Category Archives: طور طريقہ

سب سے بڑا دہشتگرد کون ؟

بقول امريکی اہلکاروں کے اُسامہ بن لادن کو ڈھوندنے اور ہلاک کرنے پر امريکا کے 1.3 ٹريلين يا 13 کھرب ڈالر خرچ ہوئے ۔ لمحہ بھر کيلئے سوچئے کہ انسانی حقوق اور بھائی چارے کا عملبردار مگر دراصل منافقت کا انبار امريکا اگر اس سے آدھی رقم انسانيت کيلئے خرچ کرتا اور اپنی دہشتگردی چھوڑ ديتا تو ساری دنيا امريکا کی گرويدہ بن چکی ہوتی ۔ آج اس کے بر عکس جتنی امريکہ دُشمنی دنيا بھر کے عوام کے دلوں ميں ہے اتنی اور کوئی چيز نہيں

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ثابت کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ یہ آسان کام میڈیا کیلئے بہت مشکل ہے کیونکہ میڈیا پر سی آئی اے کاکنٹرول مضبوط ہے۔ اسکی مثال لوئیس پوساڈا ہے جو کیوبا، ونیزویلا اور پانامہ سمیت کئی ممالک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے لیکن سی آئی اے نے اسے اپنا مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے اور امریکی میڈیا سی آئی اے کی اس ”دہشت گرد نوازی“ پر چپ سادھے بیٹھا ہے

پوساڈا کیوبا کا ایک باغی ہے جس نے امریکی فوج سے تربیت حاصل کی اور سی آئی اے دستاویزات کے مطابق وہ اس کا تنخواہ دار ہے۔ اس نے 6 اکتوبر 1976ء کوکیوبا کے ایک مسافر بردار طیارے میں 2 ٹائم بم نصب کروا کر طیارے کو تباہ کیا جس میں 73 افراد مارے گئے۔ ونیزویلا کی ایک عدالت میں 2 ملزمان نے اعتراف کیا کہ انہوں نے پوساڈا کے کہنے پر طیارے میں بم نصب کئے۔ اس اعتراف کے بعد پوساڈا کو ونیزویلا میں گرفتار کر لیا گیا لیکن 1977ء میں وہ جیل سے فرار ہو گیا۔ ونیزویلا کی حکومت نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور اسے دوبارہ گرفتار کر لیا لیکن سی آئی اے نے 1985ء میں بھاری رقم خرچ کر کے پوساڈا کو ایک دفعہ پھر جیل سے بھگا دیا

1997ء میں پوساڈا نے سی آئی اے کی مدد سے کیوبا کے مختلف ہوٹلوں میں بم دھماکے کئے تاکہ کیوبا جانے والے سیاح خوفزدہ ہو جائیں۔ ان دھماکوں میں کئی مغربی سیاح مارے گئے

2000ء میں پوساڈا ایک دفعہ پھر پانامہ میں سینکڑوں کلوگرام دھماکہ خیز مواد کے ساتھ گرفتار ہو گیا۔ وہ کیوبا کے صدر فیدل کاسترو پر قاتلانہ حملے کیلئے پانامہ آیا تھا جو 40 سال میں پہلی دفعہ پانامہ کے دورے پر آ رہے تھے۔ اس گرفتاری کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش بہت پریشان ہوئے کیونکہ یہ سی آئی اے کی بہت بڑی ناکامی تھی لیکن بُش حکومت نے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ پانامہ کی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ اس دہشت گرد کو رہا کر دیا جائے۔ آخرکار پانامہ نے2004ء میں پوساڈا کو چھوڑ دیا اور سی آئی اے اسے امریکا لے آئی

ونیزویلا اور کیوبا نے اس دہشت گرد کی امریکا میں آؤبھگت پر شور ڈالا تو 2005ء میں سی آئی اے نے ایک ڈرامہ کیا ۔ امیگریشن قوانین کے تحت امریکا میں غیر قانونی قیام کے الزام میں پوساڈا پر ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ کئی سال تک مختلف عدالتوں میں اس مقدمے کی سماعت ہوتی رہی اور آخرکار 9 اپریل 2011ء کو ٹیکساس کی ایک عدالت نے پوساڈا کو بری کر دیا

