ۔ جنگ

قوم کیلئے لمحہ فکریہ

تحریر ۔ مشتاق احمد قریشی ۔ بشکریہ جنگ
سوچنے سمجھنے کی بات ہے کہ جب کبھی قوم کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور قوم اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے لگتی ہے تو قوم کسی نئے حادثے کسی نئی دہشت گردی سے دوچار کردی جاتی ہے۔ کیا صرف اس لئے یہ دہشت گردی ہورہی ہے کہ قوم یکجہت نہ ہوسکے‘ کسی بھی مسئلے پر زبان نہ کھول سکے‘ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف اپنے سچے جذبات کا اظہار نہ کرسکے۔ جب جب ملک کسی قسم کے بحران سے دوچار ہوا یا کیا گیا‘ عوام کو دہشت گردی کے ذریعے خوف میں مبتلا کرکے جہاں ان کی توجہ کا مرکز تبدیل کردیا گیا وہیں انہیں ایک ان دیکھے‘ ان چاہے خوف کا بھی شکار کیا جاتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں اور ایسا کیوں کررہے ہیں؟

ذرا سوچئے! جب آٹے اور چینی کا بحران پیدا کیا گیا جس کا مقصد صرف اور صرف ان کی من چاہی قیمتوں کا نفاذ تھا جس میں مل مالکان اور حکمران دونوں کی ملی بھگت تھی اس وقت جب عوام سڑکوں پر نکلنا شروع ہی ہوئے تھے کہ پنجاب میں جہاں حزب اختلاف حکومت کررہی ہے کو بے چین کرنے کے لئے پے درپے دہشت گردی کے واقعات رونما کئے گئے۔ جواب میں عوام خوفزدہ ہوکر خاموش ہوگئے۔

بجلی کا بحران جس پر عوامی ردعمل جگہ جگہ سر ابھار رہا تھا وہ بھی اسی طرح نمٹایا گیا۔ اس کے پس پشت بھی بجلی مہنگی کرنا اور من چاہے دام وصول کرنا ہی ہے ۔ عوام بے چارے مجبور و بے بس جو ہوئے۔ اب جب کہ قوم کو ایک نیا مسئلہ کیری لوگر بِل (Bill) نہیں بلکہ بُل (Bull) سے واسطہ پڑا ہے اور قوم یک زبان ہوکر واویلا کرنے لگی تو اس بُل کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے ایک بار پھر دہشت گردی کا بازار گرم کردیا گیا۔ اس بار افواج پاکستان کے ہیڈ کوارٹر GHQ کو نشانہ بنا کر انہیں بھی زبان بندی کا پیغام دے دیا گیا ہے کیونکہ وطن عزیز کی تاریخ میں شاید پہلی بار افواج پاکستان کی جانب سے کسی امداد کی کڑی شرائط کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کیا گیا تھا جو نہ تو حکومت کو اور نہ ہی حکومتی افراد کے سرپرستوں کو پسند آیا۔ عوام بے چارے تو ویسے ہی خوف کے مارے ہوئے ہیں لیکن افواج پاکستان کی جانب سے ردعمل کے اظہار نے انہیں تقویت دی ہی تھی کہ ایک بار پھر دہشت گردی کا بازار گرم کردیا گیا۔

دوسرا مرحلہ جو قوم کو درپیش تھا جس کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم بھی جاری کردیا تھا ‘ این آر او کو قومی اسمبلی سے پاس کرانے کا‘ وہ بھی حکومت نے بصد مجبوری قومی اسمبلی میں پیش تو کردیا لیکن ساتھ ہی کیری لوگر بُل اور این آر او پر کوئی فیصلہ ہونے سے قبل ہی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا تاکہ کورٹ کے حکم پر عملدرآمد بھی ہوجائے اور معاملہ وہیں کا وہیں پڑا رہے۔ کسی قسم کی کوئی پیشرفت نہ ہو۔ رات گئی بات گئی۔ اس سے پہلے کہ اسمبلی کا اجلاس دوبارہ طلب کیا جائے ملک میں کوئی نیا بحران آسکتا ہے‘ کوئی نیا مسئلہ جنم لے سکتا ہے‘ کوئی دہشت گردی کا بڑاواقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ جب ملک کے طول و عرض میں کوئی نئی بے چینی پیدا ہوسکتی ہے اور یوں این آر او ہو یا کیری لوگر بُل ازخود سرد خانے میں پڑے رہیں گے۔

آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ اس ساری کارروائیوں کے پیچھے امریکہ کی مضبوط منصوبہ بندی موجود ہے۔ ملک کے طول و عرض سے لے کر خود دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی سی آئی اے کے لوگ حکومت پاکستان کی بجائے اپنی رٹ قائم کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ بلاروک ٹوک جب چاہتے ہیں‘ جسے چاہتے ہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں‘ کوئی پرسان حال نہیں۔ جب سے کیری لوگر بل کا چرچا ہوا ہے اس وقت سے امریکی سی آئی اے بذات خود ناصرف اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے بلکہ اپنے بھارتی اور اسرائیلی حلیفوں، مددگاروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر پوری طرح دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کسی طرح وہ پاکستان کی ایٹمی توانائی کو تہس نہس کردیں۔

پاکستانی افواج کو خارجی جنگ کی جگہ داخلی جنگ میں الجھادیا گیا ہے کیونکہ اس میں بھی امریکہ کا ہی مفاد ہے کہ افواج پاکستان جو اسلحہ استعمال کرے گی اس کا بڑا حصہ امریکی اسلحہ سازوں سے ہی خریدا جاتا ہے کیونکہ پاکستان جو قرضے بھاری سود کے بدلے ان سے لیتا ہے وہ پاکستان کو لوز ڈالروں میں نہیں ملتے بلکہ اس قیمت کا سازوسامان مہیا کیا جاتا ہے یعنی اصل کے ساتھ دہرا منافع بھی ان کو ہی جاتا ہے اور وہ سامان بھی پاکستان کی مرضی و منشا کا نہیں، اپنی پسند کے مطابق سپلائی کرتے ہیں۔ پہلی بار ہے کہ کیری لوگر بل کے ذریعے پاکستان کو غیر فوجی امداد سے نوازا جارہا ہے لیکن اس میں بھی ایسی شرائط عائد کی گئیں کہ فوجی قیادت جس پر صحیح بول پڑی اور اپنے تحفظات کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگئی۔

امریکی منصوبہ سازوں اور ان کے پاکستان دشمن حلیفوں کے پاکستان پر دو اعتراض ہیں۔ ایک تو پاکستان اسلامی مملکت ہے دوسرا اسلامی ملک ہونے کے باوجود ایٹمی قوت والا ملک بن گیا ہے جو نہ تو بھارت سے برداشت ہورہا ہے اور نہ اسرائیل سے برداشت ہورہا ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کس طرح جلد از جلد پاکستان، جسے وہ اپنی سازشوں سے پہلے ہی دولخت کرچکے ہیں‘ اب تک کیسے اپنے قدموں پر قائم ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے چکر میں جو اپنے لوگوں پر فوج کشی پر ناصرف مجبور کردیا ہے بلکہ اس کی خواہش ہے ملک میں خانہ جنگی اس قدر بڑھ جائے کہ پاکستان کو توڑنے مروڑنے کی کسی بیرونی قوت کو ضرورت ہی نہ پڑے اور پاکستان کے دائیں بائیں کے پڑوسی بھارت اور افغانستان اطمینان سے محفوظ و مامون رہ سکیں اور وہ جو چاہے اپنی من مانی کارروائیوں سے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہیں۔

