Category Archives: طور طريقہ

ذہنی غلامی


ميں محمد بلال صاحب کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے قارئين کی سہولت کيلئے مندرجہ بالا عکسی عبارت کو يونی کوڈ ميں لکھ ديا ہے

غلامی سے آزادی تک

وہ ایک آزاد باپ کی غلام بیٹی تھی، بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرنے والی فکر انگیز تحریر
ڈاکٹر طاہر مسعود

“پاپا“ آج مس نے مجھے ایک ”ایڈوائس“ کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ جب بھی تمہیں واش روم جانے کی ”پرمیشن“ لینی ہو تو انگلش میں کہنا ”Miss May I go to washroom?“
”مس کی ایڈوائس پہ تم نے ان سے کیا کہا۔“
“مس نے جیسا کہا میں نے Same کیا”
”گڑیا۔۔۔۔ تمہاری اردو تو گلابی اردو ہے“
”یہ گلابی اردو کیا ہوتی ہے؟“
”جس میں دوسری زبانون کے الفاظ شامل ہوں ۔ تم اردو کے ساتھ انگریزی ملا کر بولتی ہو ۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔“
”کیوں اس سے کیا ہو جائے گا؟“
“اس سے زبان خراب ہوتی ہے۔ کیا تم نے کسی انگریز یا امریکی کو دیکھا ہے کہ وہ انگریزی بولتے ہوئے اردو یا پھر کسی دوسری زبان کے الفاظ ملاتا ہو؟”
”انہیں اردو نہیں آتی ہو گی“
“ہمارے پاس جو لوگ اردو میں انگریزی کے الفاظ ملاتے ہیں کیا انہیں انگریزی آتی ہے۔ بس انگریزی کے چند الفاظ انہوں نے سیکھ لیے ہیں جنہیں اپنی گفتگو میں دہراتے رہتے ہیں”
”مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟“
“گڑیا فرق یہ پڑتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اردو میں انگریزی الفاظ ملانے سے ہماری قومی زبان بگڑ رہی ہے ۔ دیکھو! ملاوٹ بری چیز ہے۔ جیسے دودھ، مسالے اور دوسری چیزوں میں ہم ملاوٹ پسند نہیں کرتے بالکل اسی طرح زبان بھی خالص ہونی چاہیئے”
”لیکن ہماری مس تو کہتی ہیں کہ اردو کے بہت سے ورڈز انگریزی سے آئے ہیں“
“ہاں یہ صحیح ہے، اردو بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے، لیکن جب یہ ایک زبان بن گئی تو اب اس کی اپنی ایک گرامر ہے اور اپنے اصول و قواعد ہیں۔ اب مثلاً دیکھو ٹیلی وژن، ریڈیو اسٹیشن، کالج وغیرہ انگریزی کے الفاظ ہیں، جب یہ اردو میں آگئے تو اب یہ اردو ہی کے الفاظ بن گئے۔ اب ان الفاظ کو واحد سے جمع بنائیں گے تو اردو طریقے سے بنائیں گے۔ مثلاً کالج سے کالجز، اسٹیشن سے اسٹیشنز نہیں بنے گا بلکہ کالجوں اور اسٹیشنوں استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جو لفظ بحالتِ مجبوری انگریزی سے اردو میں آگیا وہ انگریزی کا نہیں رہا اردو کا ہو گیا”
“پاپا! آپ بہت Difficult باتیں کررہے ہیں
“اب دیکھو تم نے Difficult کا لفظ استعمال کیا ۔ اس کی جگہ تم مشکل کا لفظ بھی بول سکتی تھیں۔ جب کسی لفظ کو تم اردو میں ادا کر سکتی ہو تو اس کی جگہ انگریزی لفظ استعمال کرنا اچھی بات ہے”
