Category Archives: طور طريقہ

احوالِ قوم ۔ ماضی اور حال

سعادت بڑی اس زمانہ کی یہ تھی
کہ جھکتی تھی گردن نصحیت پہ سب کی
نہ کرتے تھے خود قول حق سے خموشی
نہ لگتی تھی حق کی انہیں بات کڑوی
غلاموں سے ہو جاتے تھے بند آقا
خلیفہ سے لڑتی تھی ایک ایک بڑھیا
نبی نے کہا تھا انہیں فخرِ امت
جنہیں خلد کی مل چکی تھی بشارت
مسلم تھی عالم میں جن کی عدالت
رہا مفتحر جن سے تختِ خلافت
وہ پھرتے تھے راتوں کو چھپ چھپ کے دردر
وہ شرمائیں اپنا کہیں عیب سن کر
مگر ہم کہ ہیں دام و درہم سے بہتر
نہ ظاہر کہیں ہم میں خوبی نہ مضمر
نہ اقران و امثال میں ہم موقر
نہ اجداد و اسلاف کے ہم میں جوہر
نصحیت سے ایسا برا مانتے ہیں
کہ گویا ہم اپنے کو پہچانتے ہیں

ہوئی ان کی بچپن میں یوں پاسبانی
کہ قیدی کی جیسے کٹے زندگانی
لگی ہونے جب کچھ سمجھ بوجھ سیانی
چڑھی بھوت کی طرح سر پر جوانی
بس اب گھر میں دشوار تھمنا ہے ان کا
اکھاڑوں میں تکیوں میں رمنا ہے ان کا
نشہ میں مئے عشق کے چور ہیں وہ
صفِ فوجِ مژگاں میں محصور ہیں وہ
غمِ چشم و ابرو میں رنجور ہیں وہ
بہت ہات سے دل کے مجبور ہیں وہ
کریں کیا کہ ہے عشق طینت میں ان کی
حرارت بھری ہے طبعیت میں ان کی
اگر شش جہت میں کوئی دلربا ہے
تو دل ان کا نادیدہ اس پر فدا ہے
اگر خواب میں کچھ نظر آگیا ہے
تو یاد اس کی دن رات نامِ خدا ہے
بھری سب کی وحشت سے روداد ہے یاں
جسے دیکھيئے قیس و فرہاد ہے یاں

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

پيغام يا سوال ؟؟؟

ويلنٹائن ڈے سے کچھ روز قبل مجھے موبائل فون پر ايک پيغام ملا تھا ۔ يہ پيغام ہے يا ہمارے ماتھے پر ايک سواليہ نشان ؟

کچھ جوان بيٹھے خوش گپياں کر رہے تھے کہ ويلنٹائن ڈے کا ذکر شروع ہوا تو اس کی تياريوں کی منصوبہ بندی ہونے لگی ۔ اچانک ان ميں سے ايک جوان بولا “اوئے ۔ ايک عيسائی نے عيدالفطر بڑے جوش سے منائی”

سب اُس کی طرف ہکا بکا ہو کر ديکھنے لگے مگر وہ بولتا گيا
“سُنا تم نے کہ ايک ہندو نے عيدالاضحٰے پر بکرے کی قربانی دی اور ايک يہودی نے رمضان کے روزے رکھے”

ويلنٹائن کی منصوبہ بندی کرنے والا جوان بولا “کيا ہانک رہے ہو ۔ ايسا ہو ہی نہيں سکتا”

پہلے والا جوان بولا “تو يہ سب کيا ہے ؟ مسلمانوں نے نيو ايئر منايا ۔ بسنت منائی ۔ ايف ايم 90 نے راکھی کی تقريب منعقد کی ۔ تم لوگ ويلنٹائن منانے کی تياری ميں ہو”

اقوامِ متحدہ يا مسلم دُشمن متحدہ ؟

اقوامِ متحدہ جس پر مُسلم دُشمن قوتوں کی اجاراہ داری ہے نے آج تک جو فيصلہ بھی کيا وہ ان اجارہ داروں کی مرضی کے مطابق کيا جو انتہائی خود غرض اور متعصب ہيں

