Category Archives: طور طريقہ

ظُلم جب حد سے گذر جائے

سُنا تھا کہ “ظُلم جب حد سے گذر جائے تو اللہ کا قہر نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے”۔ فلک شگاف مہنگائی ۔ بجلی چوری اور غائب ۔ لوٹ مار کا بازار گرم ۔ دھماکے ۔ گولياں ۔ بت وقت بارشيں

کہيں يہ سب اللہ کا قہر ہی تو نہيں ؟

ہمارے کرتوت کيا ہيں ؟ لاہور کے علاقے کاہنہ میں ایک خاتون نے کتے کے آگے کھانا نہ ڈالنے پر 14 سالہ ملازم کو مبینہ طور پروحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا ،جس سے بچے کی موت واقع ہو گئی،پولیس نے مقتول کے باپ کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا ہے۔پولیس کو دی گئی درخواست کے مطابق

چنیوٹ کا رہائشی14سالہ تقی عثمان لاہور کے ایک پوش علاقے میں سعدیہ نامی خاتون کے گھر ملازم تھا ۔ سعدیہ تقی عثمان کو حکم دے کرکتے کو کھانا ڈالنے گھر سے چلی گئی ۔ واپسی پر اسے کتا بھوکا محسوس ہوا تو اس نے تقی عثمان کو کمرے میں بند کرکے مبینہ طور پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس سے تقی عثمان کی موت واقع ہو گئی ۔ ہمسایوں کی اطلاع پر پولیس نے لاش برآمد کرکے اس کے باپ عطا محمدکو بُلا لیا اوراس کی درخواست پر مقدمہ درج کرکے لاش پوسٹ مارٹم کے لئے بھجوا دی ۔ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی

ايک اچھی کاوش

جشن آزادی کی خوشی میں کراچی کے ڈیفنس اسٹیڈیم میں 13 اور 14 اگست کی درميانی رات ہزاروں لڑکے لڑکياں اور بچے جمع ہوئے اور رات 12 بجے
کے بعد سب نے مل کر قومی ترانہ پڑھا

اس دوران تیز ہوائیں چلیں ۔ بجلی چمکی ۔ بادل گرجے پھر برسے اور بجلی غائب ہوگئی لیکن حوصلے پست نہ ہوئے

کہا جاتا ہے کہ 5885 لوگ جمع ہوئے جو فلپين ميں قائم ہونے والے ريکارڈ سے زيادہ ہے ۔ فلپين ميں 2009ء ميں 5248 لوگ جمع ہوئے تھے

اگر کوئی بلاگر يا قاری اس ميں شامل ہوا تھا تو اپنی رائے ضرور دے

اللہ کرے اگلے 14 اگست پر پاکستان کے ہر بڑے شہر ميں ہزاروں جوان اور پچے ايسی يکجہتی کا مظاہرہ کريں

کب آئے گی واپس حميّت ہماری ؟ ؟ ؟

جب عوام تحريک چلا کر اپنے لئے وطن کے نام پر زمين کا کوئی ٹکڑا حاصل کرنے کيلئے اپنے خون کا نذرانہ پيش کرتے ہيں ۔ يقينی طور پر اور ميں بطور نو دس سال کے بچے کے اس کا شاہد ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی1946ء اور 1947ء ميں ايسا ہی کيا تھا ۔ دراصل وہ 1857ء سے وقفے وقفے سے اپنے خون کے نذرانے پيش کرتے آئے تھے ۔ لاکھوں بوڑھے ۔ جوان ۔ مردوں اور عورتوں اور بچوں کے خون اور ہزاروں عورتوں کی عزتوں کی قربانی کے نتيجہ ميں اللہ نے يہ وطن ہميں بخشا تھا کيونکہ ہم نے اس کا مطلب ” لا اِلَہَ اِلاللہ ” کہا تھا

جب وطن حاصل ہو جاتا ہے تو قوميں دن رات کی جاں فشانی سے ترقی اور خوشحالی کی طرف رواں دواں ہوتی ہيں ۔ بلاشُبہ وطنِ عزيز کے پہلے چند سال ايسا ہی ہوا ۔ پھر انگريزوں کے ذہنی غلام اس نوزائدہ وطن پر حاوی ہو گئے اور اپنے ہی بھائيوں کا گوشت نوچنے لگے بلکہ اپنے وطن کے بھی بخيئے ادھڑنے لگے ۔ ہموطنوں کی کوتاہ انديشی اور آپا دھاپی کے نتيجہ ميں1971ء ميں مُلک کا ايک بڑا حصہ جاتا رہا اور اب اُس کا حال کچھ اس طرح بنا ديا ہے

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں ۔ ۔ ۔ ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کہ جلاؤں
شاہیں کا تو ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا ۔ ۔ ۔ کنجشک فرومایہ کو میں اب کس سے لڑاؤں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکّاری و عیاری و غدّاری و ہیجان ۔ ۔ ۔ اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو ۔ ۔ ۔ اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن ۔ ۔ ۔ مکاری و روباہی پہ اِتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو ۔ ۔ ۔ وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے ۔ ۔ ۔ ملتی ہوئی مُلا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور ۔ ۔ ۔ شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
کردار کا ، گفتار کا ، اعمال کا مومن ۔ ۔ ۔ قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی پنجاب کا مومن ۔ ۔ ۔ ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ہر داڑھی میں تِنکا ہے تو ہر آنکھ میں شہتیر ۔ ۔ ۔ اب مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں ۔ ۔ ۔ اب ذوقِ یقیں سے کہیں کٹتی نہیں زنجیر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر ۔ ۔ ۔ شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے ۔ ۔ ۔ تقدیرِ امم سو گئی ، طاؤس پہ آ کر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مرمر کی سِلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے ۔ ۔ ۔ رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر شخص مسلمان ہے لیکن ۔ ۔ ۔ دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے ۔ ۔ ۔ جمہور سے سلطانیءِ جمھور ورے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے ، یہاں پر جو خودی کا ۔ ۔ ۔ مر مر کے جیئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے ۔ ۔ ۔ اس بندہءِ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو ۔ ۔ ۔ اک بار میں ہم چُھٹے اس بار گراں سے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

موت کے بيوپاری

پانی ميں آرسینک اور سوڈیم [Arsenic and Sodium] کی زیادتی کے باعث دل ۔ گردوں ۔ بلڈ پریشر ۔ اور جلد وغیرہ کی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔ اسلام آباد ۔ کراچی ۔ لاہور ۔ پشاور ۔ کوئٹہ ۔ راولپنڈی ۔ فیصل آباد ۔ سیالکوٹ ۔ ساہیوال ۔ ڈیرہ غازی خان ۔ بدین ۔ ٹنڈوجام اور ڈیرہ اسماعیل خان سے منرل واٹر کمپنیوں کے 77 نمونے حاصل کرکے ان کا لیبارٹری میں پاکستان اسٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے معیار کے مطابق تجزیہ کیا گيا اور مندرجہ ذيل 12 کمپنيوں کا پانی کیمیائی طور پر مضر صحت پایاگیا ہے ۔ اِن اجزاء کی زيادہ سے زيادہ مقدار يہ ہے ۔ آرسينک [Arsenic]10 پی پی بی ۔ سوڈيم [Sodium] 50 پی پی بی اور فلورائيڈ [Fluoride
]0.7 پی پی ايم

نادق واٹر[Nadiq Water] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 54 پی پی بی آرسينِک
پین پیور[Pan Pure] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 15 پی پی بی آرسينِک
آقوا ون[Aqua-One] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 پی پی بی آرسينِک
نیشن[Nation] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 40 پی پی بی آرسينِک
ہمالیہ[Hamaliya] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 پی پی بی آرسينِک
اکوا نیشنل[Aqua National] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 57 پی پی بی آرسينِک
پِنيو[Pineo] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13 پی پی بی آرسينِک

نیشن[Nation] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 68 پی پی بی سوڈيم
میکس فریش[Max Fresh] ۔ ۔ ۔ 59 پی پی بی سوڈيم
مرجان[Marjan] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 53 پی پی بی سوڈيم
وینا[Vina] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 58 پی پی بی سوڈيم
اصل پیو نا[Asal Pio Na]۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 120 پی پی بی سوڈيم

ایکٹو [Active] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1.39 پی پی ايم فلورائيڈ

بشکريہ ۔ جنگ

روزہ يا فاقہ ؟

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا اور پياسا رہنے کا نام نہیں ہے
روزہ ہر برائی سے بچنے کا نام ہے

روزہ صرف پيٹ کا نہيں ہے ۔ نہ روزہ دوپہر کا کھانا چھوڑ کر سحری اور افطاری کے اوقات دوگنا کھانے کا نام ہے
روزہ زبان ۔ کان ۔ آنکھ ۔ ہاتھ۔ پاؤں ۔ غرضيکہ جسم کے ہر عضوء کو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے بتائے ہوئے طريقہ پر عمل کا پابند کرنے کا نام ہے

کچھ لوگ اپنے روزے کو اپنی کم عِلمی کے سبب ضائع کر ديتے ہيں
ایک صاحب سنیما ہاؤس سے باہر نکلے ۔ ان سے پوچھا گيا “آپ کا روزہ نہیں ہے کیا ؟”
جواب دیا “روزے سے ہوں ۔ بس وقت گذارنے کیلئے آ گیا تھا”
آجکل سنیما ہاؤس تو لوگ کم ہی جاتے ہیں ۔ گھر میں ہی وی سی آر پر وڈیو کیسٹ یا کمپیوٹر پر سی ڈی لگا کر روزے کا وقت آسانی سے گذار لیتے ہیں

روزے کو فاقہ ميں تبديل کرنے کے عمل جن پر عام طور پر توجہ نہيں دی جاتی
نماز نہ پڑھنا يا کچھ نمازيں چھوڑ دينا
جھوٹ بولنا
کم تولنا ۔ ناقص مال بیچنا
غیبت کرنا ۔ چغلی کھانا
کسی لڑکی یا عورت کی طرف بُری نيت سے دیکھنا
لڑنا ۔ جھگڑنا ۔ کسی کے ساتھ بدتميزی يا زيادتی کرنا

سورت ۔ 23 ۔ المؤمنون ۔ آيات 1 تا 11
بے شک ایمان والے رستگار ہوگئے ‏
جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ‏
اور جو بےہودہ باتوں سے منہ موڑتے رہتے ہیں ‏
اور زکوۃ ادا کرتے ہیں ‏
اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ‏
مگر اپنی بیویوں یا (کنیزوں سے) جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں ‏
اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے) نکل جانے والے ہیں ‏
اور جو امانتوں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں ‏
اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ‏
یہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں ‏
جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے

اللہ ہميں روزے کی اہميت کو سمجھنے اور اسے صرف اللہ کی خوشنودی کيلئے رکھنے کی توفيق عطا فرمائے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ کل ۔ آج اور کل

اگر آدمی ماضی پر روتا رہے
اور
مستقبل کيلئے پريشان رہے
تو
اُس کا آج بھی غارت چلا جائے گا

ماضی کو کوئی بھی تبديل نہيں کر سکتا
مستقبل کيلئے پريشان رہنے سے حال بھی برباد ہو جائے گا

درست سوچ يہ ہے کہ جو انتخاب آج کيا جائے گا
عمومی طور پر اُس کا اثر آنے والے کل پر ہو گا
چنانچہ مستقبل اچھا بنانے کيلئے آج ہی کچھ کرنا ہو گا

سچی محبت ۔ نہ جسمانی نہ رُومانی

سچی محبت نہ جسمانی ہوتی ہے نہ رومانی
سچی محبت جو تھا جو ہے جو ہو گا اور جو نہيں ہو گا سب کی قبوليت ہے
ضروری نہيں کہ خوشيوں سے سرشار لوگوں کو ہر اچھی چيز ملے بلکہ وہ جو اُنہيں مل جائے وہ اسی ميں اچھائی تلاش کر ليتے ہيں

ايک بڑے ہسپتال کی ايمرجنسی استقباليہ ميں کام کرنے والا ڈاکٹر لکھتا ہے

وہ بہت مصروف صبح تھی کہ ساڑھے آٹھ بجے کے قريب ايک بوڑھا شخص جو 80 سال کا ہو گا اپنے انگوٹھے کے ٹانکے نکلوانے کيلئے آيا ۔ اُسے 9 بجے کا وقت ديا گيا تھا مگر وہ جلدی ميں تھا کہ اُسے 9 بجے کسی اور جگہ پہنچنا ہے ۔ ميں نے اہم معلومات لے ليں اور اُسے بيٹھنے کيلئے کہا کيونکہ اس کی باری آنے ميں ايک گھنٹہ سے زيادہ لگ جانے کا اندازہ تھا ۔ ميں نے ديکھا کہ وہ بار بار گھڑی پر نظر ڈال رہا ہے اور پريشان لگتا ہے ۔ اس بزرگ کی پريشانی کا خيال کرتے ہوئے ميں نے خود اس کے زخم کا معائنہ کيا تو زخم مندمل ہوا ديکھ کر ميں نے ايک ڈاکٹر سے مطلوبہ سامان لے کر خود اس کے ٹانکے نکال کر پٹی کر دی

ميں نے اسی اثناء ميں بزرگ سے پوچھا کہ “کيا اُسے کسی اور ڈاکٹر نے 9 بجے کا وقت ديا ہوا ہے کہ وہ اتنی جلدی ميں ہے ؟”
وہ بولا کہ اُس نے ايک نرسنگ ہوم جانا ہے جہاں اُس نے 9 بجے اپنی بيوی کے ساتھ ناشتہ کرنا ہے
اس پر ميں نے بزرگ کی بيوی کی صحت کے بارے ميں پوچھا تو بزرگ نے بتايا کہ اس کی بيوی الزائمر بيماری کا شکار ہونے کے بعد کچھ عرصہ سے نرسنگ ہوم ميں ہے
ميں نے پوچھا کہ “اگر وہ وقت پر نہ پہنچے تو اس کی بيوی ناراض ہو گی ؟”
اُس بزرگ نے جواب ديا کہ “وہ تو پچھلے 5 سال سے مجھے پہچانتی بھی نہيں ہے”

ميں نے حيران ہو کر پوچھا “اور آپ اس کے باوجود ہر صبح اپنی بيوی کے ساتھ ناشتہ کرتے ہيں ؟ حالانکہ وہ پہچانتی بھی نہيں کہ آپ کون ہيں”
بزرگ نے مسکرا کر کہا “درست کہ وہ مجھے نہيں جانتی مگر ميں تو اُسے جانتا ہوں کہ وہ کون ہے”

يہ سن کر ميں نے بڑی مشکل سے اپنے آنسو روکے گو ميرا کليجہ منہ کو آ رہا تھا ۔ ميں نے سوچا “يہ ہے محبت جو ہر انسان کو چاہيئے”