“مجھے اردو لفظ معلوم ہوں گے تبھی تو Use کروں گی”
یہ لفظ Use بھی انگریزی ہے۔ اردو ميں اس کے لیے استعمال کا لفظ ہے۔ تمہیں چاہیے کہ اردو کتابیں اور رسالے پڑھا کرو
””پاپا! میں تو ٹی وی دیکھتی ہوں اور ٹی وی میں ساری ڈسکشن اسی طرح ہوتی ہے
”ڈسکشن نہیں گفتگو یا پھر تبادلہ خیال کہو۔ میرے خدا! تمہیں اردو کب آئے گی“
”میری اردو بہت ویک ہے پاپا “
“بہت سے لوگ فخر سے یہ بات کہتے ہیں ۔ انہیں انگریزی نہ جاننے پر شرمندگی ہوتی ہے لیکن اردو نہ آنے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ غلامی کی نشانی ہے”
”تو کیا ہم لوگ غلام ہیں۔ انگریزی بولنے سے آدمی غلام ہو جاتا ہے؟“
”انگریزی بولنے سے نہیں، انگریزی بول کر فخر کرنا اور اردو نہ جاننے پر شرمندگی محسوس نہ کرنا ذہنی غلامی کی نشانی ہے“
”کیا انگلش ڈریس پہننے سے بھی آدمی غلام ہو جاتا ہے؟“
”کیوں نہیں، جب ہمارا اپنا لباس موجود ہے تو ہم انگریزوں کا لباس کیوں پہنیں۔ کیا انگریز ہمارا لباس پہنتے ہیں؟“
”پاپا ۔ آپ تو بہت کنزرویٹیو ہیں “
”نہیں بیٹا ۔ میں وہ آزاد ہوں جو غلاموں میں پیدا ہو گیا ہے“
”غلاموں کو آزاد کرنے کا کیا طریقہ ہے پاپا“
”اپنی زبان، اپنا لباس اور اپنی ثقافت اختیار کرنے سے آدمی آزاد ہو جاتا ہے“
”پھر تو ہم کبھی آزاد نہیں ہوں گے“
”نہیں وہ دن ضرور آئے گا۔ آج نہیں تو کل“
”ہماری آپ کی زندگی میں تو ایسا نہیں ہو سکے گا“
”نہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خدا مایوسی کو پسند نہیں کرتا“
تو پھر خدا ہماری Help کیوں نہیں کرتا؟”“
”جو اپنی مدد آپ نہیں کرتے خدا بھی ان کی مدد نہیں کرتا“
ہمیں اپنی Help خود کیسے کرنی چاہیے؟”“
”جو بات صحیح ہے، ہم اسے اختیار کرلیں، اس پر ڈٹ جائیں۔“
” It means آپ آزاد ہیں اور میں غلام ہوں۔ آزاد باپ کی غلام بیٹی”
”جس دن تم نے میری باتوں پر عمل کیا، تم بھی آزاد ہو جاؤ گی“
پاپا ۔ مجھے اسی سوسائیٹی میں Survive کرنا ہے”“
”تم عقل مند ہو، اپنی عمر سے بڑی باتیں کر لیتی ہو۔ تم چاہو تو تمہیں آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ معاشرہ بھی نہیں“
”چلیے آج سے میں انگریزی میں باتیں نہیں کروں گی“
انگریزی بولنے اور پڑھنے سے میں تمہیں منع نہیں کر رہا۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اس میں سارے علوم کا خزانہ موجود ہے۔ اسے سیکھنا ضروری ہے، لیکن انگریزی کو برتر اور اردو کو کم تر سمجھنا بری بات ہے
”ابو ۔ آپ نے آج مجھے بہت اچھی باتیں بتائیں۔ میں ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔“
“ہاں پھر تو تم بھی آزاد ہو جاؤ گی۔ آزاد باپ کی آزاد بیٹی”

