Category Archives: طور طريقہ

خاموش سازش ؟

مُجرم جُرم کرتا ہے ۔ مُجرم کا تو کام ہی جُرم کرنا ہے ۔ مُجرم سازش نہيں کرتا
سازشی وہ ہيں جو جُرم کی منصوبہ بندی کرتے ہيں
يا
وہ ہيں جو جُرم ہوتے ديکھتے ہيں اور جُرم کو روکتے نہيں

طالب علمی کے زمانہ ميں ايک استاذ نے بتايا تھا کہ کہ اگر کوئی جُرم ہوتا ديکھے اور اسے نہ روکے تو وہ جُرم ميں 10 فيصد حصہ دار بن جاتا ہے
آج سوچتا ہوں کيا فلسفہ تھا اس فقرے ميں ۔ ۔ ۔

اسی سلسلہ ميں مندرجہ ذيل ربط پر کلک کر کے ايک سير حاصل مضمون پڑھيئے

A Conspiracy of Silence

توّکل

عام ديکھا گيا ہے کہ جو کام کسی آدمی کے بس ميں نہ ہو تو اُسے کر کے کہتا ہے ” اللہ توّکل کر ديا ہے”
حقيقت يہ ہے کہ اللہ پر توّکل کرنا مسلمان پر واجب ہے
يہاں ميں يہ واضح کر دوں کہ ہند و پاکستان ميں الفاظ “فرض” اور “واجب” کا استعمال غلط العام ہے ۔ آجکل لوگ انگريزی کا زيادہ استعمال کرتے ہيں اسلئے انگريزی کے ذريعہ ہی بتانے کی کوشش کرتا ہوں
“فرض” ہوتا ہے “ڈِيوٹی [Duty]”
واجب ہوتا ہے “کمپلسری [Compulsory]”
ہند و پاکستان کے جو لوگ عرب دنيا ميں يا ايران ميں کچھ عرصہ رہے ہيں اور انہوں نے عربی يا فارسی زبان سيکھنے کی کوشش کی ہے وہ ميری بات کو بآسانی سمجھ جائيں گے
عام کہا جاتا ہے کہ فجر ميں 2 ۔ ظہر ميں 4 ۔ عصر ميں 4 ۔ مغرب ميں 3 اور عشاء ميں 4 فرض ہيں اور عشاء ميں 3 واجب يعنی وتر ہيں
ہميں ڈيوٹی سے چھُوٹ [چھُٹی] ايک دن سے چند ماہ تک کی بلکہ بعض اوقات سال بھر کی چھُٹی مل سکتی ہے مگر جو کام کسی کيلئے کمپلسری قرار ديا گيا ہو اس کی چھُوٹ نہيں مل سکتی
چنانچہ جنہيں فرض کہا جاتا ہے وہ بھی در اصل سب واجب ہيں کيونکہ ان کی چھُوٹ کسی حال ميں بھی نہيں ہے

کتنی بدقسمتی ہے کہ آج کا مسلمان باپ ۔ بھائی ۔ بيٹے يا دولت پر تو توّکل کر ليتا ہے مگر اللہ پر صرف بحالتِ سخت مجبوری

ميں نے 5 ستمبر 2010ء کو ذاتی مشاہدہ کی بناء پر لکھا تھا
“توكل پرندوں سے سيكھيئے كہ جب وہ شام كو اپنے گھونسلوں يا بسيروں کو واپس جاتے ہيں توان كی چونچ ميں اگلے دن كے لئے كوئی دانہ نہيں ہوتا”

چند دن قبل ميری بيٹی پوچھنے لگی ” ابو ۔ يہ ذرا سمجھا ديجئے کيا لکھا ہے ؟”

وہ بابا بُلھے شاہ کے پنجابی کلام کا يہ قطع تھا

ويکھ بَنديا اسماناں تے اُڈدے پنچھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ديکھ اے انسان آسمانوں پر اُڑتے پرندے]
ويکھ تے سہی کی کردے نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ديکھو تو سہی کيا کرتے ہيں]
نہ اور کردے رِزق ذخيرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[نہ وہ کريں رزق کا ذخيرہ]
نہ او بھُکھے مردے نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [نہ وہ بھُوکے مرتے ہيں]
کدی کسے نے پنکھ پکھيرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[کبھی کسی نے پرندوں کو]
بھُکھے مردے ويکھے نے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[بھُوکے مرتے ديکھا ہے ؟]
بندہ ای کردا رزق ذخيرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [انسان ہی کرتے ہيں رزق ذخيرہ]
بندے ای بھُکھے مردے نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[انسان ہی بھُکے مرتے ہيں]

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ محکمانہ انصاف

روائت ہے کہ دوسری جنگ عظيم ميں برطانيہ فاتح تو رہا مگر مُلکی معيشت کا ديواليہ نکل گيا تھا ۔ چند فکر رکھنے والے لوگوں نے وقت کے وزيرِ اعظم کے پاس جا کر اپنی تشويش ظاہر کی

وزيرِ اعظم نے پوچھا “سرکاری محکمے انصاف کر رہے ہيں ؟”
وہ بولے “ايسا ہو رہا ہے”
پھر وزيرِ اعظم نے پوچھا “لوگ سمجھتے ہيں کہ انصاف مل رہا ہے ؟”
وہ بولے ” جی ۔ بالکل”
وزيرِ اعظم نے کہا ” پھر کوئی فکر کی بات نہيں سب ٹھيک ہو جائے گا”

تاريخ گواہ کہ سب ٹھيک ہو گيا ۔ يہ کرامت ہے جمہوريت کی ۔ ہمارے ملک ميں بھی سُنا ہے کہ جمہوريت ہے ۔ ميں نے تو بہت تلاش کی مگر وہ شايد مجھ سے پردہ کرتی ہے اسلئے نظر نہيں آئی ۔ ليکن ميں بات کروں کا “اصلی تے وڈی” جمہوريت کی جس کا نام عوامی جمہوريت تھا اور جس کی عظمت کے نعرے آج بھی لگائے جاتے ہيں

خود ساختہ قائدِ عوام نے1973ء ميں انتظامی اصلاحات [Admnistrative Reforms] کے نام پر سرکاری ملازمين کيلئے نئے قوانين نافذ کئے ۔ نعرہ لگايا گيا تھا کہ” ڈکٹيٹروں نے 4 کلاسز [Classes] بنا رکھی ہيں ۔ ميں سب کو ايک کلاس کر دوں گا اور پھر چپڑاسی بھی فيڈرل سيکريٹری بن سکے گا”۔ مگر 4 کی بجائے 23 کلاسز بنا دی گئيں ۔ چپڑاسی تو کيا فيڈرل سيکريٹری بنتا ۔ ڈپٹی سيکريٹری کيلئے بھی فيڈرل سکريٹری بننا مشکل بنا ديا گيا ۔ البتہ بادشاہ سلامت جب چاہتے جسے چاہتے چپڑاسی کی کرسی سے اُٹھا کر فيڈرل سيکريٹری بنا ديتے اور جو فيڈرل سيکٹری حکم عدولی کرتا اسے ايسا ہٹاتے کہ نہ پنشن نہ گريچوئيٹی ملتی ۔ چنانچہ ايک ايسے ہی فيڈرل سيکريٹری نے بھوک ننگ سے تنگ آ کر اپنے بيوی بچوں کو ہلاک کرنے کے بعد خود کُشی کر لی ۔ يہ تو بڑی بڑی باتيں ہيں ۔ انتظامی اصلاحات نافذ ہونے والے بے شمار واقعات ميں سے ميں اُس ادارے کے اعلٰی انصاف کے صرف 3 واقعاتِ سپردِ قلم کر رہا ہوں کہ ميں جس ميں ملازم تھا ۔ ان ميں سے تيسرا واقعہ سب سے بُلند ہے

پہلا واقعہ ۔ سعودی عرب کے ايک اعلٰی عہديدار 1970ء کی دہائی کے اوائل ميں گريڈ 18 کے کچھ انجنير ہمارے ادارے سے لينے کيلئے آئے ۔ اُنہيں انٹرويو نہ کرنے ديا گيا اور کچھ گريڈ 19 اور ايک گريڈ 17 کا انجينئر دے ديا گيا ۔ ان ميں سے ہر ايک نے ملازمت کے ذاتی کنٹريکٹ پر دستخط کئے اور تين تين سال کی بغير تنخواہ چھٹی لے کر چلے گئے جس کی بعد ميں ناجانے کس قانون کے تحت 9 سال تک روسيع ہو گئی ۔ سعودی عرب ميں يہ لوگ سعودی انٹظاميہ کے ماتحت تھے اور سعودی عرب سے ہی براہِ راست تنخواہ ليتے تھے ۔ اس کے باوجود گريڈ 17 والے انجنيئر وہيں بيٹھے گريڈ 18 اور پھر گريڈ 19 ميں ترقی پا گئے اور 9 سال بعد واپس آنے پر انہيں گريڈ 20 پر ترقی دے دی گئی ۔ قانون يہ ہے کہ جو شخص ملک سے باہر ہو اس کی ترقی واپس آنے پر ہو گی

دوسرا واقعہ ۔ 4 انجنيئروں کو 1976ء ميں لبيا بھيجا گيا جن ميں ايک گريڈ 17 کا اور باقی 3 گريڈ 18 کے تھے ۔ انہيں تنخواہ پاکستان کا سفارتخانہ ديتا تھا جس ميں سے جی پی فنڈ ۔ پنشن کنٹری بيوشن اور سروس چارجز کاٹ لئے جاتے تھے ۔ يہ لوگ انتظامی لحاظ سے پاکستان ميں اپنے ادارے کے ماتحت تھے جو سفارتخانے کی معرفت انہيں احکامات بھيجتا تھا ۔ ان ميں جو انجيئر سب سے سينئر تھا اُسے يہ کہہ کرترقی نہ دی گئی کہ مُلک سے باہر ہے جب واپس آئے گا تو ديکھا جائے گا اور اس طرح 6 سال کے اندر 24 اس سے جونيئر انجيئروں کو ترقی دے دی گئی ۔ بايں ہمہ جو انجيئر گريڈ 17 ميں تھا اسے لبيا ميں بيٹھے بٹھائے پہلے گريڈ 18 اور پھر گريڈ 19 ميں ترقی دے دی گئی اور وہ اپنی ٹيم کے سب سے سينئر سے سينئر ہو گيا

تيسرا واقعہ اور بھی نرالا ہے ۔ ايک گريڈ 16 کے افسر چھٹی لے کر گئے اور واپس نہ آئے ۔ کئی سال اُن کو بُلايا جاتا رہا مگر کوئی جواب نہ آيا ۔ وہ ليبا چلے گئے ہوئے تھے اور وہاں کسی پرائيويٹ کمپنی کی ملازمت کر رہے تھے ۔ کيس چلتا رہا اور کوئی جواب نہ آنے پر اُنہيں مفرور [absconder] قرار دے ديا گيا [وزارتِ دفاع کا مفرور] ۔ مزيد چند سال گذر گئے تو اُن کی گريڈ 17 ميں ترقی کا نوٹی فيکيشن جاری ہو گيا جبکہ اُس وقت بھی وہ مفرور تھے

سُنا تھا کہ “جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے”۔ ہمارے مُلک ميں “انصاف وہ جو سر پھوڑ کے بولے”