نيچے درج تازہ فيصلہ پڑھنے سے پہلے تصور ميں جموں کشمير کے باشندوں کا جمہوری حق [جد و جہد آزادی] اور بھارتی افواج کے عوام پر کئی دہائيوں پر محيط ظُلم و استبداد کو مدِ نظر رکھا جائے تو اقوامِ متحدہ کی مُسلم دُشمنی کھُل کر سامنے آ جاتی ہے ۔ بالخصوص جب جموں کشمير ميں عوام کو اُن کا حق دينے کی قراداديں اسی نام نہاد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے منظور کی تھيں جو 63 سال سے عمل کيلئے چيخ رہی ہيں

نیویارک میں ہونے والے اجلاس میں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے لیبیا پر فضائی حملے کی منظوری دی ۔ لیبیا کو نو فلائی زون قراردینے کی بھی منظوری دی گئی ہے ۔ ووٹنگ میں 10 اراکين نے حصہ لیا جب کہ روس اور چین سمیت 5 ارکين نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ سلامتی کونسل کے کسی رکن نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا ۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ لیبیا کے شہریوں کی حفاظت کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں گے اور حکومت مخالف قوتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا

لیبیا نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو ملکی وحدت اور استحکام کے لیے خطرہ قرار دیدیااور کہا ہے کہ باغیوں کے ساتھ جنگ بندی کے لیے تیار ہیں

امن کی آشا اور بھارت

پاکستانی لوگ معدودے چند بھارتی صحافيوں کو ساتھ ملا کر جتنا چاہے “امن کی آشا” کا پرچار کر ليں جب تک بھارتی حکومت يا بھارتيوں کی اکثريت ظُلم کی دو دھاری تلوار ميان ميں نہيں ڈالے گی “امن” بھارت اور پاکستان ميں انجان کا خواب ہی رہے گا

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا سولہواں اجلاس [28 فروری سے 25 مارچ 2011ء] جنیوا ميں جاری ہے جس ميں ساری دنيا سے انسانی حقوق کے کئی نمائندے شريک ہيں ۔ کانفرنس کے ايک اجلاس ميں ایک افریقی انسانی حقوق کارکن مچیلن ڈجوما نے ايک 17 سالہ کشمیری لڑکی انیسہ نبی کو پيش کيا کہ وہ جموں کشمير ميں اپنے پر بيتی روداد سنائے

انیسہ نبی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے اپنے والدین کے ساتھ ظلم و زیادتی کی روداد سنائی تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں موجود سفارتکار اور کارکن اپنے آنسو ضبط نہ کرسکے۔ انیسہ نبی نے سفارتکاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کرائی ۔ اس موقع پر ایک کشمیری این جی او ، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل افیئرز(کے ایچ اے) کے نمائندے بھی پیلس آف نیشنز، جنیوا میں سفارتکاروں میں لابنگ کررہے تھے ۔کے ایچ اے کے پروگرام ڈائرکٹر الطاف حسین وانی نے کہا کہ انیسہ ایک ہفتے سے ہمارے ساتھ ہے لیکن آج اس نے ہم سب کو رونے پر مجبور کردیا

اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور قتل عام کا نشانہ بننے والوں کی تصویروں کی ایک نمائش بھی ہوئی جس نے انیسہ کے کیس کو مزید موثر اور مضبوط کردیا

انیسہ نبی نے اپنی تقریر نارمل انداز میں شروع کی لیکن جب اس نے اپنے والد کا تذکرہ کیا تو اس کی آواز گھٹنے لگی۔ اس کے والد کو 24 جولائی 1996ء کو بھارتی اہلکار اغوا کرکے لے گئے تھے لیکن آج تک اس کا پتہ نہیں چلا۔ اس وقت انیسہ کی عمر صرف چار سال تھی۔ اس کی والدہ نے انیسہ کے والد کی تلاش کے لئے مہم چلائی اور جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں اس کی بازیابی کے لئے مقدمہ دائر کیا۔ انیسہ کی والدہ کو بدترین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں

انیسہ کی و الدہ کو اس کی سزا یہ ملی کہ 2003ء میں بھارتی فوجیوں نے گھر میں گھس کر اس پر گولیاں چلائیں اور انہیں شہید کردیا ۔ اس وقت انیسہ کی والدہ انیسہ کے چھوٹے بھائی کو گود میں اٹھائے ہوئے تھیں۔ بھارتی فوجیوں نے ان کی گود میں اس بچے کی پروا بھی نہیں کی اور وہ شدید زخمی ہوا ۔ اگرچہ اس کی زندگی بچ گئی لیکن گولیوں سے اس کی ایک ٹانگ معذ ور ہوگئی

جب انیسہ نبی تقریر کے دوران اس واقعہ کے تذکرے پر پہنچی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ انیسہ نے جب اپنی گفتگو شروع کی تو ہال میں انتہائی خاموشی تھی حالانکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سائڈ لائن سمیناروں میں ایسا کبھی نہیں ہوتا

انیسہ نبی کی کہانی سن کر ایک بھارتی سفارتکار جو وہاں موجود تھا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اٹھ کر چلا گیا ۔ ایک بھارتی اسکالر ڈاکٹر کرشنا اہوجا نے جو ایک کشمیری ہندو ہیں انیسہ کو اپنی بیٹی کی طرح آغوش میں لے کر تھپکا ۔ اقوام متحدہ کے ایک سینیئر افسر نے انیسہ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کو انصاف دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف اقوام متحدہ کے ہر فورم میں آواز اٹھائیں گے

احوالِ قوم ۔ 10 ۔ خوشامد

خوشامد وہ عِلّت ہے جو دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے اور قوموں کی تباہی کا اصل سبب ہے ۔ خوشامد عصرِ حاضر ميں ہماری قوم کے اعلٰی اور پڑھے لکھے طبقہ ميں گھر کر چکی ہے ۔ نتيجہ سب کے سامنے ہے

خوشامد میں ہم کو وہ قدرت ہے حاصل
کہ انساں ہو ہر طرح کرتے ہیں مائل
کہیں احمقوں کو بناتے ہیں عاقل
کہیں ہوشیاروں کو کرتے ہیں غافل
کسی کو اتارا کسی کو چڑھایا
یو نہیں سیکڑوں کو اسامی بنایا
روایات پر حاشیہ اک چڑھانا
قسم جھوٹے وعدوں پہ سو بار کھانا
اگر مدح کرنا تو حد سے بڑھانا
مذمت پہ آنا تو طوفاں اٹھانا
یہ ہے روزمرہ کا یاں ان کے عنواں
فصاحت میں بے مثل ہیں جو مسلماں
اسے جانتے ہیں بڑا اپنا دشمن
ہلمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن
نصحیت سے نفرت ہے، ناصح سے اَن بَن
سمجھتے ہیں ہم رہنماؤں کو رہزن
یہی عیب ہے، سب کو کھویا ہے جس نے
ہمیں ناؤ بھر کر ڈبویا ہے جس نے