” ہونا ” اور ” سمجھنا ” ۔ بہتر کيا ؟

ميں آنکھ کی جراحی کے بعد 3 دن کمرہ بند [Room arrest] اور 4 دن گھر بند [House arrest] رہا ۔ نہ پڑھنے کی اجازت اور لکھنے کی تھی تو کيا کرتا ؟ ميں جسے بچپن سے پڑھنے اور لکھنے کی عادت ہے لمحہ بھر کيلئے سوچيئے کہ کيا حال ہوا ہو گا ميرا ؟ شکر ہے کہ دماغ پر پابندی نہ تھی ۔ چنانچہ کئی واقعات و مشاہدات پر غور جاری رہا ۔ آج ان ميں سے ايک مسئلہ جو ہر گھر [يا گھرانے] کا مسئلہ ہو سکتا ہے سپُردِ قلم کر رہا ہوں

اپنے ہموطنوں کی اکثريت کو ماہرِ نفسيات کے پاس جانے کی ضرورت ہے مگر ہمارے ہاں صرف پاگل کو يا اُسے جسے کسی مقدمہ ميں سزا ہونے سے بچانا ہو يا اُس سے جان چھڑانا ہو تو ماہرِ نفسيات کے پاس لے جاتے ہيں

صبح ناشتے کی ميز پر بيوی نے خاوند سے کہا “آج ذرا وقت پر آ جايئے گا ۔ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے”
خاوند بيوی کی بات ياد رکھتے ہوئے چھٹی ہوتے ہی گھر کی راہ ليتا ہے ۔ گھر ميں داخل ہوتا ہے تو بيوی گويا ہوتی ہے “ہاتھ منہ دھو کر آ جايئے ۔ چائے تيار ہے”
خاوند ہاتھ منہ دھو کر کھانے کی ميز پر پہنچتا ہے تو بيوی کھانے کی چيزوں والی طشتری آگے بڑھاتی ہے ۔ خاوند کچھ اپنی تھالی ميں رکھ ليتا ہے تو بيوی سُرعت سے پيالی ميں چائے اُنڈيل کر چينی ہلانے لگتی ہے
خاوند مُسکرا کر کہتا ہے ” کوئی وقت کا پابند ڈاکٹر لگتا ہے”
ڈاکٹر کے مطب پہنچنے پر خاوند تختی پر نظر ڈالتا جس پر تحرير ہے ماہر دماغی امراض ۔ وہ دل ہی دل ميں پريشان ہوتا ہے کہ ميری بيوی کو ايسی ضرورت کيوں پيش آئی ؟
ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر جب خاوند اور بيوی بيٹھ جاتے ہيں تو بيوی ڈاکٹر سے مخاطب ہوتی ہے “يہ ميرے خاوند ہيں ۔ ہماری شادی کو 10 سال گذر چکے ہيں ۔ چند دنوں سے يہ عجيب سی بات کرنے لگے ہيں ۔ مجھے کہتے ہيں کہ ميں تمہيں اپنی بيوی سمجھتا ہوں”
ڈاکٹر ” آپ ان کی بيوی ہيں نا ۔ تو اس ميں کيا بُرائی ہے ؟”
بيوی “ڈاکٹر صاحب ۔ آپ ميری بات نہيں سمجھ پائے ۔ ديکھيں نا ۔ يہ مجھے کہتے ہيں کہ يہ مجھے بيوی سمجھتے ہيں ۔ ميں تو ان کی بيوی ہوں پھر وہ ايسا کيوں کہتے ہيں ؟”
اسی دوران ڈاکٹر صاحب کسی کو ٹيليفون پر کہتے ہيں “آپ زيادہ مصروف تو نہيں ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذرا مطب ميں آ جايئے آپ کے مہمان آئے ہيں”
چند منٹ بعد مطب کے پچھلے دروازے سے ايک خاتون داخل ہوتی ہيں ۔ ڈاکٹر صاحب اُنہيں کرسی پر بيٹھنے کا اشارہ کر کے سامنے بيٹھے جوڑے ميں بيوی کو مخاطب کرتے ہيں ” يہ ميری بيوی ماہرِ نفسيات ہيں ۔ آپ ان سے اپنے لئے وقت لے ليجئے ”
پھر خاوند سے مخاطب ہو کر کہتے ہيں ” آپ کی بيگم صاحبہ کو نفسياتی مشورے کی ضرورت ہے”

کوئی اچھا موقع پا کر خاوند اپنی بيوی سے کہے ” ميں آپ کو اپنی بيوی سمجھتا ہوں”
اسی طرح ہر بيوی اچھا موقع پا کر اپنے خاوند سے کہے ” ميں آپ کو اپنا خاوند سمجھتی ہوں”

پھر جو جواب ملے اس سے ميرے علم ميں اضافہ فرمانا نہ بھولئے گا

اصل بات يہ ہے کہ بيوی يا خاوند ہونے کے بعد بيوی يا خاوند سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ بصورتِ ديگر مياں بيوی کے تعلقات مياں بيوی کے تمام عملی تقاضے پورے نہيں کريں گے

اقبال مندی اور محنت پسندی

اقبال مندی

الپ ارسلاں سے یہ طغرل نے پوچھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ قومیں ہیں دنیا میں جو جلوہ فرما
نشاں ان کی اقبال مندی کے ہیں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کب اقبال مندان کو کہنا ہے زیبا
کہا ملک و دولت ہو ہاتھ انکے جب تک ۔ جہان ہو کمر بستہ ساتھ انکے جب تک

جہاں جائیں وہ سر خرو ہو کے آئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظفر ہم عناں ہو جدھر باگ اٹھائیں
نہ بگڑیں کبھی کام جو وہ بنائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ اکھڑیں قدم جس جگہ وہ جمائیں
کریں مس کو گر مس تو وہ کیمیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر خاک میں ہاتھ ڈالیں طلا ہو

محنت پسندی

مگر بیٹھ رہنے سے چلنا ہے بہتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہے اہلِ ہمت کا اللہ یارو
جو ٹھنڈک میں چلنا نہ آیا میسر ۔ ۔ تو پہنچیں گے ہم دھوپ کھا کھاکے سر پر
یہ تکلیف و راحت ہے سب اتفاقی ۔ ۔ ۔ ۔ چلو اب بھی ہے وقت چلنے کا باقی

ہوا کچھ وہی جس نے یاں کچھ کیا ہے ۔ ۔ ۔ لیا جس نے پھل بیج بو کر لیا ہے
کرو کچھ کہ کرنا ہی کچھ کیمیا ہے ۔ ۔ ۔ مثل ہے کہ کرتے کی سب بدیا ہے
یونہی وقت سو سو کے ہیں گنواتے ۔ ۔ ۔ ہو خرگوش کچھوؤں سے ہیں زک اٹھاتے

یہ برکت ہے دنیا میں محنت کی ساری ۔ جہاں دیکھئے فیض اسی کا ہے جاری
یہی ہے کلیدِ درِ فضلِ باری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی پر ہے موقوف عزت تمہاری

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

لڑکپن ۔ بھَولپن يا ظالم دور

ايک پرانا مقولہ ہے ” جس نے جوانی ۔ دولت اور طاقت کی گرمی سہہ لی وہ کامياب ہو گيا”

ميرا مشاہدہ اور مطالعہ بتاتا ہے کہ اس “جوانی” کے پيچھے کارساز دور دراصل “لڑکپن” کا ہوتا ہے اور کسی بھی مرد يا عورت کيلئے يہ بہت اہم دور ہے ۔ عام طور پر لڑکا يا لڑکی اسی دور کے حالات و اثرات سے بنتے يا بگڑتے ہيں ۔ لڑکا لڑکی اسی دور ميں اچھی يا بُری عادات اپناتے ہيں جو بعد ميں اُن کی خصلت بن جاتی ہيں ۔ سگريٹ پينا ۔ چوری کرنا ۔ جھوٹ بولنا اسی دور کی عِلتيں ہيں ۔ اسی دور ميں عصمت لُٹنے کا زيادہ خدشہ ہوتا ہے ۔ اگر اس دور ميں درست رہنمائی مل جائے تو آدمی انسان بن جاتا ہے ۔ بصورتِ ديگر بھٹکنے کا ہر دم احتمال رہتا ہے اور جو بھٹکتے ہيں وہ اس دور کا پھل عام طور پر عمر بھر کاٹ رہے ہوتے ہيں ۔ اللہ جب چاہے کسی کو ھدائت دے دے وہ الگ بات ہے

