Category Archives: طور طريقہ

رحم کرو ۔ خد اکے لئے اس ملک پہ رحم کرو

تمام قومی ادارے ہمیشہ قوم کے مجموعی مزاج کو ملحوظ رکھ کر تعمیر ہوتے ہیں جس طرح 1973ء کا آئین بھٹو نے بنایا تھا۔ تمام قوانین اسلام کے مطابق

عدل ہی معاشروں کو جما جڑا رکھتا ہے۔ آئین کے تحت ، قانون کے تحت۔ علّامہ جاوید غامدی یوں تو ادھورے آدمی ہیں۔ اسلام کی روح سے زیادہ الفاظ کے لیکن ایک بات ان کی سو فیصد درست ہے ” آئین کو اگر مقدس نہ مانا جائے گا تو ملک کو قرار حاصل نہ ہوگا”۔

سلمان تاثیر کیس میں ایک سے بڑھ کر ایک فلسفہ ہے لیکن کسی کو انصاف کی فکر بھی ہے؟

آسیہ بی بی کیس میں عدالت نے فیصلہ کیا تھا۔ گوارا یا ناگوار ، اسے قبول کیا جاتا یا اعلٰی تر عدالت سے رجوع۔ شک کا فائدہ دے کر اعلٰی عدالتیں ملزموں کو ہمیشہ بری کرتی آئی ہیں۔ اسّی کے اسّی مقدمات میں

گورنر سلمان تاثير کو پریس کانفرنس نہ کرنی چاہئیے تھی۔ یہ نہ کہنا چاہئیے تھا کہ “صدر صاحب آسیہ بی بی کو معاف کر دیں گے”۔ عدالت رہا کرتی اور یہ تو ہولناک تھا کہ قانون ناموسِ رسالت کو “کالا قانون” کہا

اب سبھی مانتے ہیں کہ قانون درست ہے اور معاملہ بے حد نازک۔ وزیر داخلہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ان کے سامنے کوئی توہینِ رسالت کرے تو وہ اسے گولی مار دیں [قانون ہاتھ میں لینے کا جواز کیا ہوگا؟]
وزيرِ قانون بابر اعوان کہہ چکے کہ ان کے جیتے جی کوئی اس قانون میں ترمیم نہیں کر سکتا
پیپلز پارٹی اور اس کے ترقی پسند دانشوروں کی طرف سے پیش کئے جانے والے مؤقف کا کھوکھلا پن اور تضاد آشکار ہے

سانحہ کے بعد حکمران جماعت کے دو ہدف ہیں ۔ ایک مذہبی پارٹیاں اور دوسرا شریف خاندان
انصاف نہیں ۔ قاتل کو سزا نہیں ۔ حریفوں سے وہ بدلہ چاہتے ہیں ۔ بابر اعوان ۔ راجہ ریاض اینڈ کمپنی نے کسی دلیل کے بغیر شریف برادران کو مجرم قرار دے دیا ۔ یہ تکرار البتہ جاری رہے گی کہ مفاہمت ان کی سیاسی پالیسی ہے۔سبحان اللہ، سبحان اللہ۔

اسلام آباد انتظامیہ کے اعلٰی افسر گورنر سلمان تاثير کی میت لے کر لاہور پہنچے تو گورنر کے خاندان نے مقدمہ درج کرانے سے انکار کر دیا

عاصمہ جہانگیر کو بلایا گیا تو انہوں نے مذہبی جماعتوں کے خلاف مقدمہ داغنے کا مشورہ دیا ۔ وہی برصغیر کا مقدمہ بازی کا مزاج کہ حادثہ ہو جائے تو ہر اس شخص کو پھنسا دیا جائے جس سے “ذاتی” یا “نظریاتی”عداوت ہے

محترمہ عاصمہ جہانگیر سے پوچھيئے “کیا قتل کے قانون کی وجہ سے ہر سال ہزاروں بے گناہوں کی زندگیاں برباد نہیں ہوتیں؟ کیا اسے ختم کر دیا جائے؟ کون سا قانون ، کون سا دفتر، کون سا ادارہ اور منصب ہے جو منفی مقاصد کے لیے برتا نہیں جاتا۔ خود ریاست بھی ۔ کیا سب کی بساط لپیٹ دی جائے؟”

مرحوم گورنر کی پریس کانفرنس اور شیریں رحمٰن کے مسوّدہ قانون جمع کراتے ہی آشکار تھا کہ طوفان اٹھے گا۔ بزرجمہر جو نہیں جانتے کہ معاشرے اتفاقِ رائے میں جیتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ قومی اور مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ لگانی چاہئیے۔ ضد ایسی شدید کہ طوفان دیکھ کر بھی نہیں ٹلتے۔ معاشرہ منقسم ہے ، معیشت برباد، سیاست بے حد اُلجھی ہوئی، ملک کا مستقبل داؤ پر لیکن جذبات کا کھیل جاری ہے ۔ ہر شخص اپنے تعصبات کے پھریرے لہراتا ہوا نظر آتا ہے

اسلام کی اساس دو چیزیں ہیں۔ قرآن اور سنت

رحمتہ اللعالمین کی توہین ، اسلام کی عمارت کے دو ستونوں میں سے ایک کو گرا دینے کے مترادف ہے۔ جذبات کا نہیں ، یہ عقیدے کا معاملہ ہے ۔ ایمان کا معاملہ ہے ۔ پانچ کے پانچ [حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اورجعفریہ] مکاتبِ فکر سو فیصد اس پر متفق ہیں۔ اقبال سے بڑھ کر کسی مفکر پر اتفاقِ رائے نہ ہوا، وہ بھی

بات سمجھ میں نہیں آتی تو ناموسِ رسالت کے قانون پر ریفرنڈم کرا لیجئے۔ کسی ایک شہر میں کوئی ادارہ سروے کرلے۔ 90 فیصد لوگ اس قانون کے حامی ہیں۔ جو دانشور معترض ہیں، ان میں لاہور والوں کو میں جانتا ہوں۔ اقبال اور قائداعظم ہی نہیں ، اسلام کا بھی وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ سوال بالکل سادہ ہے “آپ لوگ اپنی رائے ہم پر مسلّط کیسے کر سکتے ہیں؟”

دانا اتنے ہیں کہ زندگی کے اولین سوال پر غور کرنے کی کبھی فرصت نہ پا سکے ۔ اس حیات اور کائنات کو کس نے پیدا کیا ؟ شرعی قوانین سے بحث کرتے ہیں حالانکہ قرآن کریم، حدیث اور اسلام کی علمی روایت کو چھُوا تک نہیں

درختوں کی جڑیں زمین اور اداروں کی جڑيں قومی مزاج ، تمدن ، تاریخ اور روایات میں ہوتی ہیں۔ مغربی تحریکوں کے زیرِ اثر یہ مفکرین ہوا میں جھُولتے ہیں اور قوم سے ان کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ بھی خلاء میں معلّق رہے۔ عام لوگوں کا اندازِ فکر عملی ہوتا ہے ۔ وہ احساسِ کمتری سے اُگنے والے فلسفوں کے جنگلوں میں نہیں جِیا کرتے

اب دوسری طرف آئیے
مولانا فضل الرحمٰن کو سرکار سے جو کچھ سمیٹنا تھا ، سمیٹ کر باہر نکلے اور تحریکِ ناموسِ رسالت کا اعلان ہوگیا۔ ٹی وی پر اور اس کالم میں بار بارعرض کیا: جذبات کی آگ مت بھڑکائیے ، جلسہ جلوس کی ضرورت کیا ہے ؟ ناموسِ رسالت کے قانون کو کون چھیڑ سکتا ہے۔ بحث مطلوب ہے تو اٹھارویں ترمیم کی طرح پارلیمنٹ ہاؤس کے کسی بند کمرے میں کر لیجئے۔ مشاورت کا دائرہ بتدریج بڑھا کر اتفاقِ رائے پيدا کيجئے۔ بعض مقدمات عدالتیں بند کمروں میں سنا کرتی ہیں۔ یہ ویسا ہی معاملہ ہے۔ مسئلہ ہے قانون کے غلط استعمال کا۔ روکا جا سکتا ہے۔ بدنیتی سے الزام لگانے والے کے لیے سزا کا تعین ، ایک نئے قانون سے

لیڈروں اور دانشوروں پہ خدا رحم کرے۔ سب کے سب معاشرے کو ادھیڑنے پر تُلے ہیں۔ ترقی پسندوں کو اپنی دانائی اورعلماءِ کرام کو اپنے ایمان اور تقویٰ پر فخر بہت ہے ۔ غور لیکن وہ ہرگز نہ فرمائیں گے۔ اللہ کی کتاب سچ کہتی ہے : “انسان بڑا ہی ظالم اور جاہل ہے” ۔ اپنے آپ پر زعم ، اپنے فرض کی اہمیت سے بے خبر

سوچا ۔ علماءِ کرام سے پوچھوں “اللہ کے نام پر بننے والے ملک کی آپ نے کیا خدمت کی؟” یاد آیا کہ ان میں جو زیادہ موثر ہیں، وہ تو پاکستان بنانے کے مخالف تھے۔ ریاست کو وہ مانتے نہیں، دہشت گردوں، حتٰی کہ خود کش حملہ آوروں کی مذمت سے گریز

ترقی پسند فرماتے ہیں “سیکولر ازم اختیار کیا جائے”۔ کوئی انہیں تاریخ پڑھائے کہ مغرب میں ظالم چرچ حکمران تھا، جس کے خلاف بغاوت ہوئی۔ جیسا کہ قائداعظم بار بار کہتے تھے “اسلام میں پاپائیت کا وجود ہی نہیں”۔ مسلم عوام علماء کو کارِ سیاست سے الگ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ دو آدمیوں پر اتفاقِ رائے ہوا۔ اقبال اور قائداعظم

بھٹو 35فیصد ووٹ لے کر جیتے، وہ بھی بھارت اور امریکی استعمار کے خلاف نعرہ زن ہو کر۔ غریب آدمی کے جذبات جگا کر۔ اعلان کیا کہ اسلام ہمارا دین ہے ۔ سوشلزم ترک کر کے مساوات محمدی کی اصطلاح وضع کی۔ قادیانیوں کو اقلیت کیا، حج کا کوٹہ ختم کر دیا۔ قوم کو مطمئن رکھنے کے لیے عالمِ اسلام سے قریبی روابط استوار کئے۔ دہلی کی دائم مخالفت کرتے رہے ۔ ان کے وارث دوسرا ہی راگ الاپتے ہیں۔ پہلے ماسکو اور اب واشنگٹن کا گیت

اسلام آباد کے وکیلوں نے کمال کر دیاکہ قاتل پر پھول برسائے۔ وہ کیا چاہتے ہیں؟ انارکی؟ قانون کا خاتمہ؟
وزیر داخلہ کا بھی جواب نہیں کہ صبح سویرے ریمانڈ کی بجائے معاملے کو ملتوی کرتے رہے۔ کئی ایک بزرجمہر پولیس کو گالی دیتے رہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ مرحوم گورنر نے اسلام آباد پولیس کو دورے سے مطلع ہی نہ کیا تھا۔ پولیس کا قوم کو شکر گزار ہونا چاہئیے ۔ اوسطاً ہر ہفتے دو خودکش حملہ آور دارالحکومت میں داخل ہوتے ہیں۔ ڈیڑھ سو گرفتار ہوئے ۔ تحسین کی بجائے پوليس کی مذمت ؟
پولیس کو حکومت اور بارسوخ لوگوں نے برباد کیا ۔ قوانین کے تحت آزادی سے کام کرنے دیا جائے تو آدھے جرائم فوراً ختم ہو جائیں۔ یہاں مگر بھرتی میں سفارش، مناصب میں سفارش اور ایک ایک کیس میں سفارش۔ اس کے بعد شکوہ کيسا ؟

رہنما اوردانشور پہلے ہی قوم کو تقسیم کر چکے، مزید تقسیم نہ کریں۔ اسے اعتدال پر رہنے دیں جو اس کا مزاج ہے اور جس پر بقا کا انحصار۔ آئین اور قانون کی اہمیت اُجاگر کریں۔ طعنہ زنی کی بجائے دلیل دیں۔ پہلے ہی چوہدری، نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری، جناب الطاف حسین اور حضرت مولانا فضل الرحمٰن اس کے مقدر میں ہیں۔ معیشت برباد، لوٹ مار بے حد چنانچہ استعمار پہ انحصار ۔۔۔ اب اورکیا ؟

رحم کرو ، خدا کے لئے اس ملک پر رحم کرو

بشکريہ ۔ جنگ

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ شادی خانہ آبادی يا ۔ ۔ ۔

شادی کا لفظ نکلا ہے شاد ۔ شاداں يا شادمانی سے يعنی خوشی ۔ عقد النکاح کا نام شادی رکھنا تب درست معلوم ديتا ہے جب خانہ آبادی ہو ورنہ بربادی کو شادی کہنا کہاں کی عقلمندی ہے
:lol:
ويسے اس نہائت اہم سلسلہ ميں ہماری قوم کی اکثريت عقلبندی کا مظاہرہ کرتی ہے عقلمندی کا نہيں ۔ شادی تو بعد کی بات ہے اسے خانہ بربادی بنانے کا بندوبست اُسی وقت شروع کر ديا جاتا ہے جب کسی لڑکے کی شادی کی منصوبہ بندی شروع ہوتی ہے

کسی نے کہہ ديا “بيٹے سے پوچھ ليا ؟” تو جواب ملا “اے ہے ۔ ہمارا بيٹا ہے ۔ بڑے لاڈ چاؤ سے پالا ہے ۔ کيسے نہ پسند ہوگی اُسے”۔ اگر لڑکے کا باپ مداخلت کی کوشش کرے تو جواب ملتا ہے “تمہيں کيا معلوم کہ گھر کيسے چلتا ہے ۔ تم تو سارا دن باہر رہتے ہو ۔ بہو کے ساتھ سارا دن ميں نے گذارنا ہے”

يہ بات جاہلوں يا کم پڑھے لکھوں کی نہيں ہو رہی ۔ بڑی بڑی پڑھی لکھیاں جب ماں بنتی ہيں تو عقلبند ہو جاتی ہيں ۔ عورت بہو کی تلاش ميں نکلتی ہے تو پہلی شرط چاند سا مکھڑا ہوتی ہے جب مل جائے تو اُس کے باپ کی جائيداد يا عہدے کا حساب لگنا شروع ہو جاتا ہے ۔ شادی ہو جانے پر پتہ چلتا ہے کہ بيٹا مشرق کی طرف جا رہا ہے اور بہو مغرب کی طرف پھر وہی چاند سا مکھڑا گہنا جاتا ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ شادی نہيں خانہ بربادی ہوئی ہے

ہمارے ہاں ايک رواج بيٹے برآمد [export] کرنے کا بھی چل رہا ہے ۔ برطانيہ يا امريکا ميں لڑکی پسند کی اور بہو گھر لانے کی بجائے بيٹے کو بہو کے گھر بھيج ديا ۔ دل ميں لڈو پھوٹتے ہيں کہ بيٹا برطانوی يا امريکی شہری بن جائے گا تو گويا بادشاہت مل جائے گی ۔ بھلا ہو امريکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ورنہ بڑے فخر کے ساتھ کہا جاتا تھا ہمارے بيٹے کے پاس گرين کارڈ ہے يا ہمارے بيٹے کے پاس لال پاسپورٹ ہے ۔ ايسے لڑکے عام طور پر ساری عمر بيوی کی غلامی ميں گذارتے ہيں کيونکہ امريکا اور برطانيہ کے قانون کے مطابق اُن کی بيوياں جب چاہيں اُنہيں مُلک سے نکلوا سکتی ہيں ۔ تو کيا يہ شادی ہوئی يا خانہ بربادی

انسان اور درندہ

چيتا ايک جنگلی جانور ہے جسے اس کی تيز رفتاری اور اعصاب کی مضبوطی کی وجہ سے بہت خوننخوار درندہ سمجھا جاتا ہے

کمال يہ ہے کہ ہر جنگلی جانور اصولوں کا پابند ہوتا ہے چاہے وہ چيتا ہی کيوں نہ ہو مگر انسان جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے اسے اصولوں کا پابند بنانا بہت مُشکل ہے ۔ کيا عجب کہ اپنے آپ کو انسان سمجھنے والا خونخوار سے بڑھ کر خونخوار ہو

چيتے کی اصول پسندی کا مظاہرہ

ہم ۔ ہماری باتيں اور ہمارا عمل

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کی حفاظت کرنے والے ایلیٹ فورس کے سکواڈ میں شامل جوان ممتاز قادری نے ہلاک کر ديا