ذرا سوچئے کہ پوساڈا کی جگہ کوئی مسلمان ہوتا اور اس نے بم دھماکے سے فضا میں طیارہ تباہ کر کے 73 افراد کی جانیں نہ لی ہوتیں بلکہ کسی امریکی کو صرف ایک تھپڑ مارا ہوتا تو اس کے ساتھ کیا ہوتا؟ شاید وہی ہوتا جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہوا جس پر قتل کا کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا لیکن اسے 86 سال قید کی سزا سنائی گئی

پوساڈا پر ونیزویلا میں مقدمہ چلا اور سزا سنائی جا چکی لیکن وہ امریکا کی آنکھ کا تارا ہے۔ ونیزویلا کے صدر ہیوگوشاویز اس دہشت گرد کو امریکہ کا اسامہ بن لادن قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سی آئی اے دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے لیکن میڈیا پوساڈا کے ساتھ سی آئی اے کی محبت کو سامنے لانے سے کتراتا ہے کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم اپنے ناقد صحافیوں کو مختلف طریقوں سے سبق سکھاتی رہتی ہے

لیبیا کی مثال لے لیجئے۔ معمر قذافی کی حکومت ختم کرنے کیلئے سی آئی اے نے ایسے گروپوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے جو القاعدہ کے حامی ہیں۔ پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پیرس میں قذافی مخالف اتحاد کے رہنما محمود جبریل سے ملاقات کی۔ محمود جبریل ایک ایسے اتحاد کے رہنما ہیں جس میں لبیا اسلامک فائٹنگ گروپ بھی شامل ہے جس نے 2007ء میں کھُلے عام القاعدہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ القاعدہ کے رہنماؤں ابولیث اللبی اور ابو فراج اللبی کا تعلق اسی گروپ سے تھا

اس وقت قذافی کے خلاف امریکی اسلحے سے لڑنے والے باغیوں کے 2 کمانڈر سفیان بن قومو اور عبدالحکیم الحاسدی کا القاعدہ کے ساتھ تعلق خود امریکا کو بھی معلوم ہے۔ سفیان بن قومو 2001ء میں قندوز سے گرفتار ہوا اور اس نے امریکا کی گوانتاناموبے جیل میں 6 سال گزارے۔ وہ 2007ء میں رہا ہوا اور قذافی حکومت نے اسے گرفتار کر لیا۔ عبدالحکیم الحاسدی کو 2002ء میں پاکستانی حکومت نے گرفتار کر کے لیبیا کے حوالے کیا۔ یہ دونوں 2008ء میں قذافی سے معافی حاصل کر کے رہا ہوئے لیکن حالیہ بغاوت کے بعد امریکا کے حمایت یافتہ گروپوں کے ساتھ جا ملے۔ امریکا کو ان کے ماضی سے کوئی غرض نہیں اسے صرف اور صرف معمر قذافی کو ہٹانے سے غرض ہے

سچ یہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کا مخالف نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست میں اکثر اہداف کے حصول کیلئے لوئیس پوساڈا اور عبدالحکیم حاسدی جیسے دہشت گردوں کی سرپرستی بھی کرتا ہے۔ اگر آپ امریکا کے ساتھی بن جائیں تو سب ٹھیک ہے ورنہ آپ دہشت گرد ہیں۔ آج کل امریکا افغان طالبان کو بھی اسی راستے پر لانے کی کوشش میں ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے انہیں اپنا دوست بنائے اور پھر اس دوستی کو خطّے میں اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کر سکے

اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ جب سے امریکا نے افغانستان میں قدم جمائے ہیں کہاں کہاں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کم ہوئی اور پاکستان میں بڑھ گئی

پاکستان میں جب بھی طالبان سے مذاکرات کی کوشش ہوئی امریکا نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ 27 مارچ 2004ء کو پاکستانی فوج نے شکئی میں مقامی عسکریت پسند نیک محمد کے ساتھ معاہدہ کیا اور 18جون 2004 ء کو امریکا نے اپنے پہلے ڈرون حملے میں نیک محمد کو ختم کر دیا۔ اس ڈرون حملے نے بیت اللہ محسود کو پیدا کر دیا

2005ء میں مجھے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں نیک محمد کے ایک ساتھی نے بتایا کہ معاہدہ شکئی سے پہلے نیک محمد کو خوست کے راستے سے امریکیوں نے پیغام بھیجا کہ تم پاکستانی فوج کی بجائے ہمارے ساتھ بات کرو تو فائدے میں رہو گے۔ نیک محمد نے انکار کر دیا اور موت اس کا مقدر بنی۔ 30 اکتوبر 2006ء کو باجوڑ میں ایک معاہدہ ہونے والا تھا جس کے بعد اس علاقے میں عسکریت مکمل طور پر ختم ہو جاتی لیکن اسی دن امریکیوں نے ایک مدرسے پر ڈرون حملے میں 90بچّے شہید کر دیئے اور اس حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے جنم لیا

وہ لوگ جو ڈرون حملوں کو پاکستان کیلئے خطرہ نہیں سمجھتے ان کی عقل پر محض ماتم کیا جا سکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے صرف اور صرف ڈرون حملوں کے ردّعمل میں جنم لیا۔ یہ پہلو بہت تشویشناک ہے کہ 2006ء میں صرف 2حملوں نے تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا۔ 2007ء میں 4 ڈرون حملے ہوئے، 2008ء میں 33 ۔ 2009ء میں 53 اور 2010ء میں 118ڈرون حملے ہوئے۔ ایک طرف ڈرون حملوں میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف خودکش حملوں میں اضافہ ہوا۔ آپ قبائلی علاقوں میں چلے جائیں اور اگر وہاں عسکریت پسند مل جائیں تو پوچھ لیں کہ تم نے ہتھیار کیوں اٹھائے؟ 90 فیصد عسکریت پسند کہیں گے کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے ہتھیار اٹھائے

ڈرون حملوں کے اس کھیل کا اصل مقصد دہشت گردوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو ختم کرنا ہے۔ امریکہ دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہوتا تو لوئیس پوساڈا جیسے دہشت گردوں کی مہمان نوازی نہ کرتا جسے ونیزویلا، امریکہ کا اسامہ بن لادن قرار دیتا ہے

بشکريہ ۔ جنگ

اُسامہ مر گيا ۔ اب کيا ؟

آج صبح سويرے ميری بيگم بوليں “ٹی وی بتا رہا ہے کہ اُسامہ بن لادن کو ايبٹ آباد کے قريب ہلاک کر ديا گيا ہے ۔ ميرے مُسکرانے پر بيگم نے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا “توبہ کرو ۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ کہو”۔ ميں نے اسی وقت إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ پڑھا اور بيگم سے کہا “يہ امريکا والے جھوٹ بول رہے ہيں اپنی عوام کو وقفے وقفے سے اسپرين کی گولی ديتے رہتے ہيں تاکہ انہيں درد کا افاقہ رہے”

ميں کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر ميں نے کمپيوٹر چلا کر ای ميلز پڑھی تھيں کہ بجلی غائب ۔ ايک گھنٹے بعد بجلی آئی تو ميں سوچ چکا تھا کہ دوسرے خواتين و حضرات کا ردِ عمل ديکھا جائے ۔ صرف ايک تحرير آئی ۔ وہ بھی بطور خبر کے ۔ اس تحرير پر جو لکھنے گيا تھا اُس کی بجائے لکھاری کو دلاسہ دے کر آ گيا ۔ پھر اپنے مخزن مضامين کيلئے کچھ اور تحرير لکھنے ميں مشغول ہو گيا ۔ بجلی پھر چلی گئی ۔ پھر نيچلی منزل جا کے سارا اخبار پڑھ ڈالا ۔ ظہر کی نماز کے بعد کھانا کھايا ۔ قيلولہ کيا ۔ اوپر کی منزل پر آ کر کمپيوٹر چلايا اور خُرم صاحب کی متذکرہ بالا تحرير کو دوبارہ کھولا تو وہاں کئی تبصرے ديکھے جس سے محسوس ہوا کہ ميرے ساتھ اور لوگ بھی ہيں جو اس خبر پر يقين نہيں رکھتے ۔ ابھی ميں نے اپنے خيالات قلمبند کرنا شروع کئے تھے کہ بجلی پھر چلی گئی ۔ بجلی آئی ہے تو لکھنے بيٹھا ہوں

ميرا موت ميں اتنا ہی يقين ہے جتنا اس ميں کہ ميں اس وقت لکھ رہا ہوں ۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ ۔ سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 156 ۔ ترجمہ ۔ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‏ مرنا بر حق ہے ۔ سوال صرف يہ ہے کہ کيا اُسامہ بن لادن مر گيا اور کب اور کہاں مرا ؟ ميرا جواب ہے کہ سوائے اللہ کے اور کوئی نہيں جانتا کہ اُسامہ بن لادن زندہ ہے يا مر گيا ۔ رہا اُس کا پاکستان ميں ہونا يا مرنا تو يہ قرينِ قياس نہيں ہے ۔ اگر وہ پاکستان ميں ہوتا يا مرتا تو اس کی خبر بالخصوص موجودہ حالات ميں پاکستان آرمی کے آئی ايس پی آر سے آتی نہ کہ امريکا سے ۔ آئی ايس پی آر خاموش ہے اور حکومتی بيان مُبہم آيا ہے

امريکا کو افغانستان ميں شکست کا سامنا ہے جہاں فتح کا اعلان امريکی اہلکار کئی بار کر چکے ہيں ۔ دسمبر 2001ء ميں جب تورا بورا پر ڈيزی کٹر پھينک کر کارپٹ بومبنگ کی گئی تھی ۔ اُس وقت کے امريکی صدر جارج بُش نے اُسامہ کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کيا تھا ۔ دراصل امريکی حکومت اپنی عوام کے درد کو کم کرنے کيلئے وقفوں سے اسپرين کی گولی ديتی رہتی ہے ۔ اُسامہ کی موت کی اس وقت خبر دينا بھی اسپرين کی ايک گولی سے زيادہ کچھ نہيں يا پھر ايسے وقت جب پاکستان کی فوج صرف اپنی شرائط پر مزيد تعاون کرنا چاہتی ہے پاکستانی حکومت يا فوج کو دباؤ ميں لانا مقصود ہو سکتا ہے ۔ امريکی حکمرانوں ميں عقل کی کمی ہے يا وہ بوکھلائے ہوئے ہيں کہ اپنے ہی مختلف بيانات سے خبر کو مکمل مشکوک بنا ديا ہے ۔ امريکی حکمرانوں کو چاہيئے کہ بات کرنے کا ڈھنگ ق ليگ پنجاب کے صدر چوہدری پرويز الٰہی سے سيکھ ليں ۔ کس طرح اُس نے ہمارے ملک کے چالاک ترين آدمی آصف علی زرداری کو چاروں شانے چِت کر ديا ہے

حقيقت تو اللہ کو معلوم ہے اور امريکی بڑوں کو بھی معلوم ہو گی ۔ فرض کر ليتے ہيں کہ جس طرح اوبامہ نے کہا ہے امريکی ايجنسی نے کل کاروائی کر کے اُسامہ کو ايبٹ آباد ميں ہلاک کيا اور اس کاروائی ميں 2 ہيلی کاپٹروں نے حصہ ليا جن ميں سے ايک گر گيا يا گرا ليا گيا ۔ اب ان سوالوں کا کون جواب دے گا ؟

1 ۔ ايک دفاعی اہميت کے شہر “ايبٹ آباد” ميں اُسامہ قيام پذرير تھا ۔ اُسے خوراک اللہ کے فرشتے نہيں پہنچاتے تھے ۔ مگر وہ شخص جس کی شکل ٹی وی چينلز پر ديکھ ديکھ کر بوڑھوں سے بچوں تک سب کو ازبر ہو چکی ہے جان نہ سکے کہ اُسامہ اُن کے درميان رہ رہا ہے