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

میں خود کُش حملہ آور ہوں

“اس وقت میں ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار ہو گیا تھا جب اس شخص نے اپنی منزل پر اُترنے سے پہلے مجھے کہا “میں خودکُش حملہ آور ہوں”۔ آصف نے اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہا ۔ “اکتوبر 2005ء کی ایک ڈھلتی شام تھی اور میں تنہا اسلام آباد ہائی وے سے ہوتا ہوا مری روڈ کی طرف آ رہا تھا ۔ مری روڈ فیض آباد کے قریب کھڑے ایک چالیس پنتالیس سالہ شخص نے مجھے روکا اور کہنے لگا کہ مجھے پیر ودھائی موڑ جانا ہے ۔ کرایہ طے کرنے کے بعد ہماری منزل پیر ودھائی موڑ تھی ۔ میں سٹیڈیم روڈ سے ہوتا ہوا پیر ودھائی موڑ کی طرف جا رہا تھا ۔ میرا ہم سفر ایک خاموش طبع اور ٹھنڈے مزاج کا شخص لگ رہا تھا ۔ میں ہمیشہ ڈرائیونگ کے دوران ہم سفر سے بات چیت کرتا ہوں ۔ اس طرح سفر کا پتہ نہیں چلتا ۔ دوسرا یہ کہ مسافر کی باتوں سے کچھ نا کچھ سیکھ لیتا ہوں ۔ یہ شخص ہاتھ میں تسبیح کا ورد کر رہا تھا ۔ اسی مناسبت سے میں نے اس سے کہا کہ کوئی دین کی بات بتائیں ۔ وہ شخص ‘صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی برتری کو ماننا ‘ کہہ کر چُپ کر گیا ۔

“پھر کچھ دیر بعد کہنے لگا ‘ہماری مائیں ۔ بہنیں اور بیٹیاں سر پر اسلحہ رکھ کر رات کی تاریکی میں انتہائی دُشوار گذار راستوں پر چل کر جنگ کے محاذ پر پہنچائیں ۔ ہم خود سوکھی اور باسی روٹیاں کھاتے ۔ اگلے محاذ پر جہاد سے واپسی پر کبھی کبھی ہم اُبلا ہوا خُشک گوشت جو کہ پتھروں میں امانتاً رکھتے تھے کھا لیا کرتے تھے ۔ ہم افغانوں نے روس کو شکست سے دوچار کیا ۔ امریکا کے دیئے ہوئے اسلحہ سے ہم نے اس جنگ میں حصہ لیا لیکن اس جنگ کے بعد دنیا نے ہمیں نظرانداز کیا اور ہمیں دہشتگرد قرار دیا گیا ۔ ایک ایسی لڑائی جس میں لاکھوں افغانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں ہجرت کرنا پڑی اور ان لاکھوں انسانوں پر جن میں مرد ۔ عورتیں ۔ بچے اور بوڑھے شامل تھے مصائب اور مشکلات کا ایک پہاڑ گرا ۔ لاکھوں لوگ جنگ میں مارے گئے ۔ پورا مُلک تباہ و برباد ہو گیا ۔ کیا آج ان ممالک کے ضمیر مُردہ ہو چکے ہیں جن کی افواج ہمارے مُلک افغانستان میں آگ اور خُون کا کھیل کھیل رہی ہیں ؟ یہ ہم پر جتنی مرضی بمباری کر لیں ہم اتنی ہی شدت سے انتہاء پسند ہوں گے ۔ یہ ہمارے مُلک میں ہیں لیکن ہماری سوچ پر قبضہ نہیں کر سکتے ۔ آج دنیا کے جدید ترین ہتھیار ہونے کے باوجود بھی یہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے ۔ ہم انہیں خُودکُش حملوں کے ذریعے ناکامیوں کی طرف دھکیل دیں گے اور دُنیا کو اس بارے میں ضرور سوچنا پڑے گا کہ کسی انسان یا مُلک کو ٹِشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرنا ہو گی ۔ یہاں پاکستان میں میری والدہ ہے جو بیمار تھی اور میں اُس کی تیمارداری کیلئے آیا تھا ۔ اب میں واپس افغانستان جا رہا ہوں ۔ تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ ہم افغان فاتح ہوں گے ۔ میں اپنا نام رجسٹر کروا چکا ہوں ۔ میں خُودکُش حملہ آور ہوں’ ”

ٹیکسی ڈرائیور آصف حسین شاہ کی آپ بیتی پر مُشتمل کتاب “فار ہائر” سے اقتباس

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ مجرب نسخہ

زندگی کے میدانِ کارزار میں حقیقی مؤثر ہتھیار اور فتحِ کا مجرب نسخہ

یقین ۔ خود اعتمادی ۔ جہدِ مسلسل ۔ صبر و تحمل ۔ انصاف اور محبت

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے چھ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک اور کچھ خوبصورت پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے