اگر انڈہ بيرونی طاقت سے ٹوٹے تو اس ميں زندگی کی اُميد نہيں رہتی
اگر انڈہ اندرونی طاقت سے ٹوٹے تو زندگی شروع ہوتی ہے
معاملہ ايک فرد کا ہو يا پوری قوم کا
ہميشہ اندر سے شروع ہونے والی تبديلی فعال ۔ مفيد اور پائيدار ہوتی ہے
اگر انڈہ بيرونی طاقت سے ٹوٹے تو اس ميں زندگی کی اُميد نہيں رہتی
اگر انڈہ اندرونی طاقت سے ٹوٹے تو زندگی شروع ہوتی ہے
معاملہ ايک فرد کا ہو يا پوری قوم کا
ہميشہ اندر سے شروع ہونے والی تبديلی فعال ۔ مفيد اور پائيدار ہوتی ہے
افتخار اجمل بھوپال کی نہائت انکساری اور خلوص سے
عرض
يہ مختصر زندگی اک نعمتِ ربّانی ہے
آيئے اس کی کچھ مناسب تعظيم کريں
اسے تھوڑا تھوڑا دوسروں ميں تقسيم کريں
دعا
اے خدا ۔ جذبہءِ اِيثار عطا کر ہم کو
جو گفتار ہے وہ کردار عطا کر ہم کو
ايہہ پُتر ہٹاں تے نئيں وِکدے ۔ تُوں لَبھدی پھِريں بزار کُڑے
ايہہ سَودا نقد وی نئيں مِلدا ۔ تُوں لَبھدی پھِريں اُدھار کُڑے
سچ ہے کہ بيٹے نہ تو بِکتے ہيں اور نہ کہيں سے مُستعار ملتے ہيں
بيٹے گھر کے اندر ہی پيدا ہوں تو بات بنتی ہے ۔ عزت بنتی ہے ۔ عِفت قائم رہتی ہے اور دُشمن ڈرتا ہے
بيٹا کيا ہوتا ہے ؟
بيٹا وہ نہيں جو
غير لڑکی کو ديکھ کر لٹُو ہو جائے
پستول دکھا کر راہگير کو لُوٹ لے
دولت کی خاطر نشانہ لے کر بے قصور آدمی کو ہلاک کر دے
مسندِ حکومت پر بيٹھ کر قوم کے مال سے گلچھڑے اُڑائے
قوم کے نام پر اپنی تجورياں بھرے
بيٹا ہوتا ہے
ماں کی عظمت کا نشان
بہن کے فخر کا سامان
باپ کے حوصلے کا مقام
قومی غيرت کا پيغام
نظرياتی سرحدوں کا پاسبان
رات کی تاريکی کی بجائے دن کی روشنی ميں بر سرِ پيکار
اپنے لئے سہارا ڈھونڈنے کی بجائے خود دوسروں کا سہارا
کسی کی کوشش کا متمنی نہيں ۔ اپنی محنت پر بھروسہ کرنے والا
دھواں دار نعرے لگانے والا نہيں ۔ عمل اور کردار سے پہچانا جانے والا
اپنوں پر مہربان اور دُشمن کيلئے قہر
اگر کوئی ہے عزت کا خواہشمند ؟ اور عافيت کا طلباگار ؟
تو بن جائے
بيٹا قوم کی ہر ماں کا
بھائی قوم کی ہر بہن کا
مددگار قوم کے ہر باپ کا
محافظ قومی نظريہ کا
جانثار قوم کے وقار کا
زبانی نہيں عملی طور پر کہ زندگی کوئی تمثيل [drama] نہيں ہے بلکہ ايک اٹل حقيقت ہے جو تلخ ہے اور شيريں بھی
ايک بيٹا ميں نے بچپن ميں ديکھا تھا
سال 1947ء پنجاب اور قربِ جوار ميں جو علاقہ بھارت کا حصہ قرار ديا گيا ہے وہاں جہاں جہاں مسلمان اقليت ميں ہيں راشٹريہ سيوک سنگ ۔ مہا سبھا اور اکالی دَل کے مسلحہ جتھے اُن پر حملے کر رہے ہيں ۔ ايک ايسے ہی شہر ميں ايک محلہ ميں چند مسلمان گھرانے تھے ۔ اکالی دَل کے مسلحہ افراد ايک مکان کا دروازہ پِيٹتے ہيں ۔ يہ مسلمان خاندان مياں بيوی اور جوان بيٹے پر مشتمل ہے ۔ سربراہِ خانہ دروازہ کھولتا ہے تو
ايک گرجدار آواز آتی ہے “کڑے پہن لو ۔ ورنہ مرنے کيلئے تيار ہو جاؤ”۔
جوان بيٹا يکدم باپ کو پيچھے کر کے دروازے سے باہر نکل کر دروازہ بند کر ديتا ہے پھر
بازو ہوا ميں لہرا کر دہاڑتا ہے ” لاؤ اپنی بہن کی ڈولی اور پہناؤ مجھ کو کڑا”۔
ايک سکھ غصہ کھا کر نيزے کا وار کرنے آگے بڑھتا ہے
جوان عقاب کی طرح جھپٹ کر اُس سے نيزا چھين کر اُسے ڈھير کر ديتا ہے پھر دوسروں کی طرف بڑھتا ہے ۔ اکيلا مسلمان جوان پانچوں کے وار سہتا جاتا ہے اور جوابی وار کرتا جاتا ہے حتٰی کہ پانچوں ڈھير ہو جاتے ہيں اور ساتھ ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جوان خود بھی شہيد ہو جاتا ہے
قومی اسمبلی کے اکتوبر 2011ء کے آخری اجلاس میں پیش کی گئی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2010ء-2011ء کی رپورٹ کے مطابق
نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ شروع ہوتے ہی 29 کروڑ روپے کی لگژری گاڑیاں خرید لی گئیں
ملک میں بجلی کی مانگ پوری کرنے کیلئے کرایہ کے بجلی گھروں کے 15 منصوبوں کی منظوری دی گئی جن سے 2700 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں آنا تھی لیکن سسٹم میں صرف 60 میگاواٹ بجلی آئی ۔ کیس سپریم کورٹ میں ہے۔ حکومت نے اس سودے میں 16 ارب 62 کروڑ روپے پیشگی ادا کئے تھے
مُلک ميں بالخصوص کراچی میں کُنڈا سسٹم اور دوسرے ذریعے بجلی چوری ہو 32 فيصد ہے
فاٹا اور بلوچستان میں بجلی بلوں کی عدم ادائیگی ايک عام بات ہے
واپڈا میں 90 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں موجود ہیں
گزشتہ سال واپڈا کی مختلف بجلی کمپنیوں میں 5 کروڑ 10 لاکھ روپے کی چوریاں ہوئیں
گزشتہ سال کے دوران ملک گیر مہم میں 20 ہزار بجلی چوروں کے خلاف مقدمے درج کر لئے گئے مگر ؟
سال 2009ء-2010ء میں وزارت خارجہ میں 70 کروڑ روپے کی بدعنوانیوں کی نشاندہی کی گئی
دفاعی بجٹ میں 5 ارب 10 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیاں ۔ بُلٹ پروف جیکٹس خریدنے کا کام ایف ڈبلیو او [Frontier Works Organization] کو دیا گیا اس میں 42 کروڑ روپے سے زیادہ کا گھپلا ہوا
2007ء میں فوج کیلئے 27 ہزار میٹرک ٹن دال چنا کی خریداری کا ٹھیکہ ایسی جعلی فرم کو دیدیا گیا جس کا مالک جعل سازی کی وجہ سے
اُس وقت جیل میں بند تھا
1987ء میں پی اے ایف کی 2 خصوصی پروازیں فرانس اور امریکا سے بحریہ کا سامان لانے کی غرض سے بھیجی گئیں اس سودے میں پی اے ایف کو 25 لاکھ روپے کمیشن ادا کئے گئے تھے۔ 20 لاکھ روپے فلائٹ لیفٹیننٹ غلام عباس نے خورد برد کر لئے اور وہ مفرور ہیں
پی آئی اے کو مجموعی طور پر 28 ارب روپے خسارے کا سامنا ہے۔ وزارت دفاع میں 18 سال سے ایک انکوائری چل رہی ہے اور فیصلہ
نہیں ہو رہا ۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کے صرف سعودی عرب کے دفتر ميں پچھلے سال 15 کروڑ روپے کا غبن ہوا جس ميں ملوّث افسران کے خلاف انضباتی کاروائی کرنے کی بجائے اُنہيں ترقياں دے کر زيادہ اہم عہدوں پر فائز کر ديا گيا
سوئی ناردرن گیس کمپنی میں 20 ارب روپے کی لاگت سے 14 ہزار کلومیٹر گیس پائپ لائنز مقررہ حد تک نہیں بچھائی گئیں اور اس رقم سے حاصل 56 کروڑ 10 لاکھ روپے کا منافع اوگرا کو دیدیا گیا
سیندک میٹلز کو 7 کروڑ 30 لاکھ روپے کی رقم ایڈوانس دی گئی مگر کام نہیں ہوا
ایک کیس میں 1994ء [بينظير بھٹو کے دوسرا دور] میں آسٹریلوی کمپنی کو او جی ڈی سی نے 17 ملین ڈالر ایڈوانس دے کر ٹھیکہ دیدیا بعد میں او جی ڈی سی نے معاہدہ منسوخ کر دیا۔ صرف 6 ملین ڈالر کی رقم واپس آئی۔ 11 ملین ڈالر ڈوب گئے۔ اس کرپشن کا ریکارڈ نیب سے غائب کر دیا گیا
1995ء [بينظير بھٹو کے دوسرا دور] میں امریکی کمپنی پرائنڈ لے برانٹ کو تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کیلئے کسی بولی کے بغیر کام دے دیا گیا۔ 22 لاکھ 36 ہزار ڈالر خرچ ہوئے حاصل وصول کچھ نہ ہوا ۔ کیس نیب کے پاس گیا جو اب ریکارڈ ہی ميں موجود نہیں ہے
بدعنوانیوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر پٹرولیم سے منسلک کمپنیوں کا گردشی قرضہ 344 ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں پی ایس او کے 160 ارب روپے شامل ہیں
پاکستان میں کام کرنے والی موبائل فون کمپنیوں سے 40 ارب روپے کی ریکوری گزشتہ 15 سال سے زیرالتوا پڑی ہوئی ہے
صرف 8 برسوں میں سوئی ناردرن گیس کمپنی کا خسارہ ساڑھے 3 ارب روپے سے بڑھ کر 15 ارب روپے تک جا پہنچا جبکہ اس عرصے میں 62 ارب روپے کی گیس چوری کر لی گئی
نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے طورخم، جلال آباد شاہراہ کی تعمیر کیلئے حکومت سے ایک ارب روپے حاصل کئے تاہم اس روڈ کی تعمیر پر کوئی اخراجات نہیں کئے گئے
مشرف دور میں کراچی میں 22 کروڑ روپے کی لاگت سے سمندر میں فوارہ لگایا گیا جس کی لاگت 15 کروڑ روپے سے زائد نہ تھی بعد میں یہ فوارہ بھی چوری ہو گیا
پشاور اسلام آباد موٹروے کے دونوں جانب 40 کروڑ روپے کی خاردار تار چوری کر لی گئی جبکہ خار دار تار کا ایک ٹرک بھی چوری ہو گیا
صحت کے شعبے میں کروڑوں روپے کے بدعنوانیوں کی تحقیقات سرد خانے میں پڑی ہوئی ہیں ۔ آئين ميں اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ شعبہ صوبوں کو منتقل ہو گیا ہے اس لئے صحت کے شعبے میں کرپشن کی تحقیقات روک دی گئی ہے
پولی کلینک اسلام آباد میں 3 کروڑ 41 لاکھ روپے کی ادویات کی خریداری میں کرپشن کی گئی۔ نیب کے پاس کیس موجود ہے
مشرف دور کے صحت کے وزیر مملکت حامد یار ہراج نے پبلک اکاؤنٹس کميٹی میں انکشاف کیا تھا کہ 2002ء میں ناقص پولیو ویکسین بچوں کوفراہم کی گئی جس سے پولیو کی بیماری بڑھ گئی اور پولیو خاتمے کی مہم کامیاب نہ ہوسکی
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی 7 رپورٹس میں کرپشن کے 5499 کیسز کی تفصیلات موجود ہیں
اسلام آباد کی 100 ارب روپے مالیت کی 20 ہزار ایکڑ زمین قبضہ مافیا ميں چلی گئی
ریلوے کی 4231 ایکڑ اراضی قبضہ مافیا سے واگزار کرانے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں
حال میں ریلوے کے 3 پل چوری کر لئے گئے
واپڈا، ریلوے میں ملازمین کی ملی بھگت سے چوریاں ہو رہی ہیں
وزیراعظم گیلانی کے آبائی شہر میں سياسی ملتان پیکیج کیلئے ریلوے کی ایک ارب روپے مالیت کی 13.70 ایکڑ اراضی پر قبضہ کرلیا گیا
پارلیمانی احتساب میں 4 ارب روپے کے اين ايل سی [National Logistic Cell] سکینڈل میں ملوث 3 ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی ہوئی اور اب معاملہ جی ایچ کیو کے پاس ہے
ٹرانسپرنسی کی مداخلت پر کراچی، حیدرآباد موٹروے کی تعمیر سے متعلق کارکنوں کے بڑھاپے کی سکیم ای او بی آئی [Employees Old-age Benefit Institution] اور این ایچ اے کے درمیان 100 ارب روپے کی ڈیل روک دی گئی
2008ء-2009ء میں محکمہ ڈاک میں 85 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیاں
یہ سکینڈل بھی ریکارڈ پر ہے کہ ملازمین کی پنشن سے 10 کروڑ روپے ایک سال میں خورد برد کئے گئے تھے
1990ء میں پاسکو نے گندم ذخیرہ گودام کی رقوم لاہور کے پرتعیش ڈیفنس اور کنٹونمنٹ کے علاقوں میں رہائشی پلاٹ خریدنے پر خرچ کر ڈالی اور 6 رہائشی پلاٹ 42 کروڑ میں خریدے گئے
شعبہ ہاؤسنگ میں صرف اسلام آباد میں 703 سرکاری گھروں پرغیرقانونی قبضہ ہے
قومی اسمبلی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ذریعے غریب ملازمین کی جمع شدہ پونجی کے 2 ارب 78 کروڑ 69 لاکھ روپے کا خورد برد کیا گیا اور ملوث افراد کارروائی سے بچ گئے
ارکان پارلیمنٹ کے ترقیاتی منصوبوں پر ایک کروڑ روپے کے منصوبے پر 30 سے 40 لاکھ روپے رشوت لی جاتی ہے
اس سال پاکستان سٹیل کا خسارہ بھی 104 ارب روپے تک ہے
کرپشن روکنے کیلئے نیب کا ادارہ بنایا گیا تھا۔ نيب نے بینظیر بھٹو کے خلاف بیرون ملک ذاتی مقدمات پر عوام پر ٹيکس سے حاصل کئے گئے 29 کروڑ روپے خرچ کئے اور نتیجہ صفر رہا۔ بیرونی ممالک میں قانونی فرموں کو لاکھوں ڈالر اور پاؤنڈ سٹرلنگ ادا کئے گئے مگر ریکارڈ دستیاب نہیں جن غیرملکیوں کو رقوم ادا کی گئیں ان کا بھی کوئی اتہ پتہ نہیں ہے
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد نومبر 2009ء میں اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کی سربراہی میں کرپشن کے خاتمے کیلئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جسے 4 ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کیلئے کہا گیا تھا ۔ رپورٹ وزیراعظم کے احکامات کی منتظر ان کے دفتر میں 2 سال سے پڑی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کرپشن میں کچھ مگرمچھ ملوث ہیں جو کرپشن کر کے ملک کا پیسہ باہر بھیج رہے ہیں ان بڑے مگر مچھوں کو قابو کرنا ضروری ہے ۔ انتظامیہ اور بیورو کریسی کی وجہ سے کرپشن ختم نہیں کی جا سکتی ۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے آڈیٹر جنرل کو مکمل بااختیار بنانا ہوگا
پاکستان میں بدعنوانیوں اور کرپشن کے خاتمے کیلئے وفاقی سطح پر 7 ادارے کام کر رہے ہیں ان میں پارلیمانی احتساب کا سب سے بڑا ادارہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان، وفاقی محتسب اور وفاقی ٹیکس محتسب آئینی ادارے ہیں ۔ ان کے علاوہ پرائم منسٹر انسپکشن کمیشن اور ایف آئی اے جبکہ صوبوں میں انسداد بدعنوانی کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود کرپشن کا عفریت قابو نہیں آ رہا
سپریم کورٹ اور حکومت کے پاس یہ اطلاعات موجود ہیں کہ ملک کے 300 اہم سیاستدانوں اور بیورو کریٹس نے این آر او کے تحت 165 ارب
روپے کی بدعنوانیوں ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور غبن کے کیسز معاف کروا کر خود کو ”پاک“ کروایا۔ یہ سیاستدان اور بیورو کریٹس 5700 سے زائد افراد کی اس فہرست کا حصہ ہیں جو وزارت قانون نے چاروں صوبوں سے موصول ہونے کے بعد وزیراعظم گیلانی کو بھجوائی تھی
پرویز مشرف کی جانب سے اکتوبر 2007 میں این آر او جاری ہونے سے قبل 2121 کرپشن کیسز عدالتوں میں زیرسماعت تھے جبکہ نیب نے 368 افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے تھے ۔ یہ وارنٹ واپس لینے کے ساتھ 394 سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے خلاف تحقیقات ختم کر دی گئی اور اس کے بعد نیب کو بھی بے اختیار بنا دیا گیا
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات کہی گئی کہ اگر ہمیں يہ پیسے مل جائیں تو معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے اور
ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں
اس موضوع پر ياسر صاحب نے ايک تحرير لکھی تھی جس پر کچھ تبصرے بھی شرع اسلام کے حوالے سے ہوئے ۔ ميں نے اس حوالے سے لکھنے کا قصد کيا تھا اور لکھ بھی ليا تھا مگر کچھ وجوہات کے باعث شائع کرنے ميں تاخير ہوئی اور 2 ہفتے گذر گئے بمصداق پنجابی مقولہ “کڑيوں کھُنجيا کوہواں تے جا پَيندا اے”
ميں نے سُوّر کو دور سے ہی ديکھا ہے قريب سے نہيں مگر ديہات ميں زميندار لوگ جو اپنی فصل بچانے کيلئے سُوّر ہلاک کرتے رہتے ہيں اس کے متعلق کافی عِلم رکھتے ہيں اور اس کی نجس عادت کو اس کے حرام ہونے کی وجہ قرار ديتے ہيں يعنی اللہ تعالٰی نے انہی وجوہات کی بناء پر حرام کيا ہو گا
ہم اگر مسلمان ہيں يعنی يقين رکھتے ہيں کہ “اللہ کے سوا کوئی معبود نہيں” تو اللہ کا حُکم آ جانے کے بعد کسی سوال يا جواز کی تلاش کی گنجائش باقی نہيں رہتی ۔ ميں حلال و حرام کے بارے ميں قرآن شريف سے کچھ حوالے پيش کر رہا ہوں ۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ قرآن شريف کو سمجھ کر پڑھے اور اس ميں مرقوم اللہ سُبحانُہُ تعالی کے احکامات پر عمل کرے ۔ اللہ ميرے سميت سب مسلمانوں کو قرآن شريف سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 173 ۔ اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے، ہاں جو ناچار ہوئے (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے
[تفسير ابن کثير ۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہيئے اس لئے کہ وہ ایک تصویر کے لئے ذبح کیا گیا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہيئے یا نہیں؟ تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لئے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ۔ پھر اللہ تعالٰی نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بےبس ہو جائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں
درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا جو حاجت مند شخص ان سے میں کچھ کھا لے لیکر نہ جائے اس پر کچھ جرم نہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ اضطراب اور بےبسی کے وقت اتنا کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے بےبسی اور اضطرار ہٹ جائے، یہ بھی مروی ہے کہ تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے غرض ایسے وقت میں اللہ کی مہربانی اور نوازش ہے یہ حرام اس کے لئے حلال ہے]
سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آيت ۔ 3 و 4 ۔ تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے نااُمید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں۔ اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو۔ اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے۔ (اس طریق سے) تم نے انکو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو اور (شکاری جانوروں کے چھوڑنے وقت) خدا کا نام لیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے۔
سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آيت 121 ۔ اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جاؤ گے۔
سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آيت 145 ۔ آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔
سورت ۔ 16 ۔ الانحل ۔ آيت 115 ۔ تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے حرام ہیں پھر اگر کوئی بےبس کر دیا جائے نہ وہ خواہشمند ہو اور نہ حد سے گزر جانے والا ہو تو یقیناً اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 219 ۔ لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کونسا مال خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو
سورت ۔ 10 ۔ يونس ۔ آيت 59 ۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو خدا نے تمہارے لئے جو رزق نازل فرمایا۔ تو تم نے اس میں سے (بعض کو) حرام ٹھیرایا اور (بعض کو) حلال’ (ان سے) پوچھو کیا خدا نے تمہیں اس کام کا حکم دیا ہے یا تم خدا پر افترا کرتے ہو؟
وما علينا الابلاغ
ملک ميں بہتری اس وقت تک نہيں آ سکتی جب تک کل پاکستانی بالغوں ميں سے کم از کم 50 فيصد کا عمل شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے کلام کے مندرجہ ذيل تراشوں کی زد سے باہر نہ نکل جائے
تربيت عام تو ہے ، جوہر قابل ہی نہيں ۔ ۔ ۔ جس سے تعمير ہو آدم کی ، يہ وہ گِل ہی نہيں
ہاتھ بے زور ہيں ، الحاد سے دل خوگر ہيں ۔ ۔ ۔ اُمتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
منفعت ايک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ايک ۔ ۔ ۔ ايک ہی سب کا نبی ، دين بھی ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی’ اللہ بھی’ قرآن بھی ايک ۔ ۔ ۔ کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں ۔ ۔ ۔ کيا زمانے ميں پنپنے کی يہی باتيں ہيں ؟
کون ہے تارکِ آئين رسول مختار ؟ ۔ ۔۔ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار ؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار ؟ ۔ ۔ ۔ ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار ؟
قلب ميں سوز نہيں ، روح ميں احساس نہيں ۔ ۔ ۔ کچھ بھی پيغام محمد کا تمہيں پاس نہيں
واعظِ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی ۔ ۔ ۔ برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں ، روح بلالی نہ رہی ۔ ۔ ۔ فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالی نہ رہی
وضع ميں تم ہو نصارٰی تو تمدن ميں ہنُود ۔ ۔ ۔ يہ مسلماں ہيں جنہيں ديکھ کے شرمائيں يہُود
يوں تو سيّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو ۔ ۔ ۔ تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟
ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے ۔ ۔ ۔ تم مسلماں ہو ، يہ انداز مسلمانی ہے ؟
حيدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے ۔ ۔ ۔ تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر ۔ ۔ ۔ اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم ۔ ۔ ۔ تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم
تين صوبوں ۔ سندھ [بشمول کراچی] ۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اليکٹرک ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نقصانات 30 سے 40 فیصد ہيں جس کی بڑی وجہ بجلی کی چوری ہے
صرف اسلام آباد ۔ لاہور ۔ فیصل آباد اور گوجرانوالا الیکٹرک سپلائی کمپنیاں منافع میں جا رہی ہیں
اس طرح ملک میں بجلی سے متعلقہ مجموعی نقصان 20 سے 25 فیصد ہے جو اسلام آباد ۔ لاہور ۔ فیصل آباد اور گوجرانوالا کی الیکٹرک سپلائی کمپنیوں سے بجلی حاصل کرنے والوں کو بلا قصور برداشت کرنا پڑ رہا ہے
گیس پر چلنے والے بجلی گھر [Power Plants] جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت 1000 میگا واٹ سے زائد ہے وہ کام نہیں کر رہے ۔ فیصل آباد میں 210 میگا واٹ کا ایک پلانٹ گیس کی عدم دستیابی کے باعث 2009ء سے بند پڑا ہے ۔ مظفرگڑھ ۔ گدو اور کوٹ ادُو میں واقع گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس گیس کی عدم دستیابی اور فاضل پُرزے [Spare Parts] نہ ملنے کی وجہ سے پوری صلاحیت کے مطابق نہیں چل رہے
رقم [cick-backs] کے ملوث ہونے کی وجہ سے رقوم [Funds] اور گیس، رینٹل پاور پلانٹس [Rental Power Plants] اور آئی پی پیز [Independent Power Producing Companies (IPPs)] کو فراہم کی جا رہی ہے
تیل پر چلنے والے دیگر پاور پلانٹس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے
حکمران سرکاری بڑے بجلی گھروں کو غيرمعياری [Sub-standard] ایندھن کی فراہمی میں ملوث ہیں اور معیاری ایندھن فراہم نہ کرنے سے مافیا بڑی رقم بنا رہا ہے
متحدہ عرب امارات کی طرف سے تحفے میں ملنے والا 200 میگا واٹ صلاحیت کا پلانٹ حکومت کی عدم دلچسپی اور رشوت [Kick-backs] کے مسائل کے باعث 2009ء سے اب تک فیصل آباد میں نصب نہیں ہو سکا
975 میگا واٹ بجلی کی صلاحیت والے 2 پاور پلانٹ 2008ء میں پی سی ون [P C-1] کی منظوری اور چینی کمپنی کو پیشگی 6 ارب روپے کی ادائیگی کے باوجود چیچو کی ملیاں اور نندی پور میں نصب نہیں کئے جا سکے جس کی وجہ سرکاری بجلی گھروں [Power Plants] کو رقم [Funds] کی عدم فراہمی ہے ۔ نندی پور منصوبہ کی مشینری 18 ماہ سے بے مقصد پڑی ہے جس کی وجہ سے منصوبہ کی قيمت بڑھتی جا رہی ہے ۔ چیچو کی ملیاں منصوبے کی مشینری تاحال درآمد نہیں کی گئی ۔ اگر یہ منصوبے مکمل ہو جاتے تو ان سے پیداہونے والی بجلی آئی پیز پیز سے سستی ہوتی
حکومت گزشتہ ساڑھے 3 سالوں میں قومی گرِڈ میں صرف 122 میگا واٹ کرائے کی بجلی [Rental Power Plants] کا اضافہ کر سکی ہے
بہت سے قومی بجلی گھر [Public Sector Power Plants] جو گیس کی عدم دستیابی کے باعث 2009ء سے بند پڑے ہیں رقم [Funds] کی کمی کے باعث کسی دوسرے ایندھن [Feul] پر بھی منتقل نہیں ہو سکتے
وفاقی حکومت نے 56 کروڑ 40 لاکھ ڈالر يعنی تقريباً 48 ارب روپے زرِ مبادلہ کے سرمائے سے کرائے کے بجلی گھر لئے ۔ متعلقہ 8 کمپنیوں کو موبیلائزیشن ایڈوانس کی مد میں 25 ارب روپے ديئے گئے۔ 3 کمپنیوں سے عدالت نے 5 ارب روپے واپس دلوائے جبکہ 5 کمپنیوں سے ابھی بھی 20 ارب روپے واپس لینا باقی ہیں
کرائے کے بجلی گھروں کے سلسلے ميں عدالتِ عظمٰی ميں ہونے والی کاروائی يہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے
مزيد پھُرتياں
کے ای ایس سی نے 33 لاکھ روپے واجبات کی عدم ادائیگی پر قصر ناز اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کی بجلی منقطع کر دی
بعدازاں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے عملے نے غیر قانونی طور پر از خود بجلی بحال کرلی
ان دونوں مقامات سے کے ای ایس سی کو گزشتہ سال سے بل کی ادائیگی نہیں کی جارہی تھی
قصر ناز پر 22 لاکھ روپے اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس پر 11لاکھ روپے کے واجبات ہیں
وزيرِ خارجہ حنا ربانی کھر کے خاوند فيروز گلزار نے اپنے کارخانے گليکسی ٹيکسٹائل ملز واقع جھنگ مادھوکی روڈ کا بجلی کا بل مبلغ 7 کروڑ روپيہ جون 2011ء سے ادا نہيں کيا ہوا تھا تو واپڈا نے ستمبر 2011ء ميں بجلی کاٹ دی جو کہ شديد سياسی دباؤ کے تحت 12 گھنٹے کے اندر بحال کر دی گئی