2 ۔ حالانکہ عمارت بڑی تھی اور اس ميں کئی لوگ رہتے تھے پھر بھی فرض کر ليتے ہيں کہ کوئی نہ کبھی اس عمارت کے اندر گيا اور نہ کبھی باہر آيا ۔ پھر بھی يہ ممکن نہيں ہے کہ ايبٹ آباد کے لوگوں نے جستجو نہ کی ہو کہ اس بڑی عمارت ميں کون رہتا ہے جبکہ اگر ہميں پتہ نہ چلے کہ فلاں عمارت ميں کون رہتا ہے ؟ تو ہماری نينديں حرام ہو جاتی ہيں

3 ۔ پاکستان کی خفيہ ايجنسياں جو گڑے مُردے بھی سونگھ ليتی ہيں ۔ جہاں ان کی ذمہ دارياں سخت تھيں اسی علاقے ميں سب سے بڑا دہشتگرد مزے لُوٹ رہا تھا اور اُنہيں اس کی بھِنک نہ پڑی

4 ۔ کيا اس بات کی اجازت ہماری حکومت نے دے رکھی ہے کہ جس کا جی چاہے جہاں چاہے خُفيہ فوجی کاروائی کرے اور جسے چاہے جتنوں کو چاہے ہلاک کر دے اور اُن کے جسم بھی اُٹھا کر ليجائے ؟

5 ۔ بقول امريکی اہلکاروں کے جسم کو سمندر ميں پھينک ديا گيا ۔ کيوں ؟ اسے محفوظ کر کے امريکا ليجا کر اور اسے وہاں کے ٹی وی چينلز کو کيوں نہ دکھايا ؟ جبکہ عراق اور افغانستان ميں مارے جانے والے سينکڑوں بلکہ ہزاروں امريکی فوجيوں کی نعشوں کو اپنی عوام کے غيظ و غضب سے بچنے کيلئے کئی کئی سال تک عراق اور افغانستان محفوظ رکھا گيا اور تھوڑی تھوڑی نعشيں امريکا ليجائی جاتی رہيں

6 ۔ کيا پاکستانی حکومت اور ايجنسياں بالکل نااہل ہيں کہ ان کے ملک کے دفاعی اہميت کے شہر ميں ہيلی کاپٹروں کی مدد سے کاروائی ہوئی جو کم از کم 35 يا شايد 45 منٹ تک جاری رہی اور انہيں خبر تک نہ ہوئی ؟

7 ۔ لازمی امر ہے کہ ہيلی کاپٹر پاکستانی فضا ميں سينکڑوں کلوميٹر لمبا سفر طے کر کے ايبٹ آباد پہنچے ہوں گے ۔ کيا کسی ايجنسی کسی آرمی يا رينجرز فارميشن نے اُنہيں نہيں ديکھا ؟ گويا وہ سب بھی نشہ پی کر سوئے ہوئے تھے ؟

8 ۔ امريکا نے بقول امريکا افغانستان پر 2001ء ميں اسلئے حملہ کيا تھا کہ وہاں اُسامہ تھا جسے طالبان نے امريکا کے حوالے کرنے سے انکار کر ديا تھا اور وہ اُسامہ کو ہلاک کرنا چاہتے تھے ۔ اُسامہ ہلاک ہو گيا ۔ اب امريکا اپنا بوريا بستر گول کر کے افغانستان سے کيوں نہيں چلا جاتا ؟

بات آخر ميں يوں بنتی ہے کہ اب پاکستان کے عوام اپنے ۔ اپنے پياروں اور اپنی املاک کی حفاظت خود اپنے ہاتھ ميں لے ليں کيونکہ حکمران ۔ فوج ۔ رينجرز ۔ پوليس سب نااہل ہيں يا دشمن کے ايجنٹ ہيں ۔ ايسا نہيں ہو سکتا ايسا کبھی نہيں ہو سکتا

احوالِ قوم ۔ 17 ۔ آدميت کا زيور

ہوئے زیورِ آدمیت سے عاری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معطل ہوئیں قوتیں ان کی ساری
نہ ہمت کہ محنت کی سختی اٹھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ جراءت کہ خطروں کے میداں میں آئیں
نہ غیرت کہ ذلت سے پہلو بچائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ عبرت کہ دنیا کی سمجھیں ادائیں

نہ کل فکر تھی یہ کہ ہیں اس کے پھل کیا ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہے آج پروا کہ ہونا ہے کل کیا
نہیں کرتے کھیتی میں وہ جاں فشانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہل جوتتے ہیں نہ دیتے ہیں پانی
پہ جب یاس کرتی ہے دل پر گرانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کہتے ہیں حق کی ہے نامہربانی

نہیں لیتے کچھ کام تدبیر سے وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سدا لڑتے رہتے ہیں تقدیر سے وہ
کبھی کہتے ہیں ہیچ ہیں سب یہ ساماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ خود زندگی ہے کوئی دن کی مہماں
دھرے سب یہ رہ جائینگے کاخ و ایواں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نہ باقی رہے گی حکومت نہ فرماں
ترقی اگر ہم نے کی بھی تو پھر کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بازی اگر جیت لی بھی تو پھر کیا

مگر اک فریق اور ان کے سوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرف جس سے نوعِ بشر کو ملا ہے
سب اس بزم میں جن کا نور و ضیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب اس باغ کی جن سے نشوونما ہے
ہوئے جو کہ پیدا ہیں محنت کی خاطر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنے ہیں زمانہ کہ خدمت کی خاطر

نہ راحت طلب ہیں نہ محنت طلب وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لگے رہتے ہیں کام میں روز و شب وہ
نہیں لیتے دم ایک دم بے سبب وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت جاگ لیتے ہیں سوتے ہیں تب وہ
وہ تھپکتے ہیں اور چین پاتی ہے دنیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کماتے ہیں وہ اور کھاتی ہے دنیا

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

ويکھ بنديا

ويکھ بنديا اسماناں تے اُڈدے پنچھی
ويکھ تے سہی کی کردے نيں
نہ او کردے رزق ذخيرہ
نہ او بھُکھے مردے نيں
کدی کسے نيں پنکھ پکھيرو
بھُکھے مردے ويکھے نيں ؟
بندے ای کردے رزق ذخيرہ
بندے ای بھُکھے مردے نيں

کلام بابا بھُلے شاہ

اُردو ترجمہ
ديکھ اے انسان آسمان پر اُڑتے پرندے
ديکھو تو سہی کہ کيا کرتے ہيں
نہ وہ کرتے ہيں رزق ذخيرہ
نہ وہ بھوکے مرتے ہيں
کبھی کسی نے پرندوں کو
بھوکے مرتے ديکھا ہے ؟
انسان ہی کرتے ہيں رزق ذخيرہ
اور انسان ہی بھوکے مرتے ہيں

باپ اور بیٹے میں فرق

ایک 85 سالہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے بڑے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے پاس آ کر شور مچایا
باپ کو نجانے کیا سوجھی اُٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا “بیٹے یہ کیا چیز ہے ؟”
بیٹے نے جواب دیا “یہ کوّا ہے”
یہ سُن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا ۔ کُچھ دیر بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس آیا اور پوچھا “بیٹے ۔ یہ کیا ہے ؟”
بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا “یہ کوّا ہے”
کُچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا “بیٹے یہ کیا ہے ؟”
بیٹے نے اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے کہا “ابا جی یہ کوّا ہے یہ کوّا ہے”
تھوڑی دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا ور چوتھی بار بیٹے سے پوچھا “بیٹے یہ کیا ہے ؟”
اس بار بیٹے کا صبر جواب دے چُکا تھا۔ نہایت اُکتاہٹ اور ناگواری سے اپنی آواز کو مزید بُلند کرتے ہوئے اُس نے کہا “کیا بات ہے آج آپکو سُنائی نہیں دے رہا کیا ؟ ایک ہی سوال کو بار بار دُہرائے جا رہے ہيں ۔ میں کتنی بار بتا چُکا ہوں کہ یہ کوّا ہے یہ کوّا ہے ۔ کیا میں کسی مُشکل زبان میں آپکو بتا رہا ہوں جو اتنا سادہ سا جواب بھی سمجھ نہيں آرہا ہے يا آپ کو سُنائی دے رہا ہے ؟”
اس کے بعد باپ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد باپ واپس آیا تو ہاتھ میں کُچھ بوسیدہ سے کاغذ تھے ۔ کاغذوں سے لگ رہا تھا کہ کبھی کسی ڈائری کا حصہ رہے ہونگے ۔ کاغذ بیٹے کو دیتے ہوئے بولا “بیٹے ۔ دیکھو ان کاغذوں پر کیا لکھا ہے ؟”
بیٹے نے پڑھنا شروع کیا ۔لکھا تھا
“آج میرے بیٹے کی عمر 3 سال ہو گئی ہے ۔ اُسے کھیلتے کودتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھ دیکھ کر دِل خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہے ۔ اچانک ہی اُسکی نظر باغیچے میں کائیں کائیں کرتے ایک کوّے پر پڑی ہے تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ہے اور پوچھتا ہے یہ کیا ہے ؟ میں نے اُسے بتایا ہے کہ یہ کوّا ہے مگر اُسکی تسلی نہیں ہو رہی یا شاید میرے منہ سے سُن کر اُسے اچھا لگ رہا ہے ۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد آ کر پھر پوچھتا ہے یہ کیا ہے ؟ اور میں ہر بار اُسے کہتا ہوں یہ کوّا ہے ۔ اُس نے مُجھ سے یہ سوال 23 بار پوچھا ہے اور میں نے بھی اُسے 23 بار ہی جواب دیا ہے ۔ اُسکی معصومیت سے میرا دِل اتنا خوش ہو رہا ہے کہ کئی بار تو میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اُسے گلے لگا کر پیار بھی کر چُکا ہوں ۔ خود ہی پوچھ پوچھ کر تھکا ہے تو آکر میرے پاس بیٹھا ہے اور میں اُسے دیکھ دیکھ کر فدا اور قُربان ہو رہا ہوں

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ سورت ۔ 17 ۔بنٓی اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 23
وَقَضَی رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُھُمَا أَوْ كِلَاھُمَا فَلَا تَقُلْ لَھُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَھُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
ترجمہ ۔ اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو

تحرير ۔ محمد سليم ۔ بقيہ يہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔ يہاں اس سلسلہ ميں ميرا ايک ذاتی تجربہ

شايد 1951ء کی بات ہے جب ميں آٹھويں جماعت ميں پڑھتا تھا کہ ميں کسی سلسلہ ميں راولپنڈی سے لاہور روانہ ہوا ۔ ٹرين 8 بجے صبح روانہ ہوئی ۔ ہفتہ کے درميانی دن تھے اسلئے ٹرين ميں بھيڑ نہ تھی ۔ 4 سواريوں کی نشست پر ميں ايک بزرگ اور ايک تين ساڑھے تين سال کا بچہ بيٹھے تھے ۔ بچہ بزرگوار کا پوتا تھا ۔ جونہی ٹرين روانہ ہو کر پليٹ فارم سے باہر نکلی بچہ کھڑکی سے باہر ديکھنے لگ گيا
ايک کھمبہ نظر آيا تو دادا سے پوچھا “يہ کيا ہے ؟”
دادا نے بڑے پيار سے مسکرا کر کہا “يہ کھمبا ہے”

سب جانتے ہيں کہ ريلوے لائن کے ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھمبے ہوتے ہيں
بچہ ہر دوسرے تيسرے کھمبے کی طرف اشارہ کر کے کہتا “يہ کيا ہے ؟”
اور دادا اُسی طرح پيار سے مسکرا کر کہتے “يہ کھمبا ہے”

غرضيکہ جہلم تک جب بچہ تھک کر سو گيا تو ميرے حساب سے وہ يہ سوال ساٹھ ستّر بار دہرا چکا تھا اور بزرگوار نے اُسی طرح پيار سے اور مسکرا کر جواب ديا تھا

بچے کے سونے کے بعد ميں نے بزرگوار سے کہا “آپ کی ہمت ہے کہ آپ متواتر اتنے پيار سے جواب ديتے گئے ۔ آپ تھک گئے ہوں گے ؟”
وہ بزرگ بولے “اب سو گيا ہے ۔ ميں آرام کر لوں گا”

ميں مسکرائے بغير نہ رہ سکا کيونکہ بچہ اُن کی گود ميں سويا ہوا تھا ۔ وہ کيسے آرام کر سکتے تھے