Category Archives: طور طريقہ

احوالِ قوم ۔ 9 ۔ بُغض ۔ نفاق ۔ حسد ۔ تکبّر

وہ دِیں جس نے اُلفت کی بنیاد ڈالی۔ ۔ ۔ کِیا طبعِ دوراں کو نفرت سے خالی
بنایا اجانب کو جس نے موالی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک قوم کے دل سے نفرت نکالی
عرب اور حبش تُرک و تاجِک و ویلم۔ ۔ ۔ ہوئے سارے شِیر و شکر مِل کے باہم
تعصب نے اس صاف چشمہ کو آکر۔ ۔ ۔ ۔ کیا بُغض کے خار و خَس سے مکدّر
بنے خصم جو تھے عزیر اور برادر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نفاق اہلِ قِبلہ میں پھیلا سراسر
نہیں دستیاب ایسے اب دس مسلماں۔ ۔ کہ ہو ایک کو دیکھ کر ایک شاداں

ہمارا یہ حق تھا کہ سب یار ہوتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مصیبت میں یاروں کے غمخوار ہوتے
سب ایک اِک کے باہم مددگار ہوتے۔ ۔ ۔ عزیزوں کے غم میں دل افگار ہوتے
جب الفت میں یوں ہوتے ثابت قدم ہم۔ ۔ تو کہہ سکتے اپنے کو خیرُ الاُمَم ہم
اگر بھولتے ہم نہ قولِ پیمبر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہیں سب مسلمان باہم برادر
برادر ہے جب تک برادر کا یاور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معین اس کا ہے خود خداوندِ داور
تو آتی نہ بیڑے پہ اپنے تباہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقیری میں بھی کرتے ہم بادشاہی

مجالس میں غیبت کا زور اس قدر ہے ۔ ۔ ۔ کہ آلودہ اس خون میں ہر بشر ہے
نہ بھائی کو بھائی سے یاں درگزر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہ مُلا کو صوفی کو اس سے حذر ہے
اگر نشئہ مے ہو غیبت میں پنہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہشیار پائے نہ کوئی مسلماں
جنہیں چار پیسے کا مقدور ہے یاں۔ ۔ ۔ سمجھتے نہیں ہیں وہ انساں کو انساں
موافق نہیں جن سے ایامِ دوراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں دیکھ سکتے کسی کو وہ شاداں
نشے میں تکبر کے ہے چُور کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسد کے مرض میں ہے رنجور کوئی

اگر مرجعِ خلق ہے ایک بھائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ظاہرا جس میں کوئی برائی
بھلا جس کو کہتی ہے ساری خدائی۔ ۔ ہر اک دل میں عظمت ہے جس کی سمائی
تو پڑتی ہیں اس پر نگاہیں غضب کی۔ ۔ ۔ کھٹکتا ہے کانٹا سا آنکھوں میں سب کی

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

محبت جب ہو جائے ۔ ۔ ۔

سعودی عرب ميں رہائش پذير ایک شخص نے یہ واقعہ سنایا

میں اور میرے ماموں نے حسب معمول مکہ حرم شریف میں نماز جمعہ ادا کی اورگھر کو واپسی کیلئے روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر سڑک کے کنارے کچھ فاصلے پر ایک بے آباد سنسان مسجد آتی ہے، مکہ شریف کو آتے جاتے سپر ہائی وے سے بارہا گزرتے ہوئے اس جگہ اور اس مسجد پر ہماری نظر پڑتی رہتی ہے اور ہم ہمیشہ ادھر سے ہی گزر کر جاتے ہیں مگر ايک دن جس چیز نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی وہ تھی ایک نیلے رنگ کی فورڈ کار جو مسجد کی خستہ حال دیوار کے ساتھ کھڑی تھی، چند لمحے تو میں سوچتا رہا کہ اس کار کا اس سنسان مسجد کے پاس کیا کام مگر اگلے لمحے میں نے کچھ جاننے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی کار کو رفتار کم کرتے ہوئے مسجد کی طرف جاتی کچی سائڈ روڈ پر ڈال دیا، میرا ماموں جو عام طور پر واپسی کا سفر غنودگی میں گزارتا ہے اس نے بھی اپنی آنکھوں کو وا کرتے ہوئے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا ” کیا بات ہے ؟ ادھر کیوں جا رہے ہو؟”

ہم نے اپنی کار کو مسجد سے دور کچھ فاصلے پر روکا اور پیدل مسجد کی طرف چلے، مسجد کے نزدیک جانے پر اندر سے کسی کی پرسوز آواز میں سورۃ الرحمٰن تلاوت کرنے کی آواز آ رہی تھی، پہلے تو یہی ارادہ کیا کہ باہر رہ کر ہی اس خوبصورت تلاوت کو سنیں ، مگر پھر یہ سوچ کر کہ اس بوسیدہ مسجد میں جہاں اب پرندے بھی شاید نہ آتے ہوں، اندر جا کر دیکھنا تو چاہیئے کہ کیا ہو رہا ہے؟

ہم نے اندر جا کر دیکھا ایک نوجوان مسجد میں جاء نماز بچھائے ہاتھ میں چھوٹا سا قرآن شریف لئے بیٹھا تلاوت میں مصروف ہے اور مسجد میں اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے تو احتیاطا ادھر ادھر دیکھ کر اچھی طرح تسلی کر لی کہ واقعی کوئی اور موجود تو نہیں ہے۔
میں نے اُسے السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا، اس نے نظر اُٹھا کر ہمیں دیکھا، صاف لگ رہا تھا کہ کسی کی غیر متوقع آمد اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، حیرت اس کے چہرے سے عیاں تھی
اُس نے ہمیں جواب ميں وعلیکم السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا
میں نے اس سے پوچھا، عصر کی نماز پڑھ لی ہے کیا تم نے، نماز کا وقت ہو گیا ہے اور ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔
اُس کے جواب کا انتظار کئے بغیر میں نے اذان دینا شروع کی تو وہ نوجوان قبلہ کی طرف رخ کئے مسکرا رہا تھا، کس بات پر یا کس لئے یہ مسکراہٹ، مجھے پتہ نہیں تھا۔ عجیب معمہ سا تھا۔
پھر اچانک ہی اس نوجوان نے ایک ایسا جملہ بولا کہ مجھے اپنے اعصاب جواب دیتے نظر آئے،
نوجوان کسی کو کہہ رہا تھا “مبارک ہو ۔ آج تو باجماعت نماز ہوگی”

میرے ماموں نے بھی مجھے تعجب بھری نظروں سے دیکھا جسے میں نظر انداز کر تے ہوئے اقامت کہنا شروع کردی جبکہ میرا دماغ اس نوجوان کے اس فقرے پر اٹکا ہوا تھا کہ مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔
دماغ میں بار بار یہی سوال آ رہا تھا کہ یہ نوجوان آخر کس سے باتیں کرتا ہے، مسجد میں ہمارے سوا کوئی بندہ و بشر نہیں ہے، مسجد فارغ اور ویران پڑی ہے۔ کیا یہ پاگل تو نہیں ہے؟
میں نے نماز پڑھا کر نوجوان کو دیکھا جو ابھی تک تسبیح میں مشغول تھا۔
میں نے اس سے پوچھا، بھائی کیا حال ہے تمہارا؟ جسکا جواب اس نے ــ’بخیر و للہ الحمد‘ کہہ کر دیا۔
میں نے اس سے پھر کہا، اللہ تیری مغفرت کرے، تو نے میری نماز سے توجہ کھینچ لی ہے۔
“وہ کیسے ؟” نوجوان نے حیرت سے پوچھا۔
میں نے جواب دیا “جب میں اقامت کہہ رہا تھا تو نے ایک بات کہی مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی”
نوجوان نے ہنستے ہوئے جواب دیا “اس میں ایسی حیرت والی کونسی بات ہے ؟”
میں نے کہا “ٹھیک ہے کہ اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں ہے مگر تم بات کس سے کر رہے تھے آخر؟”
نوجوان میری بات سن کر مسکرا تو ضرور دیا مگر جواب دینے کی بجائے اس نے اپنی نظریں جھکا کر زمین میں گاڑ لیں، گویا سوچ رہا ہو کہ میری بات کا جواب دے یا نہ دے۔
میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا “مجھے نہیں لگتا کہ تم پاگل ہو، تمہاری شکل بہت مطمئن اور پُرسکون ہے، اور ماشاءاللہ تم نے ہمارے ساتھ نماز بھی ادا کی ہے”۔
اس بار اُس نے نظریں اُٹھا کر مجھے دیکھا اور کہا “میں مسجد سے بات کر رہا تھا”

اس کی بات میرے ذہن پر بم کی کی طرح گری، اب تو میں سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ یہ شخص ضرور پاگل ہے۔
میں نے ایک بار پھر اس سے پوچھا “کیا کہا ہے تم نے؟ تم اس مسجد سے گفتگو کر رہے تھے؟ تو پھر کیا اس مسجد نے تمہیں کوئی جواب دیا ہے؟”
اُس نے پھرمسکراتے ہوئے ہی جواب دیا “مجھے ڈر ہے تم کہیں مجھے پاگل نہ سمجھنا شروع کر دو”
میں نے کہا “مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے، یہ فقط پتھر ہیں، اور پتھر نہیں بولا کرتے”
اُس نے مسکراتے ہوئے کہا “آپکی بات ٹھیک ہے یہ صرف پتھر ہیں”
ميں نے کہا “اگر تم یہ جانتے ہو کہ یہ صرف پتھر ہیں جو نہ سنتے ہیں اور نہ بولتے ہیں تو باتیں کس سے کیں؟”
نوجوان نے نظریں پھر زمین کی طرف کر لیں، جیسے سوچ رہا ہو کہ جواب دے یا نہ دے۔
اور اب کی بار اُس نے نظریں اُٹھائے بغیر ہی کہا “میں مسجدوں سے عشق کرنے والا انسان ہوں، جب بھی کوئی پرانی، ٹوٹی پھوٹی یا ویران مسجد دیکھتا ہوں تو اس کے بارے میں سوچتا ہوں ۔ مجھے اُنایام خیال آجاتا ہے جب لوگ اس مسجد میں نمازیں پڑھا کرتے ہونگے۔ پھر میں اپنے آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ اب یہ مسجد کتنا شوق رکھتی ہوگی کہ کوئی تو ہو جو اس میں آکر نماز پڑھے، کوئی تو ہو جو اس میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرے۔ میں مسجد کی اس تنہائی کے درد کو محسوس کرتا ہوں کہ کوئی تو ہو جو ادھر آ کر تسبیح و تحلیل کرے، کوئی تو ہو جو آ کر چند آیات پڑھ کر ہی اس کی دیواروں کو ہلا دے۔ میں تصور کر سکتا ہوں کہ یہ مسجد کس قدر اپنے آپ کو باقی مساجد میں تنہا پاتی ہوگی۔ کس قدر تمنا رکھتی ہوگی کہ کوئی آکر چند رکعتیں اور چند سجدے ہی اداکر جائے اس میں۔ کوئی بھولا بھٹکا مسافر، یا راہ چلتا انسان آ کر ایک اذان ہی بلند کرد ے۔ پھر میں خود ہی ایسی مسجد کو جواب دیا کرتا ہوں کہ اللہ کی قسم، میں ہوں جو تیرا شوق پورا کرونگا۔ اللہ کی قسم میں ہوں جو تیرے آباد دنوں جیسے ماحول کو زندہ کرونگا۔ پھر میں ایسی مسجدمیں داخل ہو کر دو رکعت پڑھتا ہوں اور قرآن شریف کے ایک سیپارہ کی تلاوت کرتا ہوں۔ میرے بھائی، تجھے میری باتیں عجیب لگیں گی، مگر اللہ کی قسم میں مسجدوں سے پیار کرتا ہوں، میں مسجدوں کا عاشق ہوں”۔

میری آنکھيں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس بار میں نے اپنی نظریں زمین میں ٹکا دیں کہ کہیں نوجوان مجھے روتا ہوا نہ دیکھ لے، اُس کی باتیں ۔ ۔ ۔ اُس کا احساس ۔ ۔ ۔ اُسکا عجیب کام ۔ ۔ ۔ اور اسکا عجیب اسلوب ۔ ۔ ۔ کیا عجیب شخص ہے جسکا دل مسجدوں میں اٹکا رہتا ہے ۔ ۔ ۔ میرے پاس کہنے کیلئے اب کچھ بھی تو نہیں تھا ۔ صرف اتنا کہتے ہوئے کہ اللہ تجھے جزائے خیر دے میں نے اسے سلام کیا، مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا ۔ مگر ایک حیرت ابھی بھی باقی تھی

نوجوان نے پیچھے سے مجھے آواز تو میں دروازے سے باہر جاتے جاتے رُک گیا ۔ نوجوان کی نگاہیں ابھی بھی جُھکی تھیں اور وہ مجھے کہہ رہا تھا “جانتے ہو جب میں ایسی ویران مساجد میں نماز پڑھ لیتا ہوں تو کیا دعا مانگا کرتا ہوں ؟”

میں نے صرف اسے دیکھا تاکہ بات مکمل کرے ۔ اس نے اپنی بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا ” میں دعا مانگا کرتا ہوں کہ ’ اے میرے پروردگار ، اے میرے رب ۔ اگر تو سمجھتا ہے کہ میں نے تیرے ذکر ، تیرے قرآن کی تلاوت اور تیری بندگی سے اس مسجد کی وحشت و ویرانگی کو دور کیا ہے تَو اس کے بدلے میں تُو میرے باپ کی قبر کی وحشت و ویرانگی کو دور فرما دے کیونکہ تو ہی رحم و کرم کرنے والا ہے‘ ”

مجھے اپنے جسم میں ایک سنسناہٹ سی محسوس ہوئی، اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا

محترمات قاريات و محترم قارئين

کیا عجیب تھا یہ نوجوان اور کیسی عجیب محبت تھی اسے والدین سے اور کس طرح کی تربیت پائی تھی اس نے ؟
اور ہم کس طرح کی تربیت دے رہے ہیں اپنی اولاد کو ؟
ہم کتنے نا فرض شناس ہیں اپنے والدین کے چاہے وہ زندہ ہوں یا فوت شدہ ؟

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے اور ہمارا نیکی پر خاتمہ کرے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ چیونٹی چال

ہر شخص نے ہزاروں چیونٹیاں ادھر اُدھر رينگتی دیکھی ہیں ۔ اللہ نے بچپن سے ہی ہر چیز پر غور کرنے کی عادت مجھے عطا کی ۔ فارغ وقت میں چرندوں ۔ پرندوں اور زمین پر رینگتی چیونٹیوں کو ديکھتا رہتا کہ وہ کیا کرتی ہیں ۔ آج ذکر چيونٹيوں کا

پہلی چیز جو میں نے دیکھی یہ تھی کہ چیونٹی جس راستے سے آتی ہے بالکل اُسی راستے کی لکیر پر چلتی ہوئی واپس جاتی ہے ۔ اگر وہ جاتے ہوئے ایک میز پر چڑھی تھی اور دوسری طرف سے اُتری تھی تو واپسی پر بھی وہ دوسری طرف سے میز پر چڑھے گی اور واپس اس طرف اُتر کر آئے گی جس طرف سے وہ چڑھی تھی ۔ اگر وہ ایسا نہ کرے یعنی چیونٹی کے دوسری طرف اُتر جانے کے بعد میز ہٹا دی جائے تو چیونٹی پریشانی میں اِدھر اُدھر بھاگ کر اپنا راستہ تلاش کرے گی ۔ میں نے بچپن میں اس کو چیونٹی چال کا نام دیا تھا

سبق

چيونٹی کی حدِ نظر بہت قليل ہوتی ہے اسلئے وہ اپنے راستہ کے نشانات مقرر کر ليتی ہے تاکہ بھٹک نہ جائے
انسان کو بھی اصول بنانا اور اُن پر کاربند رہنا چاہیئے تاکہ آگے بڑھنے کیلئے اُسے خود مشقت اُٹھانا پڑے تو اُٹھا لے لیکن دوسرں کیلئے مشکل کا باعث نہ بنے

دوغلا پن یا منافقت ؟

آج کی دنیا میں قدریں بدل چکی ہیں۔ کوئی وقت تھا جب کہا جاتا تھا

سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
سرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا

لیکن مادیّت اور دکھاوے نے آدمی کو اتنا گھیر لیا ہے کہ قدریں مٹ چکی ہیں یا خلط ملط ہو کے رہ گئی ہیں۔ آج قابلیت سے زیادہ سندوں کی قیمت ہے اور اس سے بھی زیادہ بے ڈنگ فیشن اور اثر و رسوخ کی۔ آدمی دوغلا پن یا منافقت کا شکار ہو چکا ہے۔ دین کو بھی مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ آدمی یہ بھول چکا ہے کہ اس کی پیدائش کیسے ہوئی اور وہ کسی کے آگے جواب دہ بھی ہے

کئی سال قبل ایک محلہ دار کے ہاں سے میری بیوی کو دعوت ملی کہ بیٹے کی شادی سے ایک دن پہلے قرآن خوانی کرنا ہے اس لئے آپ بھی آئیں ۔ میری بیوی چلی گئی ۔ میری بیوی واپس منہ پھُلائے گھر آئی تو وجہ پوچھی ۔ کہنے لگی ” قرآن خوانی کے اختتام پر چائے کیک مٹھائی وغیرہ سے تواضع شروع ہوئی اور ساتھ ہی اُونچی آواز میں پاپ موسیقی لگا دی گئی ۔ میں تو ایک دم اُٹھ کے چلی آئی”