بيٹی 10 سال کی ہو جائے تو سمجھدار مائيں اُسے اپنے بھائی کے کمرے ميں بھی نہيں سونے ديتيں اور دن کے وقت بھی اگر بہن بھائی کسی کمرے ميں الگ بيٹھے ہوں تو کسی نہ کسی بہانے جھانکتی رہتی ہيں ۔ دو بھائی اس عمر کے اس دور ميں عليحدہ کمرے ميں ہوں تو سمجھدار مائيں اُن پر بھی نظر رکھتی ہيں

استثنٰی تو ہر جگہ اور ہر صورت ميں ہوتا ہے ليکن بات عام طور سے 66 فيصد کے متعلق کی جاتی ہے ۔ مختلف ممالک ميں اور مختلف ادوار ميں جنسی اور نفسياتی لحاظ سے لڑکپن کے دورانيے ميں تھوڑا بہت فرق ہے ۔ ميرے مشاہدہ اور مطالعہ کے مطابق وطنِ عزيز ميں لڑکے کيلئے يہ دور 12 سال کی عمر 18 سال کی عمر تک ہوتا ہے اور لڑکی کيلئے 10 سال سے 19 سال کی عمر تک

اس دورانيے ميں لڑکا سمجھتا ہے کہ سب اُس کی طرف ديکھ رہے ہيں اور اُس کی خواہش بھی يہی ہوتی ہے ۔ لڑکی کا بھی يہی حال ہوتا ہے ايک اضافے کے ساتھ کہ کوئی اُسے محبت کی نظر سے ديکھے ۔ يہ خواہش تو کسی حد تک ہر انسان کے دل ميں ہوتی ہے ليکن لڑکپن ميں يہ خواہش لڑکی کے ذہن پر سوار ہو کر اچھے بُرے يا سچے جھوٹے کی تميز سے اُسے بے نياز کر ديتی ہے ۔ نتيجہ لڑکی کيلئے اچھا نہيں ہوتا

لڑکی کی ايک اور فطری کمزوری يہ ہے کہ ہر 4 ہفتوں ميں چند دن ايسے ہوتے ہيں کہ لڑکی جذبات سے مغلوب ہوتی ہے ۔ اگر اس دوران اُسے کسی لڑکے کا قُرب حاصل ہو جائے تو جلد زِير ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ لڑکيوں کو لڑکوں کی نسبت زيادہ متانت ۔ بُردباری اور احتياط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عمر کے اسی دور کی لغزش لڑکی کو خود کُشی کی طرف ليجاتی ہے

لڑکے اسی عمر ميں اپنی طرف توجہ مبزول کرانے کيلئے سگريٹ نوشی يا دوسری عِلت شروع کرتے ہيں اور پھر اس عِلت ميں پھنس کر رہ جاتے ہيں

يہ خيال رہنا چاہيئے کہ دودھ زمين پر گر جائے تو اُٹھايا نہيں جا سکتا اسلئے کوشش ہونا چاہيئے کہ دودھ گرنے نہ پائے

لڑکی خواہ کس عمر کی بھی ہو [بلکہ عورت کو بھی] چاہيئے کہ کسی بھی جگہ نامحرم لڑکے يا مرد کے ساتھ اکيلی نہ ہونے پائے ۔ نامحرم لڑکے يا مرد سے کسی دفتری يا اخلاقی مجبوری کے تحت تعلقات بڑھائے تو ايک ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر يعنی مناسب جسمانی اور سماجی فاصلہ قائم رکھے

لڑکا بھی اگر احتياط نہ کرے تو بعض اوقات لڑکی کے ہاتھوں خواہشات کا شکار ہو جاتا ہے ۔ گو اُسے نقصان لڑکی کی مانند نہيں ہوتا ليکن اُس کے غلط راہ پر چل نکلنے کا دروازہ کھُل جانے کا انديشہ ہوتا ہے يا بعض اوقات وہ نفسياتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ 8 سے 16 سال کے لڑکے کے لئے بھی ضروری ہے کہ کسی بھی جگہ نوجوان لڑکی کے ساتھ اکيلا نہ ہونے پائے

دينی اور سماجی حدود کو غير مسلموں نے ترقی اور آزادی کے نام پر توڑا اور عورت کو چکمہ دے کر مردوں کی جنسی تسکين کا کھلولنا بنا ديا ۔ دُور کے ڈھول سُہانے کے مصداق ہمارے ہاں بھی عورت کی اِس نام نہاد آزادی کا نعرہ کبھی کبھی سننے ميں آتا ہے ۔ حال يہ ہے کہ جنہيں ديکھ کر نقل کی کوشش کی جاتی ہے وہاں آج کے دور ميں سمجھدار عورتيں پرانے ادوار کو حسرت سے ياد کرتی ہيں اور چاہتی ہيں کہ عورت کا اصلی رُوپ واپس آ جائے ليکن عمارت کو گرانا تو آسان ہے مگر اُنہی بنيادوں پر دوبارہ بنانا بہت مُشکل ہوتا ہے

دماغ کيلئے نقصان دہ عادات

1 ۔ ناشتہ نہ کرنے يا بہت دير سے کرنے سے خون ميں شکر کی سطح [blood sugar level] معمول سے کم ہو جاتی ہے جس کے نتيجہ ميں دماغ کو افزائشی مواد [nutrients] ميں کمی ہو جاتی اور دماغ ميں بگاڑ [brain degeneration] پيدا ہوتا ہے

2 ۔ زيادہ کھانے [overeating] سے دماغ کی شريانيں [brain arteries] سخت ہو جاتی ہيں جس کے نتيجہ ميں دماغی صلاحيت کو بيماری لاحق ہو جاتی ہے

3 ۔ تمباکو نوشی [Smoking] متعدد دماغی سُکڑاؤ [multiple brain shrinkage] پيدا کرتی ہے جس کے نتيجہ ميں الزائمر کی بيماری [Alzheimer disease] ہو سکتی ہے

4 ۔ زيادہ شکر والی خوراک کے استعمال کی زيادتی سے خون ميں شکر کی سطح مطلوب مقدار سے بڑھ جاتی ہے جو لحميات اور افزائشی مواد [proteins and nutrients] کے انجذاب [absorption] کو روکتی ہے جس سے اصل غذائيت ميں کمی [malnutrition] ہوتی ہے اور اس کا دماغ کی نشو و نما پر بُرا اثر پڑتا ہے

5 ۔ انسان کے بدن ميں دماغ باقی عضاء کی نسبت زيادہ آکسيجن ليتا ہے ۔ آلودہ ہوا ميں سانس لينے سے دماغ آکسيجن کی مطلوبہ مقدار سے محروم رہتا ہے جس کے نتيجہ ميں دماغ کی صلاحيت يا کارکردگی ميں کمی آتی ہے

6 ۔ مناسب نيند کرنے سے دماغ کو آرام ملتا ہے اور اس کی افزائش مناسب ہوتی ہے ۔ نہ سونا يا بہت کم سونا دماغ کے خُليئوں کے فنا ہونے ميں سُرعت پيدا کرتا ہے

7 ۔ 6 سے 8 گھنٹے رات ميں اور ايک گھنٹہ دن ميں سونا بہت ہوتا ہے ۔ زيادہ سونے سے جسم اور پھر دماغ پر چربی چڑھ جاتی ہے جو دماغ کو کمزور کرتی ہے

8 ۔ بيماری کے دوران دماغ کا زيادہ استعمال يعنی زيادہ باتيں کرنے يا کتاب پڑھتے رہنے سے دماغ کی تاثير [effectiveness] کم ہوتی ہے اور دماغ پر مزيد بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہيں

9 ۔ نشاط انگيز [stimulation] غور و فکر دماغ کی غذا ہے ۔ اس سے احتراز دماغ کو سُکيڑ ديتا ہے

