Category Archives: روز و شب

یومِ آزادی اور ہمارا کردار

Flag-1 عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے
یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں

” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے “۔
”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے بھی ۔ حقیقت میں ایسے لوگ عقلمند نہیں بلکہ بیوقوف ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہیں

اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے
اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے
کہ
ہم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے اور کیا دینا ہے
ہم نے ہی اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقاء ہے

یہ وطن پاکستان اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا عطا کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
میرے وطن پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر بھی
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے
بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے
میرے وطن پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے
میرے وطن پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے پری سٹرَیسڈ پوسٹ ٹَینشنِنگ ری اِنفَورسڈ کنکرِیٹ بِیمز (Pre-stressed Post-tensioning Re-inforced Concrete Beams) کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں اس قسم کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے 54 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں بھی کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئی

آیئے آج یہ عہد کریں کہ
ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے
اللہ کا فرمان اٹل ہے ۔ سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی

(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)

سورت ۔ 13 ۔ الرعد ۔ آیت ۔ 11

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے

میری ڈائری ۔ تکمیل خواہشات

یکم جون 1962ء کو میری ڈائری میں مرقوم ہے

انسان کے دل میں بہت سی خواہشات اُبھرتی رہتی ہیں
اگر یہ تمام خواہشات ایک حقیقت بن سکتیں تو نظامِ عالم کا برقرار رہنا بہت مُشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا اور خود اِس انسان کیلئے نتیجہ مُضر ہو سکتا تھا
اسلئے ہر خواہش کی تکمیل کی اُمید رکھنا عقل سے بعید فعل ہو گا

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ لوگ

زندگی میں جس کسی سے بھی ملاقات ہوتی ہے اس کا کوئی مقصد ہوتا ہے
کوئی آپ کا امتحان لے گا ۔ کوئی آپ کو استعمال کرے گا اور کوئی آپ کو کچھ سکھا جائے گا’

سب سے اہم وہ ہیں جو آپ کو بہترین بنائیں ۔ آپ کی عزت کریں اور آپ کو جیسے بھی آپ ہیں قبول کریں
ایسے لوگوں کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑنا چاہیئے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Washington’s Nuclear Hypocrisy “

میں پاگل ؟ ؟ ؟

میں نے اُس منہ کو بھی کھانا دیا جس نے مجھ پر بہتان تراشی کی
میں نے اُس کے چہرے سے بھی آنسو پونچھے جس نے مجھے رُلایا
میں نے اُسے بھی سہارا دیا جس نے مجھے گرانے میں کسر نہ چھوڑی
میں نے اُن لوگوں کے ساتھ بھی بھلائی کی جو میرے لئے کچھ نہیں کر سکتے
میں نے اُن لوگوں کی بھی مدد کی جنہوں نے میری پیٹھ میں چھُرا گھونپا

یہی کہیں گے نا ۔ کہ میں پاگل ہوں ؟ ؟ ؟

لیکن میں اپنے آپ کو دوسروں کی نفرت میں ضائع نہیں کرنا چاہتا
میں ایسا ہی رہنا چاہتا ہوں
کیونکہ
میں جو کچھ بھی ہوں ۔ میں ہوں اور یہ میری فطرت ہے
زندگی آسان نہیں لیکن تمام تر مشکلات کے ساتھ میں اسے بطور خود گذارنا چاہتا ہوں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ بیج اور فصل

مستقل مزاجی بونے والا اطمینان کی فصل پائے گا
محنت بونے والا کامیابی کی فصل پائے گا
یقین بونے والا ایمان کی فصل پائے گا

محتاط رہیئے کہ جو آج بوئیں گے کل کو اُسی کے مطابق فصل پائیں گے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Guilty of Being Poor “

ملے جب اُن سے

شعر ہے
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

لیکن جناب ہوا یوں کہ دبئی سے ہماری روانگی سے ایک دِن قبل ہمیں جب وہ ملنے آئے تو
کبھی دل میں اُن کو آفریں کہتے
کبھی اپنے آپ پہ پشیماں ہوتے

اپنے شہر یا گاؤں سے کسی دوسری جگہ جائیں تو اُمید ہوتی ہے کہ وہاں کوئی جاننے والا رابطہ کرے گا ۔ کاشف علی صاحب سے ملاقات پچھلی دفعہ ہو گئی تھی ۔ اُن کا پیغام ملا کہ وہ عید سے پہلے پاکستان چلے جائیں گے اور ستمبر میں واپسی ہو گی ۔ کوشش کریں گے کہ جانے سے قبل ملاقات کریں ۔ کام مشکل تھا ۔ خیر جب عیدالفطر گذر گئی اور مزید کوئی پیغام نہ آیا تو عبدالرؤف صاحب کا ای میل کا پتہ تلاش کر کے رابطہ کیا ۔ جواب ملا کہ وہ وٹس ایپ پر مجھ سے رابطے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہے تھے ۔ ہم ٹھہرے پَینڈُو (دیہاتی) رَومِنگ نہیں لی تھی اور سِم بھی نکال کر نئے موبائل فون (وَن پلَس وَن) جو بیٹے زکریا نے بھیجا ہے میں لگا دی تھی ۔ پھر پیغام کیسے ملتا ۔ خیر اُنہوں نے اتوار کو دفتری اوقات کے بعد ملنے کا وعدہ کیا

ہم لوگ 11 جولائی کو الروضہ (دی گرینز) سے مثلث قریۃ الجمیرا (جمیرا وِلیج ٹرائی اینگل) منتقل ہو گئے تھے ۔ عبدالرؤف صاحب کیلئے بھی یہ علاقہ نیا تھا سو بہت گھوم گھما کر پہنچے ۔ مجھے ساتھ لیا اور کسی ریستوراں کی تلاش میں نکلے جہاں ٹی وِد سِمپَیتھی یعنی چائے مع کھانے کی چیز کے پیش کی

میں سجھتا تھا کہ بلوچ ہیں ڈیرہ بُگٹی یا چاغی کی پہاڑیوں کے باسی ہوں گے ۔ اُن کے جو تبصرے میرے بلاگ پر ہوتے تھے اُن سے سمجھا تھا کہ مضبوط جسم اور تنا ہوا چہرہ رکھتے ہوں گے ۔ صورتِ حال بالکل ہی اُلٹ نکلی ۔ وہ نکلے کراچی نارتھ ناظم آباد کے باشندے لیکن الطاف حسین کی خوشبو بھی اُن کے قریب سے نہ گذری تھی ۔ داڑھی جو کبھی نہ مُونڈھی تھی خوبصورت لگ رہی تھی ۔ بات بھی انکساری سے کرتے ۔ میں پشیماں نہ ہوتا تو کیا کرتا ؟

چائے وغیرہ کے بعد مجھے واپس چھوڑا ۔ دوبارہ دبئی آنے پر ملنے کا وعدہ لیا اور خود اسلام آباد آنے پر ملنے کا وعدہ کر کے چلے گئے

کہتے ہیں ہر لمحہ اور ہر ملاقات کچھ سکھانے کیلئے ہے بشرطیکہ کوئی سیکھنا چاہے ۔ عبدالرؤف صاحب بھی مجھے بہت کچھ سکھا گئے
ا ۔ پنجابی میں کہتے ہیں ۔ راہ پیئا جانے تے واہ پیئا جانے
2 ۔ ہیں کواکب کچھ ۔ نظر آتے ہیں کچھ اور
3 ۔ بھولپن میں ایک بات ایسی کہہ گئے کہ میرا مرید ہونے کو جی چاہا ۔ میں نے داڑھی کی بات کی تو لجاجت سے بولے ”والد صاحب نے مجبور کیا تھا کہ داڑھی رکھ لو سو شروع ہی سے رکھ لی ۔ خیر ۔ اللہ کی مہربانی سے اس نے میرے کردار پر عمل دِکھایا ہے“۔ اللہ تعالٰی نے مسلمان عورتوں کو پورا جسم چھُپانے والا لباس پہننے کا حُکم دیا ہے تاکہ وہ پہچانی جا سکیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کو بھی اپنے متعلق یہی سوچنا چاہیئے

ناگہانی ملاقات

کل یعنی بروز اتوار بتاریخ 19 جولائی 2015ء میں اپنی بیگم ۔ بیٹی ۔ بیٹے ۔ بہو بیٹی ۔ پوتا اور پوتی کے ساتھ دبئی فیسٹیول سٹی مول کے گھریلو سامان کے حصے میں پھر رہا تھا کہ میری بیگم نے میری توجہ پیچھے کی جانب مبزول کرائی ۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو ایک خوش پوش جوان ۔ درمیانہ قد سڈول جسم ساتھ برقعے میں ملبوس مہین سی بیگم اور ماشاء اللہ خوبصورت پھول ننھی سی بیٹی پُش چیئر یا سٹرولر میں ۔ موصوف بولے ” آپ اجمل ؟ اجمل بھوپال ہیں ؟“