قصوروار کون ۔ حکمران يا قوم يا دونوں ؟

ہمارے حکمران بشمول وزير اعظم اور بالخصوص صدر آئے دن برملا جھوٹ بولتے ہيں ۔ عوام ميں اتنا دم خم ہی نہيں کہ اس کا سدِ باب کر سکيں ۔ آج صرف ايک جھوٹ کا ذکر ہو گا جو صرف ہمارے صدر آصف علی زرداری ہی درجن سے زائد بار بر سرِ عام بول چکے ہيں ۔ وہ جھوٹ ہے “ہم نے ايک آمر پرويز مشرف کو کرسی چھوڑنے پر مجبور کيا”۔ حقيقت کھل کے سامنے آ رہی ہے آہستہ آہستہ

پہلا ثبوت
امريکا کے پچھلے صدر جارج ڈبليو بُش نے ” Decision Points ” کے نام سے ايک کتاب لکھی ہے ۔ اس کے صفحہ 217 پر لکھا ہے کہ “ميں نے اواخر 2007ء ميں پرويز مشرف سے کرسی چھوڑنے کا کہا اور اس نے وعدہ پورا کيا

دوسرا ثبوت
حاضر سروس کرنل الياس نے بتايا کہ وہ صدر کے ساتھ تعينات تھا اور صدر آصف علی زرداری نے اُسے بطور چيف سکيورٹی آفيسر ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کيا ہوا ہے ۔ کرنل الياس نے مزيد بتايا کہ اس کے علاوہ چار پانچ اور فوجی عہديدار بھی ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ يہ لوگ اُن چار فوجی عہديداروں کے علاوہ ہيں جو جنرل اشفاق پرويز کيانی نے ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ کرنل الياس نے يہ بھی انکشاف کيا کہ ان سب کے علاوہ چار ايس ايس جی کے کمانڈوز بھی ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں جنہوں نے اب ريٹائرمنٹ لے لی ہے ۔ کرنل الياس نے وضاحت کی کہ ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ حاضر سروس فوجی عہديدار صرف اتنے ہی تعينات کئے ہوئے ہيں البتہ ان کے علاوہ سويلين عہديدار ۔ ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور اور ايک پکاؤتا [Cook] صدر آصف علی زرداری نے ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ ان سب کو حکومتِ پاکستان تنخواہ ديتی ہے

سابق صدر رفيق تارڑ صاحب نے بتايا کہ ان کے ساتھ کوئی فوجی نہيں ہے ۔ قانون کے مطابق ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور ۔ ايک پکاؤتا اور ايک پوليس گارڈ سابق صدر کو ديئے جاتے ہيں

مرحوم سابق صدر فاروق لغاری صاحب کے رشتہ داروں نے بھی يہی بتايا ہے ۔ مگر بتايا گيا ہے کہ يہ سٹاف صرف پاکستان ميں مہيا کيا جاتا ہے ۔ اگر سابق صدر ملک سے باہر رہے تو اُسے سٹاف دينے کا کوئی قانون نہيں ہے

سابق آرمی چيف مرزا اسلم بيگ نے بتايا ہے کہ سابق آرمی چيف کو ملک کے اندر بھی کسی قسم کا سٹاف مہيا کرنے کا کوئی قانون موجود نہيں ہے ۔ ملک کے باہر تو سوال ہی پيدا نہيں ہوتا ۔ اُنہوں نے بتايا کہ ماضی ميں آرمی چيف کو ريٹائرمنٹ کے بعد ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور ۔ ايک بيٹ مين [Batman] اور ايک ٹيليفون ديا جاتا تھا مگر بينظير بھٹو جب دوبارہ وزير اعظم بنيں تو اُنہوں نے آرمی چيف جہانگير کرامت کو حکم ديا کہ ايسی مراعات واپس لے لی جائيں ۔ يہ حکمنامہ آج تک نافذ العمل ہے ۔ انہوں نے مزيد بتايا کہ موجودہ قوانين کے مطابق کوئی فوجی آفيسر يا جوان سابق آرمی چيف کے ساتھ تعينات نہيں کيا جا سکتا