آدمی کی پہچان

جو نہ جانے اور نہ جانے کہ وہ نہ جانے
وہ بيوقوف ہے ۔ اس سے دُور رہيئے

جو جانے مگر نہ جانے کہ جانے ہے
وہ سويا ہے ۔ اسے جگا ديجئے

جو نہ جانے اور جانے ہے کہ وہ نہ جانے
سادہ طبيعت ہے ۔ اسے تعليم ديجئے

جو جانے ہے اور جانے ہے کہ جانے ہے
وہ عقلمند ہے ۔ اس کی تقليد کيجئے

واويلا اور حقيقت

دورِ جديد واويلے کا دور ہے ۔ جتنا زيادہ اور جتنا بلند آواز واويلا کيا جائے اتنا ہی کامياب رہتا ہے ۔ عصرِ حاضر کا تعليم يافتہ آدمی جو کمپيوٹر کے ذريعہ دنيا بھر کی تمام معلومات رکھنے کا اپنے تئيں بھرم رکھتا ہے وہ بھی اس واويلے کے سامنے ڈھير ہو جاتا ہے اور وہی آوازيں لگانا شروع کر ديتا ہے ۔ سياسيات تو ايک طرف اس واويلے سے ادارے اور عدالتيں بھی محفوظ نہيں

اگست 2010ء ميں صوبہ پنجاب کے شہر سيالکوٹ ميں دو بھائيوں مغيث اور منيب کو بر سرِ عام زد و کوب کيا گيا تھا جس کے نتيجہ ميں دونوں ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس پر صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے واويلا شروع ہوا جو سارے سندھ ميں پھيلنے کے بعد اسلام آباد ميں بھڑک اُٹھا تھا ۔ اسلام آباد کے ہلکارے اسے لے کر پنجاب کے شہر شہر ميں بھی تقسيم کرتے رہے تھے ۔ “اپنی مثال آپ” قائد نے تو فوجی کاروائی کا سنديسہ بھی دے ديا تھا

سيالکوٹ ميں مغيث اور منيب کی ہلاکت کے مقدمہ ميں انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج نے فیصلہ سنایا جس کے مطابق 7 ملزموں کو چار چار بار سزائے موت سنائی گئی ہے جبکہ 6 ملزموں کو چار چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ سابق ڈی پی او وقار چوہان ۔ سابق ایس ایچ او رانا الیاس اور دیگر 7 اہلکاروں کو تین تین سال قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے ۔ کُل 28 ملزموں میں سے 22 کوسزا سنائی گئی ہے، 5 ملزم بری کئے گئے ہیں جبکہ ایک ملزم کی چند دن قبل دوران حراست طبعی موت واقع ہو گئی تھی

دوسری طرف صوبہ سندھ کے شہر کراچی ميں امن و امان کی حالت دِگرگُوں تھی اور سال بھر اُس وقت تک دِگرگُوں رہی جب تک عدالتِ عظمٰی کراچی ہی ميں نہ بيٹھ گئی مگر مُجرموں کے خلاف آج تک کوئی کاروائی عمل ميں نہيں لائی گئی اور عدالتِ عظمٰی کے سامنے ٹسوے بہانے کئے جا رہے ہيں

سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی ٹارگیٹ کلنگ ازخود نوٹس کیس میں کہا ہے کہ بھتہ مافیا اب بھی سرگرم ہے ۔ عدالت میں ایس ایچ او کی روز مرہ کی تیار کردہ رپورٹ پیش کی جا رہی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ہمیں نتیجہ خیز رپورٹ چاہيئے ۔ عدالت کو وہ رپورٹس نہیں چاہئیں جو آرمی میں سِک رپورٹس [Sick Reports] کہلاتی ہیں ۔ عدالت یہ جاننا چاہتی ہے کہ کتنے ملزمان پولیس کی تحویل میں ہیں ؟ اور کتنوں کو جیل بھیجا گیا ؟ اور کتنے مقدمات میں پیشرفت ہوئی ہے ؟ پولیس تمام سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہوکر ملزمان کے خلاف کارروائی کرے ۔ ہمیں اس طرح کی تفتیش چاہيئے جیسے سانحہ سیالکوٹ میں کی گئی ۔ 85 فیصد مقدمات میں درست خطوط پر تفتیش نہ ہونے کے باعث ملزمان بچ جاتے ہیں پولیس میں بھرتیوں کے عمل کو شفاف بنایا جائے