ایک محترمہ اپنی عزیز خواتین کے ہمرا ایک کھاتے پیتے تعلیم یافتہ گھرانہ میں اپنے بیٹے کے لئے رشتہ لینے گئیں اور لڑکی کی ماں سے مخاطب ہوئیں”۔ ہم مذہبی لوگوں کو پسند کرتے ہیں ۔ آپ کا کسی نے بتایا کہ آپ نیک لوگ ہیں تو آ گئے”۔ پھر باتوں باتوں میں کہنے لگیں ” آپ کی بیٹی جسم اور سر اچھی طرح ڈھانپ کے رکھتی ہے ۔ اچھی بات ہے لیکن دیکھیں نا ۔ میرا بیٹا افسر ہے ۔ اس نے دوستوں سے ملنا اور پارٹیوں میں جانا ہوتا ہے ۔ ہائی سوسائٹی میں تو پھر ان کے مطابق ہی کپڑے پہننا ہوتے ہیں نا ”

ہمارا دورِ حاضر کا معاشرہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا نام لینے والوں کو جاہل اور گنوار کا لقب دیتا ہے ۔ مگر کامیاب وہی ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سے محبت کرتا ہے اور اُسی سے ڈرتا ہے ۔ میں ان لوگوں کی حمائت نہیں کرتا جو بظاہر تو مذہبی ہوتے ہیں نماز روزہ بھی کر لیتے ہیں مگر باقی معاملات میں اللہ سُبحانُہُ تعالٰی کے احکام کی پیروی نہیں کرتے

نظر آتے نہیں ۔ بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا
ناز بھی کر تو باندازہءِ رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوّسِ شوکتِ دلدائی کر

فروغِ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزمِ عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئےگل کا سُراغ

علامہ اقبال

يہ گندگی کون صاف کرے گا ؟

“ننگِ قوم” سُن تو بچپن سے رکھا ہے مگر جيسے کرتب موجودہ اور اس سے پہلے والے حُکمرانوں نے دِکھائے ہيں شايد ہی کسی نے قوم کے ساتھ ايسی غداری کی ہو گی

گاہے بگاہے مختلف حقائق سامنے آتے رہتے ہيں ۔ آج گفتگو صرف اس حوالے سے کہ لاہور ميں دو جوانوں کے قاتل ريمنڈ ڈيوِس جيسے لوگ کہاں سے پيدا ہوئے يا کہاں سے آئے ؟

آج اربابِ اختيار ميں سے کوئی بھی نہيں بتا سکتا کہ امريکی ايف بی آئی اور سی آئی اے کے کتنے غيرمُلکی اور مقامی ايجنٹ پاکستان ميں گھوم پھر رہے ہيں اور کيا کر رہے ہيں ؟

صرف پرويز مشرف ہی نے نہيں موجودہ وفاقی حکومت نے بھی امريکی سی آئی اے اور ايف بی آئی کو نہ صرف مقامی ايجنٹ رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے بلکہ بلا روک ٹوک وہ جہاں چاہيں جا سکتے ہيں اور جو چاہيں کر سکتے ہيں

ايک اور ناقابلِ يقين سہولت جو پچھلی حکومت نے امريکيوں کو دی اور موجودہ حکومت نے برقرار رکھی يہ ہے کہ امريکا سے پاکستان آنے اور واپس جانے پر اُن کی کوئی چيکنگ نہيں ہوتی تھی ۔ وہ پاکستان آنے اور جانے کيلئے اسلام آباد ايئرپورٹ پر وہ راستہ استعمال کرتے رہے جس راستہ سے جہاز پر کھانے پينے کا سامان بھيجا جاتا ہے اس طرح کچھ پتہ نہيں چلتا کہ کون آيا اور کون گيا اور نہ پتہ چلتا تھا کہ امريکی کيا پاکستان ميں لے کر آئے اور کيا پاکستان سے لے کر چلے گئے ۔ وزارتِ دفاع کی مداخلت پر اکتوبر 2009ء ميں اس سہولت ميں کچھ تخفيف کی گئی مگر اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا تھا يعنی پاکستان ميں اميرکی سيکريٹ ايجنسيز اور اسلحہ کا نيٹ ورک پھيل چکا تھا

ايک امريکی اخبار “واشنگٹن ٹائمز” نے بھی کچھ سال قبل لکھا تھا کہ امريکی ايف بی آئی نے پاکستان ميں “سپائيڈر گروپ” کے نام سے ايک گروہ ترتيب ديا ہے جس ميں پاکستان کی مسلحہ افواج کے ريٹائرڈ افسران اور دوسرے لوگوں کو بھرتی کيا ہے ۔ اس کا مقصد پاکستان سے امريکا کيلئے معلومات حاصل کرنا ہے ۔ گروپ ميں عيسائی اور مسلمان دونوں شامل ہيں جنہيں ايف بی آئی نے تربيت دی ہے اور مسلحہ بھی کيا ہے

يہ بھی خبر ہے کہ ايک صوبائی سيکرٹ ايجنسی کا سربراہ اور درجن بھر اور لوگ امريکی سی آئی اے کو معلومات فراہم کرتے رہے جس پر وفاقی وزارتِ داخلہ نے اس سربراہ کو ملازمت سے سبکدوش کر ديا تھا ۔ يہ بھی خبر آئی تھی کہ نجی سيکيورٹی کمپنيوں کے ملازمين کی بڑی تعداد امريکی سی آئی اے کيلئے کام کرتی ہے

ايک مقامی صحافی اعزاز سيّد نے انکشاف کيا کہ چند سال قبل اُس نے امريکی ايف بی آئی کيلئے بھرتی کا ايک بين الاقوامی اشتہار ديکھا ۔ اُس نے اسلام آباد ميں امريکی سفارتخانے کے ليگل سيکشن سے اس خيال سے رابطہ کيا تاکہ وہ ايک انويسٹیگيٹو سٹوری لکھ سکے ۔ اُس نے اپنے آپ کو طالبان کے خلاف خفيہ معلومات حاصل کرنے کيلئے ملازمت چاہی ۔ انٹرويو کرنے والے امريکی نے اُسے کہا کہ “تمہيں [طالبان نہيں] پاکستان کی سول بيوروکريسی کے متعلق معلومات مہياء کرنا ہوں گی جس کا اچھا معاوضہ ديا جائے گا”۔

پچھلی حکومت نے بغير پائلٹ کے جہازوں [ڈرون] کو پاکستان کی فضا ميں پرواز کرنے کی اجازت دی جو موجودہ حکومت نے برقرار رکھی ہوئی ہے ۔ يہ جہاز راڈار پر نظر نہيں آتے چنانچہ يہ قبائلی علاقہ کے علاوہ دوسرے علاقوں کی بھی سروِلنس کرتے رہتے ہيں جو کہ ملک کے مفاد ميں نہيں
[قارئين کو ياد ہو گا کہ جولائی 2007ء ميں کاروائی کے دوران لال مسجد اسلام آباد کے اُوپر امريکی بغير پائلٹ کا ہوائی جہاز اُڑتا رہا تھا ۔ يہ بغير حکومتِ وقت کی اجازت کے کيسے ممکن تھا ؟]

موجودہ حکومت بجائے غلط طور پر دی گئی مراعات واپس ليتی اُلٹا اپنے مُلک کو خطرہ ميں ڈالتے ہوئے امريکيوں کيلئے ويزہ کے اجراء سے قبل ہونے والی انويسٹيگيشن کو ہی ختم کر ديا اور امريکا ميں پاکستانی سفارت خانے کو حُکم ديا کہ امريکيوں کو بلا توقف ويزے ديئے جائيں ۔ ايک خبر کے مطابق وسط 2010ء ميں موجودہ حکومت نے امريکا ميں پاکستان کے سفارتخانے کو لکھا کہ بغير کسی قسم کی تحقيقات اور تاخير کے امريکيوں کو ويزے جاری کئے جائيں جس کے نتيجہ ميں 500 امريکيوں کو چھٹی کے دن سفارتخانہ کھول کر 2 دنوں ميں ويزے جاری کئے گئے

سابقہ امريکی سفير اينی پيٹرسن نے وزيرِ داخلہ رحمٰن ملک کو خط لکھا کہ “انتر رِسک کے مقامی شراکت دار ڈئين کارپوريشن کو ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس ديئے جائيں”۔ اس کے بعد اس نے وزارتِ داخلہ کے وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کو لکھا جس ميں لائسنسوں کی 3 اقساط کی واضح ڈيڈ لائينز بھی دی گئيں جس کی وزير موصوف نے تابعداری کی ۔ 7 مئی 2009ء کو امريکی سفارتخانہ کے چارج ڈی افيئرز جيرالڈ ايم فِيئرشٹائن نے وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کو لکھا کہ “134 ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس انٹر رسک کيلئے ديئے جائيں ۔ 50 لائسنس فوری طور پر پھر 50 جون 2009ء ميں اور 34 جولائی 2009ء ميں

ايک ہفتہ کے اندر وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کے پرسنل سيکرٹری نے ايک ٹاپ پرائی آريٹی [Top Priority] حکم نامہ جاری کيا کہ انٹر رسک کيلئے 50 ممنوعہ اسلحہ کے لائسنسوں کی منظوری وزير موصوف نے دے دی ہے ۔ يہ لائسنس 20 مئی تک جاری کئے جائيں

دريں اثناء ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو پوليٹيکل ايجنٹ بنوں کا ايک سرکاری خط ملا کہ 50 ويپنز ملک خانزادہ خان وزير نے تحفہ ديا ہے ۔ ظاہر ہے کہ يہ ويپنز امريکی سفارتخانے نے انٹر رسک کو ديئے تھے ۔ حکومت پاکستان کے کسی اہلکار کو معلوم نہيں کہ يہ ويپنز کہاں سے آ رہے ہيں

اُميد باندھيں تو کس سے ؟

خاور صاحب نے اپنے کائی تائی کی تفصيل بيان کرتے ہوئے تيل عليحدہ کرنے اور اسے نالی ميں جانے سے روکنےکی بات کر کے مجھے اپنی ملازمت کا زمانہ ياد کرا ديا ۔ بلاشُبہ وہی قوم ترقی کرتی ہے جو اپنے قوانين اور اچھے اصولوں پر عمل کرتی ہيں ۔ جاپان اس کی ايک عمدہ مثال ہے

عام زندگی ميں اور بالخصوص ملازمت کے دوران ميں نے ہميشہ اپنا فرض سمجھا اور اسے نبھانے کی پوری کوشش کی کہ اچھے بُرے جيسے بھی قوانين يا اصول ہوں اُن کی پابندی ۔ ميری کوشش رہی کہ دوسرے بھی قوانين اور اصولوں کے مطابق چليں مگر حوادثِ زمانہ نے سمجھايا کہ اصول صرف اپنے لئے رکھو اور دوسروں پر صرف حتی المقدور نافذ کرو ۔ اصول پسندی نے متعدد بار مجھے مادی نقصان پہنچايا ليکن ميں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی عنائت کردہ ميری اس عادت نے مجھے ہميشہ عزت بخشی ۔ اصولوں کی حالتِ زار جو ہمارے ملک ميں ہے اس کی چند وہ مثاليں جو خاور صاحب کی تحرير پڑھ کر مجھے ياد آئيں

ميں نے جب پروڈکشن منيجر ويپنز فيکٹری کی حيثيت سے جولائی 1969ء ميں چارج سنبھالا تو تمام ورکشاپس کا اندر باہر سے جائزہ ليا ۔ ايک ورکشاپ ميں ديکھا کہ ايک سينٹريفيوج خراب پڑا ہے ۔ بتايا گيا کہ اس ميں لوہے کی کترنيں ڈال کر چلايا جاتا تھا ۔ تيل نُچڑی کترنيں اور تيل جو نکلتا تھا عليحدہ عليحدہ سٹور ڈيپارٹمنٹ کے حوالے کر ديا جاتا ۔ اب کترنيں ايسے ہی پھينک دی جاتی ہيں ۔ ميں نے نئے بہتر سينٹيفيوج کيلئے ٹيکنيکل چيف سے بات چيت کر کے منظوری حاصل کی اور پيشکشوں کيلئے خط جاری کيا ۔ آرڈر کرنے سے قبل ميرے نئے باس آ گئے ۔ انہوں نے مجھے اس اہم کام سے نکال کر ورکشاپ کا انچارج لگا ديا اور ميری جگہ نيا ترقی پانے والا افسر لگا ديا [وجہ ميری اصول پسندی] ۔ بعد ميں سينٹريفيوج کو فالتو خرچہ سمجھ کر آڈر روک ديا ۔ مجھ سے پوچھنا گوارہ نہ کيا اور نہ سوچا کہ ٹيکنيکل چيف نے منظوری دی ہوئی ہے ۔ سال گزرنے کے بعد ورکشاپ کے باہر جو مالٹوں کے درخت لگے تھے وہ سوکھ گئے ۔ مجھے انکوائری کرنے کيلئے کہا گيا ۔ پتہ چلا کہ سينٹريفيوج آرڈر نہيں کيا گيا تھا اور تيل سے آلودہ کترنيں ايسے ہی پھنکی جاتی رہيں ۔ اُن کا تيل بہہ کر درختوں کی جڑوں ميں چلا گيا اور سب درخت سوکھ گئے ۔ اُس کے بعد ارد گرد کی ساری گھاس بھی سوکھ گئی ۔ اُس دن مجھے سمجھ آيا کہ “جڑوں ميں تيل دينا” کا کيا مطلب ہوتا ہے