نتيجہ ۔
ہميشہ کی طرح عوام کی آپس ميں لے دے ۔ فضول بحث اور ايک دوسرے پر تہمت طرازی
سوال ہے ۔ کيا ہميں اس سے بہتر کوئی کام نہيں آتا ؟

[ميں شروع ہی ميں واضح کر دوں کے ميری سوچ کے مطابق ممتاز قادری ملک کے قانون کا مجرم بنا ہے ۔ اللہ کا مجرم بنا ۔ يا نہيں ۔ وہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ ميں دو جماعت پاس کيا کہہ سکتا ہوں ؟]

جسے ديکھو وہ قرآن شريف اور حديث سے بالا بالا اپنی مخصوص رائے رکھتا ہے جسے وہ اصلی اسلام منوانے پر تُلا بيٹھا ہے ۔ اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم سے محبت صرف يہ سمجھ ليا گياہے کہ ميلادالنبی کا جلوس نکالا جائے محفل ميلاد رچائی جائے ۔ ان ميں نعت کے عنوان سے شرک کی حديں پار کی جائيں مگر اپنی زندگی ميں صرف وہاں نبی کی پيروی کی جائے جہاں آسانی ہو يا اپنی مطلب براری ہوتی ہو ۔ اور جب توہينِ رسالت کی بات آئے تو “قانون امتناع توہينِ رسالت” کو ظالمانہ يا کالا قانون کہا جائے ۔
يا
رحمت للعالمين کی حيات طيّبہ ميں سے چند مثاليں دے کر توہين کرنے والے کی معافی کا جواز نکالا جائے

ميں ايک عام سا انسان ہوں اور ہر بات کو اس نظر سے ديکھتا ہوں جيسا کہ ميرا اپنا عمل ہے ۔ اگر کوئی ميری بے عزتی کرے تو ميں اُسے معاف کر سکتا ہوں اور يہ حقيقت ہے کہ ميں نے اپنی زندگی ميں ہميشہ ايسے لوگوں کو معاف کيا بھی بلکہ ايک بار حالات کی سازگاری کے پيشِ نظر ايک سِنيئر افسر ہوتے ہوئے ايک ورکر سے سب کے سامنے معافی مانگی ليکن ميں اپنے والدين کی توہين برداشت نہيں کر سکتا چاہے ميری جان جائے ۔ ايک بار ايک شخص نے يہ حرکت کی تھی اور وہ پہلی اور آخری بار تھی کہ لوگوں نے مجھے بپھرا ہوا ديکھا تھا ۔ ميں نے اپنے سے زيادہ جسمانی لحاظ سے طاقتور توہين کرنے والے کے دو چار ہاتھ ايسے رسيد کئے کہ وہ پريشان ہو گيا تھا ۔ اس کے بعد آج تک کسی کو جراءت نہيں ہوئی کہ وہ ميرے ماں باپ کے خلاف بولے

کيا يہ حقيقت نہيں ہے کہ کوئی شخص مُسلمان ہو ہی نہيں سکتا جب تک اُسے نبی سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم اپنی عزيز ترين چيز حتٰی کہ اپنے والدين سے بھی زيادہ عزيز نہ ہو جائيں ؟

پھر کہاں رہ جاتی ہے ہماری مسلمانی جب کوئی ملعون توہنِ رسالت کا مرتکب ہوتا ہے ؟

کيا ہمارا حال کچھ اس طرح نہيں جس طرح گارڈن کالج راولپنڈی ميں ہمارے پروفيسر جناب وی کے مل صاحب نے انگلش پوئٹری پڑھاتے ہوئے بتايا تھا “ايک جوان اپنی محبوبہ کو بتا رہا تھا کہ وہ اس سے بہت زيادہ محبت کرتا ہے يہاں تک کہ اس کيلئے اپنی جان تک قربان کر سکتا ہے ۔ اسی اثناء ميں ايک بھينسا اُن کی طرف بھاگتا ہوا آيا تو جوان نے اپنی محبوبہ جس نے سُرخ رنگ کا سکرٹ پہن رکھا تھا کو اُٹھا کر بھينسے کے سامنے کر ديا”

يہ کہنا درست ہے کہ ممتاز قادری نے سلمان تاثير کو قتل کر کے ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی ۔ اس پر بہت شور شرابا ہے ۔ ملک ميں اس سے زيادہ قانون کی خلاف ورزياں ہو رہی ہيں ۔ ان پر خاموشی ہے ۔ کيوں ؟

سلمان تاثير نے قانون امتناع توہينِ رسالت کو “کالا قانون” کہہ کر نہ صرف ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی بلکہ توہينِ رسالت کا بھی مرتکب ہوا تھا

اس پر ملک کے وزيرِ اعظم سيّد يوسف رضا گيلانی نے يہ کہہ کر کہ يہ حکومت کی پاليسی نہيں ہے ايک گڑوی پانی سے اشنان کر ليا تھا ۔ توممتاز قادری کے بارے ميں بھی ايک گڑوی پانی سے اشنان کر لينے ميں کيا مانع ہے ؟

اس سے اُن کی اپنی جماعت اور حواری زد ميں آتے ہيں اور اُنہيں اپنی کرسی چھننے کا خدشہ ہے

بدلہ جانوروں سے ؟ ؟ ؟

ميں پہلے بدلہ انسانوں سے لکھ چکا ہوں جس ميں اس سلسلہ ميں اللہ کا فرمان نقل کر چکا ہوں ۔ ہم لوگ اتنے خود پسند اور خود غرض ہو چکے ہيں کہ بے زبان جانوروں کو بھی معاف نہيں کرتے ۔ انسان بول سکتے ہيں بدلہ لے سکتے ہيں مگر جانور جو ايسا نہيں کر سکتے ہمارا رويّہ اُن کے ساتھ بہتر ہونے کی بجائے ظالمانہ ہوتا ہے

پرانے زمانہ ميں لوگ اپنے گھر کی چھتوں پر يا برآمدے ميں محراب کی چوٹی سے دو برتن لٹکا ديا کرتے تھے اور روزانہ ايک ميں دانہ اور ايک ميں پانی ڈالا کرتے تھے ۔ يہ کام صرف مالدار نہيں کم مايہ لوگ بھی کرتے تھے اور کئی اب بھی کرتے ہيں ۔ پرندے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی حمد کرتے ہيں کيا وہ انسانوں کيلئے خير کی دعا نہيں کر سکتے ؟

ميں نے بچپن ميں چيوٹيوں کی لمبی قطار لگی ديکھی تو اپنے گھر والوں کو مطلع کيا ۔ کہا گيا “ديکھو چيونٹياں کہاں سے آ رہی ہيں ۔ وہاں ايک مُٹھی آٹا ڈال دو”۔ ميں نے تعميل کی اور چيونٹيوں کا جائزہ لينے لگا ۔ کچھ ہی دير ميں سب چيونٹياں آٹا اپنے بِل ميں ليجا رہی تھيں ۔ اس کے بعد گھر ميں کوئی چيونٹی نظر نہ آئی

اب اگر پرندوں کے گند ڈالنے يا چيونٹيوں کے گھر ميں کھانے کی چيز پر چڑھنے يا گھر ميں پھرنے سے ناراض ہو کر پرندوں کو ہلاک کرنا شروع کر ديا جائے يا چيونٹيوں کی نسل کُشی کر دی جائے تو کيا يہ ظلم نہ ہو گا ؟

ہم نے اساتذہ اور بزرگوں سے سنا تھا کہ ايک درخت کاٹا جائے يا فالتو پانی بہايا جائے تو اس کا بھی روزِ محشر حساب دينا ہو گا ۔ بدلہ لينے کے سلسلہ ميں اللہ کا فرمان ہے بے زبان سے کيا بدلہ لينا جسے اس بات کی سمجھ ہی نہيں کہ وہ اپنا رزق تلاش کرتے ہوئے کسی کی نازک طبع پر گراں گذر رہا ہے

سورت 16 النحل آيت 126 ۔ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ
اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے

سورت 42 الشورٰی آيات 40 تا 43 ۔ وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، (فی الواقع) اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا

امريکی امداد کہاں جاتی ہے ؟

يو ايس ايڈ کا نام عام سُنا جاتا ہے اور اخبارات ميں بھی اس کا بہت ذکر رہتا ہے ۔ ہوتی ہے
United States Agency for International Development
عام لوگ حيران ہوتے ہيں کہ يو ايس ايڈ کے تحت اربوں ڈالر پاکستان کو ملتے ہيں مگر ترقی [development] کہيں نظر نہيں آتی
1960ء کی دہائی کے اوائل ميں ميرے 200 سے زائد جوان انجنيئر ساتھيوں نے جو واپڈا کی ملازمت ميں تھے اسی يو ايس ايڈ کے اصل استعمال کو ديکھ کر لاہور واپڈا ہاؤس کے سامنے احتجاج کيا اور تمام صعوبتيں جھيلنے کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرا کے اس موذی مرض سے واپڈا کو نجات دلانے ميں کامياب ہو گئے

اُنہی دنوں ميں پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں ميرے ساتھی آدھی درجن جوان انجيئروں نے اپنا خاموش احتجاج اربابِ اختيار تک پہنچايا اور اس وقت کے چيئرمين صاحب نے جراءت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس وقت کے حکمرانوں کو اس موذی بيماری کی توسيع روکنے پر قائل کر ليا ۔ چند ماہ کے اندر اس موذی مرض سے نجات مل گئی اور پاکستان آرڈننس فيکٹريز تيزی سے ترقی کرنے لگيں

پھر ناجانے کب يہ موذی مرض وطنِ عزيز ميں حملہ آور ہوا اور اب سرطان کی طرح پھيل کر ملک کو بُری طرح جکڑ چکا ہے

آخر يہ امداد جو ترقی کا نام لئے ہوئے ہے جاتی کہاں ہے ؟ نيچے ديئے ربط پر کلک کر کے اس کی نہائت مختصر داستان پڑھيئے
Where USAID Goes ???

اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں

بنيادی طور پر ہند و پاکستان کی آزادی کا جو منصوبہ تھا اُس میں صوبوں کی بنياد پر تقسيم ہونا تھی مگر ہندو رہنماؤں کی ايماء پر صوبوں کی بجائے ضلعوں کی بنياد پر تقسيم کا فيصلہ کر ديا گيا اس طرح دو صوبے بنگال اور پنجاب کو تقسيم کر ديا گيا ۔ ہندو رہنماؤں نے کمال مکاری کرتے ہوئے لارڈ مؤنٹ بيٹن کو بننے والے بھارت کا پہلا گورنر جنرل مان ليا ۔ پھر جواہر لال نہرو کی ليڈی مؤنٹ بيٹن سے دوستی رنگ لائی اور حکومتِ برطانيہ کے منظور شدہ فيصلہ کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے خفيہ طور پر بھاری مسلم اکثريت والے ضلع گورداسپور کو تقسيم کر ديا اور جس کا اعلان پاکستان بننے کے چند دن بعد کيا گيا

بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والی واحد سڑک ضلع گورداس پور کے قصبہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتی تھی جسے بھارت ميں شامل کر کے بھارت کو جموں کشمير جانے کا راستہ مہياء کر ديا گيا تھا ۔ پھر جب 24 اکتوبر 1947ء سے جموں کشمير کی آزادی کی جنگ لڑنے والے جموں کشمير کے باشندے جنوری 1948ء ميں ضلع جموں ميں اکھنور کے قريب پہنچ گئے تو بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے اگر مزيد آگے بڑھ کر کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو 27 اکتوبر 1947ء کو جموں کشمیر میں زبردستی داخل ہو گئےتھے محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو فوراِ امريکا پہنے اور اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی اقوامِ متحدہ کے زيرِ اہتمام عام رائے شماری کرائی جائے گی اور جو فیصلہ جموں کشمير کے عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور اس بناء پر فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔ اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948ء میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد جلد حالات بہتر کر کے رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل اور اقوامِ متحدہ کے کميشن کی قرارداديں جو چيخ چيخ کر دنيا سے انصاف کا تقاضہ کر رہيں ہيں مندرجہ ذيل ہيں ۔ متعلقہ قرارداد اس پر کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 21 اپريل 1948ء

اقوامِ متحدہ کے کميشن کی قرارداد 13 اگست 1948ء

اقوامِ متحدہ کے کميشن کی قرارداد 5 جنوری 1949ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 14 مارچ 1950ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 30 مارچ 1951ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 24 جنوری 1957ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 20 ستمبر 1965ء