امریکہ سے ہمارے تعلقات نہ تو دوستانہ ہیں نہ برادرانہ بلکہ خالص کاروباری تعلقات ہیں۔ ہم چاہے انہیں کوئی نام کیوں نہ دیتے رہیں۔ پاکستانی عوام اور تمام اہل سیاست کے لئے یہ بڑا ہی نازک لمحہٴ فکر ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم انگریز کی غلامی سے نکلنے کی سزا کے طور پر امریکہ کے دام غلامی کا شکار بنایا جارہا ہے۔

اگر اب بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو پھر ہمیں کسی شکوے کا بھی موقع نہیں ملے گا کیونکہ امریکی گھیرا جو پہلے بھی تنگ تھا اب مزید تنگ کیا جارہا ہے اور یہ سب کچھ خالص عوامی حکومت کے دورمیں ہورہا ہے۔ عوامی حکمران بہ رضا ورغبت اپنی گردنوں میں امریکی پھندے ڈلوانا اپنے لئے بڑے اعزاز کی بات سمجھ رہے ہیں لیکن جب یہ پھندے سخت ہونا شروع ہوجائیں گے تو پھر کون انہیں بچا سکے گا۔اب بھی وقت ہے گوکہ کمر کمر دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ اگر کوشش کریں تو امریکی دلدل سے نکلا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے حب الوطنی‘ اخلاص اور ہمت و حوصلے کی ضرورت ہے جو فی الحال اہل سیاست چاہے وہ حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے ناپید نظر آرہا ہے۔ کوئی ایک لیڈر ایسا نہیں نظر آرہا جو قوم کی درست رہنمائی پورے خلوص نیت سے کرسکے۔ سب کے سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی‘ پاکستانی قوم کی‘ اس کے قیمتی اثاثوں کی حفاظت فرمائے‘ آمین۔

انگریزی نہیں آتی

ایک جنگل میں یہ قانون منظور ہوگیا کہ آئندہ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو نہیں کھائے گا۔ دوسرے دن جانوروں نے دیکھا کہ ایک خرگوش بھاگا چلا جارہا ہے ایک گیدڑ نے اس کو آواز دی اور پوچھا ” کیوں بھاگے چلے جارہے ہو ؟”
خرگوش نے کہا ” ایک بھیڑیا میری طرف آرہا ہے “

اس نے کہا۔”تم کو معلوم نہیں کہ قانون جاری ہوگیا ہے؟ اب کوئی جانور دوسرے جانور کو نہیں کھائے گا۔“
خرگوش بولا”ہاں قانون تو جاری ہوگیا ہے۔ لیکن بھیڑیئے کو پڑھنا نہیں آتا۔!!
اب خرگوش پریشان ہیں کہ قانون بن گیا ہے اور جو طاقتور ہیں اور با اثر ہیں ان کو پڑھنا نہیں آتا ایسے میں ہمارا کیا بنے گا……؟

کہتے ہیں کیری لوگر بل کے تخلیق کاروں کو کوئی سمجھا رہا تھا کہ ” لکھ دو ۔ جو مرضی لکھ دو ۔ پاکستانیوں کو انگلش نہیں آتی ۔“ واقعی پاکستانی لوگ انگلش تحریروں کو پڑھ بھی نہیں سکتے۔ اگر پڑھ سکتے تو 2005ء میں شائع ہونے والی کتاب کے مصنف کو اپنا سفیر مقرر کیوں کرتے ؟ اور پاکستان کے حکمرانوں کو بھی انگلش پڑھنی نہیں آتی۔ اگر آتی تو وہ امریکی شہریت کا وہ حلف نامہ تو پڑھ لیتے جس کے تحت حلف اٹھاکر جناب حسین حقانی امریکی شہری بنے تھے ۔ اس میں لکھا ہے

”میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں ہر حال میں امریکہ کا وفادار رہوں گا اور ہمیشہ ہر کام امریکہ کے مفاد میں کروں گا “

پورا مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے