Category Archives: طور طريقہ

آيئے کچھ دير کيلئے سنجيدہ ہو جائيں

ميرے ہموطنوں کی اکثريت جن ميں حکمران بھی شامل ہيں سنجيدگی کو اپنے قريب نہيں آنے ديتی ۔ سنجيدہ ہوتے ہيں تو صرف اُس وقت جب اپنا ذاتی فائدہ ہو خواہ وہ ديرپا نہ ہو ۔ البتہ سنجيدہ موضوع پر غير سنجيدہ تبصرہ محبوب مشاغل ميں سے ايک ہے ۔ آيئے آج تھوڑی سی دير کيلئے سہی مگر سنجيدہ ہو کر سوچيں

سوال نمبر 1 ۔ پاکستان کے مختلف علاقوں ميں خود کُش حملے ہوتے ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟
سوال نمبر 2 ۔ پاکستان پر ڈرون حملے ہوتے ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟
سوال نمبر 3 ۔ کراچی ميں آئے دن لاشيں گرتی ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟
سوال نمبر 4 ۔ پاکستان کی پوليس يا رينجر يا فوج کاروائی کرتے ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟

مندرجہ بالا چاروں سوالات کا جواب ايک ہی ہے کہ نقصان پاکستان کا ہوتا ہے اور ہلاک بھی پاکستانی ہوتے ہيں

يہ کاروائی طالبان يا دہشتگردوں کی ہے يا طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے” کہہ دينے سے
کيا پاکستان کا نقصان پورا ہو جاتا ہے ؟
يا آئيندہ پاکستانی ہلاک ہونا بند ہو جاتے ہيں ؟
ايسا آج تک نہيں ہوا اور نہ ہونے کی توقع ہے

ابھی سنجيدہ ہی رہيئے

اپنے دماغ کو کھُرچئے اور دل کو ٹٹولئے اور بتايئے کہ
ہم کسے بيوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہيں ؟
اور کسے فائدہ پہنچا رہے ہيں ؟

ہم مانيں يا نہ مانيں ہم صرف اور صرف اپنے آپ کو بيوقوف ثابت کر رہے ہيں
اور اپنے اور اپنے مُلک کے دُشمنوں کو فائدہ پہنچا رہے ہيں
اُن دُشمنوں کو کاميابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کر رہے ہيں جو ہمارا وجود [پاکستان] کو قائم ہونے سے پہلے ہی اِسے نابُود کرنے پر تُل گئے تھے

کيا ہمارے متعلق يہ درست نہيں ؟ جو ايک فلسفی نے کہا تھا [ميں قوموں کے نام بدل کر لکھ رہا ہوں]

جب فلسطين پر غاصبانہ قبضہ ہوا تو ميں نے کہا ميرا اس سے کيا تعلق ميں تو فلسطينی نہيں ہوں
جب افغانستان پر ناجائز حملہ ہوا تو ميں نے کہا کہ مُلا عمر جانے ۔ اُسے اُس کے کرتُوت کا بدلہ مل رہا ہے
جب عراق پر حملہ ہوا تو ميں نے کہا صدام حسين تھا ہی بڑا جابر اور ظالم حُکمران ۔ اس کے ساتھ يہی ہونا تھا
جب لبيا پر حملہ ہوا تو ميں نے کہا کہ قذافی تو آمر ہے ۔ اپنے عوام پر 41 سال سے جمہوريت کی بجائے آمريت نافذ کی ہوئی ہے ۔ اس کے ساتھ ايسا ہی ہونا چاہيئے
جب ايبٹ آباد پر حملہ ہوا تو ميں نے کہا اُسامہ بن لادن دنيا کا سب سے بڑا دہشتگرد تھا ۔ اُس کو اس کی سزا ملنا ہی تھی

کيا ہم اس وقت کی انتظار ميں ہيں ؟
پھر ايک دن آيا کہ دُشمن ميرے قريب پہنچ گيا ۔ ميں نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر مجھے بچانے والا کوئی نظر نہ آيا
اس کے بعد ميرا حال بتانے والا بھی کوئی نہ بچا تھا

انقلاب نہيں آئے گا

جب تک لال بتی پہ نہ رُکيں ۔ سبز والے کو رستہ نہ ديں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک اپنے حقوق کا روئيں ۔ دوسرے کا حق نہ پہچانيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک ہے آپا دھاپی ۔ ہر آدمی دوسرے پہ شاکی
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک نظر نہ آئے اپنی آنکھ کا شہتير ۔ دوسرے کا تِنکا ناپيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک بھُول کے قومی مفاد ۔ کھوليں انفرادی محاذ
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک اپنے کو پڑھا لکھا ۔ دوسرے کو جاہل جانيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک چرغے کا منہ چڑھائيں ۔ کے ايف سی کو بھاگے جائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک کراچی حلوے کی تحقير کريں ۔ والز بھر بھر کھائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک چپل کباب بُرا ۔ ميکڈانلڈ پيٹ بھر کے کھائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک چھوڑ کر سجّی ۔ بھاگے وِليج اور سب وے کو جائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک کھير گنوار لگے ۔ ايوری ڈے کے نعرے لگائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک بيٹا ماں کی نہ سُنے ۔ بيٹی باپ کو جاہل جانے
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک شرم و حياء کو بھُولے ۔ لڑکا لڑکی برملا ناچيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک چھوڑ ذاتی بکھيڑے ۔ سب پاکستانی نہ ہو جائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

يہ بھی پاکستانی ہيں

آج ايک پاکستانی خاندان کے متعلق کچھ حقائق جو عصرِ حاضر کی مادہ پرست دنيا ميں شايد ايک عجوبہ لگے مگر سوچنے والے کيلئے اس ميں بہت سبق ہے

يہ 1987ء کے دوسرے نصف کی بات ہے ۔ ميں اُن دنوں جنرل منيجر ايم آئی ايس تھا ۔ ايک دن کمپيوٹرائيزڈ اِنوَينٹری منيجمنٹ سسٹمز پروجيکٹ [Computerised Inventory Management Systems Project] نشو و نما اور تنفيذ [Development and implementation] پر گفت و شنيد کرنے ايک فيکٹری کے ايم ڈی صاحب کے پاس گيا ۔ انہوں نے اس پروجيکٹ کے سلسلہ ميں اپنی فيکٹری کی معلومات اکٹھا کرنے کيلئے ايک منيجر کو مقرر کيا ۔ وہ شخص آيا اور يوں اپنا تعارف کرايا

“السلام عليکم سر ۔ ميں عظيم الدين ہوں آپ کے بيٹے زکريا کے دوست انعام الحسن کا باپ”

انعام الحسن اور ميرا بڑا بيٹا زکريا اُن دنوں سر سيّد کالج واہ کينٹ ميں بارہويں جماعت ميں تھے ۔ اس ملاقات کے بعد عظيم الدين صاحب سے چند ايک بار سرکاری کام ہی کے سلسلہ ميں سرسری سی ملاقاتيں ہوئيں ۔ ميں اوائل 1988ء ميں دفتر سے گھر پہنچا ہی تھا کہ باہر کی گھنٹی بجی ۔ زکريا جو اُسی وقت کالج سے گھر پہنچا تھا ديکھنے گيا ۔ واپس آيا تو کچھ پريشان لگا

ميں نے پوچھا “کون تھا؟”

بولا “انعام تھا ۔ اُس کے والد کو ہارٹ اٹيک ہوا ہے اور راولپنڈی لے گئے ہيں ۔ وہ راولپنڈی جا رہا ہے ۔ کہنے آيا تھا کل کالج نہيں آ سکے گا”

ميں نے پوچھا “کيسے جائے گا ؟”

زکريا کہنے لگا “بس پر”

ميں نے زکريا کو بھگايا اور پيچھے اپنی کار لے کے پہنچا ۔ انعام الحسن کو آرمڈ فورسز انسٹيٹيوٹ آف کارڈيالوجی راولپنڈی لے گيا ۔ انعام الحسن ہی اُن کا سب سے بڑا بچہ تھا ۔ اس کے بعد 3 بيٹياں اور  ايک بيٹا

عظيم الدين صاحب بہار [بھارت] سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے ۔ پاکستان ميں ايک اور مہاجر خاندان ہی ميں شادی کی تھی ۔ اُن کا پاکستان ميں سوائے سسرال کے اور کوئی رشتہ دار نہ تھا ۔ نہ اپنا کوئی گھر تھا نہ زمين ۔ تنخواہ کے علاوہ اور کوئی ذريعہ معاش نہ تھا ۔ وہ ايک نہائت شريف ۔ سفيد پوش اور باعمل مسلمان شخص تھے اور دين کی ترويج و تبليغ کيلئے بھی وقت نکالتے تھے

بيماری کے چند روز بعد عظيم الدين صاحب انتقال کر گئے ۔ انگريز ايک ظالم قانون بنا گئے تھے جسے آج تک ہمارے حکمرانوں نے قائم رکھا ہوا ہے کہ دوران ملازمت وفات پر گريجوئٹی نہيں ملتی ۔ اس کی بجائے صرف 4 ماہ کی تنخواہ ملتی ہے ۔ اُن کی ملازمت کا دورانيہ بھی 30 سال سے بہت کم ہونے کے باعث پنشن بھی بہت کم بنتی تھی ۔ کمانے والے کی وفات کے بعد 6 افراد کی روٹی اور 5 بچوں کی تعليم اور معمولی پنشن ۔ اس خاندان کيلئے مشکلات کا گويا پہاڑ آ سامنے کھڑا ہوا تھا ۔ ميں ان خيالات ميں گُم اُن کے گھر پہنچا اور انعام کو گلے لگا کر دلاسہ دينے لگا تو انعام کے يہ الفاظ ميرے کانوں ميں پہنچے

“دعا کيجئے اَنکل ۔ اُن کيلئے دعا کيجئے”

نہ وہ چِلايا ۔ نہ اُس نے آنسو بہائے ۔ ميرے جسم کا ہر عضوء برملا کہہ اُٹھا “يہ ہيں اللہ کے بندے”۔ يہ تھا پہلا دن جب ہمارا عظيم الدين صاحب مرحوم کے خاندان سے تعلق پيدا ہوا

مگر بات يہيں ختم نہيں ہو جاتی ۔ اصل مشکلات تو ابھی شروع ہونے والی تھيں ۔ انعام الحسن کا بارہويں کا نتيجہ آيا ۔ راولپنڈی بورڈ ميں اُس کی چھٹی پوزيشن تھی ۔ اُسے راولپنڈی ميں فوج کے انجنيئرنگ کالج داخل کرايا گيا تاکہ وہ 4 سال ميں انجنيئر بن جائے ۔ باقی يونيورسٹيوں ميں ہڑتالوں کے باعث پانچ چھ سال لگتے تھے

ساری روئيداد لکھوں تو کتاب بن جائے گی ۔ انعام الحسن اور اس کی بہنوں نے کيا کيا پاپڑ بيلے اور کس طرح اپنی خوراک اور تعليم کے اخراجات پورے کئے يہ وہی جانتے ہيں يا اللہ جانتا ہے ۔ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اللہ کے احکام پر عمل کی پوری کوشش کرتا ہے ۔ اللہ آگے بڑھ کر اس کی مدد کرتا ہے اور ايسے وسيلے پيدا کر ديتا ہے جو مددگار ثابت ہوتے ہيں ۔ کچھ نيک دل افسران نے پوری کوشش کے بعد اس خاندان کو مکان کيلئے ايک چھوٹا سا پلاٹ سرکاری قيمت پر دلا ديا ۔ ايک ٹھيکيدار نے کہا کہ وہ بغير منافع کے صرف لاگت کی بنياد پر انکا مکان تعمير کروا  دے گا اور اُس نے ايسا کر دکھايا

کسی طرح 2 کمرے بغير پلستر اور اندرونی دروازوں کے بغير تيار ہو گئے اور وہ لوگ اس ميں رہنے لگے ۔ چھوٹے دو بہن بھائی کی تعليم ابھی باقی تھی کہ اُن کے پاس پيسے ختم ہو چکے تھے ۔ اللہ نے پھر مدد فرمائی اور اُنہيں قرضِ حسنہ مل گيا ۔ ملازمت حاصل کرنے کے بعد انعام الحسن نے پہلا کام يہ کيا کہ جہاں سے قرضِ حسنہ ليا تھا وہ واپس کيا

جس خاندان کو دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل نظر آتا تھا اُس کے پانچوں بچوں نے ماشاء اللہ اعلٰی تعليم نہائت خاموشی سے حاصل کی ۔ کبھی ہم نے بيگم عظيم الدين يا اُن کے بچوں کے منہ سے بيچارگی کا لفظ نہ سُنا ۔ جب پوچھا جواب ملا ” اللہ کا کرم ہے”۔ انعام  الحسن نے ملازمت کے دوران ہی ايم ايس سی انجنئرنگ پاس کی ۔ دو بہنيں ڈاکٹر بنيں جن ميں سے ايک نے ايف سی پی ايس کيا۔ تيسری بہن نے ايم ايس سی پاس کی ۔ چھوٹے بھائی نے ايم بی اے پاس کيا ۔ يہ خاندان اب ايک گھر کا مالک بھی ہے جو کہ مکمل کيا جا چکا ہے اور سب بہن بھائيوں کی شادياں ہو چکی ہيں

عظيم الدين صاحب کے خاندان کے سب لوگ عملی طور پر پکے مسلمان ہيں ۔ انعام الحسن کی والدہ ۔ بہنيں اور دونوں بھائيوں کی بيوياں سب پردہ کرتی ہيں ۔ پچھلے 20 سال سے ہمارے ساتھ سب اپنے گھر والوں کی طرح ہيں ۔ اس کے باوجود انعام الحسن کی والدہ  سميت سب خواتين ہم سے پردہ کرتی ہيں

کيا پردہ تعليم يا ترقی کی راہ ميں رکاوٹ ہے  ؟

عظيم الدين صاحب کے متعلق ايک بات ميں نے جان بوجھ کر آخر ميں رکھی ۔ ميرے خالو جو پاکستان آرڈننس فيکٹريز سے بطور منيجر ريٹائر  ہوئے اور واہ چھاؤنی ہی ميں رہتے تھے نے رائے وِنڈ ميں تبليغی جماعت کے سالانہ اجتماع ميں شرکت کی ۔ جب وہ واپس تشريف لائے تو ميں ملنے گيا اور اس نئے تجربہ کا پوچھا ۔ اُنہوں نے پروگرام کے متعلق سرسری تفصيل بتانے کے بعد کہا کہ وہاں پہچنے والے لوگ ايک دوسرے کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے ليکن دو آدميوں کيلئے تو ميرے دل ميں بے پناہ احترام و عزت پيدا ہو گئی ہے جن ميں سے ايک عظيم شخص واہ کے ہيں ۔ منيجر آرٹلری ايميونيشن عظيم الدين ۔ کہنے لگے “ميں نے ديکھا کہ سارا وقت يہ دونوں حضرات لوگوں کو کھانا کھلانے ميں لگے رہتے اور جب سب کھانا کھا چکتے تو جو پليٹيں واپس آ رہی تھيں ان ميں بچا ہوا کھانا وہ کھاتے جاتے اور پليٹيں صاف کر کے رکھتے جاتے ۔ ميں نے عظيم الدين صاحب سے بات کی تو کہنے لگے کہ حلال رزق کا ايک دانہ بھی جو ضائع ہو گا اس کی ہم سے باز پُرس کی جائے گی”

پتھر دل

جی ہاں ۔ مجھے يہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ميں بقلم خود فدوی “پتھر دل آدمی ہوں” ۔

“کل [شبقدر ميں] خُود کُش حملے ميں 80 پاکستانی ہلاک ہوئے اور طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ۔ آپ اس پہ افسوس یا مذمت کب کریں گے ؟” ۔ يہ تبصرہ ميری تحرير ” افغانستان ۔ پاکستان ۔ اُسامہ بن لادن ۔ تاريخ کا ايک ورق” پر کيا گيا گو وہاں اس طرح کی کوئی بات نہ تھی

ميں نے جواب ميں لکھا “آپ صرف افسوس اور مذمت کی بات کر رہی ہيں ۔ ميرے پاس تو اب رونے کيلئے آنسو بھی نہيں بچے”
ميرے اس جواب پر ايک صاحب نے دُکھ کا اظہار کيا
اور سوال کرنے والے کی طرف سے دوسرا سوال آيا ” اگر آپکے پاس رونے کے لئے آنسو نہیں تو ایم کیو ایم پہ بہانے کے لئے کہاں سے آتے ہیں ؟”

مزيد کہا گيا کہ لياری ميں 2 جوئے کے اڈوں پر دستی بم پھينکے گئے ۔ متعدد لوگ مارے گئے ۔ ميں نے اس پر کچھ نہيں لکھا

ميں نہ صحافی ہوں اور نہ کسی اخبار يا ٹی وی چينل کا نمائندہ ۔ پھر ميری ذمہ داری ميں يہ کيسے شامل ہوا کہ ميں ہر خبر پر تبصرہ کروں ؟
ميں تو اپنا روزنامچہ لکھتا ہوں ۔ کوئی پڑھ کر فيض حاصل کرے تو ميری خوش قسمتی ہے ۔ اگر ناراض ہو تو اُس کی خوشی ہے

تعليم يافتہ مسلمان جو اللہ کو بھی بغير تحقيق نہيں چھوڑتے ان کے شہر ميں جوئے کے اڈے شريعت کے مطابق ہی ہوں گے شايد ؟

مجھ سے کوئی قسم کرا لے کہ ميں الطاف حسين يا اُس کے مريدوں پر کبھی رويا ہوں ۔ جن کی مجھے آج تک سمجھ ہی نہ آسکی کہ وہ کہتے کيا ہيں اور چاہتے کيا ہيں ؟ اُن پر رونا سوائے آنکھوں کے ستياناس کے اور کيا ہو سکتا ہے ؟

اب واقعی بے تحاشہ رونا آ رہا ہے ۔ کسی آدمی پر نہيں بلکہ ” اُردو اسپيکنگ” کہلانے والوں کے دماغ ميں اُردو کے مر جانے پر ۔ ميں نے تو محاورہ استعمال کيا تھا اپنے زيادہ غم و اندوہ کے اظہار کيلئے يعنی ” ميرے پاس تو اب رونے کيلئے آنسو بھی نہيں بچے”

کہاں ہيں وہ “ديا جلائے رکھنا والے” خرم ابن شبير صاحب جو ہميں اُردو لُغت سمجھاتے رہتے ہيں ؟
اور کہاں ہيں وہ خامہ کی صرير والے محمد وارث صاحب جو اُردو کے اُستاذ ہيں ؟
ان حضرات کو معلوم ہو کہ وارث سوئے ہوئے ہيں اور صرف خامہ ہی خامہ رہ گيا ہے صرير پر
ميری پياری اُردو کے سر پر ايسا چپت ايک اُردو والے نے مارا ہے کہ ميری پياری اُردو بيہوش پڑی ہے
جلدی سے ميری پياری اُردو کو طاقت کا ٹيکہ لگايئے کہيں گذر گئی تو ميں بہاؤں گا کيا ؟ ميرے آنسو تو پہلے ہی خُشک ہو چکے ہيں

ويسے کيا لياری پنجاب ميں ہے ؟ ميں تو آج تک يہی سمجھتا رہا کہ لياری کراچی ميں ہے ۔ قتل لياری ميں ہو يا ناظم آباد ميں ۔ شاہ فيصل کالونی ميں ہو يا لياقت آباد ميں ۔ عزيز آباد يا غريب آباد ميں ہو يا سعدی ٹاؤن يا نارتھ کراچی ميں ۔ ملير ميں ہو يا بولٹن مارکيٹ ميں ۔ وغيرہ وغيرہ ۔ يہ سب ہوتے تو کراچی ميں ہيں

اگر کراچی يا سندھ کی حکومت اس قتال کو نہيں روک سکتی تو اس ميں مجھ نحيف کا کيا قصور ؟ ميں نہ کسی حکومت ميں شامل ہوں نہ کسی سياسی جماعت ميں

سندھ کا گورنر سالہا سال سے ايم کيو ايم کا ۔ وزيرِ اعلٰی 3 سال سے پی پی پی کا ۔ سندھ کے وزراء پی پی پی اور ايم کيو ايم کے ۔ مرکزی حکومت ميں بھی پی پی پی اور ايم کيو ايم دونوں شامل ہيں ۔ پی پی پی اور ايم کيو ايم کی حکومت کا تو يہ حال ہے کہ عوام کے قتال کو روکنا تو درکنار سعودی عرب [جس سے درپردہ اب تک امداد لے کر جی رہے ہيں] کے کراچی ميں کونسليٹ پر 11 مئی کو گرينيڈ پھينکے گئے مگر حکومت مست رہی اور [اپنی غفلت سے مجبور] مستقبل کی فکر نہ کی ۔ نتيجہ يہ کہ 16 مئی کو سعودی سفارتکار اپنے قونصلیٹ جار رہے تھے کہ ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی اور سعودی سفارتکار حسن گابانی جاں بحق ہوگئے ۔ سندھ حکومت اور مرکزی حکومت قتل و دہشتگردی کے ہر واقعہ کو طالبان يا القاعدہ کے ذمہ ڈال کر پھر لوٹ مار ميں مشغول ہو جاتی ۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتيں مل کر اپنے گھر [سندھ بالخصوص کراچی] کی بہتری نہيں کر سکتيں تو ميری طرف سے مذمت و افسوس کيا معنی ؟

شکريہ محترم شکريہ

ميں نے اپنے طور پر محمد علی مکی صاحب سے ايک سوال کھُلے عام نہيں بذريعہ ای ميل پوچھا اور اُنہوں نے شايد عوام الناس کی بہتری کی خاطر اسے مُشتہر کر ديا کيونکہ ہمارے مُلک ميں سب کام عوام کی بہتری کيلئے ہوتے ہيں ڈاکے ڈالنا لاشيں گرانا سميت ۔ مجھے محمد علی مکی صاحب سے کوئی گلہ نہيں کيونکہ ميں عام آدمی ہوں اور عام آدمی صرف برداشت کرنے کيلئے ہوتا ہے

البتہ محمد علی مکی صاحب کا شکريہ ميرے متعلق تحرير لکھنے کا ۔ کسی نے کہا تھا “بدنام ہوں گے تو کيا نام نہ ہو گا ؟”
مزيد ميں محمد علی مکی صاحب کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے مجھے محترم اور چچا جيسے القاب سے نوازا ۔ گو بات کچھ ايسی ہے “محترم ۔ ميں آپ کا سر پھوڑنے کی گستاخی کر لوں”
اور محمد علی مکی صاحب کا ايک بار پھر شکريہ مجھے لينکس بنا کر بھيجنے کا ۔ اب تک تو ميں اپنی علالت کی وجہ سے اس سے استفادہ حاصل نہ کر سکا تھا مگر محمد علی مکی صاحب کی سيکولرزم کی تھيوری کے تحت مجھے اس بارے ميں سوچنا پڑے گا ۔ اگر محمد علی مکی صاحب کی بنائی ہوئی لينکس استعمال کرتا ہوں تو ميں بھی محمد علی مکی صاحب جيسا ہو جاؤں گا جو محمد علی مکی صاحب کيلئے سُبکی کا باعث ہو گا ۔ کہاں وہ علم و ذہانت کا سمندر اور کہاں ميں 2 جماعت پاس عام سا آدمی

محمد علی مکی صاحب نے ميرے متعلق لکھا ہے کہ “ان کے بلاگ کے مطابق ان کا مقصد اپنی زندگی کے تجربات نئی نسل تک پہنچانا ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے تجربات کم اور نظریات زیادہ پہنچانا چاہتے ہیں”

محمد علی مکی صاحب صرف ميرے بلاگ کو جانتے ہيں اور وہ بھی جزوی ۔ نہ کبھی مجھے ملے ہيں نہ کبھی ٹيليفون پر مجھ سے بات کی ہے تو پھر انہيں ميرے نظريات سے کيسے واقفيت ہوئی ؟ ہاں ۔ سنا ہے کہ اعلٰی ذہن کے لوگ بند لفافہ ديکھ کر اندر پڑے خط کا مضمون سمجھ جاتے ہيں ۔ ويسے ميرے بلاگ پر مختلف نظريات کی تحارير موجود ہيں جن سے ميرا مُتفق ہونا ضروری نہيں

محمد علی مکی صاحب کی ذہانت بھی قابلِ تعريف ہے کہ ميرے سوال کا جواب تو ديا نہيں مگر کمال ہوشياری سے توپوں کا رُخ ميری طرف موڑ ديا اور مجھ پر خود ساختہ ليبل بھی چسپاں کر ديئے ۔ يہی عصرِ جديد کا طرّہ امتياز ہے

محمد علی مکی صاحب خود تو خدا کی ہستی کو متنازعہ بنانے کيلئے اپنا سارا عِلم اور ذہانت بروئے کار لاتے ہيں اور ميرے سوال کے جواب ميں اُسی خدا کی کتاب سے ايک آيت اور اسی کے رسول کا ايک فرمان نقل کئے ہيں جو مجھے اپنی جان سے زيادہ محترم ہيں مگر ميرے سوال کا جواب کسی صورت نہيں بنتے ۔ محمد علی مکی صاحب کا زور پھر بھی اسی پر رہا ہے کہ مجھے يا مجھ جيسے کو بہر صورت اور بہر طور سيکولر ثابت کريں جبکہ اُن کے سيکولرزم کی بنياد ہی ناقص ہے

بے علم ہوتے ہوئے بھی ميں اتفاق سے علم کی اہميت سے واقف ہوں ۔ ميں جہاں پی ايچ ڈی سے سيکھنے کی کوشش کرتا ہوں وہاں اَن پڑھ لوگوں سے بھی سيکھتا ہوں ۔ ميں بزرگوں سے سيکھتا ہوں اور بچوں سے بھی ۔ ميں نے چوپايوں اور پرندوں سے بھی سيکھا ہے اور حشرات الارض سے بھی ۔ ميں نے محمد علی مکی صاحب کے عِلم کے خزانوں سے بھی استفادہ کی کوشش کی مگر مايوسی کے سوا کچھ نہ ملا

کتابيں ميں نے بھی بہت پڑھی ہيں ۔ زمين کے متعلق آدمی لاکھ کتابيں پڑھ لے مگر جب تک پاؤں زمين پر نہ رکھے اُسے احساس نہيں ہو گا کہ زمين سخت ہے ۔ نرم ہے ۔ پتھريلی ہے ۔ ريتلی ہے يا دلدل يا يہ سخت زمين ۔ نرم زمين ۔ پتھريلی زمين ۔ ريتلی زمين يا دلدل ہوتی کيا ہے ؟ اسلئے تجربے کو اہميت دی جاتی ہے اور اسی لئے ايک عالمی شہرت يافتہ مفکر نے کہا تھا

عمل سے زندگی بنتی ہے جہنم بھی
يہ خاکی اپنی فطرت ميں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اللہ تعالٰی محمد علی مکی صاحب کو جزائے خير دے اور مجھے سيدھی راہ پر قائم کرے