سابق آرمی چيف عبدالوحيد کاکڑ کی پوتی نے بتايا کہ اُنہيں بھی اس قسم کی کوئی سہولت نہيں دی گئی

آخر ايسا کيوں ہے ؟

اس کا سبب صرف ايک ہے کہ قوم کی اکثريت خود بھی جھوٹ بولنا اور سننا پسند کرتے ہيں ۔ اسلئے ان ميں اتنی جراءت نہيں کہ کسی بھی جھوٹ کے خلاف آواز اُٹھا سکے

اللہ کا قانون اٹل ہے ۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ کم از کم قرآن شريف کو سچ سمجھے اور اس ميں ديئے گئے احکامات پر عمل کرے ۔ جب حشر کا سماں بندھے گا تو اس وقت کوئی مدد گار نہ ہو گا اور اپنے ہاتھ پاؤں بھی کہ جن کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کيا تھا اپنے ہی خلاف گواہی ديں گے

سورت 42 الشّورٰی ۔ آيت 30 ۔ ‏ تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ۔ اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے

سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے

سورت 53 النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

سورت 24 النّور ۔ آيت 55 ۔ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کو وہ امن امان سے بدل دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے ، اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں

قربانی اور اس کے لوازمات

ہر سال عیدالاضحٰے پر بکرا ۔ گائے ۔ اُونٹ وغیرہ کی قربانی کی جاتی ہے ۔ اس سلسلہ میں کئی باتیں سُننے اور دیکھنے میں آتی ہیں جن سے کم و بیش ہر ہموطن کو واسطہ پڑتا ہے ۔ کچھ باتیں تو ہمیشہ سے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو کچھ سال قبل نہ تھیں اور اب ہیں اسلئے انوکھی محسوس ہوتی ہیں

ہموطنوں کی بھاری اکثریت قربانی خود اپنے ہاتھ سے نہیں کرتی ۔ ايسا شايد صرف پاکستان بنگلہ ديش اور بھارت ميں ہوتا ہے ۔ ذبح کرنے کیلئے کسی قصائی یا نام نہاد قصائی کو پکڑ کر لایا جاتا ہے کئی جگہوں پر میں نے ایسے شخص کو بکرا ذبح کرتے دیکھا جسے ذبح کرنا تو بڑی بات ہے چھُری پکڑنے کا بھی سلیقہ نہ تھا ۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ قربانی دینے والے کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ذبح کرنے والا مسلمان بھی ہے یا نہیں ۔ جو چھُری اور ٹوکہ ہاتھ میں پکڑے نظر آ جائے اُسے پکڑ کر بکرا ذبح کروا لیا جاتا ہے ۔ اب تو 6 سال سے مجھے زمين پر بيٹھنے اور جھُکنے کی بھی اجازت نہيں ہے ۔ اچھے وقتوں ميں اللہ کے فضل سے ميں نے کم از کم 2 درجن قربانی کے جانور ذبح کئے اُن کی کھال اُتاری اور گوشت بھی بنايا

گوشت کی تقسيم

عام طور پر گوشت کے تین حصے کئے جاتے ہیں ایک اپنے لئے ۔ ایک عزیز و اقارب کیلئے اور ایک غُرباء میں تقسیم کرنے کیلئے ۔ یہ مُستحسن طریقہ ہے ۔ اگر سارا گوشت اپنے استعمال میں لایا جائے تو اس میں بھی کوئی بُرائی نہیں ۔ اسی طرح سارا گوشت پکا کر عزيز و اقارب کو کھلایا جا سکتا يا سارا گوشت عزيز و اقارب ميں بانٹا جا سکتا ہے يا سارا مساکين ميں تقسيم کيا جا سکتا يا اُنہيں پکا کر کھلايا جا سکتا ہے ۔ قربانی کے جانوار کے کسی بھی حصہ کے عِوض کچھ لینا حرام ہے ۔ کچھ لوگ اپنے افسر یا کسی اور بڑے آدمی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کافی سارا گوشت یا پوری ران اُسے بھیج دیتے ہیں ۔ یہ مناسب بات نہیں کیونکہ اس میں قربانی کے جذبہ کی بجائے خود ستائشی یا خودغرضی آ جاتی ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ مساکین اور اپنے عزيز و اقارب بالخصوص جن کی مالی حالت اچھی نہ ہو کا خیال رکھا جائے

عید والے دن کئی لوگ گوشت مانگنے آتے ہیں ۔ ان پر اگر غور کیا جائے تو کچھ لوگ چند گھروں سے گوشت لے کر چلے جاتے ہیں اور کچھ کے پاس پہلے سے ہی چار پانچ کلو گرام یا زیادہ گوشت ہوتا ہے اور وہ مزید گوشت اکٹھا کرتے جاتے ہیں ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی خاندان کے سب افراد گوشت مانگنے نکل پڑتے ہیں ۔ یہ لوگ مستحق لوگوں کا حق مارتے ہیں ۔ اس لئے میں تو بہتر سمجھتا ہوں کہ پہلے سے ہی اہل محلہ پر غور کیا جائے اور ان میں جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں ان کو ایک دن کیلئے کافی گوشت دے دیا جائے اور جو باقی بچے وہ مانگنے والوں میں بانٹا جائے ۔ اسلام آباد میں لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے لوگوں میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو سارا سال گوشت نہیں کھاتے ۔ اگر ایسے لوگوں کو سال میں ایک دن کیلئے گوشت کھانے کو دیا جائے تو اُن کے دل سے جو دُعا نکلے گی اس کا اندازہ عام انسان نہیں کر سکتا

ايک نيا نعرہ
کچھ سالوں سے سُننے ميں آتا ہے “مسلمان اتنے زيادہ جانور ذبح کر کے ضائع کرتے ہيں ۔ يہی روپيہ زلزلہ يا سيلاب کے متاءثرين کو دے ديں”
يہی بات حج کے معاملہ ميں بھی کہی جاتی ہے
يہ خام خيالی ہے ۔ نفلی حج يا نفلی قربانی کرنے کی بجائے اس کی قيمت صدقہ کر دينا بہتر ہے مگر فرض حج کو ملتوی کرنے کی دينی وجوہات کے علاوہ کسی اور وجہ سے ملتوی کرنا جائز نہيں ہے ۔ اسی طرح قربانی کرنے کی بجائے اس کی قيمت صدقہ کرنے سے قربانی ساقط نہيں ہوتی ۔ اس طرح کے استدلال ماننے کا مطلب اللہ اور اللہ کے رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کے فرمان پر اپنی عقل کو ترجيح دينا ہے

دعوٰی امن اور کرتوت دہشتگردی

ميرے ہموطن کتنے امن پسند اور قانوں کے پُجاری ہيں اس کی ايک جھلک اس خبر ميں ديکھئے

کراچی ميں شارع نورجہاں تھانے کی حدود فائیو اسٹارچورنگی کے قریب اورنگی ٹاؤن جانے والی تیز رفتار بس نے موٹر سائیکل کو ٹکر ماردی جس کے نتیجے میں موٹر سائیکل سوار عبدالغفار ولد عبداللہ شدید زخمی ہوگیا جسے عباسی شہید اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگیا ۔ متوفی نارتھ کراچی کا رہائشی تھا

فائیو اسٹار چورنگی پر تعینات رینجرز اہلکاروں نے بس ڈرائیور کو پکڑنے کی کوشش کی تو بس میں سوار افراد نے رینجرز اہلکاروں سے جھگڑا شروع کردیا ۔ جھگڑے کے دوران ہوائی فائرنگ بھی ہوئی اور رینجرز اہلکاروں پر پتھراؤ بھی ۔ جس پر رینجرز اہلکاروں نے فائرنگ کردی جس کی زد میں آکر عمران اور شہزاد زخمی ہوگئے جنہیں عباسی شہید اسپتال ليجایا گیا

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ہم آہنگی ؟

ہندوؤں ميں ذات پات سُنی تھی مگر سب ذاتوں والے اپنے آپ کو ہندوستانی ہی کہتے ہيں بلکہ وہاں رہنے والے مسلمان بھی اپنے آپ کو ہندوستانی کہتے ہيں
جاپان کی آبادی تين چار مُختلف نسلوں پر مُشتمِل ہے مگر سب جاپانی اپنے آپ کو ايک قوم سمجھتے ہيں
جرمن ايک قوم ہيں چاہے وہ ميدانی علاقہ کے ہوں پہاڑی علاقہ کے ہوں ۔ مقامی ہوں يا آباد کار ہوں
ڈچ يعنی ہالينڈ کے لوگ ايک قوم ہيں جبکہ وہاں تين مختلف نسليں مختلف زبانيں بولنے والی آباد ہيں
بيلجيئم ايک چھوٹا سا ملک ہے ۔ اس چھوٹے سے مُلک ميں 4 مختلف نسليں آباد ہيں جن کی زبانيں بھی مختلف ہيں اس کےعلاوہ کچھ لبنانی عرب بھی وہاں آباد ہو چکے ہيں مگر يہ بيلجيک ہيں اور ايک قوم ہيں
امريکا کے تمام شہری ايک قوم ہيں جبکہ امريکا ميں درجنوں مختلف نسليں آباد ہيں اور ان کی ثقافتيں بھی مختلف ہيں ۔ [ميں گرين کارڈ والوں کی بات نہيں کر رہا]

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ايک ملک ميں صرف ايک قوم ہوتی ہے چاہے وہاں کئی زبانيں بولی جاتی ہوں ۔ ثقافتيں مختلف ہوں اور کئی مختلف نسليں رہتی ہوں

اگر ہم مسلمان ہيں تو سب مسلمان ايک قوم ہوتے ہيں کيونکہ وہ ايک نبی کی اُمت ہيں

ميری سمجھ ميں يہ نہيں آتا کہ ميرے ہموطن کيا ہيں ؟
کہ قوم کی بجائے قوميّتوں کی آوازيں ہر طر ف سے آ تی رہتی ہيں

ہمارے ملک ميں آدھی صدی قبل يہ صورتِ حال تھی

ايک ۔
دوست آں باشد کہ گيرد دستِ دوست در پريشاں حالی و در ماندگی
[ترجمہ ۔ دوست وہ ہوتا ہے جو بُرے وقت ميں کام آئے]

دو ۔
ہو گئی زندگی مجھ کو پياری ۔ مل گيا جب سے غمگسار مجھے
دوستی شمع بن کے چمکتی ہے ۔ راہ دکھلائے ميرا پيار مجھے

مگر اب کچھ اس طرح کی صورت نظر آتی ہے

تين ۔
دوست دوست نہ رہا پيار پيار نہ رہا
زندگی ہميں تيرا اعتبار نہ رہا

ہم پاکستان کے معرضِ وجود ميں آنے سے پہلے اور اس کے کچھ سال بعد تک ايک قوم تھے مگر پچھلی آدھی صدی ميں آہستہ آہستہ خلوص کی جگہ ماديّت ليتی گئی جس کے نتيجہ ميں پہلی دو صورتيں کم ہوتی گئيں اور تيسری صورت زور پکڑتی گئی
کيوں ؟
اسلئے کہ قدريں بدل گئيں ۔ خواہشات بڑھ گئيں ۔ محبت کی جگہ دولت نے لے لی
آج صرف دوسرے پر اعتراض کيا جاتا ہے مگر اپنے آپ کو کوئی بدلنے کو کوئی تيار نہيں
نتيجہ صاف ظاہر ہے

تباہی

يا اللہ ميرے ہموطنوں کو عقلِ سليم عطا فرما اور ہمت عطا فرما تاکہ وہ ابليس کے نرغے سے نکل سکيں