میں نے جی کہا اور اپنی رَیم اور پھر ہارڈ ڈسک کو 15 گیگا ہَرٹس پر چلایا مگر کہیں یہ اِمَیج نہ پایا ۔ بندہ بشر ٹھہرا کم عقل ۔ کم عِلم ۔ ناتجربہ کار ۔ پر اِتنا بھی گیا گذرا نہیں ۔ قصور تھا اُس تصور کا جو قائم ہوا تھا موصوف کے بلاگ پر کسی زمانہ میں لگی تصویر کو دیکھ کر جسے ہم نے اُن کی شبیہ سمجھا تھا یا شاید وہ نو جوانی یعنی شادی سے پہلے کے زمانہ کی تھی جس میں موصوف کا اُونچا قد اور جسم پھریرا محسوس ہوا تھا ۔ خیر یہ سب کچھ ایک لمحے میں ہو گذرا

اگلے لمحے ۔ وہ خوبصورت جوان بولے ” میں عمران ہوں ۔ عمران اقبال“۔

میں جون تا اگست 2012ء میں دبئی میں تھا تو عمران اقبال صاحب نے مجھ سے ماہ رمضان کے دنوں میں رابطہ کیا تھا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن ملاقات کا بندوبست نہ ہو سکا تھا

میں جنوری تا اپریل 2014ء میں دبئی میں تھا تو کاشف علی صاحب کا پیغام ملا کہ اگر اُنہیں فلائیٹ کا پتہ چل جاتا تو مجھے ملنے ایئرپورٹ پہنچ جاتے ۔ بہر کیف چند دن بعد وہ میرے پاس پہنچ گئے اور مجھے ساتھ لے کر قریبی ریستوراں میں جا بیٹھے ۔ گپ شپ ہوئی اور آئیندہ ملنے کا وعدہ بھی ۔ مگر اللہ کو منظور نہ ہوا ایک طرف میں شدید بیمار پڑ گیا اور دوسری طرف کاشف علی صاحب آشوبِ چشم میں مبتلاء ہو گئے ۔ اب آنے سے قبل کاشف علی صاحب سے رابطہ ہوا تو بتایا کہ وہ عید سے ایک دو دن قبل پاکستان چلے جائیں گے اور ستمبر میں واپس آئیں گے ۔ میں اس دفعہ صرف ایک ماہ کیلئے آیا ہوں ۔ اگلے پیر اور منگل کی درمیانی رات اِن شآء اللہ ہماری واپسی ہو گی

عمران اقبال صاحب نے یہ بھی بتایا کہ آجکل عمران خان کے حمائتی ہیں اور نواز شریف کی ہِجو لکھتے ہیں ۔ کیوں نہ ہو ہم نام جو ہوئے ۔ میں نے اُن سے ایک ایسا سوال پوچھا جس کا جواب خود عمران خان بھی شاید نہ دے سکے ۔ سوال ہے ” 9 کروڑ روپیہ جو دھرنے میں موسیقی پر خرچ کیا گیا اسے شوکت خانم میموریل ہسپتال میں مُفلِس مریضوں کے علاج پر کیوں خرچ نہ کیا گیا ؟“ یہ سوال میں عمران خان کے کئی جان نثاروں سے پوچھ چکا ہوں ۔ پہلے تو کوئی مانتا نہ تھا کی موسیقی پر خرچ ہوا اور کہتے تھے کہ ڈی جے بٹ نے یہ کام اعزازی (بلامعاوضہ) کیا ۔ اب تحریک انصاف نے ادائیگی کا اقرار کر لیا ہے تو موضوع کو کسی اور طرف دھکا دے دیتے ہیں یا ہنس دیتے ہیں

میری طرف سے تمام بلاگران اور قارئین کی خدمت میں درخواست ہے کہ جب بھی اسلام آباد تشریف لائیں ۔ مجھے کم از کم ایک دن قبل اطلاع کر دیں تا کہ ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی کوشش کر سکوں ۔ بہنیں اور بیٹیاں بھی مدعو ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ میری بیگم سے مل کر خوش ہوں گی