جب 53 سال کی عمر ميں ريٹائرمنٹ لينے کے بعد مجھے واپس بلا کر ويلفيئر کا سربراہ تعينات کيا گيا تو ميرے ماتحت ايک فيکٹری بھی تھی جس ميں فرنس آئل کی ضرورت ہوتی تھی جو مجھ سے پہلے مارکيٹ سے خريدا جاتا تھا ۔ ايک تو اس تيل کا معيار گھٹيا تھا دوسرے مہنگا تھا تيسرے سپلائی کی ضمانت نہ تھی ۔ فيکٹری کا تجربہ ہونے کے باعث ميں جانتا کہ فيکٹريوں ميں بہت استعمال شدہ تيل ہوتا ہے ۔ ميں نے چيئرمين کانفرنس ميں تمام فيکٹريز کے سربراہان کے سامنے يہ سوال رکھا کہ وہ استعمال شُدہ تيل کا وہ کيا کرتے ہيں ۔ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا ۔ اُن کی منظوری سے ميں نے بعد ميں اُن کے متعلقہ افسران سے رابطہ کيا تو معلوم ہوا کہ دو فيکٹرياں جو بہت زيادہ تيل استعمال کرتی ہيں ۔ ان ميں سے ايک ميں تيل ناليوں ميں بہا ديا جاتا ہے اور دوسری ميں زمين ميں گڑھے کھود کر اُن ميں ڈال ديا جاتا ہے ۔ جب ميں نے اُن کو قوانين دکھائے جو اُنہوں نے ديکھنے کی کبھی کوشش بھی نہ کی تھی تو مجھ سے مدد مانگنے لگے ۔ قانون کے مطابق يہ تيل ڈرموں ميں بھر کر سٹورز ڈيپارٹمنٹ کے حوالے کرنا تھا

ايک اليکٹرو پليٹينگ ورکشاپ تھی ۔ استعمال شدہ کيميکلز قانون کے مطابق سٹور ڈيپارٹمنٹ کے حوالہ کرنے تھے اور وہ ناليوں ميں اُنڈيلتے رہے جو کہ فيکٹری کے باہر چشموں کے پانی کے ندی ميں گرا دی گئيں ۔ اسی طرح ايک بہت بڑی ايکسپلوسِوز فيکٹری کا فضلہ بھی اسی ندی ميں دالا جاتا رہا ۔ نتيجہ يہ ہوا کہ وہ پانی جو کبھی شفاف ہوا کرتا تھا اور لوگ اس ميں نہايا کرتے تھے اتنا زہريلا بن گيا ۔ پرندے اُسے پی کر مرنے لگے

کسی نے کہا تھا “کونسی رَگ دُکھتی ہے ؟”
جواب مِلا “جہاں بھی اُنگلی رکھو وہی”

احوالِ قوم ۔ 8 ۔ بُغز

اگر اک جواں مرد ہم در انساں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کرتے قوم پر دل سے جان اپنی قرباں
تو خود قوم اس پر لگائے یہ بہتاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہے اس کی کوئی غرض اس میں پنہاں

وگر نہ پڑی کیا کسی کو کسی کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چالیں سراسر ہیں خود مطلبی کی
نکالے گر ان کی بھلائی کی صورت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ڈالیں جہاں تک بنے اس میں کھنڈت

سنیں کامیابی میں گر اس کی شہرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو دل سے تراشیں کوئی تازہ تہمت
منہ اپنا ہو گو دین و دنیا میں کالا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہو ایک بھائی کا پر بول بالا

اگر پاتے ہیں دو دلوں میں صفائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہیں ڈالتے اس میں طرح جدائی
ٹھنی دو گروہوں میں جس دم لڑائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو گویا تمنا ہماری بر آئی

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی